HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : رضوان اللہ

البیان: خصائص و امتیازات (۵)

۱۰۔معنی کی تعیین اور سیاق و سباق سے متضاد دلائل

ضروری ہے کہ یہاں سیاق و سباق کی اہمیت کو اُس کے سلبی پہلو سے بھی بیان کر دیا جائے کہ معنی کی تعیین میں اُسے مدنظر رکھنے کے بجاے بعض اوقات قرآن کے خارج کواہمیت دے دی جاتی ہے،حالاں کہ ایسا کرنا قرآن سمیت کسی بھی کتاب کو پڑھنے کاغیرعلمی طریقہ ہے اور دینی نقطۂ نظرسے دیکھاجائے تویہ خارج کی چیز کو خدا کی کتاب پرحاکم بنادینا ہے۔ البیان میں ہم دیکھتے ہیں کہ کسی مؤرخ کی لکھی ہوئی تاریخ ہو یا راوی کی روایت اور کسی’’ مُلْہَم‘‘ کے الہامات، ان سب کے مقابلے میں ہمیشہ سیاق وسباق کو ترجیح حاصل ہوتی ہے:

اِنَّمَا يُرِيْدُ اللّٰهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيْرًا. (الاحزاب۳۳: ۳۳)
’’اللہ تو یہی چاہتا ہے ،اِس گھر کی بیبیو کہ تم سے (وہ ) گندگی دور کرے (جو یہ منافق تم پر تھوپنا چاہتے ہیں ) اور تمھیں پوری طرح پاک کر دے۔‘‘

اس آیت میں ’اَهْلَ الْبَيْتِ‘ کے الفاظ آئے ہیں جو اُن تمام افراد کے لیے استعمال کیے جا سکتے ہیں جو کسی شخص کے ساتھ اُس کے گھرمیں رہتے ہوں ۔ سیاق کلام اس معاملے میں بالکل واضح ہے کہ یہ الفاظ رسول اللہ کے گھرمیں رہنے والے کچھ مخصوص افراد کے لیے آئے ہیں اور یہ مخصوص افراد وہی ہیں جنھیں آیت۲۸ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ازواج اور آیت۳۰ اور۳۲ میں آپ کی عورتیں کہا گیا ہے اور جنھیں بالواسطہ اور بلاواسطہ اس سلسلۂ کلام کے تمام احکام دیے  گئے ہیں ۔سو یہ کسی صورت ممکن نہیں ہے کہ اس مقام پر محض کسی روایت[22] کے زیر اثر ان سے آپ کے ازواج مطہرات کے سوا دوسرے لوگ مراد لے لیے جائیں ، چاہے وہ آپ کے گھرمیں رہتے ہوں یا آپ کے رشتہ دار ہوں یاوہ کسی درجے میں’اَهْلَ الْبَيْتِ ‘کے وسیع تر مفہوم کے تحت لائے جا سکتے ہوں ۔خارج کے مقابلے میں سیاق کوترجیح دینے کایہی اصول ہے کہ البیان میں ان کاترجمہ واضح طور پران الفاظ میں کیا گیا ہے: ’’اس گھرکی بیبیو‘‘۔

مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَا٘ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَلٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَخَاتَمَ النَّبِيّٖنَ.(الاحزاب۳۳: ۴۰)
’’محمد تمھارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں ،بلکہ اللہ کے رسول اور خاتم النبیین ہیں۔ (اِس لیے یہ ذمہ داری اُنھی کو پوری کرنی تھی)۔‘‘

خَاتَمَ النَّبِيّٖنَ ‘کے معانی نبیوں کی مہر کے ہیں ۔مہر تصدیق کے لیے بھی ہوتی ہے اور کسی شے کو مہر بند کرنے کے لیے بھی، اور یہ دوسرا مفہوم ہے جواس آیت میں مراد لیا گیا ہے۔ سیاق میں اس کی دلیل یہ ہے کہ زیدجنھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا منہ بولا بیٹا کہا جاتا تھا، یہاں اُن کی مطلقہ سے آپ کے نکاح کرنے کا معاملہ زیربحث ہے۔ عرب کے رواج کے مطابق اس پرشدید قسم کا اعتراض اٹھتاتھاکہ اُن کے نزدیک اس طرح کا نکاح کرنا گویا اپنے سگے بیٹے کی مطلقہ سے نکاح کرنا تھا۔ سو فرمایا ہے کہ محمدتم میں سے کسی مرد کے باپ نہیں ہیں، یعنی زید کے بھی باپ نہیں ہیں ،اس لیے اس نکاح پر معترض ہونے کی کوئی گنجایش نہیں ہے۔ لیکن وہ اللہ کے رسول ہیں ،اس لیے ضروری ہے کہ وہ اس رسم بدکو مٹا دیں اور اس کے لیے زینب سے نکاح کریں ۔اب سوال پیدا ہوتا تھا کہ یہ کیا ممکن نہیں ہے کہ آپ کے بجاے بعد میں آنے والا کوئی پیغمبر اس رسم کا استیصال کرے تو اس کے جواب میں فرمایا ہے : ’وَخَاتَمَ النَّبِيّٖنَ‘۔ وہ نبیوں کی مہر ہیں ۔یعنی، اس سلسلے کو مکمل طور پر بند کر دینے والے ہیں،اس لیے لازم ہے کہ یہ کام اب وہی انجام دیں ۔دیکھ لیا جا سکتا ہے کہ یہاں ان الفاظ سے یہی بات مقصود ہے، چنانچہ کشف، الہام اور کسی پر اترنے والے’’ غیب‘‘ کی بنیاد پر سیاق کی اس قطعی دلالت سے صرف نظر نہیں کیا جا سکتا اور نہ ان الفاظ میں کسی بروزی اور ظلی نبوت کی ’’کھڑکی‘‘ کو کھولا جاسکتا ہے[23] ۔ البیان میں ان لفظوں کو بیان کر دینے کے بعد سیاق کی اس دلالت پریوں اصرار کیا گیا ہے کہ اُس کی توضیح قوسین کے اندر بھی کر دی گئی ہے۔

كَمَا٘ اَخْرَجَكَ رَبُّكَ مِنْۣ بَيْتِكَ بِالْحَقِّﵣ وَاِنَّ فَرِيْقًا مِّنَ الْمُؤْمِنِيْنَ لَكٰرِهُوْنَ.(الانفال۸ :۵)
’’اسی طرح کی صورت اُس وقت پیش آئی تھی جب تمھارے پروردگار نے ایک مقصدحق کے ساتھ تم کو گھر سے نکلنے کا حکم دیا۔‘‘

تاریخ اور سیرت کی روایات [24] بیان کرتی ہیں کہ مسلمان مدینہ سے قریش کے تجارتی قافلے کو لوٹنے کے مقصد سے روانہ ہوئے تھے، مگربعض وجوہات کی بنا پر بدر کے میدان میں اُن کی مڈبھیڑ قریش کے لشکر سے ہوئی۔ دراں حالیکہ ’كَمَا٘ اَخْرَجَكَ رَبُّكَ مِنْۣ بَيْتِكَ بِالْحَقِّ ‘ کے الفاظ دوباتیں بتا رہے ہیں :ایک یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ ہی سے اللہ کے حکم پر نکلے تھے اور دوسرے یہ کہ حق کے ساتھ نکلے تھے۔ یہاں حق سے مراد کیا ہے؟ ’يُجَادِلُوْنَكَ فِي الْحَقِّ ‘کے جملے کا حال ہونا اور اس میں بحث کرنے کا ذکر آنا، واضح طور پر بتا رہا ہے کہ اس سے مراد نہ محض خیر اور مصلحت تھی اور نہ واقع میں آ کر رہنے والی کوئی حقیقت کہ ان دو باتوں میں ابھی سے بحث کرنے کی آخر کیا ضرورت تھی ؟بلکہ اس سے مراد مستقبل میں حاصل ہونے والا کوئی مقصد تھا کہ جسے پانے کے لیے خروج کے وقت سے بحث شروع ہوگئی تھی۔ چنانچہ یہ ’الْحَقّ ‘یہاں غایت اور مقصد کے مفہوم میں آیا ہے اور آیت۷ میں اس کی وضاحت کرتے ہوئے بتا بھی دیا ہے کہ وہ حق سچ کا بول بالا کرنا اور آپ کے منکرین کی جڑ کو کاٹ دینا ہے۔ اسے اس زاویے سے بھی دیکھ لیا جا سکتا ہے کہ حق سچ کی بلندی اور منکرین کا خاتمہ جسے یہاں ’الْحَقّ ‘کے بیان کے طور پر لایا گیا ہے، وہ محض تجارتی قافلہ لوٹ لینے سے کبھی حاصل نہیں ہو سکتا تھا، بلکہ اس کے لیے ضروری تھا کہ قریش کی اصل طاقت اور اُن کے مسلح لشکر پرکاری ضرب لگائی جائے، چنانچہ اس وجہ سے بھی یہ طے ہے کہ آپ کا ہدف مدینہ سے نکلتے وقت ہی قریش کا لشکر تھا۔ مزید یہ بات بھی سامنے رہے کہ اگلے جملوں میں بیان ہوا ہے کہ کم زور ایمان کے لوگ اس ’الْحَقّ ‘ کے ساتھ نکلنے کو سخت ناپسند کر رہے تھے ،آپ کا منشا جان لینے کے بعد بھی آپ سے بحث کر رہے تھے اور اس وقت اُن کی حالت یہ تھی جیسے کوئی اُنھیں ہانک کر موت کی طرف لے جا رہا ہو۔ سو اس سے بھی معلوم ہو جاتا ہے کہ مدینہ سے نکلتے ہوئے جو ’الْحَقّ ‘ سامنے تھا، وہ اصل میں مقصد حقیقی ،یعنی قریش کے لشکر سے ٹکرا جانا تھا نہ کہ غیرمسلح اور مال و زر سے لدے ہوئے کسی تجارتی قافلے کی غنیمت کو مزے سے لوٹ لینا۔ تاریخی روایات کے مقابلے میں سیاق کلام کی یہی دلالت ہے کہ البیان میں ’الْحَقّ‘ کا ترجمہ ’’مقصد حق‘‘ کیا گیا ہے۔

عرف اور نظائر

لفظ کے مرادی معنی معلوم کرنے کے سلسلے کی یہ پانچویں چیز ہے۔ ہمیں معلوم ہے کہ علمی اورمستقل نوعیت کی کتابیں اپنا ایک عرف پیدا کرتی ہیں اوراگر وہ ا س کے ساتھ نصیحت کی کتابیں بھی ہوں تو وہ اپنی بات کو مختلف مقامات پر ایک سے زائد مرتبہ بیان کرتی ہیں ۔قرآن کے بارے میں ہم جانتے ہیں کہ یہ بھی اپنے اندر کئی الفاظ کو عرف کی حیثیت دیتا اور آیات کی تصریف اور اُن کی تفصیل کرنے کے اصول پر ایک بات کو کئی طریقوں سے اور متعدد مقامات پر بیان کرتا ہے۔ صحیح ترجمہ کے لیے ضروری ہے کہ ان دو چیزوں پر پوری طرح نظر رکھی جائے کہ ان سے عدم واقفیت بہت زیادہ نقصان دیتی اور صحیح معنی تک پہنچنا مشکل اور کئی صورتوں میں بالکل ناممکن بنا دیتی ہے۔ ہم پہلے عرف کی چند مثالیں پیش کرتے ہیں :

وَبِالْاٰخِرَةِ هُمْ يُوْقِنُوْنَ. (البقرہ۲: ۴)
’’اور وہ آخرت پر یقین رکھتے ہیں ۔‘‘

عربی زبان میں لفظ ’آخرة‘ کا استعمال ’اُوْلٰي‘ کے مقابلے میں ہوتا ہے، یعنی’’ پہلے‘‘ کے مقابلے میں اس کا مطلب ہو گا ’’آخری‘‘۔ اس عام مفہوم کی رعایت سے کوئی چاہے تو اس سے آخری دور یا آیندہ زمانے میں ہونے والی کوئی بات بھی مراد لے سکتا ہے، جیسا کہ بعض حضرات نے ایسا کیا بھی ہے[25] ،مگر جو شخص زیرنظر آیت میں اس کے الف لام اور اس کے ساتھ آنے والے فعل ’اِيْقَان‘ اور اس سلسلۂ کلام پر استدراک در استدراک ہوتے ہوئے منکرین کا ’اليوم الآخر‘ کی صراحت کے ساتھ وہ دعویٰ سامنے رکھے گا جو آیت ۸ میں بیان ہوا ہے ، وہ بہ خوبی جان لے گا کہ اس سے صرف اور صرف قیامت کے بعد کی دنیا مراد ہے۔ اور سب سے بڑھ کر یہ بات ہے کہ قرآن کی اکثر آیات میں یہ اپنے عام معنی سے اوپر اُٹھ کر ایک خاص عرفی معنی میں استعمال ہوتا ہے اور اس کتاب کا ہر طالب علم جانتا ہے کہ اُس وقت دنیا کے آخرمیں آنے والی ایک دوسری دنیا ہی اِس سے مراد ہوتی ہے۔

اس طرح کی مثال قرآن میں بہت زیادہ استعمال ہونے والا ایک لفظ ’السَّاعَة ‘بھی ہے۔ عربی زبان میں اس کا مطلب’’ پل، ساعت اور گھڑی ‘‘ہے، مگر دیکھ لیا جا سکتا ہے کہ قرآن کے عرف میں اس کا مطلب اصل میں قیامت کی گھڑی ہے۔ سو اس عرف کا لحاظ ہے کہ البیان میں اس کا ترجمہ کرتے ہوئے گھڑی، قیامت کی گھڑی ، قیامت کا دن اورکہیں صرف قیامت کا لفظ استعمال کر لیا گیا ہے:

يَسْـَٔلُوْنَكَ عَنِ السَّاعَةِ اَيَّانَ مُرْسٰىهَا.(النازعات۷۹: ۴۲)
’’پوچھتے ہیں کہ آخر وہ گھڑی کب آ کر ٹھیرے گی؟‘‘
قُلْ اَرَءَيْتَكُمْ اِنْ اَتٰىكُمْ عَذَابُ اللّٰهِ اَوْ اَتَتْكُمُ السَّاعَةُ اَغَيْرَ اللّٰهِ تَدْعُوْنَﵐ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ. (الانعام۶: ۴۰)
’’ان سے کہو، ذرا بتاؤ، اگر تم پر اللہ کا عذاب آجائے یا قیامت کی گھڑی آ پہنچے تو کیا اللہ کے سوا کسی اور کو پکارو گے، اگر تم(اپنے دعوؤں میں )سچے ہو؟‘‘
بَلِ السَّاعَةُ مَوْعِدُهُمْ وَالسَّاعَةُ اَدْهٰي وَاَمَرُّ. (القمر۵۴ :۴۶)
’’نہیں ،بلکہ اِن سے جو وعدہ ہے ،اُس کے پورا ہونے کا اصل وقت تو قیامت کا دن ہے اور قیامت کا دن (ان منکروں کے لیے) بڑا سخت اور بڑا ہی تلخ ہو گا۔‘‘
وَعِنْدَهٗ عِلْمُ السَّاعَةِﵐ وَاِلَيْهِ تُرْجَعُوْنَ.(الزخرف۴۳: ۸۵)
’’اُسی کے پاس قیامت کاعلم ہے اوراُسی کی طرف تم لوٹائے جاؤگے۔‘‘

اب ہم قرآن کے عرف کی ایک نازک مثال پیش کرتے ہیں جس کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ شاید البیان کے سوا کسی اور ترجمہ میں اس کا لحاظ نہیں رکھا جا سکا:

وَمَا٘ اَرْسَلْنَا فِيْ قَرْيَةٍ مِّنْ نَّبِيٍّ اِلَّا٘ اَخَذْنَا٘ اَهْلَهَا بِالْبَاْسَآءِ وَالضَّرَّآءِ لَعَلَّهُمْ يَضَّرَّعُوْنَ. (الاعراف۷: ۹۴)
’’ہم نے جس بستی میں بھی کسی نبی کو رسول بنا کر بھیجا ہے، اُس کے لوگوں کو مالی اور جسمانی مصیبتوں میں مبتلا کیا ہے تاکہ وہ عاجزی اختیار کریں ۔‘‘

عربی زبان میں ’ارسال‘ کے اصل معنی ’’بھیجنا‘‘ کے ہیں ،اور اس معنی میں یہ قرآن میں بھی آیا ہے جہاں حضرت موسیٰ  ؑاپنے خدا سے ان الفاظ میں درخواست کرتے ہیں :’فَاَرْسِلْهُ مَعِيَ رِدْاً[26]۔ہارون کو میرے ساتھ’’ بھیج دیجیے‘‘ کہ میری تائید کرے۔ یہ ’’بھیج دینا‘‘ بعض صورتوں میں ’’ چھوڑ دینے ‘‘ کو بھی مشتمل ہو جاتا ہے، چنانچہ سیدنا موسیٰ کا مصر کے فرعون سے مطالبہ ان لفظوں میں بیان ہوا ہے:’فَاَرْسِلْ مَعِيَ بَنِيْ٘ اِسْرَآءِيْل ‘[27]ا،یعنی بنی اسرائیل کو ’’چھوڑ دو‘‘ کہ میرے ساتھ جائیں ۔بعض اوقات یہ ’’چھوڑ دینے‘‘ کا مفہوم اپنے لوازم کے لحاظ سے کسی پر’’مسلط کر دینے‘‘ کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے، جیسا کہ فرمایا ہے: ’وَّاَرْسَلَ عَلَيْهِمْ طَيْرًا اَبَابِيْلَ[28]۔ اور اُن پر جھنڈ کے جھنڈ پرندے مسلط نہیں کر دیے؟ بہرحال، ہمارے پیش نظر ان تمام مفاہیم میں سے سرِدست اس لفظ کا اصل مفہوم ہے۔ قرآن نے اس مفہوم میں اسے کسی شخصیت ، نبی یا  رسول کو لوگوں کی طرف بھیجنے کے لیے بھی استعمال کیا ہے، اور ظاہر ہے یہ اس کے اصل اور عام استعمال کی ایک مثال ہے۔ اس سے آگے بڑھ کر قرآن نے بعض اوقات صرف ’ارسال‘ سے نبی اور رسول بھیجنے کا مفہوم بھی ادا کیا ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ قرآن کا اپنا پیدا کردہ عرف ہے اور تراجم میں بالعموم اس کی کافی حد تک رعایت پائی جاتی ہے۔ لیکن اس سے بھی آگے بڑھتے ہوئے قرآن نے یہ کمال کیاہے کہ اسے نبی کوایک خاص منصب دینے، یعنی رسول بناکر بھیجنے کے لیے بھی استعمال کرلیا ہے اور یہی وہ عرف ہے کہ جس کا مکمل طور پر ادراک ہمیں صرف البیان میں ملتاہے، جیسا کہ مذکورہ بالا آیت میں کہ جہاں اس کا ترجمہ ان الفاظ میں کیا گیا ہے: ’’کسی نبی کو رسول بنا کر بھیجا ہے۔‘‘

یاد رہے کہ ’ارسال‘ کے اس عرف کی پہچان جس طرح قرآن کے دیگر مقامات پر مسلسل غوروخوض کرنے سے حاصل ہوتی ہے، اسی طرح اُس شخصیت کے تعارف اوراُس کے کام کی نوعیت سے بھی حاصل ہوسکتی ہے جس کے بارے میں معلومات بعض اوقات زیر مطالعہ آیت میں بھی مل جایاکرتی ہیں۔مثال کے طور پر ذیل کی یہ آیت:

لَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰي قَوْمِهٖ.(الاعراف۷: ۵۹)
’’ہم نے نوح کو اُس کی قوم کی طرف رسول بنا کر بھیجا تھا۔‘‘

دیکھ لیا جا سکتا ہے کہ اس آیت سے متصل بعد کی آیات حضرت نوح کے انذارکی تفصیلات کو بیان کر رہی ہیں جس سے معلوم ہوجاتا ہے کہ یہاں ’اَرْسَلْنَا ‘ کا مطلب اُنھیں رسول بنا کر بھیجنا ہے ۔مزید یہ کہ اس کے بعد آنے والے مختلف رسولوں کے واقعات اور بالخصوص آیت ۱۰۱میں ان سب ہستیوں کے لیے آئے ہوئے ’رُسُلُهُمْ ‘کے الفاظ، یہ سب بھی اس بات کو مکمل طور پر واضح کر دیتے ہیں ۔

اسی طرح یہ آیت بھی اگر سیاق میں پائی جانے والی تفصیلات کو دیکھ لیا جائے  تو اس کی ایک اچھی مثال ہے:

وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا مُوْسٰي بِاٰيٰتِنَا وَسُلْطٰنٍ مُّبِيْنٍ. اِلٰي فِرْعَوْنَ وَمَلَا۠ئِهٖ فَاتَّبَعُوْ٘ا اَمْرَ فِرْعَوْنَ. (ہود۱۱: ٩٦ـ ٩٧)
’’اسی طرح موسیٰ کو ہم نے اپنی نشانیوں کے ساتھ اور ایک کھلی ہوئی سند کے ساتھ فرعون اور اُس کے سرداروں کی طرف رسول بنا کر بھیجا تھا تو انھوں نے فرعون کی بات مانی۔‘‘

یہاں ضمنی طور پر یہ بات بھی سامنے رہے کہ بعض اوقات قرآن میں کوئی لفظ اپنے عرفی معنی میں آتا ضرور ہے ،مگر وہ عرف ابتداءً قرآن کا پیدا کردہ نہیں ہوتا، بلکہ وہ اُس کے مخاطبین میں اس حیثیت سے پہلے سے رائج ہوتا ہے۔ لہٰذا مترجمین کے لیے لازم ہے کہ وہ قرآن کے ساتھ ساتھ اُس وقت کے عرف سے بھی واقفیت بہم پہنچائیں کہ اس سے مطلق بے پروا ہو کر اور محض لغت کی بنیاد پر معنی کی تعیین کرنے کی کوشش کرنا، ترجمۂ قرآن کا قطعی طور پر غلط اور غیرعلمی طریق ہے۔ مثال کے طور پر ’اِقَامَةُ الصَّلٰوة‘ کے الفاظ قرآن اور اس کے مخاطبین ، دونوں کے عرف کے مطابق ایک خاص قسم کی عبادت، یعنی نماز کا اہتمام کرنے کے لیے آتے ہیں،چنانچہ اُنھیں اب’’ قوانین خداوندی کے اتباع ‘‘کے معنی میں یا اسی طرح کے کسی اور معنی میں لینا کسی لحاظ سے بھی درست نہ ہوگا[29]۔‘‘

جہاں تک نظائر کا معاملہ ہے تو ان کے بارے میں مترجمین کے ہاں بسا اوقات افراط و تفریط کا رویہ پایا جاتا ہے۔ وہ اس طرح کہ بعض حضرات کے نزدیک قرآن کا کوئی ایک لفظ بھی اُس کے نظائرکوسامنے لائے بغیرسمجھ میں آجائے ،یہ بالکل محال ہے،حالاں کہ بہ ادنیٰ تامل جان لیا جاسکتاہے کہ یہ دعویٰ سراسر غیرعلمی اور غیر فطری ہے۔غیرعلمی اس لیے کہ الفاظ متعدد پہلوؤں سے استعمال کیے جاتے ہیں اور یہ ضروری نہیں ہوتا کہ وہ کسی کتاب میں اگر ایک مقام پر ایک معنی میں آئیں تو دوسرے مقام پربھی ضرور اسی معنی میں لائے جائیں۔ غیر فطری اس لیے کہ قرآن کی آیات اُس زمانے میں بھی جب پڑھی جاتی تھیں تواُن کی دلالت اُن کے مخاطبین کے سامنے بالکل واضح ہوتی تھی اور یہ ضروری نہیں ہوتاتھاکہ وہ انھیں سمجھنے کے لیے پہلے اُن کے نظائر کو بھی لازماً دیکھیں۔ اس کے مقابلے میں بعض حضرات ان نظائر کی اہمیت کو مان لینے کے بعد پھر اس میں حد درجہ تساہل اور بے پروائی کا شکار ہوجاتے ہیں اور اپنے اس طرز سے اس بات کا امکان بڑھا دیتے ہیں کہ قرآن کے اندر کسی ابہام اور مستقل تضاد کی کوئی کیفیت پیدا کر دیں ۔ ہمارے نزدیک ان نظائرکی صحیح حیثیت صرف یہ ہے کہ یہ توضیحِ ِمزیدقسم کی چیز ہوتے ہیں اور ان سے معنی کی تعیین میں ایک طرح کی تائیداوریقین پیدا ہو جاتا ہے، وگرنہ قرآن کاہرلفظ اپنے مقام اور اپنے سیاق میں قطعی طورپرواضح ہوتا ہے۔ بہرحال، ان کی واجبی اہمیت کوبیان کرنے کے لیے ہم ذیل میں چند مثالیں عرض کرتے ہیں :

وَاِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰٓئِكَةِ اِنِّيْ جَاعِلٌ فِي الْاَرْضِ خَلِيْفَةً. (البقرہ۲: ۳۰)
’’اور جب تمھارے پروردگار نے فرشتوں سے کہا: میں زمین میں ایک ایسی مخلوق بنانے والا ہوں جسے(اُس کی )بادشاہی دی جائے گی۔‘‘

خَلِيْفَة‘ کا لفظ عام طور پر نائب اور جانشین کے معنی میں آتا ہے۔ یہاں یہ بعض پہلوؤں سے مجرد ہو کر صرف صاحب اقتدار ہستی کے لیے آیا ہے۔ اس لیے کہ فرشتوں کے ذہن میں یہ سوال کہ انسان زمین میں خون ریزی اور فساد برپا کرے گا، اُسی صورت میں پیدا ہو سکتا ہے جب وہ اس لفظ سے یہ سمجھیں کہ اُسے زمین میں اقتدار دیا جا رہا ہے۔ تاہم، اقتدار کی اس دلیل کی بنیاد پر کوئی شخص یہ سوال کر سکتا ہے کہ اس لفظ سے نائب ،یعنی خدا کا نائب کیوں نہیں مراد لیا جا سکتا؟ تو واضح رہے کہ اس اضافی بات کو مان لینے کی ایک ہی صورت ہو سکتی ہے کہ الگ سے یہ بھی ثابت کیاجائے کہ اللہ نے اُسے واقعہ میں اپنا نائب بنایا ہے اور اسے اپنے اختیارات بھی سونپ دیے ہیں ،[30] حالاں کہ نہ پہلی بات کی کوئی دلیل اس آیت سمیت کہیں پائی جاتی ہے اور نہ خدا کی ذات اپنے اختیارات کسی اورکو دیا ہی کرتی ہے۔ باقی رہا جانشین کا اضافی مفہوم تو وہ بھی یہاں مراد لینا کسی صورت ممکن نہیں ۔ اس لیے کہ اسے خدا کا جانشین مان لینے کا یہ لازمی تقاضا ہوگا کہ ہم پہلے یہ مانیں کہ خدا اس زمین سے لاتعلق ہوگیا ہے یا ا ُسے کہیں اورچلے جانا ہے ،حالاں کہ ہم جانتے ہیں کہ خداکے بارے میں اس طرح کی کوئی بات فرض کر لینا بالکل محال ہے۔ مختصر یہ کہ اس سلسلۂ کلام میں ’خَلِيْفَة‘ کا لفظ ہر طرح سے واضح ہے کہ صاحب اقتدار ہستی کے لیے آیا ہے۔ اب اس کے بعدلفظ ’خلیفہ‘ کے اس استعمال کی کوئی نظیر اگر قرآن سے بھی مل جاتی ہے تو ظاہر ہے، یہ ہمارے موقف کی تائید اور اس کے لیے مزید تقویت کا باعث ہوگی۔ سو، یہ نظیر سورۂ ص (۳۸) کی آیت۲۶ میں موجود ہے اور اس میں بھی ’خَلِيْفَة‘ سے نائب اور جانشین مراد لینے کے بجاے حاکم مراد لیا گیا ہے: ’يٰدَاوٗدُ اِنَّا جَعَلْنٰكَ خَلِيْفَةً فِي الْاَرْضِ‘۔

كُلَّمَا دَخَلَ عَلَيْهَا زَكَرِيَّا الْمِحْرَابَﶈ وَجَدَ عِنْدَهَا رِزْقًا. (آل عمران۳: ۳۷)
’’جب کبھی زکریا محراب میں اُس کے پاس جاتا تو وہاں (اللہ کی) عنایت دیکھتا تھا۔ ‘‘

رزق کا مطلب ’’عطا کرنا‘‘ اور’’دینا‘‘ہے۔ یہ عربی زبان میں صرف روزی روٹی تک محدودنہیں ہے،بلکہ اسے کسی بھی چیز کے دینے کے لیے برتا جاسکتا ہے۔ قرآن میں اس کا استعمال کھانے پینے کی مادی چیزوں پربھی ہوا ہے اور ہدایت و معرفت جیسے معنوی انعامات پر بھی۔ مذکورہ آیت میں اس کا اطلاق حکمت و معرفت کے اُن کمالات پر ہوا ہے جو خداکی طرف سے سیدہ مریم کو عنایت ہوئے ۔ اس بات کی دلیل کے لیے مذکورہ آیت کے سلسلۂ کلام میں موجودکچھ باتیں ہمارے سامنے رہنی چاہییں :ایک یہ کہ زکریا علیہ السلام کو جوایک برگزیدہ نبی تھے، کھانے پینے کی اشیا اور بے موسم کے پھل اُترنے جیسے واقعات میں آخرکیا دل چسپی ہوسکتی تھی؟اُن کی اصل دل چسپی تو اُس حکمت ومعرفت میں ہوسکتی تھی جس کامظاہرہ وہ آئے روزمریم کے ہاں دیکھاکرتے تھے اورجنھیں دیکھ کر اُن کے اپنے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی تھی کہ پروردگاراُنھیں بھی اس طرح کی کوئی اولاد عطا فرمائے۔ دوسرے یہ کہ جب اُنھیں اولاد کی بشارت دی گئی تواس میں معجزاتی طورپرکھانے پینے یااس قبیل کی دوسری چیزوں کا وعدہ کرنے کے بجاے صاف لفظوں میں یہی کہاگیا کہ خدابچے کو اُس حکمت ومعرفت کی سب سے برتر صورت، یعنی نبوت سے بھی سرفراز فرمائے گا۔ سو سلسلۂ کلام کی یہ دلالت ہے کہ البیان میں رزق کا ترجمہ ’’(اللہ کی)عنایت ‘‘کیاگیاہے اورتشریحی نوٹ میں یہ وضاحت بھی کردی گئی ہے کہ اس سے مراداصل میں کیاچیزہے۔جہاں تک اس کی تائیدمیں کوئی نظیر لانے کی بات ہے تو اس کے لیے سورۂ ہود(۱۱)کی آیت۸۸ کے یہ الفاظ دیکھ لیے جاسکتے ہیں جن میں ’رزق‘ کے لفظ کا اطلاق شعیب علیہ السلام پر اترنے والی وحی پرکیا گیا ہے: ’وَرَزَقَنِيْ مِنْهُ رِزْقًا حَسَنًا ‘۔

یہاں ہم ضمنی طور پر یہ بھی عرض کر دیں کہ جس طرح لفظ کے معنی کی تعیین میں نظائر سے مدد لی جاتی ہے، اسی طرح بعض مقامات کی تفسیر کرنے میں بھی انھیں ایک خاص حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ اس کی مثال میں ہم صرف ایک آیت پیش کیے دیتے ہیں :

ذٰلِكَ الْكِتٰبُ لَا رَيْبَﶍ فِيْهِ.(البقرہ۲ :۲)
’’ یہ کتاب الہٰی ہے، اِس کے کتاب الہٰی ہونے میں کوئی شک نہیں ۔ ‘‘

بعض حضرات کے مطابق ’لَا رَيْبَ فِيْهِ ‘کے اس جملے کا مطلب ہے کہ قرآن کے اندر کوئی شک کی بات نہیں ۔البیان میں اس کا مطلب یوں بیان کیا گیا ہے: ’’اس کے کتاب الہٰی ہونے میں کوئی شک نہیں ‘‘۔اس مطلب کی دلیل یہ ہے کہ پچھلے جملے، یعنی ’ذٰلِكَ الْكِتٰبُ‘ کے الفاظ کا درست ترجمہ یہ بنتا ہے :’’ یہ اللہ کی کتاب ہے‘‘ ،اور اس کی وجہ کتاب پر آنے والا الف لام اور خود لفظ کتاب کا اپنے برترمفہوم میں خاص ہو کر استعمال ہونا ہے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو’’ یہ اللہ کی کتاب ہے‘‘ کے الفاظ اصل میں دعویٰ کے طور پر آئے ہیں ،چنانچہ اس کے بعد یہ کہنا ہی زیادہ موزوں ٹھیرتا ہے کہ ہاں اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ واقعتاً اللہ کی کتاب ہے۔ مزید یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ قرآن کے منکرین اس کتاب کے اندرکسی شک کے ہونے یا نہ ہونے میں کبھی بھی متردد نہ تھے، بلکہ اُن لوگوں کا تردد اصل میں اس کے خدا کی طرف سے اترنے یا نہ اترنے میں تھا، چنانچہ اس وجہ سے بھی اس کے منزل من اللہ ہونے کو ظاہر کرنا ہی قرین قیاس بنتا ہے۔ یہ وجوہ ہیں کہ البیان میں اس کا مطلب مذکورہ بالا الفا ظ میں ادا کیا گیا ہے اور اس کی مزید وجہ وہ نظائربھی ہیں کہ جن میں اس بات کو بالکل کھول کر بیان کر دیا گیا ہے۔ جیسا کہ سورۂ سجدہ(۳۲) کی آیت۲ میں فرمایا ہے:’تَنْزِيْلُ الْكِتٰبِ لَا رَيْبَ فِيْهِ مِنْ رَّبِّ الْعٰلَمِيْنَ‘۔

[باقی]

____________

  [22]۔ ترمذی،رقم۳۲۰۵۔

[23]۔ ایک غلطی کا ازالہ، مرزا غلام احمد ۲۰۷۔

[24]۔ ابن ہشام ۱ / ۶۰۶۔زاد المعاد۳/ ۱۵۳۔

[25]۔ ’’اور وہ آیندہ ہونے والی(معہود باتوں )پر(بھی) یقین رکھتے ہیں ۔‘‘( مرزا بشیر الدین صاحب احمدی کی کتاب ’’تفسیرکبیر‘‘۱/ ۱۳۵)۔

[26]۔ القصص۲۸: ۳۴۔

[27]۔ الاعراف۷: ۱۰۵۔

[28]۔ الفیل ۱۰۵: ۳۔

[29]۔ جیسا کہ بعض حضرات نے یہ غیرعلمی طریق اپناتے ہوئے اس سے یہ معنی مراد لیا بھی ہے: لغات القرآن ،غلام احمد پرویز۱۰۳۶۔

[30]۔ یادرہے، یہاں خاص خداکے اختیارات کی بات ہورہی ہے ،وگرنہ خداکے دیے ہوئے اختیارات تو زمین کی دوسری مخلوقات کوبھی حاصل ہیں اورہم کبھی اُنھیں خدا کے نائب کانام نہیں دیتے۔

B