HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : جاوید احمد غامدی

البیان: البقرہ ۲: ۱۰۴- ۱۰۷ (۲۰)

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

(گذشتہ سے پیوستہ)

 

يٰ٘اَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا وَقُوْلُوا انْظُرْنَا وَاسْمَعُوْاﵧ وَلِلْكٰفِرِيْنَ عَذَابٌ اَلِيْمٌ ١٠٤ مَا يَوَدُّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ وَلَا الْمُشْرِكِيْنَ اَنْ يُّنَزَّلَ عَلَيْكُمْ مِّنْ خَيْرٍ مِّنْ رَّبِّكُمْﵧ وَاللّٰهُ يَخْتَصُّ بِرَحْمَتِهٖ مَنْ يَّشَآءُﵧ وَاللّٰهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيْمِ ١٠٥
(اِنا[254]کے فتنوں سے بچنے کے لیے)، اے ایمان والو،  (تم بارگاہِ رسالت میں بیٹھو تو) ’راعنا‘[255] نہ کہا کرو، ’انظرنا‘[256] کہا کرو اور (جو کچھ کہا جائے،  اُسے)  توجہ سے سنو[257]،  اور(اِس بات کو یاد ر   کھو کہ) اِن کافروں کے لیے درد ناک عذاب ہے[258]۔ اہلِ کتاب ہوں یا مشرکین،  اِن میں سے جن لوگوں نے کفر کیا ہے،  وہ نہیں چاہتے کہ تمھارے پروردگار کی طرف سے کوئی خیر تم پر نازل کیا جائے[259]۔ اور (یہ احمق نہیں جانتے کہ) اللہ جس کو چاہتا ہے،  اپنی رحمت کے لیے خاص کر لیتا ہے،  اور (نہیں جانتے کہ) اللہ بڑی عنایت فرمانے والا ہے۔  ۱۰۴ - ۱۰۵
مَا نَنْسَخْ مِنْ اٰيَةٍ اَوْ نُنْسِهَا نَاْتِ بِخَيْرٍ مِّنْهَا٘ اَوْ مِثْلِهَاﵧ اَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اللّٰهَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ ١٠٦ اَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اللّٰهَ لَهٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِﵧ وَمَا لَكُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ مِنْ وَّلِيٍّ وَّلَا نَصِيْرٍ ١٠٧
(اِنھیں اعتراض ہے کہ تورات کی شریعت میں ہم کوئی تبدیلی کیوں کرتے ہیں۔   اِنھیں بتادو)،ہم (اِس کتاب کی) جو آیت بھی منسوخ کرتے ہیں [260] یا اُسے بھلا دیتے ہیں[261]، (قرآن میں) اُس کی جگہ اُس سے بہتر یا اُس جیسی کوئی دوسری لے آتے ہیں[262]۔ کیا تم نہیں جانتے،  (اے لوگو) کہ اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے[263]۔کیا تمھیں نہیں معلوم کہ آسمانوں اور زمین کی پادشاہی اللہ ہی کے لیے ہے اور تمھارے لیے اللہ کے سوا کوئی دوست ہے اور نہ کوئی مدد کرنے والا[264]۔ ۱۰۶-۱۰۷

[254]۔  یہ اب مسلمانوں کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کے خلاف یہود کی اُن شرارتوں اور اعتراضات سے متنبہ کیا جا رہا ہے جو وہ قرآن کی طرف سے اُن پر اتمامِ حجت کے ردِّعمل میں اپنے دل کی بھڑاس نکالنے،  حضور کی توہین کرنے اور مسلمانوں کی نگاہوں میں اپنے آپ کو گرانے کے لیے کرتے تھے۔

[255]۔ ’راعنا‘ ’مراعاة‘ سے امر کا صیغہ ہے۔  اس کے لغوی معنی،  ذرا ہماری رعایت فرمائیے،  کے ہیں۔ بات اگر اچھی طرح سنی یا   سمجھی نہ گئی ہو تو متکلم کو پھر متوجہ کرنے کے لیے عربی زبان میں یہ لفظ بالکل اسی موقع پر بولا جاتا ہے،  جس موقع پر ہم اردو میں کہتے ہیں: ذرا پھر ارشاد فرمائیے۔  قرآن نے دوسری جگہ تصریح کی ہے کہ یہود اس لفظ کو زبان ذرا نیچے کی طرف دبا کر اس طرح ادا کرتے تھے کہ اس کے معنی بالکل تبدیل ہو جاتے اور اس سے اُن کا مقصود خدا کے دین اور اُس کے پیغمبر پر طنز کرنا اور پھبتی چست کرنا ہوتا۔قرآن نے یہاں اسی بنا پر اس لفظ کو مسلمانوں کے مجلسی آداب سے یک قلم خارج کر دیا اور اس کی جگہ ایک دوسرا لفظ ’انظرنا‘استعمال کرنے کی ہدایت فرمائی جو عربی زبان میں اس موقع و محل کے لیے معروف تھا اور جس میں اس طرح کی تحریف کا بھی کوئی امکان نہ تھا۔

[256]۔    اس کے لغوی معنی دیکھنے ، مہلت دینے اور انتظار کرنے کے ہیں۔

[257]۔ اصل میں لفظ ’اسمعوا‘ استعمال ہوا ہے ۔ یہ اس آیت میں اپنے حقیقی مفہوم میں ہے،  یعنی غور سے سنو اور   سمجھو تا کہ   تمھیں بار بار پیغمبر کو متوجہ کرنے کی ضرورت ہی پیش نہ آئے۔

[258]۔ یعنی جانتے بوجھتے پیغمبر کو جھٹلانے پر مصر ان یہودیوں کے لیے جومجلسِ نبوی میں نہ سننے کے لیے آتے ہیں اور نہ سمجھنے کے لیے،  بلکہ صرف اس لیے آتے ہیں کہ پیغمبر کی توہین کا کوئی موقع پیدا کر کے اپنے دل کی بھڑاس نکالیں۔

[259]۔ مطلب یہ ہے کہ مسئلہ صرف ایک لفظ کے استعمال کرنے اور نہ کرنے کا نہیں ہے،  بلکہ یہودی اور یہ مشرکین،  دونوں اس غصے اور حسد میں جل رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ  نے قرآنِ مجید اور پیغمبر کی صورت میں یہ خیرِ  عظیم تمھیں کیوں عطا فرمایا ہے۔

[260]۔ یعنی شریعت کے ایک ضابطے کو ہٹا کر کوئی دوسرا ضابطہ مقرر کرتے ہیں۔

[261]۔ اصل میں لفظ ’انساء‘ استعمال ہوا ہے ۔ یعنی فراموش کرا دینا۔  اس سے قرآن نے تورات کے اُن احکام کی طرف اشارہ کیا ہے جن سے یہود نے بے پروائی برتی اور اُن کے اس جرم کی پاداش میں وہ اُن کے ذہنوں سے محو کر دیے گئے۔

[262]۔ اصل الفاظ ہیں ’نات بخير منها او مثلها‘ ان میں ’او ‘تقسیم کے لیے ہے۔  یعنی تورات کے وہ ضابطے جو منسوخ کر دیے گئے،  تمدن کے ارتقا اور حالات کی تبدیلی کے پیشِ نظر اُن سے بہتر ضابطے دیتے ہیں اور جو بھلا دیے گئے ، اُن کی جگہ انھی جیسے بعض دوسرے ضوابط نازل کر دیتے ہیں۔  ان دونوں باتوں میں سے کوئی بات بھی ایسی نہیں ہے جو قابلِ اعتراض قرار دی جا سکے۔  پہلی چیز حالات کے تغیر کا لازمی تقاضا ہے اور دوسری دین کی دولت کے اس ضیاع کا لازمی نتیجہ جو تمھارے ہاتھوں سے ہوا اور جس کے باعث ضروری تھا کہ اب دین کے خزانے کو نئی دولت سے معمور کیا جائے۔

[263]۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ یہود کو شریعت دے کر اپنے اختیار اور اپنی قدرت سے دستبردار نہیں ہو بیٹھا۔  وہ جب چاہے گا اور جس ذریعے سے چاہے گا،  اپنی شریعت دنیا کو دے گا اور اُس میں جو ترمیم و تغیر بھی ضروری ہو گا،  اپنی حکمت کے مطابق کر دے گا۔

[264]۔ یعنی خدا نے اپنی شریعت کا حامل بنا کر  تمھیں جس منصب پر فائز کیا تھا،  تم اگر اُس کے اہل ثابت نہیں ہو سکے اور اب اُس نے فیصلہ کر لیا ہے کہ تمھاری جگہ وہ کسی دوسری قوم کو اس منصب پر سرفراز فرمائے گا تو تمھارے غم و غصہ کے باوجود یہ فیصلہ نافذ ہو کر رہے گا۔  تمھارا کوئی حامی و مددگار بھی خدا کے اس فیصلے سے   تمھیں نہیں بچا سکتا۔

[باقی]

ـــــــــــــــــــــــــ

B