مولانا وحیدالدین خاں[1]
۲۱/ اپریل ۲۰۲۱ء کی رات کو نئی دہلی میں مشہور داعی اور مفکر مولانا وحید الدین خاں (۱۹۲۴ء - ۲۰۲۱ ء[2]) کی وفات ہو گئی۔ قمری تقویم (۱۳۴۲ھ- ۱۴۴۲ ھ) کے اعتبار سے بوقت وفات، مولانا کی عمر تقریباً سو سال ہو چکی تھی۔ اللہ تعالیٰ مولانا مرحوم پر اپنی خاص رحمتیں نازل کرے، عفو و درگذر کا معاملہ کرے اور بلندی درجات سے سرفراز کر کے اُنھیں اپنے پڑوس میں جگہ عطا فرمائے۔
خدا نے مختلف پہلوؤں سے مولانا کی زندگی میں بے پناہ برکت عطا فرمائی، یہ بلاشبہ، اِسی برکت کا نتیجہ تھا کہ اُنھیں تقریباً ایک صدی تک کام کا موقع ملا۔ وہ اپنے مشن کے تحت تادم آخر، نسل نو کی تربیت اور عصری اسلوب میں اسلام کی صداقت کا فکری اظہار کرتے رہے۔مولاناکی زندگی میں دعوت و حکمت، صبر و اِعراض، تعمیر شخصیت، سادگی، مقصدیت اورانسانی عجز (helplessness)کے گہرے شعوری ادراک جیسے متعدد اہم پہلو موجود ہیں۔تاہم مو لانا کے ایک قریبی رفیقM[3] کی حیثیت سے میں کہوں گا کہ مولانا کی زندگی کا سب سے نمایاں پہلو تھا ــــــ خدا کا ذِکر اورآخرت کی یاددِہانی ۔
خدا کا ذکر اور آخرت کا چرچا مولانا کی زندگی کا غالب عنوان تھا ۔ اُن کا لکھنا، اُ ن کا بولنا، اُن کی جلوت اور اُن کی خلوت اِس ذکر سے معمور رہتی تھی۔ خدا نے اُن کو مسلسل سوچنے اور عبرت پذیری (التفکّر وَالْاِعْتِبار) کی بے پناہ صلاحیت عطا فرمائی تھی۔میں نے تنہائیوں میں اکثر اُنھیں جس طرح خدا اور جنت کے لیے بے چین و مضطرب پایا ہے، وہ یقیناً خدا کی خصوصی توفیق کے بغیر ممکن نہیں۔ مولانا تاریخ کے اُن چند لوگو ں میں سے تھے جنھیں خدا نے ’تکبیر ِ رب‘(المدثر ۷۴: ۳) میں جینے کی عظیم سعادت سے بہرہ یاب فرمایا تھا۔ ’وَلا أزَکِّيْ عَلَی اللہِ أحَدًا، وَمَا شَهِدْنَا٘ اِلَّا بِمَا عَلِمْنَا وَمَا كُنَّا لِلْغَيْبِ حٰفِظِيْنَ ‘۔
جن لوگوں کو مولانا کی ذاتی مجالس میں شرکت کا موقع ملا ہے، وہ اِس بات کی گواہی دیں گے کہ اُن کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا تھا کہ گویا خدا نے اُنھیں اِسی کام کے لیے پیدا کیا ہے، اِس کے سوااُنھیں ہر دوسرے کام کے لیے نا موزوں بنا دیا گیا ہے ۔مولانا سیاسی غلبے کے بجاے فکری غلبے میں یقین رکھتے تھے۔ وہ گویا اِس معاملے میں ، بلاتشبیہ ’اِنَّا٘ اَخْلَصْنٰهُمْ بِخَالِصَةٍ ذِكْرَي الدَّارِ‘[4] کا ایک زندہ نمونہ تھے۔
مولانا کی شخصیت کا مذکورہ ربانی پہلو یا’ نفس ناطقہ‘[5] (divine spark) اُن کی زندگی کا سب سے زیادہ غالب پہلو تھا۔ رسمی دعا، گروہی نجات اور موروثی تصور جنت کے بجاے اُس کی والہانہ تڑپ، خدا کی محبت اور ہر موقع (occasion) پر زندہ اور تخلیقی ذِکر و شکر مولانا کا نمایاں وصف تھا۔ خدا کی حمد و کبریائی کا یہ بیان اُن کے لیے ایک لطیف مشغلہ تھا۔ یہ گویا وہ ’شغل فاکہ‘ (یٰسٓ ۳۶: ۵۵) تھاجس کا ’بے حساب رزق‘ خدا کی خصوصی توفیق سے اُنھیں ملا ہوا تھا: ’اِنَّ اللّٰهَ يَرْزُقُ مَنْ يَّشَآءُ بِغَيْرِ حِسَابٍ‘ (آل عمران ۳: ۳۷)۔
مولاناکی تقریر و تحریر اِس ذکر جمیل سے اِس قدر معمور ہے کہ کوئی بھی شخص بخوبی طورپر اُسے دیکھ اور سن سکتا ہے۔ تاثراتی نوعیت کی اِس تحریر میں اُس کی تفصیل کا موقع نہیں۔ اگر کوئی شخص چاہے تو وہ مولانا کی صرف ایک کتاب ’’اللہ اکبر‘‘ (۱۹۸۶ء) میں خدا کی خدائی کا یہ لافانی نغمہ اور خدا کی عظمت کا یہ ربانی بیان ملاحظہ کر سکتا ہے[6]۔
اِس اعتبار سے، مولانا کا دعوتی اور تذکیری مشن گویا تاریخ کے لیے ایک عظیم دھکا (push) تھا، جس نے فنی، کلامی اور قانونی موشگافیوں کے جنگل میں خدا کی زندہ یاداور اِنذارآخرت کاایک زلزلہ انگیز صور پھونک دیا، جس نے وقت کے اسلوب میں تاریخ کے روایتی اور ’بے روح مذہبی‘ دھارے کو موڑکر خداکے ذکر اور آخرت کی یاددہانی کو ایک زندہ حقیقت کے طورپر مبرہن کرنے کی بھر پور کوشش کی۔ اِس اعتبار سے یہ کہنا درست ہوگا کہ مولانا کا اصل مشن بے خدا ’مذہبیت‘[7]، بے روح عبادت، دنیا پرستی، غیرعارفانہ دین داری، بے خوف ذہنیت، غیر حکیمانہ روش، نفرت و تعصب، ’ہم اور وہ‘ (we and they) جیسے خانوں میں انسانیت کی تقسیم، جاہلانہ قومیت، جنون عظمت (maglomania) اور پر فخر نفسیات کے اِس ماحول میں یاد خداسے معمور اسلامیت، روح سے بھرپور عبادت، عارفانہ دین داری، خاشعانہ مزاج، حکیمانہ طریقہ،دانش مندانہ روش، روشن مستقبل، مثبت طرزفکر، امت مسلمہ اور دوسرے لوگوں کے درمیان دشمن اور حریف کے بجاے داعی اور مدعو کے رشتے کی تجدید، نصح وخیر خواہی، پر امن جد و جہد؛ الغرض ’انسان رُخی‘ (Insan-oriented) اور ’آخرت رُخی ‘ (Akhirah-oriented) طرزفکر کا اپنے منفرد اسلوب[8] میں ایک طاقت ور دعوتی اور فکری اظہار تھا۔
تاہم، یہ ایک حقیقت ہے کہ ہر شخص کے اندر نہ اِس طرح کے اظہار معرفت کا ذہن پایا جاتا ہے اور نہ اِس کی قدرت۔ مزید یہ کہ اِس قسم کا اظہار معرفت نہ ہر شخص سے مطلوب ہے اور نہ وہ اُس کی معرفت کا کوئی حقیقی معیار ہے۔خدا کے دین میں ہر شخص کو صرف بقدر استطاعت دعوت و معرفت کا مکلف (البقرہ ۲: ۲۸۶) بنایا گیا ہے۔ ایسی حالت میں مولانا یا کسی اور عالم کی نسبت سے کسی شخص کا یہ سمجھنا کہ ’’اُن کے علاوہ کوئی شخص اِن حقائق سے بہرہ یاب نہ ہوسکا یا رسول اور اصحاب رسول کے بعد تاریخ میں کسی اور نے دعوت الی اللہ[9] کا کام نہیں کیا‘‘ ، سرتا سر ایک خلاف واقعہ بات ہوگی ۔
اِس قسم کی غیر ضروری ’ ترجیح و تفضیل‘داعیانہ تواضع کے بھی خلاف ہے اور عالمانہ بصیرت کے بھی خلاف۔ اِس قسم کا ذہن بلاشبہ، اُس جاہلی عصبیت (العَصَبِیّةُ الْجَاھِلِیّة) کا تسلسل ہے جس نے امت میں اتحاد اور باہمی اعتراف کے بجاے فرقہ سازی (sect-making) اور تفریق کا ظاہرہ برپا کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ مقصد کے بجاے گروہ اور خدا کے بجاے شخصیت کو اصل اہمیت دیناعملاً ہمیشہ عجب اور گروہ پرستی کی اُس برائی کو پیدا کرنے کا ذریعہ ثابت ہوا ہے جس کو قرآن میں ایک مشرکانہ عمل[10] کے ہم معنی قرار دیا گیا ہے (الروم ۳۰: ۳۱- ۳۲)۔ یہ جاہلی عصبیت عملاً خدا اور انسان، دونوں کے درمیان تفریق کا ذریعہ ہے، جو آدمی کے تمام اعمال کو ’باطل‘ اور بے نتیجہ بنادینے والی ہے۔
ایک سچے داعی کا کام کسی شخص یا گروہ کو گھٹانایا بڑھانا نہیں، بلکہ علم واخلاص کے ساتھ اپنا فریضہ انجام دینا ہے۔ ہم داعی ہیں، قاضی اور حاکم نہیں (دُعاة، لا قُضاة)۔ ہمیں ہر جگہ پائے جانے والے خیر کا ’اعتراف‘ اور تعاون کرتے ہوئے اپنا کام کرنا چاہیے۔ اِس قسم کا حکم لگانا بلاشبہ، خدا اور انسان، دونوں کا کم تر اندازہ کرنے کے ہم معنی ہوگا ۔ کسی بھی شخص یا گروہ کا کام صرف اُسی وقت معتبر قرار پائے گا، جب کہ آخرت میں خدا وند ذوالجلال اُس کی قبولیت کا اعلان فرمادے۔ اِس قسم کا ذہن ’دعوت‘ اور’معرفت ‘، دونوں کی اصل حقیقت اور اُس کے تقاضوں سے بے خبری کے سوا اور کچھ نہیں۔
اصل یہ ہے کہ بہت سے اہل علم کی بہ نسبت، خصوصی طور پر مولاناکے کام کا نمایاں عنوان دعوت اور تذکیر کا فکری اظہار بن گیا تھا۔ چنانچہ جس طرح ہر عالم اور مفکر کا عموماً ایک خاص موضوع ہوا کرتا ہے، مولانا کا بھی ایک خاص موضوع تھا۔ موضوع کی اِسی تقسیم کا نتیجہ ہے کہ اسلامی شریعت اور خود دور جدید کے بہت سے عصری موضوعات پر کسی حقیقی رہنمائی سے نہ صرف یہ کہ مولانا کا لٹریچر خالی ہے، بلکہ خود اپنے بیان کے مطابق ، وہ اِس معاملے میں کوئی ’’حتمی راے ‘‘[11] دینے کی پوزیشن میں نہیں ۔ مثلاً اسلام کی روشنی میں سود اور زکوٰۃ جیسے بنیادی موضوع سے متعلق دور جدید کے اہم اور نازک سوالات کا جواب اور اِس معاملے میں کتاب وسنت پر مبنی اسلام کی اصل تعلیمات کا عصری انطباق، وغیرہ ۔
حقیقت یہ ہے کہ اِس دنیا میں پیغمبر کے سوا کوئی اور شخص نہ اُس طرح ’مامور‘ اور ’مختار‘ (chosen) ہے اورنہ اُسے اپنے پیغام کی نسبت سے ’عِصمت‘ کا وہ مقام حاصل ہے جو صرف انبیاے کرام کے لیے خاص ہے۔ یہ صرف خدا کا پیغمبر ہے جو اُس کی طرف سے ’مامور‘ ہوکر بے خطا طور پر خدا کا پیغام پہنچاتا ہے۔اِس لیے پیغمبر کے سوا اور کوئی شخص ہرگز بے خطا (infallible) انسان نہیں ہوسکتا ۔ مولانا بھی ایک ’انسان ‘ تھے اور انسان جن چیزوں کا مجموعہ بناکر پیدا کیا گیا ہے، ظاہر ہے کہ وہ اُس سے الگ نہ تھے۔ ایسی حالت میں کسی شخص کا برتراززندگی (larger-than-life) تصور یا اُسے دور آخر میں ظاہر ہونے والی کوئی پراسرار شخصیت یا ’’مردے از غیب‘‘ سمجھ لینا اُس کی عظمت نہیں، صرف تصغیر کے ہم معنی ہوگا۔ کسی انسان کی ساری عظمت اِسی میں ہے کہ وہ خدا کا ایک ’بندہ‘ (عَبْدْ) بن کر اِس دنیا میں زندگی گزارے؛ عبدیت سے بڑا کسی آدمی کے لیے کوئی اور درجہ نہیں۔ عبدیت انسان کا عظیم ترین شر ف ہے، نہ کہ کوئی باعث عار مقام (النساء ۴: ۱۷۲۔ الاعراف۷: ۲۰۶۔ الانبیاء ۲۱: ۱۹)۔
انسان چونکہ ایک ’توجیہ پسند مخلوق‘ ہے۔ لہٰذا، ایک شخص کو ’انسان‘ نہ ماننے کی صورت میں اُس کی معرفت اور اُس کے فکر وعمل میں پائے جانے والے تضادات کی توجیہ بے حد مشکل ہوجاتی ہے۔ مثلاً بعض امور میں سخت بے اعتدالی اوریک رُخا طرز فکر، وغیرہ۔ تاہم، جب کسی شخص کو صرف ایک ’انسان‘ تسلیم کرلیا جائے تو یہ التباس فوراًختم ہو جاتا ہے، کیونکہ انسان بہر حال انسان ہے، وہ کبھی خطا و نقص سے پاک نہیں ہوسکتا۔ بے نقص و بے خطا ذات صرف اللہ کی ہے: ’سبحان مَن تفرّد بالکمالِ وَحدَہ‘۔ خدا کی عظمت اِس سے اِبا کرتی ہے کہ اُس کے سوا کوئی اور پاک و بے عیب ہوسکے[12]۔
مولانا کی وفات اُس وقت ہوئی، جب کہ پورا ملک کورونا جیسے مہلک وبائی بحران سے شدید طورپر دوچار تھا۔ایسی حالت میں اپولو اسپتال کے آئی سی یو وارڈ میں ایک حقیر خورد بینی جرثومے نے جس طرح ایک عظیم شخص کی حیات مستعار کا خاتمہ کیا، جس بے بسی کے عالم میں بوقت آخر کچھ کہے بغیر تاریخ کا یہ عظیم انسان اِس دار فانی سے رخصت ہوا، اور دنیا بھر میں پھیلے ہوئے اپنے بے شمار متبعین (followers) کی موجودگی کے باوجودحالات کے جبر کے تحت جس طرح چند اہل خانہ کے ذریعے سے نئی دہلی کے ایک قبرستان (پنج پیراں، بستی حضرت نظام الدین)میں اُس کی خاموش تدفین ہوئی، وہ ہم تمام زندہ رہ جانے والوں کے لیے بلاشبہ، ایک عجیب عبرت نامے کی حیثیت رکھتا ہے۔
یہ پورا معاملہ واقعات کی زبان میں بتا رہا ہے کہ خدا کتنا عظیم اور کس قدر بے نیاز ہے۔ سوچنے والوں کے لیے یہ گویا اُن آیاتِ بینات کا ایک عجیب اظہار تھا جن میں ارشاد ہوا ہے:
٭ ’وَمَنْ جَاهَدَ فَاِنَّمَا يُجَاهِدُ لِنَفْسِهٖﵧ اِنَّ اللّٰهَ لَغَنِيٌّ عَنِ الْعٰلَمِيْنَ‘[13] ۔
٭ ’يٰ٘اَيُّهَا النَّاسُ اَنْتُمُ الْفُقَرَآءُ اِلَي اللّٰهِﵐ وَاللّٰهُ هُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيْدُ. اِنْ يَّشَاْ يُذْهِبْكُمْ وَيَاْتِ بِخَلْقٍ جَدِيْدٍ. وَمَا ذٰلِكَ عَلَي اللّٰهِ بِعَزِيْزٍ ‘[14]۔
٭ ’وَلَقَدْ جِئْتُمُوْنَا فُرَادٰي كَمَا خَلَقْنٰكُمْ اَوَّلَ مَرَّةٍ وَّتَرَكْتُمْ مَّا خَوَّلْنٰكُمْ وَرَآءَ ظُهُوْرِكُمْ‘[15] ۔
حقیقت یہ ہے کہ خداوند ذوالجلال کے نزدیک ایک عالمی شہرت یافتہ شخص بھی اُسی طرح ایک عاجز بندہ ہے، جس طرح دوسرا کوئی شخص۔ اُس کے نزدیک اِس دنیا میں عامی اور غیر عامی، سب برابر ہیں۔ کسی انسان کی تمام سرگرمی خداکے فضل اوراُس کے حکم (أمْر)کا نتیجہ ہے، یہ ہرگز کسی شخص کا کوئی ذاتی کمال نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اِس حکم کے اٹھتے ہی ہر شخص صرف ایک ایسے نا مطلوب خاکی وجودکی حیثیت اختیار کرلیتا ہے، جسے جلد از جلدسپرد خاک کردینا خود اُس کے اپنے متعلقین کی پہلی ترجیح بن جاتی ہے ــــــ اِس دنیا میں ساری عظمت صرف خدا کے لیے ہے، نہ کہ کسی اور زندہ یا غیرزندہ شخصیت کے لیے ۔
مولانا مرحوم کی زندگی کے آخری لمحات کے ذریعے سے گویا خدا نے اُن کے بعد والوں کے لیے وہی سامان عبرت پیدا فرما دیا جس کے درس سے اُن کی پوری زندگی عبارت تھی ، یعنی خدا کی کبریائی اور اُس کی عظمت و جلال کا واقعاتی اظہار ۔اِس اعتبار سے بلاشبہ، یہ کہنا درست ہوگا کہ مولانا کی زندگی بھی مبارک تھی اور اُن کی موت بھی مبارک (طابَ حَيًّا، وطابَ مَيِّتًا)۔
حقیقت یہ ہے کہ آدمی کی نجات اور اُس کے حسن ِ خاتمہ کااصل معیار اُس کی حقیقی ایمانی زندگی ہے، نہ کہ اُسے قبر تک پہنچانے والوں کی کثرت اور اِزدِحام۔ مولاناکی زندگی کے یہ آخری لمحات اِن شاء اللہ اُن کے اجر میں اضافہ اور اُن کے لیے مزید بلندی درجات کا ذریعہ ثابت ہوں گے۔
مولانا مرحوم جس ’تیارذہن‘ (prepared mind) کے ساتھ آخرت کے ابدی دور حیات میں داخل ہوئے، واقعات شاہد ہیں کہ ’قَلِيْلٌ مِّنْ عِبَادِيَ الشَّكُوْرُ‘[16] کے مطابق، تاریخ کے بہت کم لوگ اِس توفیق سے بہرہ ور ہوسکے ۔اللہ کا یہ بندہ پوری زندگی خدا اور موت اور آخرت کی جس طرح منادی کرتا رہا، آج جب براہ راست وہ خود اِن حقائق کا سامنا کررہا ہے تواللہ کی رحمت سے قوی امید ہے کہ وہ اُس کو اپنی خصوصی عنایت اور فضل سے نوازے گا۔ جنت کے جس ابدی باغ کی طرف پوری زندگی وہ لوگوں کو بلاتا رہا، خدا ضرور اُس کو جنت کے اِس ابدی باغ کا پروانہ دے گا ۔ جہنم کی جس آگ سے وہ مسلسل لوگوں کو ڈراتا رہا، خدا ضرور اِس نار جہنم سے اُس کو اپنی خصوصی پناہ عطا کرے گا۔ وہ خدا سے راضی ہوگا اور خدا اُس سے راضی ہوکرمحض اپنی رحمت سے اُس کو ’رَاضِيَةً مَّرْضِيَّةً‘ کی ابدی بادشاہی میں داخلہ عطا فرما ئے گا، جہاں وہ تجلیات ربانی سے سرشار ہوکر خدا کی حمد و کبریائی کا لامحدود ترانہ گاتا رہے۔
’اللّٰهُمّ اغْفِرْله وارْحَمْه واعْفُ عَنْه، وَلا تَحْرِمْنا أجْرَه، ولا تَفْتِنَّا بَعْدَه‘۔
[لکھنؤ، ۳۰/ اپریل ۲۰۲۱ء، شب ۲: ۳۰]
ـــــــــــــــــــــــــ
[1]۔ اِس تحریر میں مولانا کی زندگی اور اُن کے فکر کامفصل تذکرہ اور علمی تجزیہ ہمارے پیش نظر نہیں ۔
[2]۔ ماہنامہ الرسالہ، نئی دہلی، اکتوبر ۲۰۱۰ء، صفحہ ۱۸۔
[3]۔ راقم کو ۲۰۰۵ء سے ۲۰۱۴ء کے طویل عرصے میں جس انداز سے براہ راست مولانا کی قربت حاصل رہی ہے اور جس طرح گھر کے ایک فرد کے مانند قریب رہ کر میں نے اُن کے شب وروز دیکھے ہیں ، وہ اپنی نوعیت کے لحاظ سے خدا کا ایک عجیب معاملہ تھا۔ تقریباً دس سال تک مولانا کے پڑوس میں اپنے قیام کے باعث دیگر اوقات کے علاوہ، میرا یہ مستقل معمول تھا کہ میں صبح کو نو بجے سے ایک بجے تک انتہائی پابندی کے ساتھ برابر مولانا کے ساتھ کام کرتا رہا؛ یہاں تک کہ ناگزیر ضرورت کے علاوہ، اِس میں کبھی عیدین اور دفتری تعطیل کے ایام میں بھی وقفہ نہیں ہوا۔ مولانا کے ساتھ میری رفاقت کی یہ سرگذشت بے حد دل چسپ بھی ہے اور انتہائی سبق آموز بھی۔یہ سرگذشت بہت سے واقعات کی صورت میں سینکڑوں صفحات پر مشتمل ہے جو تحریری اور صوتی، مختلف انداز میں، محفوظ ہے۔ اگر حالات نے اجازت دی توشاید اِس رفاقت کے بعض قابل ذکر پہلو کبھی سامنے آسکیں۔ البتہ الرسالہ مشن کے بعض فکری اور عملی پہلو پر راقم کا نقطۂ نظرمعلوم کرنے کے لیے ملاحظہ فرمائیں ہمارا مقالہ ’’علم و دعوت کا توازن‘‘ (ماہنامہ اشراق، لاہور، جنوری ۲۰۱۸ء)۔ یہ پورا مقالہ اشاعت (اشراق ہند، ۲۰۱۷ء) کے بعد ہی مولانا مرحوم کے مطالعے میں آگیا تھا۔
مولانا کی تربیت اور اُن کے فیض صحبت سے مجھ جیسے طالب علم کو جو کچھ ملا ہے، اُس کے تئیں میرا دل خدا اور اُس کے اِس عظیم بندے کے لیے سراپا دعا وسپاس ہے۔ خدا کی ذات سے امید ہے کہ وہ ابد تک مولانا کو اِس عظیم احسان کے لیے جزاے خیر سے ہم کنار کر تا اور اُن پر اپنی بے پایاں رحمتوں اور عنایتوں کا لامتناہی ابر کرم برساتا رہے گا۔ ’جزاہُ اللہ عنّا وعنِ المسلمین خیرَ الجزاءِ، وجَعَله في میزان حَسَناتِه‘۔
[4]۔ ص ۳۸: ۴۶۔ ’’ہم نے اُن کو ایک خاص کام ، یعنی دار آخرت کی یاددہانی کے لیے منتخب کرلیا تھا۔‘‘
[5]۔ ’ نفس ناطقہ‘ کا نفسیاتی تجزیہ اور عمل کے محرکات پر روشنی ڈالتے ہوئے مولانا امین احسن اصلاحی تحریر فرماتے ہیں:
’’اِن میں سے پانچواں محرک ــــــ نفس ناطقہ یا روح ملکوتی ــــــ بلاشہ اِس اعتبار سے قابل اعتماد ہے کہ یہ ایک عقلی اور اخلاقی محرک ہے۔ اِس کی روح ملکوتی اور اِس کی پرواز ہمیشہ خدا کی طرف ہے، اِس وجہ سے اِس سے یہ اندیشہ نہیں ہے کہ یہ انسان کو اِسی دنیا کی کسی دلدل میں پھنسا دے۔ لیکن غور کیجیے تو معلوم ہوگا کہ تمام خوبیوں کے ساتھ ایک نقص اِس کے اندر بھی ہے اور وہ ہے اِس کے مزاج کا یک رُخا پن۔ اپنے اِس یک رُخے پن کے سبب سے اِس کا حال یہ ہے کہ اگر اِس کو بغیر کسی روک ٹوک کے اپنی رَو پر بہنے کے لیے چھوڑ دیا جائے تو یہ دوسرے محرکات (ضروریات، خواہشات ،جذبات، وغیرہ) کے ساتھ کوئی رواداری برتنے پر آمادہ نہیں ہوتا، بلکہ بسا اوقات اُن کو نہ صرف نظر انداز کرکے ، بلکہ اُن کو کچلتا اور پامال کرتا ہوا نکل جاتا ہے۔اِس سے زندگی کے اندر وہ ناہمواریاں اور بے اعتدالیاں پیدا ہوتی ہیں جس کے مظاہر ہم جوگیوں ، راہبوں اور درویشوں کی زندگیوں میں دیکھتے ہیں۔‘‘(تزکیۂ نفس۲۳۲)
[6]۔ جدید الحاد کے جواب میں ملاحظہ فرمائیں مولانا کی مشہور کتاب ’’مذہب اور جدید چیلنج ‘‘ (۱۹۶۶ء) جو عربی میں ’’الإسلام یتحدّیٰ‘‘ (۱۹۷۰ء) ا ور انگریزی میں ’’ God Arises‘‘ (۱۹۸۵ء) کے نام سے شائع ہوچکی ہے۔
[7]۔ آج کل تقریباً تمام ’ مذہبی‘ گروہوں کے درمیان جس طرح خدا کے خوف اور محبت سے خالی بے روح ’مذہبیت‘ کا عمومی فیشن رائج ہے، یہاں ’بے خدا مذہبیت‘ کی تعبیر کے ذریعے سے اِسی ظاہرے کی طرف اشارہ کیاگیا ہے۔
[8]۔ مولانا کا اسلوب تحریر اپنے وضوح اور اِبلاغ جیسی خوبیوں کی بنا پر ایک منفرد اسلوب ہے۔ ابتدا میں ادب کا یہ ذوق مولانا کے اندر اپنے عم زاد بھائی اقبال احمد خاں سہیل (وفات : ۱۹۵۵ء) کی علمی رفاقت سے پروان چڑھا، جو علامہ شبلی نعمانی (وفات: ۱۹۱۴ء)کے براہ راست شاگرد وں میں سے تھے۔اِس کے بعد دومشہور اہل علم ــــ امین احسن اصلاحی (وفات: ۱۹۹۷ء) اور سید ابو الاعلیٰ مودودی (وفات: ۱۹۷۹ء) جیسے صاحب طرز انشاپردازوں میں ــــ اول الذکر سے ابتداء ًبراہ راست تلمذ اور ثانی الذکر سے فکری استفادہ (تمہید ’علم جدید کا چیلنج‘مطبوعہ: مجلس تحقیقات ونشریات، لکھنؤ) اور عملی رفاقت کی بنا پر مولانا کا اسلوب ترقی پذیر رہا، یہاں تک کہ رفتہ رفتہ وہ خود ایک منفرد اسلوب بن گیا۔ادبی تنقید کا ذوق رکھنے والا ایک شخص مولانا کے اسلوب میں مذکورہ دونوں اہل علم کی لفظیات، اُن کے ادب واِنشا کا رنگ و آہنگ اور اسلوب کا جلال وجمال دیکھ سکتا ہے۔ یہ ایک الگ موضوع ہے ۔ اِس پر یہاں اِس سے زیادہ کلام کی گنجایش نہیں۔
[9]۔ یہاں اِس موضوع کے تفصیلی تجزیہ کا موقع نہیں۔ سر دست مشہور مستشرق پروفیسرتھامس واکر آرنلڈ (وفات: ۱۹۳۰ء ) کی کتاب ’’The Preaching of Islam‘‘ کا مطالعہ اِس معاملے کی حقیقت کو جاننے کے لیے کافی ہوگا۔اِس کتاب کا اردو ترجمہ ’’دعوت اسلام‘‘(ادارہ نشریات، لاہور) کے نام سے شائع ہوچکا ہے۔ یہ کتاب آن لائن (https://kitabosunnat.com) بھی دستیاب ہے۔
[10]۔ ’الذین فرّقوا دینھم وکانوا شیعًا، ھم المشرکون‘، یعنی جو لوگ ایک خدائی دین میں تفریق پیدا کرکے اُس کو کئی متفرق دین بنا دیں اور اِس طرح وہ باہم مختلف گروہ بن جائیں، وہ یقیناً ایک مشرکانہ عمل کا ارتکاب کرنے والے ہیں (تفسیر التحریر والتنویر، محمد طاہر بن عاشور ۲۱/ ۹۶ )۔
[11]۔ فکر اسلامی ، مولاناوحیدالدین خاں ۱۰۸۔
[12]۔ زیرنظر تحریر میں یہ وضاحت بظاہر غیر متعلق معلوم ہوگی، مگر دعوتی تحریکوں اور اُن کے قائدین کی نسبت سے پیدا ہونے والے سخت غلو اور تعصبات کے اعتبار سے دیکھا جائے تو اہل علم کے نزدیک یہ ایک انتہائی اہم توضیح قرار پائے گی۔
[13]۔ العنکبوت ۲۹: ۶۔’’اور جو لوگ راہِ حق میں مجاہدہ کر تے ہیں، وہ اپنے ہی لیے کر تے ہیں، اِس لیے کہ اللہ توتمام دنیا والوں سے بالکل بے نیاز ہے۔‘‘
[14]۔ فاطر ۳۵: ۱۵-۱۷۔’’لوگو، یقیناً تم ہی اللہ کے محتاج ہو۔ اللہ تو بے نیاز اور ستودہ صفات ہے۔ وہ چاہے تو تمھیں لے جائے اور تمھاری جگہ ایک نئی مخلوق یہاں لے آئے۔ یہ اللہ کے لیے کچھ بھی مشکل نہیں ہے۔‘‘
[15]۔الانعام ۶: ۹۴۔’’بالآخراب تم بالکل اُسی طرح یک و تنہا ہمارے پاس آگئے ، جیسے پہلی مرتبہ ہم نے تمھیں پیدا کیا تھا۔ جو کچھ (دنیا میں)ہم نے تم کو دیا تھا، وہ سب کا سب اپنے پیچھے چھوڑ کر۔‘‘
[16]۔ سبا ۳۴: ۱۳۔’’ واقعہ یہ ہے کہ میرے بندوں میں بہت کم بندے شکرگزار ہواکرتے ہیں۔‘‘