HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : جاوید احمد غامدی

البیان: النمل ۲۷: ۴۵-۵۸ (۳)

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

(گذشتہ سے پیوستہ)

 

وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا٘ اِلٰي ثَمُوْدَ اَخَاهُمْ صٰلِحًا اَنِ اعْبُدُوا اللّٰهَ فَاِذَا هُمْ فَرِيْقٰنِ يَخْتَصِمُوْنَ ٤٥ قَالَ يٰقَوْمِ لِمَ تَسْتَعْجِلُوْنَ بِالسَّيِّئَةِ قَبْلَ الْحَسَنَةِﵐ لَوْلَا تَسْتَغْفِرُوْنَ اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ ٤٦

(لیکن یہ توفیق ہر شخص کو نہیں ملتی)[55]۔ ہم نے ثمود[56]کی طرف اُن کے بھائی صالح کو بھی اِسی دعوت کے ساتھ بھیجا تھا کہ اللہ کی بندگی کرو تو ہوا یہ کہ وہ دو فریق[57] بن کر آپس میں جھگڑنے لگے۔ صالح نے کہا: میری قوم کے لوگو، تم بھلائی سے پہلے برائی کے لیے کیوں جلدی مچاتے ہو؟[58] تم اللہ سے معافی کیوں نہیں مانگتے کہ تم پر رحم کیا جائے؟ ۴۵-۴۶

قَالُوا اطَّيَّرْنَا بِكَ وَبِمَنْ مَّعَكَﵧ قَالَ طٰٓئِرُكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ بَلْ اَنْتُمْ قَوْمٌ تُفْتَنُوْنَ ٤٧

اُنھوں نے جواب دیا کہ ہم نے تو تم سے اور تمھارے ساتھیوں سے نحوست ہی پائی ہے[59]۔ صالح نے کہا: (اِس سے ہمارا کیا تعلق)؟ تمھاری نحوست سب خدا کے پاس ہے۔بلکہ حقیقت یہ ہے کہ تم لوگ آزمائے جا رہے ہو[60]۔ ۴۷

وَكَانَ فِي الْمَدِيْنَةِ تِسْعَةُ رَهْطٍ يُّفْسِدُوْنَ فِي الْاَرْضِ وَلَا يُصْلِحُوْنَ ٤٨ قَالُوْا تَقَاسَمُوْا بِاللّٰهِ لَنُبَيِّتَنَّهٗ وَاَهْلَهٗ ثُمَّ لَنَقُوْلَنَّ لِوَلِيِّهٖ مَا شَهِدْنَا مَهْلِكَ اَهْلِهٖ وَاِنَّا لَصٰدِقُوْنَ ٤٩ وَمَكَرُوْا مَكْرًا وَّمَكَرْنَا مَكْرًا وَّهُمْ لَا يَشْعُرُوْنَ ٥٠ فَانْظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ مَكْرِهِمْﶈ اَنَّا دَمَّرْنٰهُمْ وَقَوْمَهُمْ اَجْمَعِيْنَ ٥١ فَتِلْكَ بُيُوْتُهُمْ خَاوِيَةًۣ بِمَا ظَلَمُوْاﵧ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيَةً لِّقَوْمٍ يَّعْلَمُوْنَ ٥٢ وَاَنْجَيْنَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَكَانُوْا يَتَّقُوْنَ ٥٣

اُس کے شہر میں نو خاندان تھے جو ملک میں فساد پھیلاتے اور کسی اصلاح پر آمادہ نہیں ہوتے تھے[61]۔اُنھوں نے آپس میں اللہ کی قسم کھا کر عہد کیا[62] کہ ہم صالح اور اُس کے لوگوں کو رات کے وقت جا ماریں گے، پھر اُس کے وارث سے کہہ دیں گے کہ اُس کے آدمی کی ہلاکت کے وقت ہم موجود نہیں تھے اور ہم بالکل سچے ہیں[63]۔ اُنھوں نے بھی تدبیر کی اور ہم نے بھی ایک تدبیر کی اور اُن کو خبر بھی نہیں ہوئی۔ پھر دیکھو کہ اُن کی تدبیر کا انجام کیا ہوا کہ ہم نے اُن کو اور اُن کی پوری قوم کو ہلاک کرمارا ۔ سو یہ ہیں اُن کے گھر، ویران پڑے ہوئے[64]، اِس لیے کہ اُنھوں نے اپنی جان پرظلم کیا تھا۔ اِس میں اُن لوگوں کے لیے یقیناً ایک سبق ہے جو جاننا چاہیں[65]۔ اور اُن سب لوگوں کو ہم نے بچا لیا جو (اُن میں سے) ایمان لے آئے تھے اور خدا سے ڈرتے تھے۔ ۴۸-۵۳

وَلُوْطًا اِذْ قَالَ لِقَوْمِهٖ٘ اَتَاْتُوْنَ الْفَاحِشَةَ وَاَنْتُمْ تُبْصِرُوْنَ ٥٤ اَئِنَّكُمْلَتَاْتُوْنَ الرِّجَالَ شَهْوَةً مِّنْ دُوْنِ النِّسَآءِﵧ بَلْ اَنْتُمْ قَوْمٌ تَجْهَلُوْنَ ٥٥ فَمَا كَانَ جَوَابَ قَوْمِهٖ٘ اِلَّا٘ اَنْ قَالُوْ٘ا اَخْرِجُوْ٘ا اٰلَ لُوْطٍ مِّنْ قَرْيَتِكُمْﵐ اِنَّهُمْ اُنَاسٌ يَّتَطَهَّرُوْنَ ٥٦ فَاَنْجَيْنٰهُ وَاَهْلَهٗ٘ اِلَّا امْرَاَتَهٗﵟ قَدَّرْنٰهَا مِنَ الْغٰبِرِيْنَ ٥٧ وَاَمْطَرْنَا عَلَيْهِمْ مَّطَرًاﵐ فَسَآءَ مَطَرُ الْمُنْذَرِيْنَ ٥٨

اور لوط[66] کو بھی اِسی دعوت کے ساتھ بھیجا تھا، جب اُس نے اپنی قوم سے کہا: کیا تم کھلی آنکھوں دیکھتے یہ بدکاری کرتے ہو؟(تم پر افسوس)، کیا تم عورتوں کو چھوڑ کر مردوں سے اپنی خواہش پوری کرتے ہو[67]؟ (حقیقت یہ ہے کہ تم بالکل اوندھے)، بلکہ تم بڑے ہی جاہل لوگ ہو[68]۔مگراُس کی قوم نے جواب دیا تو یہ دیا کہ لوط کے لوگوں کو اپنی بستی سے نکال دو، یہ لوگ بڑے پاک باز بنتے ہیں[69]۔سو ہم نے اُسے اور اُس کے گھر والوں کو بچا لیا، اُس کی بیوی کے سوا، اُسے ہم نے پیچھے رہ جانے والوں میں شمار کر رکھا تھا[70]۔ اور اُس کی قوم پر (پتھروں کی ) ایک ہول ناک بارش برسا دی۔ پھر کیا ہی بری تھی وہ بارش اُن لوگوں کے لیے جنھیں آگاہ کر دیا گیا تھا[71]۔ ۵۴-۵۸

[55]۔ یعنی جو ملکۂ سبا کو ملی اور تمام تعصبات کو چھوڑ کر وہ خدا کے سامنے سر افگندہ ہو گئی۔

[56]۔ عرب کی قدیم اقوام میں سے عاد کے بعد یہ دوسری قوم ہے جس نے غیر معمولی شہرت حاصل کی۔ اِن کا مسکن شمالی عرب کا وہ علاقہ ہے جسے الحجر کہا جاتاہے۔

[57]۔ یعنی ایمان والے اور منکرین جو اِس دعوت کی مخالفت میں اٹھ کھڑے ہوئے۔

[58]۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ سے خیر مانگنے کے بجاے عذاب و نقمت کیوں مانگ رہے ہو؟ اِس کے لیے اصل میں ’حَسَنَة‘ اور ’سَيِّئَة‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ عربی زبان میں یہ اِس طرح کے مفاہیم کے لیے بھی آتے ہیں۔

[59]۔ یہ اُن آزمایشوں کی طرف اشارہ ہے جو سنت الہٰی کے مطابق رسولوں کی بعثت کے زمانے میں خاص طور پر اِس لیے ظاہر ہوتی ہیں کہ اُن کی قوم کے اندر انابت و خشیت پیدا ہو اور وہ اُن کی دعوت کی طرف متوجہ ہو جائیں۔ لیکن اِن سے فائدہ اٹھانے کے بجاے لوگوں نے بالعموم اِنھیں رسول اور اُس کے ساتھیوں کی نحوست قرار دیا جو اُن کی طرف سے اُن کے معبودوں کی مخالفت کے باعث پوری قوم پر آ پڑی ہے۔

[60]۔ یعنی جو کچھ ہو رہا ہے، خدا کی تدبیر و تقدیر اور حکمت و مشیت پر مبنی ہے۔ وہی فیصلہ کرتا ہے کہ کس کو کن آزمایشوں میں مبتلا کرنا ہے اور اُس سے کیا نتیجہ نکالنا ہے۔ چنانچہ اِن کے ذریعے سے وہ تمھیں بھی دیکھ رہا ہے کہ تمھارے اندر کچھ جان باقی ہے یا بالکل ہی مردہ ہو چکے ہو۔ یہ ہماری نحوست کے سبب سے نہیں ہے۔

[61]۔ مطلب یہ ہے کہ ایک طرف صالح اور اُن کے چند ساتھی اور دوسری طرف مفسدین کے نو جتھے تھے۔

[62]۔ اصل الفاظ ہیں:’قَالُوْا تَقَاسَمُوْا بِاللّٰهِ‘۔ اِن میں ’تَقَاسَمُوْا بِاللّٰهِ‘ ہمارے نزدیک بدل کے محل میں ہے۔ہم نے ترجمہ اِسی کے لحاظ سے کیا ہے۔

[63]۔ یہ تدبیر اِس لیے کی گئی کہ قبائلی زندگی میں اِس طرح کے قتل سے ایک لا متناہی جنگ چھڑ سکتی تھی۔ روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے معاملے میں بھی قریش کے سرداروں نے اِسی طرح کا منصوبہ بنایا تھا تاکہ آپ کا خاندان کسی ایک قبیلے کو ملزم نہ ٹھیرا سکے اور اُن کے لیے قصاص لینا ناممکن ہو جائے۔

[64]۔ یعنی اپنی داستان عبرت سنانے کے لیے تمھارے سامنے موجود ہیں۔ یہ اِس لیے فرمایا ہے کہ قریش کے قافلے اُن کے تباہ شدہ آثار پر سے گزرتے رہتے تھے۔

[65]۔ اصل الفاظ ہیں:’لِقَوْمٍ يَّعْلَمُوْنَ‘۔ اِن میں فعل ارادۂ فعل کے معنی میں ہے۔ ہم نے ترجمہ اِسی کے لحاظ سے کیا ہے۔

[66]۔ یہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے بھتیجے تھے۔ اِن کی قوم اُس علاقے میں رہتی تھی جو شام کے جنوب میں عراق و فلسطین کے درمیان واقع ہے اور آج کل شرق اردن کہلاتا ہے۔

[67]۔ یہ استفہام حیرت، کراہت اور تعجب کے اظہار کے لیے ہے کہ ایک جائز اور فطری چیز کے ہوتے ہوئے یہ تم کس گھناؤنے فعل کا ارتکاب کر رہے ہو۔

[68]۔ یعنی خواہشات نفس سے مغلوب ہو کر بالکل ہی عقل و ہوش کھو بیٹھے ہو۔

[69]۔ یہ کسی معاشرے کے بگاڑ کی آخری حد ہے جس تک پہنچ جانے کے بعد برائی تہذیب اور فیشن کا تقاضا اور نیکی باعث طعن بن جاتی ہے۔ لوگ یہ جاننے کے باوجود کہ پاکیزگی کیا ہے، اُسے اپنے اندر برداشت نہیں کرتے اور اُس کے علم برداروں کو اپنی بستیوں سے نکال پھینکنا چاہتے ہیں تاکہ جس طرح اُنھوں نے کپڑے اتار دیے ہیں، باقی سب بھی ننگے ہو جائیں اور کوئی یہ احساس دلانے والا نہ ہو کہ لباس بھی کوئی چیز ہوتی ہے جسے انسان کبھی پہنا کرتے تھے۔

[70]۔ یعنی خاص طور پر تاک رکھاتھا کہ پیغمبر کے گھر میں ہوتے ہوئے جب یہ اِسی بدکار قوم کے ساتھ ہے تو اِس کا انجام بھی اِنھی کے ساتھ ہونا چاہیے۔ یہ خدا کے بے لاگ انصاف کا اظہارہے۔ لوط علیہ السلام کی بیوی کے لیے پیغمبر کی بیوی ہونا کچھ بھی نافع نہیں ہوا۔ حضرت نوح کے بیٹے اور حضرت ابراہیم کے باپ کی طرح وہ بھی اُسی انجام کو پہنچ گئی جو اُس کی قوم کے لیے مقررہو چکا تھا۔

[71]۔ یعنی جن پر خدا کے ایک رسول کی طرف سے اتمام حجت کر دیا گیا تھا اور اب وہ کوئی عذر پیش نہیں کر سکتے تھے۔

[باقی]

ـــــــــــــــــــــــــ

B