HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : جاوید احمد غامدی

عذاب قبر (۶)

ترجمہ و تحقیق: ڈاکٹر محمد عامر گزدر

 

ــــــ ۳۴ ــــــ

عَنْ أَنَسٍ۱  أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، لَمَّا طُعِنَ عَوَّلَتْ عَلَيْهِ حَفْصَةُ، فَقَالَ: يَا حَفْصَةُ، أَمَا سَمِعْتِ رَسُولَ اللهِ ﷺ يَقُولُ: «[إِنَّ۲  ] الْمُعَوَّلُ عَلَيْهِ يُعَذَّبُ؟»، [فَقَالَتْ: بَلَى،۳  ] [قَالَ۴  ]: وَعَوَّلَ عَلَيْهِ صُهَيْبٌ، فَقَالَ عُمَرُ: يَا صُهَيْبُ، أَمَا عَلِمْتَ أَنَّ الْمُعَوَّلَ عَلَيْهِ يُعَذَّبُ؟۵.
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ زخمی ہوئے اور حفصہ رضی اللہ عنہا نے آپ کو اِس حالت میں دیکھا تو چیخ چیخ کر رونا شروع کردیا۔ سیدنا عمر نے یہ دیکھا تو کہا: اے حفصہ، کیا تو نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے نہیں سنا کہ جس شخص پر چیخیں ما رکر رویا جائے، اُس کو عذاب دیا جاتا ہے؟ اِس پر سیدہ حفصہ نے کہا: ہاں، کیوں نہیں۔انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ صہیب رضی اللہ عنہ بھی عمر رضی اللہ عنہ پر چیخ چیخ کر روئے تھے، جس پر سیدنا عمر نے اُن سے (بھی) یہی کہا تھاکہ اے صہیب، کیا تمھارے علم میں نہیں  ہے کہ جس شخص پر چیخیں مارکر رویا جائے، اُس کو عذاب دیا جاتا ہے۱ ؟

________________

۱۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات کب فرمائی اور اِس کا موقع و محل کیا تھا؟ روایت میں اِس کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ سیدنا عمر نے اِسے یہاں بطور حوالہ نقل کیا ہے اور سیدہ حفصہ نے بھی اِسی طرح اِس کی تصویب فرمائی ہے۔


متن کے حواشی

۱ ۔اِس روایت کا متن اصلاًصحيح مسلم، رقم ۹۲۷سے لیا گیا ہے۔اِس کے متابعات اِن مراجع میں دیکھ لیے جاسکتے ہیں: مسند طیالسی، رقم ۴۲۔ مسند احمد، رقم ۲۶۸۔ مسند بزار، رقم ۲۱۹۔ مسند ابی يعلىٰ، رقم ۲۳۳۔صحيح ابن حبان، رقم ۳۱۳۲۔ السنن الكبرىٰ، بیہقی، رقم ۷۱۶۸۔

۲ ۔مسند ابی يعلىٰ، رقم ۲۳۳۔

۳ ۔صحيح ابن حبان، رقم ۳۱۳۲۔سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی اِس روایت کا ایک شاہد ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ۱۲۱۱۵ میں اِس طرح بیان ہوا ہے کہ ’أَنَّ حَفْصَةَ بَكَتْ عَلَى عُمَرَ، فَقَالَ: مَهْلًا يَا بُنَيَّةَ، أَلَمْ تَعْلَمِي أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: «إِنَّ الْمَيِّتَ لَيُعَذَّبُ بِبُكَاءِ أَهْلِهِ عَلَيْهِ»؟‘ ، ’’حفصہ رضی اللہ عنہا سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے سامنے، (جب وہ زخمی تھے تو) رونے لگیں، اُنھوں نے یہ دیکھ کر کہا: میری پیاری بیٹی، رو مت۔ کیاتجھے علم نہیں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ میت پر اُس کے گھر والوں کے رونے کی وجہ سے عذاب ہوتا ہے؟ ‘‘۔

۴۔ مسنداحمد ۲۶۸۔

۵۔ اِس واقعے کا شاہد ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے صحيح مسلم، رقم ۹۲۷میں اِن الفاظ میں نقل ہوا ہے: ’لَمَّا أُصِيبَ عُمَرُ جَعَلَ صُهَيْبٌ يَقُولُ: وَا أَخَاهْ، فَقَالَ لَهُ عُمَرُ: يَا صُهَيْبُ، أَمَا عَلِمْتَ أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ قَالَ: «إِنَّ الْمَيِّتَ لَيُعَذَّبُ بِبُكَاءِ الْحَيِّ»؟‘،’’جب عمر رضی اللہ عنہ پر حملہ ہوا (اور آپ زخمی ہوئے) تو صہیب نے (چیخ کر)  کہنا شروع کردیا: ہاے بھائی ! سیدنا عمر نے دیکھا تو اُن سے کہا: اے صہیب،  کیا تو نہیں جانتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا  ہے کہ  میت کو زندوں کے رونے کی وجہ سے عذاب دیا جاتا ہے؟ ‘‘۔

ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ کی اِس روایت کے متابعات کے لیے دیکھیے، یہ مصادر: مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ۱۲۱۱۴۔صحيح بخاری ، رقم ۱۲۹۰۔ السنن الكبرىٰ، بیہقی، رقم ۷۱۶۷۔


ــــــ ۳۵ ــــــ

قَالَ عَبْدُ اللهِ بْنُ عُبَيْدِ اللهِ بْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ: ۱ تُوُفِّيَتْ ابْنَةٌ۲ لِعُثْمَانَ [بْنِ عَفَّانَ۳  ] بِمَكَّةَ، وَجِئْنَا لِنَشْهَدَهَا وَحَضَرَهَا ابْنُ عُمَرَ، وَابْنُ عَبَّاسٍ، وَإِنِّي لَجَالِسٌ بَيْنَهُمَا - أَوْ قَالَ: جَلَسْتُ إِلَى أَحَدِهِمَا، - ثُمَّ جَاءَ الآخَرُ فَجَلَسَ إِلَى جَنْبِي [فَإِذَا صَوْتٌ مِنَ الدَّارِ۴  ]، فَقَالَ عَبْدُ اللهِ بْنُ عُمَرَ لِعَمْرِو بْنِ عُثْمَانَ [وَهُوَ مُوَاجِهُهُ۵ ]: أَلَا تَنْهَى عَنِ البُكَاءِ، فَإِنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ قَالَ: «إِنَّ المَيِّتَ لَيُعَذَّبُ بِبُكَاءِ أَهْلِهِ عَلَيْهِ»۶
عبداللہ بن عبیداللہ بن ابی ملیکہ کا بیان ہے کہ عثمان بن عفان  رضی اللہ عنہ کی ایک صاحبزادی مکہ مکرمہ میں فوت ہوگئیں تو ہم اُن کے جنازے میں حاضری کےلیے پہنچے۔ا بن عمر اور ابن عباس رضی اللہ عنہما بھی وہاں موجود تھے۔ میں اُن دونوں کے درمیان بیٹھا ہوا تھا،یاکہا  کہ میں اُن دونوں میں سے کسی ایک کے پاس جا کر بیٹھا، پھر دوسرا شخص بعد میں آکر میرے پہلو میں بیٹھ گیا۔اتنے میں اچانک گھر کے اندر سے رونے کی آواز آئی ۔عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے سامنے بیٹھے ہوئے عمرو بن عثمان سے کہا: کیا تم (اِن عورتوں کو)رونے سے منع نہیں کرتے؟ اِس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: میت پر اُس کے اہل خانہ کے رونے کی وجہ سے عذاب ہوتاہے۱۔

________________

۱۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سے یہ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا براہ راست بیان ہے۔ اِس میں اُنھوں نے سیدنا عمر کا حوالہ نہیں دیا، لیکن آپ نے یہ بات کس سلسلے میں فرمائی تھی، اِس کا یہاں بھی کوئی ذکر نہیں ہے۔


متن کے حواشی

۱ ۔اِس واقعے کا متن اصلاً صحيح بخاری، رقم ۱۲۸۶ سے لیا گیا ہے۔الفاظ کے معمولی فرق کے ساتھ اِس کے باقی طرق اِن مصادر میں دیکھ لیے جاسکتے ہیں: مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ۱۲۰۹۷، ۱۲۰۹۹، ۱۲۱۱۷۔ مسند احمد، رقم ۲۸۸، ۲۸۹، ۲۹۰، ۵۲۶۲، ۶۱۸۲۔ صحيح مسلم، رقم۹۳۰۔ صحيح ابن حبان، رقم ۳۱۳۶۔ المعجم الكبير، طبرانی، رقم ۱۳۰۸۷، ۱۳۰۸۸، ۱۳۱۸۶، ۱۳۲۶۲، ۱۳۲۶۳، ۱۳۲۹۹۔ السنن الكبرىٰ، بیہقی، رقم ۷۱۷۱۔

۲ ۔مسند احمد، رقم ۲۸۸ میں اُن کی کنیت اُم اَبَان نقل ہوئی ہے۔

۳ ۔ مسند احمد، رقم ۲۹۰۔

۴۔ مسند احمد، رقم ۲۸۸۔

۵ ۔ مسند احمد، رقم ۲۹۰۔

۶ ۔بعض طرق، مثلاً مسند احمد، رقم ۶۱۸۲ میں’«إِنَّ الْمَيِّتَ يُعَذَّبُ بِبُكَاءِ الْحَيِّ»‘،’’ میت کو زندہ لوگوں کے رونے کی وجہ سے عذاب دیا جاتا ہے ‘‘ کے الفاظ روایت ہوئے ہیں، جب کہ بعض طرق، مثلاً مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ۱۲۰۹۹ میں آپ کے یہ الفاظ نقل ہوئے ہیں کہ ’«مَنْ نِيحَ عَلَيْهِ فَإِنَّهُ يُعَذَّبُ بِمَا نِيحَ عَلَيْهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ»‘،’’ جس میت پر نوحہ کیا گیا، اُس نوحے کی وجہ سے اُس (نوحہ کرنے والے) کو قیامت کے دن عذاب دیا جائے گا ‘‘۔


ــــــ ۳۶ ــــــ

عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَيْضًا، قَالَ: ۱ اشْتَكَى سَعْدُ بْنُ عُبَادَةَ شَكْوَى لَهُ، فَأَتَى رَسُولُ اللهِ ﷺ يَعُودُهُ مَعَ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ عَوْفٍ، وَسَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ، وَعَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُودٍ، فَلَمَّا دَخَلَ عَلَيْهِ وَجَدَهُ فِي غَشِيَّةٍ۲، فَقَالَ: «أَقَدْ قَضَى؟» قَالُوا: لَا، يَا رَسُولَ اللهِ، فَبَكَى رَسُولُ اللهِ ﷺ، فَلَمَّا رَأَى الْقَوْمُ بُكَاءَ رَسُولِ اللهِ ﷺ بَكَوْا، فَقَالَ: «أَلَا تَسْمَعُونَ؟ إِنَّ اللهَ لَا يُعَذِّبُ بِدَمْعِ الْعَيْنِ، وَلَا بِحُزْنِ الْقَلْبِ، وَلَكِنْ يُعَذِّبُ بِهٰذَا - وَأَشَارَ إِلَى لِسَانِهِ - أَوْ يَرْحَمُ، [وَإِنَّ المَيِّتَ يُعَذَّبُ بِبُكَاءِ أَهْلِهِ عَلَيْهِ» ]۳.
ا بن عمر ہی کا بیان ہے کہ سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ بیمار ہوئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اُن کی عیادت کے لیے تشریف لائے۔آپ کے ساتھ اُس موقع پر  عبدالرحمٰن بن عوف ،سعد بن ابی وقاص اور عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہم بھی آئے تھے۔آپ جب اُن کے ہاں داخل ہوئے تو اُنھیں بے ہوشی کی حالت میں پایا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا:کیا یہ وفات پاچکے ہیں؟ لوگوں نے کہا: نہیں،اے اللہ کے رسول۔اِس پر پھررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رو پڑے۔ لوگوں نے رسول اللہ کو روتے ہوئے دیکھا تو اُنھوں نے بھی روناشروع کردیا۔آپ نے یہ دیکھا تو فرمایا: غور سے سنو،اللہ تعالیٰ آنکھ کے آنسو اور دل کے غم پر سزا نہیں دیتا، بلکہ اِس کی وجہ سے ــــــ آپ نے اپنی زبان کی طرف اشارہ فرمایا  ــــــ  عذاب دیتا یا شفقت فرماتا ہے۱۔ میت کو اُس کے اہل خانہ کے اُس پر رونے کی وجہ سے عذاب دیاجاتا ہے۲۔

________________

۱۔یعنی سزا اگر ہوتی ہے تو دل کے غم اور آنکھ کے آنسوؤں پر نہیں، بلکہ زبان سے چیخنے چلانے اور جزع فزع کرنے کی وجہ سے ہوتی ہے۔ یہ، ظاہر ہے کہ اُنھی لوگوں کا ذکر ہے جو اِن افعال کے مرتکب ہوں۔ اسلام میں یہ سب چیزیں ممنوع ہیں۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد بھی ہر لحاظ سے قابل فہم ہے، اِس میں کوئی مشکل نہیں ہے۔

۲۔ پیچھے یہ بات ہر جگہ بطور حوالہ نقل ہوئی ہے۔ بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ اِسی موقع پر فرمائی تھی، لیکن تدبر کی نگاہ سے دیکھیے تو صاف واضح ہو جاتا ہے کہ یہ جملہ یہاں بالکل بے محل ہے۔ سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ بیمار ضرور تھے، مگر اُن کی وفات نہیں ہوئی تھی کہ میت پر رونے کا مسئلہ پیدا ہوتا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ تنبیہ فرماتے۔ چنانچہ قرین قیاس یہی ہے کہ یہاں بھی یہ بطور حوالہ ہی آیا ہے اور عبداللہ بن عمر نے جب پچھلے جملے کو اِس مفہوم میں لے لیا کہ یہ مرنے والوں کی سزا کا ذکر ہے تو اِس کو بھی اُسی کے مطابق یہاں نقل کردیا ہے۔ہم نے اوپر اِس مضمون کی تردید کردی اور واضح کیا ہے کہ یہ میت کی نہیں، بلکہ اِن افعال کے مرتکبین کی سزا کا ذکر ہے ۔ آگے کی روایتوں سے واضح ہوجائے گا کہ اصلاً یہ کیا بات تھی، کس موقع پر کہی گئی اور کیا سے کیا بن گئی۔


متن کے حواشی

۱۔ اِس واقعے کا متن اصلاًصحيح مسلم، رقم ۹۲۴سے لیا گیا ہے۔ اِس کے تنہا راوی عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ہیں۔اِس کے متابعات جن مراجع میں نقل ہوئے ہیں، وہ یہ ہیں:صحيح بخاری، رقم ۱۳۰۴۔ شرح معانی الآثار، طبرانی، رقم ۶۹۷۱۔صحيح ابن حبان، رقم ۳۱۵۹۔ مستخرج ابی نعیم، رقم ۲۰۶۵۔ السنن الصغریٰ، بیہقی، رقم ۱۱۴۵۔ السنن الكبرىٰ، بیہقی، رقم ۷۱۵۲ ۔

۲۔ صحيح بخاری، رقم ۱۳۰۴ میں یہاں ’وَجَدَهُ فِي غَشِيَّةٍ‘،’’ اُنھیں بے ہوشی کی حالت میں پایا ‘‘ کے بجاے’ فَوَجَدَهُ فِي غَاشِيَةِ أَهْلِهِ‘،’’تو اُنھیں اپنے گھر والوں کے درمیان پایا‘‘کے الفاظ نقل ہوئے ہیں۔

۳۔ صحيح بخاری، رقم ۱۳۰۴۔


ــــــ ۳۷ ــــــ

أَخْبَرَتْ عَمْرَةُ بِنْتُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ۱ أَنَّهَا سَمِعَتْ عَائِشَةَ أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ تَقُولُ: -وَذُكِرَ لَهَا أَنَّ عَبْدَ اللهِ بْنَ عُمَرَ يَقُولُ: «إِنَّ الْمَيِّتَ لَيُعَذَّبُ بِبُكَاءِ الْحَيِّ»-، فَقَالَتْ عَائِشَةُ: يَغْفِرُ اللهُ لِأَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ،۲ أَمَا إِنَّهُ لَمْ يَكْذِبْ، وَلَكِنَّهُ نَسِيَ۳ أَوْ أَخْطَأَ، إِنَّمَا مَرَّ رَسُولُ اللهِ ﷺ بِيَهُودِيَّةٍ يَبْكِي عَلَيْهَا أَهْلُهَا، فَقَالَ: «إِنَّكُمْ لَتَبْكُونَ عَلَيْهَا، وَإِنَّهَا لَتُعَذَّبُ فِي قَبْرِهَا»، [وَقَرَأَتْ: ﴿وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰي۴  ] [الانعام:۱۶۴ ]. 
عمرہ بنت عبد الرحمٰن کا بیان ہے کہ جب سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے سامنے عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی اِس بات کا ذکر کیا گیا کہ میت کو زندہ لوگوں کے رونے کی وجہ سے عذاب ہوتا ہے تو اِس پر میں نے سیدہ کو یہ کہتے ہوئےسنا ہے کہ اللہ تعالیٰ ابن عمر کی مغفرت فرمائے، یہ بات جان لو کہ اُنھوں نے جھوٹ نہیں بولا ہے، بلکہ بھول چوک کی وجہ سے یہ بات بیان کردی ہے۔اصل بات یہ تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر ایک یہودی عورت (کی میت) کے پاس سے ہوا جس (کی جدائی) پر اُس کے گھر والے رو رہے تھے۔ آپ نے یہ دیکھا تو فرمایا کہ تم اِس پر رو رہے ہو، جب کہ اُس کو اپنی قبر میں عذاب ہورہا ہے۱۔اور پھر سیدہ نے یہ قرآنی آیت پڑھی:’﴿وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰي﴾‘، ’’اورکوئی کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اُٹھائے گا‘‘(الانعام۶: ۱۶۴)۔ 

________________

۱۔ مطلب یہ ہے کہ بات اِس طرح کہی گئی تھی، جس میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اور بعض دوسرے صحابہ نے غلطی سے علت ومعلول کا رشتہ پیدا کر دیا اور نتیجے کے طور پر وہ بالکل ناقابل فہم ہو گئی۔ دیکھیے، سیدہ نے کس خوبی کے ساتھ اصل بات اور اُس کے موقع ومحل، دونوں کی وضاحت کر دی ہے۔


متن کے حواشی

۱ ۔ اِس روایت کا متن  موطا  مالك، رقم ۲۶۴ سے لیا گیا ہے۔ اِس کے باقی طرق اِن مراجع میں دیکھ لیے جاسکتے ہیں:  مسند حمیدی، رقم ۲۲۳۔مسند احمد، رقم ۴۸۶۵، ۴۹۵۹،  ۲۴۱۱۵،  ۲۴۷۵۸، ۲۶۱۸۰۔صحيح بخاری، رقم  ۱۲۸۹۔صحيح مسلم، رقم ۹۳۲۔سنن ترمذی،رقم ۱۰۰۴، ۱۰۰۶ ۔ السنن الكبرىٰ، نسائی، رقم ۱۹۹۵۔ السنن الصغریٰ، نسائی، رقم ۱۸۵۶ ۔ مسند ابی یعلیٰ، رقم۴۷۱۱۔ صحيح ابن حبان، رقم ۳۱۲۳، ۳۱۳۷۔ السنن الكبرىٰ، بیہقی، رقم ۷۱۷۳،  ۷۱۷۴، ۷۱۷۵۔

۲ ۔صحيح ابن حبان، رقم ۳۱۳۷ میں یہاں اِس کے بجاے ’يَرْحَمُهُ اللهُ‘ ،’’ اُن پر اللہ کی رحمت ہو ‘‘کے الفاظ آئے ہیں۔

۳ ۔سنن ترمذی، رقم ۱۰۰۴میں یہاں ’نَسِيَ‘ کے بجاے ’وَهِمَ‘ کا لفظ نقل ہوا ہے۔یعنی ’بھول جانے‘ کے بجاے ’وہم میں مبتلا ہونے‘ کا لفظ آیا ہے۔

۴۔ مسند احمد، رقم ۲۴۱۱۵۔


ــــــ ۳۸ ــــــ

عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، قَالَ: ۱ ذُكِرَ عِنْدَ عَائِشَةَ أَنَّ ابْنَ عُمَرَ رَفَعَ إِلَى النَّبِيِّﷺ: «إِنَّ المَيِّتَ يُعَذَّبُ فِي قَبْرِهِ بِبُكَاءِ أَهْلِهِ۲» فَقَالَتْ: وَهَلَ [أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ۳  ]، إِنَّمَا قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: «إِنَّهُ لَيُعَذَّبُ بِخَطِيئَتِهِ وَذَنْبِهِ، وَإِنَّ أَهْلَهُ لَيَبْكُونَ عَلَيْهِ الآنَ»،۴ [وَإِنَّهَا وَاللهِ مَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى۵  ]، قَالَتْ: وَذَاكَ مِثْلُ قَوْلِهِ: إِنَّ رَسُولَ اللهِ  قَامَ عَلَى القَلِيبِ وَفِيهِ قَتْلَى بَدْرٍ مِنَ المُشْرِكِينَ، فَقَالَ لَهُمْ مَا قَالَ: «إِنَّهُمْ لَيَسْمَعُونَ مَا أَقُولُ» إِنَّمَا قَالَ: «إِنَّهُمُ الآنَ لَيَعْلَمُونَ أَنَّ مَا كُنْتُ أَقُولُ لَهُمْ حَقٌّ»، ثُمَّ قَرَأَتْ: ﴿اِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتٰي﴾ [النمل:۸۰]، ﴿وَمَا٘ اَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَّنْ فِي الْقُبُوْرِ﴾ [فاطر: ۲۲]. 
عروہ بن زبیر کی روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ سیدہ  عائشہ کے سامنے اِس بات کا ذکر ہوا کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سے یہ روایت بیان کی ہے کہ  مردے پر اُس کے گھر والوں کے رونے کی وجہ سے اُس کی قبر میں عذاب ہوتا ہے۔اِس پر سیدہ نے کہا: ابو عبد الرحمٰن کو وہم ہوا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو یہ فرمایا تھا کہ اِس مردے کو اپنی خطاؤں اور گناہوں کی وجہ سے عذاب ہو رہا ہے اور اِس کے اہل خانہ اِ س وقت اِس (کی جدائی) پر رورہے ہیں۔خدا کی قسم، کوئی جان کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گی۔ سیدہ نے مزید فرمایا کہ اِسی طرح کی (وہم پر مبنی) ایک بات ابن عمر نے یہ بھی کہی تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر میں مارے جانے والے مشرکین کی لاشوں کے گڑھے پر کھڑے ہو کر فرمایا تھا   کہ جو کچھ میں کہہ رہا ہوں، یہ لوگ یقیناً سن رہے ہیں۔جب کہ حقیقت یہ ہے کہ آپ نے اُس موقع پر یہ فرمایا تھا کہ یقیناً اب اِنھیں علم ہوگیا ہوگا کہ جو کچھ میں اِن سے کہتا آیا ہوں، وہ حق تھا۔ پھر سیدہ نے یہ آ یتیں پڑھیں: ’﴿اِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتٰيع﴾‘،’’حقیقت یہ ہے، اے پیغمبر کہ تم مُردوں کو نہیں سنا سکتے‘‘ (النمل ۲۷: ۸۰)،’﴿وَمَا٘ اَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَّنْ فِي الْقُبُوْرِ﴾‘، ’’ اے پیغمبر،تم قبروں میں پڑے ہوئے اِن مُردوں کو نہیں سنا سکتے‘‘ ۱ (فاطر ۳۵: ۲۲)۔

________________

۱۔ اِس روایت سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا دین و شریعت کے اہم حقائق سے متعلق قرآن کی تصریحات کا کس قدر گہرا علم رکھتی تھیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کو کس صحت کے ساتھ جانتی اور اُن سے متعلق مباحث کی کس خوبی کے ساتھ تنقیح کر سکتی تھیں۔ اُن سے متعلق اگر یہ کہا جائے کہ صحابۂ کرام میں وہ اہل تفقہ کی امام تھیں تو اِس میں کچھ مبالغہ نہ ہو گا۔ یہ حقیقت ہے کہ اُن کی اِسی ایک روایت سے متن حدیث کی تنقید کے وہ تمام قواعد آسانی کے ساتھ اخذ کیے جا سکتے ہیں جو ہم نے اپنی کتاب ’’میزان‘‘ کے مقدمہ ’’اصول و مبادی‘‘ میں بیان کیے ہیں۔


متن کے حواشی

۱ ۔اِس روایت کا متن اصلاًصحيح بخاری، رقم ۳۹۷۸سے لیا گیا ہے۔الفاظ کے معمولی فرق کے ساتھ اِس کے باقی طرق اِن مصادر میں دیکھ لیے جاسکتے ہیں: مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ۱۲۱۲۰، ۱۲۱۲۵۔ مسند احمد، رقم ۲۴۳۰۲، ۲۴۴۹۵، ۲۴۶۳۷، ۲۵۱۹۴۔صحيح مسلم، رقم۹۳۱۔ سنن ابی داؤد، رقم ۳۱۲۹۔ السنن الكبرىٰ، نسائی، رقم ۱۹۹۴۔السنن الصغریٰ، نسائی، رقم ۱۸۵۵۔ مسند ابی یعلیٰ، رقم ۴۴۹۹، ۵۶۸۱۔ شرح معانی الآثار، طحاوی، رقم ۶۹۷۶۔ السنن الكبرىٰ، بیہقی، رقم ۷۱۷۲۔

ا ۲۔ اِس روایت کے بعض طرق، مثلاً مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ۱۲۱۲۵میں یہاں ’بِبُكَاءِ أَهْلِهِ‘ ، ’’ گھر والوں کے رونے کی وجہ سے‘‘کے بجاے ’بِبُكَاءِ الْحَيِّ‘، ’’زندوں کے رونے کی وجہ سے‘‘ کے الفاظ نقل ہوئے ہیں۔

۳۔مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ۱۲۱۲۰۔

۴ ۔صحيح مسلم، رقم ۹۳۱میں یہاں سیدہ عائشہ کے یہ الفاظ روایت ہوئے ہیں: ’رَحِمَ اللهُ أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ، سَمِعَ شَيْئًا فَلَمْ يَحْفَظْهُ، إِنَّمَا مَرَّتْ عَلَى رَسُولِ اللهِ ﷺ جَنَازَةُ يَهُودِيٍّ، وَهُمْ يَبْكُونَ عَلَيْهِ، فَقَالَ: «أَنْتُمْ تَبْكُونَ، وَإِنَّهُ لَيُعَذَّبُ»‘، ’’ابوعبدالرحمٰن پر اللہ رحم فرمائے، اُنھوں نے ایک بات سنی ہے، لیکن اُس کو (صحیح سے) یاد نہیں رکھ پائے۔ بات یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنےسےایک یہودی کا جنازہ گزرا، وہ لوگ اُس پر رو رہے تھے۔آپ نے دیکھا تو فرمایا: تم رو رہے ہو اور اُس کو عذاب دیا جارہا ہے ‘‘۔

۵ ۔ مسند احمد، رقم ۲۴۶۳۷۔


ــــــ ۳۹ ــــــ

يَقُولُ ابْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ: ۱ لَمَّا هَلَكَتْ أُمُّ أَبَانَ [بِنْتُ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّان۲  ] حَضَرْتُ مَعَ النَّاسِ، فَجَلَسْتُ بَيْنَ عَبْدِ اللهِ بْنِ عُمَرَ وَابْنِ عَبَّاسٍ، فَبَكَيْنَ النِّسَاءُ، فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ [لِعَمْرِو بْنِ عُثْمَانَ: وَهُوَ مُوَاجِهُهُ۳  ] أَلَا تَنْهَى هَؤُلَاءِ عَنِ الْبُكَاءِ، فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ يَقُولُ: «إِنَّ الْمَيِّتَ لَيُعَذَّبُ بِبَعْضِ۴ بُكَاءِ أَهْلِهِ عَلَيْهِ»، فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ، قَدْ كَانَ عُمَرُ، يَقُولُ بَعْضَ ذٰلِكَ، [ثُمَّ حَدَّثَ، قَالَ۵  ] خَرَجْتُ مَعَ عُمَرَ حَتَّى إِذَا كُنَّا بِالْبَيْدَاءِ رَأَى رَكْبًا تَحْتَ شَجَرَةٍ، فَقَالَ: [يَا عَبْدَ اللهِ بْنَ عَبَّاسٍ،۶  ] انْظُرْ مَنِ الرَّكْبُ، فَذَهَبْتُ فَإِذَا صُهَيْبٌ وَأَهْلُهُ، فَرَجَعْتُ إِلَيْهِ، فَقُلْتُ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، هَذَا صُهَيْبٌ وَأَهْلُهُ، فَقَالَ: عَلَيَّ بِصُهَيْبٍ، [فَجَاءَ حَتَّى دَخَلَ مَعَهُ الْمَدِينَةَ۷ ] فَلَمَّا دَخَلْنَا الْمَدِينَةَ أُصِيبَ عُمَرُ، فَجَلَسَ صُهَيْبٌ يَبْكِي عِنْدَهُ يَقُولُ: وَا أُخَيَّاهُ وَا أُخَيَّاهُ، فَقَالَ عُمَرُ: يَا صُهَيْبُ، لَا تَبْكِ، فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ يَقُولُ: «إِنَّ الْمَيِّتَ لَيُعَذَّبُ بِبَعْضِ۸ بُكَاءِ أَهْلِهِ عَلَيْهِ» قَالَ [ابْنُ عَبَّاسٍ۹ ] فَذَكَرْتُ ذٰلِكَ لِعَائِشَةَ، فَقَالَتْ: أَمَا وَاللهِ، مَا تُحَدِّثُونَ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ كَاذِبَيْنِ مُكَذَّبَيْنِ، وَلَكِنَّ السَّمْعَ يُخْطِئُ، [وَاللهِ، مَا قَالَهُ رَسُولُ اللهِ ﷺ قَطُّ: إِنَّ الْمَيِّتَ يُعَذَّبُ بِبُكَاءِ أَحَدٍ۱۰، ] وَإِنَّ لَكُمْ فِي الْقُرْآنِ لَمَا يَشْفِيكُمْ۱۱ ﴿اَلَّا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰي﴾ [النجم: ۳۸ ]، وَلَكِنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ قَالَ: «إِنَّ اللهَ لَيَزِيدُ الْكَافِرَ عَذَابًا بِبُكَاءِ أَهْلِهِ عَلَيْهِ»،۱۲ [قَالَ ابْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ: فَوَاللهِ مَا قَالَ ابْنُ عُمَرَ مِنْ شَيْءٍ۱۳ ]. 
ابن ابی ملیکہ کہتے ہیں: جب عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی  ام ابان کی وفات ہوئی تو میں بھی لو گو ں کے ساتھ ( اُن کے گھر ) حاضر ہوا ۔میں وہاں عبداللہ بن عمر اور عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے درمیان بیٹھا ہوا تھا کہ عورتیں رونے لگیں۔ ابن عمر نے دیکھا تو اپنے سامنے بیٹھے ہوئے عمرو بن عثمان سےکہا : کیا تم اِن عورتوں کو رونے سے روکتے نہیں ہو؟ اِس لیے کہ  میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فر ماتے ہوئے سنا ہے کہ میت پر اُس کے گھر والوں کا رونا دھونا بعض صورتوں میں  عذاب کا باعث بن جاتا ہے ۔اِس پر ابن عباس رضی اللہ عنہ کہنے لگے: عمر رضی اللہ عنہ بھی کچھ اِسی طرح کی بات کہا کرتے تھے ۔ پھر ابن عباس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ  (ایک مرتبہ) میں عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ سفر میں نکلا،(ہم جارہے تھے)، یہاں تک کہ جب ہم بیدا  کے مقام پر پہنچے تو عمر نے (دور سے) ایک درخت کے نیچے کسی قافلے کو دیکھا اورفرمایا : اے عبد اللہ بن عباس،  ذرا جا کر دیکھو، یہ قافلے والے کون ہیں ؟ چنانچہ میں وہاں  گیا تو پتا چلا وہ صہیب اور اُن کے گھر والے تھے۔ میں نے واپس آکر بتا یا کہ امیر المو منین، وہ صہیب اور ان کے اہل خانہ ہیں ۔عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : صہیب کو میرے پاس لاؤ ۔ چنانچہ وہ آئے (اور ہمارے ساتھ ہولیے)، یہاں تک کہ وہ مدینے میں بھی عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ ہی داخل ہوئے۔پھر ہمارے مدینے پہنچنے کے بعد عمر رضی اللہ عنہ پر حملہ ہوا، (جس سے وہ زخمی ہوگئے)۔چنانچہ صہیب اُن کے سامنے بیٹھ کر روتے ہوئے کہنے لگے: ہاے میرے پیارے بھائی، ہاے میرے پیارے بھائی۔ عمر رضی اللہ عنہ نے یہ سنا تو کہا: صہیب، رو مت،اِس لیے کہ  میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ میت پر اُس کے گھر والوں کا رونا دھونا بعض صورتوں میں  عذاب کا باعث بن جاتا ہے ۔۱ ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ یہ بات میں نے سیدہ عائشہ سے ذکر کی تو اُنھوں نے کہا: آگاہ رہو، خدا کی قسم، تم یہ حدیث اُن لوگوں سے بیان نہیں کر رہے ہو جو جھوٹے ہیں یا جنھیں جھٹلایا جا سکتا ہے، مگر بات یہ ہے کہ بعض اوقات (آدمی کو) سننے میں غلطی ہوجایا کرتی ہے۔خدا کی قسم، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےیہ بات قطعاً نہیں کہی تھی کہ میت کو کسی کے رونے کی وجہ سے عذاب ہوتا ہے۔تم لوگوں کے اطمینان کے لیے قرآن مجید کا یہ ارشاد ہی کافی ہے:﴿اَلَّا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰي﴾، ’’کہ کوئی کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اُٹھائے گا‘‘ (النجم ۵۳: ۳۸)۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو اِس کے برخلاف جو بات فرمائی، وہ یہ تھی کہ اللہ کافر کے عذاب میں اُس کے گھر والوں کے رونے کی وجہ سے اضافہ ہی کرتا ہے۲۔ ابن ابی ملیکہ کہتے ہیں کہ بخدا، (سیدہ کی اِس بات پر) ابن عمر کچھ کہہ نہیں سکے۔

________________

۱۔اِس مضمون کی تمام روایتوں کو دقت نظر کے ساتھ دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کو سمجھنے میں غلطی اصلاً سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے ہوئی، پھر بیٹے نے غالباً اُنھی کے اعتماد پر اِسے آگے بیان کیا اور بعض دوسرے صحابہ نے بھی اِسی طرح روایت کرنا شروع کر دیا۔ چنانچہ زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ جس مجلس میں یہ بات کہی گئی، اُس میں عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ وہ بھی غالباً موجود رہے ہوں گے، اور ایک کے بیان سے دوسرے کی یادداشت میں بھی وہی تاثر بن گیا ہو گا جو روایت میں نقل ہوا ہے۔ چنانچہ بعید نہیں کہ یہی تاثر بعد میں ’سمعت رسول الله ﷺ يقول‘  کے الفاظ میں بیان کر دیا گیا۔ مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کی روایت کو بھی اِسی پر محمول کرنا چاہیے۔ اِس کا حوالہ پیچھے حدیث ۳۳ کے حواشی میں گزر چکا ہے۔

۲۔ یعنی اُن کے رنج و غم کی وجہ سے کم نہیں کرتا، بلکہ جس اضافے کے وہ مستحق ہوتے ہیں، اُس کے لحاظ سے اور بڑھا دیتا ہے۔


متن کے حواشی

۱ ۔اِس روایت کا متن اصلاً السنن الصغریٰ، نسائی، رقم ۱۸۵۸سے لیا گیا ہے۔ تعبیر اور تفصیلات کے معمولی فرق کے ساتھ اِس کے باقی طرق اِن مراجع میں ہیں: مسند طیالسی، رقم ۱۶۰۸۔مصنف عبد الرزاق، رقم ۶۶۷۵۔ مسندحميدی، رقم۲۲۲۔مسند اسحٰق، رقم ۱۲۵۵، ۱۶۹۱۔ مسند احمد، رقم ۲۸۸، ۲۵۰۷۹۔صحيح بخاری، رقم ۱۲۸۶۔صحيح مسلم، رقم ۹۲۷، ۹۲۸، ۹۲۹۔سنن ابن ماجہ، رقم ۱۵۹۵۔ السنن الصغریٰ، نسائی، رقم ۱۸۵۷۔السنن الكبرىٰ، نسائی، رقم ۱۹۹۶، ۱۹۹۷۔شرح معانی الآثار، طحاوی، رقم ۶۹۶۹، ۶۹۷۰۔صحيح ابن حبان، رقم۳۱۳۳، ۳۱۳۶۔السنن الكبرىٰ ، بیہقی، رقم ۷۱۷۶۔

۲ ۔شرح معانی الآثار، طحاوی، رقم ۶۹۶۹۔

۳ ۔صحیح مسلم، رقم ۹۲۸۔

۴ ۔روایت کے دوسرے کسی بھی طریق میں یہاں ’بعض‘  کا لفظ نقل نہیں ہوا ہے۔

۵۔صحيح بخاری، رقم ۱۲۸۶۔

۶۔مسند اسحٰق ، رقم  ۱۶۹۱۔

۷ ۔مسند اسحٰق ، رقم  ۱۶۹۱۔

۸ ۔صحيح ابن حبان، رقم  ۳۱۳۶میں آپ کا یہ ارشاد لفظ ’بعض ‘ کے بغیر نقل ہوا ہے۔

۹ ۔صحيح بخاری، رقم ۱۲۸۶۔

۱۰۔صحیح مسلم، رقم ۹۲۹ ۔

۱۱۔ بعض طرق، مثلاً مسند طیالسی، رقم ۱۶۰۸میں یہاں ’يَشْفِيكُمْ‘ کے بجاے ’يَكْفِيكُمْ‘ کا لفظ نقل ہوا ہے، جب کہ بعض طرق، مثلاً صحيح بخاری، رقم ۱۲۸۶میں اِس پورے جملے کے بجاے  ’حَسْبُكُمُ القُرْآنُ‘ ، ’’تمھارے لیے قرآن کافی ہے‘‘کے الفاظ روایت ہوئے ہیں۔

۱۲ ۔مسند احمد، رقم ۲۵۰۷۹ میں یہاں سیدہ عائشہ کے یہ الفاظ نقل ہوئے ہیں: ’إِنَّمَا قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ فِي رَجُلٍ كَافِرٍ: «إِنَّهُ لَيُعَذَّبُ وَأَهْلُهُ يَبْكُونَ عَلَيْهِ»‘، ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تو ایک کافر شخص کے بارے میں ارشاد فرمایا تھا کہ اِس کو عذاب دیا جارہا ہےاور اِس کے گھر والے اِس ( کے مرنے) پر رو رہے ہیں‘‘۔

۱۳۔ مصنف عبد الرزاق، رقم ۶۶۷۵۔


المصادر والمراجع

ابن أبي أسامة أبو محمد الحارث بن محمد بن داهر التميمي البغدادي. (1413ه/1992م). بغية الباحث عن زوائد مسند الحارث. ط1. تحقيق: د. حسين أحمد صالح الباكري. المدينة المنورة: مركز خدمة السنة والسيرة النبوية.

ابن أبي حاتم أبو محمد عبد الرحمٰن بن محمد الرازي. (1419هـ). تفسير القرآن العظيم. ط3. تحقيق: أسعد محمد الطيب. الناشر: مكة المكرمة: مكتبة نزار مصطفى الباز.

ابن أبي داود أبو بكر عبد الله بن سليمان الأزدي السجستاني. (1407هـ/1987م). البعث. ط1. تحقيق: خادم السنة المطهرة أبو هاجر محمد السعيد بن بسيوني زغلول. بيروت: دار الكتب العلمية.

ابن أبي الدنيا أبو بكر عبد الله بن محمد البغدادي. (1413هـ/1992م). ذم الغيبة والنميمة. ط1. تحقيق وتخريج: بشير محمد عيون. دمشق: مكتبة دار البيان.

ابن أبي الدنيا أبو بكر عبد الله بن محمد البغدادي. (1410ه). الصمت وآداب اللسان. ط1. تحقيق: أبو إسحاق الحويني. بيروت: دار الكتاب العربي.

ابن أبي شيبة أبو بكر عبد الله بن محمد العبسي. (1997م). المسند. ط1. تحقيق: عادل بن يوسف العزازي وأحمد بن فريد المزيدي. الرياض: دار الوطن.

ابن أبي شيبة أبو بكر عبد الله بن محمد العبسي. (1409ه). المصنف في الأحاديث والآثار. ط1. تحقيق: كمال يوسف الحوت. الرياض: مكتبة الرشد.

ابن أبي عاصم أبو بكر أحمد بن عمرو الشيباني. (1411هـ/1991م). الآحاد والمثاني. ط1. تحقيق: د. باسم فيصل أحمد الجوابرة. الرياض: دار الراية.

ابن أبي عاصم أبو بكر أحمد بن عمرو الشيباني. (1400هــ). السنة. ط1. تحقيق: محمد ناصر الدين الألباني. بيروت: المكتب الإسلامي.

ابن أبي عاصم أبو بكر أحمد بن عمرو الشيباني. (1409ه). كتاب الجهاد. ط1. تحقيق: مساعد بن سليمان الراشد الجميد. المدينة المنورة: مكتبة العلوم والحكم.

ابن الأعرابي أبو سعيد أحمد بن محمد البصري. (1418هـ/1997م). كتاب المعجم. ط1. تحقيق وتخريج: عبد المحسن بن إبراهيم بن أحمد الحسيني. الناشر: الدمام: دار ابن الجوزي.

ابن بشران أبو القاسم عبد الملك بن محمد. (1418هـ/1997م). الأمالي. ط1. الرياض: دار الوطن.

ابن الجارود، أبو محمد عبد الله النيسابوري. (1408ه/1988م). المنتقى من السنن المسندة. ط1. تحقيق: عبد الله عمر البارودي. بيروت: مؤسسة الكتاب الثقافية.

ابن الجعد علي بن الجعد بن عبيد الجَوْهَري البغدادي. (1410ه/1990م). المسند. ط1. تحقيق: عامر أحمد حيدر. بيروت: مؤسسة نادر.

ابن حبان أبو حاتم محمد بن حبان البُستي. (1414ه/1993م). الصحيح. ط2. تحقيق: شعيب الأرنؤوط. بيروت: مؤسسة الرسالة.

ابن حبان أبو حاتم محمد بن حبان البُستي. (1396ﻫ). المجروحين من المحدثين والضعفاء والمتروكين. ط1. تحقيق: محمود إبراهيم زايد. حلب: دار الوعي.

ابن حجر أحمد بن علي العسقلاني. (1406ﻫ/1986م). تقريب التهذيب. ط1. تحقيق: محمد عوامة. سوريا: دار الرشيد.

ابن حجر أحمد بن علي العسقلاني. (1404ﻫ/1984م). تهذيب التهذيب. ط1. بيروت: دار الفكر.

ابن حجر أحمد بن علي العسقلاني. (1379ه). فتح الباري شرح صحيح البخاري. د.ط. بيروت: دار المعرفة.

ابن حجر أحمد بن علي العسقلاني. (2002م). لسان الميزان. ط1. تحقيق: عبد الفتاح أبو غدة. د.م: دار البشائر الإسلامية.

ابن خزيمة أبو بكر محمد بن إسحاق النيسابوري. (د.ت). الصحيح. د.ط. تحقيق: د. محمد مصطفى الأعظمي. بيروت: المكتب الإسلامي.

ابن خزيمة أبو بكر محمد بن إسحاق النيسابوري. (1414هـ/1994م). كتاب التوحيد وإثبات صفات الرب. ط5. تحقيق: عبد العزيز بن إبراهيم الشهوان. الرياض: مكتبة الرشد.

ابن راهويه إسحاق بن إبراهيم الحنظلي المروزي. (1412ه/1991م). المسند. ط1. تحقيق: د. عبد الغفور بن عبد الحق البلوشي. المدينة المنورة: مكتبة الإيمان.

ابن فيل أبو طاهر الحسن بن أحمد البالسي. (1421هـ/2001م). جزء ابن فيل. ط1. تحقيق: موسى إسماعيل البسيط. القدس: مطبعة مسودي.

ابن قانع أبو الحسين عبد الباقي بن قانع بن مرزوق البغدادي. (1418ه). معجم الصحابة. ط1. تحقيق: صلاح بن سالم المصراتي. المدينة المنورة: مكتبة الغرباء الأثرية.

ابن ماجه أبو عبد الله محمد القزويني. (د.ت). السنن. تحقيق: محمد فؤاد عبد الباقي د.م: دار إحياء الكتب العربية.

ابن المبارك أبو عبد الرحمٰن عبد الله بن المبارك الحنظلي. د.ت. الزهد والرقائق. تحقيق: حبيب الرحمٰن الأعظمي. بيروت: دار الكتب العلمية.

ابن منده أبو عبد الله محمد بن إسحاق العبدي. (1406هــ). الإيمان. ط2. تحقيق: د. علي بن محمد بن ناصر الفقيهي، بيروت: مؤسسة الرسالة.

أبو داؤد سليمان بن الأشعث السِّجِسْتاني. (د.ت). السنن. د.ط. تحقيق: محمد محيي الدين عبد الحميد. بيروت: المكتبة العصرية.

أبو سعيد عثمان بن سعيد الدارمي السجستاني. (1416هـ/1995م). الرد على الجهمية. ط2. تحقيق: بدر بن عبد الله البدر. الكويت: دار ابن الأثير.

أبو عوانة يعقوب بن إسحاق الإسفراييني النيسابوري. (1419هـ/1998م). المستخرج. ط1. تحقيق: أيمن بن عارف الدمشقي. بيروت: دار المعرفة.

أبو نعيم أحمد بن عبد الله الأصبهاني. (1394هـ/1974م). حلية الأولياء وطبقات الأصفياء. د.ط. بيروت: دار الكتاب العربي.

أبو نعيم أحمد بن عبد الله الأصبهاني. (1419هـ/1998م). معرفة الصحابة. ط1. تحقيق: عادل بن يوسف العزازي. الرياض: دار الوطن للنشر.

أبو يعلى أحمد بن علي التميمي الموصلي. المسند. ط1. (1404ه/1984م) تحقيق: حسين سليم أسد. دمشق: دار المأمون للتراث.

الآجُري أبو بكر محمد بن الحسين البغدادي. (1420هـ/1999م). الشريعة. ط2. تحقيق: الدكتور عبد الله بن عمر بن سليمان الدميجي. الرياض: دار الوطن.

أحمد بن محمد بن حنبل أبو عبد الله الشيباني. (1403هـ/1983م). فضائل الصحابة. ط1. تحقيق: د. وصي الله محمد عباس. بيروت: مؤسسة الرسالة.

أحمد بن محمد بن حنبل أبو عبد الله الشيباني. (1421هـ/2001م). المسند. ط1. تحقيق: شعيب الأرنؤوط، وعادل مرشد، وآخرون. بيروت: مؤسسة الرسالة.

إسماعيل بن جعفر بن أبي كثير أبو إسحاق الأنصاري المدني. (1418هـ/1998م). حديث علي بن حجر السعدي عن إسماعيل بن جعفر المدني. ط1. دراسة وتحقيق: عمر بن رفود بن رفيد السّفياني. الرياض: مكتبة الرشد للنشر.

البخاري، محمد بن إسماعيل، أبو عبدالله الجعفي. (1409ه/1989م). الأدب المفرد. ط3. تحقيق: محمد فؤاد عبد الباقي. بيروت: دار البشائر الإسلامية.

البخاري محمد بن إسماعيل أبو عبد الله الجعفي. (1422هـ). الجامع الصحيح. ط1. تحقيق: محمد زهير بن ناصر الناصر. بيروت: دار طوق النجاة.

البزار أبو بكر أحمد بن عمرو العتكي. (2009م). المسند. ط1. تحقيق: محفوظ الرحمٰن زين الله، وعادل بن سعد، وصبري عبد الخالق الشافعي. المدينة المنورة: مكتبة العلوم والحكم.

البيهقي أبو بكر أحمد بن الحسين الخراساني. (1405ه). إثبات عذاب القبر وسؤال الملكين. ط2. تحقيق: د. شرف محمود القضاة. عمان الأردن: دار الفرقان.

البيهقي أبو بكر أحمد بن الحسين الخراساني. (1405هـ). دلائل النبوة ومعرفة أحوال صاحب الشريعة. ط1. بيروت: دار الكتب العلمية.

البيهقي أبو بكر أحمد بن الحسين الخراساني. (1410ه/1989م). السنن الصغرى. ط1. تحقيق: عبد المعطي أمين قلعجي. كراتشي: جامعة الدراسات الإسلامية.

البيهقي أبو بكر أحمد بن الحسين الخراساني. السنن الكبرى. ط3. تحقيق: محمد عبد القادر عطاء. بيروت: دار الكتب العلمية. (1424هـ/2003م).

البيهقي أبو بكر أحمد بن الحسين الخراساني. (1423هـ/2003م). شعب الإيمان. ط1. تحقيق: الدكتور عبد العلي عبد الحميد حامد. الرياض: مكتبة الرشد للنشر والتوزيع.

الترمذي أبو عيسى محمد بن عيسى. (1395هـ/1975م). السنن. ط2. تحقيق وتعليق: أحمد محمد شاكر، ومحمد فؤاد عبد الباقي، وإبراهيم عطوة عوض. مصر: شركة مكتبة ومطبعة مصطفى البابي الحلبي.

تمام بن محمد أبو القاسم الرازي البجلي. (1412ه). الفوائد. ط1. تحقيق: حمدي عبد المجيد السلفي. الرياض: مكتبة الرشد.

الحاكم أبو عبد الله محمد بن عبد الله النيسابوري. (1411ه/1990م). المستدرك على الصحيحين. ط1. تحقيق: مصطفى عبد القادر عطاء. بيروت: دار الكتب العلمية.

الحميدي أبو بكر عبد الله بن الزبير القرشي الأسدي. (1996م). المسند. ط1. تحقيق وتخريج: حسن سليم أسد الداراني. دمشق: دار السقا.

الخطابي أبو سليمان حمد بن محمد الخطاب البستي. (1351هـ/1932م). معالم السنن. ط1. حلب: المطبعة العلمية.

الدارقطني، أبو الحسن، علي بن عمر بن أحمد البغدادي. (1424هـ/2004م). السنن. ط1. تحقيق وتعليق: شعيب الارنؤوط، حسن عبد المنعم شلبي، عبد اللطيف حرز الله، أحمد برهوم. بيروت: مؤسسة الرسالة.

الدارمي أبو محمد عبد الله بن عبد الرحمٰن التميمي. (1412هـ/2000م). السنن. ط1. تحقيق: حسين سليم أسد الداراني الرياض: دار المغني للنشر والتوزيع.

الذهبي شمس الدين أبو عبد الله محمد بن أحمد. (1405ﻫ/1985م). سير أعلام النبلاء. ط3. تحقيق: مجموعة من المحققين بإشراف الشيخ شعيب الأرنؤوط. د.م: مؤسسة الرسالة.

الذهبي شمس الدين أبو عبد الله محمد بن أحمد. (1413ﻫ/1992م). الكاشف في معرفة من له رواية في الكتب الستة. ط1. تحقيق: محمد عوامة أحمد محمد نمر الخطيب. جدة: دار القبلة للثقافة الإسلامية-مؤسسة علوم القرآن.

الروياني أبو بكر محمد بن هارون. (1416ه). المسند. ط1. تحقيق: أيمن علي أبو يماني. القاهرة: مؤسسة قرطبة.

السَّرَّاج أبو العباس محمد بن إسحاق النيسابوري. (1425 هـ/2004م). حديث السراج. ط1. تحقيق: أبو عبد الله حسين بن عكاشة بن رمضان. القاهرة: الفاروق الحديثة للطباعة والنشر.

سعيد بن منصور بن شعبة أبو عثمان الجوزجاني. (1403هـ/1982م). السنن. ط1. تحقيق: حبيب الرحمٰن الأعظمي. الهند: الدار السلفية.

السيوطي جلال الدين عبد الرحمٰن بن أبي بكر. (1416هـ/1996م). الديباج على صحيح مسلم بن الحجاج. ط1. تحقيق وتعليق: أبو اسحٰق الحويني الأثري. الخبر: دار ابن عفان للنشر والتوزيع.

الشاشي أبو سعيد الهيثم بن كليب البِنْكَثي. (1410ه) المسند. ط1. تحقيق: د. محفوظ الرحمٰن زين الله. المدينة المنورة: مكتبة العلوم والحكم.

الطبراني أبو القاسم سليمان بن أحمد الشامي. (1405ه/1984م). مسند الشاميين. ط1. تحقيق: حمدي بن عبدالمجيد السلفي. بيروت: مؤسسة الرسالة.

الطبراني أبو القاسم سليمان بن أحمد الشامي. (د.ت). المعجم الأوسط. د.ط. تحقيق: طارق بن عوض الله بن محمد، عبد المحسن بن إبراهيم الحسيني. القاهرة: دار الحرمين.

الطبراني أبو القاسم سليمان بن أحمد الشامي. (د.ت). المعجم الكبير. ط2. تحقيق: حمدي بن عبد المجيد السلفي. القاهرة: مكتبة ابن تيمية.

الطبري أبو جعفر محمد بن جرير الآملي. د.ت. تهذيب الآثار وتفصيل الثابت عن رسول الله من الأخبار. د.ط. تحقيق: محمود محمد شاكر. القاهرة: مطبعة المدني.

الطبري أبو جعفر محمد بن جرير الآملي. (1420هـ/2000م). جامع البيان في تأويل القرآن. ط1. تحقيق: أحمد محمد شاكر. بيروت: مؤسسة الرسالة.

الطحاوي أبو جعفر أحمد بن محمد الأزدي المصري. (1415 هـ/1494م). شرح مشكل الآثار. ط1. تحقيق: شعيب الأرنؤوط. بيروت: مؤسسة الرسالة.

الطحاوي أبو جعفر أحمد بن محمد الأزدي المصري. (1414هـ/1994م). شرح معاني الآثار. ط.1. تحقيق: محمد زهري النجار ومحمد سيد جاد الحق. د.م: عالم الكتب.

الطيالسي أبو داؤد سليمان بن داؤد البصرى. (1419هـ/1999م). المسند. ط1. تحقيق: الدكتور محمد بن عبد المحسن التركي. مصر: دار هجر.

الطيبي شرف الدين الحسين بن عبد الله. (1417هـ/1997م). الكاشف عن حقائق السنن المعروف بـــ شرح الطيبي على مشكاة المصابيح. ط1. تحقيق: د. عبد الحميد هنداوي. مكة المكرمة: مكتبة نزار مصطفى الباز.

عبد الحميد بن حميد بن نصر الكَسّي. (1408ه/1988م). المنتخب من مسند عبد بن حميد. ط1. تحقيق: صبحي البدري السامرائي، محمود محمد خليل الصعيدي. القاهرة: مكتبة السنة.

عبد الرزاق بن همام، أبو بكر، الحميري، الصنعاني. (1403ه). المصنف. ط2. تحقيق: حبيب الرحمٰن الأعظمي. الهند: المجلس العلمي.

عبد الله بن أحمد بن محمد بن حنبل الشيباني. (1406هـ/1986م). السنة. ط1. تحقيق: د. محمد بن سعيد بن سالم القحطاني. الدمام: دار ابن القيم.

العينى بدر الدين أبو محمد محمود بن أحمد الغيتابى الحنفى. (1420هـ/1999م). شرح سنن أبي داؤد. ط1. تحقيق: أبو المنذر خالد بن إبراهيم المصري. الرياض: مكتبة الرشد.

العينى بدر الدين أبو محمد محمود بن أحمد الغيتابى الحنفى. د.ت. عمدة القاري شرح صحيح البخاري. د.ط. بيروت: دار إحياء التراث العربي.

القاضى عياض بن موسى أبو الفضل اليحصبي. (1419هـ/1998م). إكمال المعلم بفوائد مسلم. ط1. تحقيق: الدكتور يحيى إسماعيل. مصر: دار الوفاء للطباعة والنشر والتوزيع.

الكشميري محمد أنور شاه بن معظم شاه الهندي ثم الديوبندي. (1426هـ/2005م). فيض الباري على صحيح البخاري. ط1. تحقيق: محمد بدر عالم الميرتهي. بيروت: دار الكتب العلمية.

اللالكائي أبو القاسم هبة الله بن الحسن الرازي. (1423هـ/2003م). شرح أصول اعتقاد أهل السنة والجماعة. ط8. تحقيق: أحمد بن سعد بن حمدان الغامدي. الرياض: دار طيبة.

مالك بن أنس الأصبحي المدني. (1406هـ/1985م). الموطأ. د.ط. تحقيق: محمد فؤاد عبد الباقي. بيروت: دار إحياء التراث العربي.

المخلِّص أبو طاهر محمد بن عبد الرحمٰن البغدادي. (1429هـ/2008م). المخلصيات وأجزاء أخرى لأبي طاهر المخلص. ط1. تحقيق: نبيل سعد الدين جرار. قطر: وزارة الأوقاف والشؤون الإسلامية لدولة قطر.

المزي أبو الحجاج يوسف بن الزكي عبدالرحمٰن. (1400ه/1980م). تهذيب الكمال في أسماء الرجال. ط1. تحقيق : د. بشار عواد معروف. بيروت: مؤسسة الرسالة.

مسلم بن الحجاج النيسابوري. (د.ت). الجامع الصحيح. د.ط. تحقيق: محمد فؤاد عبد الباقي. بيروت: دار إحياء التراث العربي.

المظهري الحسين بن محمود مظهر الدين الكوفي الشيرازي الحنفي. (1433هـ/2012م). المفاتيح في شرح المصابيح. ط1. تحقيق ودراسة: لجنة مختصة من المحققين بإشراف: نور الدين طالب. وزارة الأوقاف الكويتية: دار النوادر، وهو من إصدارات إدارة الثقافة الإسلامية.

الملا القاري علي بن سلطان محمد أبو الحسن الهروي. (1422هـ/2002م). مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح. ط1. بيروت: دار الفكر.

المناوي زين الدين محمد عبد الرؤوف بن تاج العارفين القاهري. (1408هـ/1988م). التيسير بشرح الجامع الصغير. ط3. الرياض: مكتبة الإمام الشافعي.

المناوي زين الدين محمد عبد الرؤوف بن تاج العارفين القاهري. (1356هـ). فيض القدير شرح الجامع الصغير. ط1. مصر: المكتبة التجارية الكبرى.

موسى شاهين لاشين. (1423هـ/2002م). فتح المنعم شرح صحيح مسلم. ط1. القاهرة: دار الشروق.

النسائي أبو عبد الرحمٰن أحمد بن شعيب الخراساني. (1406ه/1986م). السنن الصغرى. ط2. تحقيق: عبد الفتاح أبو غدة. حلب: مكتب المطبوعات الإسلامية.

النسائي أبو عبد الرحمٰن أحمد بن شعيب الخراساني. (1421ه/2001م). السنن الكبرى. ط1. تحقيق وتخريج: حسن عبد المنعم شلبي. بيروت: مؤسسة الرسالة.

النووي يحيى بن شرف أبو زكريا. (1428هـ/2007م). الإيجاز في شرح سنن أبي داؤد. ط1. تقديم وتعليق وتخريج: أبو عبيدة مشهور بن حسن آل سلمان. عمان - الأردن: الدار الأثرية.

النووي يحيى بن شرف أبو زكريا. (1392ه). المنهاج شرح صحيح مسلم بن الحجاج. ط2. بيروت: دار إحياء التراث العربي.

الهروي أبو عبيد القاسم بن سلام. (1404هـ/1984م). غريب الحديث. ط1. تحقيق: الدكتور حسين محمد محمد شرف. القاهرة: الهيئة العامة لشئون المطابع الأميرية.

هشام بن عمار بن نصير السُّلمي أبو الوليد الدمشقي. (1419هـ/1999م). حديث هشام بن عمار. ط1. تحقيق: د. عبد الله بن وكيل الشيخ. الرياض: دار إشبيليا.

هَنَّاد بن السَّري بن مصعب أبو السَّرِي التميمي الدارمي. (1406هــ). الزهد. ط1. تحقيق: عبد الرحمٰن عبد الجبار الفريوائي. الكويت: دار الخلفاء للكتاب الإسلامي.

__________

B