HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : جاوید احمد غامدی

قبروں کی پرستش

ترجمہ و تحقیق: محمد حسن الیاس

 

ــــــ ۱ ــــــ

عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا۱، قَالَتْ: لَمَّا اشْتَكَى النَّبِيُّ ﷺ ذَكَرَتْ بَعْضُ نِسَائِهِ كَنِيسَةً رَأَيْنَهَا بِأَرْضِ الْحَبَشَةِ، يُقَالُ لَهَا: مَارِيَةُ، وَكَانَتْ أُمُّ سَلَمَةَ وَأُمُّ حَبِيبَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا، أَتَتَا أَرْضَ الْحَبَشَةِ فَذَكَرَتَا مِنْ حُسْنِهَا وَتَصَاوِيرَ فِيهَا، فَرَفَعَ رَأْسَهُ، فَقَالَ: «أُولَئِكِ [قَوْمٌ ] ۲ إِذَا مَاتَ مِنْهُمُ الرَّجُلُ الصَّالِحُ، بَنَوْا عَلَى قَبْرِهِ مَسْجِدًا، ثُمَّ صَوَّرُوا فِيهِ تِلْكَ الصُّورَةَ، أُولَئِكِ شِرَارُ الْخَلْقِ عِنْدَ اللهِ [يَوْمَ الْقِيَامَةِ»] ۳.
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب بیمار ہوئے تو آپ کی کسی بیوی نے اُس گرجے کا ذکر کیا جو اُنھوں نےسرزمین حبشہ میں دیکھا تھااور جس کا نام ’ ’ماریہ ‘ ‘  تھا۔ (نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج میں سے) ام سلمہ اور ا م حبیبہ چونکہ حبشہ جا چکی تھیں تواُنھوں نے بھی اُس گرجے کی خوب صورتی اور اُس میں تصویروں کے بارے میں بیان کیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سنا تو اپنا سر اٹھایا اور ارشادفرمایا: وہ اِسی طرح کے لوگ ہیں کہ جب اُن میں کوئی صالح آدمی مرجاتا ہے تو اُس کی قبر پر کوئی عبادت گاہ تعمیر کرتے،پھراُس میں وہ صورت بنا لیتے تھے۱۔قیامت کے دن یہی لوگ اللہ کے نزدیک بدترین خلائق ہوں گے۲۔

_______________

۱۔یعنی وہ صورت جس کا ذکر تم دونوں حبشہ کے گرجے سے متعلق کر رہی ہو۔

۲۔یعنی وہ بھی جو قبروں پر عبادت گاہیں بناتے اوروہ بھی جو اپنے صالحین کی تصویریں اُن میں آویزاں کرتے ہیں۔ اِس سے واضح ہے کہ اِسی نوعیت کی تصویریں ہیں، جن کے بنانے والوں پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت کی اور اُنھیں عذاب کی وعید سنائی ہے۔


متن  کے حواشی

۱۔اِس روایت کا متن اصلاً صحیح بخاری ،رقم ۱۲۶۱سے لیا گیا ہے۔اِس کی راوی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا ہیں۔اُن سے یہ روایت درج ذیل مصادر میں نقل ہوئی ہے:

موطا امام مالک،رقم ۱۰۵۸۔الطبقات الکبریٰ،ابن سعد،رقم۲۰۴۹۔مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ۱۱۵۷۶۔ مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ۷۳۷۸۔ مسند اسحاق بن راہویہ، رقم۶۶۴۔ مسند احمد،رقم۲۳۶۹۷۔صحیح بخاری،رقم ۴۱۲، ۳۶۰۹۔صحیح مسلم،رقم۸۲۷۔ السنن الکبریٰ، نسائی، رقم۷۴۷۔ السنن الصغریٰ، نسائی، رقم ۶۹۷۔ مسندابو یعلیٰ، رقم۴۵۶۰۔صحیح ابن خزیمہ، رقم۷۷۲۔ مسند سراج، رقم۴۹۷، ۴۹۸۔مستخرج ابو عوانہ، رقم ۹۱۵، ۹۱۶۔صحیح ابن حبان، رقم ۳۲۶۰۔ المسند المستخرج علیٰ صحیح مسلم، ابو نعیم، رقم ۱۰۲۲۔ السنن الکبریٰ، بیہقی، رقم ۶۶۷۲۔

۲۔مصنف ابن ابی شیبہ،رقم ۱۱۵۷۶۔

۳۔صحیح مسلم،رقم۸۲۷۔


ــــــ ۲ ــــــ

عَنْ أَبِي مَرْثَدٍ الْغَنَوِيِّ۱، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: «لَا تَجْلِسُوا عَلَى الْقُبُورِ، وَلَا تُصَلُّوا إِلَيْهَا».
ابو مرثد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قبروں پر نہ بیٹھا کرو اور نہ اُن کی طرف رخ کر کے کبھی نماز پڑھو۱۔

_______________

۱۔یہ، ظاہر ہے کہ سد ذریعہ کا حکم ہےاور اِس لیے دیا گیا ہے کہ یہ قبریں کسی وقت لوگوں کے لیے سجدہ گاہ نہ بن جائیں ،اور اِس کے نتیجے میں وہ شرک جیسے جرم کے مرتکب ہونے لگیں۔چنانچہ یہی ہدایت ہے، جس کی خلاف ورزی کے نتائج ہم بعد کے زمانوں میں صالحین کے مقبروں پر دیکھتے ہیں۔


متن  کے حواشی

۱۔اِس روایت کا متن صحیح مسلم ،رقم ۱۶۲۰سے لیا گیا ہے ۔اِس کے راوی ابو مرثد رضی اللہ عنہ ہیں۔اُن سے یہ روایت درج ذیل مصادر میں نقل ہوئی ہے:

مسند احمد،رقم ۱۶۸۸۱، ۱۶۸۸۲۔ مسند عبد بن حمید، رقم ۴۸۱۔ صحیح مسلم، رقم۱۶۲۰ ۔ سنن ترمذی، رقم ۹۶۹۔ سنن ابو داؤد، رقم ۲۸۱۳۔ السنن الکبریٰ، نسائی، رقم ۸۲۶۔ السنن الکبریٰ، نسائی، رقم ۷۵۲۔ مسند ابویعلیٰ، رقم ۵۰۴۔ مستخرج ابو عوانہ، رقم ۹۰۹۔ شرح معانی الآثار، رقم ۱۸۸۸۔ صحیح ابن حبان، رقم ۲۳۶۹، ۲۳۷۳۔ المعجم الکبیر، طبرانی، رقم ۱۵۷۸۷، ۱۵۷۸۸۔ مسند شامیین، طبرانی، رقم ۵۷۰، ۵۷۱۔ مستدرک حاکم، رقم ۴۹۱۷، ۴۹۲۲، ۴۹۲۴۔ المسند المستخرج علیٰ صحیح مسلم، رقم ۱۹۷۷۔ السنن الکبریٰ، بیہقی، رقم ۳۹۲۱،  ۶۶۶۷ ۔

ابو مرثد رضی اللہ عنہ کے علاوہ یہی مضمون جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سےمصنف ابن ابی شیبہ، رقم ۱۱۵۴۱ اور شرح معانی الآثار،رقم۱۸۹۱ میں بھی نقل ہوا ہے۔


ــــــ ۳ ــــــ

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ۱، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: «لَأَنْ يَجْلِسَ أَحَدُكُمْ عَلَى جَمْرَةٍ فَتُحْرِقَ ثِيَابَهُ فَتَخْلُصَ إِلَى جِلْدِهِ، خَيْرٌ لَهُ مِنْ أَنْ يَجْلِسَ عَلَى قَبْرِ [رَجُلٍ مُسْلِمٍ»  ] ۲.
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے کوئی آگ کے دہکتے انگارے پر بیٹھ جائے،پھر وہ  اُس کے کپڑے جلا دے اور اُس کی کھال تک پہنچ جائے، یہ اِس سے بہتر ہے کہ وہ کسی مسلمان کی قبر پر بیٹھے۱۔

_______________

۱۔یعنی دعا و مناجات کے لیے یا معتکف ہو کر بیٹھے۔یہ ظاہر ہے کہ عبادت ہی کی ایک صورت ہے جو نہ کسی جگہ کو تھان قرار دے کر کبھی جائز ہو سکتی ہےاور نہ غیر اللہ کے لیے۔


متن  کے حواشی

۱۔اِس روایت کا متن اصلاً صحیح مسلم ،رقم۱۶۱۷ سے لیا گیا ہے ۔اِس کے راوی ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ہیں۔ اُن سے یہ روایت درج ذیل مصادر میں نقل ہوئی ہے:

مسند طیالسی، رقم ۲۶۵۷۔ مسند احمد، رقم ۷۹۰۹، ۸۸۴۳، ۹۵۱۹، ۱۰۶۰۸۔ سنن ابو داؤد، رقم ۲۸۱۲۔ سنن ابن ماجہ،رقم۱۵۵۵۔السنن الکبریٰ،نسائی،رقم۲۱۵۶۔السنن الصغریٰ،نسائی،رقم۲۰۲۷۔شرح معانی الآثار، رقم ۱۸۹۲۔ صحیح ابن حبان،رقم۳۲۴۵۔المعجم الاوسط،طبرانی،رقم۷۲۲۔المسند المستخرج علیٰ صحیح مسلم، رقم ۱۹۷۶۔ معرفۃ السنن و الآثار، رقم ۱۹۴۰۔ السنن الکبریٰ، بیہقی، رقم ۶۶۶۔ السنن الصغریٰ، بیہقی، رقم ۵۲۹۔a

۲۔ مسند احمد، رقم ۸۸۴۳۔


ــــــ ۴ ــــــ

عَنْ عَائِشَةَ،۱ قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ فِي مَرَضِهِ الَّذِي لَمْ يَقُمْ مِنْهُ: «لَعَنَ اللهُ۲ الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى، اتَّخَذُوا قُبُورَ أَنْبِيَائِهِمْ مَسَاجِدَ»۳، قَالَتْ: فَلَوْلَا ذَاكَ أُبْرِزَ قَبْرُهُ، غَيْرَ أَنَّهُ خُشِيَ أَنْ يُتَّخَذَ مَسْجِدًا.
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی جس بیماری سے جان بر نہیں ہوسکے،اُس میں آپ نےفرمایا: اللہ نے یہود و نصاریٰ پر لعنت کی ہے،اِس لیے کہ اُنھوں نے نبیوں کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا۔ اِس کے بعد سیدہ نے کہا:چنانچہ اگر یہ بات نہ ہوتی تو آپ کی قبر کو کھلا رہنے دیا جاتا،مگر اِس کا اندیشہ تھا کہ اُس کو بھی اِسی طرح سجدہ گاہ بنا لیا جائے گا۱۔

_______________

۱۔یہ سیدہ نے اِس کی وجہ بیان کی ہے کہ آپ کی قبر بند کمرے میں کیوں بنائی گئی۔


متن  کے حواشی

۱۔اِس روایت کا متن صحیح مسلم،رقم ۸۲۸ سے لیا گیا ہے ۔اِس کی راوی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا ہیں۔ اُن سے یہ روایت درج ذیل کتابوں میں نقل ہوئی ہے:

مصنف عبدالرزاق،رقم ۹۵۲۱، ۱۵۴۵۱۔ الطبقات الکبریٰ، ابن سعد، رقم ۲۰۵۰، ۲۰۵۵، ۲۰۵۶، ۲۱۱۱۔

مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ۷۳۷۷،  ۷۳۸۲، ۱۱۵۸۱۔ مسند اسحاق، رقم ۶۶۳، ۱۲۰۴، ۱۵۲۹۔ مسند احمد، رقم، ۱۸۱۴، ۲۳۵۰۹، ۲۳۹۵۲، ۲۴۳۳۱، ۲۵۳۳۷، ۲۵۷۵۶، ۲۵۷۵۹،۔ سنن دارمی، رقم ۱۳۷۲۔ صحیح بخاری، رقم ۱۲۵۰، ۱۳۰۷، ۳۲۱۹، ۴۱۱۲، ۴۱۱۴، ۵۳۹۴۔صحیح مسلم، رقم ۸۲۸، ۸۳۱۔ السنن الصغریٰ، نسائی، رقم ۶۹۶، ۲۰۲۹۔ السنن الکبریٰ، نسائی، رقم ۷۷۳، ۲۱۵۸، ۶۸۲۱، ۶۸۲۳،  ۶۸۲۵۔ مسند سراج، رقم ۵۰۰۔ مستخرج ابو عوانہ،رقم ۹۱۰، ۹۱۱، ۹۱۲۔مشکل الآثار،طحاوی،رقم۴۱۵۷۔صحیح ابن حبان، رقم ۲۳۷۶، ۳۲۶۱، ۶۷۶۹۔ المعجم الاوسط، طبرانی، رقم۷۹۴۳۔ مسند شامیین، طبرانی، رقم ۳۰۶۶۔ المسند المستخرج علیٰ صحیح مسلم، رقم ۱۰۲۴، ۱۰۲۷۔السنن الکبریٰ،بیہقی،رقم۶۶۷۱۔

عائشہ رضی اللہ عنہا کے علاوہ یہ روایت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اور اسامہ بن زيد رضی اللہ عنہ سے درج ذیل کتابوں میں نقل ہوئی ہے:

موطا امام مالک، رقم ۲۹۳۔ مسند طیالسی، رقم ۶۶۵۔ مسند اسحاق، رقم ۲۶۵۔ مسند احمد، رقم ۸، ۵۸۹، ۶۷۳۴، ۷۶۲۹، ۷۶۳۸، ۸۹۳۸، ۹۶۳۷، ۱۰۴۸۸، ۱۰۸۸۹، ۲۱۲۲۵۔صحیح بخاری، رقم۴۱۲۔صحیح مسلم، رقم۸۲۹، ۸۳۰۔سنن ابو داؤد،رقم۲۸۱۱۔السنن الصغریٰ،نسائی،رقم۲۰۳۰، ۲۱۵۹، ۶۸۲۴۔مسند ا بو یعلیٰ، رقم ۵۷۹۱، ۶۶۴۱۔ مسند سراج، رقم ۵۰۱، ۵۰۲۔مستخرج ابو عوانہ، رقم ۹۱۳، ۹۱۴۔صحیح ابن حبان، رقم ۲۳۷۵۔ المعجم الاوسط، طبرانی، رقم ۹۰۰۷۔ المسند المستخرج علیٰ صحیح مسلم،رقم ۱۰۲۵، ۱۰۲۶۔ السنن الکبریٰ، بیہقی، رقم ۶۶۷۰۔

۲۔بعض روایتوں میں ’لَعَنَ اللهُ الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى‘ کے بجاے ’قَاتَلَ اللهُ يَهُودَ‘ کے الفاظ آئے ہیں،یعنی اللہ یہود کو غارت کرے ۔ملاحظہ ہو: صحیح مسلم،رقم۸۲۹ ۔

۳۔الطبقات الکبریٰ،رقم۲۰۵۰ میں سیدہ کا یہ تبصرہ بھی نقل ہوا ہے: ’يُحَذِّرُهُمْ مِثْلَ مَا صَنَعُوا‘، یعنی اِس سے مقصود تھا کہ مسلمانوں کو یہود و نصاریٰ کے اِس طرح کے کاموں سے بچتے رہنے کی تلقین کی جائے۔


ــــــ ۵ ــــــ

عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ الْحَارِثِ النَّجْرَانِيِّ، قَالَ: حَدَّثَنِي جُنْدَبٌ،۱ قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ ﷺ قَبْلَ أَنْ يَمُوتَ بِخَمْسٍ، وَهُوَ يَقُولُ: «إِنِّي أَبْرَأُ إِلَى اللهِ، أَنْ يَكُونَ لِي مِنْكُمْ خَلِيلٌ، فَإِنَّ اللهَ تَعَالَى، قَدِ اتَّخَذَنِي خَلِيلًا، كَمَا اتَّخَذَ إِبْرَاهِيمَ خَلِيلًا، وَلَوْ كُنْتُ مُتَّخِذًا مِنْ أُمَّتِي خَلِيلًا، لَاتَّخَذْتُ أَبَا بَكْرٍ خَلِيلًا، أَلَا وَإِنَّ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ، كَانُوا يَتَّخِذُونَ قُبُورَ أَنْبِيَائِهِمْ وَصَالِحِيهِمْ مَسَاجِدَ، أَلَا فَلَا تَتَّخِذُوا الْقُبُورَ مَسَاجِدَ، إِنِّي أَنْهَاكُمْ عَنْ ذَلِكَ».
‏‏‏‏ عبد اللہ بن حارث نجرانی، جندب بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ اُنھوں نے بتایا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو وفات سے پانچ روز قبل یہ فرماتے ہوئے سنا کہ میں اللہ کے حضور اِس چیز سے براءت کا اظہار کرتا ہوں کہ تم میں سے کوئی میرا خلیل ہو ،کیونکہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اُسی طرح اپنا خلیل بنا لیا ہے، جس طرح اُس نے ابراہیم کو اپنا خلیل بنایا تھا۱۔ اگر میں اپنی امت میں سے کسی کو اپنا خلیل بناتا توابو بکر ہی کو خلیل بناتا ۔تم خبردار رہو، تم سے پہلے لوگ اپنے پیغمبروں اور نیک لوگوں کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیتے تھے، کہیں تم اِن قبروں کو عبادت گاہ نہ بنا بیٹھنا، میں تم لوگوں کو اِس بات سے منع کرتا ہوں۔

_______________

۱۔یعنی اپنے ساتھ دوستی کے لیے خاص کر لیا تھا،اور جب اللہ کسی کو اپنے ساتھ دوستی کے لیے خاص کرلےتو کوئی دوسرا اُس کا خلیل کس طرح ہو سکتا ہے؟


متن  کے حواشی

۱۔اِس روایت کا متن صحیح مسلم، رقم ۸۳۲ سے لیا گیا ہے ۔اِس کے راوی جندب بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ ہیں۔اُن سے یہ روایت درج ذیل مصادر میں نقل ہوئی ہے:

الطبقات الکبریٰ،ابن سعد،رقم۳۲۶۵۔صحیح مسلم،رقم۸۳۲۔السنن الکبریٰ، نسائی، رقم ۱۰۶۱۰۔ مسند رویانی، رقم ۹۵۵۔صحیح ابن حبان، رقم ۶۵۶۲۔ المعجم الکبیر، طبرانی، رقم ۱۶۶۴، ۴۴۹۰۔ مستدرک حاکم، رقم ۳۹۴۶۔ المسند المستخرج علیٰ صحیح مسلم،ابو نعیم،رقم۱۰۲۸۔


ــــــ ۶ ــــــ

عَنْ جَابِرٍ،۱ قَالَ: نَهَى رَسُولُ اللهِ ﷺ أَنْ يُجَصَّصَ الْقَبْرُ، وَأَنْ يُقْعَدَ عَلَيْهِ، وَأَنْ يُبْنَى عَلَيْهِ۲.
  جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبر پر چونا لگانے، اُس پر بیٹھنے اور عمارت بنانے سے منع فرمایا ۱۔

_______________

۱۔اِس ہدایت سے  بھی یہی مقصود تھا کہ قبریں لوگوں کے لیے زیارت گاہو ں کی صورت اختیار نہ کرلیں کہ مبادا   وہ اُنھیں سجدہ گاہ بنانے لگیں۔


متن  کے حواشی

۱۔اِس روایت کا متن صحیح مسلم،رقم ۱۶۱۶سے لیا گیا ہے ۔اِس کے راوی جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ ہیں۔ اُن سے یہ روایت درج ذیل مصادر میں نقل ہوئی ہے:

مسند طیالسی، رقم ۱۸۹۵۔ مصنف عبد الرزاق، رقم ۶۳۱۹۔ مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ۱۱۵۰۴، ۱۱۵۲۶۔ مسند احمد، رقم ۱۳۸۶۴، ۱۴۳۵۱، ۱۴۲۶۹۔مسند عبد بن حمید، رقم ۱۰۸۲۔صحیح مسلم، رقم ۱۶۱۶، ۱۶۱۷۔ سنن ترمذی، رقم ۹۷۰۔ سنن ابو داؤد، رقم ۲۸۱۰۔ سنن ابن ماجہ، رقم ۱۵۵۱۔ السنن الصغریٰ، نسائی، رقم ۲۰۱۰، ۲۰۱۲، ۲۰۱۱۱۔السنن الکبریٰ،نسائی،رقم ۲۱۴۰، ۲۱۴۱۔شرح معانی الآثار،رقم۱۸۹۰۔صحیح ابن حبان، رقم ۳۲۴۱، ۳۲۴۲، ۳۲۴۳، ۳۲۴۴۔ مستدرک حاکم،رقم۱۳۰۱، ۱۳۰۲۔ المسند المستخرج علیٰ صحیح مسلم، رقم ۱۹۷۳ ، ۱۹۷۴،   ۱۹۷۵ ۔السنن الکبریٰ،بیہقی،رقم۶۲۴۹۔

۲۔بعض روایات، مثلاً مستدرک حاکم ،رقم ۱۳۰۱ میں اِس جگہ یہ اضافہ نقل ہوا ہے: ’وَنَهَى أَنْ يُكْتَبَ عَلَيْهِ‘ ، یعنی قبروں پر لکھنے سے بھی منع فرمایا۔ 


المصادر والمراجع

ابن حبان، أبو حاتم بن حبان. (۱۴۱۴هـ/۱۹۹۳م). oصحیح ابن حبان. ط۲. تحقیق: شعیب الأرنؤوط. بیروت: مؤسسة الرسالة.n

ابن حجر، علی بن حجر أبو الفضل العسقلاني. (۱۳۷۹هـ). فتح الباري شرح صحیح البخاري. (د.ط). تحقیق: محمد فؤاد عبد الباقي. بیروت: دار المعرفة.

ابن قانع. (۱۴۸۱هـ/۱۹۹۸م). المعجم الصحابة. ط۱. تحقیق:حمدي محمد. مکة المکرمة: نزار مصطفی الباز.

ابن ماجة، ابن ماجة القزویني. (د.ت). سنن ابن ماجة. ط۱. تحقیق: محمد فؤاد عبد الباقي. بیروت: دار الفکر.

ابن منظور، محمد بن مکرم بن الأفریقي. (د.ت). لسان العرب. ط۱. بیروت: دار صادر.

أبو نعیم ، (د.ت). معرفة الصحابة. ط۱. تحقیق: مسعد السعدني. بیروت: دارالکتاب العلمیة.

أحمد بن محمد بن حنبل الشیباني. (د.ت). مسند أحمد بن حنبلr. ط۱. بیروت: دار إحیاء التراث العربي.

البخاري، محمد بن إسمٰعیل. (۱۴۰۷هـ/ ۱۹۸۷م). الجامع الصحیح. ط۳. تحقیق: مصطفی دیب البغا. بیروت: دار ابن کثیر.

بدر الدین العیني. عمدة القاري شرح صحیح البخاري. (د.ط). بیروت: دار إحیاء التراث العربي.

البیهقي، أحمد بن الحسین البیهقي. (۱۴۱۴هـ/۱۹۹۴م). oالسنن الکبری. ط۱. تحقیق: محمد عبد القادر عطاء. مکة المکرمة: مکتبة دار الباز.

السیوطي، جلال الدین السیوطي. (۱۴۱۶هـ/ ۱۹۹۶م). الدیباج علی صحیح مسلم بن الحجاج. ط ۱. تحقیق: أبو إسحٰق الحویني الأثري. السعودیة: دار ابن عفان للنشر والتوزیع.

الشاشي، الهیثم بن کلیب. (۱۴۱۰هـ). مسند الشاشي. ط۱. تحقیق: محفوظ الرحمٰن زین اللّٰه. المدینة المنورة: مکتبة العلوم والحکم.

محمد القضاعي الکلبي المزي. (۱۴۰۰هـ/۱۹۸۰م). تهذیب الکمال في أسماء الرجالP. ط۱. تحقیق: بشار عواد معروف. بیروت: مؤسسة الرسالة.

مسلم، مسلم بن الحجاج. (د.ت). صحیح المسلم. ط۱. تحقیق: محمد فؤاد عبد الباقي. بیروت: دار إحیاء التراث العربي.

النسائي، أحمد بن شعیب. (۱۴۰۶هـ/۱۹۸۶م). السنن الصغری. ط۲. تحقیق: عبد الفتاح أبو غدة. حلب: مکتب المطبوعات الإسلامیة.

النسائي، أحمد بن شعیب. (۱۴۱۱هـ/۱۹۹۱م). السنن الکبری. ط۱. تحقیق: عبد الغفار سلیمان البنداري، سید کسروي حسن. بیروت: دار الکتب العلمیة.

ـــــــــــــــــــــــــ

B