محمد بلال
پچھلے دنوں اسلام آباد میں ادارۂ ’’جنگ‘‘ نے ایک ’’میڈیا کانفرنس‘‘ کا انعقاد کیا، جس میں مختلف ممالک کے صحافی حضرات نے شرکت کی۔ اس کانفرنس میں جن بھارتی صحافیوں نے شرکت کی، ان میں بھارت کے ایک ہفت روزہ ’’آوٹ لک‘‘ کے چیف ایڈیٹر مسٹر ونود مہتہ بھی موجود تھے۔ انھوں نے پاک بھارت مذاکرات کے حوالے سے ایک پاکستانی صحافی سے بات چیت کرتے ہوئے کہا:
’’پاکستان سے مذاکرات کا آغاز کرنے کے حوالے سے میں کلدیپ نیر (بھارت کے ایک صحافی) سے بہت آگے ہوں اور ہم نے بہت سے لوگوں کو اپنے نقطۂ نظر کا حامی بنایا ہے۔‘‘....’’ ۱۲ اکتوبر کے بعد بالخصوص پاکستان سے مذاکرات کی حمایت کرنے والی لابی دہلی میں بہت کمزور ہو گئی تھی لیکن ہم نے جدوجہد جاری ر کھی پھر ہماری طاقت میں بتدریج اضافہ ہوتا گیا اور آج میں کہہ سکتا ہوں کہ مذاکرات کے دوبارہ فوری آغاز کی حمایت کرنے والوں اور اس کی مخالفت کرنے والوں کا پلڑا برابر ہو چکا ہے اور جلد ہی ہمارا پلڑا بھاری ہو جائے گا۔‘‘....’’ میں جب پاکستان آتا ہوں، لوگوں سے ملتا ہوں تو میں بالکل نہیں سمجھ پاتا کہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان اس قدر شدید اختلافات کیوں موجود ہیں۔‘‘ (جنگ، ۹جولائی ۲۰۰۰)
اس میں شبہ نہیں کہ پاکستان اور بھارت کی اکثریت دونوں ممالک کے مسائل پر ُ امن طریقے سے حل کرنے کی خواہاں ہے۔ بہت کم لوگ ہیں جو جنگ و جدال اور نفرت و عداوت کو پسند کرتے ہیں مگر ان کم لوگوں کے اثرات بہت زیادہ ہیں۔ یہ کم لوگ ہمیشہ بھارت کی بری باتوں اور برے لوگوں کو نمایاں کرتے رہتے ہیں، جس کی وجہ سے دونوں ملکوں کی فضا میں تناؤ کی کیفیت ہر وقت موجود رہتی ہے۔ اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان اور بھارت کے افراد کے لیے زیادہ سے زیادہ ایک دوسرے سے ملنے کے مواقع پیدا کیے جائیں۔ امید ہے میل ملاپ سے تعلقات میں جو تناؤ ہے، اس میں کمی آئے گی، دوسرے کی بات سننے اور اپنی بات سنانے کی سہولت پیدا ہو گی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ غلط فہمیاں دور ہوں گی جو جنگ و جدال اور نفرت و عداوت کو پسند کرنے والے افراد نے پیدا کر رکھی ہیں اور ملکی وسائل کو عوام کی زندگی آسان کرنے پر صرف کرنے کے بجائے گولہ و بارود پر خرچ کرنے پر مجبور کر رکھا ہے۔ حالانکہ کم وسائل اور بے پناہ مسائل رکھنے والے ممالک کے لیے جنگ کسی بھی مسئلے کا حل نہیں ہے، ان کے لیے تو جنگ مزید مسائل پیدا کرنے کا ہی باعث بنے گی۔ بھارت کے متشدد لوگوں کے بیانات پڑھ پڑھ کر ہمارے ہاں بھارت کا ایک خاص تاثر بنا ہوا تھا، مسٹر مہتہ کی باتوں سے یہ تاثر کچھ تبدیل ہوا ہے ۔
بھارت کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے کے معاملے میں ہمارے ہاں دو نقطہ ہاے نظر پائے جاتے ہیں۔ ایک نقطۂ نظر یہ ہے کہ پہلے بھارت مسئلۂ کشمیر حل کرے، اس کے بعد اس کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے چاہییں، اس لیے کہ بڑا مسئلہ ، مسئلۂکشمیر ہے، جب تک یہ مسئلہ حل نہیں ہو گا، اس وقت تک باہمی تعلقات کے بہتر ہونے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ دوسرا نقطۂ نظر یہ ہے کہ پہلے بھارت کے ساتھ تعلقات بہتر کیے جائیں، باہمی تعلقات میں تناؤختم کیا جائے، اس کے بعد مسئلۂکشمیر حل کرنے کی کوشش کی جائے، اس لیے کہ بہتر تعلقات کی فضا میں مسائل پر ُ امن ذرائع سے حل کرنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ ہمارے نزدیک دوسرا نقطۂ نظر صحیح ہے۔
مذکورہ میڈیا کانفرنس کے حوالے سے دونوں ملکوں کے افراد کے باہمی میل ملاپ کے مثبت اثرات کی وضاحت کرتے ہوئے بزرگ صحافی جناب ارشاد احمد حقانی لکھتے ہیں:
’’بھارتی صحافیوں نے پاکستان کے بارے میں بہت سے حوالوں سے اپنے اپنے ذہنوں میں جو تاثر یا نقشہ قائم کر رکھا تھا اس سفر کے نتیجے میں وہ اس پر نظرِ ثانی کرنے پر مجبور ہوئے ہوں گے۔ ان کے بہت سے غلط تصورات کسی نہ کسی حد تک درست ہوئے ہوں گے..... مسٹر کلدیپ نیر نے دہلی واپس جا کر اپنے حالیہ سفرِ پاکستان پر جو پہلا کالم لکھا ہے، اس سے میرے مذکورہ تاثر کی توثیق ہوتی ہے ..... اس سے جنوبی ایشیا کی فضا کو بہتر بنانے میں مدد ملے گی۔‘‘ (جنگ ۹ جولائی ۲۰۰۰)
اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ باہمی میل ملاپ کے اثرات کس قدر مثبت ہوتے ہیں۔ یہاں عمرانیات کا یہ نکتہ بیان کرنا ضروری محسوس ہوتا ہے کہ انسان کے دوسرے انسانوں سے متاثر ہونے یا متاثرکرنے کے لیے ضروری نہیں ہوتا کہ بالمشافہ ملاقات ہی کی جائے، ٹیلی فون، خط کتابت، رسالوں اور کتابوں کے تبادلے سے بھی یہ کام انجام دیا جا سکتا ہے۔ بھارت کے ساتھ کتابوں کی خرید و فروخت میں خاصی مشکلات ہیں، ان مشکلات کو ختم کرنے کے لیے اقدامات کرنے چاہییں۔
مختلف پہلوؤں سے اتنی مفید کانفرنس منعقد کرنے پر ادارۂ ’’جنگ‘‘ واقعتہ ًمبارک باد کا مستحق ہے۔ دوسرے اداروں کے اکابر کو بھی ایسی کانفرنسیں منعقد کرنے پرغور کرنا چاہیے۔
___________