HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : خورشید احمد ندیم

’’مسائل نظری میں الجھ گیا ہے خطیب‘‘

کیا مذہب پاکستان کا بنیادی مسئلہ ہے ؟ یہ سوال اس ملک میں بارہا بحث کا موضوع بنا ۔ توہینِ رسالت ایکٹ کے حوالے سے اٹھنے والی احتجاجی لہر نے اس معاملے کو ایک مرتبہ پھر زندہ مسئلہ بنا دیا ہے ۔ حکومت نے قدرے تامل کے بعد اہلِ مذہب کا مطالبہ تسلیم کر لیا ہے لیکن وہ اس پر  مطمئن نہیں ان کا کہنا ہے کہ ابھی بہت سے مطالبات باقی ہیں ، اس لیے احتجاج کا یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ ان کے دیگر مطالبات کا اسلام سے کتنا تعلق ہے، اس پر کچھ عرض کرنے سے پہلے ، میں اس سوال کے ضمن میں کچھ کہنا چاہتا ہوں جو اس تحریر کی ابتدا میں اٹھایا گیا ہے ۔

 ایک ریاست کا نظری تشخص ، میرے نزدیک دو مراحل پر زیرِ بحث آنا چاہیے ۔ ایک اس وقت جب وہ تشکیل کے مرحلے میں ہو یا پھر اس وقت جب مروجہ مفہوم میں ایک ریاست وجود میں آ چکی ہو۔ ان دونوں مراحل پر فیصلہ کن کردار ان عوامل کا ہوتا ہے جو اس وقت مصروفِ عمل ہوتے ہیں اور جنھیں ہم زمینی حقائق کہتے ہیں۔ جب تحریکِ پاکستان برپا ہوئی تو اس وقت ناگریز تھا کہ مطلوبہ ریاست کے نظری  تشخص پر بات کی جاتی۔ اس کے علاوہ تقسیمِ ہند کی کوئی توجیہ ممکن نہیں تھی۔ مسلمانوں کے لیے الگ وطن کا مطالبہ اسی وقت   منطقی قرار پاتا ہے جب یہ ثابت ہو جائے کہ وہ ہندوؤں کے ساتھ مل کر کوئی اجتماعی نظام ترتیب نہیں دے سکتے۔ گاندھی جی کی ذہانت ، مولانا ابوالکلام آزاد کی علمی وجاہت اور مولانا حسین احمد مدنی کا مذہبی اثر ، اگر کسی منطق کے سامنے اعترافِ عجز کرتے دکھائی دیتے ہیں تو وہ دو قومی نظریہ ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان کے الگ وجود کے حق میں جو بھی دئل دیے گئے ، ابوالکلام کے علمِ کلام نے ان کے تاروپود بکھیر دیے ہیں۔ کوئی چاہے تو آج بھی مولانا آزاد کے ان مضامین اور تقاریر کا مطالعہ کر سکتا ہے جو اس عہد کے لٹریچر کا ایک ناگزیر حصہ ہیں۔ انھوں نے پاکستان کے بارے میں جو پیشین گوئیاں کیں۔ وقت نے بڑی حد تک ان کی بھی تصدیق کر دی ہے۔ نظری   تشخص کا مسئلہ اس وقت بھی زیرِبحث آیا جب قیامِ پاکستان کے فوراً بعد دستور کی تشکیل کا معاملہ درپیش تھا۔ اس مسئلے کو قراردادِ مقاصد کی صورت میں حل کر دیا گیا۔ یہ چونکہ پاکستان کے تشکیلی مراحل تھے، اس لیے اس وقت نظری تشخص کا معاملہ بنیادی اہمیت کا حامل تھا۔

  ایک ریاست اسلامی ہو یا غیر اسلامی، اس سے قطع نظر ، اپنا وجود باقی رکھنے اور اسے    مستحکم بنانے کے لیے وہ کچھ اقدامات کرنے کی پابند ہے۔ مثلاً اس نے اپنی جغرافی وحدت کی حفاطت کرنی ہے۔ اسے اپنی حدود میں بسنے والوں کے جان و مال کا تحفظ کرنا ہے۔ اس نے اپنے افرادی اور قدرتی وسائل کو دریافت کرنا اور بہتر طور پر استعمال میں لانا ہے۔ اس نے شہریوں میں قرب کو بڑھانا اور نسلی، لسانی اور گروہی فاصلوں کو مٹانا ہے۔ اسے ریاست کی سطح پر ایک اجتماعی عصبیت کو فروغ دینا ہے۔ اسے اپنی معیشت کو مضبوط بنیادیں بھی فراہم کرنا ہیں۔ پاکستان ایک سیکولر ملک ہوتا یا اسلامی، یہاں یہ سب کام ہونے چاہییں تھے لیکن ہم ان میں سے کوئی کام بھی ڈھنگ سے نہیں کر سکے۔ ہم اپنی جغرافی وحدت کا تحفظ نہیں کر سکے۔ اس کی دلیل بنگلہ دیش کی صورت میں موجود ہے۔ ہم شہریوں کی جان و مال کو محفوظ نہیں بنا سکے۔ اس کے لیے تو کسی دلیل کی ضرورت نہیں ۔ ہم اپنے وسائل کو احسن طریقے سے استعمال نہیں کر سکے۔ لاکھوں باصلاحیت لیکن بے روزگار نوجوانوں اور قدرتی وسائل سے مالامال غیر دریافت شدہ (Undiscoverd) لامحدود علاقہ ہمارا منہ تک رہے ہیں۔ قومی تشخص بے حد مجروح ہو چکا ہے۔ جہاں تک معیشت کا تعلق ہے تو ہم عالمی مالیاتی اداروں کا قرض اتارنے کے لیے ان سے مزید قرض لینے پر مجبور ہیں۔ جس معاشرے کو یہ سب مسائل درپیش ہوں اور جو نصف صدی گزر جانے کے بعد ان کو حل کرنے میں کامیاب نہ ہو سکے وہاں جمعہ کی چھٹی جیسے مسائل اٹھانا دلیل کم نظری کے سوا کچھ نہیں۔ آج ضرورت ہے کہ پوری قوم مل کر پہلے پاکستان کو ایک ریاست بنائے ۔ اس کے بعد یہ فیصلہ بھی ہو جائے گا کہ اسے عملاً ایک اسلامی ریاست کیسے بنایا جائے۔ جس ملک میں سرے سے کسی معیشت کا وجود ہی نہ ہو وہاں پہلے ایک معیشت وجود میں آئے گی پھر یہ طے ہو گا کہ اسے سودی ہونا چاہیے یا غیر سودی ۔

 اہلِ مذہب نے آج جن مطالبات کی بنیاد پر احتجاجی تحریک اٹھائی ہے ان میں سے کوئی مطالبہ ایسا نہیں جس کا تعلق تعمیرِ قوم یا موجودہ حالات سے ہو یا جن کی کوئی عملی افادیت ہو۔ جمعہ کی چھٹی یا مخلوط انتخابات جیسے مسائل، سب انتظامی معاملات ہیں۔ ان کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں، انھیں مذہبی رنگ دینا مذہب کا سوءِ استعمال ہے۔

  آج قوم کو احتجاج کی نہیں ہمہ جہتی تعمیر کی ضرورت ہے۔ اہلِ مذہب کی ذمہ داری ہے کہ وہ قوم کی اخلاقی تربیت کریں۔ فسادِ اخلاق میں مبتلا کسی معاشرے میں خیر کا کوئی بیج برگ و بار نہیں لا سکتا۔ ہڑتال ، جلوس، احتجاج یہ سب سیاست کے مظاہر ہیں، اہلِ مذہب کی لغت میں تو ان الفاظ کا گزر نہیں ہونا چاہیے۔ ا نھیں ’’انذار‘‘ کی ذمہ داری سونپی گئی ہے اور داعی کے منصب پر بٹھایا گیا ہے۔ آج مذہب اس ملک کا بنیادی مسئلہ نہیں ہے ۔ اصل مسئلہ استحکام ہے  ــــــ  سیاسی اور معاشی استحکام۔ لوگ مسائل کی چکی میں پس رہے ہیں۔ ان کے لیے نظری بحثیں اپنی کشش کھو چکی ہیں۔ غربت کے ہاتھوں شکست کھا کر موت قبول کرنے والوں کو مردار قرار دینے سے زیادہ، اسبابِ شکست کا تدارک ضروری ہے  ــــــ  مخلوط انتخابات ، جمعہ کی چھٹی  ــــــ  اگر اہلِ مذہب انھی میں الجھے رہے تو میں وہی عرض کر سکتا ہوں جو اقبال نے برسوں پہلے کہہ دیا تھا:

  میں جانتا ہوں جماعت کا حشر کیا ہو گا 

مسائل ِ نظری میں الجھ گیا ہے خطیب     

ــــــــــــــــــــــــــــــ

B