HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف :

Please login for Bookmark , Comment or Highlight ...

قحط – مزید کام کی ضرورت

محمد بلال 

   

 پچھلے دنوں ہمارے احباب میں سے محمد انیس مفتی صاحب اور کاشف علی خان صاحب قحط زدہ لوگوں کی امداد کرنے کے لیے ژوب )بلوچستان( گئے۔ میرے استفسار پر انیس صاحب نے بتایا کہ وہاں ابھی امدادی کاموں کی ضرورت ختم نہیں ہوئی۔

دیکھنے میں آیا ہے کہ عام طور پر ایسے مواقع پر لوگوں میں خیر خواہی کے جو جذبات پیدا ہوتے ہیں ان کی مثال عام بخار کی سی ہوتی ہے جو اچانک چڑھتا ہے اور جلد ہی اتر جاتا ہے۔ اس معاملے میں اس حقیقت کو پیش نظر رکھنا چاہیے کہ قحط زدہ علاقوں کے حالات تاحال پوری طرح درست نہیں ہوئے۔ اس لیے وہاں کے مصیبت زدہ لوگ اب بھی ہماری امداد کے مستحق ہیں۔

تنخواہ دار لوگوں کو اس مہینے کی تنخواہ مل چکی ہو گی۔ کاروباری لوگوں کو مزید ادائیگیاں وصول ہو چکی ہوں گی۔ لہٰذا اس مہینے میں بھی حسبِ استطاعت اپنی آمدنی میں سے کچھ حصہ آفت زدہ لوگوں کے لیے نکال لینا چاہیے۔ یہاں یہ حقیقت ذہن میں رہنی چاہیے کہ ہماری آمدنی کا یہ حصہ ہمارا نہیں ہے یہ ان آفت زدہ لوگوں کا حق ہے۔ سورۂ معارج میں ہے کہ ہمارے مالوں میں سائل اور محروم لوگوں کا ایک مقرر حق ہے۔ اس کی تفسیر میں مولانا مودودی نے لکھا ہے کہ: ’’محروم سے مراد ایسا شخص ہے جو بے روزگار ہو یا روزی کمانے کی کوشش کرتا ہے مگر اس کی ضروریات پوری نہ ہوتی ہوں یا کسی حادثے یا آفت کا شکار ہو کر محتاج ہو گیا ہو یا روزی کمانے کے قابل ہی نہ ہو۔ ایسے لوگوں کے متعلق جب معلوم ہو جائے کہ وہ واقعی محروم ہیں تو ایک خداپرست انسان اس بات کا انتظار نہیں کرتا کہ وہ اس سے مدد مانگیں بلکہ ان کی محرومی کا علم ہوتے ہی وہ خود آگے بڑھ کر ان کی مدد کرتا ہے۔‘‘

اسی سلسلے میں نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ: ’’جوشخص اپنے بھائی کی حاجت پوری کرنے میں لگا رہے گا تو خدا اس کی ضرورت پوری کرنے میں لگا رہے گا اور جو مسلمان کسی مسلمان کی مصیبت کو دور کرے گا تو اللہ قیامت کے مصائب میں سے کسی مصیبت کو اس سے دور فرمائے گا۔‘‘ ایک دوسری روایت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ’’اللہ اپنے بندے کی مدد اس وقت تک کرتا رہتا ہے جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد میں رہتا ہے۔‘‘

چونکہ لوگوں کی محرومی محتاجی تشنۂ  تکمیل حاجات اور مصیبت کے اثرات ابھی باتی ہیں لہٰذا ظاہر ہے محرومی، محتاجی، حاجات اور مصیبت کے اثرات کو دور کرنے کا کام بھی ابھی جاری رہنا چاہیے۔

اسی طرح ڈاکٹر آغا طارق سجاد صاحب نے امدادی سامان خریدنے سے قبل اس بات کی تحقیق کی کہ قحط زدہ علاقوں میں کس قسم کا امدادی سامان لے جانا چاہیے۔ اس سے یہ معلوم ہوا کہ مقامی لوگوں کے حالات کے مطابق اور ان کی ضروریات کے لحاظ سے امداد کی جانی چاہیے۔ لوگ وہاں ایسی چیزیں بھی لے کر پہنچ رہے ہیں یا پہنچا رہے ہیں۔ جو مقامی افراد کے حالات اور ضرورت کے مطابق نہیں ہیں۔

ظاہر ہے شہروں میں رہنے والے افراد کا کھانے پینے کی چیزوں کے بارے میں ذوق صحرا اور دیہات میں رہنے والے لوگوں سے مختلف ہوتا ہے۔ شہروں میں رہنے والے اس معاملے میں اللے تللے کے بھی عادی ہوتے ہیں، جن سے دیہات کے رہنے والے بالعموم بچے ہوتے ہیں۔ مثلاً دودھ یا پتی کے پیکٹ وصول کر کے وہ جھنجھلا کر کہتے ہیں کہ ہم ان کا کیا کریں ؟ وہ کہتے ہیں ہمیں گندم اور چاول چاہیے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ اس معاملے میں صرف جذبات ہی سے کام نہ لیا جائے بلکہ عقل و دانش کو بروے کار لاتے ہوئے اچھی طرح تحقیق اور منصوبہ بندی کر کے امدادی اشیا کا اہتمام کیا جائے۔

اسی طرح یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ قحط زدہ علاقوں کے وہ مقامات جہاں صورتِ حال زیادہ سنگین ہے مگر دشوار گزار راستوں کے باعث وہاں پہنچنا مشکل ہے۔ امدادی سامان لانے والے لوگ ان جگہوں پر جانے سے گریز کرتے ہیں۔ اس ضمن میں اگر مقامی لوگوں کی مدد اور رہنمائی حاصل کر لی جائے تو زیادہ مستحق لوگوں تک امدادی سامان پہنچایا جا سکتا ہے۔

  یہ تو ہوئے قحط زدہ علاقوں کے مسائل کے ہنگامی حل۔ اس کے پائیدار حل یہ ہیں کہ اسباب کے اعتبار سے ضروری ہے کہ حکومت قحط زدہ علاقوں کے انفراسٹرکچر کی صورتِ حال بہتر کرے۔ وہاں پائپ لائنوں اور ٹیوب ویلوں اور اسی طرح کی دوسری جدید مشنیری کو ٹھیک طریقے سے بروے کار لائے۔ موجودہ ملکی صورتِ حال میں بڑے شہروں کی آسایشوں اور آرایشوں میں کمی کر کے ان علاقوں کے لوگوں کی بنیادی ضروریات پوری کرنے کا اہتمام کرے اور مسبب الاسباب کے پہلو سے ضروری ہے کہ ہم اپنی اجتماعی زندگی کو دین کے تقاضوں کے مطابق ڈھالیں تاکہ بحیثیت قوم تقویٰ اختیار کرنے سے فراوانی میں رزق دینے کا اللہ نے جو وعدہ کر رکھا ہے، ہم اس کے اہل بن سکیں۔

___________

B