HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : سید منظور الحسن

حادثے کا پیغام

گزشتہ ماہ  برطانیہ میں ڈوور کی بندرگاہ پر ایک ٹرک کے کنٹینر سے ۵۸ افرادکی نعشیں برآمد ہوئیں۔ تحقیقات سے یہ بات معلوم ہوئی  کہ ان  میں سے بیشتر کا تعلق ایشیائی ممالک سے ہے۔ان لوگوں نے برطانیہ میں غیرقانونی طور پر داخل ہونے کے لیے یہ طریقہ اختیارکیا۔ کنٹینر میں آکسیجن کی کمی اور ٹھنڈک کی زیادتی ان کی ہلاکت کا باعث بنی۔اس موقع پر مقامی ذمہ داران نے یہ بیان دیا کہ ہر سال مختلف پس ماندہ ممالک سے تعلق رکھنے والے سیکڑوں تارکینِ وطن اس بندرگاہ سے گرفتار ہوتے ہیں۔ یہ لوگ اپنے وطنوں اور گھروں کو چھوڑ کریورپ ، امریکہ  اور دوسرے ترقی یافتہ علاقوں میں تلاشِ روزگار کے لیے نکلتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے وہ اپنی جان، اپنی عزت ، اپنے  وقار، اپنی اخلاقی اقدار اور اپنے خاندان کے مستقبل کو  بھی داؤ پر لگا دیتے ہیں۔

 اس واقعے کو حادثہ کہا جائے ، خود کشی سے موسوم کیا جائے  یا قتل سے تعبیر کیا جائے، بہرحال یہ ایک ایسا سانحہ ہے جس پر اقوامِ عالم کے ہر طبقے کو اپنے اپنے دائرۂ فکر و عمل کے اعتبار سے متفکر ہونا چاہیے۔اس سانحے نے اقوامِ عالم کے ہر طبقے کو کوئی نہ کوئی پیغام دیا ہے ۔ کاش وہ اس پیغام کو دھیان سے سنیں اور اس کے مطابق اپنے رویوں اور اہداف کو تبدیل کرنے کی کوشش کریں۔   

  اقوامِ عالم کا ایک طبقہ وہ ہے جس کے ہاتھ میں کرۂ ارض کے نظم ِ اجتماعی کی عنانِ اقتدار ہے۔ یہ طبقہ امریکہ اور یورپ کی اقوام پر مشتمل ہے۔ حکمرانوں کی یہ جماعت اپنے آپ کواس زمانے میں مساواتِ  انسانی کا سب سے بڑا علم بردار قرار دیتی ہے۔ اس سانحے نے اسے یہ پیغام دیاہے کہ وہ دنیا میں اپنی بچھائی ہوئی معیشت کی بساط کا ازسرِ نو جائزہ لے اور جانے کہ اُس کے نظام کا وہ کون کون سا ظالمانہ طریقِ عمل ہے جو روز بروزغریب کو غریب تر اور امیر کو امیر تر بناتا چلا جا رہا ہے؟ وہ اس پر غور کرے کہ کیا وجہ ہے کہ لوگ اپنے وطنوں کی فطری محبت کو قربان کر کے ایک سیلِ رواں کی طرح ان کے ملکوں کی طرف امڈے چلے آ رہے ہیں؟کیا وجہ ہے کہ جب وہ پس ماندہ ممالک سے مزدورں اور محنت کشوں کی بھرتی کا اعلان کرتے ہیں تو لاکھوں کی تعداد میں لوگ کم سے کم اجرت پر اپنی خدمات پیش کرنے کے لیے بخوشی تیار ہو جاتے ہیں؟ کیا وجہ ہے کہ ترقی پزیر ممالک ہر وقت ان کے سامنے دستِ سوال دراز کرنے پر مجبور ہوتے ہیں اور ان کی سالانہ آمدن کا بیشتر حصہ قرضوں کے سود کی ادائیگی میں صرف ہوتا ہے ؟ہو سکتا ہے کہ کچھ غور و فکر کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچیں کہ کرۂ ارض پر اس ظلم کا منبع ان کا قائم کردہ نظام ہے۔  چنانچہ وہ نظریہ اور عمل کی دوئی کو دور کریں اور دنیا میں منصفانہ نظامِ معیشت کے احیا کے لیے سرگرمِ عمل ہوں۔ وہ اپنے مفادات کو حاصل کرتے وقت اتنا خیال ضرور کرلیں کہ کہیں اس کے نتیجے میں انسان زندگی کی بنیادی ضروریات ہی سے تو محروم نہیں ہو رہے ۔ وہ دنیا پر اپنی بادشاہی اسلحے کے زور سے نہیں بلکہ علم و اخلاق  کی قوت سے قائم کریں۔ ان کا یہ رویہ دنیا  میں خوش حالی  اورامن و سلامتی کی بنیاد بن سکتا ہے۔

اقوامِ عالم کا ایک دوسرا طبقہ معاشی اعتبار سے پس ماندہ قومیں ہیں۔ ان اقوام کو بھی اس سانحے نے ایک پیغام  دیا ہے ۔وہ اس پر غور کریں کہ جس غربت و افلاس کا وہ شکار ہیں اس میں ان کا اپنا کتنا کردار ہے؟ کیا اس سے نکلنے کی انھوں نے کوئی منصوبہ بندی کی ہے؟ وہ اپنے ماہرینِ فن اور باصلاحیت افراد کو اس پر مامور کریں کہ وہ اپنی قوم کو ان مصائب سے نکالنے کے لیے جدو جہد کریں۔ وہ اپنی قوم کو مایوسی کے اندھیروں سے نکالیں اور اس میں ترقی کی امید پیدا کریں۔ وہ اس بات کو سمجھیں کہ موجودہ زمانے میں قوموں کی ترقی کا فیصلہ میدانِ جنگ میں نہیں ، بلکہ میدانِ معیشت میں ہو رہا ہے۔  وہ اس پر غور کریں کہ بڑی طاقتوں سے معاندت اورکنفر نٹیشن کے بغیر وہ کس طرح اپنی ترقی کی منزل کو حاصل کر سکتے ہیں۔

اقوامِ عالم کا ایک تیسرا طبقہ امتِ مسلمہ ہے ۔ مسلمانوں کے لیے اس سانحے کا پیغام گوناں گوں پہلوؤں سے ہے ۔ ایک پہلوسے اس کا پیغام یہ ہے کہ مسلمان آخرت کی یاد دہانی کے عمل کو تیز سے تیز ترکردیں۔ گزشتہ صدی میں بدقسمتی سے مسلمانوں نے اپنی اس ذمہ داری کو یکسر بھلائے رکھا ہے۔  وہ اگر یہ سمجھتے ہیں کہ انسانیت کی فلاح کا واحد راستہ آخرت کا استحضار ہے تو یہ ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس پیغام کو دنیا کے ہر شخص تک پہنچانے کے لیے  جدو جہد کریں۔ جس شخص تک بھی وہ رسائی حاصل کر سکتے ہیں وہ اسے آخرت کی جواب دہی کے بارے میں خبردار کریں۔آخرت کی یہ تذکیر قرآنِ مجید کی ہدایت کے مطابق مجادلۂ احسن کے اسلوب میں ہونی چاہیے ۔ یعنی وہ زبردستی اوردھونس کا طریقہ نہ اختیار کریں  بلکہ حکمت اور محبت کے ساتھ اپنی بات پیش کریں۔وہ اپنے مدعوین کے ساتھ معاشرتی روابط کو ہر گز منقطع نہ ہونے دیں۔ وہ اپنی بات کو قوی استدلال کے ساتھ پیش کریں ۔ وہ اس پیغام کو پہنچانے کے لیے جدید تمدن کے تمام ذرائع کو اختیار کریں۔ ان کی اس تذکیر اور یاد دہانی کا یہ نتیجہ نکل سکتا ہے کہ اس سے متاثر ہو کر ایک طرف دنیا کے کار پرداز  عناصر دنیا سے معاشی بے انصافی کو ختم کرنے کے لیے سرگرمِ عمل ہو جائیں اور دوسری طرف معاشی بے انصافی کا شکار ہونے والے لوگ اسے اللہ کی طرف سے ایک آزمایش سمجھ کر صبر اور قناعت کا رویہ اختیار کریں۔

دوسرے پہلو سے مسلمانوں کے لیے اس سانحے کا پیغام یہ ہے کہ وہ اپنے اندر مسلمہ اخلاقی  اقدار کو  پوری شان کے ساتھ قائم کریں۔  وہ عدل و انصاف کو اس سطح پر لے جائیں کہ اگر اس کی زد ان کی ذات پر بھی پڑے تو وہ اسے خوش دلی سے قبول کر لیں۔ وہ انفرادی اور اجتماعی سطح پر قانون کی پاس داری کو اپنا شعار بنائیں ۔ وہ قانون شکن نہیں بلکہ قانون کے محافظ بنیں۔  صبر ، برداشت اور روا داری کی ایسی خو قائم کریں کہ بدترین مخالف بھی بلا جھجک اپنی ہر بات  ان کے سامنے پیش کر سکیں۔ اشتعال، شر انگیزی اور بدتمیزی کے الفاظ ان کی لغت سے خارج ہو جائیں۔ وہ اپنے اندر سے  دھوکا دہی کے تمام مظاہر کو ختم کر دیں  اور اس بات پر غور کریں کہ کیا وجہ ہے کہ اہلِ یورپ کی مصنوعات اور خوراک کو دنیا  میں پورے اعتماد کے ساتھ استعمال کیا جاتا ہے جبکہ ان کے ہاں تیار ہونے والی چیزیں  ناقابلِ قبول ہوتی ہیں اور ستم ظریفی تو یہ ہے کہ خود مسلمان بھی ان پر اعتماد کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ یوں لگتا ہے کہ ساکھ نام کی کوئی چیز ہی ان کے پاس نہیں ہے۔  دنیا میں ہم مسلمانوں کا تعارف اس کے سوا اور کیا ہے کہ یہ محض اپنے جذبات کے  اسیر ہوتے ہیں،  علم و عقل سے گریز و فرار اختیار کرتے ہیں،  دھوکا دہی اور دھاندلی  ان کا شیوہ ہے، جھوٹ اور بددیانتی  ان کی عادت ہے ، اپنی بات منوانے کے لیے یہ دلیل و برہان اور گفت و شنید کے بجائے دھونس، زبردستی ، احتجاج اور بائیکاٹ کے طریقے اختیار کرتے ہیں، امن و صلح  کے ماحول کے بجائے انھیں جنگ و جدل کی فضا زیادہ خوش گوار محسوس ہوتی ہے۔ دنیا آج مسلمانوں کو انھی حوالوں سے جانتی ہے ۔بلا شبہ اس میں پراپیگنڈے کا بھی کچھ دخل ہے لیکن مسلمانوں کو یہ اعتراف کرنا چاہیے کہ ان اخلاقی  جرائم کی بنیادیں پوری طرح  ان کے اندر موجود ہیں۔

  مسلمانوں کو اپنے اس تعارف کو تبدیل کرنا چاہیے، اور اگر وہ دنیا میں سیاسی اور معاشی عدل و انصاف کے قیام کے لیے کوئی کردار ادا کرنا چاہتے ہیں تو پھر ان کے لیے یہ نہایت ضروری ہے کہ وہ اجتماعی اخلاقی اقدار کو اپنی معاشرت ،اپنی معیشت  اور اپنی سیاست میں اس طرح جا گزیں کر لیں کہ اقوامِ عالم پکار اٹھیں کہ مسلمانوں سے زیادہ عادل ،مسلمانوں سے زیادہ سچا، مسلمانوں  سے زیادہ روادار اور مسلمانوں سے زیادہ حق پرست اس کرۂ ارض پر اور کوئی نہیں ہے۔

ایک اور پہلو سے اس سانحے کا پیغام  امتِ مسلمہ کے لیے یہ ہے کہ وہ علم و ہنر کے میدان میں ایسی ترقی حاصل کر لے کہ کسبِ فیض کے لیے لوگ اقصاے عالم سے اس کی طرف رجوع کریں۔ اس زمانے میں قومی فضیلت کی بنیاد اصلاً عسکری قوت ، عددی اکثریت  یا علاقائی وسعت نہیں ہے ۔ اس کی بنیاد معیشت  اور سائنس و ٹیکنالوجی کی قوت ہے ۔ جو قوم ان دونوں اعتبارات سے زیادہ مضبوط ہے  دنیا کی قیادت اسی کے پاس ہو گی۔  ان دونوں قوتوں کے حصول کا ایک  ہی دروازہ ہے اور  وہ دروازہ تعلیم ہے ۔  بدقسمتی سے ایک مدت سے مسلمانوں نے اس دروازے کو تقریباً بندہی کر رکھا ہے۔  ہمارے نوجوان احتجاج کرتے ہیں ، سیاست کرتے ہیں، جہاد کرتے ہیں، یہ سب کچھ کرتے ہیں لیکن تعلیم وتحقیق  اور نئی سے نئی دنیاؤں کی دریافت ان کا کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے۔  اگر کچھ نوجوانوں کی توجہ تعلیم کی طرف ہے بھی تو  اس کا محرک  روزگارکا حصول ہے۔  بہرحال موجودہ تمدن میں علم ہنر کی ترقی ہی وہ  راستہ  ہے جس پر چل کر کوئی قوم عالم کی فرماں روائی کے منصب پر فائز ہو سکتی ہے۔

حادثے کا یہ پیغام سلطنتِ ارضی کے باجبروت شہنشاہوں کے لیے بھی ہے ، اس کی محروم و مجبور رعایا کے لیے بھی ہے ، اور اس میں عدل و قسط کی داعی جماعت ، امتِ مسلمہ کے لیے بھی ہے ۔ آنے والا زمانہ یہ بتا دے گا کہ نفسانفسی کے شور میں کس نے اس پیغام کو دھیان لگا کر سنا تھا ۔

___________

B