محمد تہامی بشر علوی
خدا نے مومنین کے لیے یہ طریقہ مقرر کیا ہے کہ وہ نماز میں قیام کی حالت اختیار کریں۔ چنانچہ ایک بندۂ مومن اس کے سامنے باادب ہو کر کھڑا ہوجاتا ہے ۔اس لمحے اس کی زبان سے نکلنے والا ایک ایک لفظ خدا کی ثنا میں ڈوبا ہوتا ہے۔رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول کلمات و مناجات پر غور کیا جائے تو اندازہ ہوجاتا ہے کہ کس طرح ایک عبد کامل اپنے خدا کے حضور ثنا و مناجات کے جذبات لیے حاضر ہوتا ہے۔کوئی چاہے تو انھی الفاظ میں اپنے احساسات شامل کرکے وہی الفاظ ثنا و مناجات کے لیے ادا کر سکتا ہے،اور کوئی چاہے تو اپنے احساسات اپنی زبان میں ادا کردے۔ یہاں جناب جاوید احمد صاحب غامدی کی کتاب ’’میزان‘‘ کے باب ’’نماز‘‘ سے رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے ادا کردہ چند الفاظ نقل کیے جاتے ہیں ۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز شروع کرتے تو تکبیر کے بعد اِس طرح کہتے تھے:
وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَالْأَرْضَ حَنِیفًا وَّمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِیْنَ، إِنَّ صَلَاتِيْ وَنُسُکِيْ وَمَحْیَايَ وَمَمَاتِيْ لِلہِ رَبِّ الْعَالَمِینَ، لَا شَرِیكَ لَهُ وَبِذٰلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَا مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ. اَللّٰهُمَّ أَنْتَ الْمَلِكُ، لَا إِلٰهَ إِلَّا أَنْتَ، أَنْتَ رَبِّيْ وَأَنَا عَبْدُكَ، ظَلَمْتُ نَفْسِيْ وَاعْتَرَفْتُ بِذَنْبِيْ، فَاغْفِرْ لِيْ ذُنُوْبِيْ جَمِیْعًا، إِنَّهُ لَا یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ إِلَّا أَنْتَ، وَاهْدِنِيْ لِأَحْسَنِ الْأَخْلَاقِ، لَا یَهْدِيْ لِأَحْسَنِهَا إِلَّا أَنْتَ، وَاصْرِفْ عَنِّيْ سَیِّئَهَا، لَا یَصْرِفُ عَنِّيْ سَیِّئَهَا إِلَّا أَنْتَ، لَبَّیْكَ وَسَعْدَیْكَ، وَالْخَیْرُ کُلُّهُ فِي یَدَیْكَ، وَالشَّرُّ لَیْسَ إِلَیْكَ، أَنَا بِكَ وَإِلَیْكَ، تَبَارَكْتَ وَتَعَالَیْتَ، أَسْتَغْفِرُكَ وَأَتُوْبُ إِلَیْكَ.(مسلم، رقم۱۸۱۲)
’’میں نے تو اپنا رخ بالکل یک سو ہو کر اُس ہستی کی طرف کرلیا ہے جس نے زمین و آسمان کو پیدا کیا ہے اور میں ہرگز مشرکوں میں سے نہیں ہوں ۔ میری نماز اور میری قربانی ، میرا جینااور مرنا، سب اللہ پروردگار عالم کے لیے ہے ۔ اُس کا کوئی شریک نہیں ، مجھے اِسی کا حکم دیا گیا ہے اورمیں مسلمانوں میں سے ہو ں ۔ اے اللہ ، تو بادشاہ ہے ، تیرے سوا کوئی الٰہ نہیں۔ تو میرا پروردگار ہے اور میں تیرا بندہ ہوں۔ میں نے اپنی جا ن پر ظلم ڈھایا ہے اور اب اپنے گناہوں کا اقرار کرتا ہوں ۔ پس تو میرے سب گناہ بخش دے ، اِس میں شبہ نہیں کہ گناہوں کو تو ہی بخشتا ہے۔ اورمجھے اچھے اخلاق کی ہدایت عطا فرما، اِن کی ہدایت بھی تو ہی دیتا ہے ۔ اور برے اخلاق کو مجھ سے دور کردے ، اِن کو دور بھی مجھ سے تو ہی کرے گا۔ میں حاضر ہوں ، پروردگار ، تیراحکم بجا لانے کے لیے پوری طرح تیارہوں ۔ تمام بھلائی تیرے ہی ہاتھ میں ہے اور برائی کی نسبت تیری طرف نہیں ہے ۔ میں تیری قوت سے قائم ہو ں اور مجھے لوٹنا بھی تیری ہی طرف ہے۔تو برکت والاہے، بلند ہے ۔ میں تجھ سے مغفرت مانگتا ہوں اور تیری طرف رجوع کرتا ہوں ۔‘‘
ام المومنین سیدہ عائشہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کی ابتدا اِن کلمات سے کرتے تھے :
سُبْحَانَكَ، اللّٰهُمَّ وَبِحَمْدِكَ، وَتَبَارَكَ اسْمُكَ وَتَعَالٰی جَدُّكَ، وَلَاإِلٰهَ غَیْرُكَ. (ابوداؤد، رقم ۷۷۶)
’’اے اللہ ، تو پاک ہے اور ستودہ صفات بھی۔ تیرا نام بڑی برکت والا ہے ،تیری شان بڑی بلند ہے ، اور تیرے سواکوئی الٰہ نہیں ہے ۔‘‘
ام المومنین ہی کی روایت ہے کہ رات کی نماز نبی صلی اللہ علیہ وسلم اِس دعا سے شروع کرتے تھے :
اَللّٰهُمَّ، رَبَّ جِبْرَائِیلَ وَمِیکَائِیلَ وَإِسْرَافِیلَ، فَاطِرَ السَّمٰوٰتِ وَالْأَرْضِ، عَالِمَ الْغَیْبِ وَالشَّہَادَةِ، أَنْتَ تَحْکُمُ بَیْنَ عِبَادِكَ فِیمَا کَانُوْا فِیْهِ یَخْتَلِفُوْنَ. اِھدِنِيْ لِمَا اخْتُلِفَ فِیهِ مِنْ الْحَقِّ بِإِذْنِكَ، إِنَّكَ تَهْدِيْ مَنْ تَشَائُ إِلٰی صِرَاطٍ مُسْتَقِیمٍ.(مسلم ، رقم ۱۸۱۱)
’’اے اللہ ، جبریل و میکائیل اور اسرافیل کے پروردگار ، زمین و آسمان کے پیدا کرنے والے ، غیب و حضور کے جاننے والے، تو اپنے بندوں کے مابین اُن کے اختلافات کا فیصلہ فرما ئے گا۔ حق کے معاملے میں جتنے اختلافات ہیں، تو اپنی توفیق سے اُن میں میری رہنمائی فرما ۔اِس میں شبہ نہیں کہ تو جس کو چاہتا ہے، (اپنے قانون کے مطابق ) سیدھی راہ کی ہدایت بخشتا ہے ۔‘‘
اس ثنا کے بعد ہم نماز میں سورۂ فاتحہ کی تلاوت کرتے ہیں۔اس سورہ میں ہم خدا سے عہد بندگی کی تجدید کرتے ہیں۔اس کے سامنے اعتراف کرتے ہیں کہ ہم نے بندگی کا رشتہ تیرے سوا کہیں اور استوار نہیں کرنا۔ ہم یہ کہتے ہیں کہ خدایا! ہم اپنے وجود و بقا سے لے کر زندگی کے ہر ہر مرحلے میں تیرے ہی محتاج ہیں، سو ہم تجھی سے ہر گھڑی مدد کے خواست گار ہیں۔ ہم اس سے درخواست کرتے ہیں کہ عملی زندگی میں ہمیشہ درست راہ کا انتخاب ایک مشکل امتحان ہے، خدایا! تو ہر موڑ پر ہمیں درست راہ سجھا دینا۔صراط مستقیم زندگی کے کسی مرحلے میں ہم سے گم نہ ہوجائے۔اس دعا میں مانگی جانے والی یہ چیز اتنی اہم ہے کہ اسی کی بنیاد پرمرنے کے بعد کی ہمیشہ والی زندگی کا فیصلہ ہو گا۔زندگی کایہ دوسرا اخروی حصہ ہمیشہ کے لیے ہے، وہاں کسی کے لیے فنا یا موت نہیں۔ اس ہمیشہ کی زندگی کے قوانین دنیوی زندگی سے مکمل مختلف ہوں گے۔ وہاں منتخب لوگوں کے سوا کسی کو مرضی سے سانس بھی نہ لینے دیا جائے گا۔وہاں، امتحان کی خاطر ملنے والی آزادی ،انسانوں سے سلب ہو جانی ہے۔وہاں مال و دولت، اور عہدوں اور اختیارات کی بنیاد پر کامیابی کا کوئی تصور نہیں۔
اس دعا کا تعلق اسی اہم ترین چیز سے ہے جس کے مل جانے کے بعد ہی اُس دائمی جہاں میں کامیابی کا جینا نصیب ہو سکے گا۔ وہ دعا وہی ہے جسے سورۂ فاتحہ کا نام دے کر قرآن مجید کا مقدمہ بنا دیا گیا ہے۔اس دعا کے الفاظ یہ ہیں :
اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ. الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ. مٰلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ. اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَاِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ. اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ. صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْﵿ غَيْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّآلِّيْنَ.(الفاتحہ۱ :۱- ۶)
’’شکر اللہ ہی کے لیے ہے، عالم کا پروردگار[1]۔ سراسر رحمت، جس کی شفقت ابدی ہے۔ جو روز جزا کا مالک ہے۔(پروردگار)، ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھی سے مدد چاہتے ہیں۔ ہمیں سیدھی راہ کی ہدایت بخش دے۔اُن لوگوں کی راہ جن پر تو نے عنایت فرمائی ہے، جو نہ مغضوب ہوئے ہیں، نہ راہ سے بھٹکے ہیں۔‘‘[2]
____________
[1]۔ اصل میں لفظ ’الْحَمْدُ‘ استعمال ہوا ہے ۔ عربی زبان میں یہ کسی کی خوبیوں اور کمالات کے اعتراف کے لیے بولا جاتا ہے ۔ پھر اِن خوبیوں اور کمالات کا فیض اگرحمد کرنے والے کو بھی پہنچ رہا ہو تو اِس میں شکر کا مفہوم آپ سے آپ شامل ہو جاتا ہے۔ چنانچہ سورۂ اعراف (۷) آیت۴۳، سورۂ یونس (۱۰) آیت ۱۰ اور سورۂ ابراہیم (۱۴) آیت۳۹ میں اِس کے نظائر سے واضح ہوتا ہے کہ ’اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ‘ کی ترکیب میں یہ بالعموم اُسی مفہوم کو ادا کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے جسے ہم لفظ ’شکر‘ سے ادا کرتے ہیں۔ اِس سورہ میں ، اگر غور کیجیے تو یہ اُس جذبۂ شکر و سپاس کی تعبیر ہے جو اللہ تعالیٰ کی عالم گیر ربوبیت اور بے پایاں رحمت کے مشاہدے اور قیامت میں اُس کی ہمہ گیر دینونت کے بارے میں انبیا علیہم السلام کی تذکیر سے پیدا ہوتا ہے یا پیدا ہونا چاہیے ۔
اللہ کا نام لفظ ’اِلٰه‘ پر الف لام داخل کر کے بنا ہے، نزول قرآن سے پہلے عرب جاہلیت میں بھی یہ نام اُسی پروردگار کے لیے خاص تھا جو زمین و آسمان اور اُن کے مابین تمام مخلوقات کا خالق ہے ۔ اہل عرب مشرک ہونے کے باوجود اپنے دیوی دیوتاؤں میں سے کسی کو بھی اُس کے برابر قرار نہیں دیتے تھے۔
اصل میں ’رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ رب کے معنی اصلاً پالنے والے کے ہیں۔ پھر اِس مفہوم کے لازمی نتیجے کے طور پر مالک اور آقا کے معنی اِس لفظ میں پیدا ہوئے اور اردو کے لفظ ’پروردگار‘ کی طرح اِس پر ایسا غلبہ حاصل کرلیا کہ پرورش کرنے والے کے معنی میں اِس کا استعمال عربی زبان میں باقی نہیں رہا ۔ سورہ کی ابتدا جس جذبۂ شکر کی تعبیر سے ہوئی ہے ، یہ ’رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ‘ ا ور اِس کے بعد کی صفات اُس کی دلیل ہیں جو استدلال کے طریقے پر نہیں، بلکہ ایک بدیہی حقیقت کے اعتراف و اقرار کے اسلوب میں بیان ہوئی ہیں ۔ یعنی شکر اُس اللہ کے لیے ہے جو پوری کائنات کا مالک ہے ۔ ہم اُس کی مخلوق ہیں ۔ چنانچہ وہی ہمارا بھی مالک ہے ۔ہم دنیا میں قدم نہیں رکھتے کہ ہماری پرورش، نگہداشت اور تربیت کا پورا سامان اُس مالک کی طرف سے بالکل تیار موجود ہوتا ہے۔ پھر جب تک ہم زندہ رہتے ہیں ،صبح و شام اِس حقیقت کا مشاہدہ کرتے ہیں کہ سورج ،چاند، ابروہوا، غرض یہ کہ کائنات کے سب چھوٹے بڑے عناصر ہماری ہی خدمت کے لیے سرگرم عمل ہیں اور اِس لیے سرگرم عمل ہیں کہ اُن کی باگ ایک ایسی ہستی کے ہاتھ میں ہے جو اُن کے دائرۂ عمل اور اُن کی غایت اور مقصود سے اُنھیں سرمو انحراف کی اجازت نہیں دیتی۔ ’رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ‘یہاں اِسی حقیقت کی تعبیر ہے۔
[2]۔ یعنی اُن لوگوں کی راہ جنھیں تو نے اپنی ہدایت سے نوازا اور اُنھوں نے پورے دل اور پوری جان کے ساتھ اِس طرح اُسے قبول کیا کہ تیری نعمت ہر لحاظ سے اُن پر پوری ہو گئی ۔ سورۂ نساء (۴) کی آیت ۶۹میں وضاحت ہے کہ اِس سے مراد انبیا و صدیقین اور شہداوصالحین کی مقدس جماعت ہے ۔
یعنی وہ لوگ جنھوں نے اپنی سرکشی کے باعث اِس ہدایت کو قبول کرنے سے انکار کر دیا یا قبول کیا تو دل کی آمادگی سے قبول نہیں کیا اور ہمیشہ اِس سے انحراف پر مصر رہے ۔خدا کے جن بندوں نے اُن کی اصلاح کرنا چاہی، اُنھیں جھٹلایا، یہاں تک کہ اُن میں سے بعض کو اذیتیں دیں اور بعض کو قتل کر دیا۔ چنانچہ اپنے اِن جرائم کی پاداش میں وہ خدا کے غضب کے مستحق ٹھیرے۔ اِس میں اشارہ یہود کی طرف ہے جن پر آگے سورۂ بقرہ میں اتمام حجت کیا گیا ہے۔
یعنی جنھوں نے دین کا چہرہ اپنی بدعتوں اور ضلالتوں سے اِس طرح مسخ کر دیا کہ اب خود بھی اُسے پہچاننے سے قاصر ہیں۔ اِس میں اشارہ سیدنا مسیح علیہ السلام کے پیرووں کی طرف ہے جن پر آگے سورۂ آل عمران میں اتمام حجت کیا گیا ہے (البیان، جاویداحمدغامدی ۲۳)۔