(مشکوٰۃ المصابیح، حدیث: ۵۲ - ۵۳)
و عن أبی ھریرة رضی اللہ عنه قال : قال رسول اﷲ صلی اﷲ علیه وسلم: اجتنبوا السبع الموبقات. قالوا: یا رسول اﷲ، و ما ھن؟ قال: الشرک باﷲ، والسحر، و قتل النفس التی حرم اﷲ الا بالحق، و أکل الربا، و أکل مال الیتیم، و التولی یوم الزحف، و قذف المحصنات المؤمنات الغافلات.
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سات ہلاکت میں ڈالنے والے امور سے بچو۔ (لوگوں نے ) پوچھا : یا رسول اللہ، یہ کیا ہیں ؟ آپ نے فرمایا : اللہ کے ساتھ شرک، جادو، کسی کو قتل کرنا جسے اللہ نے قانونی سزا کے سوا قتل کرنا حرام ٹھیرایا ہے، سود کھانا، مٹھ بھیڑ کے دن فرار اور بھولی بھالی، پاک دامن، مومنہ عورتوں پر تہمت لگانا۔ ‘‘
الموبقات :’موبق‘، ’وبق‘،’یبق‘ سے اسم ظرف ہے۔ یعنی وہ جگہ جہاں ہلاکت پیش آتی ہو۔
السحر: وہ علم جس کے ذریعے سے شیاطین کی مدد حاصل کی جاتی ہے یا کلمات کی تاثیر سے لوگوں کی نفسیات کو متاثر کیا جاتا ہے۔
إلا بالحق: مگر حق کے ساتھ، اس سے وہ قانونی ضابطہ مراد ہے جو قرآنِ مجید میں حدود کے حوالے سے بیان ہوا ہے۔ قرآنِ مجید کے مطابق حکومت صرف دو جرائم کے ثابت ہو جانے کے بعد کسی شخص کو زندگی سے محروم کر سکتی ہے۔ ایک قتل کا جرم ہے اور دوسرا فساد فی الارض کا جرم۔
التولی: پیچھے ہٹ جانا، واپس مڑ جانا۔ یہ ’ولی‘ سے باب تفاعل میں مصدر ہے۔
قذف: ’قذف‘ کے لغوی معنی پھینکنے کے ہیں۔ اسی سے یہ کسی پر کسی چیز کو چسپاں کرنے کے معنی میں آتا ہے اور محاورے میں الزام یا تہمت لگانے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے
المحصنات: ’محصنات‘ کا لفظ ’حصن‘سے ہے۔ اس کے معنی محفوظ ہونے کے ہیں۔ ’محصن‘ کا لفظ اسی سے باب افعال میں اسم مفعول ہے۔یہ تین معنی میں آتا ہے۔ ایک شادی شدہ ہونے کے معنی میں، دوسرے پاک دامن ہونے کے معنی میں اور تیسرے آزاد ہونے کے معنی میں۔یہاں اس سے دوسرے معنی یعنی پاک دامن ہونا مراد ہے۔
الغافلات: ’غفلة‘ بے شعوری، بے خبری اور عدم واقفیت کے معنی میں آتا ہے۔ یہ جس طرح ان منفی معانی کے لیے مستعمل ہے اسی طرح مثبت معنی کے لیے بھی آتا ہے۔ اردو میں اس کے لیے معصوم اور بھولے بھالے کے الفاظ بولے جاتے ہیں۔ یہاں یہ عورتوں کے لیے اسی معنی میں بولا گیا ہے۔
بخاری، مسلم، ابوداؤد، نسائی،دارمی اور احمد ر حمہم اللہ نے اس روایت کو لیا ہے۔ لیکن ان کی سند ایک ہی ہے،فرق صرف صاحب ِ تصنیف کے شیخ کی حد تک ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس روایت کے متون میں کوئی اہم فرق نہیں ہے۔ بعض معمولی تبدیلیاں ہیں۔ مثلاً ’قالوا‘ کی جگہ ’قیل‘ اور ’ما ھن‘ کے بجائے ’ماھی‘ کے الفاظ آئے ہیں اور ان سے معنی میں کوئی فرق واقع نہیں ہوتا۔اسی طرح ایک روایت میں زیرِ بحث متن کے برعکس ’أکل الربا ‘،’أکل مال الیتم‘ کے بعد آیا ہے۔ظاہر ہے یہ فرق بھی کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ البتہ بخاری کی ایک روایت اسی سند سے ہے،لیکن اس میں روایت بہت مختصر ہو گئی ہے۔ روایت کے الفاظ ہیں: ’اجتنبوا الموبقات:الشرک باﷲوالسحر‘ قیاس یہی ہے کہ یہ کسی موقع کی مناسبت سے گفتگو کے دوران میں کی گئی تبدیلی ہے۔ایک امکان یہ ہے کہ خود بخاری ہی نے اس باب کی مناسبت سے پوری روایت درج کرنے کے بجائے ضروری حصہ نقل کر دیا ہے۔ بہرحال یہ اصل روایت نہیں ہے۔ اسی طرح ایک روایت میں ’السحر‘ کے بجائے ’الشح‘ کا لفظ آیا ہے۔اس کے معنی بخل کے ہیں، لیکن یہ فرق بھی ناقابلِ قبول ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب روایت کا یہ متن بھی اسی سند سے جس سے زیرِ بحث روایت مروی ہے اور اس کے ایک کے سوا تمام متون میں ’السحر‘ ہی ہے تو یہ ایک متن کس طرح درست ہو سکتا ہے۔ابوداؤد نے یہ روایت بیان کرنے کے بعد ایک دوسری روایت کا بھی ذکر کیا ہے۔ اس میں بیان ہوا ہے کہ ایک شخص نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کبائر کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا : یہ نو ہیں اور ان سات پر عقوق الوالدین اور بیت اللہ کی حرمت پامال کرنے کا اضافہ کیا۔ کبیرہ گناہوں کا ذکر اور روایتوں میں بھی ہے اور ان میں ان کے علاوہ چوری، زنا، ہجرت سے گریز، جھوٹی گواہی، جھوٹی قسم، الجماعۃ سے انحراف کا بھی ذکر ہوا ہے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ کے سامنے یہ بیان کیا گیا کہ کبیرہ گناہ سات ہیں تو انھوں نے فرمایا نہیں ان کی تعداد ستتر سے بھی زیادہ ہے۔ ان تمام روایات کو سامنے رکھیں تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اس روایت میں سات کا لفظ مخاطب کی رعایت سے آیا ہے۔ یعنی حضور کے پیشِ نظر اس موقع کے مخاطب یا مخاطبین کو انھی سات امور پر متنبہ کرنا تھا۔
ہم اوپر یہ بات بیان کر چکے ہیں کہ سات کا ذکر مخاطب کی مناسبت سے ہے۔ اسے احاطے کے معنی میں نہیں لیا جا سکتا۔ چنانچہ کبیرہ گناہوں کا علم پیشِ نظر ہو یا ان گناہوں کا جو انسان کی ہلاکت کا باعث بن سکتے ہیں ہمیں قرآنِ مجید اور دوسری روایات کو بھی سامنے رکھنا چاہیے۔قرآنِ مجید سے تو یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ کسی ایک غلطی پر اصرار بھی اسی طرح ہلاکت آفرین ہے جس طرح کوئی بڑا گناہ اخروی تباہی کا باعث بن سکتا ہے۔
اس روایت کے آغاز میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اسلوب ِبیان اور وعظ میں مخاطب کی توجہ کو اپنی طرف مبذول کرنے کے ایک انداز کا پتا چلتا ہے۔آپ نے پہلے ایک مجمل جملہ بولا ہے۔ فرمایا : سات ہلاکت خیز امور سے بچو۔جملہ توضیح طلب تھا۔ آپ نے خود توضیح نہیں کی۔ بلکہ مخاطبین کی طرف سے سوال کے بعد وضاحت کی۔ اس سے مقصود اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ آپ کے سننے والے بات کو پوری توجہ سے سنیں اور اسے یاد بھی رکھیں۔ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مربی کی حیثیت کا بڑا خوب صورت اظہار ہے۔
ان مہلکات میں سب سے پہلے آپ نے اللہ کے ساتھ شرک کا ذکر کیا ہے۔ اس سے پہلے حدیث : ۴۹ میں اسے اللہ کے نزدیک سب سے بڑے جرم کی حیثیت سے بیان کیا گیا۔ علاوہ ازیں متعدد روایات میں اس جرم کی شناعت بیان ہو چکی ہے۔ یہ تمام روایات درحقیقت قرآنِ مجید کی اس آیت کا بیان ہیں جس میں یہ بیان ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ شرک کا گناہ معاف نہیں کریں گے۔ باقی تمام گناہوں میں معافی ملنے کا امکان ہے۔ قرآنِ مجید کی اس وعید کو پیشِ نظر رکھیں تو اس جرم کی ہلاکت خیزی سے بچنا سب سے زیادہ ضروری ہو جاتا ہے۔ اس لیے کہ اس کی ہلاکت خیزی کو ٹالنے والی کوئی چیز نہیں ہے۔
دوسری چیز جادو ہے۔ جادو کو قرآنِ مجید میں کفر قرار دیا گیا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
وَمَا كَفَرَ سُلَيْمٰنُ وَلٰكِنَّ الشَّيٰطِيْنَ كَفَرُوْا يُعَلِّمُوْنَ النَّاسَ السِّحْرَ.....(البقرہ ۲ : ۱۰۲)
’’اور سلیمان نے کفر نہیں کیا بلکہ ان شیاطین نے کفر کیا جو لوگوں کو جادو سکھاتے تھے۔‘‘
مولانا امین احسن اصلاحی اس اسلوب کی وضاحت میں لکھتے ہیں :
’’یہاں اسلوبِ بیان سے متعلق دو باتیں ذہن میں رکھنے کی ہیں۔ ایک تو اس جملہ ء معترضہ کی بلاغت کہ اس کو پڑھتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ متکلم کو ان علومِ سفلیہ کی نسبت حضرت سلیمان علیہ السلام کی طرف اتنی ناگوار ہے کہ اس کی تردید کے معاملے میں اس نے اتنا توقف بھی نہیں کیا کہ بات پوری ہو لے۔ بلکہ سلسلہء کلام کو روک کر فوراً اس کی تردید ضروری سمجھی۔ دوسری یہ کہ یہ تردید ایسے اسلوب سے شروع کی ہے جس سے یہ بات آپ سے آپ نکلتی ہے کہ سحر کا کفر ہونا ایک ایسی واضح حقیقت ہے کہ اس کو ثابت کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ‘‘ (تدبرِ قرآن، ج ۱، ص۲۸۳)
ظاہر ہے، جو چیز پروردگار ِعالم کے نزدیک کفر ہے، اس کے ہلاکت آفرین ہونے کے بارے میں کوئی شبہ نہیں ہو سکتا۔اس حدیث کے بعض شارحین کو سحر کو علی الاطلاق کفر قرار دینے میں تردد ہو ا ہے۔ اس تردد کا باعث غالباً یہ ہے کہ ساحر حضرات شعبدہ بازی اور علمِ کیمیا کو بھی سحر ہی کی حیثیت سے پیش کرتے ہیں۔ ظاہر ہے،یہ دونوں چیزیں کفر نہیں ہے۔ اس روایت میں صرف وہی سحر زیرِ بحث ہے جس میں شیاطین سے ربط و تعلق پیدا کیا جاتا یا کلمات کی تاثیر کے علم کو منفی مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔سورۂ بقرہ کے محولہ مقام پر ہاروت و ماروت کے سکھائے ہوئے علم کا بھی ذکرہوا ہے۔ وہ بھی سکھانے سے پہلے یہ تنبیہ کر دیتے تھے کہ ہم ایک آزمایش ہیں چنانچہ کفر میں نہ پڑو۔
تیسری چیز قتلِ نفس ہے۔ اس جرم کی شناعت بھی متعدد روایات میں زیرِ بحث آ چکی ہے۔ ہم یہ بات بیان کر چکے ہیں کہ قرآنِ مجید کے نزدیک قتل ان گناہوں میں سے ہے، جن کی سزا ابدی جہنم ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ جرم جتنا اخروی اعتبار سے ہلاکت خیز ہے،ہم آج اس کے کرنے میں اتنے ہی جری ہیں۔ روایت میں واضح کر دیا گیا ہے کہ یہ صرف عدالت کا کام ہے کہ وہ قاتل کو قصاص میں یا فساد فی الارض کے مجرم کوسزاے موت دے۔ کسی شخص کو انفرادی حیثیت سے یہ کام کرنے کی بھی اجازت نہیں ہے۔ خواہ اس کے نزدیک کوئی شخص کتنا ہی موت کا حق دار کیوں نہ ہو۔ اگر وہ ایسا کرے گا تو دنیا کی عدالتوں ہی میں نہیں،قیامت کی عدالت میں بھی قاتل ہی کی حیثیت سے پیش ہو گا۔
چوتھی چیز سود ہے۔سود خدا کے بھیجے ہوئے دین میں ہمیشہ سے حرام رہا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ریاست قائم کی تو اس کی حرمت کو ریاست کی سطح پر نافذ کر دیا اورقرآنِ مجید میں بتا دیا گیا کہ اس کے مجرمین کے لیے اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے اعلانِ جنگ ہے۔ سود ایک معاشرتی جرم ہے۔ اس کی تباہ کاریوں کا اندازہ کرنے کے لیے ہم اپنے ملک ہی کا جائزہ لیں تو یہ واضح ہو جاتا ہے کہ یہ کس طرح آبادی کی عظیم اکثریت کا خون چوستا اور چند خاندانوں میں قومی دولت کے ارتکاز کا باعث بنتا ہے۔ سود خوری انسان کے اخلاقی وجود کو گھن کی طرح کھا جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآنِ مجید نے اسے صریح الفاظ میں حرام قرار دیا ہے اور ریاست کی سطح پر اس کے ارتکاب کو قابلِ گرفت جرم ٹھیرایا ہے۔ یہاں یہ بات واضح رہے کہ اس معاملے میں اصل جرم سود لینا ہے۔ سود دینے والا اسی صورت میں قصور وار ٹھہرتا ہے جب ریاست کی سطح پر سودی لین دین کی ممانعت کر دی گئی ہو۔ سود کی شناعت کا ایک پہلو یہ ہے کہ وہ سوسائٹی میں استحصالی نظام کا آلہء کار ہے۔ لیکن اس کی حرمت کا اصل پہلو یہ ہے کہ یہ تزکیۂ نفس کے عمل کو مجروح کرتا ہے۔ اور ایک بندئہ مومن کے لیے جنت کا مطلوب انسان بننے میں رکاوٹ بن جاتا ہے۔
پانچویں چیز یتیم کا مال کھانا ہے۔ اصل جرم حق دار کا حق چھیننا ہے۔ یہ جرم اس وقت اور بھی قبیح ہو جاتا ہے جب یہ ظلم اس شخص کے خلاف کیا جائے جو اپنے حق کا دفاع کرنے کی استطاعت نہ رکھتا ہو۔ عام طور پر یہ جرم کرنے والے غریبوں، بیواؤں اور یتیموں ہی کے اموال پر تعدی کرتے ہیں۔ یتیم ان میں اپنے کمزور، بے بس اور لاچار ہونے کی سب سے نمایاں مثال ہے۔ اسی لیے یہاں اسی کے حوالے سے اسے ہلاکت آفرین جرائم میں بیان کیا گیا ہے۔ قرآنِ مجید میں اس جرم کا انجام جہنم بیان ہوا ہے۔ سورۂ نساء میں ہے :
اِنَّ الَّذِيْنَ يَاْكُلُوْنَ اَمْوَالَ الْيَتٰمٰي ظُلْمًا اِنَّمَا يَاْكُلُوْنَ فِيْ بُطُوْنِهِمْ نَارًاﵧ وَسَيَصْلَوْنَ سَعِيْرًا. (۴ :۱۰)
’’ جو لوگ ظلم و نا انصافی سے یتیموں کے مال ہڑپ کر رہے ہیں وہ تو بس اپنے پیٹوں میں آگ بھر رہے ہیں اور وہ دوزخ کی بھڑکتی آگ میں پڑیں گے۔ ‘‘
چھٹی چیز میدان ِ جنگ سے فرار ہے۔ یہ درحقیقت ایمان کے اس تقاضے سے انحراف ہے جو دین کے قبول کرنے کے بعد اس کی نصرت کے تحت ایک بندۂ مومن کے سامنے آتا ہے۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں جتنی بھی جنگیں ہوئی ہیں ان کا تعلق دین کی حفاظت یا قانونِ رسالت کے نفاذ کے لیے میدان جنگ میں اترنے سے ہے۔ چنانچہ ان سے انحراف درحقیقت اپنے ایمان کی نفی ہے۔
ساتویں چیز کسی پاک دامن عورت پر بدکاری کی تہمت لگانا ہے۔ اس میں بھی اصل جرم کسی بے گناہ پر جھوٹا الزام لگانا ہے۔خواہ یہ کوئی مرد ہو یا عورت اور خواہ یہ کوئی چھوٹا ہو یا بڑا۔لیکن اس روایت میں ذکر صرف پاک دامن مومنہ کا ہوا ہے۔ یہ بھی وہی اسلوب ہے جو یتیم کے معاملے میں اختیار کیا گیا ہے۔ عورت ایک ضعیف صنف ہے اور اس پر لگا ہوا الزام اس کی زندگی کے لیے سنگین نتائج پیدا کرتا ہے۔اسی پہلو کے پیش ِ نظر یہاں اسی کا تذکرہ ہوا ہے۔ ورنہ الزام لگانا اپنی ہر صورت میں ایک بڑا گناہ ہے۔ عورت کے معاملے میں اس کی شناعت بہت بڑھ جاتی ہے۔
بخاری، کتاب الوصایا، باب ۲۳۔ بخاری،کتاب الطب،باب ۱۵۔ بخاری، کتاب الحدود، باب ۴۵۔ مسلم، کتاب الایمان، باب ۳۸۔ نسائی،کتاب الوصایا، باب ۱۲۔ابو داؤد، کتاب الوصایا، باب ۱۰۔
___________