بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
طٰسٓمّٓ ١ تِلْكَ اٰيٰتُ الْكِتٰبِ الْمُبِيْنِ ٢ نَتْلُوْا عَلَيْكَ مِنْ نَّبَاِ مُوْسٰي وَفِرْعَوْنَ بِالْحَقِّ لِقَوْمٍ يُّؤْمِنُوْنَ ٣
ـــــــــــــــــــ ۲ ـــــــــــــــــــ
اللہ کے نام سے جو سراسر رحمت ہے ، جس کی شفقت ابدی ہے ۔
یہ سورۂ ’طٰسٓمّٓ ‘[112] ہے۔یہ نہایت واضح کتاب کی آیتیں ہیں۔ ہم اُن لوگوں کی ہدایت کے لیے جو ایمان لانا چاہیں[113]، موسیٰ اور فرعون کی سرگذشت کا کچھ حصہ ٹھیک ٹھیک تمھیں سناتے ہیں۔۱- ۳
اِنَّ فِرْعَوْنَ عَلَا فِي الْاَرْضِ وَجَعَلَ اَهْلَهَا شِيَعًا يَّسْتَضْعِفُ طَآئِفَةً مِّنْهُمْ يُذَبِّحُ اَبْنَآءَهُمْ وَيَسْتَحْيٖ نِسَآءَهُمْﵧ اِنَّهٗ كَانَ مِنَ الْمُفْسِدِيْنَ ٤ وَنُرِيْدُ اَنْ نَّمُنَّ عَلَي الَّذِيْنَ اسْتُضْعِفُوْا فِي الْاَرْضِ وَنَجْعَلَهُمْ اَئِمَّةً وَّنَجْعَلَهُمُ الْوٰرِثِيْنَ ٥ﶫ وَنُمَكِّنَ لَهُمْ فِي الْاَرْضِ وَنُرِيَ فِرْعَوْنَ وَهَامٰنَ وَجُنُوْدَهُمَا مِنْهُمْ مَّا كَانُوْا يَحْذَرُوْنَ ٦
واقعہ یہ ہے کہ سرزمین مصر میں فرعون نے سرکشی اختیار کر لی تھی[114]۔اُس کے باشندوں کو اُس نے گروہوں میں تقسیم کر دیا تھا[115]۔ اُن میں سے ایک گروہ کو اُس نے سختی سے دبا رکھا تھا[116]، اُن کے بیٹوں کو وہ ڈھونڈ ڈھونڈ کرذبح کر چھوڑتا اور اُن کی عورتوں کو زندہ رکھتا تھا[117]۔ فی الواقع وہ فساد کرنے والوں میں سے تھا۔ اور اِدھر ہم نے ارادہ کر لیا تھا کہ اُن لوگوں پر عنایت کریں جو اُس ملک میں دبا کر رکھے گئے تھے[118]اور اُن کو امامت عطا فرمائیں[119]اور اُنھیں ملک کا وراث بنائیں اور اُنھیں اُس ملک میں اقتدار بخشیں [120]اور فرعون اور ہامان[121]اور اُن کے لشکروں کو اُن سے وہی کچھ دکھا دیں جس سے وہ ڈرتے تھے[122]۔ ۴ -۶
وَاَوْحَيْنَا٘ اِلٰ٘ي اُمِّ مُوْسٰ٘ي اَنْ اَرْضِعِيْهِﵐ فَاِذَا خِفْتِ عَلَيْهِ فَاَلْقِيْهِ فِي الْيَمِّ وَلَا تَخَافِيْ وَلَا تَحْزَنِيْﵐ اِنَّا رَآدُّوْهُ اِلَيْكِ وَجَاعِلُوْهُ مِنَ الْمُرْسَلِيْنَ ٧
(چنانچہ موسیٰ a[123]پیدا ہوا تو بچے قتل کیے جارہے تھے)۔ہم نے موسیٰ کی ماں کو (اِسی بنا پر) وحی کی[124] کہ ابھی اِسے دودھ پلاؤ، پھر جب اِس کی نسبت تمھیں (جان کا) خطرہ ہو تو اِسے دریا میں ڈال دینا اور کوئی اندیشہ اور غم نہ کرنا، ہم نے فیصلہ کر لیا ہے کہ اِس کو ہم واپس تمھارے پاس پہنچا دیں گے[125] اور اِسے پیغمبروں میں سے (ایک پیغمبر) بنائیں گے۔۷
فَالْتَقَطَهٗ٘ اٰلُ فِرْعَوْنَ لِيَكُوْنَ لَهُمْ عَدُوًّا وَّحَزَنًاﵧ اِنَّ فِرْعَوْنَ وَهَامٰنَ وَجُنُوْدَهُمَا كَانُوْا خٰطِـِٕيْنَ ٨ وَقَالَتِ امْرَاَتُ فِرْعَوْنَ قُرَّتُ عَيْنٍ لِّيْ وَلَكَﵧ لَا تَقْتُلُوْهُﵲ عَسٰ٘ي اَنْ يَّنْفَعَنَا٘ اَوْ نَتَّخِذَهٗ وَلَدًا وَّهُمْ لَا يَشْعُرُوْنَ ٩
(اُس نے بالآخر یہی کیا)[126]،پھرفرعون کے گھر والوں نے (دریا میں بہتے دیکھ کر) اُس کو اٹھا لیا[127] کہ(خدا کی بات پوری ہو اور) اِس کے نتیجے میں وہ اُن کا دشمن اور اُن کے لیے باعث غم بنے[128]۔ حقیقت یہ ہے کہ فرعون اور ہامان اور اُن کے لشکر بڑے خطاکار تھے (کہ اپنے آپ کو تمام اختیار و اقتدار کا مالک سمجھتے رہے)[129]۔ فرعون کی بیوی نے (بچے کو دیکھا تو فرعون سے) کہا: یہ تو میری اور تمھاری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے، تم لوگ اِسے قتل نہ کرو۔ کیا عجب کہ یہ ہمیں نفع پہنچائے یا ہم اِسے بیٹا ہی بنا لیں[130]۔ (وہ یہ باتیں کر رہے تھے) اور اُنھیں کچھ خبر نہ تھی کہ اُن کے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔۸ -۹
وَاَصْبَحَ فُؤَادُ اُمِّ مُوْسٰي فٰرِغًاﵧ اِنْ كَادَتْ لَتُبْدِيْ بِهٖ لَوْلَا٘ اَنْ رَّبَطْنَا عَلٰي قَلْبِهَا لِتَكُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ ١٠ وَقَالَتْ لِاُخْتِهٖ قُصِّيْهِ فَبَصُرَتْ بِهٖ عَنْ جُنُبٍ وَّهُمْ لَا يَشْعُرُوْنَ ١١
اُدھر موسیٰ کی ماں کا دل بالکل بے قرار ہو گیا۔ اگر ہم اُس کے دل کو نہ سنبھالتے کہ اُس کو ہمارے وعدے کا یقین رہے[131]تو وہ اُس کا راز فاش کر بیٹھتی۔ اور(اِسی بے قراری میں) اُس نے بچے کی بہن سے کہا کہ اُس کے پیچھے پیچھے جا[132]۔ چنانچہ وہ (اجنبی بن کر )اُس کو دور سے دیکھتی رہی اور فرعون کے لوگوں کو اِس کی کچھ خبر نہ ہوئی[133]۔ ۱۰ -۱۱
وَحَرَّمْنَا عَلَيْهِ الْمَرَاضِعَ مِنْ قَبْلُ فَقَالَتْ هَلْ اَدُلُّكُمْ عَلٰ٘ي اَهْلِ بَيْتٍ يَّكْفُلُوْنَهٗ لَكُمْ وَهُمْ لَهٗ نٰصِحُوْنَ ١٢ فَرَدَدْنٰهُ اِلٰ٘ي اُمِّهٖ كَيْ تَقَرَّ عَيْنُهَا وَلَا تَحْزَنَ وَلِتَعْلَمَ اَنَّ وَعْدَ اللّٰهِ حَقٌّ وَّلٰكِنَّ اَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُوْنَ ١٣
اور اِدھر دودھ پلائیوں کے دودھ سے ہم نے موسیٰ کو پہلے ہی روک رکھا تھا۔[134]چنانچہ (موسیٰ کی بہن وہاں پہنچی اور یہ دیکھا تو )اُس نے اُن سے کہا:تم لوگ کہو تو میں تمھیں ایک گھرانے کا پتا بتاؤں جو تم لوگوں کی خاطر اِسے پالیں گے اور بڑی خیر خواہی سے اِس کی دیکھ بھال کریں گے؟اِس طرح موسیٰ کو ہم نے اُس کی ماں کی طرف لوٹا دیا کہ اُس کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں اور وہ آزردہ خاطر نہ ہو اور اِس لیے کہ وہ اچھی طرح جان لے کہ اللہ کا وعدہ پورا ہو کے رہتا ہے[135]، مگر اکثر لوگ نہیں جانتے [136]۔۱۲ - ۱۳
وَلَمَّا بَلَغَ اَشُدَّهٗ وَاسْتَوٰ٘ي اٰتَيْنٰهُ حُكْمًا وَّعِلْمًاﵧ وَكَذٰلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِيْنَ ١٤
(فرعون کے زیر سایہ پرورش پا کر یہی)موسیٰ جب اپنی جوانی کو پہنچا اور ہر لحاظ سے پختہ ہوگیا[137] تو ہم نے اُسے علم و حکمت سے نوازا[138]۔ اچھے لوگوں کو ہم اِسی طرح صلہ دیتے ہیں[139]۔۱۴
وَدَخَلَ الْمَدِيْنَةَ عَلٰي حِيْنِ غَفْلَةٍ مِّنْ اَهْلِهَا فَوَجَدَ فِيْهَا رَجُلَيْنِ يَقْتَتِلٰنِﵟ هٰذَا مِنْ شِيْعَتِهٖ وَهٰذَا مِنْ عَدُوِّهٖﵐ فَاسْتَغَاثَهُ الَّذِيْ مِنْ شِيْعَتِهٖ عَلَي الَّذِيْ مِنْ عَدُوِّهٖﶈ فَوَكَزَهٗ مُوْسٰي فَقَضٰي عَلَيْهِﵟ قَالَ هٰذَا مِنْ عَمَلِ الشَّيْطٰنِﵧ اِنَّهٗ عَدُوٌّ مُّضِلٌّ مُّبِيْنٌ ١٥ قَالَ رَبِّ اِنِّيْ ظَلَمْتُ نَفْسِيْ فَاغْفِرْ لِيْ فَغَفَرَ لَهٗﵧ اِنَّهٗ هُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِيْمُ ١٦ قَالَ رَبِّ بِمَا٘ اَنْعَمْتَ عَلَيَّ فَلَنْ اَكُوْنَ ظَهِيْرًا لِّلْمُجْرِمِيْنَ ١٧
(پھر ایک دن اتفاق سے) وہ ایسے وقت شہر میں داخل ہوا، جب کہ شہر کے لوگ بے خبر ہوتے تھے[140]تو اُس نے دیکھا کہ دو آدمی وہاں لڑ رہے ہیں۔ ایک اُس کی اپنی قوم میں سے تھا اور دوسرا اُس کے دشمنوں کی قوم میں سے۔ پھر اُس کی قوم کے آدمی نے اُس شخص کے مقابل میں اُس کی مدد چاہی جو اُس کے دشمنوں میں سے تھا۔ اِس پر موسیٰ نے اُس کے گھونسا مارا اور اُس کا کام تمام کردیا[141]۔ (یہ حرکت سرزد ہوتے ہی) موسیٰ نے کہا: یہ تو مجھ سے شیطانی کام ہو گیاہے۔اِس میں شبہ نہیں کہ شیطان ایک کھلا ہوا گم راہ کرنے والا دشمن ہے۔ اُس نے دعا کی کہ میرے پروردگار، میں نے اپنی جان پر ظلم کیا ہے، سو مجھ کو بخش دے[142]تو اُس کے پروردگار نے اُسے بخش دیا۔ حقیقت یہ ہے کہ وہی بخشنے والا ہے، اُس کی شفقت ابدی ہے۔ موسیٰ نے کہا: میرے پروردگار،یہ عنایت جو تو نے مجھ پر فرمائی ہے، اِس کے بعد تو اب میں اِس طرح کے مجرموں کا کبھی مددگار نہ بنوں گا[143]۔ ۱۵- ۱۷
فَاَصْبَحَ فِي الْمَدِيْنَةِ خَآئِفًا يَّتَرَقَّبُ فَاِذَا الَّذِي اسْتَنْصَرَهٗ بِالْاَمْسِ يَسْتَصْرِخُهٗﵧ قَالَ لَهٗ مُوْسٰ٘ي اِنَّكَ لَغَوِيٌّ مُّبِيْنٌ ١٨ فَلَمَّا٘ اَنْ اَرَادَ اَنْ يَّبْطِشَ بِالَّذِيْ هُوَ عَدُوٌّ لَّهُمَاﶈ قَالَ يٰمُوْسٰ٘ي اَتُرِيْدُ اَنْ تَقْتُلَنِيْ كَمَا قَتَلْتَ نَفْسًاۣ بِالْاَمْسِﵯ اِنْ تُرِيْدُ اِلَّا٘ اَنْ تَكُوْنَ جَبَّارًا فِي الْاَرْضِ وَمَا تُرِيْدُ اَنْ تَكُوْنَ مِنَ الْمُصْلِحِيْنَ ١٩
(رات خیریت سے گزر گئی) تو اگلے دن موسیٰ صبح کو ڈرتے ڈرتے، کچھ ٹوہ لیتے ہوئے شہر میں داخل ہوا۔ پھر کیا دیکھتا ہے کہ وہی جس نے کل اُسے مدد کے لیے پکارا تھا، آج پھر اُسے پکار رہا ہے۔ موسیٰ نے اُس سے کہا: اب کوئی شبہ نہیں رہا کہ تم خود ایک کھلے ہوئے شریرآدمی ہو[144]۔ پھر (دونوں کو سمجھاتے سمجھاتے)جب بات یہاں تک پہنچ گئی کہ موسیٰ نے ارادہ کیا[145]کہ اب اپنے اور اُس کے دشمن[146] کو پکڑے (کہ وہ بھی جھگڑنا بند کرے) تو (اُسے شبہ ہوا کہ یہ مجھے پکڑنا چاہتے ہیں[147]، لہٰذا) وہ بول اٹھا کہ موسیٰ، جس طرح کل ایک آدمی کو تم نے قتل کر دیا تھا، کیا آج اُسی طرح مجھے قتل کرنا چاہتے ہو؟ تم یہی چاہتے ہو کہ اِس ملک میں جبار بن کر رہو، تم یہاں مصلح بن کر نہیں رہنا چاہتے[148]۔۱۸ -۱۹
وَجَآءَ رَجُلٌ مِّنْ اَقْصَا الْمَدِيْنَةِ يَسْعٰيﵟ قَالَ يٰمُوْسٰ٘ي اِنَّ الْمَلَاَ يَاْتَمِرُوْنَ بِكَ لِيَقْتُلُوْكَ فَاخْرُجْ اِنِّيْ لَكَ مِنَ النّٰصِحِيْنَ ٢٠ فَخَرَجَ مِنْهَا خَآئِفًا يَّتَرَقَّبُﵟ قَالَ رَبِّ نَجِّنِيْ مِنَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِيْنَ ٢١
(یہ بات دربار میں پہنچی تو) شہر کے پرلے سرے سے، (جہاں شاہی محلات تھے)، ایک شخص[149] دوڑتا ہوا آیا ۔ اُس نے بتایا کہ موسیٰ، دربار کے بڑے تمھارے قتل کے مشورے کر رہے ہیں[150]، اِس لیے یہاں سے نکل جاؤ۔ یقین کرو، میں تمھارے خیرخواہوں میں سے ہوں[151]۔ چنانچہ موسیٰ وہاں سے ڈرتا اور ٹوہ لیتاہوا نکل کھڑا ہوا۔ (اُس وقت)اُس نے دعا کی کہ میرے پروردگار، مجھے اِن ظالم لوگوں سے نجات عطا فرما دے۔ ۲۰ -۲۱
وَلَمَّا تَوَجَّهَ تِلْقَآءَ مَدْيَنَ قَالَ عَسٰي رَبِّيْ٘ اَنْ يَّهْدِيَنِيْ سَوَآءَ السَّبِيْلِ ٢٢ وَلَمَّا وَرَدَ مَآءَ مَدْيَنَ وَجَدَ عَلَيْهِ اُمَّةً مِّنَ النَّاسِ يَسْقُوْنَﵽ وَوَجَدَ مِنْ دُوْنِهِمُ امْرَاَتَيْنِ تَذُوْدٰنِﵐ قَالَ مَا خَطْبُكُمَاﵧ قَالَتَا لَا نَسْقِيْ حَتّٰي يُصْدِرَ الرِّعَآءُﶌ وَاَبُوْنَا شَيْخٌ كَبِيْرٌ ٢٣ فَسَقٰي لَهُمَا ثُمَّ تَوَلّٰ٘ي اِلَي الظِّلِّ فَقَالَ رَبِّ اِنِّيْ لِمَا٘ اَنْزَلْتَ اِلَيَّ مِنْ خَيْرٍ فَقِيْرٌ ٢٤
(مصر سے نکل کر) جب موسیٰ نے (بالآخر) مدین کا رخ کیا Bia[152]تو (اپنے دل میں) کہا: امید ہے کہ میرا رب مجھے سیدھی راہ دکھائے گا[153]۔ (چنانچہ چلتے چلتے)جب وہ مدین کے کنویں پر پہنچا تو اُس نے دیکھا کہ وہاں لوگوں کی ایک بھیڑ لگی ہے اور وہ اپنے جانوروں کو پانی پلا رہے ہیں اور یہ بھی دیکھا کہ اُن سے الگ دو عورتیں ہیں جو اپنے گلے کو روکے کھڑی ہیں[154]۔ اُس نے پوچھا: تمھارا کیا ماجرا ہے[155]؟ اُنھوں نے کہا: ہم اپنے جانوروں کو پانی نہیں پلا سکتیں، جب تک یہ چرواہے اپنے جانور نہ ہٹا لیں۔ اور (اِس کام کے لیے ہمیں ہی آنا پڑتا ہے، اِس لیے کہ)ہمارے والد بہت بوڑھے ہیں[156]۔ یہ سن کر موسیٰ نے اُن دونوں کی خاطر اُن کے گلے کو پانی پلا دیا۔ پھر ہٹ کر سایے کی طرف آیا [157]اور دعا کی کہ میرے پروردگار، اِس وقت جو خیر بھی تو میرے لیے اتار دے، میں اُس کا حاجت مند ہوں[158]۔ ۲۲ -۲۴
فَجَآءَتْهُ اِحْدٰىهُمَا تَمْشِيْ عَلَي اسْتِحْيَآءٍﵟ قَالَتْ اِنَّ اَبِيْ يَدْعُوْكَ لِيَجْزِيَكَ اَجْرَ مَا سَقَيْتَ لَنَاﵧ فَلَمَّا جَآءَهٗ وَقَصَّ عَلَيْهِ الْقَصَصَﶈ قَالَ لَا تَخَفْﵴ نَجَوْتَ مِنَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِيْنَ ٢٥
پھر (زیادہ دیر نہیں گزری کہ)اُن میں سے ایک شرماتی ہوئی اُس کے پاس چل کر آئی اور کہنے لگی:میرے والد[159] آپ کو بلا رہے ہیں تاکہ ہماری خاطر آپ نے جو پانی پلایا ہے، اُس کا صلہ آپ کو دیں[160]۔ (موسیٰ چل پڑا)، پھر جب اُس کے والد کے پاس پہنچا [161]اور اپنا سارا قصہ اُسے سنایا تو اُس نے تسلی دی کہ اب اندیشہ نہ کرو، تم ظالم لوگوں سے بچ نکلے ہو[162]۔۲۵
قَالَتْ اِحْدٰىهُمَا يٰ٘اَبَتِ اسْتَاْجِرْهُﵟ اِنَّ خَيْرَ مَنِ اسْتَاْجَرْتَ الْقَوِيُّ الْاَمِيْنُ ٢٦
اُن عورتوں میں سے ایک نے (یہ سب دیکھاتو ایک موقع پر اپنے باپ سے) کہا[163]: اباجان، اِسے ملازم رکھ لیجیے، اِس لیے کہ بہترین آدمی جسے آپ ملازم رکھیں ، وہی ہو سکتا ہے جو قوی اور امانت دار ہو[164]۔۲۶
قَالَ اِنِّيْ٘ اُرِيْدُ اَنْ اُنْكِحَكَ اِحْدَي ابْنَتَيَّ هٰتَيْنِ عَلٰ٘ي اَنْ تَاْجُرَنِيْ ثَمٰنِيَ حِجَجٍﵐ فَاِنْ اَتْمَمْتَ عَشْرًا فَمِنْ عِنْدِكَﵐ وَمَا٘ اُرِيْدُ اَنْ اَشُقَّ عَلَيْكَﵧ سَتَجِدُنِيْ٘ اِنْ شَآءَ اللّٰهُ مِنَ الصّٰلِحِيْنَ ٢٧ قَالَ ذٰلِكَ بَيْنِيْ وَبَيْنَكَﵧ اَيَّمَا الْاَجَلَيْنِ قَضَيْتُ فَلَا عُدْوَانَ عَلَيَّﵧ وَاللّٰهُ عَلٰي مَا نَقُوْلُ وَكِيْلٌ ٢٨
اُس کے باپ نے موسیٰ سے کہا: میں چاہتا ہوں کہ اپنی اِن دو بیٹیوں میں سے ایک کا نکاح تمھارے ساتھ کر دوں، بشرطیکہ تم آٹھ سال میری ملازمت کرو۔ پھر اگر دس سال ہی پورے کردو تو یہ تمھاری مرضی ہے۔ میں تم پر کوئی مشقت نہیں ڈالنا چاہتا[165]۔ خدا نے چاہا تو آگے تم مجھے ایک بھلا آدمی پاؤ گے۔ موسیٰ نے کہا: (ٹھیک ہے)، یہ بات میرے اور آپ کے درمیان طے ہو گئی۔ میں اِن دونوں میں سے جو مدت بھی پوری کردوں، اُس کے بعد مجھ پر کوئی جبر نہیں ہے اور جو قول و قرار ہم کر رہے ہیں، اُس پر اللہ گواہ ہے۔ ۲۷ -۲۸
فَلَمَّا قَضٰي مُوْسَي الْاَجَلَ وَسَارَ بِاَهْلِهٖ٘ اٰنَسَ مِنْ جَانِبِ الطُّوْرِ نَارًاﵐ قَالَ لِاَهْلِهِ امْكُثُوْ٘ا اِنِّيْ٘ اٰنَسْتُ نَارًا لَّعَلِّيْ٘ اٰتِيْكُمْ مِّنْهَا بِخَبَرٍ اَوْ جَذْوَةٍ مِّنَ النَّارِ لَعَلَّكُمْ تَصْطَلُوْنَ ٢٩
پھر جب موسیٰ نے مدت پوری کر دی اور اپنے اہل و عیال کو لے کر (وہاں سے) روانہ ہوا تو طور کی جانب سے اُسے ایک آگ سی دکھائی دی[166]۔ اُس نے اپنے گھر والوں سے کہا: مجھے آگ دکھائی دی ہے، تم لوگ ذرا ٹھیرو کہ وہاں سے میں تمھارے پاس (رستے کی) کوئی خبر یا آگ کا کوئی انگارا ہی لے آؤں تاکہ (اِس سردی میں) تم اُسے تاپ سکو[167]۔۲۹
فَلَمَّا٘ اَتٰىهَا نُوْدِيَ مِنْ شَاطِئِ الْوَادِ الْاَيْمَنِ فِي الْبُقْعَةِ الْمُبٰرَكَةِ مِنَ الشَّجَرَةِ اَنْ يّٰمُوْسٰ٘ي اِنِّيْ٘ اَنَا اللّٰهُ رَبُّ الْعٰلَمِيْنَ ٣٠ﶫ وَاَنْ اَلْقِ عَصَاكَﵧ فَلَمَّا رَاٰهَا تَهْتَزُّ كَاَنَّهَا جَآنٌّ وَّلّٰي مُدْبِرًا وَّلَمْ يُعَقِّبْﵧ يٰمُوْسٰ٘ي اَقْبِلْ وَلَا تَخَفْﵴ اِنَّكَ مِنَ الْاٰمِنِيْنَ ٣١ اُسْلُكْ يَدَكَ فِيْ جَيْبِكَ تَخْرُجْ بَيْضَآءَ مِنْ غَيْرِ سُوْٓءٍﵟ وَّاضْمُمْ اِلَيْكَ جَنَاحَكَ مِنَ الرَّهْبِ فَذٰنِكَ بُرْهَانٰنِ مِنْ رَّبِّكَ اِلٰي فِرْعَوْنَ وَمَلَا۠ئِهٖﵧ اِنَّهُمْ كَانُوْا قَوْمًا فٰسِقِيْنَ ٣٢
پھر جب موسیٰ وہاں پہنچا تو وادی ایمن کے کنارے سے ، اُس مبارک خطے میںsa[168]، اُس کو درخت سے آواز آئی کہ اے موسیٰ، میں ہوں اللہ، جہانوں کا پروردگار[169] اور یہ بھی کہ اپنی لاٹھی (زمین پر)ڈال دو۔ پھر جب موسیٰ نے دیکھا کہ لاٹھی بل کھا رہی ہے ، گویا کہ سانپ ہے تو پیٹھ پھیر کر بھاگا اور اُس نے مڑ کر بھی نہیں دیکھا[170]۔ فرمایا:موسیٰ، آگے آؤ اور ڈرو نہیں، تم بالکل مامون ہو۔ اپنا ہاتھ ذرا اپنے گریبان میں ڈالو، وہ بغیر کسی مرض کے[171]سفید (چمکتا ہوا) نکلے گا اور اِس کے لیے اپنا بازو اپنی طرف سکیڑ لو، جس طرح خوف سے سکیڑتے ہیں[172]۔ سو تیرے پروردگار کی طرف سے فرعون اور اُس کے درباریوں کے پاس جانے کے لیے یہ دو نشانیاں[173] ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ بڑے نافرمان لوگ ہیں[174]۔۳۰ -۳۲
قَالَ رَبِّ اِنِّيْ قَتَلْتُ مِنْهُمْ نَفْسًا فَاَخَافُ اَنْ يَّقْتُلُوْنِ ٣٣ وَاَخِيْ هٰرُوْنُ هُوَ اَفْصَحُ مِنِّيْ لِسَانًا فَاَرْسِلْهُ مَعِيَ رِدْاً يُّصَدِّقُنِيْ٘ﵟ اِنِّيْ٘ اَخَافُ اَنْ يُّكَذِّبُوْنِ ٣٤ قَالَ سَنَشُدُّ عَضُدَكَ بِاَخِيْكَ وَنَجْعَلُ لَكُمَا سُلْطٰنًا فَلَا يَصِلُوْنَ اِلَيْكُمَاﶎ بِاٰيٰتِنَاﶎ اَنْتُمَا وَمَنِ اتَّبَعَكُمَا الْغٰلِبُوْنَ ٣٥
موسیٰ نے عرض کیا کہ میرے پروردگار، میں تو اُن کا ایک آدمی قتل کر چکا ہوں، اِس لیے ڈرتا ہوں کہ وہ مجھے مار ڈالیں گے۔ اور میرا بھائی، ہارون ، اُس کی زبان مجھ سے زیادہ فصیح ہے، سو اُس کو میرا مددگار بنا کر میرے ساتھ بھیجیے وہ میری تائید کرے[175]، مجھے اندیشہ ہے کہ وہ مجھے جھٹلا دیں گے۔ فرمایا: ہم تمھارے بھائی کو تمھارے لیے قوت بازو بنائیں گے اور تم دونوں کو ایسا دبدبہ عطا کریں گے کہ وہ تم تک پہنچ نہ سکیں گے۔ ہماری نشانیوں کے ساتھ جاؤ[176]، تم دونوں اور جو تمھاری پیروی کریں گے، وہی غالب رہیں گے۔ ۳۳ -۳۵
فَلَمَّا جَآءَهُمْ مُّوْسٰي بِاٰيٰتِنَا بَيِّنٰتٍ قَالُوْا مَا هٰذَا٘ اِلَّا سِحْرٌ مُّفْتَرًي وَّمَا سَمِعْنَا بِهٰذَا فِيْ٘ اٰبَآئِنَا الْاَوَّلِيْنَ ٣٦
پھر جب موسیٰ ہماری اِن واضح نشانیوں کے ساتھ اُن کے پاس آیا تو اُنھوں نے کہہ دیا کہ یہ تو محض گھڑا ہوا جادو ہے اور اِس طرح کی بات ہم نے اپنے اگلے باپ دادوں میں تو کبھی سنی ہی نہیں[177]۔ ۳۶
وَقَالَ مُوْسٰي رَبِّيْ٘ اَعْلَمُ بِمَنْ جَآءَ بِالْهُدٰي مِنْ عِنْدِهٖ وَمَنْ تَكُوْنُ لَهٗ عَاقِبَةُ الدَّارِﵧ اِنَّهٗ لَا يُفْلِحُ الظّٰلِمُوْنَ ٣٧
موسیٰ نے جواب دیا: میرا پروردگار خوب جانتا ہے اُس کو بھی جو اُس کی طرف سے ہدایت لے کر آیا ہے اور اُس کو بھی جس کے لیے اگلے گھر کا اچھا انجام ہے۔ (اُس کے منکرین اپنی جانوں پر ظلم ڈھانے والے ہیں اور) [178]حق یہ ہے کہ اِس طرح کے ظالم کبھی فلاح نہ پائیں گے[179]۔ ۳۷
وَقَالَ فِرْعَوْنُ يٰ٘اَيُّهَا الْمَلَاُ مَا عَلِمْتُ لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَيْرِيْﵐ فَاَوْقِدْ لِيْ يٰهَامٰنُ عَلَي الطِّيْنِ فَاجْعَلْ لِّيْ صَرْحًا لَّعَلِّيْ٘ اَطَّلِعُ اِلٰ٘ي اِلٰهِ مُوْسٰيﶈ وَاِنِّيْ لَاَظُنُّهٗ مِنَ الْكٰذِبِيْنَ ٣٨
فرعون نے کہا: دربار کے لوگو، میں تو اپنے سوا تمھارے لیے کسی اور معبود سے واقف نہیں ہوں[180]۔ اچھا تو اے ہامان، تم میرے لیے مٹی کی اینٹوں کا پزاوہ لگواؤ اور ایک اونچا محل میرے لیے بنواؤ تاکہ موسیٰ کے خدا کو میں (آسمان میں) جھانک کر دیکھوں، اورمیں تو اِسے ایک جھوٹا آدمی سمجھتا ہوں۔ ۳۸
وَاسْتَكْبَرَ هُوَ وَجُنُوْدُهٗ فِي الْاَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَظَنُّوْ٘ا اَنَّهُمْ اِلَيْنَا لَا يُرْجَعُوْنَ ٣٩ فَاَخَذْنٰهُ وَجُنُوْدَهٗ فَنَبَذْنٰهُمْ فِي الْيَمِّﵐ فَانْظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الظّٰلِمِيْنَ ٤٠ وَجَعَلْنٰهُمْ اَئِمَّةً يَّدْعُوْنَ اِلَي النَّارِﵐ وَيَوْمَ الْقِيٰمَةِ لَا يُنْصَرُوْنَ ٤١ وَاَتْبَعْنٰهُمْ فِيْ هٰذِهِ الدُّنْيَا لَعْنَةًﵐ وَيَوْمَ الْقِيٰمَةِ هُمْ مِّنَ الْمَقْبُوْحِيْنَ ٤٢
فرعون اور اُس کے لشکروں نے زمین میں ناحق گھمنڈ کیا اور خیال کیا کہ وہ ہماری طرف نہیں لوٹائے جائیں گے[181]۔ آخر اُسے اور اُس کے لشکروں کو ہم نے پکڑا، پھر اُنھیں سمندر میں پھینک دیا تو دیکھ لو کہ اِن ظالموں کا انجام کیسا ہوا[182]۔ہم نے اُنھیں (ڈھیل دی اور) ایسے پیشوا بنا دیا کہ جہنم کی طرف بلاتے رہے[183]۔ قیامت کے دن اب اُن کی کوئی مدد نہ ہو گی۔ ہم نے اِس دنیا میں اُن کے پیچھے لعنت لگا دی ہے اور قیامت کے دن وہی خوار ہونے والوں میں ہوں گے۔ ۳۹- ۴۲
وَلَقَدْ اٰتَيْنَا مُوْسَي الْكِتٰبَ مِنْۣ بَعْدِ مَا٘ اَهْلَكْنَا الْقُرُوْنَ الْاُوْلٰي بَصَآئِرَ لِلنَّاسِ وَهُدًي وَّرَحْمَةً لَّعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُوْنَ ٤٣
اگلی بہت سی امتوں کو ہلاک کر دینے کے بعد ہم نے موسیٰ کو کتاب دی تھیa[184]، لوگوں کے لیے بصیرتوں کا سامان اور ہدایت و رحمت بنا کر[185] تاکہ وہ یاددہانی حاصل کریں۔ ۴۳
وَمَا كُنْتَ بِجَانِبِ الْغَرْبِيِّ اِذْ قَضَيْنَا٘ اِلٰي مُوْسَي الْاَمْرَ وَمَا كُنْتَ مِنَ الشّٰهِدِيْنَ ٤٤ﶫ وَلٰكِنَّا٘ اَنْشَاْنَا قُرُوْنًا فَتَطَاوَلَ عَلَيْهِمُ الْعُمُرُﵐ وَمَا كُنْتَ ثَاوِيًا فِيْ٘ اَهْلِ مَدْيَنَ تَتْلُوْا عَلَيْهِمْ اٰيٰتِنَاﶈ وَلٰكِنَّا كُنَّا مُرْسِلِيْنَ ٤٥ وَمَا كُنْتَ بِجَانِبِ الطُّوْرِ اِذْ نَادَيْنَا وَلٰكِنْ رَّحْمَةً مِّنْ رَّبِّكَ لِتُنْذِرَ قَوْمًا مَّا٘ اَتٰىهُمْ مِّنْ نَّذِيْرٍ مِّنْ قَبْلِكَ لَعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُوْنَ ٤٦
ہم نے جب موسیٰ کو اپنے اِس فیصلے سے آگاہ کیا[186] ، (اے پیغمبر) ،تو نہ تم طور کے مغربی جانب موجود تھے اور نہ اِس واقعے کو دیکھنے والوں میں شامل تھے[187]۔ لیکن ہم نے بہت سی نسلیں اٹھائیں، پھر اُن پر ایک زمانہ گزر گیا (اور وہ ہماری یاددہانی کو بھلا بیٹھے تو خدا کی عنایت سے اب تمھی یاد دلا رہے ہو)۔تم مدین والوں کے درمیان بھی موجود نہ تھے، اُن کو ہماری آیتیں سناتے ہوئے، لیکن ہم فیصلہ کر چکے تھے کہ تمھیں رسول بنائیں۔ (سو اُن کے واقعات بھی سنا رہے ہو)۔ اور تم طور کے پہلو میں بھی موجود نہ تھے، جب ہم نے موسیٰ کوپکارا تھا، لیکن اپنے پروردگار کی رحمت سے تم اُس سے بھی آگاہ کیے گئے، اِس لیے کہ اُن لوگوں کو خبردار کرو جن کے پاس تم سے پہلے کوئی خبردار کرنے والا نہیں آیا تاکہ وہ یاددہانی حاصل کریں[188]۔ ۴۴ -۴۶
[112]۔ اِس نام کے معنی کیا ہیں؟ اِس کے متعلق اپنا نقطۂ نظر ہم سورۂ بقرہ (۲) کی آیت ۱ کے تحت بیان کر چکے ہیں۔
[113] ۔ اصل الفاظ ہیں:’لِقَوْمٍ يُّؤْمِنُوْنَ‘۔ اِن میں فعل ارادۂ فعل کے مفہوم میں ہے۔ یہ ایک قسم کی تنبیہ ہے۔ قرآن نے ابتدا ہی میں بتا دیاہے کہ اِس سرگذشت سے ہدایت اُنھی کو ملے گی جو ہدایت پانا چاہیں گے۔ اُن کے لیے اِس میں کوئی ہدایت نہیں ہے جو فیصلہ کر چکے ہیں کہ اندھے اور بہرے بن کر ہی جئیں گے۔
[114]۔ اِس سرکشی کی نوعیت کیا تھی؟ آگے قرآن نے اِسی کی وضاحت فرمائی ہے۔
[115]۔ یعنی انصاف کی مسند پر بیٹھ کر انصاف کرنے اور سب کو یکساں اور برابر کے حقوق دینے کے بجاے اُس نے رعایا کو طبقات میں تقسیم کر دیا تھا۔ چنانچہ کسی کو مراعات اور امتیازات دے رکھے تھے اور کسی کو محکوم بنا کر ذلیل کرتا تھا۔
[116]۔ یعنی بنی اسرائیل کو جو یوسف علیہ السلام کے زمانے میں یہاں آ کر آباد ہوگئے تھے اور اب ایک بڑی قوم کی حیثیت رکھتے تھے۔
[117]۔ یہ، ظاہرہے کہ سرکشی کی انتہاہے جس کا صدور کسی حکمران سے ہو سکتا ہے۔ فرعون اور اُس کے اعیان و اکابر نے یہ اسکیم اِس لیے چلائی تھی کہ وہ بنی اسرائیل کی تعداد میں اضافے سے خوف زدہ تھے کہ مبادا وہ ایک بڑی قوت بن کر اُن پر غلبہ پا لیں۔ اِس کی تفصیلات بائیبل اور تالمود ،دونوں میں دیکھ لی جا سکتی ہیں۔
[118]۔ یہ اُس خدائی فیصلے کا بیان ہے جس کے تحت اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کی بعثت کے بعد بنی اسرائیل کو عالمی سطح پر اپنے دین کی شہادت کے لیے منتخب کیا۔ یہ اُسی طرح کا انتخاب تھا ، جس طرح انسانوں میں سے انبیا علیہم السلام کو انذار و بشارت اور دعوت و شہادت کے لیے منتخب کیا جاتا رہا ہے۔ چنانچہ یہاں جو مدعا ’نَمُنَّ‘ کے لفظ سے ادا ہوا ہے، قرآن مجید کے دوسرے مقامات میں اُسی کو ’نِعْمَتِيَ الَّتِيْٓ اَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ‘ کے الفاظ میں ادافرمایا ہے۔
[119]۔ یعنی دین کے امام اور پیشوا بنائیں۔ سورۂ بقرہ (۲) کی آیت ۱۲۴میں قرآن نے ابراہیم علیہ السلام سے متعلق جس فیصلے کا ذکر ’اِنِّيْ جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ اِمَامًا‘ کے الفاظ میں کیا ہے، یہ اُسی کا نتیجہ ہے۔
[120]۔ اِس کے لیے ارض فلسطین کا انتخاب کیا گیا اور اللہ تعالیٰ نے اِسے اپنی دعوت کے لیے خاص قرار دے کر بنی اسرائیل کے حوالے کر دیا۔ چنانچہ حکم دیا گیا کہ اِس کے باشندوں سے اِس سرزمین کو خالی کرا لیا جائے اور گردوپیش کی حکومتوں کو باج گزار بنا کر اِس پورے علاقے میں انبیا علیہم السلام کی زیر قیادت خدا کی حکومت قائم کر دی جائے۔ بائیبل میں اِسی بنا پر اِسے بنی اسرائیل کی میراث کا علاقہ کہا گیا ہے۔ ہم پیچھے بیان کر چکے ہیں کہ یہ ایک خدائی فیصلہ تھا، اِس کا دنیا کے دوسرے علاقوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
[121]۔ اِس کا ذکر جس طریقے سے یہاں ہوا ہے، اُس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ غالباً فرعون کا وزیراعظم تھا اور اُس کے دست راست کی حیثیت سے اُس کے تمام مظالم میں پوری طرح شریک تھا۔
[122]۔ اوپر بیان ہو چکا ہے کہ فرعونی اِس بات سے ڈرتے تھے کہ بنی اسرائیل کی تعداد اور مصر میں اُن کا اثر و رسوخ اِسی طرح بڑھتا رہا تو ایک دن وہ اُن پر غلبہ حاصل کر لیں گے۔ یہ اُسی ڈر کا ذکر ہے۔ فرمایا کہ یہی ہو گا اورفرعون اور اُس کے اعیان و اکابر اپنے تمام زور و سلطنت اور تدبیر و تدبر کے باوجود ایک دن بالکل مغلوب ہو کر رہ جائیں گے۔
[123]۔ موسیٰ قبطی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں: میں نے اُسے پانی سے نکالا۔ بائیبل اور تالمود، دونوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اُن کا یہ نام فرعون کے گھر میں رکھا گیا تھا۔ اُن کے والد کا نام اِن کتابوں میں عمرام بتایا گیا ہے۔ قرآن اِسی کا تلفظ عمران کرتا ہے۔ وہ حضرت یعقوب کے بیٹے لاوی کی اولادمیں سے تھے۔
[124]۔ الہام و القا یا رؤیا کے ذریعے سے کوئی بات کسی کے دل میں ڈال دی جائے تو قرآن کی زبان میں وحی کا لفظ اُس کے لیے بھی استعمال ہوتاہے۔ موسیٰ علیہ السلام کی والدہ پیغمبر نہیں تھیں، اِس لیے یہاں اِس لفظ کو اِسی مفہوم میں لینا چاہیے۔
[125]۔ بائیبل کی کتاب خروج میں ہے کہ فرعون اور اُس کے اعیان نے پہلے دائیوں کو حکم دیا کہ وہ بنی اسرائیل کے بچوں کو پیدا ہوتے ہی قتل کر دیں ، لیکن جب اِس میں کچھ زیادہ کامیابی نہیں ہوئی تو قبطیوں کو عام حکم دے دیا گیا کہ جہاں دیکھیں کہ بنی اسرائیل کے ہاں کوئی بیٹا پیدا ہوا ہے، اُسے اٹھائیں اور دریا میں پھینک دیں*۔چنانچہ اِسی بنا پر فرمایا ہے کہ بچے کو چھپائے رکھو، لیکن جب یہ ممکن نہ رہے تو اپنے ہاتھوں سے اُسے دریا میں ڈال دینا اور کوئی اندیشہ نہ کرنا، ہم اِسی کو تمھارے بچے کے لیے نجات کی راہ بنا دیں گے۔
[126]۔ بائیبل میں ہے:
’’...وہ عورت حاملہ ہوئی اور اُس کے بیٹا ہوا اور اُس نے یہ دیکھ کر کہ بچہ خوب صورت ہے، تین مہینے تک اُسے چھپا کر رکھا۔ اور جب اُسے اور زیادہ چھپا نہ سکی تو اُس نے سرکنڈوں کا ایک ٹوکرا لیا اور اُس پر چکنی مٹی اور رال لگا کر لڑکے کو اُس میں رکھا اور اُسے دریا کے کنارے جھاؤ میں چھوڑ آئی۔‘‘(خروج۲ :۲- ۳)
[127]۔ یہ اِس لیے ممکن ہوا کہ دریاے نیل بنی اسرائیل کی بستیوں سے گزرتا ہوا شاہی محلات کی طرف جاتا تھا۔ چنانچہ موسیٰ علیہ السلام جس ٹوکرے میں تھے، اُسے دریا کی سیر کرتے ہوئے خود بادشاہ اور ملکہ نے یا اُن کے خدام نے دیکھا اور دریا سے نکال لیا۔
[128]۔ اصل الفاظ ہیں:’لِيَكُوْنَ لَهُمْ عَدُوًّا وَّ حَزَنًا‘۔ اِن میں’ل‘اُن کے مقصد کو نہیں، بلکہ فعل کی غایت اور انجام مقدر کو بیان کرنے کے لیے ہے۔ ہم نے ترجمہ اِسی کے لحاظ سے کیا ہے۔
[129]۔ مطلب یہ ہے کہ اُنھوں نے سوچا ہی نہیں کہ کائنات کا اصل مالک خدا ہے اور وہ اگر چاہے گا تو اُن کے سب سے بڑے قامع کی پرورش اُنھی کے ہاتھوں کرا کے اُنھیں اُن کے انجام مقدر تک پہنچا دے گا، اور یہی بہت بڑی غلطی تھی۔
[130]۔ فرعون کے ہاں غالباً کوئی نرینہ اولاد نہیں تھی اور یہ ملکہ نہایت نیک دل خاتون تھیں۔ قرآن نے دوسری جگہ بتایا ہے کہ موسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے بڑی موہنی صورت عطافرمائی تھی۔ جو دیکھتا، اُسے بے اختیار پیار آجاتا تھا۔ چنانچہ ملکہ بھی اِس موہنی صورت پر قربان ہوگئیں اور اُنھوں نے فرعون سے وہ بات کہی جو یہاں نقل ہوئی ہے۔
[131]۔ یعنی خدا کے اشارے سے بچے کو دریا کے حوالے کر کے اُس نے جس ایمان و توکل کی شہادت دی تھی، اُس کی لاج قائم رہے۔ اپنے مومن بندوں اور بندیوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا معاملہ یوں ہی ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’... اللہ تعالیٰ اپنے بندوں اور بندیوں کو امتحان میں تو ڈالتا ہے کہ یہ امتحان اُس کی سنت ہے ،اور یہ امتحان درجے اور مرتبے کے اعتبار سے سخت سے سخت تر بھی ہوتا ہے، لیکن ساتھ ہی اُس کی یہ سنت بھی ہے کہ جو لوگ اُس کے امتحان کی راہ میں بازی کھیل جاتے ہیں، وہ اُن کو سنبھالتا بھی ہے۔ ‘‘(تدبرقرآن۵/ ۶۶۱)
[132]۔ یہ دل کی تسلی کے لیے آخری تدبیر تھی جو وہ کر سکتی تھیں۔
[133]۔ اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ شاہی محل اسرائیلیوں کی بستی سے زیادہ دور نہیں تھا۔
[134]۔ یہ اُس تدبیر کا ذکر ہے جو موسیٰ علیہ السلام کو اُن کی ماں کی طرف لوٹانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے اختیار فرمائی۔ چنانچہ بچے کو پانے کے بعد جب اُس کو دودھ پلانے کی فکر ہوئی تو فرعون کی بیوی ایک کے بعد دوسری انا کو دودھ پلانے کے لیے بلاتی رہی، لیکن بچے نے کسی کی چھاتی منہ سے نہیں لگائی۔
[135]۔ یہ اُس وعدے کے ایفا کی طرف اشارہ ہے جس کا ذکر اوپر آیت ۷ میں گزرا ہے۔
[136]۔ یعنی اپنی بلادت کے سبب سے اِس حقیقت کو نہیں سمجھتے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’... وہ خدا کے وعدوں کو محض ہوائی باتیں خیال کرتے ہیں اور اُن کے اعتماد پر کوئی بازی کھیلنے میں اُن کو خسارہ اور خطرہ نظرآتا ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے وعدے پورے ہوتے دیکھ لیں، تب مانیں گے، حالاں کہ اِس دنیا میں اصل امتحان تو یہی ہے کہ لوگ اپنے رب کے اُن وعدوں اور وعیدوں کے لیے جئیں اور مریں جن کی حقیقت ابھی سامنے آنی ہے۔‘‘(تدبرقرآن ۵/ ۶۶۲)
[137]۔ یعنی جسمانی لحاظ سے بھی جوانی کو پہنچ گیا اور اُس کی عقل اور اُس کے مزاج میں بھی پختگی آگئی۔
[138]۔ آیت میں ’حُكْم‘ اور ’عِلْم‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ ’حُكْم‘ سے مراد چیزوں کے بارے میں صحیح فیصلے تک پہنچنے کی صلاحیت اور ’عِلْم‘ سے مراد معرفت حقائق ہے۔
[139]۔ یعنی اُن لوگوں کو جو خدا کی دی ہوئی قوتوں اورصلاحیتوں کو بالکل صحیح طریقے پر استعمال کرتے ہیں۔
[140]۔ یہ غالباً لوگوں کے قیلولے کا وقت ہو گا۔ آگے جو واقعہ بیان ہوا ہے، اُس کے بارے میں خیال ہو سکتا تھا کہ آخر لوگوں نے اُسے دیکھا کیوں نہیں۔ قرآن نے یہ اُس کی وجہ بیان کر دی ہے کہ یہ ایسا وقت تھا، جب لوگ زیادہ تر گھروں میں تھے۔ چنانچہ سڑکیں اور گلیاں سنسان تھیں اور شہر میں سناٹا چھایا ہوا تھا۔ موسیٰ علیہ السلام نے اِس وقت کا انتخاب شاید اِس لیے کیا کہ وہ لوگوں کی نگاہوں سے بچ بچا کے اپنے مظلوم بھائیوں کے حالات دیکھ سکیں۔
[141]۔ یہ حادثہ بالکل بے ارادہ پیش آیا۔ موسیٰ علیہ السلام کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ اِس طرح کی صورت حال پیش آجائے گی۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’... اسرائیلی نے جب حضرت موسیٰ کو دیکھا تو اُن سے طالب مدد ہوا۔ حضرت موسیٰ اُس کو مظلوم دیکھ کر، بہ تقاضاے فتوت و حمایت حق، اُس کی مدد کے لیے بڑھے اور چاہا کہ بیچ بچاؤ کرا دیں۔ لیکن معلوم ہوتا ہے کہ قبطی اپنی رعونت کے سبب سے اُن سے الجھ پڑا۔ اُنھوں نے اپنی مدافعت میں اُس کو جو گھونسا مارا تو وہ ایسا بے ڈھب پڑا کہ وہ وہیں ڈھیر ہو گیا۔‘‘(تدبرقرآن۵/ ۶۶۳)
[142]۔ یہ اُسی علم و حکمت کا کرشمہ تھا جس کا ذکر اوپر ہوا ہے کہ حضرت موسیٰ نے اپنی شہ زوری اور بے پناہی پر فخر کرنے کے بجاے اِس غیر ارادی غلطی کو بھی جرم سمجھا۔چنانچہ فوراً نادم ہوئے اور اپنے پروردگار سے معافی کی درخواست کی۔
[143]۔ اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ موسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے معافی کی بشارت بھی کسی غیبی ذریعے سے دے دی گئی تاکہ وہ مطمئن ہو جائیں اور اپنی حفاظت کا بندوبست کریں۔ اِس لیے کہ اُس وقت کی حکومت اور قانون سے وہ اپنے لیے کسی انصاف کی توقع نہیں کر سکتے تھے۔ اِس میں یہ جو فرمایا ہے کہ ’’اب میں اِس طرح کے مجرموں کا کبھی مددگار نہ بنوں گا‘‘، تو اِس سے یہ بات لازم نہیں آتی کہ اُنھوں نے اپنے اسرائیلی بھائی کو مجرم سمجھتے ہوئے اُس کی مدد کی تھی۔ اُس وقت تو اُنھوں نے اُسے مظلوم ہی سمجھا تھا، لیکن بعد میں واضح ہو گیا کہ جسے وہ مظلوم سمجھے تھے، وہی درحقیقت مجرم تھا۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’... آپ نے توجو کچھ کیا ،اُس کو مظلوم سمجھتے ہوئے کیا، اُس کی فریاد پر کیا اور وقت کے حالات کی بنا پر اُن کو گمان یہی ہوا کہ قبطی ظالم اور اسرائیلی مظلوم ہے۔ لیکن جب اللہ تعالیٰ نے اُن کے معانی مانگنے پر یہ نہیں فرمایا کہ تم بے قصور ہو، قبطی ظالم آدمی تھا، بلکہ اُن کوایک غلطی کا مرتکب قرار دیتے ہوئے معافی دی تواِس سے وہ اِس نتیجے پر پہنچے کہ معلوم ہوتا ہے کہ میں نے مظلوم کی حمایت کرنی چاہی، لیکن معاملے کی تحقیق نہ کرنے کے سبب سے مجھ سے ظالم کی حمایت صادر ہو گئی۔ اِس وجہ سے آیندہ کے لیے آپ نے یہ عہد فرمایا کہ اب میں بلاتحقیق کسی کی حمایت نہیں کروں گا، بلکہ صرف اُسی کی حمایت کروں گا جس کا مظلوم ہونا معلوم ہو۔ چنانچہ دوسرے ہی دن آپ نے جب اُسی اسرائیلی کو ایک دوسرے قبطی سے لڑتے دیکھا اور وہ حسب سابق پھر حضرت موسیٰ سے طالب مدد ہوا تو آپ نے اُس کو جھڑک دیا کہ تم ایک شریر آدمی معلوم ہوتے ہو۔‘‘(تدبرقرآن۵/ ۶۶۴)
[144]۔ موسیٰ علیہ السلام پر یہ بات اللہ تعالیٰ کے اشارے ہی سے کھل گئی تھی، تاہم آج اُسے دوبارہ لڑتے دیکھ کر اُنھیں کوئی شبہ نہیں رہا کہ اصل مجرم یہی شخص ہے جو ہر ایک سے لڑتا رہتا ہے۔
[145]۔ اصل الفاظ ہیں:’فَلَمَّا٘ اَنْ اَرَادَ‘۔ اِس ’اَنْ‘ سے پہلے موقع کی مناسبت سے کوئی فعل محذوف ہے۔ ہم نے ترجمے میں اُسے کھول دیا ہے۔
[146]۔ یہ اُس دشمنی کی طرف اشارہ ہے جو قبطیوں کے مظالم کی وجہ سے اُن کے اور اسرائیلیوں کے مابین اُس وقت قومی اعتبار سے قائم ہو چکی تھی۔
[147]۔ یہ شبہ غالباً اِس لیے ہوا کہ موسیٰ علیہ السلام نے آتے ہی اُسے جھڑک دیا تھا۔ چنانچہ اُنھوں نے جیسے ہی ہاتھ بڑھایا، اُسے گمان ہوا کہ اُن کا گھونسا آج اُسی پر پڑے گا۔
[148]۔ اِس سے معلوم ہوا کہ یہ آدمی محض شریر ہی نہیں، اِس کے ساتھ نہایت سفلہ بھی تھا۔ موسیٰ علیہ السلام نے اِس کی مدد و حمایت کی تو اِس کے نزدیک وہ بہت بڑے مصلح تھے، لیکن جب اُن کی طرف سے خود اِس کو تنبیہ کا اندیشہ ہوا تو نہایت غیر ذمہ دارانہ طور پر اُس نے کل کے قتل کا راز کھول دیا جو اب تک کسی کے علم میں نہیں تھا اور اُنھیں بھی فوراً ایک مطلق العنان اور بے قابو آدمی قرار دے دیا جو دوسروں پر اپنی دھونس جمانا چاہتا ہے۔
[149]۔ یہ غالباً وہی شخص ہے جس کا ذکر آگے سورۂ مومن (۴۰) کی آیت ۲۸میں ہوا ہے کہ اگرچہ شاہی خاندان میں سے تھا، مگرموسیٰ علیہ السلام پر ایمان لے آیا تھا۔
[150]۔ اِس سے اندازہ ہوتا ہے کہ موسیٰ علیہ السلام پہلے ہی سے دربار والوں کی نگاہ میں کھٹک رہے تھے۔ لہٰذا اُنھیں جب معلوم ہوا کہ یہ اسرائیلی اب ہمارے لوگوں کو قتل بھی کرنے لگا ہے تو اُن کی آتش غضب پوری طرح بھڑک اٹھی اور وہ اُن کے قتل کے منصوبے بنانے لگے۔
[151]۔ یہ وضاحت اُس نے غالباً اِس لیے ضروری سمجھی کہ بدگمانی کی جو فضا اُس وقت قبطیوں اور اسرائیلیوں کے درمیان تھی، اُس میں حضرت موسیٰ یہ خیال نہ کریں کہ اِس خبر کے پیچھے بھی فرعونیوں کی کوئی اسکیم ہے۔
[152]۔ یعنی گھر سے نکل کر کچھ سوچا اور پھر فیصلہ کر لیا کہ اِس ہجرت کے لیے فرعون کی سلطنت سے باہر مدین ہی موزوں جگہ ہے۔ خلیج عقبہ کے مشرقی اور مغربی سواحل پر آباد، یہ اُسی قوم کی بستی ہے جس کی طرف حضرت شعیب مبعوث ہوئے تھے۔ اِس کا محل وقوع خلیج عقبہ کے مغربی ساحل پر مقنا سے چند میل بجانب شمال بتایا جاتا ہے۔
[153]۔ یعنی ٹھیک اُس راستے پر ڈال دے گا جو مجھے میری منزل مقصود تک پہنچا دے۔ اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ اُنھوں نے مدین کا رخ تو کر لیا تھا، لیکن ابھی کچھ معلوم نہیں تھا کہ مدین میں کہاں اور کس کے پاس جانا ہے۔ بس خدا کے بھروسے پر گھر سے نکل کھڑے ہوئے تھے۔ آگے کے واقعات سے واضح ہے کہ یہی بھروسا اُن کا ہاتھ پکڑ کر اُنھیں ٹھیک اُسی مقام پر لے گیا، جہاں اُنھیں جانا چاہیے تھا۔
[154]۔ اصل میں لفظ ’تَذُوْدٰنِ‘ استعمال ہوا ہے۔ اِس سے یہ بات نکلتی ہے کہ اُن کا گلہ تو گھاٹ پر پہنچ کر پانی پینے کے لیے زور لگا رہا تھا، لیکن وہ زبردستی اُسے پیچھے ہٹا رہی تھیں۔
[155]۔ اصل میں ’مَا خَطْبُكُمَا‘کے الفاظ آئے ہیں۔ اِن کا حق ادا کیجیے تو گویا مدعا یہ ہے کہ تم عورتیں ہو، آخر کیا افتاد پیش آئی ہے کہ خود اپنا گلہ لے کر نکلی ہو اور اب اُسے یہاں روکے کھڑی ہو۔
[156]۔ یعنی والد بوڑھے ہیں اور گھر میں کوئی دوسرا مرد بھی نہیں ہے، اِس لیے آتی ہیں۔ لیکن مردوں کی بھیڑ میں گھسنا مشکل ہوتا ہے، لہٰذا انتظار کرتی ہیں کہ چرواہے ہٹیں تو اپنے جانوروں کو آگے لائیں۔
[157]۔ یعنی اگرچہ سخت مشکل اور پریشانی سے دوچار تھے، مگر اُس کے اظہار کے لیے ایک لفظ بھی زبان سے نہیں نکالا اور جس سایے سے اٹھ کر کم زوروں کی حمایت کے لیے گئے تھے، اُسی میں آ کر بیٹھ گئے۔
[158]۔ یہ ایسی دعا ہے کہ روح میں اہتزاز پیدا کر دیتی ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’...اِس دعا کی بلاغت کی تعبیر سے زبان قلم قاصر ہے۔ صرف اہل ذوق ہی اِس کو سمجھ سکتے ہیں۔ چونکہ یہ دعا بالکل صحیح وقت پر، صحیح جذبے کے ساتھ اور بالکل صحیح الفاظ میں زبان سے نکلی، اِس وجہ سے اِس کا اثر بلاکسی تاخیر کے ظاہر ہوا۔ صاحب زادیوں نے حضرت موسیٰ کے اِس احسان کا ذکر اپنے باپ سے کیا اور اِس طرح حضرت موسیٰ کے لیے اُس خیر کی راہ کھل گئی جس کے لیے اُنھوں نے دعا فرمائی تھی۔‘‘(تدبرقرآن۵/ ۶۶۹)
[159]۔ یہ بزرگ مدین کے کاہن تھے۔ بائیبل میں اِن کا نام ایک جگہ رعوایل اور دوسری جگہ یترو بیان کیا ہے۔ تالمودی لٹریچر میں ایک اور نام حوباب بھی نقل ہوا ہے۔ اِن میں سے یترو کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ یہ اِن کا نام نہیں، بلکہ لقب تھا۔ یہ ابراہیم علیہ السلام کے بیٹے مدیان کی اولاد میں سے تھے۔ چنانچہ قیاس یہی ہے کہ حضرت موسیٰ کی طرح یہ بھی دین ابراہیمی کے پیرو تھے۔
[160]۔ بائیبل میں مزید تفصیل ہے کہ اُس روز لڑکیاں معمول کے خلاف وقت سے پہلے فارغ ہو کر گھر پہنچ گئیں تو باپ نے اِس کا سبب معلوم کرنا چاہا۔ اُنھوں نے بتایا کہ آج ایک مسافر نے ہمارے گلے کو خود بھر کر پانی پلا دیا ہے۔ اِس پر باپ نے فرمایا کہ تم نے اُسے چھوڑ کیوں دیا؟ جا کر اُسے بلاؤ کہ ہمارے ہاں روٹی کھائے۔
آیت میں یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ قرآن نے چرواہوں کی بھیڑ سے لڑکیوں کے الگ کھڑے ہونے اور موسیٰ علیہ السلام کو بلانے کے لیے شرماتے ہوئے آنے کو خاص طور پر نمایاں کیا ہے۔ یہ اُن کے شریفانہ اطوار کی تصویر ہے جس کی طرف قرآن توجہ دلانا چاہتا ہے۔
[161]۔ اِس سے معلوم ہوا کہ موسیٰ علیہ السلام نے اِسے اپنی دعا کی قبولیت اور تائید غیبی سمجھا اور بغیر کسی تردد کے فوراً اُس کے ساتھ ہو لیے۔ یہ سن لینے کے باوجود کہ اُنھیں ایک ذراسی خدمت کا بدلہ دینے کے لیے بلایا جارہا ہے، اُنھوں نے مناسب نہیں سمجھا کہ اِس موقع پر خواہ مخواہ خودداری کا مظاہرہ کریں اور اُن کے پروردگار نے جو سامان میزبانی فراہم کر دیا ہے، اُسے رد کردیں۔
[162]۔ یہ ٹھیک اُس دعا کی قبولیت کی بشارت تھی جو موسیٰ علیہ السلام نے مصر سے نکلتے ہوئے کی تھی کہ ’رَبِّ نَجِّنِيْ مِنَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِيْنَ‘(پروردگار، تو مجھے اِن ظالم لوگوں سے نجات عطا فرما دے)۔
[163]۔ آیت کے اسلوب سے واضح ہے کہ یہ لڑکی وہ نہیں تھی جو موسیٰ علیہ السلام کو بلانے گئی تھی ، بلکہ دوسری تھی۔
[164]۔ قرینے سے معلوم ہوتا ہے کہ لڑکی کے والد غالباً پہلے ہی سے اپنے گھر اور جایداد کی دیکھ بھال کے لیے کسی موزوں آدمی کی تلاش میں تھے۔ چنانچہ اُس نے سفارش کر دی اور سفارش کے وجوہ بھی بیان کر دیے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’... جہاں تک جسمانی صحت و قوت کا تعلق ہے، یہ ایک ایسی کھلی ہوئی چیز ہے کہ آدمی بہ یک نظر اِس کا اندازہ کر سکتا ہے، لیکن امانت و دیانت کا تعلق کردار سے ہے جس کا صحیح صحیح اندازہ تجربے سے ہوتا ہے۔ یہ تجربہ عام حالات میں تو بہت دیر میں ہوتا ہے، لیکن بعض حالات میں بالکل باول و ہلہ ہو جاتا ہے۔ آدمی کی پیشانی اور اُس کی نگاہیں گواہی دیتی ہیں کہ یہ کس کردار کا آدمی ہے۔‘‘(تدبر قرآن۵/ ۶۷۰)
[165]۔ یعنی تمھیں ایسی کسی بات کا پابند نہیں کرنا چاہتا جو تمھیں منظور نہ ہو، اِس لیے تم اچھی طرح غور کرکے فیصلہ کر سکتے ہو۔
[166]۔ اصل میں لفظ ’اٰنَسَ‘ استعمال ہوا ہے۔اِس سے یہ بات نکلتی ہے کہ موسیٰ علیہ السلام نے آگ کا کوئی جلتا ہوا الاؤ نہیں، بلکہ ایک شعلہ سا دیکھا تھا جو اچانک چمکا اور غائب ہو گیا اور اُن کے سوا شاید کسی اور کو نظر بھی نہیں آیا۔
[167]۔ اِس سے معلوم ہوا کہ رات کا وقت تھا اور اُنھیں راستے کا بھی کچھ اندازہ نہیں ہو رہا تھا۔
[168]۔ یعنی مبارک وادی کے کنارے سے جو طور کے مبارک خطے میں تھی۔ اِنھیں مبارک اِس لیے کہا گیا ہے کہ موسیٰ علیہ السلام یہاں اپنے پروردگار کی تجلی اور اُس کے کلام سے نوازے گئے۔ اللہ تعالیٰ زمین کے کسی ٹکڑے یا کسی علاقے کو اپنے نور و ظہور کے لیے منتخب کر لیں تو وہ یقیناً مبارک ہو گا اور اُس کے قدوسیوں کی جلوہ گاہ بن جائے گا۔ ’الْوَاد‘اور ’الْبُقْعَة‘ کے لیے آیت میں یہ صفات اِسی حقیقت کی وضاحت کے لیے آئی ہیں کہ موسیٰ علیہ السلام نے جو آواز سنی، وہ ایک متعین جہت سے اور متعین درخت سے آئی تھی، جہاں کسی شیطان کے لیے دراندازی کا کوئی امکان نہ تھا۔
[169]۔ سورۂ نمل(۲۷: ۹) میں اِس مقام پر ’اَنَا اللّٰهُ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ یہ گویا اِسی ’رَبُّ الْعٰلَمِيْنَ‘ کی صفت کو اُس کے مضمرات کے لحاظ سے بیان کر دیا ہے۔
[170]۔ یہ اُس فطری ردعمل کا بیان ہے جو رات کی تاریکی میں کسی سنسان جگہ پر اِس طرح کے کسی منظر کو دیکھ کر کسی شخص سے صادر ہو سکتا ہے۔
[171]۔ یہ اضافہ صاف واضح کر رہاہے کہ یہاں بائیبل کی تردید مقصود ہے جس میں ہاتھ کی سفیدی کو برص بتایا گیا ہے۔
[172]۔ اصل میں ’مِنَ الرَّهْبِ‘ کے الفاظ آئے ہیں، یعنی ’ضمک من الرھب‘۔ یہ اُسی طرح کا اسلوب ہے، جیسے دوسرے مقامات میں ’مِنَ الذُّلِّ‘ یا ’مِنَ الرَّحْمَةِ‘ وغیرہ کے اسالیب ہیں۔
[173]۔ اصل الفاظ ہیں:’فَذٰنِكَ بُرْهَانٰنِ مِنْ رَّبِّكَ اِلٰي فِرْعَوْنَ‘۔ اِن میں ’اِلٰي‘ سے پہلے ایک فعل حذف کر دیا گیا ہے۔ یہ عربی زبان کا عام اسلوب ہے جس کی متعدد مثالیں پیچھے گزر چکی ہیں۔
[174]۔ یہ وجہ بتائی ہے کہ موسیٰ علیہ السلام کو اِن غیر معمولی نشانیوں کے ساتھ فرعون اور اُس کے درباریوں کی طرف کیوں بھیجا جا رہا ہے۔
[175]۔ یہودی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ ہارون علیہ السلام اپنی قوم میں فصاحت بیان کے لیے بڑی شہرت رکھتے تھے۔ چنانچہ موسیٰ علیہ السلام نے درخواست کی کہ اُن کے ہاں یہ کمی ہے، اِس کی تلافی کے لیے اُن کے بھائی کو اُن کا مددگار بنا دیا جائے۔
[176]۔ اصل میں ’بِاٰيٰتِنَا‘ کا لفظ آیا ہے۔ ہمارے نزدیک راجح یہی ہے کہ اِس سے پہلے ایک فعل محذوف مانا جائے۔
[177]۔ یعنی حضرت موسیٰ کی یہ بات کہ میں رب العٰلمین کا رسول ہوں اور مجھے اِس لیے مبعوث کیا گیا ہے کہ میں اُس کے پیغامات تمھیں پہنچا دوں۔
[178]۔ یہ مقابل کا جملہ ہے جو اصل میں بربناے قرینہ محذوف ہے۔
[179]۔ نہایت بلیغ اور شستہ اسلوب میں یہ اُس نتیجے کا اعلان ہے جو حق و باطل کی اُس کشمکش کا نکلنے والا تھا جو موسیٰ علیہ السلام کی بعثت کے بعد مصر میں برپا ہو گئی تھی۔
[180]۔ یعنی زمین و آسمان کا کوئی خالق ہے تو ہوا کرے، تمھارا معبود تو میں ہی ہوں۔ فرعون نے یہ بات اِس لیے کہی کہ مصر میں اُسے سورج دیوتا کا اوتار سمجھا جاتا تھا۔ تاہم یہ کوئی سنجیدہ بات نہیں تھی، بلکہ محض استہزا کا جملہ تھا جو موسیٰ علیہ السلام کی تحقیر کے لیے کہا گیا۔ اِسی طرح آگے کا جملہ بھی محل بنوانے کا کوئی سنجیدہ حکم نہیں ہے۔ فراعنہ و متمردین عہد رفتہ کے ہوں یا دور حاضر کے، ہمیشہ اِسی طرح حقائق کا مذاق اڑاتے رہے ہیں۔
[181]۔ یعنی اِس وجہ سے گھمنڈ کیا کہ وہ خداکے سامنے کسی جواب دہی کا گمان نہیں رکھتے تھے۔
[182]۔ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تسلی بھی ہے اور آپ کے مخاطبین کے لیے تذکیر و تنبیہ بھی کہ اِس وقت جو دعوت برپا ہے، اُس کا نتیجہ بھی یہی نکلنے والا ہے۔
[183]۔ آیت میں لفظ ’اَئِمَّة‘ کے ساتھ ’جَعَلْنَا‘ کا فعل ہے۔ یہ ’أمهلنا‘ کے مفہوم پر متضمن ہے اور ’يَدْعُوْنَ‘ سے پہلے فعل ناقص عربیت کے اسلوب پر حذف کر دیا گیا ہے۔ ہم نے ترجمے میں یہ چیزیں ملحوظ رکھی ہیں۔
[184]۔ یہ اِس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمام قوموں کی طرف رسول بھیجے، لیکن اُن میں سے کوئی قوم بھی اُس دعوت کی علم بردار بن کر کھڑی نہیں ہوئی جو رسولوں کی طرف سے اُن کے سامنے پیش کی گئی ۔ چنانچہ اتمام حجت کے بعد سب ہلاک کر دی گئیں۔ اِس کے بعد نبوت کا دوسرا دور شروع ہوا اور اللہ تعالیٰ نے ابراہیم علیہ السلام کی ذریت کو یہ توفیق دی کہ وہ اپنے پیغمبر پر ایمان لائیں اورفلسطین کی سرزمین میں دعوت حق کا ایک مرکز قائم کرکے عالمی سطح پر اتمام حجت کا اہتمام کریں۔ اُن کا یہی منصب تھا جس کی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے لیے اُنھیں تورات کی صورت میں ایک باقاعدہ کتاب دی گئی۔
[185]۔ یعنی دنیا کی زندگی میں ہدایت اور آخرت میں خدا کی رحمت و عنایت۔یہ دونوں لفظ واحد ہیں، لیکن اِن سے پہلے لفظ ’بَصَآئِر‘ آیت میں جمع استعمال ہوا ہے۔ اِس سے مقصود یہ واضح کرنا ہے کہ خدا کی یہ کتاب ایسی آیات اور ایسے دلائل پر مشتمل تھی جن سے لوگوں کی آنکھیں کھل سکتی تھیں۔
[186]۔ آیت میں تضمین ہے۔ چنانچہ ’قَضَيْنَا‘ میں ’عَهِدْنَا‘ کا مفہوم بھی شامل ہو گیا ہے، جیسے ’عَهِدْنَا٘ اِلٰي اِبْرَاهِيْمَ‘۔
[187]۔ اِس سے حضرت موسیٰ کی قوم کے لوگ مراد ہیں جو اُن کے ساتھ طور کے دامن میں موجود تھے۔
[188]۔ اِن آیتوں میں بعض فقرے دلالت قرینہ کی بنا پر حذف کر دیے گئے ہیں۔ ہم نے ترجمے میں اُنھیں کھول دیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اِس کے باوجود کہ تم نے یہ واقعات اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھے، لیکن اِن کا آنکھوں دیکھا حال اِن لوگوں کو سنا رہے ہو اور اِس طرح سنارہے ہو کہ لوگ جو کچھ جانتے ہیں، اُس کی تصحیح بھی ہو رہی ہے تو یہ اِس بات کی دلیل ہے کہ تمھاری زبان پر اُس ہستی کا کلام جاری ہوا ہے جس کی نگاہوں سے ماضی ، حال اور مستقبل کی کوئی چیز بھی چھپی ہوئی نہیں ہے۔ یہ اگر سمجھنا چاہیں تو تنہا یہی بات اِن کو یہ سمجھانے کے لیے کافی ہے کہ تم خدا کے رسول ہو اور تم پر یہ کلام تمھارے پروردگار کی طرف سے نازل کیا گیا ہے۔
یہاں یہ امر ملحوظ رہے کہ جن لوگوں کے سامنے یہ بات کہی گئی، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے شب و روز سے واقف تھے اور خوب جانتے تھے کہ اِن معلومات کے لیے آپ کے پاس وحی الٰہی کے سوا کوئی دوسرا ذریعہ موجود نہیں ہے۔ چنانچہ قرآن نے اپنے من جانب اللہ ہونے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے رسول اللہ ہونے پر جودلائل دیے ہیں، اُن میں سے یہ ایک بڑی دلیل ہے جو کئی دوسرے مقامات پر بھی پیش کی گئی ہے۔
[باقی]
_____
*(۱: ۱۵ - ۲۲)
ـــــــــــــــــــــــــ