بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
(گذشتہ سے پیوستہ)
قُلِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ وَسَلٰمٌ عَلٰي عِبَادِهِ الَّذِيْنَ اصْطَفٰي آٰاللّٰهُ خَيْرٌ اَمَّا يُشْرِكُوْنَ ٥٩
اِن سے کہو، (اے پیغمبر) کہ شکر اللہ ہی کے لیے ہے (جس نے اپنی یہ شانیں دکھائی ہیں ) اور اُس کے اُن بندوں پر سلامتی جن کو اُس نے (اپنی عدالت کے ظہور کے لیے) منتخب فرمایا۔ کیا وہ اللہ بہتر ہے یا اِن کے معبود جنھیں یہ اُس کے شریک ٹھیراتے ہیں [72]؟ ۵۹
اَمَّنْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَاَنْزَلَ لَكُمْ مِّنَ السَّمَآءِ مَآءً فَاَنْۣبَتْنَا بِهٖ حَدَآئِقَ ذَاتَ بَهْجَةٍ مَا كَانَ لَكُمْ اَنْ تُنْۣبِتُوْا شَجَرَهَا ءَاِلٰهٌ مَّعَ اللّٰهِ بَلْ هُمْ قَوْمٌ يَّعْدِلُوْنَ ٦٠
کیا [73]یہ بہتر ہیں یا وہ (پروردگار) جس نے زمین اور آسمانوں کو پیدا کیا اور آسمان سے تمھارے لیے پانی اتارا، پھر اُس سے ہم نے خوش منظر باغ اگائے، تمھارے لیے ممکن نہیں تھا کہ تم اُن کے درختوں کو اگا سکتے[74]؟ کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور معبود بھی (اِن سب کاموں میں شریک) ہے؟ ہرگز نہیں ، بلکہ یہی لوگ ہیں کہ راہ حق سے ہٹے ہوئے ہیں [75]۔۶۰
اَمَّنْ جَعَلَ الْاَرْضَ قَرَارًا وَّجَعَلَ خِلٰلَهَا٘ اَنْهٰرًا وَّجَعَلَ لَهَا رَوَاسِيَ وَجَعَلَ بَيْنَ الْبَحْرَيْنِ حَاجِزًاﵧ ءَاِلٰهٌ مَّعَ اللّٰهِﵧ بَلْ اَكْثَرُهُمْ لَا يَعْلَمُوْنَ ٦١
کیا یہ بہتر ہیں یا وہ (پروردگار) جس نے زمین کو ٹھکانا بنایا[76] اور اُس کے درمیان ندیاں بہا دیں اور اُس (کو اپنے محور پر قائم رکھنے) کے لیے پہاڑ بنائے اور دو سمندروں کے درمیان پردہ ڈال دیا[77]؟ کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور معبودبھی(اِن سب کاموں میں شریک) ہے؟ ہرگز نہیں ، بلکہ اِن کے اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں [78]۔ ۶۱
اَمَّنْ يُّجِيْبُ الْمُضْطَرَّ اِذَا دَعَاهُ وَيَكْشِفُ السُّوْٓءَ وَيَجْعَلُكُمْ خُلَفَآءَ الْاَرْضِ ءَاِلٰهٌ مَّعَ اللّٰهِﵧ قَلِيْلًا مَّا تَذَكَّرُوْنَ ٦٢
کیا یہ بہتر ہیں یا وہ (پروردگار) جو بے قرار کی داد رسی کرتا ہے، جب وہ اُسے پکارتا ہے اور اُس کے دکھ کو دور کر دیتا ہے[79] اور (تم سے پہلوں کو ہٹاتا اور) تم کو زمین کا وارث بنادیتا ہے[80]؟ کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور معبود بھی (اِن سب کاموں میں شریک) ہے؟ تم لوگ کم ہی یاددہانی حاصل کرتے ہو[81]۔۶۲
اَمَّنْ يَّهْدِيْكُمْ فِيْ ظُلُمٰتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَمَنْ يُّرْسِلُ الرِّيٰحَ بُشْرًاۣ بَيْنَ يَدَيْ رَحْمَتِهٖﵧ ءَاِلٰهٌ مَّعَ اللّٰهِﵧ تَعٰلَي اللّٰهُ عَمَّا يُشْرِكُوْنَ ٦٣
کیا یہ بہتر ہیں یا وہ (پروردگار) جو بحر و بر کی تاریکیوں میں تمھاری رہنمائی کرتا ہے[82] اور جو اپنے باران رحمت سے آگے ہواؤں کو خوش خبری بنا کر بھیجتا ہے؟ کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور معبود بھی (اِن سب کاموں میں شریک ) ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ اللہ بہت ہی برتر ہے اُن چیزوں سے جنھیں یہ اُس کا شریک ٹھیراتے ہیں ۔ ۶۳
اَمَّنْ يَّبْدَؤُا الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيْدُهٗ وَمَنْ يَّرْزُقُكُمْ مِّنَ السَّمَآءِ وَالْاَرْضِ ءَاِلٰهٌ مَّعَ اللّٰهِ قُلْ هَاتُوْا بُرهَانَكُمْ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ ٦٤
کیا یہ بہترہیں یا وہ (پروردگار) جو خلق کی ابتدا کرتا ہے، پھر اُس کا اعادہ کرے گا [83]اور جو زمین و آسمان سے تمھیں روزی دیتا ہے[84]؟ کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور معبود بھی (اِن سب کاموں میں شریک) ہے؟ اِن سے کہو کہ اپنی دلیل لاؤ، اگر تم سچے ہو[85]۔ ۶۴
قُلْ لَّا يَعْلَمُ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ الْغَيْبَ اِلَّا اللّٰهُ وَمَا يَشْعُرُوْنَ اَيَّانَ يُبْعَثُوْنَ ٦٥
(یہ عذاب کے لیے جلدی مچاتے ہیں )۔ اِن سے کہو، (یہ غیب کی باتیں ہیں اور) اللہ کے سوا زمین اور آسمانوں میں جو بھی ہیں ، اِس غیب کو نہیں جانتے اور نہ یہ جانتے ہیں کہ (مرنے کے بعد) کب اٹھائے جائیں گے[86]۔ ۶۵
بَلِ ادّٰرَكَ عِلْمُهُمْ فِي الْاٰخِرَةِﵴ بَلْ هُمْ فِيْ شَكٍّ مِّنْهَاﵴ بَلْ هُمْ مِّنْهَا عَمُوْنَ ٦٦ وَقَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْ٘ا ءَاِذَا كُنَّا تُرٰبًا وَّاٰبَآؤُنَا٘ اَئِنَّا لَمُخْرَجُوْنَ ٦٧ لَقَدْ وُعِدْنَا هٰذَا نَحْنُ وَاٰبَآؤُنَا مِنْ قَبْلُ اِنْ هٰذَا٘ اِلَّا٘ اَسَاطِيْرُ الْاَوَّلِيْنَ ٦٨
(تمھارا خیال ہے کہ یہ اِس بات کو سمجھتے نہیں ہیں )؟ ہرگز نہیں ، بلکہ آخرت کے بارے میں اِن کا علم الجھ گیا ہےan[87]، بلکہ یہ اُس کی طرف سے شک میں ہیں ، بلکہ یہ اُس سے اندھے بنے ہوئے ہیں [88]۔ یہ منکرین کہتے ہیں کہ کیا جب ہم مٹی ہو جائیں گے اور ہمارے باپ دادا بھی توکیا ہم قبروں سے نکالے جائیں گے؟ یہ دھمکی ہمیں بھی دی گئی ہے اور اِس سے پہلے ہمارے باپ دادا کو بھی دی گئی تھی۔ کچھ نہیں ، یہ محض اگلوں کی کہانیاں ہیں ۔ ۶۶-۶۸
قُلْ سِيْرُوْا فِي الْاَرْضِ فَانْظُرُوْا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُجْرِمِيْنَ ٦٩
اِن سے کہو ، (نہیں مانتے ہو تو) ذرا اپنی اِس سرزمین ہی میں چلو پھرو، پھر دیکھ لو کہ (اُن) مجرموں کا انجام کیا ہوا (جو تم سے پہلے اِسی طرح کی باتیں کرتے تھے[89])۔ ۶۹
وَلَا تَحْزَنْ عَلَيْهِمْ وَلَا تَكُنْ فِيْ ضَيْقٍ مِّمَّا يَمْكُرُوْنَ ٧٠ وَيَقُوْلُوْنَ مَتٰي هٰذَا الْوَعْدُ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ ٧١ قُلْ عَسٰ٘ي اَنْ يَّكُوْنَ رَدِفَ لَكُمْ بَعْضُ الَّذِيْ تَسْتَعْجِلُوْنَ ٧٢ وَاِنَّ رَبَّكَ لَذُوْ فَضْلٍ عَلَي النَّاسِ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَهُمْ لَا يَشْكُرُوْنَ ٧٣ وَاِنَّ رَبَّكَ لَيَعْلَمُ مَا تُكِنُّ صُدُوْرُهُمْ وَمَا يُعْلِنُوْنَ ٧٤ وَمَا مِنْ غَآئِبَةٍ فِي السَّمَآءِ وَالْاَرْضِ اِلَّا فِيْ كِتٰبٍ مُّبِيْنٍ ٧٥
اِن پر افسوس نہ کرو،(اے پیغمبر)، اور جو چالیں یہ چل رہے ہیں ، تم اُن پر دل تنگ نہ ہو[90]۔ یہ پوچھتے ہیں کہ اگر تم لوگ سچے ہو تو یہ وعدہ کب پورا ہو گا؟ اِن سے کہو کہ جس (قیامت) کے لیے جلدی مچائے ہوئے ہو، بہت ممکن ہے کہ اُس میں سے کچھ تمھارے پیچھے ہی لگا ہوا ہو[91]۔ (اِس وقت جو مہلت تمھیں ملی ہوئی ہے، وہ تمھارے ہی فائدے کے لیے ہے)۔حقیقت یہ ہے کہ تیرا پروردگار لوگوں پر بڑا فضل فرمانے والا ہے، مگر اُن میں سے اکثر شکر گزار نہیں ہوتے۔ اِن کے سینے جو کچھ اپنے اندر چھپائے ہوئے ہیں اور جو کچھ یہ ظاہر کرتے ہیں ، تیرا پروردگار یقیناً اُسے جانتا ہے۔ زمین و آسمان میں کوئی ایسی چھپی ہوئی چیز نہیں ہے جوایک واضح کتاب میں درج نہ ہو[92]۔ ۷۰- ۷۵
اِنَّ هٰذَا الْقُرْاٰنَ يَقُصُّ عَلٰي بَنِيْ٘ اِسْرَآءِيْلَ اَكْثَرَ الَّذِيْ هُمْ فِيْهِ يَخْتَلِفُوْنَ ٧٦ وَاِنَّهٗ لَهُدًي وَّرَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِيْنَ ٧٧ اِنَّ رَبَّكَ يَقْضِيْ بَيْنَهُمْ بِحُكْمِهٖ وَهُوَ الْعَزِيْزُ الْعَلِيْمُ ٧٨ فَتَوَكَّلْ عَلَي اللّٰهِ اِنَّكَ عَلَي الْحَقِّ الْمُبِيْنِ ٧٩
(یہ اُن کی باتوں سے گم راہ نہ ہوں ، اِس لیے کہ) یہ قرآن بنی اسرائیل پر بھی یقیناً وہ بہت سی چیزیں واضح کر رہا ہے جن میں وہ اختلاف کر رہے ہیں i[93] اور اِس میں شبہ نہیں کہ ماننے والوں کے لیے تو یہ سراسر ہدایت اور رحمت ہے[94]۔ یقیناً تیرا پروردگار (قیامت کے دن) اپنے حکم ناطق کے ذریعے سے اُن کے درمیان فیصلہ فرمائے گا[95]۔ وہ زبردست ہے، بڑے علم والا ہے۔ سو تم اللہ پر بھروسا رکھو، بے شک تمھی صریح حق پر ہو۔ ۷۶-۷۹
اِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتٰي وَلَا تُسْمِعُ الصُّمَّ الدُّعَآءَ اِذَا وَلَّوْا مُدْبِرِيْنَ ٨٠ وَمَا٘ اَنْتَ بِهٰدِي الْعُمْيِ عَنْ ضَلٰلَتِهِمْ اِنْ تُسْمِعُ اِلَّا مَنْ يُّؤْمِنُ بِاٰيٰتِنَا فَهُمْ مُّسْلِمُوْنَ ٨١
حقیقت یہ ہے کہ تم مردوں کو نہیں سنا سکتے اور نہ بہروں تک اپنی پکار پہنچا سکتے ہو، جب کہ وہ پیٹھ پھیر کر بھاگے جا رہے ہوں اور نہ اندھوں کو اُن کی گم راہی سے ہٹا کر راہ دکھا سکتے ہو[96]۔ تم صرف اُنھی کو سنا سکتے ہو جو ہماری آیتوں پر ایمان لانا چاہیں ۔ پھر وہی فرماں بردار بھی ہوں گے[97]۔ ۸۰-۸۱
وَاِذَا وَقَعَ الْقَوْلُ عَلَيْهِمْ اَخْرَجْنَا لَهُمْ دَآبَّةً مِّنَ الْاَرْضِ تُكَلِّمُهُمْ اَنَّ النَّاسَ كَانُوْا بِاٰيٰتِنَا لَا يُوْقِنُوْنَ ٨٢ وَيَوْمَ نَحْشُرُ مِنْ كُلِّ اُمَّةٍ فَوْجًا مِّمَّنْ يُّكَذِّبُ بِاٰيٰتِنَا فَهُمْ يُوْزَعُوْنَ ٨٣ حَتّٰ٘ي اِذَا جَآءُوْ قَالَ اَكَذَّبْتُمْ بِاٰيٰتِيْ وَلَمْ تُحِيْطُوْا بِهَا عِلْمًا اَمَّاذَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ ٨٤ وَوَقَعَ الْقَوْلُ عَلَيْهِمْ بِمَا ظَلَمُوْا فَهُمْ لَا يَنْطِقُوْنَ ٨٥
(اِس وقت تو،اے پیغمبر، تم اِنھیں سمجھا رہے ہو، لیکن)جب ہماری بات اِن پر پوری ہو جائے گی[98] تو ہم اِن کے لیے زمین سے کوئی جانور نکال کھڑا کریں گے جو اِنھیں بتائے گا کہ لوگ ہماری آیتوں پر یقین نہیں رکھتے تھے، (سو اب وہ قہر الہٰی بن کر سامنے آگئی ہیں ) [99]۔ یہ اُس دن کا خیال کریں جس دن ہم ہر امت میں سے ایک فوج کی فوج اُن لوگوں کی اکٹھا کریں گے جو ہماری آیتوں کو جھٹلاتے تھے، پھر اُن کی درجہ بندی کی جائے گی[100]۔ یہاں تک کہ جب وہ اکٹھے ہوکر آجائیں گے تو خدا پوچھے گا کہ کیا تم نے میری آیتوں کو جھٹلا دیا، دراں حالیکہ تمھارا علم اُن کا احاطہ نہ کر سکا تھا یا بتاؤ کہ تم کیا کرتے رہے تھے[101]؟ سو اُن پر بات پوری ہو جائے گی[102]، اِس لیے کہ اُنھوں نے اپنی جان پر ظلم کیا ،پھر وہ کچھ بول نہ سکیں گے۔ ۸۲-۸۵
اَلَمْ يَرَوْا اَنَّا جَعَلْنَا الَّيْلَ لِيَسْكُنُوْا فِيْهِ وَالنَّهَارَ مُبْصِرًاﵧ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّقَوْمٍ يُّؤْمِنُوْنَ ٨٦
(یہ نشانیاں مانگتے ہیں )؟ کیا اِنھوں نے دیکھا نہیں کہ ہم نے رات کو تاریک بنایا کہ اُس میں آرام کریں اور دن کو روشن کر دیا کہ اُس میں کام کریں [103]؟ حقیقت یہ ہے کہ اِس میں اُن لوگوں کے لیے بہت نشانیاں ہیں جو ماننا چاہیں [104]۔۸۶
وَيَوْمَ يُنْفَخُ فِي الصُّوْرِ فَفَزِعَ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَمَنْ فِي الْاَرْضِ اِلَّا مَنْ شَآءَ اللّٰهُ وَكُلٌّ اَتَوْهُ دٰخِرِيْنَ ٨٧ وَتَرَي الْجِبَالَ تَحْسَبُهَا جَامِدَةً وَّهِيَ تَمُرُّ مَرَّ السَّحَابِ صُنْعَ اللّٰهِ الَّذِيْ٘ اَتْقَنَ كُلَّ شَيْءٍ اِنَّهٗ خَبِيْرٌۣ بِمَا تَفْعَلُوْنَ ٨٨ مَنْ جَآءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهٗ خَيْرٌ مِّنْهَا وَهُمْ مِّنْ فَزَعٍ يَّوْمَئِذٍ اٰمِنُوْنَ ٨٩ وَمَنْ جَآءَ بِالسَّيِّئَةِ فَكُبَّتْ وُجُوْهُهُمْ فِي النَّارِ هَلْ تُجْزَوْنَ اِلَّا مَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ ٩٠
(لوگو)، اُس دن کا خیال کرو ، جس دن صور پھونکاجائے گا تو جو آسمانوں میں ہیں اور جوزمین میں ہیں ،سب گھبرا اٹھیں گے، سواے اُن کے جنھیں اللہ چاہے، اور اُس کے آگے سرجھکائے ہوئے سب حاضر ہو جائیں گے۔ تم پہاڑوں کو گمان کرو گے کہ جمے ہوئے ہیں ، دراں حالیکہ وہ بادلوں کی طرح اڑ رہے ہوں گے۔ یہ خدا کی صنعت کا کرشمہ ہو گا[105] جس نے ہر چیز کو محکم کیا ہے۔ بے شک، وہ جانتا ہے جو تم کرتے ہو[106]۔ اُس دن جو بھلائی لے کر آئیں گے، اُن کے لیے اُس سے بہتر صلہ ہے اوروہ اُس دن ہر گھبراہٹ سے محفوظ رہیں گے۔ اور جو برائی لے کر آئیں گے، وہ اوندھے منہ جہنم میں جھونک دیے جائیں گے ــــــ تم وہی بدلہ پا رہے ہو جو تم کرتے رہے ہو۔ ۸۷ -۹۰
اِنَّمَا٘ اُمِرْتُ اَنْ اَعْبُدَ رَبَّ هٰذِهِ الْبَلْدَةِ الَّذِيْ حَرَّمَهَا وَلَهٗ كُلُّ شَيْءٍﵟ وَّاُمِرْتُ اَنْ اَكُوْنَ مِنَ الْمُسْلِمِيْنَ ٩١ﶫ وَاَنْ اَتْلُوَا الْقُرْاٰنَ فَمَنِ اهْتَدٰي فَاِنَّمَا يَهْتَدِيْ لِنَفْسِهٖﵐ وَمَنْ ضَلَّ فَقُلْ اِنَّمَا٘ اَنَا مِنَ الْمُنْذِرِيْنَ ٩٢ وَقُلِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ سَيُرِيْكُمْ اٰيٰتِهٖ فَتَعْرِفُوْنَهَا وَمَا رَبُّكَ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ ٩٣
(اِن سے کہو،اے پیغمبر کہ) مجھے تو یہی حکم ملا ہے کہ میں اِس شہر کے رب کی بندگی کروں جس نے اِسے حرمت دی ہے[107] اور جس کے اختیار ہی میں سب کچھ ہے۔ اور مجھے حکم ملا ہے کہ اُس کے فرماں برداروں میں رہوں اور حکم ملا ہے کہ تمھیں یہ قرآن پڑھ کرسناؤں [108]۔پھر جو راہ پر آئے تو وہ اپنے لیے ہی راہ پر آئے گا اور جو گم راہی اختیار کرے، وہ بھی اپنے لیے اختیار کرے گا۔ سوکہہ دو کہ میں تو صرف خبردار کرنے والا ہوں [109]۔ اور کہہ دو کہ شکر اللہ ہی کے لیے ہے۔ وہ عنقریب اپنی نشانیاں تمھیں دکھائے گا اور تم اُنھیں پہچان لو گے [110]اور جو کچھ تم کر رہے ہو، تمھارا رب اُس سے بے خبر نہیں ہے[111] ۔۹۱-۹۳
[72]۔ یہ آیت پیچھے کے مضمون پر تبصرہ بھی ہے اور نہایت خوب صورت گریز بھی جس نے آگے کے مضمون کے لیے تمہید استوار کر دی ہے۔
[73]۔ یہاں سے آگے توحید پر جو خطبہ ارشاد ہواہے ، اُس کے صحیح زور کو سمجھنے کے لیے پے در پے سوالیہ انداز میں بات کہنے کا جو اسلوب اِس خطبے میں اختیار کیا گیا ہے، اُس کو سمجھنا چاہیے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’... اِس قسم کے سوالیہ جملوں میں مقصود استفہام اور سوال و جواب نہیں ہوتا، بلکہ افحام، اتمام حجت اور زجر و تنبیہ ہوتا ہے۔ متکلم پورے زور بیان کے ساتھ سوالیہ انداز میں حقائق کو پیش کرتا جاتا ہے اور مخاطب کی طرف سے کسی جواب کا انتظار کیے بغیر آگے بڑھ جاتا ہے۔ گویا اُس کی تردید میں کچھ کہنے کے لیے کوئی گنجایش کسی کے لیے سرے سے ہے ہی نہیں۔ اِس زور بیان کے تقاضے سے اِس قسم کے جملوں میں بعض اجزاے کلام حذف کردیے جاتے ہیں جن کو مخاطب خود سمجھ لیتا ہے یا اُس کو سمجھ لینا چاہیے۔ کلام کے اِس خلا کو متکلم کا زور کلام بھر دیتا ہے۔ خطباے جاہلیت کے کلام میں اِس حذف و ایجاز کی مثالیں بہت ہیں، لیکن قرآن کے آگے اِن کو پیش کرنا آفتاب کے آگے دیا جلانا ہے۔ اردو میں یہ اسالیب چونکہ نہیں ہیں، اِس وجہ سے ترجمے میں ہم نے کلام کے محذوفات کھول دیے ہیں۔‘‘(تدبرقرآن۵/ ۶۲۳)
[74]۔ اِس جملے میں غائب کے بجاے متکلم کا اسلوب ہے۔ اِس سے امتنان و احسان اور عنایت و ربوبیت کا اظہار مقصود ہے۔
[75]۔ یہاں پھر غائب کا اسلوب ہو گیا ہے۔ یہ نفرت و کراہت اور اظہار حسرت پر دلیل ہے۔ استاذ امام کے الفاظ میں، گویا بات اُن سے منہ پھیر کر فرمائی گئی ہے۔
[76]۔ یعنی نہایت اعلیٰ اہتمام اور نہایت غیر معمولی حکیمانہ مناسبتوں کے ساتھ اُسے زندگی کے موافق بنایا تاکہ وہ انسان کے لیے جاے قرار بن سکے۔
[77]۔ اِس سے وہ غیر مرئی دیوار مراد ہے جو بعض مقامات پر اللہ تعالیٰ میٹھے اور کھاری پانی کے درمیان کھڑی کر دیتا ہے۔
[78]۔ یہاں پھر اظہار حسرت و افسوس کے لیے غائب کا اسلوب اختیار فرمایا ہے۔
[79]۔ یعنی ایسی قدرت رکھتا ہے کہ کسی کی حاجت روائی کا فیصلہ کر لیتا ہے تو جتنے کائناتی اسباب اُس کے لیے جمع کرنا ضروری ہوں، سب چشم زدن میں جمع کرکے اُس کے دکھ اور تکلیف کو دور کر دیتا ہے۔
[80]۔ یہ اُس سنت الہٰی کی طرف اشارہ فرمایا ہے جس کے تحت ایک قوم نمایاں ہوتی، اپنا کردار ادا کرتی اور پھر دوسری کے لیے جگہ چھوڑ کر ہمیشہ کے لیے دنیا کے اسٹیج سے رخصت ہو جاتی ہے۔ گویا قوموں کے لیے بھی موت و حیات کا وہی قانون ہے جس کا مشاہدہ ہم افراد کی زندگی میں کرتے ہیں۔ یہ ، ظاہر ہے کہ خدائی سطح کا کام ہے جسے زمین و آسمان کا خالق ہی انجام دے سکتا ہے۔
[81]۔ یعنی نہ اپنے اندر خدا کی نشانیوں سے سیکھتے ہو نہ قوموں کی تاریخ میں۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’...آیت کے دونوں ٹکڑوں ’اَمَّنْ يُّجِيْبُ الْمُضْطَرَّ اِذَا دَعَاهُ‘ اور ’يَجْعَلُكُمْ خُلَفَآءَ الْاَرْضِ‘ میں بڑا گہرامعنوی ربط ہے۔ مطلب یہ ہے کہ نہ تم اُن مصائب سے کوئی سبق حاصل کرتے ہو جو تمھاری انفرادی زندگیوں میں پیش آتے ہیں اور نہ اُس ردو بدل سے کوئی عبرت پکڑتے جس سے قوموں کو دوچار ہونا پڑتا ہے۔ تو جن کی یادداشت اتنی کم زور ہو، اُن کو کون سبق پڑھا سکتا ہے!‘‘(تدبرقرآن۵/ ۶۲۶)
[82]۔ یہ اُس رہنمائی کی طرف اشارہ ہے جو انسان کو زمین کی مختلف علامتوں اور مہ و آفتاب اور نجوم و کواکب کے طلوع و غروب اور اُن کی گردش سے حاصل ہوتی ہے۔
[83]۔ یعنی اُسی طرح اعادہ کرے گا، جس طرح اُس نے ابتدا کی ہے۔ یہ ایک بدیہی حقیقت کے ایک بدیہی نتیجے کا بیان ہے کہ جب اِس کائنات کی موجودہ تخلیق سے انکار نہیں ہے تو اِس کے اعادے میں بھی کسی شک کی گنجایش نہیں ہو سکتی۔
[84]۔ یعنی وہ تمام وسائل مہیا کرتا ہے جن سے پوری انسانیت اپنے لیے رزق کا بندوبست کرتی ہے۔یہ کوئی معمولی اہتمام نہیں ہے کہ اِسے کسی جھوٹے معبود یا کسی اندھے طبیعی قانون کی طرف منسوب کرکے انسان اپنے آپ کو مطمئن کر سکے۔
[85]۔ یعنی اپنے اِس دعوے میں سچے ہو کہ اُس کی خدائی میں کچھ دوسرے بھی اُس کے ساتھ شریک ہیں۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’ اِس ساری بحث کا خلاصہ دو لفظوں میں یوں پیش کیا جا سکتاہے کہ جو خدا کو نہیں مانتا، اِن سوالوں کا کوئی اطمینان بخش جواب دے جو اوپر مذکور ہوئے۔ اور اگر مانتا ہے، لیکن اِس کے ساتھ دوسرے خداؤں کو بھی شریک کرتا ہے تووہ اِن خداؤں کے حق میں دلیل پیش کرے۔ دلیل و ثبوت کی ذمہ داری بہرحال منکروں یا مشرکوں پر ہے۔ خدا کے ماننے والوں پر کسی چیز کو ثابت کرنے کی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی۔ وہ تو ایک بدیہی حقیقت کو مانتے ہیں۔‘‘ (تدبرقرآن۵/ ۶۲۷)
[86]۔ یعنی نہ قیامت کا وقت کسی کو معلوم ہے اور نہ اُس عذاب کا جو رسولوں کی طرف سے اتمام حجت کے بعد اُن کی قوموں پر آتاہے۔ میں بھی اُنھی میں سے ہوں، اِس لیے صرف یہ بتا سکتا ہوں کہ نہیں مانو گے تو خدا کا عذاب آجائے گا۔ اِس سے زیادہ مجھے کچھ معلوم نہیں ہے۔
[87]۔ یعنی نہ صریح انکار کر سکتے ہیں نہ ماننا چاہتے ہیں، اِس لیے ایک قسم کی ذہنی الجھن میں مبتلا ہو گئے ہیں۔
[88]۔ یہ لوگ جس مرض میں مبتلا تھے، قرآن نے یہ اُس کے تدریجی ارتقا کو بیان کر دیا ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’یہ ایک حقیقت ہے کہ حقائق سے گریز و فرار کی اصلی علت آخرت سے گریز و فرار ہی ہے۔ آخرت کو مان لینے سے چونکہ انسان پر عظیم ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں، اِس وجہ سے وہ اُس سے بھاگتا ہے۔ اور فرار کے لیے چونکہ کوئی راہ نہیں ہے، اِس وجہ سے وہ چور دروازے تلاش کرتا ہے۔ یہ چیز اُس کو ایک شدید ذہنی الجھن میں مبتلا کر دیتی ہے۔ وہ حقائق سے گریز کرنے کے لیے اُن کے اندر شک کے پہلو ڈھونڈتا ہے۔ یہ غیر فطری جستجو اُس کو شک کا مریض بنا دیتی ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اُسے صریح حقائق سے آنکھیں بند کر کے اندھا بننا پڑتا ہے۔‘‘(تدبرقرآن۵/ ۶۲۹)
[89]۔ یعنی عاد و ثمود وغیرہ جن کی سرگذشتیں قرآن میں جگہ جگہ بیان ہوئی ہیں اور جن کے تباہ شدہ آثار سرزمین عرب ہی میں موجود تھے۔
[90]۔ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی ہے کہ اِن کی ضد اور ہٹ دھرمی پر غم کھانے کی ضرورت نہیں ہے اور نہ اِن کی شرارتوں سے آزردہ ہونا چاہیے۔ آپ اپنا فرض ادا کیجیے، یہ خدا کی گرفت میں ہیں، اُس سے بھاگ کر کہیں نہیں جا سکتے۔
[91]۔ یعنی وہ قیامت صغریٰ جو رسولوں کی طرف سے اتمام حجت کے بعد اُن کے منکرین کا گویا تعاقب کر رہی ہوتی ہے۔
[92]۔ اِن الفاظ میں جو تہدید و وعیدہے، اُسے قرآن کے طلبہ سمجھ سکتے ہیں۔ گویا مدعا یہ ہے کہ تمھارے سب کرتوت اُس نے لکھ رکھے ہیں، اُس سے کوئی چیز بھی چھپی نہ رہے گی۔جس چیز کے لیے جلدی مچا رہے ہو، وہ اِسی لیے تو آئے گی کہ تمھارایہ اعمال نامہ تمھارے سامنے کھول دے۔ اِس لیے سوچ لو کہ کس چیز کے لیے جلدی مچا رہے ہو۔
[93]۔ یہ اُن اختلافات کی طرف اشارہ ہے جو بنی اسرائیل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے متعلق بعض حقائق سے رکھتے تھے۔
[94]۔ اِس لیے کہ جونہی وہ اِسے مانیں گے، یہ اختلافات کی بھول بھلیوں سے نکال کر اُنھیں صراط مستقیم پر لے آئے گا اور دنیا اور آخرت، دونوں میں اُنھیں خدا کی رحمت کا مستحق بنا دے گا۔
[95]۔ یعنی خدا کے فیصلے کو یہاں نہیں مانیں گے تو یہی فیصلہ قیامت کے دن سننا پڑے گا اور اُس وقت کسی کے لیے زبان کھولنے کی گنجایش نہ ہو گی۔
[96]۔ آیت میں ’هٰدِي‘ کے ساتھ ’عَنْ‘ آیا ہے۔ یہ اِس بات کا قرینہ ہے کہ یہاں تضمین ہے۔ ہم نے ترجمے میں اُسے کھول دیا ہے۔
[97]۔ یہ اُس سنت الہٰی کی طرف اشارہ فرمایا ہے جو خدا نے ہدایت و ضلالت کے باب میں قائم کر رکھی ہے کہ ہدایت اُنھی کو ملتی ہے جو ہر طرح کے تعصبات سے بالاتر ہو کر اُس کا استقبال کرنے کے لیے تیار ہوں، اندھے اور بہرے ہو کر اُس سے بھاگنے والوں کو یہ نعمت کبھی نصیب نہیں ہوتی۔
[98]۔ یعنی حجت پوری ہو جائے گی اور فیصلے کا وقت آجائے گا۔
[99]۔ یعنی اپنے وجود سے یہ حقائق واضح کر دے گا۔آیت میں اِس کے لیے ’تُكَلِّمُهُمْ‘ کا لفظ آیا ہے۔ یہ اُسی مفہوم میں ہے، جس مفہوم میں یہ سورۂ روم (۳۰) کی آیت ۳۵ میں ہے۔ یہ اِس لیے ہو گا کہ جو لوگ خدا کے آخری پیغمبر کی بات بھی سننے کے لیے تیار نہ ہوں، اُن پرپھر جانوروں ہی کو گواہی دینی چاہیے۔ تاہم اِس کی نوبت نہیں آئی، اِس لیے کہ قریش کے بیش تر لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لے آئے۔ روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ آخری زمانے میں بھی لوگوں کے ساتھ اِسی طرح کا معاملہ ہو گا اور اُن پر گواہی کے لیے اِسی نوعیت کا ایک ’
دَآبَةُ الْاَرْضِ‘نکال کھڑا کیا جائے گا۔
[100]۔ یعنی ہر گروہ کو اُس کے جرائم اور اُن کی مقدار کے لحاظ سے الگ کر دیا جائے گا۔
[101]۔ مطلب یہ ہے کہ کائنات کے تمام اسرارتم پر کھل گئے ہوتے اورتم انکار کر دیتے تو کوئی بات بھی تھی، لیکن تم نے تو خزف ریزوں سے اہرام کو ڈھانے کی کوشش کی ہے۔ دورحاضر کے سائنس دانوں کے لیے بھی اِس میں بڑی تنبیہ ہے جو مادے میں کارفرما چند قوانین سے واقف ہو کر اِسی طرح کی جسارت کر رہے ہیں، دراں حالیکہ ابھی نوری سالوں کے فاصلوں تک پھیلی ہوئی ایک عظیم کائنات اور خود اُن کے اندر ایک جہان کبیر اُن کے مطالعے کے لیے پڑا ہوا ہے۔
[102]۔ یعنی خدا کا فیصلہ صادر ہو جائے گا کہ اِنھیں اب جہنم میں جھونک دیا جائے ۔
[103]۔ آیت کے پہلے فقرے میں ’مظلمًا‘ اور دوسرے میں ’لتعملوا‘ یا اِس کے ہم معنی الفاظ عربیت کے اسلوب کے مطابق حذف کر دیے گئے ہیں۔ ہم نے ترجمے میں اُنھیں کھول دیا ہے۔مطلب یہ ہے کہ شب و روز کی گردش ہی کو دیکھو کہ کیسی حکمت، معنویت اور منصوبہ بندی اِس میں علانیہ نظر آ رہی ہے۔ پھر یہ دونوں موت و حیات کی تمثیل بھی ہیں۔ چنانچہ دیکھ لو ہر روز کس پابندی کے ساتھ ایک یوم النشور کی یاددہانی کر رہے ہیں۔ کیا اِس کے بعد بھی حشر و نشر اور قیامت کے بارے میں کوئی شبہ باقی رہ جاتا ہے؟
[104]۔ آیت کے اسلوب سے واضح ہے کہ یہاں فعل ارادۂ فعل کے معنی میں ہے۔
[105]۔ اصل الفاظ ہیں:’صُنْعَ اللّٰهِ الَّذِيْ٘ اَتْقَنَ كُلَّ شَيْءٍ‘۔ یہ اُسی طرح کی ترکیب ہے، جیسے ’وَعْدَاللّٰهِ‘ اور ’صِبْغَةَ اللّٰهِ‘ وغیرہ۔ کسی چیز کی طرف خاص طور سے توجہ دلانا مقصود ہو تو عربی زبان میں یہ اسلوب بالعموم اختیار کیا جاتا ہے۔
[106]۔ چنانچہ اُس کی جزا و سزا بھی لازماً دے گا۔ آگے اُسی کی تفصیل ہے۔
[107]۔ سورہ کے آخر میں یہ بالکل فیصلہ کن انداز میں قریش کو توجہ دلائی ہے کہ میں اُسی مقصد کے احیا و تجدیدکے لیے مبعوث ہوا ہوں جس کے لیے خدا نے ہمارے ابوالآبا ابراہیم علیہ السلام کو حکم دیا تھا کہ وہ اِس شہر کو عالمی سطح پر دعوت توحید کا مرکز بنائیں۔ چنانچہ عبادت و اطاعت میں اُسی توحید کو اختیارکیے ہوئے ہوں اور اِس شہر کے مالک نے مجھے اِسی کا حکم دیا ہے۔
[108]۔ یعنی جس توحید کو میں نے اختیارکیاہے، اِس قرآن کے ذریعے سے تم کو بھی اُسی کی دعوت دوں اور اُس کے مقتضیات تم پر واضح کروں۔
[109]۔ مطلب یہ ہے کہ میری ذمہ داری صرف انذار ہے اور میں یہ ذمہ داری ادا کر رہا ہوں۔ تم جو مطالبات مجھ سے کر رہے ہو، مجھے اُن سے کوئی سروکار نہیں ہے۔
[110]۔ یعنی تمھیں پتا چل جائے گا کہ یہ وہی نشانیاں ہیں جن کے بارے میں میں نے تمھیں خبردار کر دیا تھا ۔ چنانچہ معلوم ہے کہ ہجرت کے بعد یہ سب نشانیاں ظاہر ہو گئیں اور لوگوں نے بچشم سر دیکھ لیا کہ خدا کے پیغمبر نے کتنی سچی باتیں بتائی تھیں۔
[111]۔ یعنی جب بے خبر نہیں ہے تو متنبہ ہو جاؤ، تمھاری خبر بھی لازماً لے گا۔
ـــــــــــــــــــــــــ