محمد بلال
بی بی سی نے پاکستان میں حکومت کے ٹیکس وصول کرنے کے نئے نظام کے خلاف تاجروں کی ہڑتال پر تبصرہ اور اس کا تجزیہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ٹیکس کلچر کا فروغ معاشی ہی نہیں ایک نفسیاتی مسئلہ بھی ہے۔ چھوٹے اور درمیانی درجے کے اکثر تاجر حضرات کا تعلق اس طبقے سے ہے جو معمولی کاشت کار تھا۔ یہ طبقہ حساب کتاب کو پسند نہیں کرتا کیونکہ اس سے اس کے نزدیک توکل اور قناعت کے روایتی جذبے کی نفی ہوتی ہے ۔ بی بی سی نے کہا کہ گزشتہ ہفتے ٹی وی پر قحط زدہ لوگوں کے لیے لاکھوں روپے جمع ہو گئے آخر اعتماد کے اس جذبے کا رخ سی بی آر کے خزانے کی طرف کیوں موڑا نہیں جا سکتا۔
ہم بی بی سی کے تجزیے میں ایک پہلو کا اضافہ کرتے ہیں۔ ہم یہ کہتے ہیں کہ ٹیکس کلچر کا فروغ معاشی اور نفسیاتی ہی نہیں بلکہ دینی مسئلہ بھی ہے۔
عالم کے پروردگار نے جب اپنے فرشتوں سے یہ کہا تھا کہ میں زمین پر ایک صاحبِ اختیارمخلوق بنانے کا ارادہ رکھتا ہوں تو فرشتوں نے انسان کے صاحبِ اختیار ہونے کے پہلو سے اس خدشے کا اظہار کیا تھا کہ یہ دنیا میں ظلم اور فساد برپا کرے گا۔
اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ انسان کو جب اختیار کی قوت حاصل ہوتی ہے تو وہ بالعموم حدود ناآشنا ہو جاتا اور ظلم اور زیادتی کا ارتکاب کرنا شروع کر دیتا ہے۔
انسان کو اس ظلم سے روکنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے مختلف اہتمام کیے۔ ان میں سے ایک اہتمام یہ کیا کہ انسانوں کے باہمی معاملات کے بارے میں اپنا قانون نازل کیا، جس کے لیے شریعت کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔ اس شریعت نے اختیارات کے پہلو سے طاقت ور ترین انسانوں یعنی حکمرانوں کو ظلم و زیادتی سے روکنے کے لیے ٹیکس کا قانون دیا، جسے دینی اصطلاح میں زکوٰۃ کہا جاتا ہے۔ حکمران بھانت بھانت کے ٹیکس لگا کر اور ان ٹیکسوں کی شرح میں روز بروز اضافہ کر کے اپنے شہریوں پر بہت ظلم ڈھاتے ہیں۔ اللہ تعالی نے اپنے پیغمبر کے ذریعے سے ٹیکس کی شرح خود مقرر کر کے حکمرانوں سے یہ شرح خود مقرر کرنے کا اختیار چھین لیا۔
قرآنِ مجید میں یہ قانون ان الفاظ میں بیان ہوا:
’’پھر اگر وہ توبہ کر لیں اور نماز کا اہتمام کریں اور زکوٰۃ ادا کریں۔ تو اُن کی راہ چھوڑ دو۔‘‘ (التوبہ ۹ : ۵)
یہاں ’’ان کی راہ چھوڑ دو‘‘ کے الفاظ سے یہ بات واضح ہے کہ حکمران شہریوں سے زکوٰۃ وصول کر لینے کے بعد اور کوئی ٹیکس وصول نہیں کر سکتے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی ضمن میں فرمایا:
’’جب تم اپنے مال کی زکوٰۃ ادا کر دیتے ہو تو لاریب، وہ ذمہ داری تم نے پوری کر دی جو اس معاملے میں تم پر عائد ہوتی ہے۔‘‘ (ترمذی۔ کتاب الزکوٰۃ)
’’لوگوں کے مال میں زکوٰۃ کے سوا (حکومت کا) کوئی حق قائم ہی نہیں ہوتا۔‘‘ (ابنِ ماجہ، کتاب الزکوٰۃ)
کوئی ٹیکس وصول کرنے والا جنت میں نہ داخل ہو گا۔‘‘ (ابو داؤد، کتاب الخراج والامارۃ والفئی)
افسوس ہے کہ ہمارے ہاں رائج زکوٰۃ کا مفہوم صحیح نہیں ہے۔ لوگ زکوٰۃ کو غربا و مساکین کے لیے ایک خیرات ہی سمجھتے ہیں۔ حالانکہ دورِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں حکومت کے کارکن ٹیکس کولیکٹرز کی حیثیت سے شہریوں سے زکوٰۃ وصول کیا کرتے تھے۔
اسی طرح زکوٰۃ کے بارے میں ایک غلط فہمی یہ بھی پائی جاتی ہے کہ زکوٰۃ صرف مال، سونا یا چاندی وغیرہ پر ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ زکوٰۃ ہر چیز پر ہے۔ صرف تین چیزیں زکوٰۃ سے مستثنیٰ ہیں: ’ایک ذاتی استعمال کی چیزیں، دوسرے عواملِ پیداوار (Means of production)۔ اور تیسرے نصاب سے کم سرمایہ۔
اسلام کے قانونِ زکوٰۃ پر غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ زکوٰۃ کے تین عنوانات (Heads) ہیں۔ ۱۔مواشی۔ ۲ ۔مال۔ ۳۔ پیداوار۔ مواشی میں جو بھی پالتو جانور تجارتی مقاصد کے لیے رکھے گئے ہوں ان پر زکوٰۃ عائد ہوتی ہے۔ اس کی تفصیل فقہ کی کتابوں میں دیکھی جا سکتی ہے۔ مال میں سونا، چاندی، پلاٹ، مکان، روپیہ، مالِ تجارت، سب شامل ہیں۔ اس پر ہر سال ڈھائی فی صد زکوٰۃ عائد ہوتی ہے۔ پیداوار ایک وسیع چیز ہے۔ اس میں زرعی اور صنعتی دونوں قسم کی پیداوار شامل ہے۔ اسی طرح اپنے فن سے مال کمانا اور مکان وغیرہ سے کرایہ وصول کرنا بھی پیداوار کے زمرے میں آتا ہے۔ پیداوار کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دیے گئے قانون سے معلوم ہوتا ہے کہ پیداوار اگر مال یا محنت کے تعامل سے حاصل ہوتی ہے تو پیداوار کا پانچ فی صد زکوٰۃ کے طور پر ادا کرنا ہو گا۔ اگر پیداوار صرف مال یا صرف محنت سے حاصل ہوتی ہے تو اس کا دس فی صد زکوٰۃ کے طور پر دینا ہو گا اور اگر محنت اور مال دونوں کے بغیر کوئی چیز حاصل ہوتی ہے (مثلاً زمین سے خزانہ ملنا) تو اس پر بیس فی صد زکوٰۃ لا گو ہو گی۔
زکوٰۃ کے مصارف کے بارے میں بھی ہمارے ہاں جو تصور پایا جاتا ہے وہ زکوٰۃ کا بہت محدود تصور ہے۔ سورۂ توبہ کی آیت ۶۰ سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ زکوٰۃ کی رقم غربا و مساکین ہی پر نہیں بلکہ نقصان، تاوان یا قرض کے بوجھ تلے دبے ہوئے لوگوں، جرمانے یا فدیے میں بندھے ہوئے قیدیوں، ریاست کے تمام ملازمین کی تنخواہوں، اسلام اور مسلمانوں کے مفاد کے تمام کاموں مثلاً سڑکوں اور پلوں وغیرہ کی تعمیر پر بھی صرف کی جاسکتی ہے۔
بی بی سی کا کہنا ہے کہ ’’عوام قحط زدہ لوگوں کے لیے لاکھوں روپے دے دیتے ہیں آخر اس جذبے کا رخ سی بی آر کی طرف کیوں نہیں موڑا جا سکتا ۔‘‘ اصل میں عوام کے قحط زدہ لوگوں کو لاکھوں روپے دینے کے پیچھے یہ جذبہ کارفرما ہوتا ہے کہ وہ ایک نیک کام کر رہے ہیں۔ اس کا انھیں اجر و ثواب حاصل ہو گا۔ اسی طرح ہمارے ملک میں اگر ٹیکس کا صحیح نظام یعنی زکوٰۃ کا نظام رائج ہو جائے تو عوام اس ضمن میں بھی رقم دیتے ہوئے یہی محسوس کریں گے کہ وہ ایک نیک کام کر رہے ہیں۔ اس کا انھیں اجروثواب حاصل ہو گا۔ اس کے علاوہ عوام کو حکمران کے حکم کے پیچھے اللہ اور رسول کے حکم کی قوت بھی محسوس ہو گی جس سے سی بی آر کوجو فائدہ ہوگا اس کا آسانی سے اندازہ کیا جا سکتا ہے۔
حکمرانوں کے معاملے میں عوام کے اندر بداعتمادی کا ایک سبب اور بھی ہے۔ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمان حکمرانوں کے لیے یہ اسوہ بھی قائم کیا ہے کہ وہ اپنا معیارِ زندگی ملک کے عام شہری کے معیارِ زندگی کی سطح پر رکھیں۔ مگر ہم دیکھتے ہیں کہ پاکستان جیسے غریب اور مقروض ملک کے حکمرانوں کا معیار زندگی انتہائی بلند ہے۔ وہ قومی وسائل اور قرض کی رقوم کو انتہائی بے دردی سے اپنے مصارف پر خرچ کرتے ہیں۔ وہ قرض کی ادائیگی اور ملک کے دیگر مسائل حل کرنے کے لیے آئے روز نت نئے ٹیکس تو عائد کرتے رہتے ہیں، مگر اپنے اللے تللے میں کوئی کمی کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ جس کی وجہ سے ان کے اور عوام کے مابین اعتماد کا ایک سنگین بحران پیدا ہو چکا ہے۔
لہٰذا ہمارے نزدیک جب تک حکومت ٹیکس کا صحیح نظام رائج نہیں کرے گی اور صحیح معنوں میں اسوۂ رسول اختیار نہیں کرے گی، اس وقت تک حکومت اور عوام کے مابین اعتماد کی صحیح فضا پیدا نہ ہو سکے گی۔
___________