HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : سید منظور الحسن

سنت کا ثبوت: جناب جاوید احمدغامدی صاحب کے موقف پر اعتراضات کا جائزہ (۴)

تواتر اور خبر واحد

 ناقدین نے دوسرا اعتراض یہ کیا ہے کہ غامدی صاحب سنت کے ثبوت کا معیار تواتر عملی کو قرار دیتے ہیں، جب کہ تواتر کا ثبوت بذات خود خبر کا محتاج ہے۔ امت کی صدیوں پر محیط تاریخ میں کسی عمل پر تواتر سے تعامل کی حقیقت کو جاننے کا واحد ذریعہ خبر ہے۔ اگر مجرد طور پر تواتر عملی ہی کو ذریعۂ انتقال مان لیا جائے تودینی اعمال اور بدعات میں تفریق کرنی مشکل ہو جائے گی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جس طرح دین کے اصل اعمال نسل در نسل تواتر عملی سے منتقل ہوئے ہیں، اسی طرح بدعات بھی دینی اعمال کی حیثیت سے نسلاً بعد نسلٍ تواتر عملی ہی سے منتقل ہوئی ہیں۔ چنانچہ دینی اعمال کو بدعات سے ممیز کرنے کے لیے لازماً اخبار کے ذخیرے ہی کی طرف رجوع کرنا پڑے گا۔

س  ہمارے نزدیک یہ بات بالکل سطحی ہے اور انتقال علم کے ذرائع سے ناواقفیت پر مبنی ہے۔ ماضی کا تواتر اپنے ثبوت کے لیے تاریخی ریکارڈ کا محتاج ہوتا ہے، نہ کہ ’حدثنا‘ اور ’أخبرنا‘ کے ساتھ کسی کتاب میں لکھی ہوئی خبر واحد کا۔ تاریخی ریکارڈ سے مراد کتب حدیث میں مدون روایات کے علاوہ ہر دور کے علما وفقہا کی تصنیفات، تاریخ وادب کی کتب اور مختلف دینی علوم وفنون کے مباحث میں محفوظ وہ ذخیرہ ہے جو پوری قطعیت کے ساتھ واضح کر دیتا ہے کہ کون سی چیز متواتر ہے اور کون سی متواتر نہیں ہے؛کون سا عمل نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک متصل ہے اور کون سا بعد کی پیداوار ہے؛ کس بات پر علماے امت متفق رہے ہیں اور کس پر ان کے مابین اختلاف ہوا ہے۔

تواتر کے ذریعے سے کیسے دین منتقل ہوا ہے ، اہل علم نے مختلف مسائل کے حوالے سے اسے جا بجا واضح کیا ہے۔

امام شافعی کی درج ذیل عبارت سے واضح ہے کہ وہ عموم بلویٰ کی نوعیت کے احکام میں تواتر و تعامل ہی کو اصل معیار ثبوت کے طور پر تسلیم کرتے ہیں۔ تدفین کے احکام ان کے نزدیک ہمیں خبر سے معلوم نہیں ہوئے، بلکہ عامہ کی عامہ کو روایت ہی کے ذریعے سے معلوم ہوئے ہیں:

وأمور الموتی وإدخالهم من الأمور المشهورة عندنا لکثرة الموت وحضور الأئمة وأهل الثقة وهو من الأمور العامة التي یستغنی فیها عن الحدیث ویکون الحدیث فیها کالتکلیف بعموم معرفة الناس لها ورسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم والمهاجرون والأنصار بین أظهرنا ینقل العامة عن العامة لا یختلفون في ذالک أن المیت یسل سلًا ثم جاءنا آت من غیر بلدنا یعلمنا کیف ندخل المیت. (الام ۱/ ۳۰۰ - ۳۰۱)   
  ’’مردوں کے احکام اور ان کو قبر میں داخل کرنے کے احکام ہمارے ہاں کثرت اموات، ائمہ اور ثقہ لوگوں کی موجودگی کی وجہ سے مشہور ہیں۔ یہ ان احکام میں سے ہیں جن کے بارے میں گفتگو کرنا ضروری نہیں ہے۔ ان کے بارے میں گفتگو کرنا ایسے ہی ہے، جیسے لوگوں کو اس بات کا مکلف کرنا کہ وہ اس کی معرفت حاصل کریں، حالاں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، مہاجرین اور انصار کی زندگیاں ہمارے سامنے ہیں۔ عامہ عامہ سے روایت کرتے ہیں کہ وہ اس بات میں اختلاف نہیں کرتے تھے کہ میت کو سرہانے کی طرف سے پکڑ کر کھینچ لیا جائے، پھر کوئی شخص کسی دوسرے شہر سے آکر ہمیں سکھاتا ہے کہ میت کو قبر میں کیسے داخل کریں۔‘‘

دین کے ایک اہم رکن  ــــــ نماز جمعہ  ــــــ کے بارے میں شاہ ولی اللہ نے یہ تصریح کی ہے کہ اس کے لیے جماعت اور شہریت کا شرط لازم ہونا نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے لفظاً منقول نہیں ہے۔ امت نے یہ بات آپ کے عمل سے براہ راست اخذ کی ہے:

وقد تلقت الأمة تلقیًا معنویًا من غیر تلق لفظي أنه یشترط في الجمعة الجماعة ونوع من التمدن وکان النبي صلی اللہ علیه وسلم وخلفاؤہ رضي اللہ عنهم والأئمة المجتھدون رحمهم اللہ تعالٰی یجمعون في البلدان ولا یؤاخذون بها أهل البدو بل ولا یقام في عهدهم في البدو ففهموا من ذالک قرنًا بعد قرن وعصرًا بعد عصر أنه یشترط لها الجماعة والتمدن.(حجۃ اللہ البالغہ ۲/ ۵۴)
  ’’امت کو یہ بات معناً پہنچی ہے، نہ کہ لفظاً کہ نماز جمعہ میں جماعت اور شہریت شرط ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم، آپ کے خلفا رضی اللہ عنہم اور ائمۂ مجتہدین رحمہم اللہ تعالیٰ شہروں میں جمعہ کراتے تھے اور اس بنا پر دیہاتیوں کا مواخذہ نہیں کرتے تھے۔ وہ اپنے عہد میں کسی دیہات میں اس کا اہتمام نہیں کرتے تھے۔ زمانہ گزرنے کے ساتھ ساتھ لوگوں نے یہ سمجھ لیا کہ جمعہ کے لیے جماعت اور شہریت شرط ہے۔‘‘

علامہ انور شاہ کشمیری نے اسی پہلو کو ایک دوسرے زاویے سے بیان کیا ہے۔ ان کے نزدیک اگر کوئی حکم عملی طور پر ثابت ہو اور اس کا مصداق پوری طرح واضح ہو تو اسی کو ’سنت ثابتہ‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ رفع یدین کی مثال سے انھوں نے واضح کیا ہے کہ قیام میں رفع یدین کے وجوب یا عدم وجوب کا انحصار اسناد پر نہیں، بلکہ تعامل پر ہے۔ لکھتے ہیں:

وکل لفظ لم یوجد مصداقه مع وفور العمل في الخارج، فهو إیهام تعبیري لا غیر. وبعکسه، أن العمل إذا ثبت بإمر في الخارج، وتبین مصداقه، فهو سنة ثابتة لا یمکن رفعها ونفیها من أحد، ولو أجلب علیه برجله وخیله، فلا یتمکن أحد علی نفي الترک رأسًا، کما لا یتمکن علی إثبات تعدد الرفع في القومة نظرًا إلی الألفاظ فقط ما لم یتبین العمل به في الخارج. فالتوارث والتعامل هو معظم الدین، وقد أری کثیرًا منهم یتبعون الأسانید ویتغافلون عن التعامل، ولولا ذالک لما وجدت أحدًا منهم ینکر ترک الرفع. (فیض الباری ۱/۳۲۰)    
 ’’جس حکم کا مصداق کثرت عمل کے باوجود خارج میں معلوم نہ ہو، وہ محض تعبیری وہم ہے، اس کے علاوہ کچھ نہیں۔ اس کے برعکس، جب کسی حکم میں عمل خارج میں ثابت ہو اور اس کا مصداق واضح ہو تو وہ سنت ثابتہ ہے، اس کا رد اور نفی کرنا کسی سے ممکن نہیں، چاہے اس کے لیے اپنے پیادہ و رسالہ کو لے آئے۔ چنانچہ جس طرح رفع یدین کی مطلقاً نفی کسی کے لیے ممکن نہیں، اسی طرح خارج میں عمل کا اثبات کیے بغیر محض الفاظ پیش نظر رکھتے ہوئے (رکوع و) قومہ میں رفع یدین کے تعدد کو ثابت کرنا بھی ناممکن ہے۔توارث اور تعامل، (یعنی نسل در نسل عمل کرنا) دین کا بڑا حصہ ہیں۔ میں ان میں سے اکثر کو دیکھ چکا ہوں کہ وہ اسانید کی تو پیروی کرتے ہیں، لیکن تعامل سے غفلت برتتے ہیں۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو میں ان میں سے کسی کو رفع یدین کو ترک کرنے کا منکر نہ پاتا۔‘‘

بعض ناقدین نے غامدی صاحب کے اس موقف کی تردید کے لیے کہ سنت اجماع اور تواتر عملی سے منتقل ہوتی ہے اور اس کے مقابل میں اپنی اس راے کی تائید کے لیے کہ تواتر عملی کا اثبات اخبار آحاد کے بغیر ممکن نہیں ہے، نماز کی مثال کودلیل کے طور پر پیش کیا ہے ۔ انھوں نے یہ بیان کیا ہے کہ غامدی صاحب کا یہ دعویٰ درست نہیں ہے کہ نماز تواتر عملی کے ذریعے سے ملی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نماز کے اعمال کے بارے میں فقہا کے مابین ہمیشہ سے اختلافات موجود رہے ہیں۔ان اختلافی مباحث میں وہ اپنی آرا کے دلائل کے طور پر تواتر کو نہیں، بلکہ اخبار آحاد ہی کو پیش کرتے ہیں۔ اس سے واضح ہے کہ ان کے نزدیک اصل دلیل کی حیثیت خبر واحد کو حاصل ہے، نہ کہ تواتر کو۔

یہ بات فقہا کے کام کے صحیح فہم پر مبنی نہیں ہے۔ یہ بات سراسر غلط ہے کہ علماے امت اصل اور اساسی معاملات میں تواتر کے بجاے خبر واحد کو ترجیح دیتے ہیں۔ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ علما کی اکثریت اصل دین کے بارے میں اخبار آحاد پر انحصار کی قائل نہیں ہے، البتہ جزئیات اور فروعات میں اس پر انحصار کیا جا سکتا ہے،یعنی ایسا ہرگز نہیں ہے کہ وہ نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ، قربانی اور دیگر سنن اور ان کی بنیادی تفصیلات کو ’حدثنا‘ اور ’أخبرنا‘ کے طریقے پر نقل کی گئی روایات کی بنا پر ثابت مانتے ہیں۔ ان کے ثبوت کا معیار ان کے نزدیک سرتاسر اجماع اور تواتر و تعامل ہی ہے۔ تاہم، اس ضمن میں بعض نہایت جزوی اور فروعی معاملات میں ان کے مابین اختلافات بھی پائے جاتے ہیں۔ یہ اختلافات جہاں تاویل، قیاس اور اجتہاد کی مختلف جہتوں کی بنا پر قائم ہوئے ہیں، وہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سے نقل ہونے والے اخبار آحاد کی بنا پر بھی قائم ہوئے ہیں۔چنانچہ ناقدین اگر غامدی صاحب کی محققہ سنن کی فہرست کو سامنے رکھیں اور ان میں سے ایک ایک چیز کو لے کر اس کے بارے میں علما و فقہا کی آرا کا جائزہ لیں تو ان پر یہ بات ہر لحاظ سے واضح ہو جائے گی کہ ان میں بنیادی طور پر کوئی اختلاف نہیں ہے۔ زکوٰۃ کی نوعیت، اس کی شروح اور حد نصاب میں کوئی اختلاف نہیں ہے؛صدقۂ فطر میں کوئی اختلاف نہیں ہے؛ روزہ و اعتکاف کی شریعت میں کوئی اختلاف نہیں ہے؛ حج و عمرہ کے مناسک میں کوئی اختلاف نہیں ہے؛قربانی اور ایام تشریق کی تکبیروں کے حوالے سے کوئی اختلاف نہیں ہے؛عید الفطر اور عید الاضحی میں کوئی اختلاف نہیں ہے؛ نکاح و طلاق اور ان کے حدود و قیود میں کوئی اختلاف نہیں ہے؛ حیض و نفاس میں زن و شو کے تعلق سے اجتناب پر کوئی اختلاف نہیں ہے؛ سؤر ، خون ، مردار اور خدا کے سوا کسی اور کے نام پر ذبح کیے گئے جانور کی حرمت کے بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے؛ اللہ کا نام لے کر جانوروں کا تذکیہ کرنے کے مسئلے میں کوئی اختلاف نہیں ہے؛ اللہ کا نام لے کر اور دائیں ہاتھ سے کھانے پینے میں کوئی اختلاف نہیں ہے؛ ملاقات کے موقع پر ’السلام علیکم‘ کہنے اور اس کا جواب دینے میں کوئی اختلاف نہیں ہے؛ چھینک آنے پر ’الحمد للہ‘ اور اس کے جواب میں ’یرحمک اللہ‘ کہنے پر کوئی اختلاف نہیں ہے؛ لڑکوں کا ختنہ کرنے میں کوئی اختلاف نہیں ہے؛میت کو غسل دینے، اس کی تجہیز و تکفین اورتدفین میں کوئی اختلاف نہیں ہے؛ مونچھیں پست رکھنے ،زیر ناف کے بال کاٹنے، بغل کے بال صاف کرنے، بڑھے ہوئے ناخن کاٹنے، ناک ،منہ اور دانتوں کی صفائی کرنے،استنجا کرنے، حیض و نفاس اور جنابت کے بعد غسل کرنے میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ان میں سے بعض سنن کی جزئیات و فروعات میں کچھ اختلاف ضرور ہیں، لیکن ان سے ان کی متفق علیہ حیثیت میں کوئی فرق واقع نہیں ہوتا۔

جہاں تک نماز کا تعلق ہے، تو اس کی جزئیات و فروعات میں بعض اختلافات نقل ہوئے ہیں، لیکن اس کی نوعیت اور اس کے بنیادی اعمال و اذکار کے بارے میں اصلاً کوئی اختلاف نہیں ہے۔ چنانچہ نماز کے ان شرائط پر اتفاق ہے کہ نماز پڑھنے والا نشے میں نہ ہو، وہ اگر عورت ہے تو حیض و نفاس کی حالت میں نہ ہو، وہ باوضو ہو اور حیض و نفاس یا جنابت کے بعد اس نے غسل کر لیا ہو، سفر، مرض یا پانی کی نایابی کی صورت میں، یہ دونوں مشکل ہو جائیں تو وہ تیمم کر لے، قبلہ کی طرف رخ کرکے نماز کے لیے کھڑا ہو۔وضو کے طریقے اور اس کے نواقض پر اتفاق ہے۔ تیمم کے طریقے پر اتفاق ہے۔ نماز کے اعمال پر اتفاق ہے، یعنی ابتدا میں رفع یدین، قیام، رکوع، قومہ، قعدہ، سجدہ، جلسہ، قعدے میں انگشت شہادت اٹھانا، سلام پھیرنا۔ نماز کے اذکار پر اتفاق ہے، یعنی ابتدا میں ’اللہ أکبر‘ کہنا، قیام میں سورۂ فاتحہ اور قرآن کے کچھ حصے کی تلاوت کرنا،رکوع میں جاتے ہوئے ’اللہ أکبر‘ کہنا، رکوع سے اٹھتے ہوئے ’سمع اللہ لمن حمدہ‘ کہنا، سجدوں میں جاتے اور اٹھتے ہوئے ’اللہ أکبر‘ کہنا، قعدے سے قیام کے لیے اٹھتے ہوئے ’اللہ أکبر‘ کہنا، نماز ختم کرنے کے لیے ’السلام علیکم و رحمة اللہ‘ کہنا، مغرب اور عشا کی پہلی دو رکعتوں میں اور فجر، جمعہ اور عیدین کی نمازوں میں امام کا بلند آواز سے قراء ت کرنا، ان اذکار کا عربی زبان میں ہونا۔ اسی طرح نمازوں کی تعداد اور ان کی رکعات پر اتفاق ہے۔ خطرے اور سفر وغیرہ کی حالت میں نماز میں دی گئی بعض رعایتوں پراتفاق ہے۔ نماز کی جماعت کے حوالے سے جو سنت قائم ہے ، اس پر بھی اتفاق ہے۔اذان اور اقامت پر اتفاق ہے۔ اس پر بھی اتفاق ہے کہ نماز میں غلطی کی صورت میں دو سجدے کیے جائیں۔اس تفصیل کو جان کر ہر وہ شخص جو نماز سے واقف ہے، بے اختیار یہ پکار اٹھے گا کہ اگر ان چیزوں پر علماے امت کا اتفاق ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ نمازایک متفق علیہ سنت کی حیثیت سے امت میں جاری و ساری ہے۔

چند جزوی چیزیں ہیں جن میں بعض فقہا اخبار آحاد کی بنا پر اختلاف کرتے ہیں۔ ان میں سے ایک چیز مثال کے طور پر یہ ہے کہ رکوع سے پہلے اور رکوع کے بعد، تیسری رکعت سے اٹھتے ہوئے اور سجدے میں جاتے اور اس سے اٹھتے ہوئے رفع یدین کیا جائے۔اسی طرح ایک چیز یہ ہے کہ امام کے پیچھے تلاوت دہرائی جائے یا خاموشی سے سنا جائے۔ قیام میں ہاتھ ناف سے ذرا اوپر باندھے جائیں یا لازماً سینے ہی پر باندھے جائیں۔نماز میں قراء ت بسم اللہ سے شروع کی جائے یا اس کے بغیر شروع کی جائے۔سفر میں قصر نماز فرض ہے یا اختیاری ہے، جمع بین الصلاتین میں تقدیم کا طریقہ اختیار کیا جائے یا تاخیر کا ۔نمازی کے آگے سے گزرنے سے نماز قطع ہو گی یا نہیں۔ یہ اور اس نوعیت کے بعض فروعی مسائل کے بارے میں علما کے مابین اختلافات مذکور ہیں۔ یہ اختلافات زیادہ تر اخبار آحاد میں مسائل کے تنوع اور ان کی مختلف تعبیرات اور علما کے ہاں ان کی تاویلات میں اختلاف پر مبنی ہیں ۔ ان کی حیثیت فروعی ہے اور ان سے نہ تواتر پر کوئی حرف آتا ہے اور نہ ان سنن کے سنن ہونے میں کوئی تغیر واقع ہوتا ہے۔ امام حمید الدین فراہی نے اپنے مقدمۂ تفسیر میں اسی بات کو واضح کیا ہے۔ لکھتے ہیں:

’’اسی طرح تمام اصطلاحات شرعیہ مثلاً نماز، زکوٰۃ، جہاد، روزہ، حج، مسجد حرام، صفا، مروہ اور مناسک حج وغیرہ اور ان سے جو اعمال متعلق ہیں تواتر و توارث کے ساتھ سلف سے لے کر خلف تک سب محفوظ رہے۔ اس میں جو معمولی جزوی اختلافات ہیں، وہ بالکل ناقابل لحاظ ہیں۔ شیر کے معنی سب کو معلوم ہیں اگرچہ مختلف ممالک کے شیروں کی شکلوں صورتوں میں کچھ نہ کچھ فرق ہے۔ اسی طرح جو نماز مطلوب ہے، وہی نماز ہے جو مسلمان پڑھتے ہیں، ہر چند کہ اس کی صورت و ہیئت میں بعض جزوی اختلافات ہیں۔ جو لوگ اس قسم کی چیزوں میں زیادہ کھوج کرید کرتے ہیں وہ اس دین قیم کے مزاج سے بالکل ہی ناآشنا ہیں جس کی تعلیم قرآن پاک نے دی ہے... پس جب ایسے اصطلاحی الفاظ کا معاملہ پیش آئے، جن کی پوری حدوتصویر قرآن میں نہ بیان ہوئی ہو تو صحیح راہ یہ ہے کہ جتنے حصے پر تمام امت متفق ہے اتنے پر قناعت کرو اور اخبار آحاد پر زیادہ اصرار نہ کرو ورنہ خود بھی شک میں پڑو گے اوردوسروں کے اعمال کو بھی غلط ٹھہراؤ گے اور تمھارے درمیان کوئی ایسی چیز نہ ہو گی جو اس جھگڑے کا فیصلہ کر سکے۔‘‘(تدبر قرآن۱/ ۲۹)    

مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کے موقف پرجب ایک صاحب نے وہی اعتراض کیا جو ناقدین نے نماز کے حوالے سے کیا ہے تو انھوں نے یہی بات بیان کی:

’’...نماز کے متعلق تواتر قولی و عملی سے یہ بات متفقہ طور پر ثابت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پانچ وقت کی نماز فرض ادا فرماتے تھے، نماز جماعت کے ساتھ پڑھی جاتی تھی، مقتدی آپ کے پیچھے صف بستہ کھڑے ہوتے اور آپ کی حرکات و سکنات کی پیروی کرتے تھے۔ آپ قبلہ کی جانب رخ فرمایا کرتے۔ تکبیر تحریمہ کے ساتھ نماز میں داخل ہوتے، قیام، رکوع، سجود اور قعود سے نماز مرکب ہوتی تھی، ہر رکن نماز کی فلاں فلاں ہیئتیں تھیں۔ غرض نماز کے جتنے اہم اجزاء ترکیبی ہیں ان سب میں تمام زبانی روایات متفق ہیں اور عہدرسالت سے آج تک ان کے مطابق عمل بھی ہو رہا ہے۔ اب رہے جزئیات مثلاً رفع یدین اور وضع یدین وغیرہ تو ان کا اختلاف یہ معنی نہیں رکھتا کہ نماز کے متعلق تمام روایات غلط ہیں، بلکہ دراصل یہ اختلاف اس امر کا پتہ دیتا ہے کہ مختلف لوگوں نے مختلف اوقات میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل مختلف دیکھا۔ چونکہ یہ امور نماز میں کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتے، اور ان میں سے کسی کے کرنے یا نہ کرنے سے نماز میں کوئی خلل واقع نہیں ہوتا، اور حضور خود صاحب شریعت تھے اس لیے آپ جس وقت جیسا چاہتے تھے عمل فرماتے تھے۔ لیکن حضورؐ کے سوا کوئی اور شخص چونکہ صاحب شریعت نہ تھا۔ اور اس کا کام اتباع تھا نہ کہ تشریع اس لیے ہر دیکھنے والے نے آپ کو جیسا فعل کرتے دیکھا اسی کی پیروی کی اور اسی کی پیروی کے لیے لوگوں سے کہا۔ بعد کے ائمہ نے روایات کی چھان بین کرکے ہر جزئیہ کے متعلق یہ معلوم کرنے کی کوشش کی کہ زیادہ صحیح اور مستند روایات کون سی ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس تحقیق کے نتائج میں اختلاف ہونا ممکن تھا، اور وہ ہوا۔ کسی نے کسی روایت کو زیادہ مستند سمجھا، اور کسی کو اس کے خلاف روایت پر اطمینان حاصل ہوا۔ مگر یہ اختلاف کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ اور یہ ہرگز اس امر کی دلیل نہیں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقۂ ادائے نماز کے متعلق سرے سے کوئی قولی و فعلی تواتر ہی نہیں پایا جاتا۔‘‘(تفہیمات ۱/ ۳۷۶ -۳۷۷)

اس تفصیل سے واضح ہے کہ نماز کے معاملے میں فقہا کے مابین پایا جانے والا سارا اختلاف فروع اور جزئیات میں ہے، نہ کہ نماز کے ا صل اور اساسی ڈھانچے میں، جس کو غامدی صاحب ’سنت‘ سے تعبیرکرتے ہیں۔ چنانچہ ناقدین اگر غامدی صاحب کی کتاب ’’میزان‘‘ کے باب ’’قانون عبادات‘‘ کا ملاحظہ کریں تو ان پر یہ بات واضح ہو گی کہ انھوں نے نماز کے متفقہ اور متواتر اعمال و اذکار کو سنت کے عنوان سے الگ ذکر کیا ہے اور اخبار آحاد سے مروی اسوۂ حسنہ کو اس کی فرع کے طور پر الگ نقل کیا ہے۔

___________

B