HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : سید منظور الحسن

جہاد - ایک تنقید کا جواب

ہفت روزہ ’’وجود‘‘ کراچی ۴ اپریل ۲۰۰۰ کی اشاعت میں جناب علی محمد رضوی کا ایک تنقیدی مضمون شائع ہوا ہے۔ مضمون کا عنوان ہے:’’دہشت گردی ــــــ استعمار ــــــ جہاد‘‘۔اس مضمون میں مصنف نے برادرم آصف افتخار صاحب کی تحریر "Murder Manslaughter and Terrorism ---- All In The Name Of Allah" کو بنیاد بنا کر جہاد کے بارے میں ہمارے نقطۂ نظر پر تنقید کی ہے۔ان کی تنقید کا خلاصہ کم وبیش انھی کے الفاظ میں،چند نکات کی صورت میں یہ ہے:

۱۔ اس فکرکے دو اہم منہاجی اصول ہیں۔ ایک ظاہر پرستی یا ظاہریت اور دوسرے لفظ پرستی یا لفظیت۔

۲۔ اس فکرکے مطابق قرآنِ مجید اور سنتِ رسول کولغت اور فہمِ عامہ کے ذریعے سے سمجھا جا سکتا ہے۔ اس کے لیے ان علوم و روایات اور تعبیرات کی ضرورت نہیں ہے جو روایتی طور پر کلامِ الٰہی کے فہم کے لیے ضروری سمجھے جاتے ہیں۔

۳۔ آصف افتخار کے خیال میں ریاست کی طاقت اور سند کے بغیر نہ تو جہاد جائز ہے اور نہ کسی کو تعذیب (سزا) دی جا سکتی ہے۔ یہ بات کہنا کہ جہاد کے لیے ریاست کا قیام ضروری ہے،ایک مضحکہ خیز بات ہے۔

۴۔آصف افتخار نے اپنی ساری تحریر میں ریاست کی تعریف تک نہیں کی۔ریاست تو تعلقات کے اس نظام کو کہتے ہیں جن کی بنیاد جبر کے جائز استعمال پر رکھی گئی ہو۔ ان معنوں میں اسکول سے لے کر تنظیم حکومت تک تعلقات کے جائز جبری پہلو کو ریاست کہیں گے۔ اگر آصف افتخار کی مراد ریاست سے محض حکومت ہے تو ہم ان سے یہ پوچھنا چاہتے ہیں کہ اس سے ان کی مراد مرکزی حکومت ہے، صوبائی حکومت ہے یا بلدیاتی حکومت؟ظاہر ہے کہ مصنف جو کہ نظریہ ء سیاسی سے بالکل نابلدمعلوم ہوتے ہیں ان کے پاس ان سوالات کے کوئی جوابات نہیں ہیں۔

۵۔آصف افتخار ہر اس ریاست کو اسلامی ریاست قرار دیتے ہیں جس کے حکمران مسلمان ہیں اور جن کی حکومت باہمی مشاورت(یعنی جمہوریت)کی بنیاد پر قائم ہے۔مصنف کا شوریٰ کو جمہوریت کا ہم معنی قرار دینانیز اسلامی ریاست کوایک دستوری حکومت قرار دینا قرآنی اصطلاحات کی لفظی اور ظاہری تعبیر کے ذریعے سے موجودہ دور کے فتنوں کو جواز دینے کے لیے استعمال کرنے کی ایک بہترین مثال ہے۔

۶۔ خروج کے بارے میں آصف افتخار کا موقف یہ ہے کہ وہ صرف اس صورت میں جائز ہے جب اس کو ملک کی اکثریت کی حمایت حاصل ہو حالانکہ ایک جاہل شخص بھی یہ جانتا ہے کہ احکام کے جواز اور عدمِ جواز کا دارومداراللہ کی مرضی سے متعین ہوتا ہے، اکثریت کی رائے سے متعین نہیں ہوتا۔

۷۔آصف افتخار جو کچھ لکھتے ہیں اس کے مضمرات سے آگاہ نہیں ہیں یا خدانخواستہ کوئی دریدہ دہن گستاخ ہیں ورنہ یہ جملہ نہ لکھتے کہ’’ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی قانون کو اپنے ہاتھ میں نہ لیا اور اپنی تیرہ سالہ جدو جہدکے دوران میں قومی قانون سے کبھی تجاوز نہیں کیا‘‘۔جب حضور شارع ہیں تواس لغو، بے معنی اور گستاخانہ جملے کا کیا مقصد ہے۔ قانون توحضور کے قول و فعل، عمل اور رضا کا نام ہے۔

۸۔اس کتابچہ کا مجموعی پیغام یہ ہے کہ حکمرانوں کی اطاعت کرو، ان کے خلاف کسی جدوجہد کا حصہ نہ بنو۔ تمام سیکو لر ملکی قوانین کی اطاعت کرو کیونکہ( نعوذ باللہ) رسولِ اکرم بھی ملکی قوانین کے پابند تھے۔

 اب ہم رضوی صاحب کی تحریر سے اخذ کیے گئے ان نکات کا جائزہ لیتے ہیں۔

رضوی صاحب کابنیادی مقدمہ یہ ہے کہ آصف افتخار جس مکتبِ فکر سے تعلق رکھتے ہیں اس کے دو اہم منہاجی اصول ہیں، ایک ظاہر پرستی یا ظاہریت اور دوسرے لفظ پرستی یا لفظیت۔ اپنی بات کی وضاحت میں وہ لکھتے ہیں :

’’ظاہریت اور لفظیت ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ ظاہریت الفاظ و معانی کی مساوات کا نظریہ ہے۔ ایک طرف تو وہ اس بات کا دعویٰ کرتی ہے کہ الفاظ کا احاطہ اور ادراک ذہن کے ذریعے ممکن ہے تو دوسری طرف وہ اس بات کا دعویٰ کرتی ہے کہ معانی تک رسائی صرف الفاظ کے ذریعہ ممکن ہے۔ ظاہریت یہ نہیں جانتی کہ الفاظ کی ایک تاریخ ہے،جس کی عمر انسانی عمر سے زیادہ ہے۔ ظاہریت تاریخ کے سفر کے دوران الفاظ کی ہم رنگی کی قائل ہے۔ اسی طرح وہ عقلِ انسانی کو الفاظ کے احاطہ کے قابل قرار دے کرتحدیدِ انسانی کا انکار کرتی ہے۔ دوسری طرف وہ معانی کو الفاظ میں قید کر کے نہ صرف یہ کہ معانی کی ماورایت کو تحلیل کرتی، بلکہ معانی کا رشتہ حیاتِ انسانی سے کاٹ دیتی ہے۔‘‘

رضوی صاحب نے ظاہریت اور لفظیت کے الفاظ استعمال کر کے جو بات بیان کرنے کی کوشش کی ہے، ہو سکتا ہے کہ علمِ منطق کا کوئی استاد اس کا مفہوم سمجھنے میں کامیاب ہو جائے، لیکن اس کے بجائے اگر وہ آصف صاحب کی تحریر سے کوئی جملہ منتخب کرتے اور دلائل سے یہ واضح کرتے کہ اس جملے میں فلاں لفظ کا فلاں مفہوم درست اخذ نہیں کیا گیا،تووہ یقیناً ہم جیسے عام قارئین تک اپنی بات کا ابلاغ کرنے میں کامیاب ہو جاتے۔

ہر شخص اس بات سے واقف ہے کہ زبان الفاظ ہی کا مجموعہ ہوتی ہے۔ انسان الفاظ ہی کے ذریعے سے اپنے مافی الضمیر کو دوسروں کے سامنے بیان کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنا کلام لوگوں تک پہنچانے کے لیے ہمیشہ الفاظ ہی کو اختیار کیا ہے۔ قرآنِ مجید اور احادیث کے مجموعے الفاظ ہی کے ذریعے سے اپنی ہدایت انسانوں کو منتقل کرتے ہیں۔ خود رضوی صاحب نے اپنے مضمون میں جو بات بیان کرنا چاہی ہے اس میں بھی الفاظ ہی کا سہار ا لیا گیا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ جب تک انسانوں کو باہمی طور پر ابلاغ کی ضرورت ہے ان کے لیے الفاظ سے مفر ممکن نہیں۔ اب سوال یہ ہے کسی بات کے معانی اور مفاہیم تک رسائی کا ذریعہ کیا الفاظ کے سوا کوئی اور بھی ہو سکتاہے اور عقلِ انسانی کیا الفاظ کے فہم و ادراک کے لیے اپنے علاوہ کوئی اور ذریعہ بھی اختیار کر سکتی ہے؟ ہر عاقل اس کا جواب نفی میں دے گا۔اس بنا پر، حسنِ ظن کو پوری طرح قائم رکھتے ہوئے ہمیں توقع ہے کہ رضوی صاحب الفاظ کی اس غیرمعمولی اہمیت سے انکار نہیں کریں گے۔ بہرحال رضوی صاحب جو کچھ بھی کہنا چاہتے ہیں، اگر اس سے ان کی مراد یہ ہے کہ ’الفاظ کی دلالت اپنے مفہوم پر ظنی ہوتی ہے، یعنی ہم جملے میں استعمال ہونے والے کسی لفظ کا مفہوم حتمی طور پر طے نہیں کر سکتے، تو ان سے ہماری گزارش ہے کہ وہ اپنے اس دعوے کی دلیل کے طور پر قرآنِ مجید یا دنیا کی کسی بھی کتاب سے کوئی لفظ متعین کریں اور ہمیں سمجھائیں کہ کس طرح عقلِ انسانی اس لفظ کا احاطہ کرنے سے قاصر ہے اور کس طرح اسے معانی کی قید سے آزاد کیا جا سکتا ہے۔ لیکن یہ تحقیق کرنے سے پہلے ہماری ان سے درخواست ہے کہ وہ جناب جاوید احمد غامدی کے درجِ ذیل پیرا گراف کو ضرور پڑھ لیں۔ ہو سکتا ہے کہ وہ اس کے نتیجے میں مشقت میں مبتلا ہونے سے بچ جائیں :

’’دنیا کی ہر زندہ زبان کے الفاظ و اسالیب جن مفاہیم پر دلالت کرتے ہیں، وہ سب متواترات پر مبنی اور ہر لحاظ سے بالکل قطعی ہوتے ہیں۔لغت و نحو اور اس طرح کے دوسرے علوم اسی تواتر کو بیان کرتے ہیں۔ اس میں نقل کرنے والوں کا صدق و کذب اور ان کی تعداد سرے سے زیرِ بحث ہی نہیں ہوتی۔ جن الفاظ و اسالیب کو شاذ اور غریب کہا جاتا ہے، وہ بھی اپنے مفہوم کے لحاظ سے نہیں، بلکہ اپنے استعمال کی قلت و کثرت، اور سننے اور پڑھنے والوں کے علم و اطلاع کے لحاظ سے شاذ اور غریب کہلاتے ہیں۔ لفظ اور معنی کا سفر کبھی الگ نہیں ہوتا، وہ جب تک مستعمل رہتا ہے، اپنے معنی کے ساتھ مستعمل رہتا ہے۔ ہم کسی لفظ کے مفہوم سے ناواقف ہو سکتے ہیں اور اس کی تعیین میں غلطی بھی کرسکتے ہیں، لیکن وہ اپنے مفہوم کی قطعیت کے بغیرہی مستعمل ہے یا کسی دور میں مستعمل رہا ہے، اس کا کوئی تصور نہیں کیا جا سکتا۔مجاز اور کنایہ، نقل و اشتراک اور اجمال و تخصیص وغیرہ کے مواقع کا شعور بھی اسی طرح متواتر ہے۔ دنیا کی سب زبانوں میں یہ انسان کا مشترک سرمایہ ہے۔ ’شیر جنگل کا بادشاہ ہے ‘ اور ’کس شیر کی آمد ہے کہ رن کانپ رہا ہے‘ ان جملوں میں مجاز اور حقیقت کو الگ پہچاننے میں کوئی فرد تو بے شک غلطی کر سکتا ہے، لیکن انسان کا یہ اجتماعی شعور کبھی متردد نہیں ہوتا اور ہم اس کی روشنی میں فرد کو اس کی غلطی پر متنبہ کرتے ہیں۔ زبان سے متعلق یہی حقیقت ہے جس کی بنا پر ہم جو کچھ بولتے اور لکھتے ہیں، اس اعتماد کے ساتھ بولتے اور لکھتے ہیں کہ دوسرے اس سے وہی کچھ سمجھیں گے جو ہم کہنا چاہتے ہیں۔ دنیا میں ہر روز جو دستاویزات لکھی جاتی ہیں، جو فیصلے سنائے جاتے ہیں، جو احکام جاری کیے جاتے ہیں، جو اطلاعات بہم پہنچائی جاتی ہیں اور جن علوم کا ابلاغ کیا جاتا ہے، ان کے بارے میں ایک لمحے کے لیے بھی یہ خیال اگر پیدا ہو جائے کہ ان کے الفاظ کی دلالت اپنے مفہوم پر قطعی نہیں ہے تو ان میں سے ہر چیز بالکل بے معنی ہو کر رہ جائے گی۔ چنانچہ یہ نقطۂ نظر نری سوفسطائیت ہے، جس کے لیے علم کی دنیا میں ہر گز کوئی گنجایش پیدا نہیں کی جا سکتی۔‘‘ (اصول ومبادی، ص ۳۳)

رضوی صاحب کا دوسرا اعتراض جو ان کے پہلے اعتراض ہی کا تتمہ ہے یہ ہے کہ:’’ اس فکرکے مطابق قرآنِ مجید اور سنتِ رسول کولغت اور فہمِ عامہ کے ذریعے سے سمجھا جا سکتا ہے۔ اس کے لیے ان علوم و روایات اور تعبیرات کی ضرورت نہیں ہے جو روایتی طور پر کلامِ الہٰی کے فہم کے لیے ضروری سمجھے جاتے ہیں۔‘‘

رضوی صاحب کی بہت عنایت ہوتی اگر وہ ان علوم و روایات اور تعبیرات کا محض نام ہی درج کر دیتے اور یہ بیان کر دیتے کہ روایتی طور پر کلامِ الٰہی کے فہم کے لیے کن علوم سے واقفیت ضروری ہوتی ہے اور کس طرح ہم ان علوم سے صرفِ نظر کر رہے ہیں۔

 ہر پڑھا لکھا مسلمان اس بات سے واقف ہو گاکہ قرآنِ مجید کی تفہیم کا کام کرنے کے لیے جن علوم و فنون سے آگاہی کی ضرورت ہوتی ہے وہ یہ ہیں :

۱۔ عربی زبان و ادب۔ کیونکہ قرآنِ مجید فصیح عربی زبان میں نازل ہوا ہے۔

۲۔ ملتِ ابراہیمی کی روایت۔کیونکہ سنت کی صورت میں دین کا ایک بڑا حصہ ملتِ ابراہیمی کی روایت پر مشتمل ہے اور قرآنِ مجید بھی اس کے بعض پہلوؤں کو بیان کرتا ہے۔

۳۔ احادیثِ نبوی۔کیونکہ دین سے متعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تفہیم اور شرح و وضاحت سے روشناس ہونے کا واحد ذریعہ احادیث ہی ہیں۔

۴۔ آثارِ صحابہ (یعنی صحابہ کا قول وعمل)۔ کیونکہ صحابۂ کرام نے پیغمبر سے براہِ راست تربیت پا ئی اور پیغمبر کو احکامِ الٰہی پر عمل کرتے ہوئے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔

۵۔قرآن سے پہلے کے آسمانی صحائف۔ کیونکہ تحریفات کے باوجود ان میں حکمتِ خداوندی کے خزانے موجود ہیں۔

۶۔گزشتہ چودہ سو سال میں دین پر ہونے والا تحقیقی اور تصنیفی کام۔کیونکہ کسی بھی علم میں قدما کے کام سے بے نیاز ہو کر کوئی پیش رفت نہیں کی جا سکتی۔

یہی وہ بنیادی علوم و فنون ہیں جن سے آگاہی کے بغیر کسی شخص کے لیے یہ ممکن نہیں کہ وہ قرآنِ مجید کے بارے میں علمی اور فکری کام کا آغاز کر سکے۔جناب جاوید احمد غامدی اور ان کے تلامذہ کی تحریریں اگر رضوی صاحب کے سامنے ہوں تو انھیں اس بات کو ماننا پڑے گاکہ جاوید صاحب اور ان کے شاگرد دین پر بحث کرتے وقت اور اپنے نتائجِ فکر کو مرتب کرتے وقت ان علوم سے کبھی صرفِ نظر نہیں کرتے۔ وہ اگر ان میں سے کسی چیز کو ترجیح دیتے ہیں تواپنے فہم و ادراک کے مطابق دلیل ہی کی بنیاد پر دیتے ہیں۔

رضوی صاحب کے مضمون کا تیسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ:’’ آصف افتخارحکومت و اقتدار کو جہاد کے لیے شرطِ لازم قرار دیتے ہیں جو کہ ایک مضحکہ خیز بات ہے۔‘‘

اس ضمن میں ہم رضوی صاحب کی اطلاع کے لیے بصد احترام یہ عرض کریں گے کہ یہ آصف افتخار صاحب کی کوئی منفرد رائے نہیں ہے، بلکہ تاریخِ اسلام کے ہر دور میں علماے امت کا اس بات پر کامل اتفاق اور اجماع رہا ہے کہ حدود وتعزیرات کے نفاذ اور جہاد و قتال کا حق صرف اور صرف مسلمانوں کی حکومت کے پاس ہے۔ یہ بھی واضح رہے کہ علماے امت کا یہ اجماع محض اجماع نہیں ہے، بلکہ قرآن و سنت کے واضح نصوص پر مبنی ہے۔ اس کی تفصیلات کے لیے شریعت سے متعلق علماے سلف کی کتب سے رجوع کیا جا سکتا ہے۔

 انسانی جان کا قتل کوئی معمولی واقعہ نہیں ہے۔ قرآنِ مجید نے بغیر کسی سبب کے انسانی جان کے قتل کو پوری نوعِ انسانی کے قتل کے مترادف قرار دیا ہے اوراسے شرک کے بعد سب سے بڑا جرم قرار دیا ہے۔قرآن و سنت نے ایک طرف ان دائروں کومتعین کرکے جن میں انسانی جان کی حرمت ختم ہو جاتی ہے، قتل کی گنجایش کو بہت محدود کر دیا ہے اوردوسری طرف قتل کی سزا کے نفاذ کا اختیار نظمِ اجتماعی کو دے کر اس معاملے میں فرد کے اختیار کو بالکل ختم کر دیا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ وہ دین جو انسانی جان کے بارے میں اتنا حساس ہے کہ ایک انسان پر قتل کی سزا کے نفاذ کا حق بھی کسی فردِ واحد یا غیر حکومتی گروہ کو نہیں دیتا وہ بھلا لاتعداد انسانوں کے خلاف اقدامِ قتل کا اختیار کسی فردِ واحد یا غیر حکومتی گروہ کو کیسے دے سکتا ہے؟

 رضوی صاحب کا چوتھانکتہ یہ ہے کہ:’’ آصف افتخار نے اپنی ساری تحریر میں ریاست کی تعریف تک نہیں کی۔ریاست تو تعلقات کے اس نظام کو کہتے ہیں جن کی بنیاد جبر کے جائز استعمال پر رکھی گئی ہوان معنوں میں اسکول سے لے کر تنظیم حکومت تک تعلقات کے جائز جبری پہلو کو ریاست کہیں گے۔ اگر آصف افتخار کی مراد ریاست سے محض حکومت ہے تو ہم ان سے یہ پوچھنا چاہتے ہیں کہ اس سے ان کی مراد مرکزی حکومت ہے، صوبائی حکومت ہے یا بلدیاتی حکومت؟ظاہر ہے کہ مصنف جو کہ نظریۂ سیاسی سے بالکل نابلد معلوم ہوتے ہیں ان کے پاس ان سوالات کے کوئی جوابات نہیں ہیں۔‘‘

اگر رضوی صاحب ریاست کے مفہوم سے اتنے ہی ناواقف تھے توانھیں چاہیے تھا کہ وہ آصف افتخار صاحب کی کتاب پڑھنے سے پہلے ایف۔ اے کی شہریت کی کتاب اٹھاتے اور وہاں سے ریاست کی تعریف پڑھ لیتے۔کیا کسی مصنف کے لیے یہ ضروری ہوتا ہے کہ وہ اپنی تحریر میں جب کوئی عمومی لفظ یا اصطلاح استعمال کرے تو لازماً اس کی تعریف بھی کرے؟ اگر رضوی صاحب کا مقدمہ یہی ہے تو پھر انھیں کسی اور کی تحریر پر یہ اعتراض کرنے سے پہلے اپنی تحریر کو اس مقدمے کے مطابق بنانا چاہیے۔ انھوں نے اپنے مضمون میں تہذیب، سیاست، امت، عیسائیت اور اس طرح کے متعدد الفاظ استعمال کیے ہیں، لیکن ان کی تعریف میں ایک لفظ بھی تحریر نہیں کیا۔ اس صورتِ حال میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا دوسروں کے بارے میں نظریہء سیاسی سے نابلد ہونے کا فتویٰ صادر کرنے والوں کو پہلے اپنے آپ پر کامن سینس سے محرومی کا فتویٰ نہیں لگانا چاہیے ؟ ہر معمولی پڑھا لکھا آدمی اس بات سے واقف ہے کہ آبادی، علاقے اور حکومت کے مجموعے کو ریاست کہتے ہیں اور اسی کے لیے ہم اپنی زبان میں لفظِ ملک استعمال کرتے ہیں۔ حکومت نظمِ ریاست چلانے والے ادارے کو کہا جاتا ہے۔ یہ ادارہ ریاست کا نظام بھی چلاتا ہے اور ریاست کی نمائندگی بھی کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ دونوں الفاظ ایک دوسرے کے مترادف کے طور پر بے تکلف بول دیے جاتے ہیں۔یہ جملہ ہم اکثر بولتے ہیں کہ ’’اس بارے میں پاکستان کی پالیسی یہ ہے ‘‘ اور اس سے ہماری مراد ریاستِ پاکستان نہیں بلکہ حکومتِ پاکستان ہوتی ہے۔پھر جب ہم یہ کہتے ہیں کہ ’’اس بات کا فیصلہ ریاست کی سطح پر ہونا چاہیے ‘‘تو کسی شخص کے ذہن میں اس بارے میں ابہام پیدا نہیں ہوتا۔ ہر شخص جانتا ہوتا ہے کہ ریاست کے تمام افراد کی نمائندہ پارلیمنٹ یا مجلسِ شوریٰ ہے، پارلیمنٹ یا مجلسِ شوریٰ کی نمائندہ حکومت ہے اور حکومت کا نمائندہ صدر یا وزیرِ اعظم ہے۔ اس لیے وہ حکومت یا وزیرِ اعظم کے فیصلے کو ریاست کا فیصلہ قرار دینے میں کبھی متردد نہیں ہوتا۔ یہ بحث ہم نے محض یہ واضح کرنے کے لیے کی ہے کہ کسی مضمون میں مسلمات کی تعریف کرنا ضروری نہیں ہوتا۔ ہمارے پیشِ نظر اگر یہ وضاحت نہ ہوتی تو ہم رضوی صاحب سے فقط یہ درخواست کرتے کہ وہ آصف افتخار کی کتاب کا ایک مرتبہ پھر مطالعہ فرما لیں اور اس مرتبہ ذرا دقتِ نظر سے کام لیں۔ اس کے نتیجے میں ہو سکتا ہے کہ انھیں صفحہ ۱۵ پر ان الفاظ میں ریاست کی تعریف مل جائے:

"A State is formed when a people establish their government in a geographically independent area over which they have power and authority."

رضوی صاحب کے اعتراضات میں سے پانچواں نکتہ یہ ہے کہ:’’ آصف افتخار ہر اس ریاست کو اسلامی ریاست قرار دیتے ہیں جس کے حکمران مسلمان ہیں اور جن کی حکومت باہمی مشاورت(یعنی جمہوریت)کی بنیاد پر قائم ہے۔مصنف کا شوریٰ کو جمہوریت کا ہم معنی قرار دینانیز اسلامی ریاست کوایک دستوری حکومت قرار دینا قرآنی اصطلاحات کی لفظی اور ظاہری تعبیر کے ذریعے سے موجودہ دور کے فتنوں کو جواز دینے کے لیے استعمال کرنے کی ایک بہترین مثال ہے۔‘‘

اگر ایسی ریاست جس کے حکمران مسلمان ہوں، جس کا نظام مسلمانوں کے باہمی مشورے پر مبنی ہو اور جس میں قرآن و سنت کو بالا دستی حاصل ہو، اسلامی ریاست نہیں ہے تو پھر وہ کون سی ریاست ہے جسے اسلامی ریاست سے تعبیر کیا جا سکتا ہے؟ جناب آصف افتخار نے نظمِ ریاست کو قرآنِ مجید کی جن آیات کی بنیاد پر بیان کیا ہے، ہمیں امید ہے کہ ان کے مطالعے سے رضوی صاحب کی تشفی ہو جائے گی۔ ارشادِ خداوندی ہے:

’’ایمان والو، اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور ان لوگوں کی جو تم میں سے صاحبِ امر ہوں۔ پھر تمھارے درمیان اگر کسی معاملے میں اختلافِ رائے ہو تو اسے اللہ اور رسول کی طرف پھیر دو۔‘‘ (النساء ۴ :۴۹)
’’اور ان کا نظام ان کے باہمی مشورے پر مبنی ہے۔‘‘ (الشوریٰ ۴۲:۳۸)

رضوی صاحب نے کسی دستوری حکومت کو اسلامی حکومت سے تعبیر کرنے کو فتنہ قرار دیا ہے۔ یہ بیان کرتے وقت معلوم نہیں کیوں انھوں نے اس تاریخی حقیقت کو نظر انداز کر دیا کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت میں،مدینہ میں قائم ہونے والی سب سے پہلی اسلامی حکومت ایک دستوری حکومت تھی۔ اس کا دستور زبانی بھی نہیں تھا بلکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پورے اہتمام کے ساتھ اسے تحریر کرایا تھا۔ اس دستور کو ’’میثاقِ مدینہ ‘‘ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے اور اس میں وہ تمام اہم دفعات موجود ہیں جو کسی بھی جدید ریاست کے دستور کا حصہ ہو سکتی ہیں۔ سیرت اور تاریخ کے محققین اس کو یہی حیثیت دیتے ہیں۔ دورِ حاضر کے ایک محقق ڈاکٹر محمد حمید اللہ صاحب نے اپنی کتاب ’’عہدِ نبوی میں نظامِ حکمرانی‘‘ میں اسے ’’دنیا کا پہلا تحریری دستور‘‘ قرار دیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں :

’’ہجرت کر کے مدینہ آتے ہی آنحضرت نے فوراًاپنے عدالتی حقوق و فرائض کا تعین فرما دیا تھا، اور ہماری خوش قسمتی سے یہ دلچسپ اور اہم دستاویز بجنسہٖ اور بلفظہٖ ہم تک نقل ہوتی آئی ہے۔ اسے سب سے پہلی اسلامی مملکت کا دستور اور آئین کہا جا سکتا ہے۔‘‘ (ص۱۵۳)

اس کے بعد یہ تو کہا جا سکتا ہے کہ اسوۂ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی میں مسلمانوں کو اپنی ریاست تحریری دستور کی روشنی میں چلانی چاہیے،لیکن یہ ہر گز نہیں کہا جا سکتا کہ کوئی دستوری ریاست اسلامی ریاست نہیں ہو سکتی۔

خود رضوی صاحب نے اسلامی حکومت کی جو تعریف لکھی ہے اس میں بھی انھوں نے غیر ارادی طور پر اسے دستوری حکومت تسلیم کیا ہے۔ لکھتے ہیں :’’ امام ماوردی سے لے کر، امام ابنِ خلدون تک اورپھر شاہ ولی اللہ تک تمام مسلمان فقیہ اس بات پر متفق ہیں کہ اسلامی حکومت وہ ہے جو اسلامی فقہ کو اپنا قانون مانتی ہو۔‘‘ اس سے قطع نظر کرتے ہوئے کہ یہ بات فی نفسٖہ ٹھیک ہے یا نہیں،ہم صرف یہ عرض کرنے کی جسارت کریں گے کہ فقہ کی اصطلاح کا اردو مترادف قانون ہے۔ اور جو حکومت کسی قانون کے مطابق چلتی ہو اسے قانونی یا دستوری حکومت کہا جا سکتا ہے۔

چھٹا نکتہ وہ تنقید ہے جو انھوں نے خروج کے بارے میں ہمارے نقطۂ نظر پرکی ہے۔ لکھتے ہیں : ’’خروج کے بارے میں آصف افتخار کا موقف یہ ہے کہ وہ تب ہی جائز ہے جب اس کو ملک کی اکثریت کی حمایت حاصل ہو حالانکہ ایک جاہل شخص بھی یہ جانتا ہے کہ احکام کے جواز اور عدمِ جواز کا دارو مداراللہ کی مرضی سے متعین ہوتا ہے، اکثریت کی رائے سے متعین نہیں ہوتا۔‘‘

 اس میں کوئی شبہ نہیں کہ احکام کا جواز اور عدمِ جواز اللہ کی رضا سے قائم ہوتا ہے اور اس سے آگے بڑھ کر ہم یہ بھی کہیں گے اس بات سے انکار ایمان کے منافی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ وہ احکام جن کا تعلق نظمِ اجتماعی سے ہے ان کا نفاذکون کرے گا؟ کیا اس کا اختیارفردِ واحد کے پاس ہے؟ کیا کوئی گروہ یا جتھا اس کا اختیار رکھتا ہے ؟ کیا اس کا اختیار حکومت کے پاس ہے؟ قرآن و سنت کے واضح نصوص کی بنیاد پر امت کے علما کا ہمیشہ اس بات پر اجماع رہا ہے کہ یہ اختیار صرف اور صرف مسلمانوں کے حکمرانوں کے پاس ہے۔ متمدن تاریخِ انسانی میں کبھی کوئی نظمِ اجتماعی اس طرح قائم نہیں ہوا کہ اس میں احکام کے نفاذ کا حق افراد کو ان کی انفرادی حیثیت میں دیا گیا ہو، بلکہ اس طرح کے اقدامات کوتاریخ میں ہمیشہ انارکی ہی سے تعبیر کیا گیا۔ جناب جاوید احمد غامدی کی یہ بات ہو سکتا ہے کہ رضوی صاحب کی الجھن کو سلجھا دے:

’’ہم جب کسی معاملے میں اکثریت کی رائے کو فیصلہ کن قرار دیتے ہیں، تو اس کے یہ معنی کبھی نہیں ہوتے کہ جو رائے اختیار کی گئی ہے، وہی حق ہے۔ اس کے معنی صرف یہی ہوتے ہیں کہ نظمِ اجتماعی کو چلانے کے لیے اکثریت کے نقطہ ء نظر کو بس اس وقت تک کے لیے نافذ مانا گیا ہے، جب تک دوسری رائے کو اکثریت کی تائید حاصل نہیں ہو جاتی۔یہ نزاعات کے فیصلے کا ایک طریقہ ہے۔ اس کی بنیاد پر کسی چیز کو حق یا باطل قرار نہیں دیا جا سکتا۔ کسی چیز کے بارے میں یہ فیصلہ کہ وہ حق ہے یا باطل، ہمیشہ دلیل و برہان کی بنیاد پر کیا جاتا ہے، اس میں اقلیت یا اکثریت کی رائے کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔‘‘ (اشراق،دسمبر ۱۹۸۸،ص۴۸)

جہاں تک خروج یعنی حکمرانوں کے خلاف بغاوت کا تعلق ہے تو یہ اسی صورت میں جائز ہوتا ہے جب حکمران کسی کھلے کفر کا ارتکاب کریں اور ان کی حکومت ایک آمرانہ حکومت ہو۔ اگر وہ جمہوری حکومت ہو گی تو بغاوت کی نوبت ہی نہیں آئے گی۔ مسلمان اپنی کثرتِ رائے سے اسے تبدیل کر دیں گے۔ دین کے اس اصول کو بیان کرتے ہوئے جناب جاوید احمد غامدی لکھتے ہیں :

’’اس(کھلے کفر کے ارتکاب کی) حد کو پہنچ جانے کے بعد بھی حکمرانوں کے خلاف بغاوت کا حق کسی شخص کو اس وقت تک حاصل نہیں ہوتا، جب تک مسلمانوں کی واضح اکثریت اس کی تائید میں نہ ہو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ پھر حکومت کے خلاف نہیں، بلکہ مسلمانوں کے خلاف بغاوت قرارپائے گی جو اسلامی شریعت کی رو سے فساد فی الارض ہے اور جس کی سزا قرآن میں قتل مقرر کی گئی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
’’تم کسی شخص کی امارت پر جمع ہو اور کوئی تمھاری جمعیت کو پارہ پارہ کرنے اور تمھارے نظمِ اجتماعی میں تفرقہ پیدا کرنے کے لیے اٹھے تو اسے قتل کر دو۔‘‘ (مسلم، کتاب الامارہ)‘‘

جناب علی محمد رضوی کا اگلانکتہ یہ ہے کہ:’’آصف افتخار جو کچھ لکھتے ہیں اس کے مضمرات سے آگاہ نہیں ہیں یا خدانخواستہ کوئی دریدہ دہن گستاخ ہیں ورنہ یہ جملہ نہ لکھتے کہ’’ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی قانون کو اپنے ہاتھ میں نہ لیا اور اپنی تیرہ سالہ جدو جہدکے دوران میں قومی قانون سے کبھی تجاوز نہیں کیا۔ جب حضور شارع ہیں تواس لغو، بے معنی اور گستاخانہ جملے کا کیا مقصد ہے۔ قانون توحضور کے قول و فعل، عمل اور رضا کا نام ہے۔‘‘

یہ بات کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مکے کی تیرہ سالہ جدوجہد کو صرف اور صرف دعوت ہی تک محدود رکھا،ا ور اس دوران میں انھوں نے مکے کے اقتدار کو اپنا ہدف نہیں بنایا، ایک تاریخی حقیقت ہے۔مشرق و مغرب کے مسلم و غیر مسلم محققین نے کبھی اس سے مختلف بات نہیں کی۔ یہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت، حکمت اور بلند کرداری کا بیان ہے۔ ہم مسلمانوں کو پورے فخر کے ساتھ اس بات کو دنیا کے سامنے پیش کرنا چاہیے اور معذرت خواہانہ احساس کے ساتھ اس کی توجیہ کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔ اس میں شک نہیں کہ حضوردین کے شارع ہیں اور یہ بھی صحیح ہے کہ آپ کے قول و عمل سے قوانین بنتے ہیں۔مگر ہمارے نزدیک حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و عمل ہی سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ دعوت کی جدوجہد کے دوران میں اقتدار کو ہدف نہیں بنانا چاہیے اور اقتدار کے حصول سے پہلے دعوت سے بڑھ کر کوئی اقدام نہیں کرنا چاہیے۔

مرحلۂ دعوت میں قومی قوانین کے خلاف اقدام کرنا بجائے خود ایک قانون ہے،جس کا منبع اور ماخذ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی ہے۔ اگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مرحلہء دعوت یعنی مکی دور میں قومی قانون کے خلاف اقدام کیا ہوتا تو اس صورت میں یہی قانون بنتا اور مسلمانوں کے لیے اس کی اطاعت لازم ہوتی۔ آپ نے ایسا نہیں کیا بلکہ اس کے برعکس رائج قانون کو چیلنج نہ کرنے کا طرزِ عمل اختیار کیا۔ چنانچہ مسلمانوں کے لیے اب یہی واجب الاطاعت قانون ہے۔ وہ ہستی جن کی بنیادی دعوت ہی توحید کا احقاق اور شرک کا ابطال تھی۔ اس نے اپنے پورے زمانۂ دعوت میں ان بتوں کو چھوا تک نہیں جو کعبتہ اللہ جیسے مرکزِ توحید میں شرک و الحاد کا مظہر تھے۔ آپ کے پورے مکی دور میں معاشرہ علی الاعلان قتل و غارت گری، بدکاری، شراب نوشی اور قمار بازی جیسے قبیح جرائم کو اختیار کیے ہوئے تھا۔ یہ سب کچھ آپ کے سامنے ہوتا رہا، آپ نے وعظ کیا، نصیحت کی، قلوب و اذہان کو جھنجھوڑا، آخرت کے انجام سے ڈرایا، یہ سب کچھ کیا مگر اس سے آگے بڑھ کر قانون اور حکومت کو چیلنج کرنے کا اقدام ہر گز نہیں کیا۔

رضوی صاحب پر یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ یہ صرف پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم ہی کا اسوہ نہیں بلکہ تاریخ کے ہر پیغمبر نے اپنے زمانہء دعوت میں یہی طرزِ عمل اختیار کیا۔ سیدنا مسیح علیہ السلام کا وہ لافانی جملہ یقینا ان کے ذہن میں ہو گا جو انھوں نے قیصر کے وضع کردہ ظالمانہ ٹیکس کے قانون کے بارے میں کہا تھا کہ : ’’جو خدا کا ہے وہ خدا کو دے دو اور جو قیصر کا ہے وہ قیصر کو دے دو۔‘‘

تاریخ کے ایک اور جلیل القدر پیغمبر سیدنا یوسف علیہ السلام جب ’’عزیزِ مصر‘‘ کے منصب پر متمکن ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے ان کے بھائی کو ان کی تحویل میں دینے کے لیے انھیں ایسی تدبیر الہام کی کہ بادشاہ کے قانون کے خلاف اقدام کیے بغیر ان کا مقصد حاصل ہو گیا۔ گویا اللہ تعالیٰ نے اس بات کا پورا اہتمام کیا کہ ان کے پیغمبر ملکی قانون کی خلاف ورزی سے محفوظ رہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

’’اس طرح ہم نے یوسف کے لیے تدبیر کی۔ وہ بادشاہ کے قانون کی رو سے اپنے بھائی کو پکڑنے کا مجاز نہ تھا۔‘‘ (یوسف ۱۲ : ۷۶)

 اس تناظر میں رضوی صاحب کو سنجیدگی سے سوچنا چاہیے کہ کہیں وہ موجودہ زمانے میں دہشت گردی کو جہاد قرار دینے والے بعض لوگوں سے متاثر ہو کر پیغمبر کے قول و عمل سے غلط استدلال کرنے کی روش کا شکار تو نہیں ہو ر ہے۔

 آخر میں اپنی بات کا خلاصہ کرتے ہوئے رضوی صاحب لکھتے ہیں :’’ اس کتابچہ کا مجموعی پیغام یہ ہے کہ حکمرانوں کی اطاعت کرو، ان کے خلاف کسی جدوجہد کا حصہ نہ بنو۔ تمام سیکو لر ملکی قوانین کی اطاعت کرو کیونکہ (نعوذباللہ) رسولِ اکرم بھی ملکی قوانین کے پابند تھے۔ ‘‘

ان کی اس بات میں جہاں تک حکمرانوں کی اطاعت کا تعلق ہے تو اس کے جواب میں ہم پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے چند ارشادات نقل کرنے پر اکتفا کریں گے:

بخاری میں ہے:

’’جسے اپنے امیر کی کوئی بات ناگوار گزرے، اسے صبر کرنا چاہیے، کیونکہ جو ایک بالشت کے برابر بھی اقتدار کی اطاعت سے نکلا اور اسی حالت میں مر گیا، اس کی موت جاہلیت پر ہوئی۔‘‘ (کتاب الفتن)
’’جس نے میری اطاعت کی، اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے حکمران کی اطاعت کی، اس نے میری اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی، اس نے اللہ کی نافرمانی کی اور جس نے حکمران کی نافرمانی کی، اس نے میری نافرمانی کی۔ ‘‘(کتاب الاحکام)

مسلم میں ہے:

’’تم پر لازم ہے کہ اپنے اولوالامر کے ساتھ سمع و طاعت کا رویہ اختیار کرو، چاہے تم تنگی میں ہو یا آسانی میں اور چاہے یہ رضا و رغبت کے ساتھ ہو یا بے دلی کے ساتھ اور اس کے باوجود بھی کہ تمھارا حق تمھیں نہ پہنچے۔‘‘      (کتاب الامارہ)
’’تمھارے بدترین حکمران وہ ہیں جن سے تم نفرت کرو اور وہ تم سے نفرت کریں۔ تم ان پر لعنت کرو اور وہ تم پر لعنت کریں۔ پوچھا گیا، اے اللہ کے رسول،یہ صورت ہو تو کیا ہم ان کے خلاف تلوار نہ اٹھائیں ؟ فرمایا: نہیں، جب تک وہ تم میں نماز قائم کرتے رہیں۔‘‘ ( کتاب الامارہ)

رضوی صاحب نے جو سیکولر ملکی قوانین کی اصطلاح استعمال کی ہے معلوم نہیں اس سے ان کی مراد کیا ہے۔ اگر اس سے مراد وہ قوانین ہیں جن کا تعلق تمدن کے اثرات سے ہوتا ہے،مثلاً ٹریفک کے قوانین،الیکشن اور رائے دہی کے قوانین اور املاک کی خرید و فروخت کے قوانین وغیرہ، تو صاف واضح ہے کہ ان قوانین کا اسلام سے براہِ راست کوئی تعلق ہی نہیں ہے۔ یہ وقت اور حالات کے مطابق وضع کیے جا سکتے اور ان کے تغیر کے ساتھ تبدیل کیے جا سکتے ہیں۔ اور اگر اس سے ان کی مراد خلافِ دین قوانین ہیں تو ہم ان سے گزارش کریں گے کہ وہ ان کی ایک فہرست مرتب کریں اور اہلِ پاکستان کو یہ بتائیں کہ جس دستور اور جن قوانین کو مطابقِ اسلام سمجھ کر وہ مطمئن بیٹھے ہیں، وہ درحقیقت خلافِ اسلام ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ رضوی صاحب اپنی فہرست میں سب سے اوپر سود کی حرمت کا ذکر کریں، مگر یہ بات ان پر واضح رہنی چاہیے کہ ہماری حکومتیں کبھی سود کی حرمت سے انکار کی جرأت نہیں کر سکیں۔ رضوی صاحب سے ہماری درخواست ہے کہ وہ از راہِ عنایت دین کے اس اصول کو سمجھنے کی کوشش فرمائیں کہ اسلام صرف کھلے کفر کی صورت میں مسلمانوں کو اپنے حکمرانوں کے خلاف بغاوت کی اجازت دیتا ہے۔مثلاًوہ نظمِ ریاست میں قرآن و سنت کی بالادستی کو ماننے سے انکار کر دیں،مثلاً وہ نماز، روزہ اور حج جیسی عبادات پر پابندی لگا دیں۔حضرت عبادہ بن صامت سے روایت ہے:

’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بیعت کے لیے بلایاتو ہم نے آپ سے بیعت کی۔ اس میں جن باتوں کا عہد لیا گیا وہ یہ تھیں کہ ہم سنیں گے اور مانیں گے، چاہے یہ رضا و رغبت کے ساتھ ہو یا بے دلی کے ساتھ اور چاہے ہم تنگی میں ہوں یا آسانی میں اور اس کے باوجود بھی کہ ہمارا حق ہمیں نہ پہنچے اور یہ بھی کہ ہم اپنے اولوالامر سے اقتدار کے معاملے میں کوئی جھگڑا نہ کریں گے۔ آپ نے فرمایا: ہاں، البتہ جب تم کوئی کھلا کفر ان کی طرف سے دیکھو اور تمھارے پاس اس معاملے میں اللہ کی واضح حجت موجود ہو۔‘‘ (مسلم، کتاب الامارہ)

اس تحریر کے خاتمے پر یہ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ جناب جاوید احمد غامدی کے جہاد اور خروج کے بارے میں نقطۂ نظر کو چند نکات میں بیان کر دیا جائے:

۱۔ قرآنِ مجید کے مطابق جہاد مسلمانوں کی طرف سے اپنے پروردگار کی نصرت ہی کی ایک صورت ہے اور یہ ایمان کا لازمی تقاضا ہے۔

جناب جاوید احمد غامدی لکھتے ہیں :

’’دین کو اپنے فروغ یا اپنی حفاظت کے لیے اگر کسی اقدام کی ضرورت پیش آ جائے تو ایمان کا تقاضا ہے کہ دامے، درمے، سخنے دین کی مدد کی جائے۔ یہاں تک کہ مسلمانوں کے اولوالامر اگر اس مقصد کے لیے کسی وقت جہاد و قتال کا فیصلہ کریں تو ہر بندۂ مومن اپنی جان و مال اس طرح ان کے حوالے کر دے کہ وہ جس محاذ پر اور جس طرح چاہیں اس سے کام لیں۔ قرآن کی اصطلاح میں یہ اللہ پروردگارِ عالم کی’’ نصرت ‘‘ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب مدینہ میں اقتدار حاصل ہو جانے کے بعد اس کی ضرورت پیش آئی اور لوگوں سے جہاد و قتال کا مطالبہ کیا گیا تو قرآن نے ایک موقع پر اس کی دعوت اس طرح لوگوں کو دی:
 ’’ ایمان والو، آؤ میں تمہیں وہ سودا بتاؤں جو تمہیں ایک دردناک عذاب سے نجات بخشے گا۔ تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤگے اوراپنے جان ومال سے اللہ کی راہ میں جہادکروگے۔ یہ تمھارے لیے بہتر ہے، اگرتم سمجھو۔ ‘‘ (الصف۶۱:۱۰۔۱۴)۔‘‘(دین کا صحیح تصور،ص۱۱)

۲۔ جہاد کے لیے اقتدار شرطِ لازم ہے۔ حکومت کے بغیر جہاد محض فساد اوراسلامی شریعت کے مطابق جرم ہے۔

اپنی کتاب ’’برہان ‘‘میں جناب جاوید احمد غامدی نے یہ بات اس طرح بیان کی ہے:

’’شریعت کی رو سے جس طرح کوئی شخص اقتدارو حکومت کے بغیر کسی زانی کو کوڑے نہیں مار سکتا، کسی چور کا ہاتھ نہیں کاٹ سکتا، اسی طرح جہاد قتال کے لیے بھی اقدام نہیں کر سکتا۔ اس نوعیت کا ہر اقدام شریعت میں جرم ہے۔ اللہ تعالیٰ کے کسی پیغمبر نے اقتدار کے بغیر کبھی جہاد نہیں کیا۔ قرآن اس معاملے میں بالکل واضح ہے کہ عالم کے پروردگار نے ان کو اس کی اجازت اس وقت دی جب انھوں نے ہجرت کر کے اپنی جماعت کسی آزاد علاقے میں منظم کر لی اور ان کا اقتدار اس جماعت پر بزور وقوت قائم ہو گیا۔ اللہ کے یہ پیغمبر اس معاملے میں اس قدر محتاط رہے ہیں کہ انھیں جب تک اقتدار حاصل نہیں ہوا، قتال کا نام بھی ان کی زبان پر کبھی نہیں آیا۔ چنانچہ دیکھ لیجیے، قرآنِ مجید کی وہ سورتیں جو ام لقریٰ (مکہ) میں نازل ہوئیں، وہ اس حکم سے بالکل خالی ہیں۔یہی حقیقت سیدنا موسیٰ اور سیدنا مسیح کی سیرت سے بھی صاف واضح ہوتی ہے۔ اسلام کے نزدیک یہ تصور ہی مضحکہ خیز ہے کہ جو نظامِ امارت اپنے لوگوں پر اللہ کی حدود نافذ کرنے اور ارتکابِ جرم کی صورت میں مجرم کو سزا دینے کا اختیار نہیں رکھتا، اسے قتال کی اجازت دے دی جائے۔‘‘ ( برہان ص ۱۹۱)

۳۔قرآنِ مجید کی رو سے جہاد بالسیف کی دو صورتیں ہیں : ایک اتمامِ حجت کے بعد منکرینِ حق کے خلاف جہاد اور دوسرے ظلم و عدوان کے خلاف جہاد۔ان میں سے پہلی صورت قرآنِ مجید کی رو سے صحابۂ کرام کے ساتھ خاص تھی اس لیے اب صرف دوسری صورت ہی رو بہ عمل ہو سکتی ہے۔

جناب جاوید احمد غامدی نے لکھا ہے:

 ’’جس طرح رسولوں کو اپنی قوم پر اتمامِ حجت کے بعد یہ حق حاصل ہو جاتا ہے کہ وہ اسے عذاب کے حوالے کر دیں، اسی طرح صحابہ کو بھی جب وہ رسول کی شہادت کے پس منظر میں اور خیرِ امت بن کر اٹھے تو بحیثیتِ جماعت یہ حق حاصل ہوا کہ وہ روم و ایران کی سرحدوں پر کھڑے ہو کر انھیں اسلام کی دعوت دیں اور اسے قبول نہ کرنے کی صورت میں زیر دست بنا کر ان پر جزیہ عائد کر دیں اور انکار کی صورت میں ان کے خلاف جہاد کریں۔ یہ صحابہ کا منصب تھا۔ نبوت جس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم ہو گئی، اسی طرح شہادت کا یہ منصب اور اس کے ساتھ منکرینِ حق سے قتال اور ان پر جزیہ عائد کرنے کا یہ حق بھی ان نفوسِ قدسیہ پر ختم ہوا۔‘‘ (اشراق، جولائی ۱۹۹۹، ص۲۹)
’’اس شہادت اور اتمامِ حجت کا نہ بعد کے لوگوں سے کوئی تعلق ہے اور نہ اس پر متفرع ہونے والے جہاد و قتال کے احکام کسی اور سے متعلق قرار دیے جا سکتے ہیں۔ لہٰذا صحابہ ء کرام کے بعد اب مسلمانوں کے لیے قیامت تک جہاد بالسیف کی ایک ہی صورت باقی رہ گئی ہے، یعنی ظلم و عدوان کے خلاف جہاد۔‘‘ (برہان،ص۲۲۵)

۴۔اسلامی شریعت کی رو سے خروج(بغاوت) کبھی واجب نہیں ہوتا، شریعت نے بعض حالات میں اسے مشروط طور پر جائز قرار دیا ہے۔

جناب جاوید احمد غامدی لکھتے ہیں :

’’نظامِ ریاست میں اصل مرجعِ اطاعت کی حیثیت صرف اللہ اور اس کے رسول کو حاصل ہے ـــــ اولوالامر کو خواہ وہ ریاست کے سربراہ ہوں یا پارلیمان کے ارکان اپنی طرف سے کوئی فیصلہ کرنے کا حق حاصل نہیں ہے۔ اولوالامر کے احکام اس اطاعت کے بعداور اس کے تحت ہی مانے جا سکتے ہیں ـــــ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نظم کو ’الجماعہ‘ اور ’السلطان‘ سے تعبیر کیا ہے اور اس کے بارے میں ہر مسلمان کو پابند کیا ہے کہ اس سے کسی حال میں الگ نہ ہو۔ یہاں تک کہ اس سے نکلنے کو آپ نے اسلام سے نکلنے کے مترادف قرار دیا اور فرمایا کہ کوئی مسلمان اگر اس سے الگ ہو کر مرا تو جاہلیت کی موت مرے گا۔‘‘  (اشراق،جنوری۲۰۰۰، ص۲۴)
’’اولوالامر کی یہ اطاعت اسی وقت تک ہے، جب تک وہ مسلمان رہیں (اور یہ تسلیم کرتے رہیں کہ نظامِ ریاست میں اصل مرجعِ اطاعت کی حیثیت اللہ اور اس کے رسول کو حاصل ہے )۔ اس کی آخری حد وہی ہے جس کا نمونہ خلفاے راشدین نے پیش کیا کہ ریاست کے نظام میں شریعت کی بالادستی اس طرح تسلیم کی جائے کہ اس کے سامنے حکمرانوں کے سر ہی نہیں، دل بھی جھکے ہوئے محسوس ہوں اور حکومت اس احساسِ ذمہ داری کے ساتھ کی جائے کہ حکمران گویا خدا کو ہر وقت اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ رہے ہیں، لیکن اس سے نیچے وہ جگہ جہاں پہنچ جانے کے بعد ان کی اطاعت سے انحراف اور انھیں تبدیل کر دینے کی جدوجہد مسلمانوں کے لیے جائز ہو جاتی ہے، (سورئہ نساء کی آیت ۵۹ میں درج ’منکم ‘ کی شرط کے مطابق) یہی ہو سکتی ہے کہ وہ کھلے کفر کے مرتکب ہو جائیں۔‘‘ (اشراق، جنوری ۲۰۰۰، ص ۲۶ )
’’(چنانچہ اس کو شامل کر کے ) خروج کی تین لازمی شرطیں ہیں جو شریعت کا تقاضا ہیں :
اول یہ کہ حکمران کھلے کفر کا ارتکاب کریں۔
دوم یہ کہ ان کی حکومت ایک استبدادی حکومت ہو جو نہ مسلمانوں کی رائے سے قائم ہوئی ہو اور نہ ان کی رائے سے اسے تبدیل کر دیناکسی شخص کے لیے ممکن ہو۔
سوم یہ کہ خروج کے لیے وہ شخص اٹھے جس کے بارے میں یہ بات پورے اطمینان کے ساتھ کہی جا سکے کہ قوم کی واضح اکثریت اس کے ساتھ اور پہلے سے قائم کسی حکومت کے مقابلے میں اس کی قیادت تسلیم کرنے کے لیے بالکل تیار ہے۔‘‘(برہان، ص۱۹۴)
’’(اس سلسلے) میں یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ یہ بغاوت اگر مسلح بغاوت ہو تو اس کی ایک لازمی شرط یہ بھی ہے کہ بغاوت کرنے والے پہلے کسی آزاد علاقے میں جاکر اپنی حکومت قائم کریں۔‘‘     (اشراق،جنوری ۲۰۰۰، ص ۲۸ )

جہاد اور خروج کے بارے میں یہ جناب جاوید احمد غامدی کا نقطۂ نظر ہے۔ اس کے لیے انھوں نے قرآن و سنت کی بنیاد پر جو دلائل دیے ہیں وہ ان کی تحریروں میں ملاحظہ کیے جا سکتے ہیں۔

____________

B