و عن أبی ھریرة رضی اللہ عنه قال: قال رسول اﷲ صلی اﷲ علیه وسلم: لا یزنی حین یزنی و ھو مؤمن. و لا یسرق حین یسرق و ھو مؤمن. و لا یشرب الخمر حین یشربھا و ھو مؤمن. و لا ینتھب نھبة یرفع الناس إلیه فیھا أبصارھم حین ینتهبها وھو مؤمن. ولا یغل أحدکم حین یغل وھو مؤمن. فإیاکم إیاکم.
’’حضرت ابو ہریرہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : زانی زنا نہیں کرتا اس طرح کہ جب وہ زنا کر رہا ہوتا ہے تو اس وقت مومن ہو ۔ چور چوری نہیں کرتا اس طرح کہ جب وہ چوری کر رہا ہوتا ہے اس وقت مومن ہو ۔نہ غنیمت کے مال کو اـچکتا ہے اس طرح کے لوگوں کی نگاہیں اس کی طرف لگی ہوئی ہوں اور وہ اچک لے اور وہ مومن بھی ہو ۔ اور نہ تم میں سے کوئی خیانت کرتا ہے اس طرح کہ جب وہ خیانت کر رہا ہو وہ مومن ہو۔ چنانچہ (ان کاموں کے انجام سے )بچو،( ان کاموں کے انجام سے )بچو۔‘‘
ینتهب:’انتهب‘ ، ’ینتهب‘ کا مطلب مال غنیمت لوٹنا ۔ یہاں اس سے مراد تقسیم سے پہلے اس کو ہتھیا لینا ہے ۔
یرفع الناس إلیه فیھا أبصارھم: لفظی مطلب ہے : ’لوگ اس مالِ غنیمت کے معاملے میں اس کی طرف نگاہ اٹھائے ہوئے ہوں۔‘یہاں اس سے مراد یہ ہے کہ وہ چیز جسے حاصل کرنے کی تمنا ہر دل میں ہو لیکن وہ اس پر زبر دستی قابض ہو رہا ہو۔
یغل :’غل‘،’یغل‘ کا مطلب ہے : خیانت کرنا،دھوکا دینا۔یہ لفظ دل میں کینہ رکھنے کے معنی میں بھی آتا ہے ۔ لیکن یہاں پہلا مفہوم ہی قرینِ قیاس لگتا ہے ۔
فإیاکم إیاکم : یہ ’اسم الفعل ‘ہے ۔ یہ ’اپنے تئیں بچاؤ‘ کے معنی میں آتا ہے ۔ یہاں تکرار سے تنبیہ و تاکید پیشِ نظر ہے ۔
کتبِ حدیث میں اس روایت کے مختلف اسناد سے متعدد متون نقل ہوئے ہیں ۔ کسی میں جملوں کی ترتیب مختلف ہے ۔ کسی میں جملے مختصر ہیں ۔اکثر روایات میں یہ سارے جملے روایت نہیں ہوئے ۔ کسی میں کوئی ایک جز نہیں ہے تو دوسری روایت میں دوسرا جز نہیں ہے ۔ زیادہ تر ’نہبة‘ ،’غل‘ اور ’فایاکم‘ والاجملہ روایت نہیں ہوا ۔ وہ روایات جن میں آخری جملہ روایت نہیں ہوا ہے ان میں سے بعض میں اس کی جگہ پر ’والتوبة معروضة بعد‘(اور توبہ کا موقع بعد میں ہے ۔)یا ’فإذا فعل ذلک خلع رقبة الاسلام من عنقه فإن تاب تاب اللہ علیه ‘( جب وہ یہ کرتا ہے تو اس کی گردن سے اسلام کا قلادہ اتر جاتا ہے ۔ پھر جب وہ توبہ کر لیتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول کر لیتے ہیں) ۔یا ’إنه ینتزع منه الایمان فإن تاب تاب اللہ علیه‘( بات یوں ہے کہ اس سے ایمان چھین لیا جاتا ہے ۔ پھر جب وہ توبہ کر تا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول کر لیتے ہیں ) کا جملہ روایت ہوا ہے ۔بہر حال سب سے جامع متن وہی ہے جسے صاحبِ مشکوٰۃ نے منتخب کیا ہے ۔ باقی رہے توبہ کے مضمون کے حامل جملے تو یہ آپ کی اس گفتگو کے بعد سوال کے جواب میں کہے گئے معلوم ہوتے ہیں ۔یا کسی راوی کی اس روایت کی توضیح ہے جو بعض روایات میں بیان ہو گئی ہے ۔
شارحین نے اس روایت کی مختلف توجیہات کی ہیں ۔ بعض کے نزدیک اس سے کمالِ ایمان کی نفی کی گئی ہے ۔ بعض کی رائے میں ایمان اطاعت و انقیاد کا نام ہے اور گناہ اس کیفیت کی نفی کر دیتا ہے ۔ بعض اس کی توضیح اس روایت کی روشنی میں کرتے ہیں جس میں بیان ہوا ہے کہ جب مسلمان کوئی گناہ کر رہا ہوتا ہے تو ایمان اس سے نکل کر اس کے اوپر چھتری کی طرح موجود رہتا ہے ۔ اور بعض کے خیال میں اس سے محض زجر و توبیخ مقصود ہے ۔ابنِ عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب کوئی بندۂ مومن گناہ کرتا ہے تو ایمان اس سے چھین لیا جاتا ہے اور جب وہ توبہ کرتا ہے تواسے لوٹا دیا جاتا ہے ۔ اگر بنظر تامل دیکھیں تو یہ ایک ہی بات کے مختلف پہلو ہیں ۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ جب کوئی صاحبِ ایمان کسی گناہ کا مرتکب ہوتا ہے تو وہ اپنے ایمان کو فراموش کر چکا ہوتا ہے ۔ اس پر اللہ تعالیٰ کے وجوداور اپنی شریعت کے احکام کے حوالے سے ایک شدید غفلت طاری ہوتی ہے۔ اگر اس بات کو تشبیہ کے اسلوب میں بیان کیا جائے تو یہ ایک بندئہ مؤمن کی باطنی ناپاکی کی حالت ہے ۔ ظاہر ہے یہ چیز ایک مومن کے لیے کسی طرح بھی پسندیدہ نہیں ہو سکتی ۔
بخاری ، کتاب المظالم و الغصب ، باب ۳۰۔ کتاب الاشربۃ، باب ۱۔ کتاب الحدود ، باب ۱،۲۰ ۔ مسلم ، کتاب الایمان ، باب ۲۴۔ نسائی ، کتاب قطع السارق ، با ب ۱ ۔ کتاب الاشربۃ ، باب ۴۳ ۔ ابوداؤد ، کتاب السنۃ ، باب ۱۶ ۔ ابنِ ماجۃ ، کتاب الفتن ، باب ۳۔ دارمی ، کتاب الاضاحی ، باب ۲۳ ۔ کتاب الاشربۃ ، باب ۱۱۔ احمد ، مسند ابی ہریرۃ ۔ حدیث عبداللہ بن ابی اوفی۔ حدیث سیدۃ عائشہ رضی اللہ عنہم ۔
___________