HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف :

Please login for Bookmark , Comment or Highlight ...

ختم نبوت اور ہمارا رویہ

محمد بلال 

 

قومی سیرت کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے صدرِ پاکستان محمد رفیق تارڈ صاحب نے کہا ہے کہ:

’’عقیدۂ   ختمِ نبوت ہی دنیا بھر کے مسلمانوں کو ایک امت ہونے کا اعزاز بخشتا ہے۔  پاکستان میں اس عقیدے کے منافی کسی سرگرمی کی گنجایش ہے اور نہ آیندہ  کبھی ہو گی۔‘‘ (جنگ، ۱۸  جون ۲۰۰۰)

     اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ عقیدۂ  ختمِ نبوت کی بے پناہ اہمیت ہے۔  نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسرے انبیا و  رسل کے مقابلے میں اپنے امتیازات بیان کرتے ہوئے اس بات کا بھی ذکر کیا ہے کہ میں خاتم النبیین ہوں۔  مگر افسوس ہے کہ ہمارے ہاں ختمِ نبوت کا مفہوم بہت محدود اور   سطحی لیا جاتا ہے۔

ختمِ نبوت کے معاملے میں غیر معمولی طور پر جذبات و احساسات کا اظہار کرنے والے چھوٹے بڑے مختلف مذہبی رہنما بھی اس سے مراد صرف یہ لیتے ہیں کہ اب کوئی اور نبی نہیں آئے گا۔  حالانکہ ختمِ نبوت کا مطلب یہی نہیں ہے کہ نبیوں کی آمد کا سلسلہ ختم ہو گیا،  بلکہ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ اب نبوت اپنی حقیقت کے اعتبار سے بھی ختم ہو گئی ہے۔  اب کوئی شخص یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ اس نے خدا سے کلام کیا ہے،  اس پر وحی آئی ہے،  اس کی فرشتے سے ملاقات ہوئی،  اسے الہام ہوا،  اس لیے کہ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:

 ’’نبوت میں سے صرف مبشرات باقی رہ گئے ہیں۔  لوگوں نے پوچھا: یہ مبشرات کیا ہیں ؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اچھا خواب ۔‘‘ (بخاری  کتاب، التعبیر    )

 ہمارے ہاں اگر کوئی شخص نبوت کا دعویٰ کر بیٹھے تو روایتی مذہبی رہنما اور عام مذہبی لوگ سخت غم و غصہ کا اظہار کرتے ہیں۔  اسے غیر  مسلم قرار دینے کے لیے تحریک کا آغاز کر دیتے ہیں ، بلکہ اس معاملے میں عامتہ الناس کے جذبات اس قدر بھڑکا دیتے ہیں کہ وہ نئے ’’نبی‘‘ کو ماننے والوں کے گھروں اور دکانوں کو نذرِ آتش کر دیتے ہیں،  مگر اس ملک میں ایسی کتابیں بھی موجود ہیں جن میں بعض مذہبی شخصیات نے یہ صاف صاف کہا ہے کہ:

’’اس راہ کے مسافروں کو مکاشفات و مشاہدات کی نعمت ابتدا ہی میں حاصل ہو جاتی ہے،  یہاں تک کہ وہ بیداری کی حالت میں نبیوں کی ارواح اور فرشتوں کا مشاہدہ کرتے،  ان کی آوازیں سنتے اور ان سے فائدے حاصل کرتے ہیں‘‘...... ’’ اور حق جہاں یہ ہستی گھومتی ہے،  اس کے ساتھ ہی گھومتا رہتا ہے،  اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ ہستی ملا ء اعلیٰ کے ساتھ شامل اور معصوم ہوتی ہے ۔ چنانچہ حق وہی قرار پاتا ہے جو اس کے سینے سے نمایاں ہوتا ہے،  پس حق اس ہستی کے تابع ہوتا ہے، وہ حق کے تابع نہیں ہوتی‘‘ .....’’شیخ اپنے مریدوں کے لیے اسی طرح الہام کا امین ہے،  جس طرح جبریل امینِ وحی ہیں ۔ پھر جس طرح جبریل وحی میں کوئی خیانت نہیں کرتے،  اسی طرح شیخ الہام میں خیانت نہیں کرتا اور جس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے نفس کی خواہش سے نہیں بولتے،  اسی طرح شیخ بھی ظاہر و باطن میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی پیروی کرتا ہے،  وہ بھی اپنے نفس کی خواہش سے نہیں بولتا‘‘ .....’’میں نے خواب میں دیکھا کہ مجھے قائم الزماں کے منصب پر فائز کیا گیا ہے۔  اس سے میری مراد یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ اپنے نظامِ خیر میں سے کسی چیز کا ارادہ کریں گے تو اپنے مقصد کو پورا کرنے کے لیے آلۂ کار مجھے بنائیں گے‘‘ .....’’اے جماعتِ انبیا، تمھیں صرف نبی کا لقب دیا گیا ہے اور ہمیں وہ کچھ دیا گیا جس سے تم محروم ہی رہے۔‘‘

بلاشبہ اس قسم کی باتیں کرنا بھی نبوت کا دعویٰ کرنا ہے۔  اس قسم کی باتیں کرنا بھی عقیدۂ   ختمِ نبوت کی نفی کرنا ہے۔  اس قسم کی باتیں کرنا بھی امت میں ایک نئی امت پیدا کرنا ہے،  مگر اس پر ہمارے ملک کے صدر کوئی اعتراض کرتے ہیں اور نہ وزیر اعظم سختی سے کام لیتے ہیں،  نہ روایتی مذہبی رہنما کوئی تحریک چلاتے ہیں اور نہ عام مذہبی لوگوں کے جذبات بھڑکتے ہیں،  بلکہ ایسی کتابیں اور ایسی باتیں کرنے والی شخصیات ہمارے ہاں غیر  معمولی عزت ، احترام اور تقدس کی حق دار قرار پاتی ہیں۔

یہ عجیب و غریب تضاد جہالت پر مبنی ہے یا منافقت پر ؟ اس کے بارے میں تو ہم یقین کے ساتھ کچھ نہیں کہہ سکتے البتہ یہ دعا ضرور کر سکتے ہیں کہ عالم کا پروردگار ہمیں ختمِ نبوت کے مفہوم کو اس کی تمام تر گہرائیوں کے ساتھ سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے اور ختمِ نبوت کے منافی ہر بات پر تنقید کرنے کی ہمت عطا فرمائے۔

___________

B