تماثیل کے حوالے سے احادیث کے ذخیرے کو دیکھیں، توہمیں اُس میں چھ مختلف نوعیتوں کی احادیث ملتی ہیں۔ایک نوعیت وہ ہے،جس میں تماثیل یا مصورین کے بارے میں اجمالاً کوئی بات کی گئی ہے۔ یہ احادیث درجِ ذیل ہیں۔
۱۔ عَنْ وهب بن عبدالله قَالَ إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيه وَسَلَّمَ لَعَنَ الْمُصَوِّرَ. (بخاری، من لعن المصور)
’’وہب ابن عبداللہ سے روایت ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ نبیﷺ نے تصاویر بنانے والے پر لعنت فرمائی ہے۔‘‘
۲۔عَنْ عَائِشَةَ أَنَّهَا اشْتَرَتْ نُمْرُقَةً فِيهَا تَصَاوِيرُ.فَلَمَّا رَآهَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَامَ عَلَى الْبَابِ، فَلَمْ يَدْخُلْ فَعَرَفْتُ أَوْ فَعُرِفَتْ فِي وَجْهِهِ الْكَرَاهِيَةُ فَقَالَت يَا رَسُولَ الله، أَتُوبُ إِلَى اللهِ وَإِلَى رَسُولِهِ، فَمَاذَا أَذْنَبْتُ فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَا بَالُ هَذِهِ النُّمْرُقَة فَقَالَت اشْتَرَيْتُهَا لَكَ تَقْعُدُ عَلَيْهَا تَوَسَّدُهَا. فَقَالَ: رسولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ أَصْحَابَ هَذِهِ الصُّوَرِ يُعَذَّبُونَ، وَيُقَالُ لَهُمْ أَحْيُوا مَا خَلَقْتُمْ. ثُمَّ قَالَ: إِنَّ الْبَيْتَ الَّذِي فِيهِ الصُّوَرُ لَا تَدْخُلُهُ الْمَلَائِكَةُ. (مسلم، اللباس ولزینتہ، تحریم تصویر)
’’عائشہ سے روایت ہے کہ انہوں نے ایک غالیچہ ( گدا) خریدا، اُس میں تصویریں بنی ہوئی تھیں۔ پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (گھر میں داخل ہوتے ہوئے ) اُسے دیکھا، تو آپ دروازے ہی پر رُک گئے اور گھر میں داخل نہیں ہوئے،تو میں نے جان لیا یا یوں کہیں کہ آپ کے چہرے سے ناگواری ٹپکی پڑتی تھی (میں کیسے نہ جان لیتی)۔ چنانچہ انہوں (عائشہ رضی اللہ عنہا) نے کہا اے اللہ کے رسول! میں اللہ اور اس کے رسول کی جناب میں توبہ کرتی ہوں، میں نے کیا غلطی کی ہے؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: یہ گدا کیسا ہے؟ انھوں نے کہا :میں نے یہ آپ کے لیے خریدا ہے تاکہ آپ اس پر بیٹھیں اور اس پر ٹیک لگائیں۔ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان تصویروں والوں کو عذاب دیا جائے گااور ان سے کہا جائے گا کہ جو کچھ تم نے تخلیق کیا ہے اسے زندہ کرو۔ پھر آپ نے فرمایا:جس گھر میں تصاویر ہوں اس میں فرشتے داخل نہیں ہوتے۔‘‘
۳۔قال عبدالله سمعت النبي ﷺ يقول ان أشد الناس عذاباً يوم القيامة المصورون.(بخاری، اللباس، عذاب المصورین)
’’عبداللہ کہتے ہیں میں نے نبیﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے، بے شک قیامت کے دن شدید ترین عذاب میں گرفتار ہونے والے مصور (تصاویر ) ہوں گے۔ ‘‘
۴۔ قال ابن عباس سمعت محمدا صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يقول من صور صورة في الدنيا كلّف يوم القيامة أن ينفخ فيها الروح و ليس بنافخ.(بخاری، اللباس، من صور صورۃ)
’’ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں، میں نے محمدﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جس نے دنیا میں کوئی تصویر بنائی اسے قیامت کے دن مجبور کیا جائے گا کہ وہ اس میں روح پھونکے اور وہ اس میں روح پھونک نہ سکے گا۔‘‘
۵۔عن عبدالله ابن عمر رضي الله عنهما أن رسول الله صلي الله عليه وسلم قال إن الذين يصنعون هذه الصور يعذبون يوم القيامة يقال لهم أحيوا ما خلقتم.(بخاری، اللباس، عذاب المصورین )
’’عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :بے شک وہ لوگ جو یہ تصاویر بناتے ہیں، قیامت کے دن عذاب دیے جائیں گے، اُن سے کہا جائے گاکہ جو تم نے بنایا ہے اُسے زندہ کرو۔‘‘
اِن احادیث سے تصاویر اور مصورین کے بارے میں درجِ ذیل باتیں معلوم ہوتی ہیں۔
۱۔ مصور (تصویر اور مجسمہ بنانے والا) ملعون ہے۔
۲۔ مصورین کو قیامت کے دن شدید ترین عذاب دیا جائے گا۔
۳۔ مصورین سے یہ تقاضا کیا جائے گا کہ وہ اپنی تصاویر میں روح پھونکیں اور انھیں زندہ کریں، لیکن وہ ایسا نہ کر سکیں گے۔
۴۔ جس گھر میں تصاویر ہوں اس میں فرشتے داخل نہیں ہوتے۔
درجِ بالا احادیث سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ دین میں کسی بھی قسم کی تصاویر کے لیے کوئی گنجایش نہیں اور نہ کسی نوعیت کے تصاویر بنانے والے مصورین ہی کے لیے اسلام میں کوئی جگہ ہے۔ مصور خواہ کسی بھی تصویر کا ہو اور تصویر خواہ کسی بھی شے (جان دار یا بے جان) کی ہو، بہرحال مصور جہنمی اور تصویر حرام ہے۔ اس بات کو اگر انھی لفظوں میں مان لیا جائے، تو اِس کے نتیجے میں درجِ ذیل باتوں کو ماننا پڑتا ہے۔
۱۔ قرآن اور حدیث میں تضاد پایا جاتا ہے۔ (جیسا کہ پیچھے سلیمان علیہ السلام کے حوالے سے یہ بات زیرِ بحث آ چکی ہے۔)
۲۔ خود احادیث کے اپنے مابین بھی تضاو ہے۔ ( جیسا کہ آگے آنے والی بعض احادیث سے معلوم ہو گا کہ وہی تصاویر حرام ہیں،جن میں روح ہو۔)
۳۔ تصویر کی حلت و حرمت کے حوالے سے فقہا کا مختلف تصاویر میں فرق کرنا بالکل غلط تھا۔ یعنی فقہا کی یہ بات غلط ہے کہ کچھ تصاویر حرام اور کچھ تصاویر حلال ہیں۔ اگر مسئلے کو محض اِنھی احادیث کی روشنی میں دیکھا جائے، تو اُن کا یہ فرق کرنا بالکل غلط تھا۔
۴۔ ہر نوعیت کی تصاویر کی یکسر حرمت کا یہ تصور بتاتا ہے کہ اسلام جو کہ دینِ فطرت ہے، وہ فنونِ لطیفہ کے بارے میں بالکل منفی رویہ رکھتا ہے، حالانکہ اِن (فنونِ لطیفہ) کی بنیاد انسان کی اپنی فطرت میں ہے۔
اِن درجِ بالا باتوں میں سے بعض کو تو کسی صورت میں بھی ماننا ممکن نہیں اور بعض کو ماننا بہت دشوار ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں اصل بات جاننے کے لیے باقی احادیث کو بھی دیکھنا ہو گا، تاکہ ہم مجموعی احادیث پر غور کر کے صحیح موقف جان سکیں۔
چنانچہ ہم احادیث کے ذخیرے پر دوبارہ نظر ڈالتے ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ اُس میں ایک اور نوعیت کی احادیث بھی موجود ہیں۔ اِن احادیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ تصاویر کی اپنی ساخت ہی کی بعض ایسی قسمیں ہیں، جو ممنوع نہیں۔ اِسی طرح ممنوع تصاویر والی شیکے محل کی بھی بعض ایسی صورتیں ہیں، جن صورتوں میں اُن تصاویر کی موجودگی سے بھی اُس شے کا استعمال ممنوع قرار نہیں پاتا۔ یہ احادیث درجِ ذیل ہیں :
قال أَبو طَلْحَةَ.أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: لَا تَدْخُلُ الْمَلَائِكَةُ بَيْتًا فِيهِ صُورَةٌ. قَالَ بُسْرٌ، فَمَرِضَ زَيْدُ بْنُ خَالِدٍ فَعُدْنَاهُ، فَإِذَا نَحْنُ فِي بَيْتِهِ بِسِتْرٍ فِيهِ تَصَاوِيرُ فَقُلْتُ لِعُبَيْدِ اللهِ الْخَوْلَانِيِّ أَلَمْ يُحَدِّثْنَا فِي التَّصَاوِيرِ فَقَالَ إِنَّهُ قَالَ إِلّا رَقْمٌ[4] فِي ثَوْبٍ، أَلَا سَمِعْتَهُ؟ قُلْتُ لَا، قَالَ بَلَى، قَدْ ذَكَرَهُ.(بخاری، بدء الخلق، اذ قال احدکم)
’’ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا، فرشتے اس گھر میں نہیں جاتے جس میں کوئی تصویر ہو۔بُسر کہتے ہیں، پھر ایک موقع پر جب زید بن خالد بیمار ہوئے، تو ہم ان کی عیادت کو گئے۔تو اُن کے گھر میں کیا دیکھتے ہیں کہ ایک پردہ ہے، جس پر تصاویر بنی ہوئی ہیں۔ میں نے عبید اللہ خولانی سے پوچھا،کیا انھوں نے ہم سے تصاویر کی حرمت بیان نہیں کی تھی۔ انھوں نے کہا کہ انھوں نے یہ بھی تو کہا تھا کہ سوائے اِس کے کہ کسی کپڑے پر کوئی نقش بنا ہو۔کیا تم نے یہ بات نہیں سنی تھی، میں نے کہا: نہیں۔ انھوں کہا کیوں نہیں، انھوں نے یقیناً یہ الفاظ کہے تھے۔‘‘
عَنْ عُبَيْدِ اللهِ أَنَّهُ دَخَلَ عَلَى أَبِي طَلْحَةَ الْأَنْصَارِيِّ يَعُودُهُ قَالَ فَوَجَدَ عِنْدَهُ سَهْلَ بْنَ حُنَيْفٍ فَدَعَا أَبُو طَلْحَةَ إِنْسَانًا فَنَزَعَ نَمَطًا مِنْ تَحْتِهِ فَقَالَ لَهُ سَهْلُ بْنُ حُنَيْفٍ لِمَ تَنْزِعُهُ قَالَ لِأَنَّ فِيهِ تَصَاوِيرَ وَقَدْ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيهَا مَا قَدْ عَلِمْتَ فَقَالَ سَهْلٌ أَلَمْ يَقُلْ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَّا مَا كَانَ رَقْمًا فِي ثَوْبٍ قَالَ بَلَى وَلَكِنَّهُ أَطْيَبُ لِنَفْسِي. (مالک۔ کتاب الجامع،الصور و التماثیل)
’’حضرت عبیداللہ سے روایت ہے کہ وہ ابو طلحہ انصاری کے پاس ان کی عیادت کے لیے آئے، تو ان کے پاس سہل بن حنیف کو بھی بیٹھے ہوئے پایا، اس اثنا میں ابو طلحہ نے کسی آدمی کو بلایا اور اپنے نیچے سے گدا نکالنے کوکہااور اس نے وہ گدا نکال دیا۔ تو سہل بن حنیف نے ان سے کہا کہ آپ نے اسے اپنے نیچے سے کیوں نکالا ہے، انھوں نے کہا: اس لیے کہ اس میں تصاویر ہیں اور آپ کو معلوم ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ان کے بارے میں کیا فرمایا ہے۔ سہل نے کہا کہ کیا آپ ﷺنے یہ نہیں فرمایا تھا کہ سوائے اس کے کہ کسی کپڑے پر کوئی نقش بنا ہو۔ ابو طلحہ کہتے ہیں کیوں نہیں بات ایسے ہی ہے، لیکن میں اپنے لیے یہ زیادہ بہتر سمجھتا ہوں ( کہ ایسی مرقوم تصاویر کے استعمال سے بھی گریز ہی کروں۔)
أبوهريره رفعه في التماثيل رخص فيما كان يوطأ وكره ما كان منصوباً. (جمع الفوائد )
’’ابو ہریرہ نبی ﷺ سے مرفوعاً بیان کرتے ہیں کہ جو تصاویر محل اہانت میں پامال ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی اجازت دی ہے اور جو کھڑی ہوں وہ ناجائز ہیں۔‘‘
عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا أَنَّهَا كَانَتْ اتَّخَذَتْ عَلَى سَهْوَةٍ لَهَا سِتْرًا فِيهِ تَمَاثِيلُ فَهَتَكَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاتَّخَذَتْ مِنْهُ نُمْرُقَتَيْنِ فَكَانَتَا فِي الْبَيْتِ يَجْلِسُ عَلَيْهِمَا. (بخاری، المضالم و الغصب )
’’عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنے گھر کے ایک طاقچے پر ایک ایسا پردہ لٹکا دیا تھا، جس پر تصاویر بنی ہوئی تھیں۔ نبی ﷺ نے اسے دیکھا تو اس کو پھاڑ دیا۔ (عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ) پھر انھوں نے اس کے دو تکیے بنا لیے۔ وہ دونوں تکیے گھر میں رہے،اس حال میں کہ نبیﷺ ان پر بیٹھا کرتے تھے۔‘‘
اِن احادیث سے درجِ ذیل باتیں سامنے آتی ہیں :
۱۔ اگر کسی کپڑے پر ممنوع تصاویر نقش و نگار کی صورت میں بنی ہوں، یعنی اُس کی تصاویر اپنی ساخت کے اعتبار سے اصلاً، تصاویر کے ضمن میں نہیں، بلکہ نقش و نگار کے ضمن میں آتی ہوں، جیسے مثلاً مختلف اشیا کے خاکے بنائے جاتے ہیں، تو ایسی خاکوں اور نقش و نگار کے طرز کی تصاویر اگر چہ بجائے خود ممنوع بھی ہوں تو ان کی وجہ سے اُس کپڑے کا استعمال ممنوع قرار نہیں پاتا۔ یعنی ممنوع تصاویر کی یہ ساخت کہ وہ خاکوں یا نقش و نگار کی صورت میں ہیں،ان کی اپنی حرمت کو ختم نہیں کرتی۔ لہٰذا، ممنوع تصاویر کو خاکوں اور نقش و نگار کے طرز پر بنانا بھی بجائے خود تو جائز نہیں ہے، لیکن بہرحال یہ خاکے اور نقش و نگار کی نوعیت کی ممنوع تصاویر جن اشیا پر ہوں یہ ان اشیا کے استعمال کو ممنوع نہیں بناتیں [5]۔
۲۔ اُس کپڑے یا اُس شے کا استعمال بھی ممنوع نہیں ہے، جس پر اگرچہ ناجائز تصاویر بنی ہوں، لیکن وہ کپڑا یا شے محلِ اہانت میں ہو، یعنی اُس پر بیٹھا جاتا ہو یا وہ قدموں تلے روندی جاتی ہو۔
چنانچہ ایک بات تو یہ معلوم ہوئی کہ ممنوع تصاویر کی اپنی ساخت ہی کی بعض صورتیں ایسی ہیں جن کا بجائے خود بنانا یا بنوانا تو ممنوع ہی ہوتا ہے لیکن اس نوعیت یا اس ساخت کی تصاویر اگر کسی شے پر موجود ہوں تو اس کا استعمال ممنوع نہیں ہوتا۔ اور دوسری بات یہ کہ اگر کوئی ممنوع تصویر والی شے محلِ اہانت میں ہو تو اس شے کا استعمال بھی ممنوع نہیں ہوتا۔
احادیث کے پہلے گروپ سے یہ اجمالی بات ہمارے سامنے آئی تھی کہ مصور (تصویر بنانے والا) ملعون ہے اور قیامت کے دن اس کو شدید عذاب ہو گا۔ اس سے یہ تاثر ملتا تھا کہ ہر تصویر بنانا اور ہر تصویر والی شے کو استعمال میں لانا ناجائز ہے۔ احادیث کے اس گروپ سے ہمیں ایک یہ بات پتا چلی کہ جس شے پرممنوع تصویر نقش و نگار یا خاکے کی صورت میں بنی ہو اس شے کو استعمال میں لایا جا سکتا ہے۔ اور دوسری یہ بات پتا چلی کہ ممنوع تصویر والی شے اگر محلِ اہانت میں ہو تو اس کو بھی استعمال میں لایا جا سکتا ہے۔
چنانچہ ان احادیث سے اصلاً یہ بات ہمارے سامنے آتی ہے کہ اسلام میں تصویر کا ممنوع ہونا کسی علت ہی کی بنا پر ہے۔ کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ ممنوع تصاویروالی اشیا کا استعمال بھی بعض صورتوں میں ممنوع نہیں ہوتا۔ اگر تصویر محض تصویر ہونے کی حیثیت سے ممنوع ہوتی تو اسے ہر صورت اور ہر محل میں ممنوع ہونا چاہیے تھا لیکن یہ احادیث بتاتی ہیں کہ ایسا نہیں ہے۔ پس اس کی وجہ یہی ہے کہ اسلام میں تصاویر کو کسی علت ہی کی بناپرممنوع قرار دیا گیا ہے۔ چنانچہ جوں ہی کسی خاص صورت میں وہ علت زائل یا مجروح ہو جاتی ہے تو تصویر والی شے کے استعمال کی حرمت بھی زائل ہو جاتی ہے۔
لیکن ان سب احادیث سے بھی یہ بات ہماے سامنے نہیں آتی کہ وہ کون سی واضح اور متعین نوعیت کی تصاویر ہیں جو اسلام میں ممنوع ہیں اور وہ کیا علت ہے جس کی بنا پر یہممانعت ہے ؟
اب ہم پہلے یہ معلوم کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ واضح اور متعین نوعیت کی کون سی تصاویر ہیں جنھیں براہِ راست خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ممنوع قرار دیا ہے۔ پھر اس کے بعد ہم ان شاء اللہ ان تصاویر کی ممانعت کی علت کو دریافت کرنے کی کوشش کریں گے۔
چنانچہ ممانعت کے حوالے سے واضح اور متعین تصاویر کی تلاش میں اب ہم ایک دفعہ پھر احادیث کے ذخیرے کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ اس دفعہ ہمارے سامنے درجِ ذیل احادیث آتی ہیں :
عن عَائِشَةَ رَضِي اللهُ عَنْهَا أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَكُنْ يَتْرُكُ فِي بَيْتِهِ شَيْئًا،فِيهِ تَصَالِيبُ إِلا نَقَضَهُ. (بخاری، اللباس، نقض الصورۃ)
’’عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں کہ نبی ﷺ اپنے گھر میں ہر اُس چیز کو جس پر صلیب بنی ہوتی، ضرور توڑ دیتے۔‘‘
عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ أُمَّ حَبِيبَةَ وَأُمَّ سَلَمَةَ ذكَرَتَا، كَنِيسَة رَأَيْنَهَا بِالْحَبَشَةِ فِيهَا تَصَاوِيرُ، لِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؛ إِنَّ أُولَئِكِ إِذَا كَانَ فِيهِمُ الرَّجُلُ الصَّالِحُ، فَمَاتَ بَنَوْا عَلَى قَبْرِهِ مَسْجِدًا وَصَوَّرُوا فِيهِ تِلْكِ الصُّوَرَ أُولَئِكِ شِرَارُ الْخَلْقِ عِنْدَ اللهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ.(مسلم، المساجد و مواضع الصلاۃ )
’’عائشہ رضی اللہ عنہاسے روایت ہے کہ امِ حبیبہ رضی اللہ عنہا اور امِ سلمہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ ﷺ سے ایک کنیسہ کا ذکر کیا، جسے انھوں نے حبشہ میں دیکھا تھا، اس میں تصاویر تھیں۔ تو رسول ﷺ نے فرمایا اِن (عیسائیوں) میں جب کوئی نیک آدمی مر جاتا، تو اُس کی قبر پر مسجد بنا دیتے اور اُس مسجد میں یہ تصاویر بناتے تھے۔ قیامت کے دن یہ لوگ اللہ کے ہاں بدترین مخلوق شمار ہوں گے۔ ‘‘
عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا قَالَ دَخَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْبَيْتَ فَوَجَدَ فِيهِ صُورَةَ إِبْرَاهِيمَ وَصُورَةَ مَرْيَمَ فَقَالَ أَمَا لَهُمْ فَقَدْ سَمِعُوا أَنَّ الْمَلَائِكَةَ لَا تَدْخُلُ بَيْتًا فِيهِ صُورَةٌ. هَذَا إِبْرَاهِيمُ مُصَوَّرٌ فَمَا لَهُ يَسْتَقْسِمُ. (بخاری، احادیث الانبیا )
’’ابنِ عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں، نبی ﷺ (فتح مکہ کے روز )بیت اللہ میں داخل ہوئے، تو آپ نے اُس میں ابراہیم علیہ السلام اور مریم علیہا السلام کے مجسمے دیکھے۔ آپ نے فرمایا اِنہیں (قریش کو) کیا ہوا، اِنھوں نے تو یہ سن رکھا تھا کہ فرشتے اُس گھر میں نہیں جاتے، جس میں کوئی مجسمہ یاتصویر ہو۔(دیکھو) یہ ابراہیم علیہ السلام کا مجسمہ بنایا گیا ہے، (اِن کے ہاتھ میں اُنہوں نے پانسے کے تیرپکڑا دیے )، وہ بھلا فال کھولا کرتے تھے۔‘‘
عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا قَالَ إِنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا قَدِمَ أَبَى أَنْ يَدْخُلَ الْبَيْتَ وَفِيهِ الْآلِهَةُ فَأَمَرَ بِهَا فَأُخْرِجَتْ فَأَخْرَجُوا صُورَةَ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ..... (بخاری، الحج، من کبر فی نواحی الکعتہ)
’’ابنِ عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا : رسول اللہﷺ جب (مکہ) آئے، تو انھوں نے بیت اللہ میں معبودانِ باطل کی موجودگی میں، داخل ہونا گوارا نہیں کیا۔ چنانچہ آپ نے اُنہیں نکالنے کا حکم دیا، وہ نکالے گئے۔ لوگوں نے اُن میں موجود ابراہیم علیہ السلام او ر اسمعیل علیہ السلام کا مجسمہ بھی نکالا …۔‘‘
عن ابن عباس انّ النبي صلى الله عليه وسلم لما رأى الصور في البيت لم يدخل حتى أمر بهافمحيت.....(بخاری، احادیث الانبیا، قول اللہ تعالیٰ )
’’ابنِ عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے (فتح مکہ کے موقع پر) جب بیت اللہ میں تصاویر دیکھیں، تو آپ اس میں داخل نہیں ہوئے یہاں تک کہ وہ آپ کے حکم سے مٹا دی گئیں۔‘‘
عَنْ صَفِيَّةَ بِنْتِ شَيْبَةَ قَالَتْ لَمَّا اطْمَأَنَّ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامَ الْفَتْحِ طَافَ عَلَى بَعِيرٍ يَسْتَلِمُ الرُّكْنَ بِمِحْجَنٍ بِيَدِهِ ثُمَّ دَخَلَ الْكَعْبَةَ فَوَجَدَ فِيهَا حَمَامَةَ عَيْدَانٍ فَكَسَرَهَا ثُمَّ قَامَ عَلَى بَابِ الْكَعْبَةِ فرمَى بِهَا وَأَنَا أَنْظُرُهُ.(ابنِ ماجہ، المناسک، من استلم الرکن)
’’صفیہ بنت شیبہ سے روایت ہے کہ نبیﷺ فتح مکہ کے دن جب ذرا پُر سکون ہوئے،تو آپ نے اونٹ پر سوار ہو کر حجر اَسود کا اُس لکڑی سے استلام کیا، جو آپ کے ہاتھ میں تھی۔ پھر آپ کعبہ میں داخل ہوئے، آپ نے وہاں لکڑی کی ایک کبوتری پائی،تو آپ نے اسے توڑ پھوڑ دیا اور پھر آپ کعبے کے دروازے پر کھڑے ہوئے اور اسے پھینک دیا اور میں اُس وقت آپ (کے اِس سارے عمل )کو دیکھ رہی تھی۔‘‘
احادیث کے اِس گروپ سے درجِ ذیل باتیں معلوم ہوتی ہیں۔
۱۔ نبی ﷺ ہر اُس شے کو توڑ پھوڑ دیتے تھے، جس پر صلیب کی تصویر بنی ہوتی، یعنی اُس شے کو استعمال میں لانا آپ کو ہرگز گوارا نہ تھا۔
۲۔ عیسائی اپنے صالحین کی قبروں پر عبادت گاہیں بنایا کرتے تھے۔ اور اُن عبادت گاہوں میں اپنے اِن صالحین کی تصاویر رکھا کرتے تھے۔ نبی ﷺ نے اِن عیسائیوں کے بارے میں ہمیں یہ بتایا ہے کہ یہ قیامت کے دن اللہ کے ہاں اپنے اِس عمل کی بنا پر بدترین مخلوق قرار پائیں گے۔
۳۔نبی ﷺ فاتح کی حیثیت سے جب مکہ میں داخل ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت اللہ میں معبودانِ باطل کی تصاویر اور اُن کے مجسمے دیکھے۔ اُن میں ابراہیم علیہ السلام،اسمٰعیل علیہ السلام اور مریم علیہا السلام کے مجسمے بھی رکھے ہوئے تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اِس صورتِ حال میں بیت اللہ میں داخل ہونا بالکل گوارا نہ کیا۔ پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے اِن معبودانِ باطل کے مجسمے نکال دیے گئے اور اِن کی تصاویر مٹا دی گئیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیت اللہ میں داخل ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اِن مجسموں اور اِن تصاویر کو دیکھ کر یہ کہا کہ قریش کے اِن لوگوں کو کیا ہوا ہے، انھوں نے تو یہ سن رکھا تھا کہ فرشتے اُس گھر میں داخل نہیں ہوتے، جس میں کوئی مجسمہ یا تصویر ہو۔
۴۔کعبہ میں جو مختلف بت رکھے ہوئے تھے، اُن کے ساتھ لکڑی کی بنی ہوئی ایک کبوتری بھی تھی، آپ ﷺنے اُسے بھی اُسی طرح توڑ پھوڑ دیا، جیسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بت توڑے تھے یا جیسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم صلیب کی تصویر والی اشیا کو توڑ پھوڑ دیتے تھے۔
اس سے پہلے احادیث کے جن گروپوں کا ہم نے مطالعہ کیا ہے،اُن میں تصاویر یا تماثیل کے الفاظ اجمالاً استعمال کیے گئے تھے۔ اُن احادیث سے اُن (تصاویر و تماثیل )کا واضح مصداق ہمارے سامنے نہیں آتا تھا۔ لیکن اس گروپ میں بیان کردہ احادیث میں ہم یہ دیکھتے ہیں کہ وہ اجمال تفصیل میں ڈھل گیا ہے۔
اِس تفصیل سے جو اہم بات ہمارے سامنے آتی ہے، وہ یہ ہے کہ ہم نبی ﷺ کو صرف اُنھی تماثیل کے بارے میں وعید سناتے، اُنھی تصاویر کو مٹا تے اور اُنھی مجسموں کو توڑتے ہوئے دیکھتے ہیں، جو سب کیسب عین مظہرِشرک ہیں۔ چنانچہ آپ دیکھیے کہ صلیب کے بارے میں نبی ﷺ کا رویہ کتنا سخت ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر میں جس کپڑے پر صلیب کا نشان دیکھتے ہیں، اُسے پھاڑ دیتے ہیں، جس شے پر صلیب کا نشان بنا ہوا پاتے ہیں، اسے توڑ دیتے ہیں۔ یہ صلیب عیسائیوں کے نزدیک اُن کے عقیدے کا ایک مقدس نشان تھا۔ یہ اُس صلیب کی یادگار تھی، جس پر عیسائی روایت کے مطابق، خدا کے اکلوتے بیٹے کو آدم کے بہت سے بیٹوں نے مل کر سُولی دی اورخدا کا بیٹا اپنے ماننے والوں کے گناہوں کا کفارہ ادا کرتے ہوئے، اپنے آسمانی باپ کے پاس چلا گیا۔ صلیب اِس پورے مشرکانہ عقیدے کی ایک نمایاں علامت تھی، چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکانہ عقیدے کی اس علامت کو بالکل گوارا نہیں کیا۔
اِس کے بعد آپ یہ دیکھیے کہ جب نبی ﷺ کے سامنے کنیسہ میں موجود تصاویر کا ذکر کیا گیا،تو آپ نے یہ بتایا کہ یہ تصاویر صالحین کی قبروں پر بنائی جانے والی عبادت گاہوں میں رکھی جاتی تھیں۔ اِن تصاویر کے بارے میں عیسائیوں کے عقائد سے بھی یہ معلوم ہوتا ہے اور ہمارے جلیل القدر اسلاف نے بھی ان کے بارے میں یہی بات بیان کی ہے کہ عیسائی ان تصاویر اور مجسموں سے برکت حاصل کرتے اور شفاعت حاصل کرتے تھے، ان تصاویر میں عیسٰی علیہ السلام اور مریم علیہا السلام کی تصاویر اور ان کے مجسمے بھی ہوتے تھے، جو ان کے نزدیک الوہیت کا درجہ رکھتے تھے۔
بیت اللہ میں موجود تماثیل کے حوالے سے آپ دیکھیں۔ فتح مکہ کے بعد جب اقتدار آپ کے ہاتھ میں آ گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیت اللہ کے پاس تشریف لے گئے، لیکن اُس میں داخل نہیں ہوئے۔ کیوں ؟ اِس وجہ سے کہ اُس میں لکڑی اور پتھر کی وہ تصاویر و تماثیل تھیں، جنہیں ’آلھة‘ (خدا) قرار دیا جاتا اور پوجاجاتا تھا۔ عقیدہ شرک کے مطابق یہ خدا اللہ تعالیٰ کے شریک تھے۔ مشرکینِ عرب سے آپ ﷺ کا سارا اختلاف یہی تو تھا کہ اِن خداؤں کی پرستش کا کوئی جواز نہیں۔ اب جب کہ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بیت اللہ پر غلبہ دے دیاتھا،تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اُس میں اِن بتوں کی موجودگی کو گوارا کیسے کر سکتے تھے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت اللہ میں اُس وقت تک قدم نہیں رکھا جب تک اِن معبودانِ باطل کو اُس میں سے نکلوا نہیں لیا، یا انہیں وہاں سے مٹا نہیں دیا گیا،حتیٰ کہ کبوتری کا وہ مجسمہ، جو اِن معبودانِ باطل کے ساتھ بیت اللہ میں دیکھا گیا، اُسے بھی آپ نے اُسی طرح توڑ پھوڑ دیا، جیسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم صلیب کی تصویر والی اشیا کو توڑ پھوڑ دیتے تھے۔ ظاہر ہے کبوتری کا یہ مجسمہ بیت اللہ میں کسی 'Decoration Piece' کے طور پر نہیں، بلکہ باطل خداؤں کی منڈلی میں عبادت ہی کی غرض سے رکھا گیا تھا۔
اس گروپ کی احادیث ہمیں یہ واضح طور پر بتا دیتی ہیں کہ نبی ﷺ نے مجمل الفاظ میں جن تصاویر وتماثیل کی شناعت بیان کی تھی اور جنہیں بنانے والے مصورین کو ملعون قرار دیا تھا،اُن کا مصداق کیا تھا۔ آپ ﷺ نے اُن احادیث میں موجود اجمال کی خود اپنے عمل سے تفصیل کر دی ہے۔ چنانچہ وہ واضح اور متعین نوعیت کی تصاویر یا مجسمے جنہیں نبی ﷺبرداشت کرنے کو ہرگز تیار نہ ہوئے، وہ وہی ہیں،جن کے بارے میں وہاں اُلوہیت کے تصورات پائے جاتے تھے اور جو ان کے ہاں شرک کا مظہر تھیں۔
احادیث میں موجود اجمال کی، احادیث ہی کے ذریعے سے، اِس تفصیل کو جاننے کے بعد، اب ہم پھر روایاتِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذخیرے کی طرف آتے اور یہ دیکھتے ہیں کہ آیا نبی ﷺ نے خود تصاویر کی حرمت کی کوئی علت بھی بیان کی ہے ؟
عَنْ أَبِي زُرْعَةَ قَالَ دَخَلْتُ مَعَ أَبِي هُرَيْرَةَ فِي دَارِ مَرْوَانَ، فَرَأَى فِيهَا تَصَاوِيرَ فَقَالَ:سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ، قَالَ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ: وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ ذَهَبَ يَخْلُقُ خَلْقًا كَخَلْقِي، فَلْيَخْلُقُوا ذَرَّةً أَوْ لِيَخْلُقُوا حَبَّةً أوْ لِيَخْلُقُوا شَعِيرَةً. (مسلم، اللباس و الزینتہ، تحریم تصویر )
’’ابو زرعہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں، میں ابو ہریرہ کے ساتھ مروان کے گھر میں داخل ہوا۔ اُنہوں نے وہاں تصاویر دیکھیں، تو کہا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ اللہ تعا لیٰ فرماتے ہیں، اُس شخص سے بڑا ظالم کون ہو گا، جومیرے تخلیق کرنے (مخلوقات بنانے) کی طرح، تخلیق کرنے (مخلوقات بنانے) نکل کھڑا ہوا۔ (ایسی جسارت کرنے والوں کو چاہیے کہ) وہ ایک ذرہ تو تخلیق کر کے دکھائیں یا ایک دانہ یا ایک جو ہی تخلیق کر کے دکھا دیں۔‘‘
اس مضمون کی کئی احادیث ہیں، تکرار سے گریز کرتے ہوئے، ہم نے ایک ہی بنیادی حدیث بیان کی ہے۔ اِس حدیث میں تصویر کی حرمت کی اصل علت بیان کی گئی ہے۔ فقہا اور علما سبھی اِس پر متفق ہیں کہ تصویر کی حرمت کی اصل علت یہی ہے، جو اِس میں بیان ہوئی ہے۔ اب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اِس حدیث سے ہمیں تصاویر کی حرمت کی کیا علت معلوم ہوتی ہے۔
اِس حدیث کا اگر تجزیہ کیا جائے،تو اِس میں تین باتیں بیان ہوئی ہیں۔
پہلی یہ کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے مروان کے گھر میں تصاویر دیکھیں تو اُنہوں نے اُن پر تنقید کرتے ہوئے، تصاویر کے بارے میں نبی ﷺ کے حوالے سے اللہ تعالیٰ کا ایک قول بیان کیا۔
دوسری بات تصویر بنانے والوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا تبصرہ ہے،یعنی یہ کہ اُس شخص سے بڑا ظالم کون ہے،جو میرے یعنی خداکے تخلیق کرنے کی طرح تخلیق کرنے چل پڑا۔
اور تیسری بات وہ چیلنج ہے، جو مصوروں یعنی خدا کی طرح تخلیق کی جسارت کرنے والوں کے سامنے رکھا گیا ہے، اور وہ یہ ہے کہ تم خدا کے تخلیق کرنے کی طرح تخلیق کرنے (تصویر بنانے ) تو چل پڑے ہو، لیکن یہ تو بتاؤ کہ وہ کام جو خاص خدا کے کرنے کے کام ہیں، وہ کوئی اور کر سکتا ہے ؟ اچھا اگر تمہیں ایسا ہی زُعم ہے کہ تم کر سکتے ہو،تو ہماری چند چھوٹی چھوٹی تخلیقات جیسی تخلیقات ہی کر کے دکھا دو،یعنی مٹی کا ایک ذرہ یا گندم کا ایک دانہ یا جو کا ایک دانہ ہی تخلیق کر کے دکھا دو۔
حدیث کے اس تجزیے سے یہ صاف معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس تصویر بنانے کی بات کر رہا ہے، جسے بنانا حقیقت میں اُس کی تخلیقات جیسی تخلیق کرنا ہے۔ ظاہر ہے کہ اِس صورت میں تو یقینا آدمی اپنے اندر خدا کی صفتِ تخلیق،جیسی صفت ہی کا اظہار کرتا ہے۔
اِس حدیث میں خدا جس تصویر کی بات کر رہا ہے،وہ (خدا کی بنائی ہوئی )کسی شے کی ہیئت اور اُس کی شکل کو کسی کاغذ وغیرہ پر 'Draw' کر لینا نہیں ہے یا وہ کسی مصور کا اپنے برش اور رنگوں کی مدد سے کینوس پر یا دیوار پر چند آڑی ترچھی لکیریں کھینچ کر اُن میں کچھ رنگ بھر دینا نہیں ہے، بلکہ وہ اپنی حقیقت میں خدا کی تخلیق کی نوعیت کی ایک تخلیق کرنا ہے۔ یہ تصویر سازی دراصل،خدا کی نقالی کرنا ہے، نہ کہ خدا کی بنائی ہوئی اشیا کی ہیئت کی نقالی کرنا۔ یہ خدا کی بنائی ہوئی مکمل اشیا کے مقابل میں کوئی مکمل شے بنانا ہے۔ یہ خدا کی بنائی ہوئی اشیا کی نقل کرتے ہوئے،اُن کا مجسمہ بنا لینا یا اُن کی تصویر بنا لینا نہیں ہے۔ خدا مجسمے اور تصویریں نہیں بناتا، یہ چیزیں تو اپنی حقیقت ہی میں نقل ہوتی ہیں۔ خدا نقل نہیں بناتا، وہ اصل بناتا ہے۔ لہٰذا، خدا کی طرح کوئی اصل شے بنانے کی کاوش ہی وہ چیزہے، جو اس حدیث میں زیرِ بحث ہے۔ ظاہر ہے خدا کی تخلیق کی یہ نقل نہ تو انسان کے بس میں ہے اور نہ اِس کی کوشش اُسے ( انسان کو) زیبا ہے۔
یہ بات اچھی طرح سے واضح رہے کہ اِس حدیث سے تصویر کی شناعت یا اُس کی حرمت کی جو علت ہمارے سامنے آتی ہے،وہ خدا کی نقالی کرنا ہے، نہ کہ خدا کی بنائی ہوئی اشیا کی نقالی کرنا۔اب آپ دیکھیے کہ احادیث کا سابقہ گروپ جس میں نبی ﷺ کا تصاویر کے بارے میں اجمالی بیان اپنی تفصیل میں ڈھلا تھا، اُس میں جس نوعیت کی تصاویر و تماثیل ہمارے سامنے آئی تھیں، ان سب کے بارے میں الوہیت کے تصورات پائے جاتے تھے۔ چنانچہ آپ دیکھیں عیسیٰ علیہ السلام کی صلیب، مریم علیہا السلام کی تصویر اور کنیسائووں میں موجود عیسائیوں کے صلحا کی تصاویر، یہ سب کی سب مشرکانہ عقائد کا مظہر تھیں۔ اسی طرح بیت اللہ میں موجود معبود ان باطل کی تصاویر یا ان کے مجسمے، یہ سب بھی مذہبِ شرک کا مظہر اتم تھے۔ یہ سب کی سب تصاویر و تماثیل یکسر انسانی ذہن کی تخلیق تھیں، انسان نے خود ہی ان کو سوچا، خود ہی ان کو گھڑا،خود ہی ان کے بارے میں الوہیت کے تصورات تخلیق کیے اور پھر خود ہی اس نے لوگوں کو ان تصورات سے متعارف کرایا تھا۔ چنانچہ انسان ہی نے ان (تصاویر و تماثیل) کے بارے میں لوگوں کو یہ بتایا کہ یہ بے حس و حرکت ہونے کے باوجود زندہ ہیں، یہ اس کائنات میں تصرف کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ یہ جنگ اور قحط کے زمانے میں انسانوں کی مافوق الفطرت طریقے سے مدد کر سکتی ہیں۔ یہ امن اور خوش حالی کے زمانے میں برکت کا باعث ہوتی ہیں۔ ان کے بارے میں انسان نے یہ تصور بھی دیا اور اسے ایک مضبوط عقیدہ بنانے کی کوشش کی کہ الوہیت کی صفات سے متصف یہ تصاویر و تماثیل قیامت کے دن خدا کے ہاں پرزور شفاعت کرنے کی طاقت رکھتی ہیں۔ یہ خدا کے عدل کو باطل کر سکتی ہیں۔ انسان کی یہ تخلیق دراصل خدا ئی صفات سے متصف ہستیوں کی تخلیق ہے۔ یہ ہستیاں بڑے خدا کے ساتھ چھوٹے خدا ہیں۔ پس ضروری ہوا کہ ان خداؤوں کی بھی عبادت کی جائے۔
قرآنِ مجید میں مشرکین کے ان عقائد و نظریات پر جگہ جگہ شدید تنقید کی گئی ہے۔ قرآن کی بات ان ہستیوں کی نفی سے شروع ہوتی اور خداے واحد کے اثبات پرختم ہوتی ہے۔ اس کی وجہ صرف اور صرف یہ ہے کہ شرک کا یہ سارا ڈھونگ یکسر جھوٹ ہے۔ قرآنِ مجید خالص حق کی بات کرتا ہے وہ اسے کیسے گوارا کر سکتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان احادیث میں انسان کے اسی ڈھونگ رچانے پر وعید سنائی ہے۔آپﷺ نے اسی جھوٹ کو گھڑنے والوں پر لعنت فرمائی اور یہ بتایا کہ یہ قیامت کے دن شدید عذاب میں گرفتا ر ہوں گے۔ وہاں ان مصورین سے یہ کہا جائے گا کہ تم نے یہ تصویر جو بنائی ہے جسے تم زندہ اور صاحبِ تصرف قرار دیتے ہو۔ دیکھو یہ مردہ ہے اس میں وہ روح ڈالو جو تم اس کے اندر موجود سمجھتے تھے اسے زندہ کرو ظاہر ہے کہ وہاں یہ کچھ بھی نہ کر سکیں گے۔ خداے واحد کے سامنے یہ مصورین اس کا کوئی شریک تخلیق نہ کر سکیں گے اور عذاب کے مستحق بن جائیں گے۔
یہ بات کہ احادیث میں تصاویر کی شناعت اِس وجہ سے نہیں کہ یہ تصاویر ہیں، بلکہ اِس وجہ سے ہے کہ اُن کے بارے میں اُلوہیت کے تصورات پائے جاتے ہیں، اِس کی بہت واضح تصدیق اُن احادیث سے بھی ہوتی ہے، جن میں قدرے تفصیل سے یہ بتایا گیا ہے کہ اہلِ تصویر کے ساتھ قیامت کے دن کیا معاملہ ہو گا۔ اُن احادیث میں یہ بات بھی بہت واضح طور پر بتا دی گئی ہے کہ ان اہلِ تصویر کا اصل جرم کیا ہے۔یہ احادیث درج ذیل ہیں :
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ يَجْمَعُ اللهُ النَّاسَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فِي صَعِيدٍ وَاحِدٍ ثُمَّ يَطَّلِعُ عَلَيْهِمْ رَبُّ الْعَالَمِينَ فَيَقُولُ أَلَا يَتْبَعُ كُلُّ إِنْسَانٍ مَا كَانُوا يَعْبُدُونَهُ فَيُمَثَّلُ لِصَاحِبِ الصَّلِيبِ صَلِيبُهُ وَلِصَاحِبِ التَّصَاوِيرِ تَصَاوِيرُهُ وَلِصَاحِبِ النَّارِ نَارُهُ فَيَتْبَعُونَ مَا كَانُوا يَعْبُدُونَ. (ترمذی، کتاب صفتہ الجنتہ، ماجاء فی الخلود )
’’ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن سب لوگوں کو ایک بڑے میدان میں جمع کرے گا۔ پھر جہانوں کا پروردگار ان پر ظاہر ہو گا۔ پھر وہ کہے گا کہ آ گاہ رہو، ہر انسان کو اپنے معبود کے پیچھے چلنا ہو گا۔پھر صلیب والے کے لیے اس کی صلیب ممثل کر دی جائے گی اور تصاویر کے پجاری کے لیے اس کی تصاویر اور آگ کے پجاری کے لیے اس کی آگ ممثل کی جائے گی۔ پھر سب لوگ اپنے اپنے معبود کے پیچھے چلیں گے۔‘‘
عن أبي سعيد الخدري قال النبی.... يَجْمَعُ اللهُ النَّاسَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فِي صَعِيدٍ وَاحِدٍ قَالَ فَيُقَالُ مَنْ كَانَ يَعْبُدُ شَيْئًا فَلْيَتْبَعْهُ قَالَ فَيَتْبَعُ الَّذِينَ كَانُوا يَعْبُدُونَ الشَّمْسَ الشَّمْسَ فَيَتَسَاقَطُونَ فِي النَّارِ وَيَتْبَعُ الَّذِينَ كَانُوا يَعْبُدُونَ الْقَمَرَ الْقَمَرَ فَيَتَسَاقَطُونَ فِي النَّارِ وَيَتْبَعُ الَّذِينَ كَانُوا يَعْبُدُونَ الْأَوْثَانَ الْأَوْثَانَ وَالَّذِينَ كَانُوا يَعْبُدُونَ الْأَصْنَامَ الْأَصْنَامَ فَيَتَسَاقَطُونَ فِي النَّارِ قَالَ وَكُلُّ مَنْ كَانَ يُعْبَدُ مِنْ دُونِ اللهِ حَتَّى يَتَسَاقَطُونَ فِي النَّارِ.(مسند احمد، باقی مسند المکزین)
’’ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا ....اللہ تعالیٰ قیامت کے دن سب لوگوں کو ایک بڑے میدان میں جمع کرے گا۔ آپ نے فرمایا پھر کہا جائے گا، ہر آدمی اپنے معبود کی پیروی کرے۔ چنانچہ سورج کے پجاری سورج کی پیروی کریں گے، تو وہ آگ میں پے در پے جاگریں گے اور چاند کے پجاری چاند کی پیروی کریں گے اور آگ میں پے در پے جا گریں گے اور اوثان (تماثیل) کو پوجنے والے اوثان کی اور اصنام[6] (تماثیل) کو پوجنے والے اصنام کی، پس یہ پے در پے آگ میں جا گریں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا خدا کے سوا،ہر وہ جس کی عبادت کی جاتی تھی وہ اپنے پیرووں کو لے کر چلے گا حتیٰ کہ وہ آ گ میں جا گریں گے۔‘‘
یہ احادیث سورۂ انبیا کی آیت ’ انکم وما تعبدون من دون اللہ حصب جھنم، أنتم لھا واردون‘۔ (یقیناً تم اور یہ چیزیں جنھیں تم اللہ کے علاوہ پوجتے ہو، جہنم کا ایندھن بنیں گی، تم اس جہنم میں داخل ہو کر رہو گے ) کا صریح بیان اور اِس کی واضح شرح ہیں۔
اِن احادیث میں یہ بتایا گیا ہے کہ :
۱۔ قیامت کے دن سب لوگ ایک بڑے میدان میں جمع کیے جائیں گے۔
۲۔ انسانوں کے سب باطل معبود ممثل کیے جائیں گے۔ اِن میں صلیب، تصاویر، آگ، سورج، چاند، اوثان اور اصنام (تماثیل ) وغیرہ سب شامل ہوں گے۔
۳۔ پھر سب انسانوں سے کہا جائے گا کہ وہ اپنے اپنے معبودوں کے پیچھے چلیں، یہ معبود اُن کو سیدھے جہنم میں لے جائیں گے۔ چنانچہ صلیب کے پجاری صلیب کی پیروی کرتے ہوئے جہنم میں جا گریں گے۔ تصاویر و تماثیل (اوثان و اصنام) کے پجاری تصاویر و تماثیل کی پیروی کرتے ہوئے، جہنم میں جا گریں گے۔آگ کے پجاری آگ کی پیروی کرتے ہوئے، جہنم میں جا گریں گے۔سورج اور چاند کے پجاری، سورج اور چاند کی پیروی کرتے ہوئے، آگ میں جا گریں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا خدا کے سوا،ہر وہ چیز جس کی عبادت کی جاتی ہے، وہ اپنے پیرووں کو لے کر آگ میں جا گرے گی۔
یہ احادیث تو بالکل ہی واضح کر دیتی ہیں کہ تصاویر کے حوالے سے مذہب کو اصل غصہ اس پر ہے کہ اِن تصاویر کے بارے میں لوگوں میں اُسی طرح اُلوہیت کے تصورات پائے جاتے ہیں، جیسے آتش پرستوں میں آتش کے بارے میں،آفتاب پرستوں میں آفتاب کے بارے میں اور ماہتاب پرستوں میں ماہتاب کے بارے میں اُلوہیت کے تصورات پائے جاتے ہیں۔ جیسے اِن مظاہر فطرت کی عبادت کی گئی ہے، اُسی طرح تصاویر و تماثیل کی عبادت بھی کی گئیہے۔ چنانچہ قیامت کے دن یہ تصاویر بھی دوسرے معبودانِ باطل کی طرح،اپنے پجاریوں کی رہنمائی کریں گی اور اُنہیں سیدھا دوزخ میں لے جا کر گرائیں گی۔
اس کے بعد ہم پھر احادیث کے ذخیرے کی طرف آتے ہیں اور یہ دیکھتے ہیں کہ کیا نبی ﷺ نے شرک کے علاوہ کسی اور علت کی بنا پر بھی تصاویر کے بارے میں کچھ کہا ہے؟
اس حوالے سے جب ہم غور کرتے ہیں، تو ہمارے سامنے کچھ اور احادیث آتی ہیں،جن سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ نبی ﷺ نے شرک کے علاوہ ایک اور وجہ سے بھی تصاویر سے گریز کیا ہے، البتہ اِس حوالے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُنہیں ممنوع اور حرام قرار نہیں دیا۔ یہ احادیث درجِ ذیل ہیں :
عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ كَانَ لَنَا سِتْرٌ فِيهِ تِمْثَالُ طَائِرٍ وَكَانَ الدَّاخِلُ إِذَا دَخَلَ اسْتَقْبَلَهُ فَقَالَ لِي رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَوِّلِي هَذَا فَإِنِّي كُلَّمَا دَخَلْتُ فَرَأَيْتُهُ ذَكَرْتُ الدُّنْيَا.(مسلم، اللباس و الزینتہ، تحریم تصویر)
’’عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا ہمارا ایک پردہ ہوا کرتا تھا، اس میں پرندے کی ایک تصویر بنی ہوئی تھی۔ جب بھی کوئی گھر میں آنے والا آتا، اسے اپنے سامنے وہ تصویر نظر آتی۔ رسول اللہﷺ نے مجھ سے کہا، اس کو ہٹا دو، میں جب بھی گھر میں آتا ہوں اور اسے دیکھتا ہوں تو مجھے دنیا یاد آتی ہے۔‘‘
عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِي اللهُ عَنْهُمَا قَالَ أَتَى النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْتَ فَاطِمَةَ فَلَمْ يَدْخُلْ عَلَيْهَا وَجَائَ عَلِيٌّ فَذَكَرَتْ لَهُ ذَلِكَ فَذَكَرَهُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنِّي رَأَيْتُ عَلَى بَابِهَا سِتْرًا مَوْشِيًّا فَقَالَ مَا لِي وَلِلدُّنْيَا فَأَتَاهَا عَلِيٌّ فَذَكَرَ ذَلِكَ لَهَا فَقَالَتْ لِيَأْمُرْنِي فِيهِ بِمَا شَائَ قَالَ تُرْسِلُ بِهِ إِلَى فُلَانٍ أَهْلِ بَيْتٍ بِهِمْ حَاجَةٌ.( بخاری، الھبتہ و فضلھا ۰۰۰، ھدیتہ ما یکرہ لسبھا)
’’ابن عمررضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبیﷺ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے گھر (دروازے تک) آئے، لیکن گھر میں داخل نہیں ہوئے اور واپس چلے گئے۔پھر جب علی رضی اللہ عنہ آئے، فاطمہ رضی اللہ عنہا نے اُن سے یہ واقعہ بیان کیا۔ اُنہوں نے نبیﷺ سے پوچھا ( آپ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں داخل کیوں نہیں ہوئے)؟ آپ صلی علیہ وسلم نے فرمایا میں نے اُس کے دروازے پر نقش و نگار والا پردہ دیکھا تھا۔ پھر فرمایا میرا دنیا سے کیا تعلق۔ پھر علی رضی اللہ عنہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئے اور انہیں یہ بات بتائی۔ انہوں نے کہا وہ مجھے اس کے بارے میں جو چاہتے ہیں حکم دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسے فلاں کے پاس بھجوا دو، اُنہیں اِس کی ضرورت ہے۔‘‘
اِن احادیث سے درجِ ذیل نکات معلوم ہوتے ہیں۔
۱۔ نبی ﷺ نے اپنے گھر میں پرندے کی ایک تصویر دیکھی تو فرمایا کہ اس کو ہٹا دو، کیونکہاِس سے مجھے دنیا یاد آتی ہے۔
۲۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیٹی فاطمہ رضی اللہ عنہاکے گھر کے دروازے پر نقش و نگار والا پردہ دیکھا، تو اُن کے گھر میں داخل ہونے سے گریز کیا اور فرمایا میرا دنیا سے کیا تعلق۔
۳۔ جس منقش پردے سے گریز کیا تھا اُسی کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ پردہ فلاں کے پاس بھجوا دو، اُنہیں اِس کی ضرورت ہے۔
آپ دیکھیے کہ نبیﷺ کا پرندے کی تصویر کو دیکھ کر یہ کہنا کہ اِسے ہٹا دو، یہ مجھے دنیا یاد دلاتی ہے اور منقش پردے کو دیکھ کر اپنی بیٹی فاطمہ رضی اللہ عنہاکے گھر میں داخل ہونے سے گریز کرنا اور یہ کہنا کہ میرا دنیا سے کیا تعلق،یہ دونوں جملے بتاتے ہیں کہ یہاں آپ کا تصاویر اور نقش و نگار سے گریز بالکل دوسری نوعیت کا ہے۔ یہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم تصویر اور نقش و نگار کو دنیا کی خوش نمائی اور اُس کی رونق کا ایک مظہر سمجھتے ہوئے، اس سے بے رغبتی کا اظہار کر رہے ہیں۔ یہ ایک ایسے آدمی کا رویہ ہے، جو آخرت کی طرف سے اپنی توجہ اور یکسوئی کو ایک لمحے کے لیے بھی ہٹانا نہیں چاہتا۔ یہاں تصویر کی حلت و حرمت زیرِ بحث نہیں۔چنانچہ یہی وجہ ہے کہ آپ نے وہ منقش پردہ کسی حاجت مند شخص کے گھر بھجوا دیا۔ اگر مسئلہ حلت و حرمت کا ہوتا تو آپ ایسا ہرگز نہ کرتے، آپ اُسے ضرور پھاڑ دیتے، جیسا کہ ہم نے بعض احادیث میں آپ کا رویہ دیکھا ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اِن تصاویر سے گریز کی جو وجہ بیان کرتے ہیں،وہ واضح طور پر آپ کازُہد ہے، نہ کہ اِن تصاویر کے بارے میں دین و شریعت کا کوئی حکم۔
اِس کے بعد آپ دیکھیں کہ مسلم کی یہی روایت جو ابھی ہم نے اوپر پڑھی ہے،جس میں پرندے کی تصویر کا ذکر ہے، اُسے امام مسلم ایک دوسری سند سے بھی لائے ہیں اس سند سے مروی متن میں کچھ الفاظ کا اضافہ ہے، یہ اضافہ بہت اہم ہے، یہ ہمیں بتاتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پرندے ( یعنی جان دار )کی تصویر کو حلت و حرمت کے حوالے سے دیکھا ہی نہیں۔
دوسری سند کے حوالے سے یہ روایت درجِ ذیل الفاظ میں منقول ہے:
عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ كَانَ لَنَا سِتْرٌ فِيهِ تِمْثَالُ طَائِرٍ وَكَانَ الدَّاخِلُ إِذَا دَخَلَ اسْتَقْبَلَهُ فَقَالَ لِي رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَوِّلِي هَذَا فَإِنِّي كُلَّمَا دَخَلْتُ فَرَأَيْتُهُ ذَكَرْتُ الدُّنْيَا ....... فَلَمْ يَأْمُرْنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِقَطْعِهِ. ( صحیح مسلم، کتاب الباس والزینتہ )
’’عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ہمارے ہاں ایک پردہ ہوا کرتا تھا، اُس پر ایک پرندے کی تصویر بنی ہوئی تھی۔ گھر میں داخل ہونے والا کوئی شخص جونہی داخل ہوتا، تو اُسے اپنے سامنے پاتا۔ تو رسول اللہﷺ نے مجھ سے کہا : اِسے ہٹا دو، میں جب بھی گھر میں داخل ہوتے ہوئے،اِسے دیکھتا ہوں، میرا دھیان دنیا کی طرف چلا جاتا ہے … رسول اللہ ﷺ نے ہمیں اِسے پھاڑ دینے کا حکم نہیں دیا،(یعنی صرف اُسے اُس جگہ سے ہٹا دینے ہی کا حکم دیا)۔‘‘
یہ روایت بنیادی طور پر تو وہی ہے جو ابھی ہم اوپر پڑھ آئے ہیں، لیکن اِس میں جن الفاظ کا اضافہ ہے، اُن کے حوالے سے آپ دیکھیں، اِس میں نبی ﷺ نے پرندے کی تصویر کے ساتھ وہ معاملہ نہیں کیا، جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مثلاً، بیت اللہ میں موجود تصاویر کے ساتھ اور صلیب کی تصاویر کے ساتھ اختیار کیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پرندے کی تصویر کو پھاڑے کا حکم نہیں دیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُسے برقرار رہنے دیا۔ اِس کی کیا وجہ ہے؟ یہی کہ یہ تصویر اپنے اندر وہ قباحت رکھتی ہی نہ تھی، جو قباحت بیت اللہ میں موجود تصاویر اور صلیب کی تصاویر میں پائی جاتی تھی۔ پرندے کی اِس تصویر میں محض تزئین و آرایش ہی کا پہلو تھا۔ تزئین و آرایش فی نفسٖہ ہمارے دین میں ممنوع نہیں ہے۔ البتہ یہ اگر ہمارے لیے دنیا یاد دلانے کا باعث بنتی ہو، تو ہمیں اپنے اندر آخرت کی طرف یکسوئی پیدا کرنے کی خاطر، اِس سے ممکن حد تک گریز کرنا چاہیے[7]۔
چنانچہ یہ روایت اِس پر نصِ قاطع ہے کہ پرندے کی تصویر یعنی جان دار کی تصویر حرام نہیں ہے۔
ہاں البتہ جان دار کی تصویر بھی بعض دوسری بے جان اشیا مثلاً، پہاڑ،ندی، جنگل اور وادی کی تصاویر کی طرح چونکہ دنیا یاد دلانے کا باعث بن سکتی ہے، لہٰذا، اِس پہلو سے اگر اِس سے زُہدانہ گریز پیش نظر ہو، تو وہ اختیار کیا جا سکتا ہے۔ لیکن یہ گریز پھر جان دار اور بے جان ہر شے کی تصویر سے یکساں طور پر ہو گا اور محض تصویر ہی سے نہیں، منقش کپڑے سے بھی ہو گا، مزین عمارت سے بھی ہو گا۔ غرض یہ گریز ہر اُس چیز سے ہو گا،جو دنیا یاد دلانے کا باعث بنتی ہے یا بن سکتی ہے، کیونکہ نبی ﷺ کاگریز اصلاً، تصویر سے نہیں تھا،بلکہ اُس تزئین و آرایش سے تھا، جو اُس تصویر میں پائی جاتی تھی اور جس کی بنا پر، وہ دنیا یاد دلانے کا ذریعہ بن رہی تھی۔ یہ بات اچھی طرح ذہن میں رہے کہ یہ گریز اسلامی قانون و شریعت کا حکم نہیں ہے۔ یہ تو نبی ﷺ کے رنگِ زُہد کی پیروی ہے۔ بے شک آپ سے زُہدکا یہ رنگ ثابت ہے۔ بہرحال، درجِ بالا حدیث کے الفاظ یہ واضح طور پر بتا رہے ہیں کہ پرندے یعنی جان دار کی تصویر شرعاً ہرگز حرام نہیں ہے۔
اگر جان دار کی تصویر کی حلت و حرمت کوئی مسئلہ ہوتا، تو یہ ہو ہی نہیں سکتا تھا کہ نبی ﷺ اُس کی حرمت اور قباحت کو بیان ہی نہ کریں۔ نہ اِس بات کا کوئی امکان تھاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پرندے کی تصویر سے گریز کی اصل علت ہی کو بھول کر، بالکل ہی ایک دوسری بات بیان کر دیں اور اِس طرح سے ایک حرام بات، بالکل جائز اور مباح بن جائے۔ نعوذ باللہ من ذلک۔
یہاں تک کی ساری بحث اس سے متعلق تھی کہ تصاویر و تماثیل کے بارے میں ہمیں براہِ راست قرآنِ مجید سے اور اُس کے بعد احادیث سے کیا رہنمائی ملتی ہے۔ اب ہم یہ دیکھیں گے کہ صحابہ کرام علیہم اجمعین نے تصاویر کے بارے میں نبی ﷺ کی بات کو کیا سمجھا تھا۔
(باقی)
____________
[4]۔’رقم فی ثوب‘ کی وضاحت میں عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری کے مصنف لکھتے ہیں۔ ’ اصل الرقم الکتابة، و الصورة غیر الرقم‘،یعنی رقم کی حقیقت کتابت ہے اور تصویر غیرِ کتابت ہوتی ہے۔ چنانچہ ’ رقم فی ثوب‘ سے مراد جیسا کہ ابن الاثیر کہتے ہیں ’النقش و الوشم‘ (نقش و نگار )ہے۔
[5]۔ یہاں نقش و نگار یا خاکوں کی نوعیت کی جو تصاویر زیر بحث ہیں یہ اگر فی نفسہٖ ممنوع تصاویر نہ ہوتیں تو صحابہ کرام کے ہاں ان تصاویر والی اشیا کے استعمال کی حرمت کا خیال بھی پیدا نہ ہوتا۔
[6]۔ اِن اوثان اور اصنام سے مراد وہ تماثیل ہی ہیں،جن کی پرستش کی جاتی تھی، قرآنِ مجید میں اِنھی اوثان اور اصنام کے بارے میں ایک دوسری جگہ پر ’ ما هذہ تماثیل التی انتم لها عاکفون ‘کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔
[7]۔ دنیا یاد دلانے والی شے سے گریز کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ آدمی قرینے اور سلیقے کے اظہار ہی سے گریز کرنے لگ پڑے، قرینہ اور سلیقہ تو انتہائی فطری چیزیں ہیں۔ یہ گریز دراصل، اُس آرایش و زیبایش اور اُس زیب و زینت سے ہے، جو خاص اِس مقصد کے لیے ہوتی ہے کہ کسی شے کو آدمی کی نظروں میں کھبا دے۔
اِس آرایش و زیبایش اور اِس زیب و زینت کا معیار تمدن کے فرق کے ساتھ بدلتا رہتا ہے۔ ایک غیر ترقی یافتہ صحرائی تمدن میں ہو سکتا ہے کہ محض ایک پرندے کی تصویر دنیا یاد دلانے کا باعث بن جائے اور ایک ترقی یافتہ تمدن میں ہو سکتا ہے کہ اِس سے بدرجہا مزین اشیا بھی دنیا یاد دلانے کا باعث نہ بنیں۔ اِس تمدن میں ہو سکتا ہے کہ کوئی بہت ہی مزین شے اِس کا ذریعہ بنتی ہو۔
پھر یہ معاملہ بھی ہے کہ طبائع اور مزاجوں کے فرق کے ساتھ زُہد کے رنگ میں بہت کچھ فرق ہو جاتا ہے۔ زُہدِ یحییٰ علیہ السلام کا اپنا رنگ ہے اور زُہدِ سلیمان علیہ السلام کا اپنا رنگ۔ ایک زُہد میں ٹاٹ کا لباس پہنا جاتا ہے اور ایک میں صرح ممرد (شیشوں جڑا محل)بنوایا جاتا ہے اور پھراِس میں زُہد اپنا اظہار ’ فطفق مسحاً بالسوق والاعناق‘ ( وہ اُن گھوڑوں کی پنڈلیاں اور گردنیں تلوار سے اُڑانے لگ پڑا) کی صورت میں کرتاہے۔ الغرض زُہد کے سیکڑوں رنگ ہیں۔نبی نے اسی رنگِ زہد کے حوالے سے ہمیں یہ بتایا ہے کہ ابو ذر رضی اللہ عنہ میں عبسی کا رنگِ زہد پایا جاتا ہے۔
چنانچہ نبی ﷺ کے رنگِ زُہد کی پیروی آدمی تبھی کر سکتا ہے، اگر وہ اُس رنگ کا طبعی ذوق رکھتا ہو۔