[’’سیر و سوانح ‘‘ کے زیر عنوان شائع ہونے والے مضامین ان کے فاضل مصنفین کی اپنی تحقیق پر مبنی ہوتے ہیں، ان سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔ ]
۱۰/ اگست (۲۱ /رمضان)۶۱۰ء كی فجر، پوپھٹنےسے پہلے حضرت جبریل علیہ السلام آسمانوں سےحضرت محمد صلی الله علیہ وسلم كے لیے پہلی وحی الہٰی لے كرغار حرا میں اترے۔ اسلام كا سورج طلوع ہواتو آپ كے ساتھ زندگی بسر كرنے والے سلیم الفطرت افراداس نور ہدایت سے فی الفور منور ہو گئے۔ آپ كی اہلیہ ام المومنین حضرت خدیجہ، آپ كےقریبی رفیق حضرت ابوبكر، آپ كےآزاد كرده حضرت زید بن حارثہ اور آپ كی پرورش میں رہنے والے حضرت علی سب سے پہلے ایمان لائے۔ اس كے بعد چیدہ چیده نیك فطرت انسانوں نے اسلام كی طرف سبقت كی۔ اسی اثنا میں قریش مكہ كی طرف سے مزاحمت، پھر اذیت رسانیوں كا سلسلہ شروع ہوا اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم دارارقم میں منتقل ہو گئے۔ ان حالات میں اسلام كی طرف لپكنے والوں كوالله تعالیٰ نے ’السابقون الاولون‘ كے نام سے پكارا ہے۔ اسی طرح تیره سالہ مكی زندگی كے بعد الله كی طرف سے ہجرت كا اذن ہوا تو یثرب كے جن اصحاب نے دین حق كی دعوت كو اول اول قبول كیا، اسی زمرے میں شامل ہوئے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَالسّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُهٰجِرِيْنَ وَالْاَنْصَارِ وَالَّذِيْنَ اتَّبَعُوْهُمْ بِاِحْسَانٍﶈ رَّضِيَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَرَضُوْا عَنْهُ وَاَعَدَّ لَهُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ تَحْتَهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْهَا٘ اَبَدًاﵧ ذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُ.(التوبہ ۹: ۱۰۰)
’’اور مہاجرین اور انصارمیں سے سبقت لے جانے والے، پہلے پہلے اور وہ جنھوں نے ان كی خوب خوب پیروی كی، الله ان سے راضی ہوا اور وہ الله سے راضی ہوئے۔ اس نے ان كے لیے باغات تیار كر ركھے ہیں جن كے نیچے نہریں بہتی ہوں گی۔ ان میں یہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔ یہی بڑی كامیابی ہے۔ ‘‘
السابقون الاولون میں جہاں خلفاے راشدین، اصحاب عشره مبشرہ اور كئی جلیل القدر صحابہ شامل ہیں، جن كے كارہاے نمایاں سے تاریخ اسلامی كے اوراق مزین ہیں، وہیں ایسے اصحاب بھی تھے جن كی زندگی مختصر رہی یا اہم وقائع میں ان كی شمولیت نمایاں نہیں ہو سكی۔ بیش تر السابقون الاولون كا ذكرہو چكا ہے، اگلے صفحات میں ان اصحاب رسول كا بیان ہو گا جنھیں سبقت الی الاسلام كا شرف تو حاصل ہے، لیكن تاریخ ان كی بعد كی زندگی كی تفاصیل بتانے سے قاصر ہے۔
_______
حضرت خنیس بن حذافہ كا تعلق قبیلہ بنو سہم سے تھا۔ قریش كی اس شاخ كے بارے میں حكایت مشہور ہے كہ انھوں نے كعبہ كا طواف كرنے والے ایك جن كو قتل كر دیا تو مكہ میں ایك سیاه طوفان اٹھا جس میں بنو سہم كے سینكڑوں افراد مارے گئے۔ جواب میں یہ قبیلہ پہاڑوں پر چڑھ گیا اور تمام بچھوؤں، سانپوں اور حشرات الارض كو مار ڈالا۔ تین دن گزرنے كے بعد جن عاجز آگئے اور صلح كی پیش كش كی(تاریخ مکۃ ، الازرقی ۲/ ۱۶)،تب بنو سہم جن كش مشہور ہوئے اور ان كی دھاك بیٹھ گئی۔ مكہ میں بنو سہم كی كثرت تھی اور وه بنو عبد مناف كے برابر جانے جاتے تھے۔ حضرت خنیس كے دادا قیس بن عدی اپنےزمانہ میں قریش كے معزز ترین سردار شمار ہوتے تھے۔ نبی صلی الله علیہ وسلم كے پڑدادا ہاشم آپ كے دادا عبدالمطلب كی پیدایش سے پہلے ہی فوت ہو گئے تھے، عبدالمطلب كو ان كے چچا مطلب نے پالا۔ انھی كی نسبت سے ان كا نام شیبہ سے عبدالمطلب مشہور ہو گیا۔ مطلب اپنے بھتیجے عبدالمطلب كو خوب كھلاتے، انھیں اچھالتے ا ور كہتے:
كأنه في العز قیس بن عدی
’’گویا یہ بچہ عزت و شرف میں قیس بن عدی كے برابر ہے۔ ‘‘
بعثت نبوی سے پہلے بنو سہم كی عددی قوت كم ہو چكی تھی۔ اس كی وجہ جنوں كا مذكوره حملہ یا كوئی اور آفت تھی (نسب قریش، مصعب بن عبدالله۱/ ۴۰۰ - ۴۰۲)۔
قیس بن عدی حضرت خنیس كے دادا، سہم بن عمرو ان كے پانچویں اور کعب بن لؤی آٹھویں جد تھے۔ ان كی والده كا نام ضعیفہ بنت حذیم تھا۔ ابو حذیفہ ان كی كنیت تھی۔
حضرت خنیس كا شمار دعوت اسلام پر لبیك كہنے والے ان اولین صحابہ میں ہوتا ہے جنھیں الله تعالیٰ نے ’السّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ‘(التوبہ۹: ۱۰۰)كہہ كرپكارا ہے۔ Wikipediaكے مضمون نگار كا كہنا ہے كہ حضرت خنیس حضرت ابوبكر كی تحریك پر ایمان لائے۔
ابن اسحاق نے اپنی ’’السیرة النبویة‘‘، میں ’’ اسلام خمسة علی یدیه‘‘ كا عنوان قائم كركے حضرت زبیربن عوام، حضرت عثمان بن عفان، حضرت طلحہ بن عبیدالله،حضرت سعد بن ابی وقاص اور حضرت عبدالرحمٰن بن عوف كے نام لكھےاوربتايا كہ یہ پانچوں اصحاب حضرت ابوبكر كی دعوت پر ایمان لائے۔اس كے بعدحضرت ابوذر غفاری كے قبول دین حق كا قصہ بیان كیا ، رسول الله صلی الله علیہ وسلم كے كچھ صفاتی ناموں اور تورات و انجیل میں آپ كی بیان كردہ صفات كا ذكر كیا پھر ’’اسلام المہاجرین ‘‘كے عنوان سے السابقون الاولون كے نام تحریر كیے ، حضرت خنیس بن حذافہ انھی میں سے ایك ہیں ۔
ابن ہشام نے ’’السیرة النبویة‘‘لكھی تو حضرت ابوبكر كی دعوت پر ایمان لانے والے صحابہ كا ذكر كركے السابقون الاولون كے نام متصل ہی درج كر ديے ، بیچ كی دو فصلیں اس جگہ تحریر نہ كیں۔ ۱۹۵۵ءمیں برطانوی اسكالر Guillaume Alfred نے""The Life of Muhammad كے نام سے ’’سیرت ابن اسحاق‘‘ كا انگریزی ترجمہ كیا تو ابن ہشام كے اسی متن كو ملحوظ ركھا۔ "The Companions who accepted Islam at the invitation of Abu Bakr" كی سرخی لگاكر مذكوره پانچ اصحاب كے نام لكھےاور ’’اسلام المہاجرین ‘‘كی فصل میں دیے گئے چوالیس(سیرت ابن ہشام : چھیالیس) نام اس کے ساتھ ہی بیان كردیے۔ اس سے یہ تاثر پیدا ہوا كہ تمام ’السابقون‘ اس عنوان كے تحت آ گئے ہیں۔ Wikipediaكے مضمون نگار نے Guillaume كے ترجمے ۱۱۶ كا حوالہ دیتے ہوئے شاید اسی تاثر كوقبول كیا ہے۔
ابن كثیرنےخیثمہ بن سلیمان طرابلسی كے حوالے سے حضرت ابوبكركی ترغیب پر ایمان لانے والے صحابہ كی تعداد نو بتائی ہے، كہتے ہیں:پہلے دن حضرت ابوبكر حضرت عثمان بن عفان،حضرت طلحہ بن عبیدالله، حضرت زبیربن عوام اورحضرت سعد بن ابی وقاص كو آپ كی خدمت میں لے آئے اور انھوں نے اسلام قبول كیا۔اگلے روز وه حضرت عثمان بن مظعون، حضرت ابو عبیده بن جراح ،حضرت عبدالرحمٰن بن عوف ، حضرت ابو سلمہ بن عبدالاسداور حضرت ارقم بن ابو الارقم كو بارگاه نبوی میں لے كر آئے اور یہ سب نور ایمان سے منور ہوئے(البدایةوالنهایة،ذكر اول من اسلم) ۔
ابن اسحاق كی ترتیب كرده فہرست كے مطابق اسلام كی طرف سبقت كرنے والوں میں حضرت خنیس بن حذافہ كا نمبر ستائیسواں تھا۔ نبی صلی الله علیہ وسلم كےحضرت ارقم بن ابوارقم كے گھر منتقل ہونے سے پہلے وه نعمت ایمان سے سر فراز ہوچكے تھے۔ آپ تبلیغ دین میں كفار كی طرف سے پیش آنے والی ركاوٹوں كے سبب سے دار ارقم میں تشریف لے گئے تھے جو كوه صفا كے دامن میں ایك تنگ گلی میں واقع تھا، عام لوگوں كو یہاں آنے جانے والوں كی خبر نہ ہوتی تھی۔
۵/نبوی (۶۱۵ء)میں قریش كے اہل ایمان پر ظلم و ستم بڑھ گئے تو نبی صلی الله علیہ وسلم نے صحابہ کو ارشاد فرمایا کہ حبشہ، Ethiopia) Abyssinia ) كو ہجرت کر جائیں۔ آپ نےفرمایا: وہاں ایسا بادشاہ King of) (Axumحکمران ہے جس کی سلطنت میں ظلم نہیں کیا جاتا۔ چنانچہ ماه رجب میں حضرت عثمان بن مظعون كی قیادت میں گیاره مرد اور چار عورتیں دو كشتیوں پر سوار ہو كر سوے حبشہ روانہ ہوئے۔ اسے ہجرت اولیٰ کہا جاتا ہے۔ چند دنوں کے بعد حضرت جعفر بن ابو طالب كی سربراہی میں سڑسٹھ اہل ایمان حبشہ كو عازم سفر ہوئے۔ اس طرح مہاجرین كی مجموعی تعداد اكیاسی (یاتراسی، ایك سو نو:ابن جوزی) ہو گئی۔ حضرت خنیس بن حذافہ اس گروپ میں شامل تھے۔ حضرت خنیس كے چچا زاد حضرت عبدالله بن حارث، حضرت محمیہ بن جزء اور بنو سہم ہی سے تعلق ركھنے والے حضرت ہشام بن عاص نے بھی حضرت خنیس كے ساتھ حبشہ ہجرت كی۔ ابن اسحاق نے حبشہ جانے والے كل چوده سہمیوں كے نام گنوائے ہیں، ان میں حضرت خنیس كے دو سوتیلے بھائیوں حضرت عبدالله بن حذافہ، حضرت قیس بن حذافہ اور ان كے سات چچیروں كے علاوہ بنو سہم كے دیگر چار افرادشامل تھے۔
حضرت خنیس بن حذافہ ہجرت مدینہ سے قبل چوری چھپے یا كسی كی پناه لے كر مكہ واپس آ گئے اور یہاں سے مدینہ روانہ ہوئے۔ تب ان كی حضرت حفصہ بنت عمر سے شادی ہوئی جو اس وقت چودہ برس كی تھیں۔ ہمارے خیال میں یہ
Wikipediaكے مضمون نگار كا اندازه ہے كیونكہ Guillaume اور ابن سحاق نے محض ان كی واپسی كا ذكر كیا ہے، دیگر تفصیلات بیان نہیں كیں۔
۶۲۲ء :آں حضور صلی الله علیہ وسلم اور مسلمانوں كو مدینہ ہجرت كرنے کا اذن ہواتو حضرت خنیس بن حذافہ اپنے سسر حضرت عمر بن خطاب، حضرت زید بن خطاب، حضرت سعید بن زید، حضرت عبداللہ بن سراقہ، حضرت عمرو بن سراقہ، حضرت واقد بن عبداللہ، حضرت خولی بن ابو خولی، حضرت مالك بن ابو خولی اور اپنے اہل خانہ کے ساتھ مدینہ روانہ ہوئے۔ حضرت ایاس بن بكیر، حضرت عاقل بن بكیر، حضرت عامر بن بكیر اور حضرت خالد بن بكیر، چاروں بھائی بھی اسی قافلے میں مدینہ پہنچے، یہ كل بیس افرادتھے۔ ان کا قیام حضرت رفاعہ بن عبدالمنذر کے گھر ہوا جو بنو عمرو بن عوف (قبا) میں رہتے تھے۔
مدینہ آمد كے بعد رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے حضرت ابو عبس بن جبر(حضرت ابوحبیش بن جبیریا حضرت منذر بن عقبہ:ابن جوزی) كو حضرت خنیس كا انصار ی بھائی قرار دیا۔
حضرت خنیس اصحاب صفہ میں شامل تھے۔
حضرت خنیس بن حذافہ نے جنگ بدر میں نبی صلی الله علیہ وسلم كی معیت میں حصہ لیا، انھوں نے اكیلے ہی بنو سہم كی نمایندگی كی۔ اس غزوہ میں ان كی شركت ثابت ہے اور اس میں كوئی شبہ نہیں۔ صحابہ كے تینوں سوانح نگار، ابن عبدالبر، ابن اثیر اور ابن حجر كہتے ہیں: حضرت خنیس جنگ احد میں بھی شریك ہوئے اور شدید زخمی ہونے كے بعد ۳ھ میں مدینہ میں فوت ہوئے، تاہم یہ بات كسی تاریخ سے ثابت نہیں ہوتی۔ ابن اسحاق نے واضح طورپر لكھا ہے كہ وه بدر كے دن شہید ہوئے (السیرة النبویۃ، ابن اسحاق۱/ ۲۵۸)۔ طبری نے سن وفات ذكر نہیں كیا۔ ابن كثیر كہتے ہیں: انھوں نے جنگ بدر میں جام شہادت نوش كیا(االبدایۃ والنہایۃ۴/۱۲۵)۔ بلاذری كا كہنا ہے: حضرت خنیس میدان بدر میں بیمار ہوئے اور جنگ سے واپسی پر ۲ھ میں ان كی وفات ہو گئی (۱/ ۲۴۶)۔ ابن جوزی كا بھی یہی بیان ہے (المنتظم۷۰۶)۔ ابن حجركہتے ہیں: غزوۂ احد كے بعد وفات پانے والی روایت شاید اولیٰ ہو، لیكن چونكہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم كی صاحبزادی حضرت رقیہ نے جنگ بدر كے فوراً بعد وفات پائی اور حضرت عمر نے اس كے بعد ہی انھیں حضرت حفصہ كا رشتہ پیش كیا ہو گا، اس سے جنگ بدر والی روایت مؤید ہو جاتی ہے۔ مزید كہا: ابن سعد اور ابن سید الناس نے جنگ بدر كے بعد ان كی وفات كی خبر كو بالجزم درست قرار دیا ہے(فتح الباری شرح حدیث۵۱۲۲)۔
حضرت خنیس نے ہجرت كے پچیسویں ماه ۲ھ(۶۲۴ء) یا ۳ھ كی ابتدا میں وفات پائی۔ نبی صلی الله علیہ وسلم نے نماز جنازه پڑھائی اور انھیں جنت البقیع میں حضرت عثمان بن مظعون كے پہلو میں د فن كیا گیا۔ جنت البقیع میں سپرد خاك كیے جانے سے ثابت ہوتا ہے كہ ان كی وفات شہر مدینہ میں ہوئی ہو گی، كیونكہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم میدان جنگ میں شہادت پانے والے مسلمانوں كی تدفین موقع شہادت پر فرمایا كرتے تھے۔ یہ روایت كہ حضرت خنیس نے غزوۂ احد (۷ ؍ لشوال۳ ھ)میں حصہ لیا اور اس غزوہ میں لگنے والے زخم كاری ثابت ہوئے جس سے ان كی وفات ہوئی، پایۂ ثبوبت كو نہیں پہنچی۔
مدینہ، شعبان(۳ھ ): حضرت خنیس بن حذافہ كی وفات سے حضرت حفصہ بنت عمر بیوه ہوئیں تو حضرت عمر حضرت عثمان كےپاس آئے، حضرت حفصہ كے رشتے كی پیش كش كر كے كہا: آپ چاہیں تومیں حفصہ كا عقد آپ سے كر دوں۔ انھوں نے كہا: میں اس معاملے میں غور كروں گا۔ كئی دن گزرنے كے بعدجوا ب دیا كہ ابھی میرا شادی كا اراده نہیں۔ پھرانھوں نے حضرت ابوبكر سے ملاقات كی اورپوچھا : آپ چاہیں تومیں حفصہ كا نكاح آپ سے كر دوں۔ وه خاموش ہوگئے اور کچھ نہ كہا۔ حضرت عمر كہتےہیں: مجھے عثمان سے بڑھ كر ابوبكر پر رنج ہوا۔ كچھ ہی روز گزرے تھے كہ آں حضور صلی الله علیہ وسلم نے حضرت حفصہ سے نكاح كا پیغام بھیجا۔ آپ سے نكاح ہو جانے كے بعد حضرت ابوبكر حضرت عمر سے ملے اور كہا : شاید آپ كومیرے طرز عمل سے تكلیف ہوئی ہو گی جب آپ نے مجھ سے حفصہ كے بارے میں بات كی اور میں نے كوئی جواب نہ دیا۔ انھوں نے كہا :ہاں۔ حضرت ابوبكر بولے :آپ كی پیش كش قبول كرنے سے مجھے اس كے سوا كسی بات نے نہیں روكا كہ میں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم كو حفصہ كا ذكر كرتے سنا تھا۔ میں آپ كے دل كی بات ظاہر نہیں كر سكتا تھا۔ آپ نے خواہش نہ كی ہوتی تو میں ضرور ان سے بیاه كر لیتا(بخاری، رقم ۴۰۰۵۔ نسائی ، رقم ۳۲۵۰۔ احمد، رقم ۴۸۰۷۔ المعجم الكبیر، طبرانی، رقم ۱۸۸۲۳۔ صحیح ابن حبان، رقم ۴۰۳۹)۔ ایك روایت كے مطابق حضرت عمر نے نبی صلی الله علیہ وسلم سے شكوہ كیا: یا رسول الله، میں نے عثمان كو حفصہ كا رشتہ پیش كیا، لیكن انھوں نے اعراض كیا۔ آپ نے انھیں تسلی دیتے ہوئے فرمایا:اس سے بہتر ہے كہ میں تمھاری بیٹی حفصہ سے نكاح كر لوں اور اپنی بیٹی ام كلثوم عثمان سے بیاه دوں (مستدرك حاكم، رقم ۶۷۵۱)۔ابن جوزی كے الفاظ اس طرح ہیں: الله نے عثمان كو تمھاری بیٹی سے بہتر بیوی، حضرت ام كلثوم بنت رسول الله صلی الله علیہ وسلم دے دی ہے اور تمھاری بیٹی كو عثمان سے اچھا شوہر، رسول الله صلی الله علیہ وسلم عطا كر دیا ہے(المنتظم۷۰۶)۔
حضرت خنیس كی كوئی اولاد نہ ہوئی۔ ابو حذافہ ان كی كنیت تھی۔ حضرت ابو الخنیس بن حذافہ حضرت خنیس كےسگے بھائی تھے، ضعیفہ بنت حذیم ان دونوں كی والده تھیں، جب كہ حضرت عبد الله بن حذافہ اور حضرت قیس بن حذافہ ان كے سوتیلے بھائی تھے، بنو حارث كی تمیمہ بنت حرثان نے انھیں جنم دیا۔ یہ دونوں اصحاب بھی پہلے ایمان لانے والے مسلمانوں میں سے تھے۔ حضرت عبد الله بن حذافہ نبی صلی الله علیہ وسلم كا فرمان شاه ایران كسریٰ كے پاس لے كر گئے تھے۔
مطالعہ مزید:السیرة النبویة (ابن ہشام)، الطبقات الکبریٰ(ابن سعد)، انساب الاشراف (بلاذری)، المنتظم فی تواریخ الملوك والامم (ابن جوزی)، الاستیعاب فی معرفة الاصحاب(ابن عبدالبر)، اسد الغابة فی معرفة الصحابة (ابن اثیر)،البدایة والنهایة (ابن كثیر)، الاصابة فی تمییز الصحابة(ابن حجر)، اصحاب بدر (قاضی سلیمان منصورپوری)، The Life of Muhammad (A. Guillaume) ، Wikipedia ۔
_______
حضرت مطلب كے والد كا نام ازہر اوردادا كا عبد عوف تها۔ قریش كی شاخ بنو زہره سے تعلق ركھنے كی وجہ سے زہری كہلاتے ہیں، زہرہ بن كلاب ان كے پانچویں جد تھے۔ حضرت مطلب كی والده كا نام بكیرہ بنت عبد یزید تھا، قصی ان كی پانچویں پشت میں تھے۔ حضرت عبدالرحمٰن بن ازہر اور حضرت طلیب بن ازہرحضرت مطلب بن ازہركے بھائی تھے۔
حضرت مطلب بن ازہركی اہلیہ حضرت رملہ بنت ابو عوف بنو سہم سے تعلق ركھتی تھیں، سہم ان كے پانچویں جد تھے، جب كہ حضرت عبدالرحمٰن بن عوف ان كے بھتیجے تھے۔
حضرت مطلب بن ازہرابتداے اسلام ہی میں ایمان لے آئے، ان كا شمار ’’السابقون الأولون‘‘ میں ہوتا ہے۔ ابن اسحاق نے اسلام كی طرف لپكنے والے صالحین كی جو فہرست مرتب كی ہے، اس میں حضرت مطلب بن ازہركا نمبر چالیسواں ہے۔ حضرت مطلب كی اہلیہ حضرت رملہ بنت ابو عوف نےبھی اسلام قبول كرنے میں سبقت كی۔
مكہ كے سلیم الفطرت اصحاب نے نبی صلی الله علیہ وسلم كی دعوت پر لبیك كہااور دین حق قبول كرنے لگےتو قریش كے سرداروں نے اہل ایمان پر جور و ستم كے پہاڑ ڈھا دیے۔ ان كی اذیت رسانی دیكھ كر نبوت كے پانچویں سال آپ نے مسلمانوں كو مشورہ دیاكہ حبشہ كو ہجرت كر جائیں، وہاں ایسا بادشاہ حكمران ہے جس كی سلطنت میں ظلم نہیں كیا جاتا۔ اس زمانے میں پناه لینے كے لیے حبشہ كےعلاوه كوئی مقام موزوں نہ تھا۔ یمن ایرانی سلطنت كے زیر نگیں تھا، شام مكہ سے دور تھا اور تجارتی روابط ركھنے كی وجہ سے قریش كے زیر اثر تھا۔
چنانچہ رجب ۵/نبوی (اپریل۶۱۵ء)حضرت عثمان بن مظعون كی سربراہی میں پندرہ اہل ایمان كا پہلا گروپ سوے حبشہ روانہ ہوا۔ كفاركی اذیتیں مسلسل جاری رہیں توچار ماه بعد سو سے زیاده اہل ایمان، تراسی مرد اور اٹهارہ یا انیس عورتوں نے حضرت جعفر بن ابو طالب كی قیادت میں مسلمانوں كے دوسرے قافلے نےحبشہ كی راہ لی۔ حضرت مطلب بن ازہر اور ان كی اہلیہ حضرت رملہ بنت ابوعوف اس قافلے میں شامل تھے۔ اس بار حبشہ جانا بہت دشوار تھا، كفار نے طرح طرح كی ركاوٹیں كھڑی كیں، تاہم مسلمان اس مزاحمت كے علی الرغم حبشہ پہنچنے میں كامیاب ہو گئے۔ ابن اسحاق نے دونوں قافلوں كی ہجرت كو ہجرت اولیٰ كا نام دیا ہے۔ وه مشركین كے اسلام كی طرف راغب ہونے والے واقعے كو درست نہیں مانتے۔ ابن سعد دوسرے قافلے كی ہجرت كو ہجرت ثانیہ كہتے ہیں۔ علی اصغر رضوی كہتے ہیں: دونوں ہجرتوں كے مابین ایك سال كا وقفہ پڑا۔ ۶ ؍نبوی (۶۱۶ء) میں ہونے والی ہجرت ثانیہ كے لیےحضرت جعفر بن ابوطالب كی قیادت كا انتخاب خود نبی صلی الله علیہ وسلم نے كیا، وه بنوہاشم كے واحد فرد تھے جو حبشہ (Abyssinia)گئے۔ (A Restatement of the (History of Islam and Muslims, p56۔
ابن كلبی كا كہنا ہے كہ حضرت مطلب كے بھائی حضرت طلیب بن ازہرنے بھی حبشہ ہجرت كی اور وہیں وفات پائی۔ ہجرت مدینہ اس سے چھ سال بعد پیش آئی۔
حبشہ میں داخل ہونے كے بعد مہاجرین ملك میں پهیل گئے۔ ان میں سے زیادہ تر نجاش (Negash) كے قصبے میں مقیم رہے، كچھ سمندر پار كر كے مشرقی ایشیا پہنچے، ایك شاذ روایت كے مطابق چند نے صومالیہ كی راہ لی۔ مہاجرین نے حبشہ میں نماز ادا كرنے كے لیے دو مسجدیں تعمیر كیں جو مسجد الصحابۃ اورمسجد نجاشیNegash) (Amedin Mosqueكے نام سے موجود ہیں۔
حضرت مطلب بن ازہر كے بیٹےحضرت عبدالله بن مطلب كی پیدایش حبشہ میں ہوئی۔
ابن اسحاق نے قیام حبشہ كے دوران میں انتقال كرنے والےآٹھ مردوں اور تین عورتوں كے نام نقل كیے ہیں، ان میں عبیدالله بن جحش شامل ہیں جو نصرانی ہو كر فوت ہوئے۔ یہ تعین كرنا ممكن نہیں كہ حضرت مطلب بن ازہر كی وفات كب اور كن حالات میں ہوئی۔ البتہ اتنا معلوم ہے كہ مہاجرین حبشہ میں سے حضرت عدی بن نضلہ سب سے پہلے وفات پا كر حبشہ میں مدفون ہوئے اور حضرت نجاشی نے خود ان كی تدفین كی۔ مسجد نجاشی كے عقب میں شارع صحابہ پرواقع احاطے میں پندره صحابہ كے مزارات اب بھی موجود ہیں۔ حضرت نجاشی كی قبر سے ملی ہوئی دس صحابہ اور پانچ صحابیات كی قبریں ہیں جن میں سے حضرت عدى بن نضلہ، حضرت حاطب بن حارث، حضرت حطاب بن حارث، حضرت عبدالله بن حارث، حضرت سفیان بن معمر، حضرت عروہ بن عبد العزیٰ، حضرت مطلب بن ازہر اورحضرت فاطمہ بنت صفوان كی قبروں كی شناخت ممكن ہے۔
ابن سعدكا كہنا ہے كہ حضرت مطلب كی وفات كے بعدحضرت رملہ ان كے بھائی حضرت طلیب بن ازہر كے عقد میں آئیں۔
ادیس ابابا سےچار سونوے میل(سات سو نوے كلومیٹر) اور وكرو(Wukro)سے چھ میل دورواقع نجاش كے قصبے میں موجود مسجد نجاشی كو۱۹۶۰ء سے ۱۹۹۳ء تك ہونے والی خانہ جنگی میں شدید نقصان پہنچاتو تركی كی فلاحی تنظیم TIKA نے اس كی تعمیر نو كی، مسجد كے عقب میں شارع صحابہ كو بحال كیا اور اس پر واقع پندره صحابہ كے مزارات كی مرمت كی۔ ۳ ؍نومبر ۲۰۲۰ء سے شروع ہونے والی Tigray War میں مسجد پر پھر بم برسائے گئے۔ بین الاقوامی تنظیموں كے توجہ دلانے پر ایتھوپیا كی حكومت نے مسجد كی مرمت كا وعدہ كیاہے۔
مطالعہ مزید: السیرة النبویة(ابن ہشام)، الطبقات الکبریٰ (ابن سعد)، جمل من انساب الاشراف (بلاذری)، الاستیعاب فی معرفة الاصحاب(ابن عبدالبر)، المنتظم فی تواریخ الملوك والامم(ابن جوزی)، اسد الغابة فی معرفة الصحابة(ابن اثیر)، البدایة والنهایة(ابن کثیر)، الاصابة فی تمییز الصحابة(ابن حجر)، Wikipedia۔
_______
حضرت رملہ بنت ابوعوف مكہ میں پیدا ہوئیں، بنو سہم سے تعلق ركھتی تھیں، سہم ان كے پانچویں جد تھے جن كی نسبت سے سہمی كہلاتی ہیں۔
تیم اور سعد دو بھائی تھے، ان كی ماں الود (یا الوف )بنت عدی نے جو كعب بن لؤی كی پوتی تھی، ایك بار سونے یا چاندی كا بنا ہوا سنگتره ان كے سامنے ركھا اور كہا: میرے بچو، دوڑ كر اس كی طرف آؤ، جو اسے پكڑ لے گا، اسی كا ہو جائے گا۔ زید جلدی سے آیااور اسے پكڑ لیا۔ الود چلائی: زید، گویا تو تیر (عربی میں سهم)تھا جو سیدھا شكار پر جا لگا ہے، تیم،گویا تمھارا گھوڑا قابو میں نہیں آیا (اصل میں:جمح بك عنها)اور اس نے تمھیں ٹارگٹ تك پہنچنے نہیں دیا۔ تب سے دونوں بھائیوں كے نام سہم اور جمح ہو گئے اور آگے ان كی اولادیں بنوسہم اور بنو جمح كہلائیں (انساب الاشراف، بلاذری۱/ ۲۴۸)۔
ابن حجر نے حضرت رملہ بنت ابوعوف كے دادا كا نام صبرہ بن سعید، ابن ہشام اورابن عبدالبر نے ضبیرہ بن سعید، جب كہ ابونعیم اور ابن اثیر نے صبیرہ بن سعید بتایا ہے۔ ابو وداعہ بن صبیره حضرت رملہ كے چچا، جب كہ حضرت عبدالرحمٰن بن عوف ان كے بھتیجے تھے۔ ان كی والدہ كا نام صرما بنت حارث اور كنیت ام عبداللہ تھی۔
حضرت رملہ بنت ابوعوف ابتداے اسلام ہی میں ایمان لا كر ’’السابقون الأولون‘‘میں شامل ہوئیں۔ انھوں نے اپنے شوہر حضرت مطلب بن ازہر كے ساتھ نبی صلی الله علیہ وسلم كے دست مبارك پر سمع و طاعت كی بیعت كی۔ ابھی آپ دار ارقم میں منتقل نہ ہوئے تھے۔ ابن اسحاق نے دور ابتلا میں اسلام كی طرف سبقت كرنے والے اصحاب كی جو فہرست ترتیب دی ہے، اس كے مطابق حضرت رملہ بنت ابوعوف كا نمبر اكتالیسواں ہے۔
تازہ واردان اسلام پر مشركوں كے ظلم و ستم بڑھتے گئے تونبی اكرم صلی الله علیہ وسلم نے صحابہ سے فرمایا:الله كی زمین میں بكھر جاؤ۔ پوچھا: یا رسول الله ،كدھر جائیں؟ فرمایا: وہاں، اور حبشہ كی طرف اشاره فرمایا۔ آپ سرزمین حبشہ كو شروع سے پسند فرماتے تھے۔ اس زمانے میں پناه لینے كے لیے و ہی ایك موزوں مقام تھا۔ یمن ایرانی سلطنت كا حصہ تھا اورشام قریش سےتجارتی روابط ركھنے كی وجہ سے ان كے زیر اثر تھا۔
رجب ۵؍نبوی (اپریل۶۱۵ء)حضرت عثمان بن مظعون كی سربراہی میں پندرہ اہل ایمان كا پہلا گروپ سوے حبشہ روانہ ہوا۔ كفاركی اذیتیں مسلسل جاری رہیں توچار ماه بعد سو سے زیاده اہل ایمان، تراسی مرد اور اٹهارہ یا انیس عورتوں نے حضرت جعفر بن ابو طالب كی قیادت میں مسلمانوں كے دوسرے قافلے نےحبشہ كی راہ لی۔ حضرت رملہ بنت ابوعوف اپنے شوہرحضرت مطلب بن ازہر كے ساتھ اس قافلے میں شامل تھیں۔
حبشہ میں داخل ہونے كے بعد مہاجرین كی اكثریت نجاش (Negash)كے قصبے میں مقیم رہی۔ حضرت رملہ بنت عوف كے بیٹے حضرت عبدالله بن مطلب كی پیدایش حبشہ میں ہوئی۔ ان كے شوہر حضرت مطلب بن ازہر قیام حبشہ كے دوران میں انتقال كر گئے۔ مسجد نجاشی كے عقب میں شارع صحابہ پرواقع احاطے میں ان كی آخری آرام گاہ موجود ہے۔ كہا جاتا ہے كہ حضرت عبدالله بن مطلب اسلامی تاریخ میں پہلے شخص تھے جنھوں نے اپنے والد كی میراث پائی۔ حضرت نعمان بن عدی كے بارے میں بھی یہی كہا جاتا ہے۔ ان كے والد حضرت عدی بن نضلہ حبشہ كی سرزمین میں انتقال كرنے والے پہلے شخص تھے اور حضرت نعمان پہلے مسلمان تھے جنھوں نے اسلامی اصولوں كے مطابق اپنے والد كی میراث حاصل كی۔
ابن كلبی كی شاذ روایت كے مطابق حضرت عبدالله بن مطلب مكہ میں پیداہوئے، اپنے والدین كے ہمراه حبشہ كوہجرت كی اور وہیں ان كا اور ان كے والد كاانتقال ہوا(الاصابہ)۔
حضرت مطلب بن ازہر كے سگے بھائی حضرت طلیب بن ازہر نے بھی حبشہ ہجرت كی اور وہیں وفات پائی۔ ابن سعد كا كہنا ہے كہ حضرت مطلب كی وفات كے بعد حضرت رملہ بنت عوف ان كے عقد میں آئیں اور حضرت محمد بن طلیب كا جنم ہوا۔ صحابہ كے دوسرے سیرت نگاروں نے اس كا ذكر نہیں كیا۔
ستمبر ۶۱۶ء تااپریل ۶۱۹ء، جب قریش بنوہاشم كا مقاطعہ (boycott)كیے ہوئے تهے، مہاجرین حبشہ یہ افواہ سن كركہ مشركین مكہ نے اسلام قبول كر لیا ہے، مكہ لوٹ آئے۔ تب تینتیس مرد، چھ عورتیں اور كچھ بچےمكہ میں داخل ہوئے۔ كچھ نے بااثر اشخاص كی پناه لی، جب كہ باقی شہر میں چھپ گئے۔ حبشہ سے چونتیس مہاجرین كی واپسی جنگ بدر(مارچ ۶۲۴ء) كے بعد ہوئی۔ وہاں باقی رہ جانے والے اہل ایمان ۷ھ (جولائی ۶۲۸ ء)میں جنگ خیبر كےموقع پر مدینہ میں آئے۔
تاریخ میں حضرت رملہ بنت ابوعوف كے سن وفات كا ذكر نہیں ملتا۔ یہ بھی معلوم نہیں ہو سكا كہ انھوں نے حبشہ میں وفات پائی یا حضرت جعفر بن ابو طالب كے قافلے كے ساتھ مدینہ پہنچیں۔ ابن اسحاق نے حضرت حاطب بن حارث اور ان كے بھائی حضرت حطاب بن حارث كی حبشہ میں حالت ایمان میں وفات كا ذكر كرنے كے ساتھ یہ صراحت كی ہے كہ ان كی بیوائیں حضرت فاطمہ بنت محلل اور حضرت فكیہہ بنت یسار كشتیوں میں سوار ہو كر مدینہ پہنچیں۔ حضرت حاطب كے بیٹے حضرت محمد اورحضرت حارث بھی ان كےساتھ تھے۔ انھوں نے حضرت مطلب بن ازہر كی وفات كا ذكر كیا، لیكن ان كی بیوہ حضرت رملہ بنت ابوعوف كے مدینہ لوٹنے كی كوئی خبر نہیں دی۔
مطالعہ مزید: السیرة النبویة(ابن اسحاق )، السیرة النبویة(ابن ہشام)، الطبقات الکبریٰ(ابن سعد)، جمل من انساب الاشراف(بلاذری)، الاستیعاب فی معرفة الاصحاب (ابن عبدالبر)، اسدالغابة فی معرفةالصحابة(ابن اثیر)، البدایةوالنهایة(ابن کثیر)، الاصابة فی تمییز الصحابة (ابن حجر)، ویكیبیدیا الموسوعة الحرة۔
____________