HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : جاوید احمد غامدی

البیان: البقرہ ۲: ۱۰۱-۱۰۳ (۱۹)

البیان

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

(گذشتہ سے پیوستہ)

 

وَلَمَّا جَآءَهُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ عِنْدِ اللّٰهِ مُصَدِّقٌ لِّمَا مَعَهُمْ نَبَذَ فَرِيْقٌ مِّنَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَﵱ كِتٰبَ اللّٰهِ وَرَآءَ ظُهُوْرِهِمْ كَاَنَّهُمْ لَا يَعْلَمُوْنَ ١٠١ﶚ وَاتَّبَعُوْا مَا تَتْلُوا الشَّيٰطِيْنُ عَلٰي مُلْكِ سُلَيْمٰنَﵐ وَمَا كَفَرَ سُلَيْمٰنُ وَلٰكِنَّ الشَّيٰطِيْنَ كَفَرُوْا يُعَلِّمُوْنَ النَّاسَ السِّحْرَﵯ وَمَا٘ اُنْزِلَ عَلَي الْمَلَكَيْنِ بِبَابِلَ هَارُوْتَ وَمَارُوْتَﵧ وَمَا يُعَلِّمٰنِ مِنْ اَحَدٍ حَتّٰي يَقُوْلَا٘ اِنَّمَا نَحْنُ فِتْنَةٌ فَلَا تَكْفُرْﵧ فَيَتَعَلَّمُوْنَ مِنْهُمَا مَا يُفَرِّقُوْنَ بِهٖ بَيْنَ الْمَرْءِ وَزَوْجِهٖﵧ وَمَا هُمْ بِضَآرِّيْنَ بِهٖ مِنْ اَحَدٍ اِلَّا بِاِذْنِ اللّٰهِﵧ وَيَتَعَلَّمُوْنَ مَا يَضُرُّهُمْ وَلَا يَنْفَعُهُمْﵧ وَلَقَدْ عَلِمُوْا لَمَنِ اشْتَرٰىهُ مَا لَهٗ فِي الْاٰخِرَةِ مِنْ خَلَاقٍﵪ وَلَبِئْسَ مَا شَرَوْا بِهٖ٘ اَنْفُسَهُمْﵧ لَوْ كَانُوْا يَعْلَمُوْنَ ١٠٢
اور (اب بھی یہی ہوا کہ) جب اللہ کی طرف سے ایک پیغمبر [239] اِن کے پاس آ گیا، اُن پیشین گوئیوں کے مطابق، جو اِن کے ہاں موجود ہیں تو یہ لوگ    جنھیں کتاب دی گئی، اِن میں سے ایک گروہ نے اللہ کی (اُس) کتاب کو (اِس طرح) اپنی پیٹھ کے پیچھے پھینک دیا، گویا وہ اسے جانتے ہی نہیں ہیں[240]، اور (پیغمبر کو ضرر پہنچانے کے  لیے) اُس چیز کے پیچھے لگ گئے [241] جو سلیمان کے زمانۂ سلطنت میں شیاطین پڑھتے پڑھاتے تھے[242]ی۔ (یہ اُسے سلیمان کی طرف منسوب کرتے ہیں)، دراں حالیکہ سلیمان نے کبھی کفرنہیں کیا ، بلکہ شیطانوں ہی نے کفر کیا ۔ وہ لوگوں کو جادو سکھاتے تھے[243] ۔ اور (اُس چیز کے پیچھے لگ گئے[244]) جو بابل میں دو فرشتوں ، ہاروت و ماروت پر اتاری  گئی  تھی[245]، دراں حالیکہ وہ دونوں اُس وقت تک کسی کو کچھ نہ سکھاتے تھے   [246]، جب تک اُسے بتا نہ دیتے کہ ہم تمھاری آزمایش [247] ہیں، اس لیے تم اِس کفر میں نہ پڑو[248]۔ پھر بھی یہ اُن سے وہ علم سیکھتے تھے جس سے میاں اوربیوی میں جدائی ڈال دیں[249]، اور حقیقت یہ تھی کہ اللہ کی اجازت کے بغیر یہ اُس سے کسی کا کچھ بھی بگاڑ نہ سکتے تھے[250]۔ (یہ اِس بات کو جانتے تھے) اور (اِس کے باوجود) وہ چیزیں  سیکھتے تھے جو اِنھیں کوئی نفع نہیں دیتی تھیں، بلکہ نقصان پہنچاتی تھیں[251]، دراں حالیکہ اِنھیں معلوم تھا کہ جو اِن چیزوں کا خریدار ہوا، اُس کے لیے پھر آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہے[252]، کیا ہی بری ہے وہ چیز جس کے بدلے میں اِنھوں نے اپنی جانیں بیچ دیں۔ اے کاش یہ جانتے ۱۰۱-   ۱۰۲
وَلَوْ اَنَّهُمْ اٰمَنُوْا وَاتَّقَوْا لَمَثُوْبَةٌ مِّنْ عِنْدِ اللّٰهِ خَيْرٌﵧ لَوْ كَانُوْا يَعْلَمُوْنَ ١٠٣
 اور اگر یہ ایمان اور تقویٰ اختیار کرتے تو اللہ کے ہاں جو صلہ اِنھیں ملتا، وہ اِن کے لیے کہیں بہتر تھا۔ اے کاش، یہ سمجھتے[253]۔ ۱۰۳   

[239]۔ یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم۔ بعدکی صفات اورسیاق وسباق سے یہ مراد بالکل  متعین ہوجاتی ہے۔

[240]۔ مطلب یہ ہے کہ نبیِ آخر الزماں کے بارے میں خود اپنی ہی کتاب کی پیشین گوئیوں کو اس طرح نظر انداز کر دیا گویا ان سے واقف ہی نہیں تھے۔

[241]۔ یعنی پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو ماننے اور ان کی پیروی کرنے کے بجائے ان کو ضرر پہنچانے کے درپے ہوئے اور اس کے لیے اپنے ان عاملوں کے پیچھے لگے جو ان کے ہاں سفلی اور روحانی علوم کی دکانیں لگائے بیٹھے ہیں۔ قرآنِ مجید کی سورۂ فلق (۱۱۳) کے الفاظ ’مِنْ شَرِّ النَّفّٰثٰتِ فِي الْعُقَدِ‘ میں اللہ تعالیٰ نے یہود کے انھی اشرار سے بچنے کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو برابر اپنے پروردگار کی پناہ چاہنے کی ہدایت فرمائی ہے۔

[242]۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سیدنا سلیمان علیہ السلام کے زمانے میں جنوں اور انسانوں کے باہمی اختلاط کے باعث سحر و ساحری جیسے شیطانی علوم سے لوگوں کا اشتغال بہت بڑھ گیا تھا اور انسانوں میں سے جو شیاطین ان علوم سے دل چسپی رکھتے تھے، انھوں نے انھیں باقاعدہ مرتب بھی کر ڈالا تھا۔ سیدنا سلیمان کے دور حکومت سے اسی تعلق کی وجہ سے بعد کے زمانوں میں یہود اپنے ان مزخرفات کو ان سے منسوب کرنے لگے۔ چنانچہ آج بھی جو لوگ ان سفلی چیزوں سے اشتغال رکھتے ہیں، وہ بالعموم ان کے لیے حضرت سلیمان ہی کا حوالہ دیتے ہیں۔

[243]۔ اصل میں ’وما کفر سلیمان‘ سے لے کر ’یعلمون الناس السحر‘ تک یہ پوری بات ایک جملۂ معترضہ ہے جو سلسلۂ کلام کے بیچ میں حضرت سلیمان علیہ السلام کو یہود کے لگائے ہوئے الزامات سے بری قرار دینے کے لیے اس طرح آ گیا ہے گویا متکلم کو ان علومِ سفلیہ کی نسبت ان سے اتنی ناگوار ہے کہ اس نے اس کی تردید کے معاملے میں بات کے پورا ہو لینے کا انتظار بھی نہیں کیا۔ پھر یہ تردید بھی ، اگر غور کیجیے تو ایسے اسلوب میں کی گئی ہے کہ سحر و ساحری کا کفر ہونا اس سے ایک ثابت شدہ حقیقت کے طور پر بالکل واضح ہو جاتا ہے۔

[244]۔ اس سے پہلے کا جملہ، جیسا کہ اوپر بیان ہوا، ایک جملۂ معترضہ ہے، لہذا آیت میں عطف لازماً ’ما تتلوا الشیاطین‘ پر ہے۔ اس عطف سے اور اس کے بعد اس علم کے لیے ’ما انزل‘ کے الفاظ اور اس کے فرشتوں پر اتارے جانے اور ان کی طرف سے اس کے لیے لفظ ’فتنة‘ کے استعمال سے صاف مترشح ہوتا ہے کہ یہ سحر و ساحری سے، جسے قرآن نے یکسر کفر قرار دیا ہے، بالکل مختلف کوئی علم تھا، لہٰذا ان لوگوں کی رائے کسی طرح صحیح نہیں ہے جو اسے جادو سمجھتے ہیں اور اس کے لیے اُن دو فرشتوں کے بارے میں، جن پر یہ نازل ہوا ، ایک فضول سا قصہ بھی سناتے ہیں۔ لیکن یہ اگر جادو نہیں تھا تو سوال یہ ہے کہ پھر یہ کون سا علم تھا ؟ استاذ امام امین احسن اصلاحی اس کے بارے میں لکھتے ہیں:

’’ہمارے نزدیک اس سے مراد اشیا اور کلمات کے روحانی خواص اور تاثیرات کا وہ علم ہے جس کا رواج یہود کے صوفیوں اور پیروں میں ہوا اور جس کو انھوں نے گنڈوں، تعویذوں اور مختلف قسم کے عملیات کی شکل میں مختلف اغراض کے لیے استعمال کیا۔ مثلاً بعض امراض یا تکالیف کے ازالے کے لیے یا نظرِ بد اور جادو وغیرہ کے برے اثرات دور کرنے کے لیے یا شعبدہ بازوں وغیرہ کے فتنوں کا مقابلہ کرنے کے لیے یا محبت اور نفرت کے اثرات ڈالنے کے لیے ۔
 یہ علم اس اعتبار سے جادو اور نجوم وغیرہ سے بالکل مختلف تھا کہ اس میں نہ تو شرک کی کوئی ملاوٹ تھی اور نہ اس میں شیطان اور جنات کو کوئی دخل تھا، لیکن اپنے اثرات و نتائج کے پیدا کرنے میں یہ جادو ہی کی طرح زود اثر تھا۔  ممکن ہے بنی اسرائیل کو یہ علم بابل کے زمانۂ اسیری میں دو فرشتوں کے ذریعے سے اس لیے دیا گیا ہو کہ اس کے ذریعے سے بابل کی سحر و ساحری کا مقابلہ کرسکیں اور اپنی قوم کے کم علموں اور سادہ لوحوں کو جادوگروں کے رعب سے محفوظ رکھ سکیں۔ اس بات کی طرف ہمارا ذہن دو وجہ سے جاتا ہے: ایک تو اس وجہ سے کہ تورات سے معلوم ہوتا ہے کہ بابل میں سحر و ساحری اور نجوم کا بڑا زور تھا۔ دوسری یہ کہ یہ بات سنت اللہ کے موافق معلوم ہوتی ہے کہ اگر کسی جگہ ایک غلط علم کا رعب اور زور ہو جس سے مفسد لوگ فائدہ اٹھا رہے ہوں تو وہاں اللہ تعالیٰ اس کے مقابلے کے لیے اہلِ ایمان کو کوئی ایسا علم عطا فرمائے جو جائز اور نافع ہو۔‘‘ (تدبرِ قرآن ،ج ۱، ص۲۸۵)  

اس کے بعد انھوں نے لکھا ہے:

’’ہمارا خیال یہ ہے کہ اسی علم کے باقیات ہیں جن کو ہمارے صوفیوں اور پیروں کے ایک طبقہ نے اپنایا اور اس سے انھوں نے لوگوں کو فائدہ بھی پہنچایا ، بلکہ واقعات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ بعض حالات میں اس کی مدد سے انھوں نے جوگیوں اور جوتشیوں وغیرہ کے مقابل میں اسلام اور مسلمان کی برتری بھی ثابت کی، لیکن اخلاقی زوال کے بعد جس طرح یہود کے ہاں یہ علم علومِ سفلیہ کا ایک ضمیمہ اور دکان داری کا ایک ذریعہ بن کے رہ گیا، اسی طرح ہمارے یہاں بھی یہ صرف پیری مریدی کی دکان چلانے کا ذریعہ بن کر رہ گیا اور حق سے زیادہ اس میں باطل کے اجزا شامل ہو گئے جس کے سبب سے لوگوں پر اس کے اثرات بھی وہی پڑے جو قرآن نے بیان فرمائے۔‘‘ (ج ۱، ص ۲۸۶)

[245]۔ ’وما کفر سلیمان‘ والے جملے کی طرح ’وما یعلمٰن من احد‘ سے ’فلا تکفر‘ تک یہ جملہ بھی آیت میں ایک جملۂ معترضہ ہے جو ہاروت و ماروت کی بریت کے لیے وارد ہوا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اس تنبیہ کے بغیر کہ ہمارے اس علم کو برے مقاصد کے لیے استعمال کر کے تم لوگ کفر میں نہ پڑ جانا، وہ کسی پر اپنے علم کا انکشاف نہیں کرتے تھے۔

[246]۔ اس سکھانے کی نوعیت اگرچہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ یہ فرشتے انسانی روپ میں لوگوں کو تعلیم دیتے رہے ہوں، لیکن غالب امکان اسی بات کا ہے کہ لوگ کسی خاص قسم کی ریاضت اور چلہ کشی کے ذریعے سے ان کے ساتھ کوئی روحانی قسم کا ربط پیدا کر کے یہ علم ان سے سیکھ لیتے تھے۔

[247]۔ اصل میں لفظ ’فتنة ‘استعمال ہوا ہے ۔ اس کے معنی امتحان اور آزمایش کے ہیں۔ قرآن میں اس سے بالعموم وہ چیزیں مراد لی گئی ہیں جو اصلاً انسان کے فائدے ہی کے لیے پیدا کی گئی ہیں، لیکن انسان اپنے استعمال کی غلطی سے انھیں اپنے لیے فتنہ بنا لیتا ہے۔ ہاروت و ماروت کی طرف سے اپنے علم کے لیے اس لفظ کا استعمال دلیل ہے کہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے یہ علم کوئی بری چیز نہ تھا۔

[248]۔ مطلب یہ ہے کہ ہمارا یہ علم ایک دو دھاری تلوار کی حیثیت رکھتا ہے۔ زیادہ امکان یہی ہے کہ تم لوگ اسے سیکھ کر برے مقاصد کے لیے استعمال کرو گے اور اس طرح کفر و شرک میں مبتلا ہو جاؤ گے۔

[249]۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ یہود اخلاقی فساد ، پست ہمتی اور دناء ت میں کہاں تک گر چکے تھے۔ فرشتوں کی تنبیہ کے باوجود ، قرآن بتاتا ہے کہ اُن کی سب سے زیادہ رغبت اُن اعمال سے تھی جو میاں بیوی کے رشتۂ محبت کے لیے مقراض بن جائیں، دراں حالیکہ یہی رشتہ ہے جس کے استحکام پر پورے انسانی تمدن کے استحکام کی بنیاد ہے۔

[250]۔ یہ جملہ بھی بطورِ استدراک ہے اور اس سے توحید پر ایمان کا یہ تقاضا واضح ہوتا ہے کہ بندۂ مومن کو اولاً ، اس طرح کی چیزوں سے رغبت ہی نہیں رکھنی چاہیے ۔ ثانیاً ، ان میں سے کسی چیز سے واسطہ پڑے تو اسے موثر بالذات نہیں سمجھنا چاہیے۔ ثالثاً ، ان سے ضرر کا اندیشہ ہو تو صرف اپنے پروردگار کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔ تعویذ گنڈوں اور ان کے ماہر عاملوں اور سیانوں کے چکر میں نہیں پھنسنا چاہیے ، اس لیے کہ شیطانی علوم ہوں یا روحانی، ان سے اللہ کے اذن کے بغیرکسی کو کوئی نفع یا ضرر نہیں پہنچایا جا سکتا۔

[251]۔ یعنی ان کی ذہنیت اس قدر پست ہو چکی تھی کہ ایک علم جس سے نفع و نقصان، دونوں پہنچ سکتے تھے، یہ اسے دوسروں کو صرف نقصان پہنچانے کے لیے استعمال کرتے تھے۔

[252]۔ یہود اس بات سے اچھی طرح واقف تھے، اس لیے کہ تورات میں انھیں نہایت واضح الفاظ میں اس طرح کے فتنوں میں پڑنے سے روکا گیا تھا۔ استثنا باب ۱۸ میں ہے:

’’جب تو اس ملک میں جو خداوند تیرا خدا تجھے دیتا ہے، پہنچ جائے تو وہاں کی قوموں کی طرح مکروہ کام کرنے نہ سیکھنا۔ تجھ میں ہرگز کوئی ایسا نہ ہو جو اپنے بیٹے یا بیٹی کو آگ میں چلوائے یا فال گیر یا شگون نکالنے والا یا افسوں گر یا جادوگر یا منتری یا جنات کا آشنا یا رمال یا ساحر ہو، کیوں کہ وہ سب جو ایسے کام کرتے ہیں ، خدا کے نزدیک مکروہ ہیں اور انھی مکروہات کے سبب سے خداوند تیرا خدا تیرے سامنے سے اُن کو نکالنے پر ہے۔‘‘(۹ -۱۲)

[253]۔ یعنی پیغمبر کو ضرر پہنچانے کے لیے ان علوم کے ماہرین کی اتباع کرنے کے بجائے اگر یہ پیغمبرپر ایمان لاتے اور تقویٰ اختیار کرتے تو یہ اندازہ نہیں کر سکتے کہ اِس کا کیا اجر و ثواب انھیں اللہ تعالیٰ کے ہاں ملتا۔

[باقی]

ـــــــــــــــــــــــــ

B