[’’سیر و سوانح ‘‘ کے زیر عنوان شائع ہونے والے مضامین ان کے فاضل مصنفین کی اپنی تحقیق پر مبنی ہوتے ہیں، ان سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔ ]
حضرت طلیب بن ازہركا تعلق بنو زہره سے تھا۔عبد عوف بن عبد (دوسری روایت:عمرو بن عبد عوف) ان كے دادا، جب كہ باباے قبیلہ زہرہ بن كلاب پانچویں جد تھے۔كلاب بن مره پر حضرت طلیب كا شجرۂ نسب نبی صلی الله علیہ وسلم كے شجرۂ مباركہ سے جا ملتا ہے۔ آپ كے پانچویں جدقصی بن كلاب اور حضرت طلیب كے پانچویں ابو الآبا زہرہ بن كلاب سگے بھائی تھے۔آں حضور صلی الله علیہ وسلم كی والده آمنہ بنت وہب بھی بنو زہرہ سے تعلق ركھتی تھیں۔
بكیرہ بنت عبد یزیدحضرت طلیب بن ازہركی والدہ تھیں۔حضرت مطلب بن ازہر اورحضرت عبدالرحمٰن بن ازہر ان كے بھائی تھے۔
حضرت طلیب بن ازہرابتداے اسلام میں مكہ میں ایمان لائے۔ابن اسحٰق نےاپنی ’’السیرة النبویة‘‘ میں ’’السابقون الاولون‘‘ كی جو فہرست ترتیب دی ہے، اس میں حضرت طلیب بن ازہر كا نام شامل نہیں ۔ یہی فہرست ابن ہشام كی ’’السیرة النبویة‘‘ اور ابن كثیركی ’’البدایة والنہایة‘‘ میں نقل كی گئی ہے۔ تاہم ابن جوزی كی ’’المنتظم‘‘، ابن عبدالبر كی ’’الاستیعاب‘‘،ابن اثیر كی ’’اسد الغابة‘‘ اور ابن حجر كی ’’الاصابة‘‘ میں انھیں اسلامیان مكہ میں شمار كیا گیا ہے۔ابن سعد اور ابن حجرنے ان كے قدیم الاسلام ہونے كی وضاحت كی ہے۔اس اعتبار سے انھیں ’’السابقون الاولون‘‘ میں سے ایك سمجھا جا سكتا ہے۔
حضرت طلیب بن ازہرحضرت جعفر بن ابوطالب كی سربراہی میں حبشہ كو جانے والے دوسرے قافلے میں اپنے بھائی حضرت مطلب بن ازہر اور بھاوج حضرت رملہ بنت ابوعوف كے ساتھ شریك ہجرت تھے۔
ابن سعد واحد مورخ ہیں جنھوں نے بتایا كہ حضرت مطلب بن ازہر كی حبشہ میں وفات كے بعد ان كی بیوہ ان كے بھائی حضرت طلیب بن ازہر كے نكاح میں آئیں اور محمد بن طلیب كو جنم دیا۔
حضرت طلیب بن ازہرنے بھی سرزمین حبشہ میں وفات پائی۔حضرت ر ملہ بنت ابو عوف اور ان كے بیٹے محمد كی حبشہ سے لوٹنے كی كوئی اطلاع نہیں ۔غالب امكان ہے كہ وه بھی حبشہ میں پیوند خاك ہو گئے ہوں۔
مطالعہ مزید:الطبقات الکبریٰ(ابن سعد)،الاستیعاب فی معرفة الاصحاب(ابن عبدالبر)،اسد الغابة فی معرفة الصحابة (ابن اثیر)،الاصابة فی تمییز الصحابة(ابن حجر) ۔
_______
حضرت عاقل ۵۹۲ء میں مكہ میں پیدا ہوئے۔
حضرت عاقل کے والد کا نام بكیر(ابن اسحٰق،ابن الكلبی)یاابو البکیر(واقدی) تھا، عبد یالیل بن ناشب ان كے دادا اور لیث بن سعد(یا بكیر)چھٹے جد تھے۔ كنانہ بن خزیمہ پر ان كا شجرۂ نسب نبی صلی الله علیہ وسلم كے شجرہ سے جا ملتا ہے۔نضر بن كنانہ آپ كے تیرھویں جد تھے، جب كہ حضرت عاقل كا سلسلۂ نسب ان كے سوتیلے بھائی عبد مناة بن كنانہ سے جا ملتا ہے۔صحابہ كے سوانح نگاروں اور علماے انساب كا اتفاق ہے كہ كنانہ بن خزیمہ حضرت عاقل كے نویں جد تھے، وه رسول الله صلی الله علیہ وسلم كے چودھویں جد تھے(جمہرة انساب العرب،ابن حزم ۱۸۳، جمہرة النسب،ابن الكلبی۱۴۶ )۔
حضرت عاقل كی والدہ حضرت عفراء بنت عبید خزرج كے ذیلی قبیلہ بنو نجارسے تعلق ركھتی تھیں۔ان كا پہلا بیاه بنونجار كے حارث بن رفاعہ سے ہوا تھاجن سے حضرت معاذ اورحضرت معوذ پیدا ہوئے۔ حارث كے طلاق دینے كے بعد وه مكہ چلی آئیں اور بكیر بن عبد یالیل سے شادی كر لی۔ ان سے حضرت خالد ،حضرت ایاس ، حضرت عاقل اور حضرت عامر تولد ہوئے۔ بكیر بن عبد یا لیل (كی وفات یا ان سے علیحدگی) كے بعد حضرت عفراء مدینہ لوٹ آئیں اور حارث سے عقد ثانی كر لیا۔اس عقد كے بعد حضرت عوف بن حارث كی ولادت ہوئی۔حضرت عفراء نے اسلام قبول كیا اور نبی صلی الله علیہ وسلم كی بیعت كی۔اس كے برعكس حارث بن رفاعہ كے قبول اسلام كی كوئی شہادت نہیں، سیر صحابہ كی كتب میں ان كا نام سرے سے موجود نہیں۔
حضرت عاقل كے والدین نے ان كا نام غافل ركھا تھا،جب انھوں نے اسلام قبول كر لیا تو رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے نام بدل كر عاقل كردیا۔ حضرت عاقل كے والدبكیر حضرت عمر بن خطاب كے دادا نفیل بن عبدالعزیٰ كے حلیف تھے، اس لیے انھیں اور ان كی اولاد كو بنوعدی میں شمار كیا جاتا ہے۔اپنے اجداد كی نسبت سے حضرت عاقل كنانی،لیثی كہلاتے ہیں۔ حضرت ایاس بن بكیر، حضرت خالد بن بكیراور حضرت عامر بن بكیران كے بھائی تھے۔
حضرت عاقل بن بكیر،حضرت ایاس بن بكیر،حضرت خالد بن بكیر اور حضرت عامر بن بكیر كی دار ارقم میں آمد ہوئی تو یہ دعوت اسلامی كا مركز بن گیا۔ آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کے یہاں تشریف لانے کے بعد سب سے پہلے یہی چاروں مشرف بہ اسلام ہوئے۔ ’’السابقون الاولون‘‘ كی فہرست میں حضرت عاقل بن بكیر كا نمبر ۵۱واں تھا۔
محمد بن عبدالوہاب كہتے ہیں كہ حضرت ارقم بن ابو ارقم کا گھر ۵؍نبوی میں دعوت اسلامی كا مركز بنا (مختصر سیرة الرسول ۸۹)۔صفی الرحمٰن مبارك پوری نے بھی یہی بیان كیا ہے (الرحیق المختوم۱۳۰)۔ حضرت عمر ۶؍نبوی میں نبی صلی الله علیہ وسلم كی خدمت میں دار ارقم ہی میں حاضر ہو كر ایمان لائے۔اس سے ثابت ہوتا ہے كہ تب بھی اس گھر میں آپ تعلیم اسلام و تبلیغ دین جاری ركھے ہوئے تھے۔
اہل ایمان پر كفار قریش كےظلم ٹوٹتے رہے تو ۵؍نبوی (۶۱۵ء)میں نبی صلی الله علیہ وسلم نے صحابہ کو ارشاد فرمایا کہ حبشہ(Ethiopia, Abyssinia)كو ہجرت کر جائیں۔ آپ نےفرمایا: وہاں ایسا بادشاہ (King of Axum) حکمران ہے جس کی سلطنت میں ظلم نہیں کیا جاتا۔ چنانچہ ماه رجب میں حضرت عثمان بن مظعون كی قیادت میں گیاره مرد اور چار عورتیں دو كشتیوں پر سوار ہو كر سوے حبشہ روانہ ہوئے۔ اسے ہجرت اولیٰ کہا جاتا ہے۔ چند دنوں کے بعد حضرت جعفر بن ابو طالب كی سربراہی میں سڑسٹھ اہل ایمان حبشہ كو عازم سفر ہوئے۔ اس طرح مہاجرین كی مجموعی تعداد اكیاسی (یاتراسی، ایك سو نو:ابن جوزی) ہو گئی۔ حضرت عاقل بن بكیرنے حضرت جعفر كی معیت میں حبشہ ہجرت كی۔
۶۲۲ء : حضرت عاقل اور ان كے بھائی حبشہ سے جلد مكہ واپس آگئے اوركچھ دیر یہاں مقیم رہے۔قریش نے دیكھا كہ اہل ایمان كے عزم و ثبات میں كوئی كمی نہیں آئی اور اسلام قبول كرنے والوں كی تعدادبڑھتی جا رہی ہے تو اپنے جبر و تشدد میں اضافہ كر دیا۔تبھی نبی صلی الله علیہ وسلم كو مدینہ كی طرف ہجرت كرنے كا اذن ہوا۔پہلے مرحلے میں آپ نے صحابہ كومدینہ منتقل ہونے كاحكم دیا۔ حضرت عاقل بن بكیر، حضرت عامر بن بكیر، حضرت ایاس بن بكیر، حضرت خالد بن بكیر اور ان كے تمام گھر والے مدینہ جانے كے لیے حضرت عمر بن خطاب كے بیس افراد پر مشتمل قافلے میں شامل ہو گئے۔ حضرت عمر بن خطاب، حضرت خنیس بن حذافہ، حضرت زید بن خطاب،حضرت سعید بن زید،حضرت عبداللہ بن سراقہ،حضرت عمرو بن سراقہ،حضرت واقد بن عبداللہ، حضرت خولی بن ابو خولی،حضرت مالك بن ابو خولی اور ان سب كے اہل خانہ اس قافلے کےشركا تھے۔ مكہ میں حضرت عاقل اور ان كے بھائیوں كے گھروں کو تالا لگ گیا۔
حضرت عمر كا قافلہ مدینہ پہنچ كر حضرت رفاعہ بن عبدالمنذر کا مہمان ہواجو بنو عمرو بن عوف (قبا) میں رہتے تھے۔ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے حضرت عاقل بن بكیركوحضرت مبشر بن عبدالمنذر (یا حضرت مجذر بن زیاد)كا مہاجر بھائی قرار دیا۔
حضرت عفراء بنت عبید واحد صحابیہ ہوئیں جن كے ساتوں بیٹے ـــــحضرت عاقل ، ان كے تین سگے بھائی حضرت ایاس ،حضرت خالد ، حضرت عامر ـــــ اور تین سوتیلے برادران حضرت معاذ ،حضرت معوذ اور حضرت عوف ـــــ معركۂ فرقان میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم كے ساتھ شریك تھے۔
۱۲؍ رمضان ۲ ھ كوآپ تین سو اٹھارہ انصار و مہاجرین كے جلو میں مدینہ سے نكلے۔ قریش كے تجارتی قافلے كو روكنا آپ كے پیش نظر تھا۔ بئر ابو عیینہ پہنچ كر آپ نےلشكر كو ترتیب دیا، كم عمر اصحاب كو واپس فرما دیا۔ بدر كے میدان میں جسے بدر بن یخلد نے آباد كیا اور جہاں بدر بن حارث كا كھدوایا ہوا كنواں ہے،كفار كے لشكر سے سامنا ہوا۔لشكر میں شامل قریش سرداروں كے نام معلوم ہوئے توآپ نے فرمایا : مكہ نے اپنےجگر كے ٹكڑے تمھارے آگے ڈال دیے ہیں۔
حضرت معاذ اورحضرت معوذ نے ابوجہل كوقتل كرنے كی سعادت حاصل كی اور خود بھی شہادت سے سرفراز ہوئے۔كل سات بھائیوں نے حق و باطل كے اس معركے میں حصہ لیا او ر تین نے جان كا نذرانہ دے كر جنت میں مقام بنا لیا۔یہ شرف كسی دوسرے اسلامی كنبے كوحاصل نہ ہوا۔ اس غزوہ میں چودہ مسلمانوں نے رتبۂ شہادت حاصل كیا، ان میں سے چھ مہاجرین تھے جن میں سے ایك حضرت عاقل بن بكیر تھے۔ان كے سوتیلے بھائی حضرت معاذ بن عفراء(حارث) اورحضرت معوذ بن عفراء آٹھ شہداے انصار میں شامل تھے۔
ابو اسامہ كے بھائی مالك بن زہیر جشمی (خطمی:ابن عبدالبر)نے حضرت عاقل كوشہید كیا۔تب ان كی عمر چونتیس برس تھی۔ان كے ساتھ ان كےانصا ری بھائی حضرت مبشر بن عبدالمنذر نے بھی شہادت پائی۔
حضرت عاقل كا سن وفات2 ھ ہے۔طبری اور ابن كثیر كا انھیں شہداے بدر میں شمار كرنے كے بعد 34 ھ كے وفیات میں بتانا درست نہیں۔
مطالعہ مزید:السیرة النبویة(ابن ہشام)،الطبقات الکبریٰ(ابن سعد)،الاستیعاب فی معرفة الاصحاب (ابن عبدالبر)،المنتظم فی تواریخ الملوك والامم (ابن جوزی)،سیر اعلام النبلاء(ذہبی)،اسد الغابة فی معرفة الصحابة (ابن اثیر)،البدایۃ و النہایۃ (ابن كثیر)، الاصابة فی تمییز الصحابة(ابن حجر)، اصحاب بدر(قاضی سلیمان منصور پوری)۔
_______
حضرت عامر مكہ میں پیدا ہوئے۔
حضرت عامر کے والد کا نام بكیریا واقدی كی شاذ روایت كے مطابق ابو البکیر تھا، عبد یالیل بن ناشب ان كے دادا اور لیث بن سعد(یا بكیر)چھٹے جد تھے۔ كنانہ بن خزیمہ پر ان كا شجرۂ نسب نبی صلی الله علیہ وسلم كے شجرہ سے جا ملتا ہے۔نضر بن كنانہ آپ كے تیرھویں جد تھے، جب كہ ان كے سوتیلے بھائی عبد مناة بن كنانہ حضرت عامر كی آٹھویں پشت تھے۔ تمام مورخین نے حضرت عامر كا یہی سلسلۂ نسب بتایا ہے، تاہم ان كے اور نبی صلی الله علیہ وسلم كے شجرۂ نسب میں پانچ پشتوں كا فرق دیكھ كر خیال آتا ہے كہ كہیں ان كے كچھ اجداد درج ہونے سے ره نہ گئے ہوں۔
حضرت عامر كی والدہ حضرت عفراء بنت عبید انصار بنو نجارسے تھیں۔ان كی شادی اپنے قبیلہ كے حارث بن رفاعہ سے ہوئی جن سے حضرت معاذ اورحضرت معوذ ( عوف ) پیدا ہوئے۔ طلاق ملنے كے بعد انھوں نے مكہ كے بكیر بن عبد یالیل سے نكاح كر لیا۔ ان سے حضرت خالد ،حضرت ایاس ، حضرت عاقل اور حضرت عامر كی ولادت ہوئی۔ بكیر بن عبد یا لیل سے عقد ختم ہوا تو انھوں نے مدینہ لوٹ كر حارث سے رجوع كر لیا۔ان سے دوبارہ نكاح كے بعد حضرت عوف (معوذ ) بن حارث پیدا ہوئے۔حضرت عفراء نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم كی بیعت كر كے اسلام قبول كیا، جب كہ حارث بن رفاعہ كے مسلمان ہونے كا ذكر نہیں ملتا۔
حضرت عامر كے والدبكیر نے بنو عدی كے نفیل بن عبدالعزیٰ سے پیمان باندھ ركھا تھا، حلیف ہونے كی وجہ سے انھیں اور ان كی اولاد كو بنوعدی میں شمار كیا جاتا ہے۔ حضرت عاقل بن بكیر،حضرت ایاس بن بكیر اور حضرت خالد بن بكیران كے بھائی تھے۔
مكہ كے سخت حالات میں تعلیم و تبلیغ جاری ركھنے كے لیے رسول الله صلی الله علیہ وسلم حضرت ارقم بن ابوارقم كے گھر منتقل ہوئے تو حضرت عامر بن بكیر،حضرت عاقل بن بكیر،حضرت ایاس بن بكیر اورحضرت خالد بن بكیر آپ كی خدمت میں حاضر ہو كر ایمان لانے والے اولین اصحاب تھے۔ ’’السابقون الاولون‘‘ كی فہرست میں حضرت عامر بن بكیر كا نمبرپچاسواں تھا۔
حضرت عمر آخری صحابی تھے جنھوں نے دار ارقم میں حاضر ہو كر رسول الله صلی الله علیہ وسلم كے دست مبارك پر بیعت ایمان كی۔اس كے بعد علانیہ دعوت كا سلسلہ شروع ہوا۔
اہل ایمان پر مشركین قریش كا سلسلۂ ستم جاری رہا تو ۵؍نبوی (۶۱۵ء)میں نبی صلی الله علیہ وسلم نے صحابہ کو حبشہ(Ethiopia, Abyssinia) ہجرت کرنے كا مشورہ دیا۔ چنانچہ ماه رجب میں حضرت عثمان بن مظعون كی قیادت میں گیاره مرد اور چار عورتیں دو كشتیوں پر سوار ہو كر حبشہ روانہ ہوئے۔ چند دنوں کے بعد حضرت جعفر بن ابو طالب سڑسٹھ اہل ایمان كو لے كر حبشہ كے لیے نكلے۔ حضرت عامر بن بكیرنے اس قافلے میں سفر ہجرت كیا۔ابن ہشام اور ابن كثیر نے مہاجرین حبشہ میں بكیر برادران كا ذكر نہیں كیا۔
۶۲۲ء : حضرت عامر اور ان كے بھائی حبشہ سے جلد مكہ واپس آگئے اوركچھ دیر یہاں مقیم رہے۔مشركوں نے دیكھا كہ اہل ایمان كے عزم و ثبات میں كوئی كمی نہیں آئی اور ان كی تعدادبڑھتی جا رہی ہے تو اپنے جبر و تشدد میں اضافہ كر دیا۔تب نبی صلی الله علیہ وسلم كو مدینہ كی طرف ہجرت كا اذن ہوا۔پہلے مرحلے میں آپ نے صحابہ كودار ہجرت منتقل ہونے كاحكم دیا۔ حضرت عامر بن بكیر، حضرت عاقل بن بكیر، حضرت ایاس بن بكیر، حضرت خالد بن بكیر اور ان كے تمام گھر والے مدینہ جانے كے لیے حضرت عمر بن خطاب كےقافلے میں شامل ہو گئے۔ حضرت عمر بن خطاب، حضرت خنیس بن حذافہ، حضرت زید بن خطاب،حضرت سعید بن زید،حضرت عبداللہ بن سراقہ،حضرت عمرو بن سراقہ،حضرت واقد بن عبداللہ، حضرت خولی بن ابو خولی،حضرت مالك بن ابو خولی اور ان سب كے اہل خانہ اس قافلے کےشركا تھے۔ مكہ میں حضرت عامر اور ان كے بھائیوں كے گھروں کو تالا لگ گیا۔
حضرت عمر كا قافلہ مدینہ پہنچ كر حضرت رفاعہ بن عبدالمنذر کا مہمان ہواجو بنو عمرو بن عوف (قبا) میں رہتے تھے۔ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے حضرت ثابت بن قیس كو حضرت عامر بن بكیركا انصاری بھائی قرار دیا۔
۱۲؍ رمضان ۲ ھ :حضرت عفراء بنت عبید واحد صحابیہ تھیں جن كے ساتوں بیٹوں نے غزوۂ بدر میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم كا ساتھ دیا۔یہ حضرت عامر ، ان كے تین سگے بھائی حضرت عاقل ،حضرت ایاس ،حضرت خالد اور تین سوتیلے بھائی حضرت معاذ ،حضرت معوذ اور حضرت عوف تھے۔ حضرت عاقل نے شہادت پائی، حضرت معاذ اورحضرت معوذ نے ابوجہل كوجہنم واصل كیا اور خود بھی شہادت سے سرفراز ہوئے۔ اس طرح سات میں سے تین بھائیوں نے جان كا نذرانہ دے كر جنت میں مقام بنا لیا۔یہ شرف كسی دوسرے اسلامی كنبے كوحاصل نہ ہوا۔ حضرت عامر غازی رہے۔حضرت عامر كے دادا حضرت عبد یالیل بن ناشب نے بھی بڑھاپے كے باوجود غزوۂ بدر میں شركت كی(اصحاب بدر۹۱)۔ابن ہشام نے ’’من حضر بدرًا من المسلمین‘‘ كے عنوان كے تحت چاروں بكیر برادران كے نام بیان كیے ہیں، جب كہ ابن كثیر نے حضرت عامر بن بكیر كا نام شامل نہیں كیا،ابن جوزی نے عاصم بن بكیر لكھا۔حضرت عامر بن بكیر كے دادا حضرت عبدیا لیل كا نام تنہا قاضی سلیمان منصور پوری نے ذكر كیا ہے۔
حضرت عامر نےجنگ احد،جنگ خندق اور بعد میں ہونے والے تمام غزوات میں بھی رسول الله صلی الله علیہ وسلم كا ساتھ دیا۔
۱۱ھ:حضرت عامر بن بكیر نے جنگ یمامہ میں مرتدین كے خلاف لڑتے ہوئے شہادت حاصل كی۔اس معركے میں كل انیس مہاجرین اورپینتیس انصار نے جام شہادت نوش كیا۔
مطالعہ مزید: الطبقات الکبریٰ(ابن سعد)،الاستیعا ب فی معرفة الاصحاب (ابن عبدالبر)، سیر اعلام النبلاء (ذہبی)،اسد الغابة فی معرفة الصحابة(ابن اثیر)،البدایۃ و النہایۃ (ابن كثیر)، الاصابة فی تمییز الصحابة(ابن حجر)، اصحاب بدر(قاضی سلیمان منصور پوری)۔
_______
حضرت خالد مكہ میں بكیربن عبد یالیل كے ہاں پیدا ہوئے۔اپنے چھٹے جد لیث بن سعد كی نسبت سے لیثی كہلاتے ہیں۔نویں جدكنانہ بن خزیمہ پر ان كا شجرۂ نسب نبی صلی الله علیہ وسلم كے شجرہ سے جا ملتا ہے۔
حضرت خالد كی والدہ حضرت عفراء بنت عبید انصارمدینہ كے قبیلہ بنو نجارسے تعلق ركھتی تھیں۔ حضرت عاقل بن بكیر، حضرت عامر بن بكیر، حضرت ایاس بن بكیر ان كے سگے، جب كہ حضرت معاذ بن حارث (یاعفراء)، حضرت معوذ بن حارث (یا عفراء )ا ورحضرت عوف بن حارث حضرت خالد كے سوتیلے بھائی تھے۔
حضرت خالد كے والدبكیر بنو عدی كے حلیف تھے۔
مكہ كے نا موافق حالات میں تعلیم و تبلیغ جاری ركھنے كے لیے رسول الله صلی الله علیہ وسلم حضرت ارقم بن ابوارقم كے گھر منتقل ہوئے توحضرت خالد بن بكیر، حضرت عاقل بن بكیر،حضرت عامر بن بكیر اورحضرت ایاس بن بكیر سب سے پہلے آپ كی خدمت میں حاضر ہو كر ایمان لائے۔ ’’السابقون الاولون‘‘ كی فہرست میں حضرت خالد بن بكیر كا نمبرانچاسواں تھا۔
۵؍نبوی (615ء): مشركوں كا كم زور اور نا تواں مسلمانوں كو ایذائیں دینے كا سلسلہ بڑھتا گیا تو نبی صلی الله علیہ وسلم نے صحابہ کو حبشہ ہجرت کرنے كا مشورہ دیا۔ ماه رجب میں حضرت عثمان بن مظعون كی قیادت میں گیاره مرد اور چار عورتیں حبشہ روانہ ہوئیں۔ چند دنوں کے بعد حضرت جعفر بن ابو طالب سڑسٹھ اہل ایمان كو لے كر حبشہ كے لیے نكلے۔ حضرت خالد بن بكیرنے اس قافلے میں سفر ہجرت كیا۔ابن ہشام اور ابن كثیر نے مہاجرین حبشہ میں بكیر برادران كا ذكر نہیں كیا۔
۶۲۲ء : حضرت خالد اور ان كے بھائی حبشہ سے جلد مكہ واپس آگئے اوركچھ دیر یہاں مقیم رہے۔مشركوں كا ظلم و ستم پیہم جاری رہا تو نبی صلی الله علیہ وسلم نے صحابہ كودار ہجرت مدینہ منتقل ہونے كاحكم دیا۔ حضرت خالد بن بكیر، حضرت عاقل بن بكیر، حضرت عامر بن بكیر،حضرت ایاس بن بكیر اور ان كے تمام گھر والے مدینہ جانے كے لیے حضرت عمر بن خطاب كےقافلے میں شامل ہو گئے۔ حضرت عمر بن خطاب، حضرت خنیس بن حذافہ، حضرت زید بن خطاب، حضرت سعید بن زید،حضرت عبداللہ بن سراقہ،حضرت عمرو بن سراقہ، حضرت واقد بن عبداللہ، حضرت خولی بن ابو خولی،حضرت مالك بن ابو خولی اور ان سب كے اہل خانہ اس قافلے کےشركا تھے۔ مكہ میں حضرت خالد اور ان كے بھائیوں كے گھروں کو تالا لگ گیا۔
حضرت عمر كا قافلہ مدینہ پہنچ كر حضرت رفاعہ بن عبدالمنذر کا مہمان ہواجو بنو عمرو بن عوف (قبا) میں رہتے تھے۔ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے حضرت زید بن دثنہ (شاذ روایت:حضرت ثابت بن قیس)كو حضرت خالد بن بكیر كا انصاری بھائی قرار دیا۔
اواخرجمادی الثانی ۲ھ(جنوری۶۲۴ ء) : رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے قریش کی سرگرمیوں کی خبر لینے کےلیے حضرت عبدالله بن جحش کی سربراہی میں نو (باره :ابن سعد)مہاجرین کا ایک سریہ روانہ کیا۔حضرت خالد بن بكیر،حضرت ابوحذیفہ بن عتبہ،حضرت عکاشہ بن محصن،حضرت عتبہ بن غزوان، حضرت سعد بن ابی وقاص،حضرت عامر بن ربیعہ،حضرت واقد بن عبدالله اورحضرت سہیل بن بیضا اس سریہ كے شركا تھے۔ بُحران کے مقام پرحضرت عتبہ بن غزوان اور حضرت سعد کا مشترکہ اونٹ کھو گیا تو دو نوں وہاں رك گئے،باقی دستہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم كے عطا كیے گئے خط میں تحریر ہدایت كے مطابق مكہ كے قریب ابن عامر كے باغ نخلہ پہنچ گیا۔ تب رجب كا آخری دن اور شعبان كی پہلی رات تھی۔ کشمش، کھالیں اور دوسرا سامان تجارت لے کر چار افراد پر مشتمل قریش کا قافلہ گزرا تو اہل سریہ نےمشورہ کیا: اگر قافلے والوں کو چھوڑا جائے تووه حرم پہنچ کر مامون ہو جائیں گے اور اگر قتال كیا تویہ حرام مہینے میں ہوگا۔ کچھ تردد کے بعد انھوں نے حملے کا فیصلہ کیا۔ مشرک کھانا پکانے میں مصروف تھے،حضرت واقد بن عبدالله نے تیر مار کر قافلے کے سردار عمرو بن حضرمی کو قتل کردیا اورعثمان بن عبدالله اورحکم بن کیسان کوقیدکر لیا۔ نوفل بن عبدالله فرارہوگیا۔عمرو عہد اسلامی کا پہلا قتیل اورعثمان اورحکم پہلے اسیر تھے۔حضرت عبدالله بن جحش نےتاریخ اسلامی میں حاصل ہونےوالے پہلےمال غنیمت کی اپنےتئیں تقسیم کرکےپانچواں حصہ نبی صلی الله علیہ وسلم کےلیےرکھ لیا،حالاں کہ خمس کاحکم نازل نہ ہواتھا۔
مدینہ پہنچےتونبی صلی الله علیہ وسلم حرام مہینے رجب میں جنگ کرنے پر ناراض ہوئے۔لیكن جب یہ ارشاد ربانی نازل ہوا: ’يَسْـَٔلُوْنَكَ عَنِ الشَّهْرِ الْحَرَامِ قِتَالٍ فِيْهِﵧ قُلْ قِتَالٌ فِيْهِ كَبِيْرٌﵧ وَصَدٌّ عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ وَكُفْرٌۣ بِهٖ وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِﵯ وَاِخْرَاجُ اَهْلِهٖ مِنْهُ اَكْبَرُ عِنْدَ اللّٰهِﵐ وَالْفِتْنَةُ اَكْبَرُ مِنَ الْقَتْلِ ‘، ’’آپ سے ماہ حرام میں قتال کرنے کی بابت سوال کرتے ہیں۔ کہہ دیجیے،اس مہنیے میں جنگ کرنا بہت برا ہے، (اس کے ساتھ ساتھ) لوگوں کواللہ کی راہ سے روکنا، الله كا كفر كرنا، مسجدحرام کا راستہ بند کرنا اور حرم کے رہنے والوں کو نکال باہر کرنا الله کے ہاں اس سے بھی بد تر ہے اور فتنہ وفساد قتل سے بھی بڑا جرم ہے‘‘ (البقرہ ۲: ۲۱۷) تو آپ نے مال غنیمت اور قیدیوں کو اپنی تحویل میں لے لیا۔حضرت سعد اورحضرت عتبہ صحیح سلامت واپس آگئے تو آپ نے سولہ سو دینار فدیہ لے کر قریش کے اسیروں عثمان اور حکم کو چھوڑ دیا۔ حکم بن کیسان نے رہائی کے فوراً بعد آپ کی دعوت پر اسلام قبول کر لیا۔
سریہ عبدالله بن جحش جنگ بدر کے وقوع کا سبب بنا۔ قریش كے تجارتی قافلے غیر مامون ہونے سے ان كی معیشت خطرے میں پڑ گئی تو وہ سر دھڑ كی بازی لگانےكوتیار ہوگئے۔
حضرت عفراء بنت عبید كے ساتوں بیٹوں نے غزوۂ بدر میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم كا ساتھ دیا۔ حضرت خالد بن بكیر اور ان كے تین سگے بھائیوں حضرت عاقل بن بكیر،حضرت عامر بن بكیر اورحضرت ایاس بن بكیر نے بنوعدی كے حلفاء كی حیثیت سے،جب كہ تین سوتیلے بھائیوں حضرت معاذ بن عفراء،حضرت معوذ بن عفراء اور حضرت عوف بن حارث نے انصار كے قبیلہ بنو سواد كی طرف سے شركت كی۔اس غزوہ میں پچاس كٹے مشرك جہنم واصل ہوئے۔حضرت خالد بن بكیر اور ان كے بھائی حضرت ایاس نے مل كر(دوسری روایت: حضرت ابودجانہ نے)معبد بن وہب كو قتل كیا۔
حضرت خالد بن بكیرنے جنگ احد میں بھی حصہ لیا۔
۳ھ(شاذ روایت:4ھ) : جنگ احد كے بعد قبیلہ ہون بن خزیمہ كی شاخوں ــــــ بنو عضل و بنوقاره ــــــ كا ایك وفدرسول الله صلی الله علیہ وسلم كی خدمت میں حاضر ہوااور عرض كی :یا رسول الله، ہم لوگوں میں اسلام موجود ہے، آپ صحابہ كی ایك جماعت ہمار ے ساتھ بھیجیں جو ہم میں دین كی سمجھ پیدا كرے، قرآن پڑھائے اور شریعت اسلامی كی تعلیم دے۔ آپ نےچھ اصحاب ــــــحضرت مرثد بن ابو مرثد،حضرت خالد بن بكیر، حضرت عاصم بن ثابت، حضرت خبیب بن عدی، حضرت زید بن دثنہ اور حضرت عبدالله بن طارق ــــــ كومنتخب كر كے حضرت مرثد (حضرت عاصم :ابن سعد،ابن جوزی،بخاری، رقم ۳۰۴۵)كو امیر مقرر فرمایا اور ان كے ساتھ روانہ كر دیا۔بخاری اورابن جوزی نے شركا كی تعداد دس بتائی، ابن جوزی نے حضرت معتب بن عبید كے اضافے كی صراحت بھی كی۔راستے میں ہده(یا ہداہ) كے مقام پر بنو ہذیل كا رجیع نامی چشمہ پڑتا تھا، وہاں پہنچ كرعضل و قاره كے لوگوں نے دغا كی،انھوں نے بنو ہذیل كی شاخ بنو لحیان كے لوگوں كو اپنے ساتھ آنے والے اصحاب پر حملہ كرنے كے لیےبلا لیا۔اس صورت حال میں بھی یہ ایمان والے نہ گھبرائے اور پہاڑ پر چڑھ گئے، پھر حضرت مرثد،حضرت خالد بن بكیر اور حضرت عاصم اتر كر حملہ آور ہونے والے سو كے قریب كافروں سے بھڑ گئے۔لڑتے لڑتے یہ تینو ں شہید ہو گئے تو حضرت خبیب بن عدی، حضرت زید اور حضرت عبدالله نے مزاحمت نہ كی۔بنو ہذیل انھیں گرفتار كركے مكہ كی طرف چل پڑے۔ ظہران كے مقام پر حضرت عبدالله بن طارق نے رسیوں سے ہاتھ نكال كر تلوار سونت لی۔ مشرك ڈر كر پیچھے ہٹ گئے اور دور سے پتھر برسا برسا كر ان كو شہید كردیا۔ حضرت خبیب بن عدی اور حضرت زید بن دثنہ كو وه مكہ لے گئے۔حضرت خبیب كو بنو تمیم كے حجیر بن ابو اہاب نے اپنے بہنوئی حارث بن عامركاانتقام لینے كے لیے خرید لیا۔ حضرت زید بن دثنہ كا سودا صفوان بن امیہ نے اپنے باپ امیہ بن خلف كا بدلہ لینے كے لیے كیا۔حرام مہینوں میں یہ ان كی قید میں رہے، پھر دونوں كو مكہ سے باہر تنعیم كے مقام پر لے جایاگیا۔حارث بن عامر كے بیٹے عقبہ نے حضر ت خبیب كوشہید كیا، جب كہ حضرت ز ید كو صفوان بن امیہ كے غلام نسطاس نے سولی پر لٹكایا اور ان پر تیروں كی بوچھاڑ كردی۔
شہادت كے وقت حضرت خالد بن بكیر كی عمر چونتیس برس تھی۔ حضرت حسان بن ثابت نے حضرت خالد اور دوسرے شہدا كا مرثیہ كہا:
ألا لیتني شهدت ابن طارق
’’سنو، كاش، میں (مقام رجیع میں ) عبدالله بن طارق كے ساتھ ہوتا۔‘‘
وزیدًا و ماتغني الأماني و مرثدا
’’اور زید بن دثنہ اور مرثد بن ابو مرثدكا ساتھ دیا ہوتا، ہائے تمنائیں كام نہیں آتیں ۔‘‘
فدافعت عن حبي خبیبٍ و عاصم
’’كاش، میں نے اپنے دوستوں خبیب بن عدی اور عاصم بن ثابت كا دفاع كیا ہوتا۔‘‘
و كان شفاءً لو تداركت خالدا
’’میرے دل كو سكون ہوتا اگر خالد بن بكیر كی مدد كی ہوتی ۔‘‘
مطالعہ مزید: السیرة النبویة(ابن اسحٰق)، السیرة النبویة(ابن ہشام )، الطبقات الکبریٰ(ابن سعد)، تاریخ الامم والملوك(طبری)،الاستیعا ب فی معرفة الاصحاب (ابن عبدالبر)،المنتظم فی تواریخ الملوك والامم (ابن جوزی)، تاریخ الاسلام،المغازی (ذہبی)،سیر اعلام النبلاء(ذہبی)، اسد الغابة فی معرفة الصحابة(ابن اثیر)، الكامل فی التاریخ(ابن اثیر)،البدایۃ و النہایۃ (ابن كثیر)، الاصابة فی تمییز الصحابة (ابن حجر)۔
_______
حضرت ایاس مكہ میں پیدا ہوئے۔ان کے والد کا نام بكیربن عبد یالیل تھا۔اپنےچھٹےجد لیث بن سعد كی نسبت سے لیثی كہلاتے ہیں۔كنانہ بن خزیمہ پر ان كا شجرۂ نسب نبی صلی الله علیہ وسلم كے شجرہ سے جا ملتا ہے۔نضر بن كنانہ آپ كے تیرھویں جد تھے، جب كہ ان كے سوتیلے بھائی عبد مناة بن كنانہ حضرت ایاس كی آٹھویں پشت میں تھے۔اگر ’’الاستیعاب‘‘ كےقوسین میں دیے گئے آبا كو شامل كر لیا جائے تو لیث حضرت ایاس كے آٹھویں اور عبد مناة دسویں جد بنتے ہیں،اس طرح بكیر برادران اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم كے شجروں میں تفاوت كم ہوجاتا ہے(باب ایاس )۔
حضرت ایاس كی والدہ حضرت عفراء بنت عبید خزرج كے ذیلی قبیلہ بنو نجارسے تعلق ركھتی تھیں۔ بنونجارہی كے حارث بن رفاعہ سے ان كا پہلا نكاح ہواجن سے حضرت معاذ اورحضرت معوذ پیدا ہوئے۔ان سے علیحدگی كے بعد وه مكہ چلی آئیں اور بكیر بن عبد یالیل سے شادی كر لی۔ ان سے حضرت ایاس ،حضرت خالد ، حضرت عاقل اور حضرت عامر كی ولادت ہوئی۔ بكیر بن عبد یا لیل سے عقد زواج ختم ہونےكے بعدوه پھر حارث كے نكاح میں آ گئیں۔ چنانچہ حضرت عوف بن حارث نے جنم لیا۔حضرت عفراء نے اسلام قبول كیا، جب كہ حارث بن رفاعہ كے قبول اسلام كا كوئی ثبوت نہیں۔
حضرت عمر بن خطاب كے دادا نفیل بن عبدالعزیٰ كے حلیف ہونے كی وجہ سے حضرت ایاس كو بنوعدی میں شمار كیا جاتا ہے۔
ابتداے اسلام میں مكہ میں كھلے عام دین كی دعوت دینا ممكن نہ تھا،اسے لیے آں حضرت صلی الله علیہ وسلم دار ارقم میں تشریف لے آئے۔اسے اسلام كی پہلی درس گاه كہا جاتا ہے۔یہاں سب سے پہلےحضرت ایاس بن بكیر، حضرت عاقل بن بكیر،حضرت خالد بن بكیر اور حضرت عامر بن بكیر خدمت اقدس میں حاضر ہو كر مشرف بہ اسلام ہوئے۔ابن ہشام كی مرتبہ ’السّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ‘ (التوبہ ۹: ۱۰۰) كی فہرست میں حضرت ایاس كا نمبر ۵۲واں ہے۔ محمد بن عبدالوہاب كہتے ہیں كہ حضرت ارقم بن ابو ارقم کا گھر ۵؍نبوی میں دعوت اسلامی كا مركز بنا (مختصر سیرة الرسول ۸۹)۔
۵؍نبوی (۶۱۵ء):اصحاب رسول كے لیے مكہ میں جینا دوبھرہو گیاتورسول الله صلی الله علیہ وسلم نے صحابہ سے ارشاد فرمایا کہ حبشہ(ایتھوپیا) چلے جاؤ جہاں كا بادشاہ نجاشی ظلم روا نہیں ركھتا۔ چنانچہ ماه رجب میں حضرت عثمان بن مظعون كی قیادت میں گیاره مرد اور چار عورتیں دو كشتیوں پر سوار ہو كر سوے حبشہ روانہ ہوئے۔ چند دنوں کے بعد حضرت جعفر بن ابو طالب كی سربراہی میں سڑسٹھ اہل ایمان حبشہ كو عازم سفر ہوئے۔ اس طرح مہاجرین كی مجموعی تعداد اكیاسی (یاتراسی، ایك سو نو:ابن جوزی) ہو گئی۔ حضرت ایاس بن بكیرنے حضرت جعفر كی معیت میں حبشہ ہجرت كی۔ابن اسحٰق اور ان كے متبعین ابن ہشام،ابن جوزی اور ابن كثیر نے بكیر برادران كا ذكر ’السّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ‘ میں تو كیا ہے، تاہم مہاجرین حبشہ میں ان كے نام شامل نہیں كیے۔
۶۲۲ء:حضرت ایاس اور ان كے بھائی حبشہ سے مكہ واپس آئے تومسلمانوں كی تعداد بڑھ چكی تھی، جب كہ قریش كاجبر و تشدد بھی روز افزوں تھا۔ آخر كار الله كی طرف سے نبی صلی الله علیہ وسلم كو مدینہ كی طرف ہجرت كرنے كا اذن ہوا۔پہلے مرحلے میں آپ نے صحابہ كومدینہ منتقل ہونے كاحكم دیا۔ حضرت ایاس بن بكیر، حضرت عاقل بن بكیر،حضرت خالد بن بكیر، حضرت عامر بن بكیر اور ان كے تمام گھر والے مدینہ جانے كے لیے حضرت عمر بن خطاب كے بیس افراد پر مشتمل قافلے میں شامل ہو گئے۔ حضرت خنیس بن حذافہ، حضرت زید بن خطاب، حضرت سعید بن زید،حضرت عبداللہ بن سراقہ،حضرت عمرو بن سراقہ،حضرت واقد بن عبداللہ، حضرت خولی بن ابو خولی،حضرت مالك بن ابو خولی اور ان سب كے اہل خانہ ہم راه تھے۔ مكہ میں حضرت ایاس اور ان كے بھائیوں كے گھرمقفل ہو گئے۔
قافلہ ہجرت كے شركا عوالی مدینہ پہنچ كر حضرت رفاعہ بن عبدالمنذركے مہمان ہوئے جوبنو عمرو بن عوف میں رہتے تھے۔سلسلۂ مواخات ہوا تو رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے حضرت حارث بن خزمہ كو حضرت ایاس بن بكیر كا انصاری بھائی قرار دیا۔
مدینہ آنے کے بعد حضرت ایاس نے جنگ بدر، جنگ احد،جنگ خندق،جنگ خیبر اور تمام غزوات میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم كا ساتھ دیا۔
حضرت عفراء بنت عبید واحد صحابیہ تھیں جن كے ساتوں بیٹے،حضرت ایاس ، ان كے تین سگے اور تین سوتیلے بھائی معركۂ فرقان میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم كے ساتھ شریك تھے۔ان میں سے تین ــــــ حضرت عاقل ، حضرت معاذ اورحضرت معوذ ــــــ نے جان كا نذرانہ دے كر جنت میں مقام بنا لیا۔یہ شرف كسی دوسرے اسلامی كنبے كوحاصل نہ ہوا۔ فتح خیبركے بعدنبی صلی الله علیہ وسلم نے خیبر كے قلعوں الشق (بشمول حصن ابی،حصن النزار)اور نطاة (بشمول حصن الصعب، حصن ناعم،حصن الزبیر) كے اموال كوجنگ میں شریك چودہ سو پیادہ اور دو سو گھڑسوار صحابہ میں تقسیم فرمایا۔ہر پیادہ كو ایك ایك حصہ اور گھڑ سوار كو دو دو(تین تین:بروایۃ مكحول) حصے ملے۔حضرت ایاس بن بكیر نے بھی اپنا حصہ وصول كیا۔ a
یہودیوں كو مدینہ سے جلا وطن كرنے كے بعد خلیفۂ دوم حضرت عمر نے وادی القریٰ تقسیم كی تو ایك حصہ حضرت ایاس بن بكیركو دیا۔
حضرت ایاس فتح مصرمیں بھی شریك ہوئے۔
حضرت ایاس نے طویل عمر پائی۔انھوں نے حضرت عثمان كی شہادت سے ایك سال پیش تر ۳۴ھ میں وفات پائی۔
حضرت ایاس كے بیٹے محمدبن ایاس نے حضرت عبدالله بن عباس،حضرت عبدالله بن عمر اور حضرت ابوہریرہ سے حدیث روایت كی ہے۔
مطالعہ مزید:السیرة النبویة(ابن ہشام)،الطبقات الکبریٰ(ابن سعد)،الاستیعاب فی معرفةالاصحاب (ابن عبدالبر)، سیر اعلام النبلاء(ذہبی)،اسد الغابة فی معرفة الصحابة(ابن اثیر)،البدایۃ و النہایۃ (ابن كثیر)، الاصابة فی تمییز الصحابة(ابن حجر)، اصحاب بدر(قاضی سلیمان منصور پوری)۔
____________