HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : طالب محسن

ایمان سے محرومی کی نوعیت

  (مشکوٰۃ المصابیح، حدیث: ۵۴ - ۵۷) 

 

وفی روایة عباس رضی اﷲ عنه: و لا یقتل حین یقتل و ھو مؤمن. قال عکرمة رحمه اﷲ: قلت لإبن عباس: کیف ینزع الإیمان عنه؟ قال: ھکذا، و شبک بین أصابعه ثم أخرجھا. فإن تاب عاد إلیه ھکذا، و شبک بین أصابعه. و قال أبو عبد اﷲ: [1]لا یکون ھذا مؤمناً تاماً، ولا یکون له نور الإیمان.
’’حضر ت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت میں یہ جملہ بھی ہے کہ کوئی قتل نہیں کرتا اس طرح کہ جب وہ قتل کرتا ہے تو وہ مومن ہو۔عکرمہ رحمہ اللہ کہتے ہیں : (جب میں نے ابنِ عباس سے یہ روایت سنی تو )میں نے پوچھا : اس سے ایمان کیسے نکال لیا جاتا ہے۔ انھوں نے جواب میں کہا : اس طرح، اور اپنے ایک ہاتھ کی انگلیاں دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں ڈالیں اور انھیں نکال لیا۔پھر اگر وہ توبہ کر لیتا ہے تو اس طرح لوٹ آتا ہے، اور انگلیوں میں انگلیاں ڈال دیں۔امام بخاری نے (اس بات کی توضیح کرتے ہوئے ) کہا : یہ شخص پورا مومن نہیں ہوتا اور نہ اس کے لیے ایمان کی روشنی ہوگی۔‘‘

لغوی مباحث

ینزع : ’نزع ‘ کا مطلب کسی شے کو اس کی جگہ سے اکھیڑ دینا ہے۔

شبک بین أصابعه: یہ ترکیب اسی طرح بولی جاتی ہے اور اس کے معنی انگلیوں میں انگلیاں ڈالنے کے ہیں۔ ’شبک‘ کے معنی ایک شے کو دوسری شے میں ملانے کے ہیں۔ اسی سے لفظ ’شبکة‘ جال کے معنی میں آتا ہے۔

نور : لفظی معنی روشنی کے ہیں۔ موقعِ استعمال کے اعتبار سے نور عام طور پر اس روشنی کے لیے استعمال ہوتا ہے جس میں حدت نہ ہو۔ لیکن ہمارے ہاں اس کو ایک خاص مقدس روشنی کے معنی میں لیا جاتا ہے۔ درآنحالیکہ قرآنِ مجید میں اسے عام روشنی ہی کے معنی میں استعمال کیا گیا ہے۔ مثلاً دیکھیے، قرآنِ مجید میں ہے ’ھو الذی جعل الشمس ضیاء و القمر نورا‘ ( وہی ہے جس نے سورج کو تابانی اور چاند کو چمک بنا دیا )۔

متون

روایت کا اصل متن جس میں برائی کرتے ہوئے ایمان سے محرومی کا مضمون بیان ہوا ہے، حدیث: ۵۳ میں زیرِ بحث آ چکا ہے۔ وہ روایت حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔ یہ مضمون حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے۔ لیکن اس میں قتل کی مثال والا جملہ زیادہ ہے۔اگر چہ ابنِ  عباس سے مروی ایک متن میں بھی صرف چوری اور زنا کا ذکر ہے اور باقی مثالیں بیان نہیں ہوئیں۔ مزید یہ کہ ابنِ عباس سے مروی کسی بھی متن میں ’نھبۃ‘ والی مثال روایت نہیں ہوئی۔اس روایت کے تجزیے سے یہ بات مزید واضح ہو جاتی ہے کہ روایت : ۵۳ ہی اس مضمون کی جامع روایت ہے۔ اگر چہ اس میں قتل کی مثال والا جملہ نہیں ہے۔ لیکن اس سے روایت کے مضمون میں کوئی قابلِ لحاظ فرق نہیں آتا،البتہ اس روایت کے آخر میں حضرت ابن ِعباس رضی اللہ عنہ اور حضرت عکرمہ رحمہ اللہ کا مکالمہ بیان کیا  گیا ہے۔ یہ مکالمہ حضرت ابنِ عباس کے علم و فہم کا آئینہ دار ہے۔

معنی

روایت کے اصل متن کے مفاہیم حدیث: ۵۳ کے تحت زیرِ بحث آچکے ہیں۔ یہاں ہمارے پیشِ نظر حضرت ابن ِ عباس رضی اللہ عنہ کی توضیح کی تفصیل ہے۔ حضرت ابنِ عباس نے ہاتھ کی انگلیوں کے ایک دوسرے میں جانے اور نکلنے کی عملی مثال سے ایمان کے آنے اور جانے کی وضاحت کی ہے۔ ہم اوپر بیان کر چکے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی بات کو ایمان کے چھتری کی طرح اوپر معلق ہونے سے واضح کیا ہے۔ یہ دونوں باتیں اصل میں اس نکتے کو واضح کرتی ہیں کہ ایمان جب ہماری نفسیات میں ایک فعال عامل کی حیثیت سے کارفرما ہوتا ہے اس وقت ہم برائی کے ارتکاب سے بچے ہوئے ہوتے ہیں۔ لیکن جب اسے فراموش کر دیتے ہیں تو یہ اپنا یہ کردار بھی ادا نہیں کرتا۔ فراموشی کی یہی حالت ہے جسے حضرت ابنِ عباس نے انگلیوں کی طرح باہم پیوست ہونے اور پھر الگ ہونے سے تشبیہ دی ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس علیحدگی کی نوعیت کو بندۂ مومن کے اوپر ایمان کے سایہ فگن ہونے سے واضح کیا ہے۔ حضرت ابنِ عباس نے بیان کیا ہے کہ یہ ایمان توبہ کرنے سے پہلے والی حالت میں لوٹ آتا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے ساتھ ساتھ رہنے کے پہلو کو واضح کرکے یہ بات بیان کردی کہ اس  دوری سے ایمان بالکل الگ نہیں ہو جاتا بلکہ پھر یہ توبہ وانابت کے انتظار میں پاس ہی موجود ہوتا ہے۔ ان پہلوؤں کو سامنے رکھیں تو یہ واضح ہو جاتا ہے کہ حضرت ابنِ عباس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مدعا کو صحیح سمجھا اور اسے اپنے مخاطب کو سمجھانے کے لیے بڑی خوب صورت تشبیہ سے واضح کر دیا۔ یہ بات قرآنِ مجید میں براہِ راست تو بیان نہیں ہوئی، لیکن سورۂ نساء کی آیت ۱۳۶ میں ’یاایھاالذین آمنوا آمنوا‘ (اے ایمان والو، ایمان لاؤ۔ ) کہہ کر یہ بات واضح کردی ہے کہ بسا اوقات آدمی بظاہر اہلِ ایمان کی صف میں کھڑا ہوتا ہے لیکن وہ ایمان کی اصل سے محروم ہوتا ہے۔

کتابیات

ابنِ عباس سے مروی یہ روایت صرف بخاری اور نسائی نے لی ہے۔ بخاری، کتاب الحدود، باب ۶، باب ۲۰۔ نسائی،کتاب القسامہ، باب ۴۷۔

_______


علامات ِ نفاق

و عن أبی ھریرة قال: قال رسول اﷲ صلی اﷲ علیه وسلم: آیة المنافق ثلاث. زاد مسلم: إن صام و صلی و زعم أنه مسلم. ثم اتفقا: إذا حدث کذب و إذا وعد أخلف و إذا أوتمن خان.
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : منافق کی تین نشانیاں ہیں۔ مسلم نے یہ جملہ بھی روایت کیا ہے کہ اگرچہ وہ نماز پڑھتا اور روزہ رکھتا  ہو اور اس کا خیال ہو کہ وہ مسلمان ہے (اس کے باوجود اس میں نفاق کی یہ علامتیں ہو سکتی ہیں۔) پھر دونوں کی روایت کے الفاظ یکساں ہیں : جب بات کرتا ہے، جھوٹ بولتا ہے۔ جب وعدہ کرتا ہے، اسے پورا نہیں کرتا۔ اور جب اس کے پاس امانت رکھی جاتی ہے، اس میں خیانت کرتا ہے۔‘‘

لغوی مباحث

آیة: نشانی، وہ شے جو کسی حقیقت تک پہنچنے کا باعث ہو۔

المنافق: ’نفاق‘ کے معنی ہیں، اپنے لیے دونوں راستے کھلے رکھنا۔ اسی سے یہ اس شخص کے لیے بھی آتا ہے  جو دوگلے رویے کو اختیار کیے ہوئے ہو۔ اسلامی اصطلاح میں یہ وہ شخص ہے جو بظاہر کامل مؤمن بنا ہوا ہے لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔

زعم : مدعی ہونا، کسی بات کا حقیقت سے بڑھ کر اظہار کرنا۔

متون

اس طرح کی روایات جن میں ایک بات کی وضاحت میں مختلف نکات بیان کیے گئے ہوں،راوی روایت کرتے ہوئے ترتیب بدل دیتے ہیں۔ چنانچہ اس روایت کے ساتھ بھی یہ معاملہ ہوا ہے۔اسی طرح روایا ت کے مختلف متون میں ایک ہی بات کو بیان کرنے کے لیے ہم معنی الفاظ یا جملے آ جاتے ہیں۔ یہ روایت بھی اس کلیے سے مستثنی ٰنہیں ہے۔ ’آیة المنافق ثلاث‘کی جگہ ایک روایت میں ’من علامات المنافق ثلاثة‘ یا ’ثلاث من کن فیه‘ یا ’ثلاث فی المنافق‘ روایت ہوا ہے۔ مزیدبرآں جس طرح مسلم نے ’إن صام و صلی و زعم أنه مسلم‘ کا زائد جملہ روایت کیا ہے۔اسی طرح ایک روایت میں روایت کو ’فمن کانت فیه واحدة منھن لم تزل له خصلة من النفاق حتی یترکھا‘ (پھر جس میں ان میں سے کوئی (علامت ) ہوئی تو اس میں نفاق کی ایک خصلت رہے گی الا یہ کہ وہ توبہ کر لے )کے جملے پر مکمل کیا گیا ہے۔یہ اضافہ وہی ہے جو اس سے اگلی حدیث میں جس میں نفاق کی چار خصلتیں بیان ہوئی ہے روایت ہوا ہے۔کوئی ایک روایت ایسی نہیں ہے جس میں یہ تینوں اجزا یکجا ہو گئے ہوں۔ لہٰذا اس کے سوا کوئی راستہ نہیں کہ مختلف متون میں بکھرے ہوئے جملوں سے ایک مکمل روایت اخذ کی جائے۔

معنی

اس روایت کے معنی کی تعیین میں شارحین کو ایک مشکل درپیش ہے۔ منافق کا لفظ اس شخص کے لیے بولا جاتا  ہے جو دل سے کافر ہو لیکن ظاہر میں مسلمان بنا ہوا ہو۔ یہ تینوں خصلتیں اپنی اصل میں کبیرہ گناہ ہیں۔ اگر کوئی شخص ان کا مرتکب ہو تو اسے وہ منافق قرار دینا سمجھ میں نہیں آتا جو بظاہر مسلمان ہے لیکن دل میں کفر چھپائے ہوئے ہے۔چنانچہ وہ اس مشکل کو حل کرنے کے لیے نفاق کی دو قسمیں متعین کرتے ہیں۔ ایک نفاق کا تعلق عقیدے سے ہے اور دوسرے نفاق کا تعلق عمل سے۔ لہٰذا وہ ان روایات کو عملی نفاق سے متعلق قرار دیتے ہیں۔ اور اس طرح لفظ منافقت کے اطلاق کی ایک صورت نکال لیتے ہیں۔

بعض شارحین اس روایت کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کے منافقین کے متعلق مانتے ہیں۔ ہمار ی رائے میں یہی رائے درست ہے۔ در حقیقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے زمانے کے منافقین کو متنبہ کرنے کے لیے ایک واضح بات کہہ دی ہے۔ آپ نے انھیں بتا دیا ہے کہ ان کے نماز روزے کی کوئی حقیقت نہیں ہے جب تک وہ اپنی منافقت سے توبہ نہیں کر لیتے۔ اور اہلِ اسلام کے ساتھ ان کے نفاق کا اظہار ان امور میں ہوتا جہاں انھیں اپنے اوپر عائد ہونے والی کسی ذمہ داری یا تقاضے کو پورا  کرنا ہوتا ہے۔ گویا آپ نے یہ واضح کر دیا کہ جو شخص نفاق سے توبہ کرتا ہے،اسے اپنے کردار میں نفاق کے ان عناصر سے اپنے آپ کو پاک کرنا ہوگا۔

یہاں یہ بات بھی واضح رہے کہ قرآنِ مجید میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کے منافقین کا معاملہ بڑی تفصیل سے زیرِ بحث آیا ہے۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ منافقین میں ایسے لوگ بھی شامل تھے، جو اپنے نفاق پر پورے طور پر متنبہ نہیں تھے۔ یہ روایت انھی منافقین کو اپنی اصلاح کا طریقہ بتاتی ہے۔ یعنی انھیں یہ تعلیم دیتی ہے کہ نماز روزے کے اہتمام کے ساتھ اگر ان امراض کا علاج کر لیا جائے تو آدمی نفاق کے فتنے سے بچ جاتا ہے۔ یہ اندازہ کرنا کچھ مشکل نہیں کہ آپ کے مخاطبین کے لیے ایمان کے معاملے میں سچ بولنے، وعدے کی پاسداری اور امانت کی حفاظت کی کیا حیثیت تھی۔

 اب ہم مسلمانوں کے لیے بھی یہ روایت ایک واضح تعلیم رکھتی ہے۔ ہم میں سے جو شخص ان بری خصلتوں میں مبتلا ہے، شدید اندیشہ ہے کہ وہ دین کے معاملے میں بھی اسی رویے کا مرتکب ہو گا۔ دین اعلانِ حق ہے، دین ایک عہد ہے، دین ایک امانت ہے۔ جو شخص روز مرہ کی زندگی میں جھوٹ، بدعہدی اور خیانت کا مرتکب ہوتا ہے، وہ دین کے معاملے میں بھی انھی خصائل کا مظاہرے کرے گا۔ اور اگر ایسا ہوا اور قیامت کے دن وہ اسی حالت میں اللہ کے حضور میں پہنچا تو وہ منافق ہی قرار دیا جائے گا۔

اس روایت میں جن امور کا ذکر کیا گیا ہے،وہ دراصل ایک ہی حقیقت کے مختلف مظاہر ہیں۔ ہماری مراد مفاد پرستی کے بجائے سچائی اور عدل پر قائم ہونا ہے۔ یہ جرائم اسی وقت ہوتے ہیں جب آدمی کسی دنیوی مفاد کو آخرت پر ترجیح دیتا ہے۔ یہود اور اوس و خزرج کے منافقین دین کے معاملے میں اسی مفاد پرستی کا شکار ہو گئے تھے۔

کتابیات

بخاری، کتاب الایمان ، باب ۲۳۔ کتاب الشہادات، باب ۲۸۔ کتاب الوصایا، باب ۸ کتاب الادب، باب ۶۹۔ مسلم، کتاب الایمان، باب ۲۵۔ ترمذی، کتاب الایمان، باب ۱۳۔نسائی، کتاب الایمان، باب ۲۰۔ احمد، مسند ابی ہریرۃ۔

_______


منافقت کی نشانیاں

و عن عبداﷲ بن عمرو رضی اﷲ عنه قال: قال رسول اﷲ صلی اﷲ علیه وسلم: أربع من کن فیه کان منافقا خالصا، ومن کانت خصلة منھن کانت خصلة من النفاق حتی یدعھا: إذا اؤتمن خان، وإذا حدث کذب، و إذا عاھد غدر و إذا عاصم فجر.
’’حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : یہ چار (خصلتیں) جس میں ہوتی ہیں وہ پکا منافق ہوتا ہے۔ اور جس میں ان میں سے ایک خصلت ہوتی ہے اس میں ایک نفاق کی خصلت ہوتی ہے۔ یہاں تک کہ وہ اسے چھوڑ دے : جب اس کے پاس امانت ر کھی جاتی ہے، خیانت کرتا ہے۔ جب بات بیان کرتا ہے، جھوٹ کہتا ہے۔ جب عہد کرتا ہے اسے، وفا نہیں کرتا۔ جب کسی سے ان بن ہو جاتی ہے، حد سے باہر نکل جاتا ہے۔‘‘

لغوی مباحث

خصلة: عادت، انسانی کردار کے اچھے اور برے پہلوؤں کے لیے بولا جاتا ہے۔

غدر :  بے وفائی کرنا۔ طے شدہ امور سے منحرف ہو جانا۔

خاصم : جھگڑا کرنا۔

متون

اس روایت کے متون میں زیادہ فرق نہیں ہے۔ کچھ لفظی تفاوت ہیں۔ مثلاً ایک روایت میں ’منافقاً  خالصاً‘  کی جگہ صرف ’منافقاً‘ہے۔ اگلے جملے میں زیرِ بحث روایت میں ’منھن‘ہے۔ جبکہ ایک روایت میں اس کے بجائے ’من اربعة‘آیا ہے۔ اس روایت کے اکثر متون میں ’خصلة‘کا لفظ آیا ہے، لیکن بعض راوی اس کاہم معنی لفظ ’خلة‘ استعمال کرتے ہیں۔ایک فرق البتہ کافی اہم ہے۔ زیرِ بحث متن میں چار علامتوں میں سے ایک، امانت میں خیانت ہے۔ یہ روایت بخاری میں ہے اور بخاری نے بھی اسے ان چار علامتوں کے ساتھ ایک ہی جگہ درج کیا ہے۔ اس کے علاوہ بخاری اور دوسری کتابوں میں اس روایت کا جو متن روایت ہوا ہے اس میں ’إذا اؤتمن خان‘ کے بجائے ’إذا وعد أخلف‘کا جملہ ہے۔اس طرح ان متون میں ’إذا وعد أخلف‘اور’عاھد غدر‘جیسے ہم معنی دو جملے یکجا ہو گئے ہیں۔اگرچہ وعدے اور معاہدے میں ایک لطیف فرق ہے۔لیکن اس روایت کے سیاق و سباق میں اس کی کچھ اہمیت نہیں ہے۔  ہمارے نزدیک صاحب ِمشکوٰۃ کا منتخب متن ہی درست ہے۔

معنی

اس سے پہلی روایت اسی مضمون کی حامل ہے۔وہاں ہم اس کے مفہوم کو موقع ومحل کی روشنی میں  واضح کرچکے ہیں۔ اوپر والی روایت میں تین نشانیاں بتائی گئی ہیں اور اس روایت میں چار بیان ہوئی ہیں۔ یہ چوتھی نشانی جھگڑے میں حد سے تجاوز ہے۔بظاہریہ نشانی ان نشانیوں کی قبیل کی نہیں ہے جو اس کے ساتھ بیان ہوئی ہیں۔ وہ نشانیاں کردار میں استقلال و استقامت کی نفی پر دلالت کرتی ہیں۔ جبکہ یہ صرف اس کمزوری کو بیان کرتی ہے کہ آدمی اختلاف کے موقع پر اپنے اشتعال پر قابو نہیں رکھتا۔ لیکن اگر اسے حضور کے زمانے کے منافقین سے متعلق مانا جائے تو یہ ان کے کردار کے اور پہلو کو واضح کرتی ہے۔ جب کوئی آدمی اپنے اندر سے اور باہر سے اور ہو تو اسے اپنے آپ کو سچاد کھانے کے لیے عجیب و غریب طریقے اختیار کرنے پڑتے ہیں۔ ان میں سے ایک طریقہ یہ ہے کہ وہ اپنے نقطہء نظر کے ساتھ اپنے جذباتی لگاؤ کامظاہرہ کرے۔گویا وہ اپنے نقطہ ء نظر کے معاملے میں اتنا سچا ہے کہ اس کے خلاف کسی شے کو گوارا نہیں کر سکتا۔ وہ اس کی خاطر ہر ایک سے جھگڑا مول لیتا ہے اور اسے اس قدر ٹھیس پہنچی ہے کہ اس کے لیے آداب کا لحاظ ممکن نہیں۔

کتابیات

بخاری، کتاب الایمان، باب ۲۳۔ کتاب المظالم، باب ۱۷۔ کتاب الجزیہ، باب ۱۷۔ مسلم، کتاب الایمان، باب ۲۵۔ ترمذی، کتاب الایمان، باب ۱۳۔نسائی، کتاب الایمان، باب ۲۰۔ ابو داؤد، کتاب السنۃ، باب ۱۶۔ احمد،مسند عبداللہ بن عمرو۔

_______


منافق کی مثال

و عن ابن عمر رضی اﷲ عنه قال: قال رسول اﷲ صلی اﷲ علیه وسلم: مثل المنافق کالشاة العائرة بین الغنمین تعیر إلی ھذه مرة و إلی ھذہ مرة.
 ’’حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : منافق کی مثال دو گلوں کے درمیان سرگرداں بکری کی ہے۔ کبھی وہ ایک کی طرف آتی ہے اور کبھی دوسرے کی طرف۔‘‘

لغوی مباحث

العائرة: سر گرداں، یعنی جو اپنے راستے اور منزل کے بارے میں متعین نہ ہو۔

متون

اس روایت کو مسلم کے علاوہ نسائی،دارمی اور احمد نے روایت کیا ہے۔ان متون میں ایک فرق تو یہ ہے کہ ایک متن میں ’تعیر‘ کی جگہ ’تکر‘کا لفظ آیا ہے۔ غالباً یہ فرق مسودے کے پڑھنے میں واقع ہوگیا ہے۔ ورنہ روایت کے جملوں میں موزوں ترین لفظ ’تعیر‘ہی ہے۔اسی طرح بعض متون میں روایت اسی جملے پر ختم نہیں ہوتی بلکہ اس کے بعد یہ بات بھی بیان ہوئی ہے کہ ’لا تدری ایھما تتبع‘ یا  ’لاتدری أ ھذہ تتبع أھذہ‘( وہ نہیں جانتی اس کے پیچھے جائے یا اس کے پیچھے)۔ یہ اضافہ درست معلوم ہوتا ہے۔ اس سے منافق کی نفسیاتی کیفیت پر تبصرہ مکمل ہو جاتا ہے۔

معنی

یہ روایات انھی منافقین کے بارے میں ہیں جو محض ظاہری طور پر ایمان قبول کیے ہوئے ہیں۔ یہ رویہ وہ اپنے دنیوی مفادات کی حفاظت کے لیے اختیار کرتے ہیں۔ ان کے بعض مفادات کا تقاضا ہوتا ہے کہ وہ اہلِ کفر کے ساتھ وابستہ رہیں اور کچھ مفادات کا تقاضا ہوتا ہے کہ وہ اہلِ اسلام کو بھی اپنی حق پرستی کا یقین دلائیں۔ چنانچہ عملاً وہ کبھی ان کے ساتھ چلتے دکھائی دیتے ہیں اور کبھی ان کے ساتھ۔ ان کی اس حالت کو ’’شاۃِ عائرہ‘‘ سے تشبیہ دی گئی ہے۔

کسی چراہ گاہ میںجس میںدو ریوڑ چر رہے ہوں، یہ کیفیت اس بکری کی ہوتی ہے جو شہوت کے غلبے کے تحت کبھی ایک ریوڑ کے فحل کی طرف آتی اور کبھی دوسرے ریوڑ کے فحل کی جانب بڑھتی ہے۔ ظاہر ہے یہ بکریوں کی عام جبلت کے برعکس رویہ ہے۔ اسی طرح منافقت بھی اپنی اصل میں فطرت سے انحراف ہے۔ جس طرح بکری اپنے ریوڑ کے ساتھ اپنی نسبت سے محروم ہو جاتی ہے اسی طرح منافق بھی اپنی فطرت کی صالحیت سے محروم ہو جاتا ہے۔

ہمارے نزدیک اس روایت سے یہ بات مؤکد ہو جاتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیشِ نظر اپنے زمانے کے منافقین ہی ہیں۔

کتابیات

مسلم،کتاب صفات المنافقین و احکامہم، باب۱۔ نسائی، کتاب الایمان و شرائعہ، باب ۳۳۔ دارمی، مقدمہ، باب ۳۱۔ احمد، مسند عبداللہ بن عمر۔

___________

[1]۔ یہ امام بخاری رحمہ اللہ کی کنیت ہے۔

B