HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : رضوان اللہ

البیان: خصائص و امتیازات (۷)

۸۔تأصیل اور تفریع

قرآن میں بعض احکام یا واقعات کو بیان کیا جاتا اور پھر چند جملوں میں ان سب باتوں کو ایک اصل سے متعلق کر دیا جاتا ہے۔ اسے تأصیل کا اسلوب کہتے ہیں۔اسی طرح کچھ حقائق کو بیان کرتے ہوئے اُن پر کچھ باتیں متفرع کی جاتی ہیں۔اسے تفریع کا اسلوب کہا جاتا ہے۔ اول الذکر کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ بات تخصیص اور تعیین میں مقیدنہیں رہتی، بلکہ اپنی ذات میں ایک طرح سے اصولی بھی ہوجاتی ہے۔ ثانی الذکر کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ بات اپنے اِطلاقات میں خوب واضح ہوجاتی اور اصولوں کا اطلاق دیگر احوال پر کس طرح سے ہونا چاہیے، قاری کی اس معاملے میں بھی اچھی تربیت ہو جاتی ہے۔ تأصیل کی مثال میں یہ آیت دیکھ لی جاسکتی ہے:

وَمَا٘ اٰتٰىكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْهُﵐ وَمَا نَهٰىكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوْاﵐ وَاتَّقُوا اللّٰهَﵧ اِنَّ اللّٰهَ شَدِيْدُ الْعِقَابِ. (الحشر۵۹ :۷)
’’ اور رسول( کا منصب یہی ہے کہ) جو تمھیں دے، وہ لے لو اور جس چیز سے روکے، اُس سے رک جاؤ۔ اور اللہ سے ڈرتے رہو، بے شک، اللہ بڑی سخت سزا دینے والا ہے۔‘‘

غزوۂ بنو نضیرمیں کھجور کے بعض مثمر درختوں کو کاٹا گیا تو یہود کی طرف سے اس پر اعتراض اٹھا دیا گیا۔ اس کے جواب میں فرمایا کہ یہ سب اللہ کے حکم سے کیا گیا ہے۔ بعدمیں بنو نضیر کے متروکہ اموال کی تقسیم کا معاملہ درپیش ہوا تو اس پر منافقین کی طرف سے سوالات اٹھا دیے گئے۔ان کے جواب میں فرمایا ہے کہ یہ تمام اموال اللہ اور اس کے رسول کے ہیں اور بعض اجتماعی ضرورتوں کے لیے خاص کر لیے گئے ہیں۔اس کے بعد اس ساری صورت حال میں ایک اصول کے طور پر فرمایا ہے کہ رسول جوتمھیں دے،وہ لے لو اور جس چیز سے روکے، اُس سے رک جاؤ۔ اس آیت کی یہی اصولی حیثیت ہے کہ البیان میں اسے واضح کرنے کے لیے آیت کے شروع میں یہ الفاظ لائے گئے ہیں :’’اور رسول (کا منصب یہی ہے کہ )‘‘۔ [32]

تفریع کے لیے ذیل کی آیت میں ایک اچھی مثال ہے:

بَرَآءَةٌ مِّنَ اللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ٘ اِلَي الَّذِيْنَ عٰهَدْتُّمْ مِّنَ الْمُشْرِكِيْنَ. فَسِيْحُوْا فِي الْاَرْضِ اَرْبَعَةَ اَشْهُرٍ. (التوبہ۹: ۱- ۲)
’’اللہ اوراُس کے رسول کی طرف سے اُن مشرکوں کے لیے اعلان براء ت ہے جن سے تم لوگوں نے معاہدے کیے تھے۔ سو، (اے مشرکین عرب)،اب اس ملک میں چارمہینے اورچل پھرلو۔‘‘

اس آیت میں خدا کی طرف سے مشرکین کے لیے براء ت کا اعلان کیا گیا ہے۔ یہ براء ت وہ اصول ہے جس پر اگلی آیات میں بعض احکام کی تفریع ہوئی ہے۔چنانچہ فرمایاہے کہ ان میں سے جنھوں نے معاہدوں کی خلاف ورزی کی ہے،اُنھیں چارمہینے کی مہلت دے دی جائے اور جنھوں نے اِن کی پاس داری کی ہے، اُن کی مدت معاہدہ ختم ہوجانے کے بعداُن سے لاتعلقی کا اظہار کر دیا جائے۔اس کے بعد فرمایا ہے کہ جب حرام مہینے گزر جائیں تو یہ مشرکین جہاں ملیں، اُنھیں قتل کر دیا جائے۔ البیان کے ترجمے میں تفریع کے اسی ربط کو ظاہر کرنا مقصود ہے کہ دوسری آیت سے ترجمہ ’’سو‘‘ کے لفظ کے ساتھ شروع کیاگیاہے۔

۹۔تشابہ

 قرآن کا یہ عام انداز ہے کہ بعض اغراض کے پیش نظر ایک بات سے دوسری بات پیدا ہوتی چلی جاتی ہے۔ اس دوسری بات کا موقع اگر لفظی مناسبت سے یامضمون کی مشابہت سے پیدا ہوتو اسے تشابہ کا اسلوب کہتے ہیں۔گویا یہ کسی قدرِمشترک کی بنیاد پر بظاہر دو مختلف باتوں کو آپس میں مربوط کر دینے کا ایک اسلوب ہے۔ لفظی مناسبت کی وجہ سے تشابہ کے آنے کی مثال میں ذیل کی آیت دیکھ لی جاسکتی ہے:

وَعَلَيْهَا وَعَلَي الْفُلْكِ تُحْمَلُوْنَ. وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰي قَوْمِهٖ فَقَالَ يٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَيْرُهٗﵧ اَفَلَا تَتَّقُوْنَ.(المؤمنون۲۳: ۲۲-۲۳)
’’اور اِن پر اور کشتیوں پر (جو سمندر میں چلتی ہیں)، سوار بھی کیے جاتے ہو۔ (اور وہ کشتی بھی یاد ہے جس میں طوفان سے نکلے تھے)؟ ہم نے نوح کو اُس کی قوم کی طرف رسول بنا کر بھیجا تھا تو اُس نے دعوت دی کہ میری قوم کے لوگو، اللہ کی بندگی کرو۔ اُس کے سوا تمھاراکوئی معبود نہیں ہے۔‘‘

پچھلی آیات میں اللہ تعالیٰ نے دنیامیں اپنی ربوبیت کے انتظام کی کچھ مثالیں دی ہیں۔اُن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اُس نے ہماری سواری کے لیے خشکی پر جانوروں کا اور پانی کے اندر کشتی کا انتظام کیا ہے۔ کشتی کا ذکر کرنے کے بعد جب اس مدعا پر واقعاتی شہادتیں پیش کرنا شروع کی ہیں تو حضرت نوح  ؑ کا واقعہ بیان فرمایا ہے اور ہم جانتے ہیں کہ اس میں کشتی کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ یہ تشابہ کا اسلوب ہے اور البیان میں اس کی وضاحت کے لیے مذکورہ آیت کے ترجمے سے پہلے قوسین کے اندر ربط کے یہ الفاظ لکھ دیے گئے ہیں :’’اور وہ کشتی بھی یاد ہے جس میں طوفان سے نکلے تھے۔‘‘

مضمون کی مناسبت سے تشابہ کے آجانے کی مثال اس آیت میں موجود ہے:

وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّقُوْلُ اٰمَنَّا بِاللّٰهِ وَبِالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَمَا هُمْ بِمُؤْمِنِيْنَ. (البقرہ۲: ۸)
’’اور اِنھی لوگوں میں وہ (منافقین ) بھی ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ ہم نے اللہ کو مانا ہے اور قیامت کے دن کومانا ہے، دراں حالیکہ وہ اِن میں سے کسی چیز کو بھی نہیں مانتے۔‘‘

پچھلی آیات میں قرآن کی دعوت کے مقابلے میں پیدا ہوجانے والے دو انتہائی گروہوں کا ذکر ہوا ہے۔ ایک وہ ہیں جو سچے دل سے اس پر ایمان لا رہے ہیں اور دوسرے وہ ہیں جنھوں نے ہٹ دھرمی اور اصرار کے ساتھ اس کا انکار کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ اس کے بعد جرم کی مناسبت سے اُن لوگوں کا ذکر کیا ہے جو بعض پہلوؤں سے دوسرے گروہ سے مختلف ضرورہیں،مگر انکار کی روش میں بہرحال انھی سے مشابہت رکھتے ہیں۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو زیر نظر آیت تشابہ کے طریق ہی پر پچھلے کلام سے مربوط ہوئی ہے،چنانچہ البیان میں اس ربط کو نمایاں کرنے کے لیے آیت کے شروع کا ترجمہ ’’اور اِنھی لوگوں میں وہ (منافقین) بھی ہیں ‘‘کے الفاظ میں کیا گیا ہے۔

۱۰۔اِتمام

قرآن میں کسی موضوع پر مناسب حد تک بات ہو جانے کے بعد بعض اوقات یوں ہوتا ہے کہ اُس سے جڑی ہوئی دیگر چیزوں کو بھی زیر بحث لے آیا جاتا ہے اور اس طرح اُس موضوع کو گویا ایک تکمیلی رنگ دے دیا جاتا ہے۔ یہ اِتمام کا اسلوب ہے اور قرآن میں اس کی بہت سی مثالیں موجودہیں۔ذیل کا مقام تو اس کی نہایت خوب صورت مثال ہے:

وَلَا تَجْعَلُوا اللّٰهَ عُرْضَةً لِّاَيْمَانِكُمْ اَنْ تَبَرُّوْا وَتَتَّقُوْا وَتُصْلِحُوْا بَيْنَ النَّاسِﵧ وَاللّٰهُ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌ. (البقرہ۲: ۲۲۴)
’’(عورتوں سے متعلق بعض دوسرے معاملات بھی ہیں، اِنھیں بھی سمجھ لو) اور اپنی قسموں کے لیے اللہ کے نام کو دوسروں سے حسن سلوک اور حدود الہٰی کی رعایت کرنے اور لوگوں کے مابین صلح کرانے میں رکاوٹ نہ بناؤ اور(متنبہ رہو کہ) اللہ سمیع و علیم ہے۔‘‘

اس سلسلۂ کلام میں بنیادی طور پر جہاد اور انفاق فی سبیل اللہ کا بیان ہوا ہے۔ ان کے تعلق سے بعض سوالات شراب اور جوے اور پھر نکاح اور مباشرت کے بارے میں پیدا ہوئے تو ان سب کا تفصیل سے جواب دیا گیا اوراس معاملے میں کوئی کسر نہ رہ گئی۔مگر ہم دیکھتے ہیں کہ زیرنظر آیت سے نکاح کے اس مضمون کا اِتمام یوں کیا گیا کہ طلاق،اُس کا طریقہ، اُس کی عدت، بعد از طلاق امور، حتیٰ کہ شوہر کی وفات کے بعد بیوہ کی عدت اور اس کے ساتھ نکاح کے معاملات، یہ سب بھی زیربحث آگئے ہیں۔پچھلی آیات سے اِتمام کا یہ ربط چونکہ زیرنظر آیت سے شروع ہو رہا ہے، اس لیے البیان میں ضروری سمجھا گیا ہے کہ اس کے شروع میں قوسین کے اندر یہ الفاظ بھی لکھ دیے جائیں : ’’عورتوں سے متعلق بعض دوسرے معاملات بھی ہیں،اِنھیں بھی سمجھ لو۔‘‘

محذوفات

قرآن کے اسالیب میں روابط کے بعد سب سے اہم اسلوب اس کے محذوفات ہیں کہ اس کی عربی میں ایجاز و اختصار کے پیش نظر بہت سے الفاظ حذف کر دیے جاتے ہیں۔اس کا ایک فائدہ یہ ہوتا ہے کہ کلام میں حسن و لطافت پیدا ہوتی اور بلاغت کے ساتھ ساتھ اُس کی تاثیربھی بے انتہا بڑھ جاتی ہے۔حذف کے یہ فوائد سب کے ہاں معلوم اور مسلم ہیں،مگرعام قارئین کے لیے ہر مقام پراس کے وقوع اور اس کی نوعیت کا اِدراک کر لینا بہرحال کوئی آسان امر نہیں ہے۔ چنانچہ مترجم کے لیے لازم ہے کہ وہ تفہیم مدعاکی غرض سے جہاں مناسب ہو، ان محذوفات کو کھول کر بیان کر دے۔ ہم البیان میں سے اس کی چند مثالیں پیش کرتے ہیں :

۱۔حروف

قرآن میں بہت سے مقامات پر حروف کو حذف کر دیا جاتا ہے۔ یہ جر دینے والے حروف بھی ہوتے ہیں اور ندا کے لیے استعمال ہونے والے حروف بھی:

فَاْتِيَا فِرْعَوْنَ فَقُوْلَا٘ اِنَّا رَسُوْلُ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ. اَنْ اَرْسِلْ مَعَنَا بَنِيْ٘ اِسْرَآءِيْلَ. (الشعراء۲۶ :۱۶-۱۷)
’’سو دونوں (بغیر کسی تردد کے) فرعون کے پاس جاؤ اور اُس سے کہو کہ ہم خداوند عالم کے رسول ہیں اور اِس لیے آئے ہیں کہ تم بنی اسرائیل کو ہمارے ساتھ جانے دو۔‘‘

اس آیت میں آنے والے ’اَنْ‘ کے معاملے میں مترجمین نے عام طور پر دو طریقے اختیار کیے ہیں : اس کا ترجمہ’’ کہ‘‘ سے کیا ہے، مگر اس سے ان دو فقروں کا باہمی تعلق کسی طرح بھی واضح نہیں ہو پاتا۔ یعنی، اب ترجمہ یہ بنتا ہے: تم فرعون کے پاس جا کرکہو کہ ہم رب العٰلمین کے بھیجے ہوئے ہیں کہ توہمارے ساتھ بنی اسرائیل کو روانہ کر دے۔ بعض مترجمین نے اس تعلق کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے، مگر وہ اس بات پر مجبور ہوگئے ہیں کہ ’رَسُوْل‘     کا ترجمہ ’’پیغام لانے والا‘‘ کرنے کے بجاے ’’پیغام لانا‘‘کریں۔یعنی، تم فرعون کے پاس جا کر کہو کہ ہم رب العٰلمین کا پیغام لائے ہیں کہ ہمارے ساتھ بنی اسرائیل کوبھیج دے۔ ان دو ترجموں کے برعکس، البیان میں قرآن کی زبان کی رعایت سے ’اَنْ اَرْسِلْ‘ سے پہلے حرف ’’ب‘‘ کو محذوف مانا گیا اور اسے بیان کرنے کے لیے یہ الفاظ لائے گئے ہیں : ’’اور اس لیے آئے ہیں کہ‘‘۔ دیکھ لیا جا سکتا ہے کہ اس سے مذکورہ ترجمے میں پیدا ہوجانے والی تمام اُلجھنیں آپ سے آپ ختم ہوگئی ہیں۔

يُوْسُفُ اَعْرِضْ عَنْ هٰذَا ﶌ وَاسْتَغْفِرِيْ لِذَنْۣبِكِﵗ اِنَّكِ كُنْتِ مِنَ الْخٰطِـِٕيْنَ. (یوسف۱۲: ۲۹)
’’یوسف،اس بات کوجانے دواوراے عورت، تو اپنے گناہ کی معافی مانگ، اصل میں تو ہی خطاکار ہے۔‘‘

اس آیت کے پہلے جملے میں یوسف کے ساتھ ایک حرفِ ندا محذوف ہے اور دوسرے جملے میں حرف ندا اپنے منادی سمیت محذوف ہے۔ البیان کے ترجمے میں پہلے حذف کو عربی ہی کی طرح لفظوں میں تونہیں لکھا گیا، مگر علامت کے طور پر اس کے بعد قومہ استعمال کر لیا گیا ہے اور دوسرے حذف کو ’’اے عورت‘‘ کے لفظوں میں صریح طور پر بیان کر دیا گیا ہے۔

۲۔الفاظ

قرآن میں الفاظ کو بھی بعض اوقات حذف کر دیا جاتا ہے۔ یہ فعل بھی ہوتے ہیں اور اسم بھی۔ پھر فعل میں سے یہ ماضی، مضارع، ناقص اور امر کی صورت میں ہوتے ہیں تو اسم میں سے مضاف اور موصوف وغیرہ کی صورت میں بھی ہو سکتے ہیں۔ ہم پہلے افعال کی اور اس کے بعد اسما کی چند مثالیں عرض کریں گے:

وَمَا كَانَ لَهٗ عَلَيْهِمْ مِّنْ سُلْطٰنٍ اِلَّا لِنَعْلَمَ مَنْ يُّؤْمِنُ بِالْاٰخِرَةِ مِمَّنْ هُوَ مِنْهَا فِيْ شَكٍّ. (سبا۳۴: ۲۱)
’’ حقیقت یہ ہے کہ ابلیس کو اُن پر کوئی اختیار نہیں تھا۔ ہم نے یہ مہلت اُس کو دی تو صرف اِس لیے کہ ہم اُن لوگوں کو جو آخرت پر ایمان رکھتے ہیں، اُن لوگوں سے الگ معلوم کر لیں جو اُس کی طرف سے شک میں پڑے ہوئے ہیں۔‘‘

بعض مترجمین نے اس آیت میں کوئی حذف نہیں مانا۔ اس سے اُن کابیان کردہ ترجمہ آیت کا اصل مدعا بیان کرنے سے بالکل قاصر رہ گیا ہے۔ اُن کے مطابق ترجمہ یہ بنتا ہے: ’’شیطان کا اُن پر کوئی زور نہ تھا، مگر اس لیے کہ ہم اُن لوگوں کو جو آخرت پر ایمان رکھتے ہیں ظاہر کریں اُن لوگوں میں سے جواس سے شک میں ہیں۔‘‘اس کے مقابلے میں بعض مترجمین نے یہاں ایک محذوف تو مانا ہے،مگر وہ محذوف ایسا ہے کہ اس کے نتیجے میں ایک واضح حقیقت اور آیت کے اصل مفہوم سے صرف نظر ہو گیا ہے۔ ان کا ترجمہ یہ بنتا ہے: ’’ابلیس کا اُن پر کچھ زور نہ تھا، مگر اس قدر کہ ہم اُن لوگوں کو جو آخرت پر ایمان رکھتے ہیں،اُن لوگوں سے الگ کرلیں جواس کی طرف سے شک میں ہیں۔‘‘گویا اُن کے ترجمے کے مطابق شیطان کو لوگوں پر کچھ نہ کچھ زور بہرحال دیا گیا ہے۔ حالاں کہ حقیقت یہ ہے کہ شیطان کو اُن لوگوں پر ایک طرح کا زور ضرور حاصل ہو جاتا ہے جو اُس کی پیروی کرتے اور اس طرح اپنی باگ اُس کے ہاتھ میں تھما دیتے ہیں، مگر خدا کی طرف سے اُسے اس طرح کی کوئی طاقت ہرگز نہیں دی گئی، اور آیت میں ’سُلْطٰن‘ کی تنوین اور اس پر آنے والے ’مِنْ‘ کی تاکید بھی یہی بات بیان کر رہی ہے۔ چنانچہ البیان میں ’سُلْطٰن‘ اور ’اِلَّا‘ کے درمیان میں ’وما أمهلته‘ کا ایک مناسب فعل محذوف مان کر ترجمہ کیا گیا ہے اور دیکھ لیا جا سکتا ہے کہ اس سے آیت کا اصل مفہوم بھی کھل گیا ہے اور اس کے نتیجے میں کوئی مذکورہ مسئلہ بھی سرے سے پیدانہیں ہوا۔

ذیل کی آیت بھی اس کی ایک اچھی مثال ہے جس میں اس سے پچھلی آیت ’قَدْ جَآءَتْكُمْ مَّوْعِظَةٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ‘کی روشنی میں ایک فعل ’جاءت‘ نکالا گیا ہے اور اس سے آیت کا ترجمہ ہر طرح کے تکلف اورکسی بھی اِبہام سے بالکل پاک ہوگیاہے:

قُلْ بِفَضْلِ اللّٰهِ وَبِرَحْمَتِهٖ فَبِذٰلِكَ فَلْيَفْرَحُوْا. (یونس۱۰: ۵۸)
’’انھیں بتاؤ،(اے پیغمبر)،یہ اللہ کے فضل اور اُس کی رحمت سے آئی ہے۔ سو چاہیے کہ اِس پروہ خوشی منائیں۔‘‘

بہت سی آیات میں فعل امر کے صیغے بھی حذف کر دیے گئے ہیں،جیسا کہ اس آیت میں :

وَقَالُوْا كُوْنُوْا هُوْدًا اَوْ نَصٰرٰي تَهْتَدُوْاﵧ قُلْ بَلْ مِلَّةَ اِبْرٰهٖمَ حَنِيْفًاﵧ وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ. (البقرہ۲: ۱۳۵)
’’ اور اِدھر اِن کا اصرار ہے کہ یہودی یا نصرانی بنو تو ہدایت پاؤ گے۔ اِن سے کہہ دو، بلکہ ابراہیم کا دین اختیار کرو جو (اپنے پروردگار کے لیے) بالکل یک سو تھا اور مشرکوں میں سے نہیں تھا۔‘‘

بعض مترجمین نے کسی حذف کونہ مانتے ہوئے اس آیت کا ترجمہ کیا ہے۔یہ اس لیے درست نہیں ہے کہ ’مِلَّةَ‘ کا نصب واضح طور پر کسی نہ کسی عامل کا تقاضا کر رہا ہے۔ بعض مترجمین نے فعل مضارع کی صورت میں ایک عامل یہاں مانا تو ہے، مگر وہ اس سیاق میں کچھ زیادہ مناسب دکھائی نہیں دیتا۔ اس لیے کہ یہود و نصاریٰ کی دعوت کے جواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے دعوت ہی کابیان زیادہ موزوں ٹھیرتاہے نہ کہ مضارع کی صورت میں عقیدے کے کسی بیان کا۔ مزید یہ کہ اگلی آیت میں مسلمانوں کے اپنے عقیدے کا بیان الگ سے آبھی گیا ہے،اس لیے یہاں مضارع کومحذوف مان کراسے بھی عقیدے کا بیان بنا لیا جائے تو یہ ایک طرح کی تکرار محسوس ہوتا ہے۔ یہی وجوہ ہیں کہ البیان میں ’قُلْ‘ کے بعد ’اتبعوا‘ کا فعل امر محذوف مان کر ترجمہ کیا گیا ہے: ’’ان سے کہہ دو، بلکہ ابراہیم کا دین اختیار کرو۔‘‘

قدیم عربی میں افعال کی طرح بعض اوقات افعال ناقصہ کے صیغے بھی حذف کر دیے جاتے ہیں۔یہ مضارع سے پہلے حذف کیے جاتے ہیں اور قرآن میں ان کی بہت سی مثالیں موجودہیں،جیساکہ اس آیت میں :

قَدْ نَرٰي تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَآءِﵐ فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضٰىهَا. (البقرہ۲: ۱۴۴)
’’تمھارے منہ کا بار بار آسمان کی طرف اٹھنا ہم دیکھتے رہے ہیں،(اے پیغمبر)، سو ہم نے فیصلہ کر لیا کہ تمھیں اُس قبلے کی طرف پھیر دیں جو تم کو پسند ہے۔‘‘

یہاں ’نَرٰي ‘ سے پہلے فعل ناقص ’كنا‘ محذوف ہے، اس لیے اس کا ترجمہ ’’ہم دیکھتے ہیں‘‘ یا ’’ہم دیکھ رہے ہیں ‘‘کرنے کے بجاے ماضی استمرار میں کرنا ہی درست ہے، جیسا کہ البیان میں یہ کیا بھی گیا ہے:’’ہم دیکھتے رہے ہیں۔‘‘

قرآن میں فعل کے حذف کاایک خاص اسلوب بھی پایاجاتاہے۔کلام عرب میں سے اس کی مثال کے لیے ’علفته تبنًاوماء‘ اور ’قلدني سيفًاورمحًا‘ وغیرہ کی ترکیبات کوپیش کیا جا سکتا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ اس طرح کی ترکیبات میں دونوں مفعول ایک ہی فعل کے تحت نہیں ہوتے، بلکہ ان میں ایک اور فعل محذوف ہوتا ہے جسے دوسرے مفعول کی روشنی میں بہ آسانی سمجھ لیا جا سکتا ہے:

وَالَّذِيْنَ تَبَوَّؤُ الدَّارَ وَالْاِيْمَانَ مِنْ قَبْلِهِمْ يُحِبُّوْنَ مَنْ هَاجَرَ اِلَيْهِمْ. (الحشر۵۹ :۹)
’’جو لوگ اِس دیار کو اِن سے پہلے ٹھکانا بنائے ہوئے اور اپنا ایمان محکم کیے ہوئے ہیں، وہ اُن لوگوں سے محبت رکھتے ہیں جو ( اُن کے بعد اب) ہجرت کر کے اُن کی طرف آ رہے ہیں۔‘‘

اس آیت میں ’الدَّار‘ اور ’الْاِيْمَان‘ بظاہر ایک ہی فعل،یعنی ’تَبَوَّؤُ‘ کے دو مفعول دکھائی دیتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ مترجمین نے عام طور پر اسی لحاظ سے آیت کا ترجمہ کیا ہے۔ لیکن بہ ادنیٰ تامل معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ عربی زبان کے اس خاص اسلوب سے چوک جانے کا نتیجہ ہے۔ یہاں اصل میں ’الْاِيْمَان‘ سے مناسبت رکھنے والا ایک فعل محذوف ہے۔ اس کی رعایت کی جائے تو پوری عبارت اب اس طرح ہوگی: ’تبوؤوا الدار واحكموا الإيمان‘۔ چنانچہ البیان میں اس فقرے کا ترجمہ یوں کیاگیاہے:’’جولوگ اس دیارکوان سے پہلے ٹھکانا بنائے ہوئے اور اپنا ایمان محکم کیے ہوئے ہیں۔‘‘

فعل کے بعداب ہم اسم کے حذف کی طرف آتے ہیں۔اس میں سے مضاف کا حذف سب سے زیادہ ہوتا ہے اور قرآن میں اس کی بہت سی مثالیں موجود ہیں :

اِذْ يَتَنَازَعُوْنَ بَيْنَهُمْ اَمْرَهُمْ فَقَالُوا ابْنُوْا عَلَيْهِمْ بُنْيَانًا. (الکہف۱۸ :۲۱)
’’ذرا خیال کرو، جب اُن کے معاملے میں لوگ آپس میں جھگڑ رہے تھے تو کچھ لوگوں نے کہا: اِن کے غار پر ایک عمارت بنا دو۔‘‘

اصحاب کہف کے واقعہ میں فرمایا ہے کہ جب لوگ ان کے بارے میں متنبہ ہوگئے تو اس کے بعد آپس میں بحث کرنے لگے۔اس موقع پرکچھ لوگوں نے کہا: ’ابْنُوْا عَلَيْهِمْ بُنْيَانًا‘ (ان پر ایک عمارت بنا دو)۔ ظاہر ہے، یہ عمارت اُن کے جسموں پرنہیں،بلکہ ان کے غار پر بنانے کا مشورہ دیا گیا ہے۔ گویا یہاں ’عَلَيْهِمْ ‘میں ایک مضاف محذوف ہے اور اصل عبارت یوں ہے : ’ ابنوا علي كهفهم بنيانًا‘۔

بعض اوقات یوں ہوتاہے کہ قرآن میں صفت کو بیان کر دیا جاتا ہے،مگر وہ کس موصوف کی صفت ہے،اُس کا بیان نہیں کیا جاتا:

فَاَمَّا مَنْ اَعْطٰي وَاتَّقٰي. وَصَدَّقَ بِالْحُسْنٰي. فَسَنُيَسِّرُهٗ لِلْيُسْرٰي. (اللیل۹۲ :۵- ۷)
’’پھر جس نے (راہ خدا میں) دیا اور پرہیزگاری اختیار کی اور اچھے انجام کو سچ مانا، اُسے ہم سہج سہج راحت میں لے جائیں گے۔‘‘

یہاں ’الْحُسْنٰي‘ صفت ہے اور اُس کا موصوف حذف کر دیا گیا ہے۔ خدا کی راہ میں انفاق کرنے کے مضمون کو اگر سامنے رکھیں تو معلوم ہو جاتاہے کہ یہ موصوف اصل میں ’العاقبة‘  ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انفاق کے لیے جس طرح یہ ضروری ہے کہ وہ ریاکاری اوراحسان جتلانے کے بجاے پرہیزگاری کے جذبے کے ساتھ ہو،اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ اُس سے مقصود دنیا کاکوئی فائدہ نہیں، بلکہ آخرت کا اچھاانجام ہو۔ البیان میں ’العاقبة‘ کوصفت ’الْحُسْنٰي‘            کا موصوف مان کران دونوں کاترجمہ ’’اچھے انجام‘‘ کے الفاظ میں کیا گیا ہے۔

اس بحث کے آخرمیں فاعل، مفعول، مصدر اور ظرف کی مثالیں بھی دیکھ لی جانی چاہییں۔ ذیل میں ہم نہایت اختصارکے ساتھ انھیں بیان کرتے ہیں :

فَلَوْلَا٘ اِذَا بَلَغَتِ الْحُلْقُوْمَ. وَاَنْتُمْ حِيْنَئِذٍ تَنْظُرُوْنَ. وَنَحْنُ اَقْرَبُ اِلَيْهِ مِنْكُمْ وَلٰكِنْ لَّا تُبْصِرُوْنَ. فَلَوْلَا٘ اِنْ كُنْتُمْ غَيْرَ مَدِيْنِيْنَ. تَرْجِعُوْنَهَا٘ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ. (الواقعہ۵۶: ۸۳- ۸۷)
’’پھر تم کسی کے محکوم نہیں ہو تو ا ُس وقت جب مرنے والے کی جان حلق میں پہنچ جاتی ہے اور تم اُس وقت دیکھ رہے ہوتے ہو، لیکن نہیں دیکھتے کہ اُس وقت تمھاری نسبت ہم اُس سے زیادہ قریب ہوتے ہیں، پھرتم محکوم نہیں ہو تواُس (کی نکلتی ہوئی) جان کو لوٹا کیوں نہیں لیتے، اگر تم سچے ہو؟‘‘

اس آیت میں ’بَلَغَتْ ‘ کا فاعل ’النفس‘ ہے،مگر وہ لفظوں میں کہیں بھی مذکورنہیں ہے۔ البیان میں اسے ’’مرنے والے کی جان‘‘ کہتے ہوئے بیان کیا گیا ہے۔

مَا٘ اَنْزَلْنَا عَلَيْكَ الْقُرْاٰنَ لِتَشْقٰ٘ي. اِلَّا تَذْكِرَةً لِّمَنْ يَّخْشٰي. (طٰہٰ۲۰: ۲ -۳)
’’ہم نے یہ قرآن تم پر اِس لیے نازل نہیں کیا ہے کہ تم مصیبت میں پڑ جاؤ۔ یہ تو صرف ایک یاددہانی ہے اُن کے لیے جو (بن دیکھے) اپنے پروردگار سے ڈریں۔‘‘

یہاں ’يَخْشٰي ‘ کا مفعول محذوف ہے جسے بیان کرنے کے لیے البیان میں ’’اپنے پروردگار‘‘ کے الفاظ لائے گئے ہیں۔

ثُمَّ اِنِّيْ دَعَوْتُهُمْ جِهَارًا. ثُمَّ اِنِّيْ٘ اَعْلَنْتُ لَهُمْ وَاَسْرَرْتُ لَهُمْ اِسْرَارًا. (نوح۷۱: ۸-۹)
’’پھرمیں نے اِن کو کھلم کھلا دعوت دی۔ پھر ہانکے پکارے بلایا اور چپکے چپکے بھی سمجھایا۔‘‘

اس آیت میں ’اَعْلَنْتُ ‘فعل کا مصدر ’إعلانًا‘ محذوف ہے اور مفعول مطلق کی حیثیت سے آیا ہے،چنانچہ البیان میں اس کے لیے ’’ہانکے پکارے بلایا‘‘ کے الفا ظ استعمال ہوئے ہیں۔

فَاَرْسَلْنَا عَلَيْهِمُ الطُّوْفَانَ وَالْجَرَادَ وَالْقُمَّلَ وَالضَّفَادِعَ وَالدَّمَ اٰيٰتٍ مُّفَصَّلٰتٍ. (الاعراف۷: ۱۳۳)
’’سو ہم نے اُن پر طوفان بھیجا، ٹڈیاں، جوئیں اور مینڈک چھوڑ دیے اور خون برسایا۔ یہ سب نشانیاں تھیں، (بنی اسرائیل کے صحیفوں میں) جن کی تفصیل کر دی گئی ہے۔‘‘

یہاں ’مُفَصَّلٰت‘ کا ظرف ’في صحف بني إسرائيل‘ محذوف تھاجسے البیان میں بیان کر دیا گیا ہے۔

[باقی]

____________

  [32]۔  قرآن میں اس اسلوب کی اور بھی کئی اچھی مثالیں موجود ہیں ،جیسا کہ ’وَمَا٘ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّالِيُطَاعَ بِاِذْنِ اللّٰهِ ‘ اور ’اِنَّهٗ كَانَ فَاحِشَةً وَّمَقْتًاﵧ وَسَآءَ سَبِيْلًا ‘(النساء۴: ۲۲، ۶۴)۔

B