HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : رضوان اللہ

البیان: خصائص و امتیازات (۶)


باب سوم

 

اسالیب

     

ہر زبان میں بات کرنے کے متعدد اور متنوع اسالیب ہوتے ہیں اور اُن سے صحیح طور پر واقفیت کلام کے اصل مدعا تک پہنچنے کے لیے بہت زیادہ ضروری ہوتی ہے۔ قرآن کی زبان بھی بہت سے اسالیب سے مزین ہے،اس لیے ہر وہ شخص جو اِس کتاب کا حقیقی علم حاصل کرنا چاہتا ہے، اُس کے لیے لازم ہے کہ وہ اُن کے بارے میں مکمل طور پر آگاہ ہو۔ ہم ان میں سے چند اسالیب کا ذیل میں ذکر کرتے ہیں، مثلاً قرآن کے روابط، محذوفات، اقتضاء ات اور مجازات۔

 روابط

عام بول چال اور تحریروں میں بہت سے روابط کا استعمال کیا جاتا ہے کہ ان سے کلام میں نظم پیدا ہوتا اور وہ منتشر اجزا کے کسی مجموعہ کے بجاے ایک مربوط کلام کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔ یہ روابط قرآن میں بھی جابجا استعمال ہوئے ہیں اور ترجمہ کے کام میں بالعموم ان کا لحاظ کیا جا تا ہے،مگر مسئلہ اُس وقت پیدا ہوتا ہے جب انھیں بیان کرنے کے لیے قرآن کسی قسم کاکوئی لفظ نہیں لاتا۔ اس صورت حال میں اب یہ مترجمین کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ ترجمہ کرتے ہوئے اُن کی پوری طرح سے رعایت رکھیں اورعام قارئین کے لیے اُنھیں بالکل کھول کر بیان کر دیں۔ البیان میں انھیں بیان کرنے کا کس قدر اہتمام کیا گیا ہے، ہم کچھ عنوانات کے تحت اس کی تفصیل کر سکتے ہیں :

۱۔اعتراض

بعض اوقات کلام کے بیچ میں اس طرح کی کوئی بات لائی جاتی ہے جواگرنہ بھی لائی جائے تو کلام کی روانی اور اُس کے معنی میں کوئی خلل واقع نہ ہو۔ اس طرح کی بات کو کلام معترض کہا جاتا ہے۔ یہ بسا اوقات بہت مختصر اور سادہ ہوتی ہے اور ترجمہ میں نہایت آسانی سے اس کا لحاظ کر لیا جا سکتا ہے، مگر اُس وقت بڑی مشکل آن پڑتی ہے جب یہ اتنی سادہ نہیں رہتی اور مزید یہ کہ چند الفاظ کے بجاے ایک بڑے جملے پر مشتمل ہو جاتی ہے، مثال کے طور پر ذیل کی اس آیت میں :

وَاتَّبَعُوْا مَا تَتْلُوا الشَّيٰطِيْنُ عَلٰي مُلْكِ سُلَيْمٰنَ وَمَا كَفَرَ سُلَيْمٰنُ وَلٰكِنَّ الشَّيٰطِيْنَ كَفَرُوْا يُعَلِّمُوْنَ النَّاسَ السِّحْرَ وَمَا٘ اُنْزِلَ عَلَي الْمَلَكَيْنِ بِبَابِلَ هَارُوْتَ وَمَارُوْتَ.  (البقرہ۲: ۱۰۲)
’’اور (پیغمبر کو ضرر پہنچانے کے لیے) اُس چیز کے پیچھے لگ گئے جو سلیمان کی بادشاہی کے نام پر شیاطین پڑھتے پڑھاتے ہیں۔ (یہ اُسے سلیمان کی طرف منسوب کرتے ہیں )، دراں حالیکہ سلیمان نے کبھی کفر نہیں کیا، بلکہ اِس طرح کے شیطانوں نے کفر کیا۔ وہ لوگوں کو جادو سکھاتے تھے۔ اور (اُس چیز کے پیچھے لگ گئے ) جو بابل میں دو فرشتوں، ہاروت و ماروت پر اتاری گئی تھی۔‘‘

اہل کتاب کے بارے میں بیان ہواہے کہ اُن میں سے ایک گروہ کا حال یہ ہے کہ اُنھوں نے اللہ کی کتاب کوپیٹھ پیچھے پھینک دیا اور اُن چیزوں کے پیچھے لگ گئے جو شیاطین، سلیمان علیہ السلام کی بادشاہی کے نام پر پڑھتے پڑھاتے ہیں۔ان کے اس افترا کے بعدقرآن ایک اور چیز کا ذکر کرنا چاہتاہے،مگرہم دیکھتے ہیں کہ اُسے حضرت سلیمان کی طرف کفرکی یہ نسبت ذرا سی دیرکے لیے بھی گوارانہیں ہوتی اوروہ فوری طورپرایک جملۂ معترضہ لاکراس کی سخت طریقے سے نفی کر دیتاہے۔اس کے بعدوہیں سے سلسلۂ کلام کوجوڑتے ہوئے بیان کرتاہے کہ وہ لوگ ایک اور قسم کی چیزکے پیچھے بھی لگ گئے جوخداکے دو فرشتوں،ہاروت و ماروت پراتاری گئی تھی۔سو اس جملۂ معترضہ کی صحیح طور پر رعایت رہے تو واضح ہو جاتا ہے کہ ’وَمَا٘ اُنْزِلَ عَلَي الْمَلَكَيْنِ‘ کا یہ جملہ ’يُعَلِّمُوْنَ النَّاسَ السِّحْرَ‘ پر معطوف ہونے یا اگلی بات کی تمہید ہونے کے بجاے ’مَا تَتْلُوا الشَّيٰطِيْنُ ‘ پر عطف ہے، یعنی وہ اُس چیز کے پیچھے بھی لگ گئے جو شیاطین پڑھتے پڑھاتے ہیں اور اُس کے بھی جو بابل میں ہاروت اور ماروت پر نازل کی گئی۔ البیان میں اسی تالیف کے مطابق ترجمہ کیا گیا ہے اور جملۂ معترضہ کے بعد آنے والے کلام کے ربط کو واضح کرنے کے لیے یہ جملہ بھی لکھ دیا گیا ہے: ’’اور (اُس چیز کے پیچھے لگ گئے)۔‘‘

 یہ کلام معترض بعض اوقات ایک بڑے جملے کے بجاے پورے پیرے یا طویل سلسلۂ کلام پر مشتمل ہو جاتا ہے:

يَسْـَٔلُكَ اَهْلُ الْكِتٰبِ اَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتٰبًا مِّنَ السَّمَآءِ. (النساء۴: ۱۵۳)
’’یہ اہل کتاب تم سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ (اِس قرآن کے بجاے) اِن پر براہ راست آسمان سے ایک کتاب اتارلاؤ۔‘‘

اہل کتاب کی طرف سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ قرآن کے بجاے اُن پر آسمان سے براہ راست کوئی کتاب اُتار کے لائی جائے۔ اس کے جواب میں فرمایا ہے کہ قیامت سے پہلے ان میں سے ہر کوئی اِس قرآن پر یقین کرلے گا۔ مگر دیکھ لیا جا سکتا ہے کہ اُن کے مطالبے کا یہ جواب فوری طور پر دینے کے بجاے آیت ۱۵۹میں جا کر دیا ہے اور ان کے بیچ میں کوئی ایک آدھ جملہ نہیں، بلکہ اُن کے بہت سے گھناؤنے جرائم کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔ ظاہر ہے، عام قارئین کے لیے یہ ہرگز آسان نہیں ہے کہ وہ اس قدر طویل اعتراضیہ کلام کا اِدراک کرتے ہوئے اہل کتاب کے مطالبے اور اُنھیں دیے گئے جواب کے باہمی تعلق کوکسی طرح سے سمجھ سکیں۔سو البیان میں آیت ۱۵۹ کے ترجمہ سے پہلے قوسین کے اندر ربط کے چند جملے لا کراس تعلق کو بالکل آسان طریقے سے سمجھا دیا گیا ہے:

وَاِنْ مِّنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ اِلَّا لَيُؤْمِنَنَّ بِهٖ قَبْلَ مَوْتِهٖ. (النساء۴: ۱۵۹)
’’(یہ ان کے جرائم ہیں،اس لیے اب قرآن کے سوا یہ براہ راست آسمان سے اتری ہوئی کسی کتاب کا مطالبہ کر رہے ہیں تو اِن کی پروانہ کرو، اے پیغمبر) اِن اہل کتاب میں سے ہرایک اپنی موت سے پہلے اِسی (قرآن) پریقین کرلے گا۔‘‘

یہاں ضمنی طور پر یہ بات بھی سمجھ لینی چاہیے کہ جملۂ معترضہ کی ابتدا اور اس کی انتہا کیا ہے؟ ان دونوں امور کا طے کرنا بھی بعض مقامات پر گہرے غور و خوض کا متقاضی ہوتا ہے، جیسا کہ اس آیت میں :

فَلَمَّا وَضَعَتْهَا قَالَتْ رَبِّ اِنِّيْ وَضَعْتُهَا٘ اُنْثٰيﵧ وَاللّٰهُ اَعْلَمُ بِمَا وَضَعَتْﵧ وَلَيْسَ الذَّكَرُ كَالْاُنْثٰيﵐ وَاِنِّيْ سَمَّيْتُهَا مَرْيَمَ وَاِنِّيْ٘ اُعِيْذُهَا بِكَ وَذُرِّيَّتَهَا مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ.(آل عمران۳: ۳۶)
’’پھر جب اُس نے اُس کو جنا تو بولی کہ پروردگار، یہ تومیں نے لڑکی جن دی ہے  ــــــ اور جو کچھ اُس نے جنا تھا، اللہ کو اُس کا خوب پتا تھا  ــــــ اور (بولی کہ ) وہ لڑکا اِس لڑکی کی طرح نہ ہوتا۔ (خیر اب یہی ہے) اور میں نے اِس کا نام مریم رکھ دیا ہے اور اِس کو اور اِس کی اولاد کو میں شیطان مردود سے تیری پناہ میں دیتی ہوں۔‘‘

بہت سے مترجمین نے ’وَاللّٰهُ اَعْلَمُ بِمَا وَضَعَتْ ‘اور ’وَلَيْسَ الذَّكَرُ كَالْاُنْثٰي‘،ان دونوں جملوں کو اعتراض قرار دیتے ہوئے ان کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کی ہے۔ اس کے مقابلے میں البیان میں صرف پہلے جملے کو اعتراضیہ مانا گیا اور دوسرے کو والدۂ مریم ہی کی بات کا ایک حصہ قرار دیا گیا ہے۔ اس کے چند ایک وجوہ ہیں :ایک یہ کہ پہلاجملہ سیدہ مریم کی والدہ کے احساس کہتری پر خدا کی طرف سے برمحل اور برسر موقع کیا جانے والا تبصرہ ہے۔ اگر دوسرا جملہ بھی خداکاکلام مان لیاجائے توجس مقصدسے پہلاجملہ بولاگیا،وہ بھی کم زورہوتا دکھائی دیتا ہے۔ مطلب یہ ہو جاتا ہے کہ اللہ جانتا ہے جو اُس نے جنا ہے،مگر لڑکا اور لڑکی، بہرحال برابر نہیں ہوسکتے۔دوسرے یہ کہ اگراس دوسرے جملے کوبھی معترضہ مان لیاجائے تو والدۂ مریم کی بات میں آنے والے فطری ارتقا میں ایک طرح کا خلل واقع ہوتا ہے اور مزید یہ کہ ’وَاِنِّيْ سَمَّيْتُهَا مَرْيَمَ‘                                                  کا جملہ بھی اپنی اُٹھان میں کسی موثر تمہید سے بالکل محروم ہو کر رہ جاتا ہے۔

۲۔                           اِستدراک

کسی شخص کی اصلاح کرنے،اُس کے شبہ کو دور کرنے یاا ُس کی بات کی تائید یا خود اپنی بات کی تفصیل بیان کرنے یا اسی طرح کی کسی اور غرض سے کلام میں برسر موقع کوئی بات لائی جاتی ہے۔ اس عمل کو اصطلاح میں اِستدراک کرنا کہتے ہیں۔ ترجمے میں بہت سے مقامات پر ضرورت ہوتی ہے کہ اس عمل کو اور مستدرک اور مستدرک منہ کے باہمی ربط کو اچھی طرح سے واضح کر دیا جائے۔ مثلاً، ذیل کی آیت کے شروع میں سرے سے کوئی حرف استدراک ہی نہیں آیا۔ محض اس کے مضمون اور محل سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ یہاں کس لحاظ سے آیا ہے:

اِنَّ اللّٰهَ لَا يَظْلِمُ النَّاسَ شَيْـًٔا وَّلٰكِنَّ النَّاسَ اَنْفُسَهُمْ يَظْلِمُوْنَ. (یونس۱۰: ۴۴)
’’حقیقت یہ ہے کہ اللہ لوگوں پر ذرا بھی ظلم نہیں کرتا، بلکہ لوگ خود ہی اپنی جانوں پر ظلم ڈھاتے ہیں۔‘‘

اگر پچھلی آیتوں کا مطالعہ کیا جائے تو ذہن میں ایک بات کھٹک پیدا کرتی ہے کہ آخر کیوں بہت سے لوگ حق کے مقابلے میں اس طرح اندھے بہرے ہو جاتے ہیں کہ بالآخر عذاب کے مستحق ہو کر رہتے ہیں ؟اس پر استدراک کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ اللہ نے ان پر کوئی ظلم ڈھایا ہے،بلکہ یہ اُن کا اپنا رویہ ہے جس کی وجہ سے وہ عذاب کے مستحق ہو گئے ہیں۔البیان میں اس استدراک کو پہلے تو سمجھا گیا اور اس کے بعد اسے نمایاں کرنے کے لیے جملے کی ابتدا’’ بے شک‘‘ یا ’’یقیناً‘‘ وغیرہ کے الفاظ سے کرنے کے بجاے ’’حقیقت یہ ہے ‘‘کے الفاظ سے کی گئی ہے۔

بعض مقامات پر ضروری ہوتا ہے کہ استدراک کے مضمون کو بھی سمجھا جائے اور اس کی اس حیثیت کوواضح کرنے کے لیے کچھ مزیدوضاحت بھی کردی جائے:

بَلٰي مَنْ اَوْفٰي بِعَهْدِهٖ وَاتَّقٰي فَاِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الْمُتَّقِيْنَ. (آل عمران۳: ۷۶)
’’ہاں، کیوں نہیں ؟(اللہ کا طریقہ تویہ ہے کہ) جو اُس کے عہد کو پورا کر ے اور پرہیز گار رہے، وہ اُسے محبوب ہے، اِس لیے کہ اللہ پرہیز گاروں سے محبت کرتا ہے۔ ‘‘

پچھلی آیت میں یہود کا یہ زعم نقل ہوا ہے کہ امیوں کا مال باطل طریقے سے کھانے میں ان پر کوئی الزام نہیں ہے۔ فرمایا ہے: ان پرکیوں الزام نہیں ہے؟ اس کے بعد اُن کی اس بات پر استدراک کرتے ہوئے فرمایا ہے:’مَنْ اَوْفٰي بِعَهْدِهٖ وَاتَّقٰي‘۔دیکھ لیا جا سکتا ہے کہ اس آیت کا محض لفظی ترجمہ استدراک کے پہلو کو کسی طرح بھی واضح نہیں کر پاتا۔ البیان میں اسے قابل فہم بنانے کے لیے ’بَلٰي‘ کے ترجمہ کے بعد اور قوسین کے اندر یہ الفاظ بھی لائے گئے ہیں :’’اللہ کا طریقہ تو یہ ہے کہ‘‘۔

ذیل کی آیت میں حرف استدراک تو آیا ہے،مگر جس بات پر یہ آیا ہے،وہ لفظوں میں بالکل بھی بیان نہیں ہوئی:

لٰكِنِ اللّٰهُ يَشْهَدُ بِمَا٘ اَنْزَلَ اِلَيْكَ اَنْزَلَهٗ بِعِلْمِهٖﵐ وَالْمَلٰٓئِكَةُ يَشْهَدُوْنَﵧ وَكَفٰي بِاللّٰهِ شَهِيْدًا. (النساء۴: ۱۶۶)
’’(یہ جھٹلاتے ہیں تو جھٹلائیں )، مگر اللہ گواہی دیتا ہے کہ اُس نے جو کچھ تمھاری طرف نازل کیا ہے، اُس کو اپنے علم کے ساتھ نازل کیا ہے، اور اُس کے فرشتے بھی گواہی دیتے ہیں اور گواہی کے لیے تو اللہ ہی کافی ہے۔‘‘

اس آیت میں حرف ’لٰكِنْ‘ لایا گیا ہے جو اس جملے کا مستدرک ہونا بہ خوبی واضح کر رہا ہے۔ لیکن یہ استدراک کس بات پرہواہے، غورکیاجائے تووہ بات لفظوں میں مذکورہونے کے بجاے اوپرکی آیتوں سے صرف مفہوم ہورہی ہے۔ مترجمین کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس مفہوم ہونے والی بات کولفظوں میں کھول کر بیان کردیں،جیساکہ البیان میں اُسے حرف استدراک سے پہلے قوسین کے اندراس طرح بیان کیاگیا ہے: ’’(یہ جھٹلاتے ہیں تو جھٹلائیں)، مگراللہ گواہی دیتاہے کہ ‘‘۔

۳۔تضمین

قرآن میں بار ہا کوئی اصولی بات،ماضی کی حکایت یا مستقبل کا کوئی واقعہ بیان ہو تا ہے اور اس کے بعد چند جملے لا کر اُسے حال کی شخصیات سے بھی متعلق کر دیا جاتا ہے۔ اسے اصطلاح میں تضمین کا اسلوب کہتے ہیں۔ عام طور پر تراجم میں اسے یک سر نظر انداز کر دیا جاتا ہے، مگر ہم دیکھتے ہیں کہ البیان میں اس کے بارے میں خصوصی اہتمام پایا جاتا اور اسے بیان کرنے اور باقی کلام کے ساتھ اس کے ربط کو واضح کرنے کے لیے ترجمے میں اضافی الفاظ بھی لائے جاتے ہیں۔جیسا کہ اس آیت میں :

الَّذِيْنَ يَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ وَيَبْغُوْنَهَا عِوَجًاﵐ وَهُمْ بِالْاٰخِرَةِ كٰفِرُوْنَ. (الاعراف۷: ۴۵)
’’ ـــــ  (فرمایا): اِن پر جو (آج) اللہ کی راہ سے روکتے اور اُس میں کجی پیدا کرنا چاہتے ہیں اور آخرت کے منکر ہیں۔ ‘‘

جنت کے لوگ دوزخ والوں سے سوال کریں گے اوروہ جواب میں جب اعتراف کریں گے تو ایک منادی پکار کر کہے گا کہ خدا کی لعنت اِن ظالموں پر۔ اس کے بعد مذکورہ بالاجملہ ارشاد ہوا ہے، اور عام طور پر اسے بھی منادی کے اعلان کا ایک حصہ سمجھ کر ترجمہ کیا گیا ہے۔ اس کے برخلاف، البیان میں اسے اللہ کی طرف سے تضمین مانا گیا ہے، اور اس بات کی وضاحت کے لیے اس جملے سے پہلے ایک بڑا ڈیش اور پھر قوسین کے اندر ’’فرمایا‘‘ کا لفظ لایا گیا ہے۔ اس تضمین کا فائدہ یہ ہوا ہے کہ آخرت میں منادی کرنے والے کی بات ہر طرح سے مطابق حال ہو گئی،یعنی قریش کے اوپربالکل منطبق ہوگئی ہے کہ وہ ظالم اصل میں یہی ہیں جو آج لوگوں کو اللہ کی راہ سے روک رہے، اُس میں کجی پیدا کرنا چاہتے اور آخرت کے انکاری ہیں۔

 تضمین کے بارے میں یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ اس کی پہچان جس طرح جملے کی ساخت سے ہوتی ہے،اسی طرح اس میں آنے والے الفاظ،اُن کی شان اوراُن کے معیارسے بھی ہوتی ہے۔مثال کے لیے ذیل کے دومقامات دیکھ لیے جائیں :

الَّذِيْ جَعَلَ لَكُمُ الْاَرْضَ مَهْدًا وَّسَلَكَ لَكُمْ فِيْهَا سُبُلًا وَّاَنْزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءًﵧ فَاَخْرَجْنَا بِهٖ٘ اَزْوَاجًا مِّنْ نَّبَاتٍ شَتّٰي. كُلُوْا وَارْعَوْا اَنْعَامَكُمْﵧ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّاُولِي النُّهٰي. مِنْهَا خَلَقْنٰكُمْ وَفِيْهَا نُعِيْدُكُمْ وَمِنْهَا نُخْرِجُكُمْ تَارَةً اُخْرٰي. (طٰہٰ۲۰: ۵۳- ۵۵)
’’موسیٰ نے جواب دیا: اُن کاعلم میرے پروردگار کے پاس ایک نوشتے میں محفوظ ہے۔میرا رب نہ بھٹکتا ہے، نہ بھولتا ہے  ــــــ وہی جس نے زمین کو تمھارے لیے گہوارہ بنایا اور اُس میں تمھارے لیے راہیں نکال دیں اور آسمان سے پانی برسایا، پھر اُس سے ہم نے مختلف نباتات کی گوناگوں قسمیں پیدا کر دیں۔ کھاؤ اور اپنے مویشیوں کو چراؤ۔ اِس کے اندر عقل والوں کے لیے، یقیناً بڑی نشانیاں ہیں۔ (تم اگر سمجھو تو حقیقت یہ ہے کہ) ہم نے اِسی زمین سے تم کو پیدا کیا ہے، ہم اِسی میں تم کو لوٹائیں گے اور اِسی سے تم کو دوبارہ نکال کھڑا کریں گے۔‘‘

سیدنا موسیٰ ؑ نے فرعون کے سامنے جب اپنا مطالبہ رکھا تو اُس نے کہا کہ اچھا تم یہ بتاؤ کہ اگلی قوموں کا کیا حال ہے؟ آپ نے جواب دیا کہ اُن کے بارے میں خدا ہی بہتر جانتا ہے اور وہ بھول چوک سے بالکل پاک ہے۔ اس کے بعد آیت ۵۳سے ۵۵ تک خدا کی طرف سے تضمین ہے اور اس بات کی دلیل جمع متکلم کے صیغوں میں بیان ہونے والی چیزیں ہیں کہ جن کی قدرت خدا کے سوا کسی اور ذات میں فرض بھی نہیں کی جاسکتی۔

اَلَّا يَسْجُدُوْا لِلّٰهِ الَّذِيْ يُخْرِجُ الْخَبْءَ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَيَعْلَمُ مَا تُخْفُوْنَ وَمَا تُعْلِنُوْنَ. اَللّٰهُ لَا٘ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيْمِ. (النمل۲۷: ۲۵- ۲۶)
’’(یقیناً شیطان ہی نے روک دیا ہے) کہ وہ اللہ کو سجدہ نہ کریں جو زمین اور آسمانوں کی چھپی ہوئی چیزوں کونکالتا ہے اور جانتا ہے جو کچھ تم چھپاتے ہو اور جو کچھ ظاہر کرتے ہو۔ اللہ کہ اُس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہی عرش عظیم کا مالک ہے۔‘‘

سیدناسلیمان ؑکے لشکرکا پرندہ ہدہد ملک سباکی خبریں دیتے ہوئے بتا رہا ہے کہ وہاں لوگ سورج کو سجدہ کرتے ہیں اور شیطان نے اُن کے یہ اعمال اُن کے لیے خوش نما بنا دیے ہیں اور اس طرح انھیں صحیح راستے سے روک دیاہے۔اس کے بعدآیت۲۵اور ۲۶ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک تضمین ہے، اس لیے کہ شان کلام اور ’مَا تُخْفُوْنَ وَمَا تُعْلِنُوْنَ ‘کے صیغہ ہاے خطاب، دونوں بتا رہے ہیں کہ اس بات کا صدور ہدہد کے بجاے خدا ہی کی طرف سے موزوں ہو سکتا ہے۔ البیان میں اس تضمین کاربط پچھلی بات سے واضح کرنے کے لیے یہ کوشش ہوئی ہے کہ اس کے شروع میں قوسین کے اندر یہ جملہ لکھ دیا گیا ہے: ’’یقیناً شیطان ہی نے روک دیا ہے‘‘۔

۴۔تقابل

قرآن میں تقابل کے اسلوب کے تحت اکثر دو متقابل چیزوں کابیان کیا جاتا ہے۔ مثلاً جنت اور اصحاب جنت کابیان ہو رہاہوگا اور اس کے ساتھ دوزخیوں کے احوال بھی بیان کر دیے جائیں گے۔ مومنین اور صالحین کے اوصاف بیان ہو رہے ہوں گے تو اس کے بعد منکرین اور فاسقین کے کردار اور اُن کے رویوں پربھی تبصرہ کر دیا جائے گا۔ اس طرح کے مواقع پر قرآن میں بالعموم’’واو‘‘کا حرف استعمال ہوتا ہے جسے دیگر ترجموں میں ’’اور‘‘ سے ادا کر دیا جاتا ہے۔ مگر اس کے لیے البیان میں تقابل کوواضح کرنے والے خصوصی الفاظ لائے جاتے ہیں، جیسا کہ اس آیت میں :

وَالَّذِيْنَ اجْتَنَبُوا الطَّاغُوْتَ اَنْ يَّعْبُدُوْهَا وَاَنَابُوْ٘ا اِلَي اللّٰهِ لَهُمُ الْبُشْرٰي. (الزمر۳۹: ۱۷)

’’اس کے برخلاف جوشیطان سے بچے کہ اُس کی بندگی کریں اور اللہ کی طرف متوجہ رہے، اُن کے لیے خوش خبری ہے۔‘‘

پچھلی آیتوں میں مشرکین کے لیے اُخروی خسارے اورانھیں دی جانے والی سزا کا بیان ہوا ہے، اس کے بعد ’وَالَّذِيْنَ اجْتَنَبُوا الطَّاغُوْتَ ‘سے اُس گروہ کا ذکر فرمایا ہے جو اِن کے مقابلے میں شیطان کی عبادت سے بچے رہے اوراللہ ہی کی طرف متوجہ رہے۔یہ آیت چونکہ تقابل کے اسلوب پرآئی ہے،اس لیے پچھلی آیت سے اس کاربط واضح کرنے کے لیے البیان میں ’’واو‘‘کاترجمہ ’’اس کے برخلاف ‘‘ کے لفظوں میں کیا گیا ہے۔

 بعض اوقات تقابل کے جملوں کی ابتدا میں ’’واو‘‘جیسا کوئی حرف بھی نہیں ہوتاکہ ہم اس اسلوب کو آسانی سے پہچان سکیں۔ چنانچہ اس طرح کے مقامات پر ضروری ہوتاہے کہ ہم جملے کے مضمون اور اُس کے محل پر اچھی طرح سے غور و خوض کرلیں۔مثلاً یہ آیت:

قَالَ الَّذِيْنَ غَلَبُوْا عَلٰ٘ي اَمْرِهِمْ لَنَتَّخِذَنَّ عَلَيْهِمْ مَّسْجِدًا. (الکہف۱۸: ۲۱)
’’اس کے برخلاف جن لوگوں کی راے اُن کے معاملے میں غالب رہی، اُنھوں نے کہا: ہم تو اِن کے غار پر ایک مسجد بنائیں گے۔‘‘

جب اصحاب کہف کامعاملہ لوگوں کے سامنے کھل گیا تو وہ ان کے بارے میں بحث کرنے لگے۔ بعض نے کہاکہ اِن کے غارپر ایک عمارت بنا دی جائے اور ان کے زیادہ درپے نہ ہوا جائے۔اس کے بعدفرمایا: ’قَالَ الَّذِيْنَ غَلَبُوْا عَلٰ٘ي اَمْرِهِمْ‘۔جن کی راے اس معاملے میں غالب رہی انھوں نے کہا کہ ہم اِن کے غار پر مسجد بنائیں گے۔ دیکھ لیا جاسکتا ہے کہ یہ جملہ بغیر کسی حرف تقابل کے لایا گیا ہے، مگر بحث کے موقع پراس کا ذکر ایک فریق کی بات کے بعد آنا اور اس میں بیان ہونے والا اُن سے مختلف موقف، دونوں بتا رہے ہیں کہ یہ پچھلے جملے کے تقابل میں یہاں آیا ہے۔

۵۔تعلیل

عربی زبان میں تعلیل کے مقصد سے کچھ حروف، جیسا کہ ’’ف‘‘ اور ’’لام تعلیل‘‘ وغیرہ جملہ کے شروع میں لائے جاتے ہیں ۔ مترجمین عام طور پر ان کا صحیح ادراک رکھتے اور اردو میں انھیں ٹھیک طرح سے ادا کر دیتے ہیں۔لیکن وہ  مقامات اس تعلیل کو سمجھ لینے کے اعتبار سے کچھ مشکل ہوتے ہیں جہاں اس مقصد کے لیے معروف حرف سے ہٹ کر کسی اور حرف سے جملہ شروع کیا جاتا ہے، مثال کے طور پراس آیت میں :

فَلَمَّا٘ اَلْقَوْا قَالَ مُوْسٰي مَا جِئْتُمْ بِهِ السِّحْرُﵧ اِنَّ اللّٰهَ سَيُبْطِلُهٗﵧ اِنَّ اللّٰهَ لَا يُصْلِحُ عَمَلَ الْمُفْسِدِيْنَ. (یونس۱۰: ۸۱)
’’پھرجب اُنھوں نے ڈالاتوموسیٰ نے کہا: یہ جو کچھ تم لائے ہو، یہ جادو ہے۔ یقین رکھو، اللہ ابھی اِسے باطل کیے دیتا ہے، اِس لیے کہ(اللہ اِس طرح کے موقعوں پر) فساد کرنے والوں کے کام کو سدھرنے نہیں دیتا۔‘‘

البیان کے اس ترجمہ میں دیکھ لیا جا سکتا ہے کہ ’اِنَّ‘ کا حرف جو بالعموم تاکید کے لیے آتا ہے اور ’اِنَّ اللّٰهَ سَيُبْطِلُهٗ ‘کے جملے میں بھی تاکید کے لیے آیا ہے، اس کے بعد والے جملے ’اِنَّ اللّٰهَ لَا يُصْلِحُ عَمَلَ الْمُفْسِدِيْنَ ‘میں تعلیل کے لیے آگیا ہے۔ اسے تعلیل کا حرف قرار دینے کی وجہ یہ ہے کہ پہلے جملے میں ’’س‘‘ کا استعمال ہوا ہے، اس لیے اُس کا ترجمہ تو مستقبل میں کرنا ہی درست ہو گا ،مگر اگلا جملہ ’’س‘‘ کے بغیر ہے اور اس میں ایک قاعدہ اور کلیہ کی سی شان بھی پائی جاتی ہے، اس لیے ان دونوں کا ترجمہ ایک جیسا کرنا کچھ زیادہ موزوں نہیں ہے۔ دوسرے یہ کہ اگر اسے بھی تاکید کا مان لیا جائے تو اس صورت میں یہ دوسرا جملہ ایک طرح کا حشو اور تکرار محسوس ہوتا ہے، یعنی ’’اللہ یقیناً اسے باطل کر دے گا اور وہ یقیناً فسادیوں کا کام سدھرنے نہیں دے گا‘‘۔ سو البیان میں اسے تعلیل کا قرار دیا گیا اور اس کا ترجمہ یوں کیا گیا ہے: ’’اس لیے کہ(اللہ اِس طرح کے موقعوں پر)فساد کرنے والوں کے کام کو سدھرنے نہیں دیتا۔‘‘

اِنَّ‘ سے شروع ہونے والا جملہ تعلیل کے لیے آیا ہے، بعض اوقات یہ بات تو معلوم ہوتی ہے ،مگر یہ کس چیز کی تعلیل کر رہا ہے ،یہ بات کسی طرح سے واضح نہیں ہو پاتی۔ اس طرح کے مواقع پر ضروری ہوتا ہے کہ ’اِنَّ‘ کا ترجمہ کرنے سے پہلے کوئی نہ کوئی جملہ لا کر اس امر کی وضاحت کر دی جائے:

فَاِذَا اطْمَاْنَنْتُمْ فَاَقِيْمُوا الصَّلٰوةَﵐ اِنَّ الصَّلٰوةَ كَانَتْ عَلَي الْمُؤْمِنِيْنَ كِتٰبًا مَّوْقُوْتًا. (النساء۴: ۱۰۳)
’’ لیکن جب اطمینان میں ہو جاؤ تو اہتمام کے ساتھ پوری نماز پڑھو (اور اِس کے لیے جو وقت مقرر ہے، اُس کی پابندی کرو)، اِس لیے کہ نماز مسلمانوں پر وقت کی پابندی کے ساتھ فرض کی گئی ہے۔‘‘

خوف کی حالت طاری ہو تو پہلے نمازمیں تخفیف کرنے کی اجازت دی گئی اور اس کے بعد فرمایا کہ جب اطمینان کی حالت میں آجاؤ تو اہتمام کے ساتھ پوری نماز پڑھو۔ اس کے بعد فرمایا ہے: ’اِنَّ الصَّلٰوةَ كَانَتْ عَلَي الْمُؤْمِنِيْنَ كِتٰبًا مَّوْقُوْتًا ‘۔یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ پیچھے نماز کی مقدار اور اُس کی ہیئت زیربحث آئی ہے، مگر یہ تعلیل وقت کا بیان کیوں کر رہی ہے اوریوں اس آیت کا پچھلی سار ی بات سے آخر ربط کیا ہے؟ غور کیا جائے تو اس سوال کاجواب خود تعلیل کے الفاظ میں موجود ہے جو اپنے معلل کے بارے میں وضاحت کر رہے ہیں کہ وہ یقینی طور پر اوقات کی پابندی کے مضمون پر مشتمل ہے۔ سو یہی وجہ ہے کہ البیان میں اس مقام کا ترجمہ اس طرح کیاگیا ہے: ’’(اور اس کے لیے جووقت مقررہے،اُس کی پابندی کرو)،اس لیے کہ ‘‘۔

قرآن میں بہت سے مقامات پرتعلیل کے اس ’اِنَّ‘ کو ایک اور طریقے سے بھی استعمال کیا جاتا ہے اور ہمارے خیال میں اس نادر اسلوب کی صحیح واقفیت صرف البیان میں ملتی ہے۔ یہ اسلوب اس طرح ہوتاہے کہ ’اِنَّ‘ پرحرف ’’ف‘‘ لایا جاتا ہے جس میں ایک مُعَلَّل موجود مانا جاتا ہے اور یہ ’اِنَّ‘ اصل میں اُسی کی تعلیل کر رہا ہوتا ہے۔ مثال کے لیے یہ آیت دیکھ لی جا سکتی ہے:

وَاِنْ عَزَمُوا الطَّلَاقَ فَاِنَّ اللّٰهَ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌ. (البقرہ۲: ۲۲۷)
’’اور اگر طلاق کا فیصلہ کرلیں تو اللہ سے ڈرتے ہوئے کریں ، اس لیے کہ اللہ سمیع وعلیم ہے۔‘‘

عام طور پر تراجم میں اس ’فَاِنَّ ‘ کو ’’تو‘‘ سے ادا کر دیا جاتا ہے اور ظاہر ہے کہ اس سے قارئین کے سامنے اس کا تعلیل ہونا اور اس طرح پچھلی مقدر بات سے مربوط ہونا ہرگز واضح نہیں ہوتا۔ البیان میں اس طرح کے مواقع پر بالعموم ’’تو‘‘ کے بعد ایک مقدر جملہ نکالا جاتا اور اس کے بعد ’’اس لیے‘‘ کے ساتھ اس کی تعلیل بیان کی جاتی ہے۔ جیساکہ اس آیت میں ’’تو‘‘ کے بعد ’’اللہ سے ڈرتے ہوئے کریں ‘‘نکالا گیا اور اس کے بعد ’’اس لیے‘‘ سے تعلیل کا بیان شروع کیا گیا۔

یہ تمام مثالیں اُن مقامات کی ہیں جہاں تعلیل کوبیان کرنے کے لیے کوئی نہ کوئی حرف بہرحال موجود ہوتا ہے۔ قرآن میں بعض مقامات ایسے بھی ہیں جہاں اس طرح کاکوئی حرف سرے سے موجودنہیں ہوتا اور محض جملے کاباقی کلام سے معنوی ربط اُس کے تعلیل ہونے کا تقاضا کر رہا ہوتا ہے:

يُضٰعَفُ لَهُمُ الْعَذَابُﵧ مَا كَانُوْا يَسْتَطِيْعُوْنَ السَّمْعَ وَمَا كَانُوْا يُبْصِرُوْنَ. (ہود۱۱: ۲۰)
’’اُنھیں اب دہرا عذاب دیا جائے گا۔ اس لیے کہ نہ سن سکتے تھے اور نہ دیکھتے تھے۔‘‘

پہلے جملے میں مشرکین کا انجام بیان فرمایا ہے کہ آخرت میں انھیں دہرا عذاب دیا جائے گا۔ اس کے بعد فرمایا ہے :’مَا كَانُوْا يَسْتَطِيْعُوْنَ السَّمْعَ وَمَا كَانُوْا يُبْصِرُوْنَ ‘۔یہ جملہ کسی حرف تعلیل کے بغیر آیا ہے اور بادی النظرمیں کوئی حسرت آمیز تبصرہ سا محسوس ہوتا ہے۔ مگر پچھلے جملے کے ساتھ اس کے باہمی ربط پر ذرا سا غورکریں تو واضح ہو جاتا ہے کہ اس کے یہاں اس طرح سے آنے ہی نے اس کے اندر تعلیل کی شان پیدا کر دی ہے۔ چنانچہ البیان میں ضروری سمجھا گیا ہے کہ اس تعلیل کو نمایاں کرنے کے لیے یہاں ’’اس لیے‘‘ کے الفاظ لائے جائیں ۔

تعلیل کی اس بحث کے آخرمیں ایک اور خوب صورت مثال بھی سامنے رہنی چاہیے۔ کئی مقامات پر ہم دیکھتے ہیں کہ تعلیل کافی حد تک طویل ہوتی ہے، اس لیے مترجمین کی گرفت میں نہیں آپاتی اور خاص کر اُس صورت میں جب اِس کا معلل لفظوں میں مذکور ہونے کے بجاے صرف کلام سابق سے مفہوم ہو رہا ہو:
كَانَ النَّاسُ اُمَّةً وَّاحِدَةًﵴ فَبَعَثَ اللّٰهُ النَّبِيّٖنَ مُبَشِّرِيْنَ وَمُنْذِرِيْنَﵣ وَاَنْزَلَ مَعَهُمُ الْكِتٰبَ بِالْحَقِّ لِيَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ فِيْمَا اخْتَلَفُوْا فِيْهِﵧ وَمَا اخْتَلَفَ فِيْهِ اِلَّا الَّذِيْنَ اُوْتُوْهُ مِنْۣ بَعْدِ مَا جَآءَتْهُمُ الْبَيِّنٰتُ بَغْيًاۣ بَيْنَهُمْﵐ فَهَدَي اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لِمَا اخْتَلَفُوْا فِيْهِ مِنَ الْحَقِّ بِاِذْنِهٖﵧ وَاللّٰهُ يَهْدِيْ مَنْ يَّشَآءُ اِلٰي صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍ. (البقرہ۲: ۲۱۳)
’’(اپنی منافقت کے لیے یہ اختلافات کو بہانہ بناتے ہیں۔ اِنھیں معلوم ہونا چاہیے کہ) لوگ ایک ہی امت تھے۔ پھر (اُن میں اختلاف پیدا ہوا تو) اللہ نے نبی بھیجے ، بشارت دیتے اور انذار کرتے ہوئے اور اُن کے ساتھ قول فیصل کی صورت میں اپنی کتاب نازل کی تاکہ لوگوں کے درمیان وہ اُن کے اختلافات کا فیصلہ کر دے۔ یہ جن کو دی گئی ، اِس میں اختلاف بھی اُنھی لوگوں نے کیا ، نہایت واضح دلائل کے اُن کے سامنے آ جانے کے بعد ، محض آپس کے ضدم ضدا کی وجہ سے۔ پھر یہ جو (قرآن کے) ماننے والے ہیں ، اللہ نے اپنی توفیق سے اُس حق کے بارے میں اِن کی رہنمائی کی جس میں یہ اختلاف کر رہے تھے۔ اور اللہ جس کو چاہتا ہے، (اپنے قانون کے مطابق) سیدھی راہ کی ہدایت عطا فرماتا ہے ۔ ‘‘

اوپر کی آیات میں مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ سب یک سو ہو کر اسلام میں داخل ہو جائیں۔ اس پر بعض لوگوں کے ذہن میں اپنی منافقت کے جواز میں اس دلیل کا پیدا ہو جانا بالکل قرین قیاس ہے کہ جب خود حق و باطل میں اختلاف پایا جاتا ہے تو اس کے ہوتے ہوئے ہم کس طرح یک سو ہو کر کھڑے ہو سکتے ہیں ؟چنانچہ ہمیں اس معاملے میں کوئی حتمی بات کہنے کے بجاے غیر جانب داری کا رویہ اپنانا چاہیے۔ یہ دلیل ہے جس کا جواب زیرنظر آیت میں دیا گیا ہے کہ یہ جن اختلافات کا حوالہ دے رہے ہیں ،وہ قدرتی امرنہیں ہیں ،بلکہ سب لوگ شروع میں ایک ہی دین پر تھے ،اور اس میں اختلافات حق کے آجانے کے بعد اور باہمی ضدم ضدا کی وجہ سے پیدا ہوئے ہیں ۔دیکھ لیا جاسکتا ہے کہ یہ تعلیل پورے ایک پیرے پر مشتمل ہے اور اس کا معلل بھی لفظوں میں مذکورنہیں ہے ،بلکہ یہ پورے سلسلۂ کلام کو غور سے پڑھ لینے کے بعد ہی سامنے آتا ہے۔ البیان میں اسے آیت کے شروع میں اور قوسین کے اندر کھول دیا گیا ہے کہ اس کے بغیر معلل اور معلل بہ کے باہمی ربط کو سمجھ لینا نہایت مشکل ہے۔

۶۔عود علی البدء

قرآن میں ہم دیکھتے ہیں کہ ایک بات شروع ہوتی ہے اور اس کے بعد اس کی متعلقہ تفصیلات کو بیان کیا جاتا اور پھر دوبارہ سے اصل بات کی طرف رجوع کیا جاتا ہے۔ یہ اصل میں عود علی البدء کا اسلوب ہے اور اس سے مقصود پہلی بات کو مزید موکد کرنا، اُس پر پھر سے توجہ مبذول کرانا یا اس جیسے دیگر فوائد کو حاصل کرنا ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر:

وَلَا تَجْعَلْ مَعَ اللّٰهِ اِلٰهًا اٰخَرَ فَتُلْقٰي فِيْ جَهَنَّمَ مَلُوْمًا مَّدْحُوْرًا. (بنی اسرائیل۱۷: ۳۹)
’’اور (ایک مرتبہ پھر سن لو کہ) اللہ کے ساتھ کسی اور کو معبود نہ بناؤ کہ راندہ اور ملامت زدہ ہو کر جہنم میں ڈال دیے جاؤ۔‘‘

آیت ۲۲ سے ۳۹تک میں اخلاقی احکام کاایک طویل سلسلہ بیان ہوا ہے۔ اس کی ابتدا ’لَا تَجْعَلْ مَعَ اللّٰهِ اِلٰهًا اٰخَرَ‘ کے جملے سے ، یعنی شرک کی ممانعت سے ہوئی ہے اور اس کے بعد دیگر اخلاقی احکام بیان کیے گئے اور آخرمیں دوبارہ سے ’وَلَا تَجْعَلْ مَعَ اللّٰهِ اِلٰهًا اٰخَرَ‘ کے جملے سے شرک کی ممانعت کی گئی ہے۔ اس طرح یہ آخری جملہ پچھلی بات سے عود علی البدء کے طریقے پر مربوط ہو گیا ہے اور اس سے یہ بات بتانا مقصود ہے کہ اخلاقیات کی اس فہرست میں شرک و توحید کے عقیدے کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ البیان میں ان دو باتوں کو نمایاں کرنے کے لیے آخری جملے کے ترجمہ سے پہلے اور قوسین کے اندر’’ایک مرتبہ پھرسن لو کہ‘‘ کے الفاظ لائے گئے ہیں ۔[31]

قرآن کی چھوٹی سورتوں میں اس اسلوب کی مثالیں عام ملتی ہیں کہ اُن کی ابتدامیں جس بات کو تمہید کے طور پر بیان کیا جاتا ہے ،خاتمہ کی آیات میں اُسی کو دوبارہ سے ذکر کر دیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر یہ مقام:

اَيَحْسَبُ الْاِنْسَانُ اَنْ يُّتْرَكَ سُدًي. اَلَمْ يَكُ نُطْفَةً مِّنْ مَّنِيٍّ يُّمْنٰي. ثُمَّ.... (القیامہ ۷۵: ۳۶ -۴۰)
’’کیا انسان یہ سمجھتا ہے کہ وہ یوں ہی چھوڑ دیا جائے گا؟ کیا وہ حقیر پانی کی بوند نہ تھا جو ٹپکا دی جاتی ہے؟ پھر...۔‘‘

اس سورہ کی ابتدا میں یہ مضمون بیان ہوا ہے کہ انسان کا ضمیر اپنے وجود ہی سے گواہی دیتا ہے کہ وہ اس دنیا میں شتر بے مہار نہیں ہے۔ سو اس بات سے لازم آتا ہے کہ اس سے باز پرس ضرور ہو اور قیامت کا دن دیکھا جائے تو وہ اصل میں اسی باز پرس کے لیے مقرر کیا گیا ہے۔ اس کے بعد اُس دن کی کچھ تفصیلات کو بیان کیا اور پھر سورہ کے اختتام میں آیت ۳۶سے ۴۰تک اس مضمون کوکہ انسان سمجھتا ہے کہ وہ یوں ہی چھوڑ دیا جائے گا، دوبارہ سے لے کر کچھ دلائل دیے ہیں ۔گویا سورہ کی ابتدا جس مضمون سے ہوئی ،عود علی البدء کے طریقے کے مطابق اسی مضمون پراس کا خاتمہ کر دیا گیا۔ البیان میں ان آیات کے ربط کو تفسیری نوٹ میں بالکل وضاحت سے بتا دیا گیاہے۔

یہ اسلوب بڑی سورتوں میں بھی برتا گیا ہے، مگر عام ترجموں میں اس کا خیال نہیں رکھا جا سکا کہ اسے سمجھ لینا بہرحال اتنا آسان نہیں ہے ۔فرمایا ہے:

اٰمَنَ الرَّسُوْلُ بِمَا٘ اُنْزِلَ اِلَيْهِ مِنْ رَّبِّهٖ وَالْمُؤْمِنُوْنَ... . (البقرہ۲: ۲۸۵)
’’(تم نہیں مانتے تو اِس کا نتیجہ بھی تمھیں ہی دیکھنا ہے)۔ہمارے پیغمبر نے تو اُس چیز کو مان لیا جو اُس کے پروردگار کی طرف سے اُس پر نازل کی گئی ہے، اور اُس کے ماننے والوں نے بھی...۔‘‘

البقرہ قرآن کی طویل ترین سورہ ہے۔ اس کی ابتدامیں بتایا ہے کہ اس کتاب سے ہدایت وہی لوگ پائیں گے جو خدا سے ڈرنے والے ہوں ۔اس کے بعد تفصیل سے یہود پر اِتمام حجت اور ایک نئی امت کی تاسیس اور اس سلسلے میں اترنے والے شرعی احکام کو بیان کیا ہے۔ مذکورہ آیات سورہ کے آخر میں آئی ہیں اور اِن میں اُسی ابتدائی مضمون کو زیر بحث لاتے ہوئے فرمایا ہے کہ اس کتاب سے ہمارے پیغمبر اور اس کے ماننے والوں نے ہدایت پائی ہے اور وہ اس پر ایمان لے آئے ہیں ۔ البیان میں اس آیت سے پہلے جو قوسین میں جملہ لایا گیا ہے کہ ’’تم نہیں مانتے تو اِس کا نتیجہ بھی تمھیں ہی دیکھنا ہے۔‘‘ اور جواس کے نیچے تفسیری نوٹ لکھا گیا ہے، ان دونوں سے مقصود اصل میں اس اسلوب کی وضاحت اور ان آیتوں کے باقی سورہ کے ساتھ ربط کو نمایاں کر دینا ہے۔

۷۔نتیجہ

قرآن میں بعض معاملات کو ان کی تفصیلات سمیت بیان کیا جاتا اور اس ذیل میں بہت سے دلائل دیے جاتے اور بعض واقعاتی شہادتیں پیش کی جاتی ہیں اور پھر چند جملوں میں ان سب سے ایک نتیجہ نکال کر قاری کے سامنے رکھ دیا جاتا ہے۔ اس کا ایک فائدہ یہ ہوتا ہے کہ کلام کی طوالت اصل مدعا کو پا لینے میں حائل نہیں ہوتی اور خلاصے اور قاعدے کی صورت میں آجانے کی وجہ سے اُسے سمجھنا اور دیر تک یاد رکھنا بھی آسان ہو جاتا ہے۔ اس کی ایک صورت یہ بھی ہوتی ہے کہ کسی واقعہ کے ذیل میں کچھ اسباب اور اُن سے نکلنے والے نتائج کا ذکر کیا جاتا ہے۔ پھر استشہاد کرتے ہوئے کہا جاتا ہے کہ اگر ان اسباب کی بنیاد پر ماضی میں یہ نتائج نکلے ہیں تو ضروری ہے کہ اب بھی جہاں یہ اسباب پائے جائیں ،اُن سے وہی نتائج لازمی طور پر ظہور پذیر ہوں ۔

اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَالَّذِيْنَ هَادُوْا وَالنَّصٰرٰي وَالصّٰبِـِٕيْنَ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَعَمِلَ صَالِحًا فَلَهُمْ اَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْﵓ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُوْنَ. (البقرہ۲: ۶۲)
’’(اس سے واضح ہے کہ جزا و سزا کا قانون بالکل بے لاگ ہے۔ لہٰذا) وہ لوگ جو(نبی امی پر)ایمان لائے ہیں اور جو(ان سے پہلے) یہودی ہوئے اور جو نصاریٰ اور صابی کہلاتے ہیں، اُن میں سے جن لوگوں نے بھی اللہ کوماناہے اور قیامت کے دن کو مانا ہے اور نیک عمل کیے ہیں، اُن کے لیے اُن کا صلہ اُن کے پروردگار کے پاس ہے اور(اُس کے حضورمیں ) اُن کے لیے نہ کوئی اندیشہ ہو گا اور نہ وہ کبھی غم زدہ ہوں گے۔‘‘

سورۂ بقرہ (٢)کی آیت ۴۷سے سیک سلسلۂ بیان شروع ہواہے۔ اس میں یہودکے زعم باطل کی تردید کی گئی ہے کہ وہ صرف یہودی ہونے کو اپنی نجات کے لیے کافی سمجھتے ہیں ۔ انھیں بعض واقعات سنا کر بتایا گیا ہے کہ اگر ایسا ہوتا تو خدا تمھیں کبھی سزا نہ دیتا، حالاں کہ تمھاری اپنی تاریخ                  گواہ ہے کہ جب بھی تم نے کسی جرم کا ارتکاب کیا، اس کے عذاب کا کوڑا تمھاری پیٹھ پر برس کر رہا۔ آیت ۶۱ تک یہ سلسلۂ بیان اسی طرح چلا ہے۔ اس کے بعد۶۲میں اسے ایک نتیجے کی صورت دیتے ہوئے فرمایا ہے کہ مسلمان اور یہودی ہوں یا مسیحی اور صابی ہوں، ان میں سے جن لوگوں نے اللہ اور آخرت کو مانا ہے اور نیک عمل کیے ہیں ،اُن کے لیے اُن کا اجر اُن کے خداکے پاس ہے۔ اس آیت کاباقی کلام سے یہی ربط ہے جسے واضح کرنے کے لیے قوسین میں یہ الفاظ لائے گئے ہیں: ’’اس سے واضح ہے کہ جزا و سزا کا قانون بالکل بے لاگ ہے۔ لہٰذا...‘‘۔

اس نتیجہ کی دوسری صورت کوسمجھنے کے لیے یہ آیت ایک اچھی مثال ہے:

اَكُفَّارُكُمْ خَيْرٌ مِّنْ اُولٰٓئِكُمْ اَمْ لَكُمْ بَرَآءَةٌ فِي الزُّبُرِ. اَمْ يَقُوْلُوْنَ نَحْنُ جَمِيْعٌ مُّنْتَصِرٌ. سَيُهْزَمُ الْجَمْعُ وَيُوَلُّوْنَ الدُّبُرَ. (القمر۵۴: ٤٣- ٤٥)
a ’’(قریش کے لوگو، پھر)تمھارے یہ منکرین کیا اُن سے کچھ بہتر ہیں یا صحیفوں میں تمھارے لیے کوئی معافی لکھی ہوئی ہے؟ کیا اِن کا زعم ہے کہ ہم ایسا جتھاہیں جو مقابلہ کرے گا؟(سن لو) اِن کا جتھا عنقریب شکست کھا جائے گا اور یہ پیٹھ پھیر کر بھاگ رہے ہوں گے۔‘‘

سورۂ قمر سی ابتدامیں اس کے براہ راست مخاطبین کو خدا کے عذاب کے بارے میں متنبہ کیا ہے۔ اس کے بعد تاریخی واقعات کو تفصیل سے سناتے ہوئے فرمایا ہے کہ جب قوموں نے اپنے رسولوں کا انکار اور اُن کی تکذیب کر دی تو وہ نتیجے کے طور پر خدا کے عذاب کی مستحق قرار پائیں ۔آخرمیں قریش سے اس بنیاد پر فرمایا ہے جو اُسی تکذیب اور انکارمیں مبتلاتھے اور نتیجے کے طور پر خدا کے عذاب کے مستحق ٹھیرے تھے کہ نہ تم پہلی قوموں کے منکرین سے کسی طرح بہتر ہو اور نہ تمھاری معافی کا کوئی پروانہ ہی کسی کتاب میں اتارا گیا ہے۔ زیرنظر آیت کو نتیجے کے اس طریقے پر مربوط کرنے کے لیے البیان میں قوسین کے اندر دو کام کیے گئے ہیں :ایک ’’قریش کے لوگو‘‘ کے الفاظ لا کر اُنھیں براہ راست خطاب کر لیا گیا ہے۔ دوسرے’’پھر‘‘ کا لفظ لکھ کر اسباب اور نتیجے کے آپس میں لازم و ملزوم ہونے کا مضمون جو اس آیت سے پہلے گویا مقدر ہے، اُس کی طرف ایک اشارہ بھی کردیا گیا ہے۔

[باقی]

____________

[31]۔  قرآن میں اس کی وہ مثال بھی دیکھ لی جا سکتی ہے جہاں نماز کی اہمیت کو بیان کرنے کے لیے اس اسلوب کو لایا گیا ہے: المعارج(۷۰) کی آیت ۲۲ اور۳۴ میں، اور المؤمنون(۲۳) کی آیت۲اور ۹ میں ۔


B