جاوید احمد غامدی/ منظور الحسن
جاوید احمد صاحب غامدی کے درسِ قرآن و حدیث کے بعد پوچھے گئے سوالات سے انتخاب
سوال: اب جبکہ ٹیلی وژن ہر گھر کا لازمی حصہ بن گیا ہے تو گھریلو خواتین کو اس کے مضر اثرات سے کیسے بچایا جا سکتا ہے؟
جواب: تمدن کے ارتقا کے نتیجے میںٹیلی وژن نے جو سماجی اور معاشرتی حیثیت حاصل کر لی ہے، اس کے بعد اسے گھر سے نکالنا ناممکن ہو گیا ہے۔ اس طرح کی کوشش خطرناک نتائج پیدا کر سکتی ہے۔ اس صورتِ حال میں ہر شخص کو دو کام کرنے چاہییں: ایک یہ کہ وہ جب بھی موقع پائے کار پرداز لوگوں کو اس کے مضر اثرات سے آگاہ کرے۔ اور دوسرے یہ کہ وہ اپنے اہلِ خانہ کے اندر خیر و شر کا شعور پیدا کرنے کی کوشش کرے۔ وہ ان کے دلوں میں جنت کی طلب پیدا کرے۔ انھیں سمجھائے کہ نفس کی یہ معمولی سی آلایش وہاں کتنے بڑے خسارے کا باعث بن جائے گی۔ آخرت کے صحیح شعور کو جب آپ اپنے اہلِ خانہ کے اندر اجاگر کر دیں گے تو یہ چیزیں آپ سے آپ بے معنی ہوتی چلی جائیں گی۔
سوال: ڈش انٹینا کے ذریعے سے عریانی اور فحاشی کی وبا تیزی سے پھیل رہی ہے۔ اس صورتِ حال میں کیا اس پر پابندی نہیں لگنی چاہیے؟
جواب: موجودہ زمانے میں سائنس نے جوغیر معمولی ترقی کر لی ہے اس کے بعد اب اس طرح کی چیزوں پر پابندی لگانا عملی طور پر ممکن نہیں رہا۔ آپ ایک دروازہ بند کریں گے تو کئی چور دروازے کھل جائیں گے۔اس لیے ہمیں اس طرح کی ایجادات سے گریز کے راستے تلاش کرنے کے بجائے اس بات کو ہدف بنا لینا چاہیے کہ ہم انھیں زیادہ سے زیادہ دینی مقاصد کے لیے استعمال کریں۔ میڈیا کی قوت کے ذریعے سے ہمیں دین کے پیغام کو دنیا تک پہنچانے کی جدو جہد کرنی چاہیے۔
سوال: کیا ڈش انٹینا کو تعلیمی اور معلوماتی مقاصد کے لیے لگایا جا سکتا ہے؟
جواب: اگر آپ اس پر کنٹرول کر سکیں اور گھریلو ماحول کو اس کے مفاسد سے محفوظ رکھ سکیں تو اس میں کوئی حرج کی بات نہیں ہے۔بلا شبہ اس پر ایسے چینل موجود ہیں کہ اگر لوگ ان کا اچھا ذوق پیدا کر لیں تو وہ اس میڈیا کی دوسری غلاظتوں سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔ جیسے ڈسکوری اور نیشنل جغرافیہ کے چینل ہیں ، جنھیں دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ کیا کیا قدرتیں ہیں جو اللہ تعالیٰ نے دنیا میں کارفرما کر رکھی ہیں، کیسی کیسی مخلوقات ہیں جو اس نے تخلیق کر رکھی ہیں، کیا کیا رعنائیاں ہیںجو اس اس نے کائنات میں بکھیر رکھی ہیں۔
سوال: دین کے اعتبار سے کون کون سے مسالک صحیح ہیں؟
جواب: دین کے بارے میں جو مسالک ، مکاتبِ فکر یا نقطہ ہاے نظر اس وقت موجود ہیں انھیں انسانوں ہی نے اپنے فہم کی روشنی میں قائم کیا ہے۔ ان میں سے کسی مکتبِ فکر کی ضروری نہیں کہ ہر بات صحیح ہو اور یہ بھی ضروری نہیں کہ ہر بات غلط ہو۔ علم و فکر کے اعتبار سے کسی بھی انسانی کاوش کو بالکلیہ صحیح نہیں کہا جا سکتا۔ میں جو دین آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں اس کے بارے میں یہ دعویٰ ہرگز نہیں کر سکتا کہ یہ سارے کا سارا لازماً صحیح ہو گا۔میری اپنی تاریخ مجھے بتاتی ہے کہ میں نے اپنی قائم کی ہوئی بہت سی آرا سے رجوع کیا ہے۔ اب سے پہلے کسی رائے کو میں اپنے علم و عقل کے مطابق صحیح سمجھتا تھا اور پورے یقین کے ساتھ اس کو بیان کرتا تھا ، آج میں اپنے علم وعقل کی روشنی میں اس رائے کو غلط سمجھتا ہوں۔میرے ایمان و یقین کا معاملہ اصل میں میرے فہم کے ساتھ وابستہ ہے۔ اس معاملے میں صحیح رویہ یہی ہے کہ ہمیں ہر وقت اپنے دل و دماغ کو کھلا رکھنا چاہیے اور اپنی رائے کے تعصب میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے۔ چنانچہ مکاتبِ فکر کے بارے یہ تو کہا جا سکتا ہے کہ فلاں مکتبِ فکر حقیقت کے زیادہ قریب ہے لیکن یہ نہیں کہا جا سکتاکہ فلاں مکتبِ فکر سر تا سر حق ہے۔ حق کی حتمی حجت کی حیثیت صرف اورصرف اللہ کے پیغمبر کی بات کو حاصل ہے۔ اس کو معیار بنا کر آپ کسی بات کے رد یا قبول کا فیصلہ کر سکتے ہیں۔
سوال: کیا اسلامی شریعت کے مطابق ہم کسی کو کافر قرار دے سکتے ہیں؟
جواب: اسلامی شریعت کے مطابق کسی شخص کو کافر قرار نہیں دیا جا سکتا، حتیٰ کہ کوئی اسلامی ریاست بھی کسی کی تکفیر کا حق نہیں رکھتی۔ وہ زیادہ سے زیادہ یہ کر سکتی ہے کہ اسلام سے واضح انحراف کی صورت میں کسی شخص یا گروہ کو غیر مسلم قرار دے دے ، کافر قرار دینے کا حق اس کو بھی نہیں ہے ۔ دین کی اصطلاح میں کافر قرار دینے کا مطلب یہ ہے کہ کسی شخص پر اللہ کی حجت پوری ہو گئی ہے اور یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ اس نے ضد ، عناد اور ہٹ دھرمی کی بنیاد پر دین کا انکار کیا ہے۔ دین کی کامل وضاحت جس میں غلطی کا کوئی شائبہ نہ ہو ، صرف اللہ کا پیغمبر اور ان کے تربیت یافتہ صحابہ ہی کر سکتے تھے ۔ اس وجہ سے اتمامِ حجت کے بعد تکفیر کا حق دین نے انھی کو دیا ہے ۔ ان کے بعددین کی کامل وضاحت چونکہ کسی فرد یا اجتماع کے بس کی بات نہیں ہے ، اس لیے اب تکفیر کا دروازہ ہمیشہ کے لیے بند ہو گیا ہے۔ ہم لوگوں کو اب اس کی جسارت بھی نہیں کرنی چاہیے۔ اگر ہم کسی کے عقیدے کو باطل یا کفر سمجھتے ہیں تو ہمیں پوری درد مندی کے ساتھ اسے نصیحت کرنی چاہیے اوردلائل اور حکمت کے ساتھ اس کی غلطی واضح کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اس سے زیادہ ہماری کوئی ذمہ داری نہیں ہے۔
ــــــــــــــــــــــــــــــ