محمد بلال
ناموسِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے معاملے میں ہمارے مذہبی رہنما اور مذہبی مزاج کے حامل لوگ بہت شدید قسم کے جذبات کا مظاہرہ کرتے ہیں مگر افسوس اور حیرت ہے کہ اطاعتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ضمن میں وہ اس شدتِ احساس کا مظاہرہ نہیں کرتے جو دراصل مطلوب ہے۔
حالانکہ اس بارے میں فرمانِ الہٰی ہے:
’’اور ہم نے جو رسول بھی بھیجا تو اسی لیے بھیجا کہ اللہ کے حکم سے اس کی اطاعت کی جائے۔‘‘ (النساء ۴: ۶۷)
اس ملک کے عام شہریوں، مختلف اداروں اور برسرِاقتدار گروہوں کی آرا اور سر گر میوں پر سرسری نگاہ بھی ڈالیں تو اطاعتِ رسول سے گریز واضح طور پر نظر آ جاتا ہے۔ بلکہ صورتِ حال اس وقت سنگین تر محسوس ہوتی ہے جب مذہبی رہنماؤں کے ہاں بھی اطاعتِ رسول سے شعوری یا غیر شعوری گریز کے عناصر دکھائی دیتے ہیں۔
ذیل کی سطور میں زیرِ بحث موضوع کے لحاظ سے ایک ایسے ’’گریز‘‘ کی نشان دہی کی جا رہی ہے جو عام طور پر محسوس نہیں کیا جاتا۔
دیکھنے میں آیا ہے کہ ناموسِ رسالت کے سلسلے میں مذہبی رہنما صرف سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں اپنے جذبات و احساسات کا اظہار کرتے ہیں اور دوسرے انبیاے کرام کو اس ضمن میں یکسر نظر انداز کر دیتے ہیں اور یوں اپنے رویے سے دوسرے انبیاے کرام کو سیدنا محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلے میں (معاذ اللہ) کمتر یا غیر اہم قرار دے دیتے ہیں۔ یہ رویہ سرتاسر سیدنا محمدصلی اللہ علیہ وسلم ہی کی تعلیمات کے منافی ہے۔ یہ رویہ دراصل ’’نافرمانیِ رسول‘‘ ہی کی ایک قسم ہے۔ کسی واجب الاطاعت شخصیت کا حکم نہ ماننا بھی درحقیقت اس کی اہانت ہی کی ایک صورت ہے۔
غور کیجیے۔ قرآن مجید میں ہے:
’’کہو کہ ہم اللہ پر ایمان لائے اور اس چیز پر ایمان لائے جو ہماری طرف اتاری گئی اور جو ابراہیمؑ، اسماعیلؑ، اسحاقؑ، یعقوبؑ اور ان کی اولاد کی طرف اتاری گئی اور اس چیز پر ایمان لائے جو موسیٰؑ و عیسیؑ ٰاور نبیوں کو ان کے رب کی جانب سے ملی، ہم ان میں سے کسی کے درمیان تفریق نہیں کرتے۔ اور ہم صرف اسی کے فرماں بردار ہیں ۔‘‘ (البقرہ ۲: ۱۳۶)
اس ضمن میں مولانا امین احسن اصلاحی رحمہ اللہ نے لکھا ہے:
’’’لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ اَحَدٍ مِّنْهُمْ ‘ (ہم ان کے درمیان کوئی تفریق نہیں کرتے) کا مطلب یہ ہے کہ ہم یہود و نصاریٰ کی طرح یہ نہیں کرتے کہ ان میں سے کسی پر ایمان لائیں اور کسی پر ایمان نہ لائیں۔ اس مطلب کی وضاحت خود قرآن نے دوسری جگہ کر دی ہے۔ ’يُرِيْدُوْنَ اَنْ يُّفَرِّقُوْا بَيْنَ اللّٰهِ وَرُسُلِهٖ وَيَقُوْلُوْنَ نُؤْمِنُ بِبَعْضٍ وَّنَكْفُرُ بِبَعْضٍﶈ وَّيُرِيْدُوْنَ اَنْ يَّتَّخِذُوْا بَيْنَ ذٰلِكَ سَبِيْلًا ‘، (اور وہ چاہتے ہیں کہ تفریق کریں اللہ اور اس کے رسولوں کے درمیان اور کہتے ہیں کہ ہم بعض پر ایمان لاتے ہیں اور بعض کا انکار کرتے ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ اس کے بیچ سے کوئی راہ پیدا کریں) اس سے معلوم ہوا کہ انبیا میں سے کسی کو ماننا اور کسی کو نہ ماننا سب کے انکار کے ہم معنی ہے اور یہ صرف نبیوں اور نبیوں ہی میں تفریق نہیں بلکہ اللہ اور اس کے رسول میں بھی تفریق ہے۔‘‘(تدبرِ قرآن، ج ۱، ص ۳۴۸- ۳۴۹)
سورۂ بقرہ ہی میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
’’رسول ایمان لایا اس چیز پر جو اس پر اس کے رب کی جانب سے اتاری گئی اور مومنین ایمان لائے۔ یہ سب ایمان لائے اللہ پر، اس کے فرشتوں پر، اس کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر۔ ان کا اقرار ہے کہ ہم خدا کے رسولوں میں کسی کے درمیان فرق نہیں کرتے۔ اور کہتے ہیں کہ ہم نے مانا اور اطاعت کی۔‘‘(۲: ۲۸۵)
اس بارے میں صاحبِ ’’تدبرِ قرآن‘‘ لکھتے ہیں:
’’جہاں تک اجمالی ایمان کا تعلق ہے ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور دوسرے انبیا، قرآن اور دوسری آسمانی کتابوں میں کوئی فرق نہیں کرتے۔ البتہ چونکہ دوسرے انبیا اور ان کے صحفیوں کی تعلیم محفوظ نہیں رہی نیز ان صحیفوں اور ان انبیا نے خود خبر دی تھی کہ ان کی شریعت کامل نہیں ہے، کامل شریعت قرآن اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے دنیا کو ملے گی، اس وجہ سے ہم قرآن اور خاتم الانبیا صلی اللہ علیہ وسلم پر صرف اجمالی نہیں بلکہ تفصیلی ایمان بھی رکھتے ہیں اور اسی تفصیلی ایمان کی دعوت دنیا کو بھی دیتے ہیں۔
’لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ اَحَدٍ مِّنْ رُّسُلِهٖ ‘ اس ٹکڑے کی شرح ہم اسی سورہ کی آیت ۱۳۵ کے تحت امتِ وسط کے کلمہ کی وضاحت کرتے ہوئے کر چکے ہیں۔ البتہ اس میں یکایک اسلوب کی جو تبدیلی ہوئی ہے یعنی بات غائب کے صیغے سے نکل کر جو متکلم کے صیغے میں آ گئی ہے، یہ دھیان میں رکھنے کی ہے۔ اوپر کے ٹکڑے میں بات اللہ تعالیٰ کی طرف سے کہی گئی ہے لیکن یہ جملہ براہِ راست امت کی طرف سے اعتراف و اظہار کی شکل میں نمایاں ہوا ہے۔ اس میں بلاغت کا یہ نکتہ پوشیدہ ہے کہ اوپر کے ٹکڑے میں مسلمانوں کا جو ایمان و عقیدہ بیان ہوا ہے پوری امت اس کا اقرار و اظہار کرتی ہے کہ ہم اللہ کے رسولوں کے باب میں کسی تعصب میں گرفتار نہیں ہیں یہ تمام انبیا ایک ہی سلسلہ الذہب کی کڑیاں ہیں اس وجہ سے ہم یہود و نصاریٰ کی طرح یہ نہیں کرتے کہ کسی کو مانیں اور کسی کو رد کر دیں۔‘‘(ج ۱، ص ۶۴۸ - ۶۴۹)
لہٰذا جب ہم تمام انبیا کو مانیں گے۔ سب پر ایمان لائیں گے۔ اس پہلو سے ان کے مابین کوئی فرق نہیں کریں گے تو ظاہر ہے ادب کے لحاظ سے بھی ہمیں ان کے درمیان کوئی فرق نہیں کرنا چاہیے۔ محبت کے اعتبار سے بھی کوئی امتیاز روانہیں رکھنا چاہیے۔ سب انبیا پر ایمان لانے کے عقیدے کا یہ لازمی نتیجہ ہے کہ ادب اور محبت کی جہت سے بھی تمام انبیا کے معاملے میں یکساں جذبات و احساسات کا اظہار کیا جائے۔
اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے:
’’ یہ رسول جو ہیں ہم نے ان میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی، ان میں سے بعض سے اللہ نے کلام کیا اور بعض کے درجے بلند کیے اور ہم نے عیسیٰ بن مریم کو کھلی کھلی نشانیاں دی اور روح القدس سے اس کی تائید کی۔‘‘ (البقرہ ۲: ۲۵۳)
اس سلسلے میں سید سلیمان ندوی کہتے ہیں:
’’حضراتِ انبیا کرام علیہم السلام تمام کمالاتِ نبوت و فضائلِ اخلاق سے یکساں سرفراز تھے مگر زمانہ اور ماحول کے ضروریات اور مصالح الٰہی کی بنا پر ان تمام کمالات کا علمی ظہور تمام انبیا میں یکساں نہیں ہوا۔ بلکہ بعض کے بعض کمالات اور دوسروں کے دوسرے کمالات زیادہ نمایاں ہوئے یعنی جس زمانہ کے حالات کے لحاظ سے جس کمال کے اظہار کی ضرورت ہوئی وہ پوری شدت سے ظاہر ہوا۔ اور دوسرے کمال کا جس کی اس وقت ضرورت پیش نہیں آئی بہ مصلحت بہ کمال ظہورنہیں ہوا۔
حاصل یہ ہے کہ ظہور کے لیے مناسب موقع و محل کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر کسی عارض کی وجہ سے کسی کمال کا ظہور نہ ہو تو اس سے نفسِ کمال کے وجود کی نفی نہیں ہوتی ہے۔ اس لیے اگر بوجہ عدم ضرورتِ حال ان انبیائے کرام کے بعض کمالات کا عملی ظہور کسی وقت میں نہیں ہوا تو اس کے یہ معنی ہرگز نہیں ہیں کہ یہ حضرات (نعوذ باللہ) ان کمالات و فضائل سے متصف نہ تھے..... حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت چونکہ آخری اور عمومی تھی اس لیے بہ ضرورتِ احوال آپ کے تمام کمالات نبوی آپ کی زندگی میں عملاً پوری طرح جلوہ گر ہوئے اور آپ کی نبوت کے آفتابِ عالمتاب کی ہر کرن دنیا کے لیے مشعلِ ہدایت بنی اور ظلمتِ کدۂ عالم کا ہر گوشہ آپ کے ہر قسم کے کمالات کے ظہور سے پر نور ہوا، صلی اللہ علیہ وسلم۔ اس موقع پر یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ ان جزئی کمالات کے اظہار میں ایسا پہلو نعوذباللہ پیدا نہ ہونے پائے جس سے دوسرے انبیا علہیم السلام کی توہین یا کسرِ شان پیدا ہو کہ اس سے ایمان کے ضائع ہو جانے کا خطرہ ہے۔‘‘(سیرت النبی ج ۱، ص ۲۰- ۲۱)
نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ہمیں اس ضمن میں یہ ہدایت کی ہے کہ:
’’مجھے دوسروں پیغمبروں پر فضیلت نہ دو۔‘‘ (مسلم، کتاب الفضائل)
’’کسی شخص کو یہ نہیں کہنا چاہیے کہ میں (حضرت) یونس بن متیٰ (علیہ السلام) سے بہتر ہوں۔‘‘ (مسلم، کتاب الفضائل)
اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ انبیا کی فضیلت، محبت اور ان کے ادب و احترام کے پہلو سے ہماری مذہبی دنیا میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات سے کس قدر گریز پایا جاتا ہے۔
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں محبت رسول کے ساتھ ساتھ اطاعتِ رسول کی بھی توفیق عطا فرمائے۔
___________