HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : محمد ذکوان ندوی

قرآن کی اصل حیثیت

قرآن کی اصل حیثیت یہ ہے کہ وہ کتابِ ہدایت ہے۔اُس کی اِس حیثیت کا تعین اُس کے آغاز ہی میں اِن الفاظ کے تحت بیان کردیا گیا ہے: ’ذٰلِكَ الكِتٰبُ لَا رَيْبَﶍ فِيْهِﶎ هُدًي لِّلْمُتَّقِيْنَ‘ (البقرہ ۲: ۲)، یعنی یہ کتاب الہٰی ہے،اِس میں کوئی شک نہیں۔ وہ ہدایت ہے خداسے ڈرنے والوں کے لیے۔ہدایت کا مطلب ہے: خدا کے مطلوب راستے کی دریافت اور اُس کا اتباع۔

بعد کے زمانے میں قرآن کی جو تفسیریں لکھی گئیں، وہ عام طور پر کسی مخصوص مسلک یا کسی مخصوص نقطۂ نظر کے تحت لکھی گئیں۔ مثلاً شیعی مسلک ،سنی مسلک ، سلفی مسلک، حنفی مسلک ، وغیرہ ۔ اِس کے بعد جب دنیامیں تحریکات اورمسالک و ’ مذاہب ‘ کا دور آیا تواُس کے مطابق تفسیریں لکھنے کا رواج ہو گیا ۔مثلاً دعوتی نقطۂ نظر، سیاسی نقطۂ نظر، فقہی نقطۂ نظر، اِشاری نقطۂ نظر اورسائنسی نقطۂ نظر ، وغیرہ۔اِن تفسیر وں کا اسلوب معروضی نہیں، بلکہ تعبیری تھا۔ یہ تفسیریں قرآنی آیات کی شرح ووضاحت سے زیادہ خود مصنف کے مخصوص نقطۂ نظر کی وکالت کررہی تھیں[*]۔

یہ اِسی طرز فکر کا نتیجہ تھا کہ قرآن کی اصل حیثیت لوگوں پر واضح نہ ہوسکی۔کسی نے قرآن کو محض کتاب معرفت (روحانیت) سمجھا، کسی نے کتاب سیاست اورکسی نے کتاب دعوت۔اِسی طرح ، کوئی اُسے کتاب فضائل سمجھتارہا اور کوئی صرف کتاب مسائل، وغیرہ۔تاہم اِن میں سے کوئی بھی تعبیر قرآن کی اصل حیثیت کا تعارف نہ تھا ۔ اِس قسم کی تعبیری تفسیرکا نتیجہ عملاً صرف یہ ہوا کہ لوگ قرآن کے نام پر قرآن سے دور ہوگئے۔وہ اپنی پوری زندگی کو قرآنی ہدایت کے سانچے میں ڈھالنے کے بجاے محض ایک تعبیر کو اصل دین سمجھ کر اُس کے پرجوش داعی بنے رہے۔ اصل یہ ہے کہ قرآن کا مخاطَب پورا انسان تھا۔ وہ ایمان، اخلاق، عبادت، دعوت، سیاست، معیشت اور معاشرت ،ہرچیز کی نسبت سے ربانی ہدایت کا بیان تھا، جسے وہ خدا کے مطلوب دین کے طورپر انسان کو پوری طرح اختیار کرلینے کا حکم دے رہا تھا۔

تاہم اِس غیر حقیقی طرز تفسیر کا انتہائی مہلک نقصان یہ ہوا کہ قرآن خدا کی ابدی ہدایت کے بجاے عملاً صرف کسی ایک یا چند مخصوص نقطہ ہاے نظر کا ترجمان بن کر رہ گیا۔ قرآن کی ہر آیت میں لوگوں کو صرف اپنا فکر نظرآیا۔ چنانچہ انھوں نے اِسی مخصوص نقطۂ نظر کو خدا کی اصل ہدایت سمجھا۔وہ بظاہر انتہائی اخلاص کے ساتھ اِسے خدا کا مطلوب دین سمجھ کر اُس کے داعی اور مومن بنے رہے۔اُن کے اپنے مخصوص نقطۂ نظر کے علاوہ، قرآن کی دوسری تعلیمات عملاً اُن کے نزدیک غیر اہم قرار پاگئیں۔ اِس ظاہرے نے امت مسلمہ کے ’تصور دین‘ اوراُس کے پورے فکر وعمل کویکسر بدل کر رکھ دیا ۔

sa اِس طرز تفسیر کا دوسرا نقصان گروہ بندی اور غیر مطلوب تحزُّب تھا۔اِس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ’امت واحدہ‘ عملاً ’امت متفرقہ‘ کا ایک گروہ بن کر رہ گیا، حتیٰ کہ اب اِن گروہوں اور اُن کے اپنے اداروں نے بجاے خودایک ’امت‘کی حیثیت اختیار کرلی ہے ، جس نے امت مسلمہ کے اجتماعی وجود کا خاتمہ کردیا۔عقیدت و محبت اور ’امام‘ اور حاکم کا وہ مقام جو اپنے انتہائی معنی میں صرف اللہ ا ور اُس کے رسول کے لیے مخصوص تھا، وہ عملاً اب اِن گروہوں کی اپنی شخصیات اور اُن کے پیدا کردہ فکر و لٹریچر کو حاصل ہوگیا ۔اِس طرح یہ ہوا کہ امت میں پاپائیت (papacy) اور ’کہنوت‘ جیسے مظاہر پیدا ہو گئے۔

حقیقت یہ ہے کہ تفسیر کا مقصد خود قرآن کے مدعا و مطالب کی تفہیم ہے۔ اِس معاملے میں یہ کہنا کسی بھی طرح درست نہیں کہ دعوت، تذکیر یا سیاست جیسے کسی ایک پہلو پر قاری کو متوجہ کرنے کے لیے قرآن کی تشریح میں ایک موضوع پر ’’فوکس‘‘کا طریقہ اختیار کیا گیا ہے۔اگرکسی شخص کوایسا کرنا ہے تو اُس کو چاہیے کہ وہ الگ سے اِس موضوع پر لکھے اور بولے، مگر قرآن کی شرح و وضاحت کے ذیل میں آیت کے کسی ایک پہلو پراِس طرح فوکس کرنا کہ اُس کے دوسرے پہلو نظراندازیا غیر اہم قرار پاجائیں ، بلا شبہ قرآن کی معنوی تحریف کے ہم معنی ہے ۔قرآن ایک ’ کتاب مبین‘ہے، اِس لیے خود اُس میں اپنے مدعا پر پوری طرح فوکس موجود ہے جو تلاوت اورتدبرکے دوران میں آدمی پر روشن ہوجاتا ہے ۔ کسی انسان کو ہرگز یہ حق حاصل نہیں کہ وہ قرآن کے معاملے میں اِس طرح کی جسارت کا ارتکاب کرے۔ قرآن کی نسبت سے ،پیغمبر کا کام بھی صرف یہ ہے کہ وہ اُسے بے کم وکاست لوگوں تک پہنچادے تاکہ وہ اُس پر تدبر کرکے خدا کی مرضی کا ادراک کر سکیں ۔ خود پیغمبر کو بھی یہ حق حاصل نہیں کہ وہ اللہ کی کتاب میں اپنی طرف سے کسی قسم کا کوئی حذف واضافہ کر سکے (الحاقہ ۶۹: ۴۳- ۴۸)۔  

قرآن کے نزول کا مقصد انسانوں کے لیے خدا کی ابدی ہدایت کا راستہ کھولنا ہے اور بلاشبہ اِس ہدایت تک پہنچنے کے متعدد طریقے ہیں۔مثلاً تلاوت ، دعا، غور وفکر، وغیرہ۔یہی وجہ ہے کہ قرآن کے لیے ’ذِکر‘ (یاددِہانی) جیسے الفاظ بھی وارد ہوئے ہیں۔ تاہم یہ قرآن کی اصل حیثیت کا تعارف نہیں ،اِس کا مقصد صرف یہ بتانا ہے کہ ’ذِکر‘ (یاددہانی) حصول ہدایت کا ایک موثر ذریعہ ہے۔لہٰذا قرآن پڑھنے والے آدمی کے لیے ضروری ہے کہ وہ کسی اور ذہن کے تحت اُس کو پڑھنے کے بجاے اُس سے یاددِہانی حاصل کرے اور اِس طرح وہ ہر اعتبار سے خدا کی ہدایت کواپنی زندگی میں اختیار کرلے۔

(لکھنؤ، ۱۵  ؍ ستمبر ۲۰۲۰ء)

ـــــــــــــــــــــــــ

[*]  اِس کے علاوہ، بعض تفسیریں خاص طور پر زبان و بیان اور نحو واِعراب کی بنیاد پر لکھی گئی ہیں۔ مثلاً ’البحرُ المحیط‘ (ابو حیان اندلسی)، ’الإعرابُ المفصَّل لکتابِ اللہ المُنزَّل‘ (بہجت عبدالواحد صالح)، ’إعرابُ القرآن الکریم وبیانه‘ (محی الدین الدرویش)، وغیرہ۔ تاہم زبان وبیان کی توضیح چونکہ ایک خالص علمی چیز ہے، وہ کوئی تعبیری اور نظریاتی چیز نہیں، اِس لیے وہ یہاں زیر بحث نہیں۔ 

B