HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف :

’’میلاد کارڈ‘‘ اور ’’کرسمس کارڈ‘‘

محمد بلال 

 

شاعر اور کالم نویس جناب اجمل نیازی نے اپنے ایک کالم میں ’’عید میلاد سیرت کانفرنس اور ہیپی کرسمس‘‘ کے عنوان سے لکھا ہے:

’’عید مید کے جلوس دیکھے تو مجھے کرسمس یاد آ گئی۔  میں نے ان دنوں بھی کرسمس دیکھی جب عیدمیلاد کا میلہ نہیں ہوتا تھا۔  ہمیں   مسیحیوں کا شکر گزار ہونا چاہیے۔  مجھے ڈاکٹر ابوالخیر کشفی کی طرف سے میلاد کا کارڈ ملا۔  میں خوش ہوا۔  مجھے جے سالک کا ہیپی کرسمس کارڈ یاد آ گیا۔‘‘ (روزنامہ دن،  ۱۸جون ۲۰۰۰)

     نیازی صاحب کی یہ بات پڑھ کر مجھے بھی ایک بات یاد آ گئی۔  ایک مولوی صاحب ’’جشنِ عید میلاد النبی‘‘ کے حق میں دلائل دیتے ہوئے فرما رہے تھے کہ’’بعض لوگ یہ جشن منانے کے قائل نہیں ہیں۔  وہ ہمارے اس جشن منانے پر تنقید کرتے ہیں،  جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ عیسائی حضرت عیسیٰ کا یومِ پیدایش مناتے ہیں تو ہم اپنے نبی کا یومِ پیدایش کیوں نہ منائیں ۔‘‘ میں نے جب مولوی صاحب کی یہ بات سنی تو مجھے نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد یاد آ گیا تھا:

’’حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:  تم لازماً اپنے سے پہلے لوگوں کی پیروی کرو گے۔  قدم بہ قدم۔  یہاں تک کہ وہ گوہ کے بل میں  گھسیں گے تو تم بھی گھسو گے۔  ہم نے پوچھا : یا رسول اللہ، ( کیا آپ کی مراد) یہود و نصاریٰ ہیں ؟ آپ نے فرمایا: ’’اور کون۔‘‘ (بخاری،  احادیث الانبیا)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد یاد آتے ہی مجھے بہت حیرت،  تشویش اور پریشانی ہوئی کہ آپ کے ساتھ یہ کیسی محبت کا اظہار کیا جا رہا ہے جس میں آپ ہی کی ہدایت کو پسِ پشت ڈال دیا جاتا ہے۔  یہودو نصاریٰ کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا طرزِ عمل تو یہ تھا کہ آپ ان کی صحیح باتوں کو بھی اختیار کرتے ہوئے ان کے اور اپنے مابین امتیاز قائم کیا کرتے تھے ۔

مشہور واقعہ ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ تشریف لائے تو آپ نے دیکھا کہ یہودی دس محرم کو روزہ رکھتے ہیں۔  آپ کے دریافت کرنے پر یہودیوں نے اس کی یہ وجہ بتائی کہ اس روز خدا نے موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم (بنی اسرائیل) کو (فرعون کی غلامی) سے نجات دی تھی اور فرعون اور اس کی قوم کو غرق کیا تھا چنانچہ موسی علیہ السلام نے شکرانے کے طور پر اس روز روزہ رکھا،  اس لیے ہم بھی روزہ رکھتے ہیں۔  آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہم تم سے زیادہ حق دار ہیں کہ موسیٰ علیہ السلام کی پیروی کریں۔  چنانچہ آپ نے خود بھی روزہ رکھا اور دوسروں کو بھی یہ روزہ رکھنے کی ہدایت کی اور (یہودیوں کی مشابہت سے بچنے کے   لیے) فرمایا کہ اگر میں اگلے سال زندہ رہا تو (محرم کی) نویں تاریخ کو بھی روزہ رکھوں گا۔

یہ تو وہ باتیں ہیں جن سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا تھا مگر مسلمانوں نے انھیں اختیار کیا۔  اب ہم ان باتوں کا ذکر کرتے ہیں جن پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمل کرنے کی ہدایت فرمائی مگر مسلمانوں نے ان کو کوئی اہمیت نہ دی۔  آپ نے فرمایا:

 ’’میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں ، جس کی بھی پیروی کرو گے ہدایت پا جاؤ گے۔‘‘ ( مشکوٰۃ  مناقب الصحابہ)
’’میری امت پر لازماً وہ وقت آئے گا جو بنی اسرائیل پر آیا۔  قدم بہ قدم۔  یہاں تک اگر ان میں سے کوئی اپنی ماں کے پاس علانیہ گیا تو میری امت میں بھی ایسا شخص ہو گا جو یہ کام کرے گا۔  بنی اسرائیل بہتر  (۷۲)  فرقوں میں تقسیم ہوئے،  میری امت تہتر  (۷۳)  فرقوں میں تقسیم ہو گی۔  ان میں سے ہر گروہ آگ میں جائے گا سوائے ایک کے۔  لوگوں نے پوچھا: یہ کون سا گروہ ہے ؟ آپ نے فرمایا :وہ جو اس راستے پر چلا جس پر میں ہوں اور میرے صحابہ ہیں۔‘‘ (ترمذی،  کتاب الایمان   )

اسی طرح فرمانِ الٰہی ہے:

’’اور جو کوئی راہِ ہدایت واضح ہو چکنے کے بعد رسول کی مخالفت اور مومنین (یعنی صحابۂ کرام) کے راستے کے سوا کسی اور راستے کی پیروی کرے گا تو ہم اس کو اسی راہ پر ڈال دیں گے جس پر وہ پڑا اور اس کو جہنم میں داخل کریں گے اور وہ برا ٹھکانہ ہے۔‘‘( النساء ۴: ۱۱۵)   

حبِ رسول کے معاملے میں صحابۂ کرام جیسی ہستیاں جس اعلیٰ مقام پر تھیں،  اس سے اختلاف کی کوئی گنجایش نہیں ہے۔  ان ہسیتوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے یومِ پیدایش پر  کبھی اس طرح کی تقریبات کا انعقاد نہیں کیا،  اس سے بھی اختلاف کی کوئی گنجایش نہیں ہے۔  کیا ہی اچھا ہو کہ ہم صحا بۂ کرام کی قدم بہ قدم پیروی کر کے حبِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا اظہار کریں اور خود کو اس گروہ میں شامل کر لیں جو قیامت کے روز جہنم میں جانے سے بچ جائے گا۔

___________

B