[’’سیر و سوانح ‘‘ کے زیر عنوان شائع ہونے والے مضامین ان کے فاضل مصنفین کی اپنی تحقیق پر مبنی ہوتے ہیں، ان سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔ ]
حضرت ابو احمد بن جحش كا نام عبد تھا، لیكن وه اپنی كنیت ابو احمد اور نسبت اسدی سے مشہور ہیں۔ ان کے داداکا نام رئاب (ریاب :ابن عبد البر)بن یعمر تھا۔ اپنے نویں جد اسد بن خزیمہ کی نسبت سے ان کا قبیلہ بنواسد اور دسویں جد خزیمہ بن مدركہ كے نام پر بنوخزیمہ کہلاتا ہے۔ ابن سعد نے حضرت ابو احمد كے ساتویں جد کے نام پر بنو غنم بن دودان كو ان كا ذیلی قبیلہ قرار دیا ہے۔حضرت ابواحمد كے اجداد زمانۂ جاہلیت میں نجد سے آ كر مكہ میں آباد ہو ئے ۔ان كے والد جحش بن رئاب نےحضرت ابو سفیان كے والد، عبد شمس كے پوتے حرب بن امیہ کی محالفت اختیار كی۔ذی الحجہ كے پہلے دس دنوں میں عرب محالفت كے پیمان كیا كرتے تھے، ایك بار اسود بن عبدالمطلب نے حضرت ابواحمد بن جحش كو حلیف بننے كی پیشكش كی اور كہا:میرا خون تمھاری جان بچانے كےلیے اور میرا مال تمھارا مالی نقصان پورا كرنے كے لیے حاضر ہو گا، لیكن وه نہ مانے اور حرب بن امیہ كا حلیف رہنا روا ركھا۔
حضرت ابو احمد بن جحش رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پھوپھی زادتھے،ان کی والدہ حضرت امیمہ بنت عبدالمطلب آپ کی پھوپھی تھیں۔
عام خیال یہی ہے کہ حضرت ابواحمد کے والد جحش بعثت نبوی سے پہلے انتقال كر چکے تھے، تاہم ایک روایت ہے کہ وہ زندہ تھے اور نعمت ایمان سے سرفراز ہوئے۔جحش بن رئا ب کے کل چھ بچے تھے،تاریخ اسلامی میں ہر ایک کا اہم مقام ہوا۔حضرت ابواحمد بن جحش اوران كے سگے بھائی حضرت عبداللہ بن جحش اكٹھے ایمان لائے۔ ام المومنین حضرت زینب بنت جحش،حضرت عبدالرحمٰن بن عوف کی اہلیہ حضرت ام حبیبہ بنت جحش، حضرت مصعب بن عمیر کی زوجہ حضرت حمنہ بنت جحش، حضرت ابو احمد بن جحش کی بہنیں تھیں۔ان كا بیاه ابوسفیان كی بیٹی حضرت فارعہ سے ہوا تھا۔ ابن ہشام نے فرعہ لكھا، یہ عربی كے اس قاعدے كے مطابق ہے كہ وسط كلمہ سے الف لینہ كو رسماً و خطاًحذف كر دیا جاتا ہے، اگرچہ یہ بولنے میں موجود رہتا ہے۔ مثال كے طور پر: ’لٰكن، إلٰه، الرحمٰن‘ (المنهاج السعودي)۔ حضرت ابو احمد بن جحش نابینا تھے، لیكن مكہ كے نشیب وفراز میں كسی سے مدد لیے بغیر گھومتے پھرتے تھے۔
اكثر یہ اشعار پڑھا كرتے تھے:
یا حبذا مكة من واد
أرض بها أهلي و عوادي
’’كیا ہی خوب صورت ہے مكہ كی وادی،یہ ایسی سر زمین ہے جس میں میرا كنبہ ہے اور مجھ سے ملنے جلنے والے ہیں۔‘‘
إني بها ترسخ أوتادي
أرض بها أمشي بلا هادي
’’اسی دھرتی میں میری میخیں گڑی ہیں، اسی سر زمین میں میں انگلی پكڑنے والے رہبر كے بغیر چلتا پھرتا ہوں۔‘‘
حضرت ابو موسیٰ اشعری ،سعید بن مسیب، حسن بصری،قتاده اور ابن سیرین نے ’السابقون الأولون‘ كی تعریف یوں كی ہے: وه تمام مہاجرین و انصار جنھوں نے دونوں قبلوں،مسجد اقصیٰ اور بیت الله كی طرف رخ كر كے نماز پڑھی ہے۔تحویل قبلہ كا حكم ہجرت كے سوا سال بعد غزوۂ بدر سے دوماه پہلے نازل ہوا۔محمد بن كعب قرظی اور عطا بن یسارنے اس تعریف كو وسعت دی اور تمام اہل بدر كو ’السابقون الأولون‘ میں شمار كیا۔ شعبی نے صلح حدیبیہ تك تمام ایمان لانے والوں كو ’السابقون الأولون‘ كا مصداق سمجھا ہے۔زمخشری نے وضاحت كی ہے كہ بیعت عقبہ اولیٰ و ثانیہ میں شامل انصار اورمدینہ كے پہلے معلم حضرت مصعب بن عمیر كے ہاتھ پر اسلام قبول كرنے والے انصاری ’السابقون الأولون من الأنصار‘ ہیں۔ اصل بات یہ ہے كہ اسلام كے ابتدائی دور میں دین حق كو اختیار كرنے والے ہیں ،جب الله واحد كا نام لینے والے تھوڑے تھے اور شدید مزاحمتوں اورسخت عقوبتوں كا سامناتھا، اس خطاب خداوندی كےاصل حق دار ہیں۔جو اصحاب رسول بعد میں ایمان لائے، ان سے بھی الله راضی ہوا اور انھیں بھی ابدی جنتوں كی نوید سنائی۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’وَالسّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُهٰجِرِيْنَ وَالْاَنْصَارِ وَالَّذِيْنَ اتَّبَعُوْهُمْ بِاِحْسَانٍﶈ رَّضِيَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَرَضُوْا عَنْهُ وَاَعَدَّ لَهُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ تَحْتَهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْهَا٘ اَبَدًاﵧ ذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُ‘، ’’اوروه مہاجرین و انصار جو سبقت لے جانے میں اول تھے اور وه جنھوں نے(بعد میں) خوب كاری كے ساتھ ان كی پیروی كی،الله ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے، الله نےان كے لیے ایسی جنتیں مہیا كر ركھی ہیں جن كے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، وه ان میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے،یہی بڑی كامرانی ہے‘‘(التوبہ ۹: ۱۰۰)۔
’السابقون الأولون‘ كی پہلی فہرست ابن اسحاق نے بیان كی، اسی كی بنیاد پر ابن ہشام نے اپنی فہرست مرتب كی۔اس كے مطابق السابقون میں حضرت ابو احمد بن جحش كا نمبر اكتیسواں ہے۔ وه اپنے بھائیوں حضرت عبدالله بن جحش اور عبیدالله بن جحش كے ساتھ رسول الله صلی الله علیہ وسلم كے تعلیم و تبلیغ دین كے لیے دارارقم كو مركز بنانے سے پہلے ایمان لائے۔ عبیدالله حبشہ جا كر عیسائی ہو گئے اور وہیں وفات پائی۔’’سیرت ابن اسحاق‘‘ كے برطانوی مترجم Alfred Guillaume (۱۹۵۵ء)كا خیال ہے كہ حضرت ابو احمد بن جحش حضرت ابوبكر كی دعوت پر ایمان لائے۔افسوس، ہمیں اس دعوے كا كوئی ثبوت نہیں ملا۔
اپنے بھائیوں حضرت عبدالله اور عبیدالله كے برعكس حضرت ابواحمد بن جحش نابینا ہونے كی وجہ سے حبشہ نہ گئے اور مكہ ہی میں مقیم رہے۔ بلاذری كہتے ہیں:جو ان كی ہجرت حبشہ كا دعویٰ كرتا ہے، غلط كہتا ہے۔
انصار کے قبول اسلام کے بعد آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل ایمان کو مدینہ ہجرت کرنے کا اذن دیا تو حضرت ابوسلمہ نے پہلے مہاجرہونے کا شرف حاصل کیا۔ان کے بعد حضرت عامر بن ربیعہ، حضرت ابو احمد عبد بن جحش، حضرت عبداللہ بن جحش اور ان کے اہل خانہ دار ہجرت پہنچے اورقبا میں بنو عمرو بن عوف کے محلہ میں حضرت مبشر بن عبدالمنذر(ابن سعد،ابن ہشام،ابن اثیر، ایك روایت:حضرت عاصم بن ثابت)کے ہاں مقیم ہوئے۔ حضرت ابو احمد کے اعزہ حضرت عکاشہ بن محصن، حضرت ابوسنان بن محصن، حضرت سنان بن ابوسفیان، حضرت شجاع بن وہب، حضرت عقبہ بن وہب، حضرت اربد بن حمیر(جمیرہ:ابن كثیر)، حضرت منقذ بن نباتہ، حضرت سعید بن رقیش، حضرت یزید (زید:ابن كثیر)بن رقیش، حضرت محرز بن نضلہ، حضرت قیس بن جابر، حضرت عمرو بن محصن، حضرت مالک بن عمرو، حضرت صفوان بن عمرو، حضرت ثقف بن عمرو، حضرت ربیعہ بن اکثم، حضرت تمام بن عبیدہ، حضرت سخبرہ بن عبیدہ، حضرت محمد بن عبدالله بن جحش اور حضرت زبیر بن عبید ہ نے بھی ہجرت کی۔بنو غنم کی خواتین میں سے حضرت زینب بنت جحش، حضرت حمنہ بنت جحش، حضرت ام حبیب بنت جحش، حضرت جدامہ بنت جندل، حضرت ام قیس بنت محصن، حضرت ام حبیب بنت ثمامہ، حضرت آمنہ بنت رقیش اور حضرت سخبرہ بنت تمیم نے مردوں کا ساتھ دیا۔ پھر مسلمانوں کی اکثریت نے ہجرت کے لیے رخت سفر باندھ لیا۔ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم ۲۱ ؍ربیع الاول کو تشریف لائے۔
حضرت فارعہ مدینہ جانے پر تیار نہ تھیں۔اس موقع پر حضرت ابو احمد بن جحش نے كچھ اشعاركہے،ان میں سے دو نذر قارئین ہیں:
فقلت لها بل یثرب الیوم وجهنا
فما یشإ الرحمان فالعبد یركب
’’میں نے اپنی اہلیہ فارعہ (ام احمد ) سے كہا :آج كوئی اوردور كا ملك نہیں، بلكہ یثرب ہی ہماری منزل ہے۔خداے رحمٰن جو چاہتا ہے،بندہ وہی كر گزرتا ہے۔‘‘
إلی الله وجهي و الرسول و من یقم
إلی الله یومًا وجهه لا یخیب
’’میرا رخ الله و رسول كی جانب ہے، جو الله كی طرف رخ كر لیتا ہے،نا مراد نہیں ہوتا ۔‘‘
حضرت ابواحمد بن جحش نے مدینہ میں جنت البقیع سے ملحق اپنا گھر تعمیر كیا۔
بنو غنم کے تمام مردو عورت مدینہ ہجرت کر گئے تو ان کے گھروں کو تالے لگ گئے۔مكہ كے مقام ردم كے قریب معلاة میں واقع حضرت ابواحمد بن جحش کا گھربھی مقفل ہو گیا۔بنوغنم کی طرح بنو بکیراور بنومظعون کے گھر بھی مکینوں سے خالی ہو گئے۔ایک بار عتبہ بن ربیعہ، عباس بن عبدالمطلب اور ابو جہل بالائی مکہ جاتے ہوئے بنو جحش کے مکان کے پاس سے گزرے۔عتبہ نے اس كے دروازوں كو شكستگی كی وجہ سے كھڑ كھڑاتا ہوا اور گھر كو بے آباد، بلا ساكن دیکھا تو سرد آہ بھری اورابودواد ایادی کا یہ شعر پڑھا:
وکل دار و إن طالت سلامتها
یومًا ستدرکها النکباء والحوب
’’ہر گھر چاہے کتنی دیر صحیح و سالم رہے، ایک دن الٹے رخ کی ہوا چلتی ہے اور اس پر ویرانیاں چھاجاتی ہیں۔‘‘
ابو جہل نے کہا: اس گھركی بربادی پر کوئی ایك بھی رونے والا نہ ہو گا۔ پھرعباس سے مخاطب ہوا: یہ تمھارے بھتیجے محمد کا کام ہے، اس نے ہماری جمعیت کومنتشر کر دیا ہے،قو م کا شیرازہ بکھیر دیا ہے اورہم میں جدائیاں ڈال دی ہیں۔ کچھ دیر کے بعدابوسفیان نےاسے اپنی بیٹی حضرت فارعہ كا گھرسمجھ كر اس پر قبضہ کر لیا اور عمرو بن علقمہ کے ہاتھ چار سو دینار كے عوض بیچ كر اپنے قرض سے چھٹكارا پایا۔حضرت عبداللہ بن جحش نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کیا تو آپ نے فرمایا: عبداللہ ،کیا تم اس بات پر خوش نہیں کہ اللہ تمھیں جنت میں اس سے بہتر گھر دے دے گا؟بعد میں یہ گھر حضرت عثمان كے قبضے میں آ گیا، ان كے بیٹے ابان حج و عمره كے موقع پر مكہ جاتے تو اس گھر میں ٹھیرتے،چنانچہ یہ انھی كے نام سے موسوم ہو گیا۔
حضرت ابواحمد بن جحش اور حضرت عمرو بن ام مكتوم جہاد كی تڑپ ركھتے تھے، لیكن نابینا ہونے كی وجہ سے غزوات میں حصہ نہ لے سكے۔ان كے برعكس منافقین الله كی راه میں جہاد سے بچنے كے لیے حیلے بہانے كرتے۔ الله كے اس فرمان سےان مخلصین اور نفاق كے مارے ہوئے ہٹوں كٹوں میں خوب امتیاز ہوجاتا ہے:
لَا يَسْتَوِي الْقٰعِدُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ غَيْرُ اُولِي الضَّرَرِ وَالْمُجٰهِدُوْنَ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ بِاَمْوَالِهِمْ وَاَنْفُسِهِمْﵧ فَضَّلَ اللّٰهُ الْمُجٰهِدِيْنَ بِاَمْوَالِهِمْ وَاَنْفُسِهِمْ عَلَي الْقٰعِدِيْنَ دَرَجَةًﵧ وَكُلًّا وَّعَدَ اللّٰهُ الْحُسْنٰيﵧ وَفَضَّلَ اللّٰهُ الْمُجٰهِدِيْنَ عَلَي الْقٰعِدِيْنَ اَجْرًا عَظِيْمًا.(النساء ۴: ۹۵)
’’ اہل ایمان میں سے جہاد سے پیچھے بیٹھ رہنے والے،جنھیں كوئی عذر بھی لاحق نہیں اور الله كی راه میں اپنے مالوں اور جانوں سے جہاد كرنے والے برابر نہیں ہو سكتے۔الله نے اپنے مالوں اور جانوں سے جہاد كرنے والوں كو بیٹھ رہنے والوں پر ایك درجہ فضیلت بخشی ہے۔الله نے ان دونوں سے اچھا وعده كر ركھا ہے،تاہم الله نے جہاد كرنے والوں كو بیٹھ رہنے والوں كے مقابلے میں بڑے اجركی فضیلت دی ہے۔‘‘
یہ بات نبی صلی الله علیہ وسلم كے اس فرمان سے واضح ہو جاتی ہے جو آپ نے غزوۂ تبوك سے واپسی پر ارشاد فرمایا:بے شك، مدینہ میں كچھ لوگ ہیں، تم كوئی مسافت طے كرتے ہو یا كسی وادی سےگزرتے ہو تو وه تمھارے ساتھ ہی ہوتے ہیں۔صحابہ نے حیرت سے پوچھا:یارسول الله ، وه تو مدینہ میں ہیں؟آپ نے فرمایا:ہاں، وہ مدینہ میں ہیں، ا نھیں عذر نےروك ركھا ہے (بخاری، رقم ۴۴۲۳۔ ابوداؤد، رقم ۲۵۰۸۔ ابن ماجہ، رقم ۲۷۶۴۔ احمد، رقم ۱۲۶۲۹۔ صحیح ابن حبان، رقم ۴۷۳۱)۔ زمخشری كہتے ہیں: یہ وه اہل ایمان ہیں جن كی نیتیں درست ہیں،جن كے سینے كھوٹ سے پاك ہیں اور جن كے دل جہاد كی رغبت سے پر ہیں، لیكن انھیں لاحق عارضہ ان كے نكلنے میں ركاوٹ بن رہا ہے۔
۴ھ(۶۲۶ء)میں حضرت زینب بنت جحش كی آں حضور صلی الله علیہ وسلم كے منہ بولے بیٹے حضرت زید بن حارثہ سے علیحدگی ہوئی تو الله تعالیٰ كے فرمان كے مطابق آپ نے ان سے نكاح كر لیا۔حضرت زینب كے بھائی حضرت ابواحمد بن جحش ان كے والی مقرر ہوئے۔انھوں نے چار سو درہم كے عوض یہ عقد طے كیا۔
فتح مکہ كے موقع پرآں حضور صلی الله علیہ وسلم نے اہل مكہ سے خطاب فرمایا۔آپ كے خطبہ كے بعد حضرت ابو احمد بن جحش نے مسجد حرام كے دروازے پر اپنا اونٹ روكا اور پكارنےلگے :اے بنو عبد مناف،میں الله كا واسطہ دے كرتمھیں وه حلف یاد دلاتا ہوں جو تم نے مجھ سے كیا، میں تمھیں اپنا گھر یاد دلاتا ہوں۔آپ نے حضرت عثمان كو بلاكرچپكے سے كچھ كہا، وه حضرت ابواحمد بن جحش كے پاس آئے اور سرگوشی كی جس پر حضرت ابواحمد اونٹ سے اتر آئے اور لوگوں میں بیٹھ گئے۔اس كے بعد كسی نے ان سے گھر کا نام تك نہ سنا۔حضرت ابواحمد كے بچے بتاتے ہیں:رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ان سے وعده فرمایا تھا:الله تمھیں اس گھر كے بدلےمیں جنت میں گھر دے دے گا۔ صحابہ نےبھی ان كو تسلی دی: آپ پسند نہیں کرتے کہ جو مال اللہ کی راہ میں چلا گیا، اس کی واپسی کی کوشش کی جائے۔اس موقع پر حضرت ابواحمد نے ابوسفیان کو مخاطب کر کے یہ شعر کہے:
أبلغ اباسفیان عن
أمر عواقبه ندامه
’’ابو سفیان کو اس معاملے کے بارے میں بتا دو جس کے نتائج شرم ساری ہوں گے۔‘‘
دار ابن عمک بعتها
تقضی بها عنک الغرامه
’’اپنے چچیرے كاگھر تو بیچ ڈالا،اس كے بدلے میں تجھے تاوان دینا ہوگا۔‘‘
حضرت عمر نے منع كر ركھا تھا كہ انصار مدینہ اور مشركین مكہ كے ایك دوسرے كے خلاف كہے اشعار سنائے جائیں۔ غلبۂ اسلام سے دور جاہلیت ختم ہو چكا، اس لیے گڑے مردے اكھاڑ كر پرانی نفرتوں كو تازه نہ كیا جائے۔اسی زمانے میں مكہ كے دو مشہور شاعر عبدالله بن زبعری اور ضرار بن خطاب جو فتح مكہ كے بعد مسلمان ہو چكے تھے، مدینہ آئے اور حضرت ابواحمد بن جحش كے مہمان ہوئے۔ ان كے كہنے پر حضرت ابواحمد نے حضرت حسان بن ثابت انصاری كو بلایا اور اپنا اپنا كلام سنانے كی فرمایش كی۔ حضرت حسان نے مناسب سمجھا كہ وه ابتدا كریں، لیكن جب انھوں نے اپنے پرانے بغض اسلام پر مبنی اشعار پڑھنے شروع كیے تو وه غصے سے كھولنے لگے۔ ان كا رد عمل دیكھ كر ابن زبعری اور ضراراپنی سواریوں كی طرف لپكے اور مكہ كا رخ كیا۔ حضرت حسان حضرت عمر كے پاس پہنچے اور انھیں پوری بات بتائی۔حضرت عمر نے فوراً ان دونوں كو واپس بلایا اور صحابہ كے بھرے مجمع میں حضرت حسان كوان كے اشعار كا جواب دینے كو كہا۔ اس كے بعد عبدالله بن زبعری اور ضرار بن خطاب سے فرمایا: تم مدینہ میں رہنا چاہتے ہو تو بہت خوب اور اگر مكہ واپس جانا چاہتے ہو تو تمھاری خوشی۔پھر حاضرین كو مخاطب كیا: میں نے اس ناخوش گواری سے بچنے كے لیے اہل شرك اور اہل اسلام كے مابین ہونے والی قیل و قال دہرانے سے منع كیا تھا، لیكن اگر تم اس پر راضی نہیں توبے شك اپنی شاعری لكھواور یاد كرو (الأغاني:أخبار حسان بن ثابت ونسبه)۔
صحابہ كے سوانح نگاروں نے حضرت ابو احمد بن جحش كی پہلی بیوی حضرت فارعہ بنت ابوسفیان سے كسی اولاد كا ذكر نہیں كیا۔ ان كی نام بھلا دینے والی كنیت ابو احمد اور حضرت فارعہ كی كنیت ام احمد سے،ایسے لگتا ہے كہ احمد ان كے بیٹے تھے، لیكن كسی نے ان كا نام بھی نہیں لیا ۔ امریكا كی نو مسلم خاتون Aisha Bewely (تاریخ پیدایش: ۱۹۴۸ء)نے ’’طبقات ابن سعد‘‘ كا انگریزی ترجمہ كیا جو ۱۹۹۵ء میں لندن سے شائع ہوا۔اس میں انھوں نے ایسی تفصیلات بھی بیان كیں جو اصل عربی نسخے میں نہیں ملتیں۔ آٹھویں جلد كے ترجمے كا نام انھوں نے ’’The Women of Madina‘‘ ركھا۔ اس میں انھوں نے حضرت ابو احمد بن جحش كے دو بیٹے عبدالله او ر اسامہ بتائے ہیں۔
حضرت ابو احمد بن جحش نے حضرت قریبہ بنت قیس (ام حارث)سے شادی كی تو ان سے عبدالله بن ابواحمد كی ولادت ہوئی۔
ابن اثیر كا بیان ہے : ۲۰ھ (۶۴۱ء)میں ام المومنین حضرت زینب بنت جحش كا انتقال ہوا۔اپنی بہن كے رخصت ہونے كے كچھ ہی دنوں بعد حضرت ابواحمد بن جحش نے وفات پائی۔ Aisha Bewely نے اس موقع كی جو تفصیل بیان كی ہےہمیں عربی متن میں نہیں ملی: حضرت ابواحمد اپنی بہن كے جنازے كو كندھا دینا چاہتے تھے۔حضرت عمر نے معذوری كی وجہ سے انھیں منع كیا، لوگ بھی میت اٹھانے كے لیے بڑھے، لیكن حضرت ابو احمد نے جذباتی ہو كر روتے ہوئے كہا: زینب كی وجہ سے ہمیں بہت بركتیں حاصل تھیں اوران سے ہماری زندگی كی تلخیاں انگبیں ہوتی تھیں۔تب حضرت عمر خاموش ہو گئے۔ حضرت ابواحمد قبر كے كنارے پر كھڑے رہے، ان كے دو بیٹے اور دو بھتیجے لحد میں اترے۔
ابن حجر كہتے ہیں :یہ درست نہیں، اصل میں حضرت ابواحمد نے اپنی بہن كی زندگی ہی میں وفات پائی، دلیل میں وہ یہ روایت پیش كرتے ہیں۔ حضرت زینب بنت ابو سلمہ حضرت ابواحمد كی وفات كے كچھ دنوں بعد حضرت زینب بنت جحش سے ملنےگئیں تو انھوں نے خوشبو منگا كر لگوائی اور كہا: مجھے خوشبو لگانے كی ایسی ضرورت نہ تھی، لیكن میں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم كو جب آپ منبر پرتشریف فرما تھے، یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: جو عورت الله اور روز آخرت پر ایمان ركھتی ہے،اس كے لیے جائز نہیں كہ اپنے خاوند كے علاوه كسی كی موت پر تین دن سے زیادہ سوگ كرے (بخاری، رقم ۵۳۳۵۔ مسلم ، رقم ۳۷۱۹)۔ حضرت عبدالله بن جحش نے بھی اپنی بہن حضرت زینب كی زندگی میں وفات پائی،وه جنگ احد میں شہید ہوئے۔حضرت زینب كی تدفین كے وقت حضرت عبدالله بن جحش كے بیٹے محمد اورحضرت ابواحمد بن جحش كے بیٹے عبدالله قبر میں اترے، جب كہ ان كے دونوں بھائی موجود نہ تھے۔
مطالعۂ مزید: الطبقات الكبریٰ(ابن سعد)،السیرة النبویة(ابن ہشام)،أنساب الأشراف(بلاذری)، الأغانی (ابو الفرج اصفہانی)، qالاستیعاب فی معرفة الاصحاب (ابن عبدالبر)، اسد الغابة فی معرفة الصحابة (ابن اثیر)، السیرة النبویۃ (ابن كثیر)، الاصابة فی تمییز الصحابة(ابن حجر)، The Women of Madina, Wikipedia (Aisha Bewely)۔
_______
حضرت اسماء كے والد كا نام سلمہ (یا سلامہ )بن مخرمہ تھا۔نہشل بن دارم ان كے پانچویں، جب كہ تمیم بن مر گیارھویں جد تھے۔انھی كے نام سے ان كا قبیلہ بنو تمیم كہلاتا ہے۔حضرت اسماء ان دونوں آبا كی نسبت سے تمیمی اور دارمی كہلاتی ہیں۔ان كی والده كا نام سلمیٰ بنت زہیر تمیمی تھا۔
حضرت اسماء بنت سلمہ ان صحابیات میں سے تھیں جن كی شان الله تعالیٰ نے قرآن مجید میں ’السّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ‘ (التوبہ ۹: ۱۰۰) كے الفاظ سے بیان كی ہے۔ زمانۂ جاہلیت میں ان كی شادی ابو جہل كے ماں شریك، سوتیلے بھائی حضرت عیاش بن ابوربیعہ مخزومی کے ساتھ ہو چكی تھی۔۵/نبوی میں دونوں میاں بیوی اكٹھے ایمان لائے، نبی صلی الله علیہ وسلم ابھی دار ارقم میں تشریف فرما نہ ہوئے تھے۔ سبقت الی الاسلام میں ان كا نمبر ستائیسواں تھا۔
دین حق كی دعوت اہل مکہ کے دلوں پر اثر کرنے لگی اور دین اسلام کاچرچاہونے لگا تو مشرک سرداروں کو اپنے بتوں کی خدائی خطرے میں نظر آنے لگی۔ انھوں نے نو مسلم کم زوروں اور غلاموں پر ظلم و ستم ڈھانے شروع کر دیے۔اپنے اعزہ اور بھائی مشرك لیڈر ابوجہل كا خاص نشانہ تھے۔ان حالات میں نبی صلی الله علیہ وسلم نے صحابہ كو حبشہ ہجرت كرنے كا حكم دیا۔ حضرت عیاش بن ابو ربیعہ بھی سوے حبشہ رو انہ ہوگئے، حضرت اسماء اس سفر میں ان كے ساتھ تھیں، وہیں حضرت عبدالله بن عیاش كا جنم ہوا۔ اسی سال شوال كے مہینے میں قریش کے قبول اسلام کی افواہ حبشہ كے مہاجرین تک پہنچی تو حضرت عیاش اپنے كنبے سمیت مكہ واپس آ گئےاور یہیں مقیم ہو گئے، حبشہ واپس نہ گئے۔ابن اسحاق اور ابن كثیر نے مہاجرین حبشہ كی فہرست میں حضرت اسماء بنت سلمہ كا ذكر نہیں كیا۔
اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو مدینہ ہجرت کرنے کا اذن دیا توحضرت عیاش بن ابوربیعہ حضرت عمر كے ساتھ قبا پہنچے۔ ان كا ماں جایا ابوجہل بھی پیچھے پیچھے پہنچ گیا اور کہاكہ والدہ نے قسم کھائی ہے کہ وہ سرمیں تیل لگائے گی نہ سائے میں بیٹھے گی، جب تک تمھیں دیکھ نہ لے گی۔یوں بہلا پھسلا كراس نے انھیں واپسی پر آماده كیا، مگر راستے میں رسیوں سے باندھا اور مکہ لا كر قید خانے میں ڈال دیا۔ ان کے محبوس ہونے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے اورمكہ میں قید دوسرے مسلمانوں کے لیے دعاے قنوت مانگنا شروع کی۔حضرت عیاش كی رہائی غزوۂ خندق كے بعد ہوئی۔ حضرت اسماء بنت سلمہ مدینہ كے سفر ہجرت میں حضرت عیاش كے ساتھ تھیں اور ان كے مكہ واپس جانے كے بعدوہیں رك گئیں۔n
حضرت عیاش كی والده كا نام بھی اسماء تھا۔حضرت اسماء بنت مخرمہ، سلمہ بن مخرمہ كی بہن، یعنی حضرت اسماء بنت سلمہ بن مخرمہ كی پھوپھی تھیں۔ابوجہل بن ہشام،حارث بن ہشام، حضرت عیاش بن ابو ربیعہ اور حضرت عبدالله بن ابوربیعہ ان كے بیٹے تھے۔وہ اپنی كنیت ام الجلاس سے مشہور ہیں۔حضرت اسماء بنت سلمہ كی كنیت ام الجلاس بتانا درست نہیں۔ ابن حجر كہتے ہیں:ابن منده نے حضرت اسماء بنت سلمہ اور حضرت اسماء بنت مخرّمہ كے حالات زندگی خوب گڈ مڈ كیے ہیں۔
حضرت اسماء كی بیٹی حضرت ام حارث صحابیہ تھیں۔ ان کے پوتے حارث بن عبداللہ اجل تابعین میں سے تھے۔قباع ان کا لقب تھا۔ حارث کے بیٹے عبدالرحمٰن کا شمار کبارتبع تابعین میں ہوتا ہے۔
حضرت اسماء بنت سلمہ كا سن وفات معلوم نہیں، البتہ حضرت عیاش ۱۵ ھ میں جنگ یرموک یا جنگ اجنادین میں شہید ہوئے۔
حضرت اسماء بنت سلمہ نے حدیث براه راست نبی صلی الله علیہ وسلم سے روایت كی۔ ان كے بیٹے حضرت عبدالله بن عیاش نے ان سے روایت كی۔
مطالعۂ مزید:الاستیعاب فی معرفة الاصحاب (ابن عبدالبر)، اسد الغابة فی معرفة الصحابة(ابن اثیر)، البدایةوالنہایة (ابن كثیر)، الاصابة فی تمییز الصحابة(ابن حجر)، ویكیبیدیا الموسوعۃ الحرة۔
____________