HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : سید منظور الحسن

سنت کا ثبوت: جناب جاوید احمد غامدی صاحب کے موقف پر اعتراضات کا جائزہ (۲)

۱۔اصل دین کا اجماع اورتواتر سے منتقل ہونا

امام شافعی نے اجماع و تواتر سے ملنے والے دین کو’’علم عامہ‘‘اور ’’اخبار العامہ‘‘ سے تعبیر کیا ہے اور واضح کیا ہے کہ یہ دین کا وہ حصہ ہے جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد عامۃ المسلمین نے نسل در نسل منتقل کیا ہے۔ ہر شخص اس سے واقف ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی نسبت کے بارے میں تمام مسلمان متفق ہیں۔ یہ قطعی ہے اور درجۂ یقین کو پہنچا ہوا ہے۔نہ اس کے نقل کرنے میں غلطی کا کوئی امکان ہو سکتا ہے اور نہ اس کی تاویل و تفسیر میں کوئی غلط چیز داخل کی جا سکتی ہے۔ یہی دین ہے جس کی اتباع کے تمام لوگ مکلف ہیں :

قال الشافعي: فقال لي قائل: ما العلم؟ وما یجب علی الناس في العلم؟ فقلت له: العلم علمان: علم عامة لا یسع بالغًا غیر مغلوبٍ علی عقله جهله. قال: ومثل ماذا؟ قلت: مثل الصلوات الخمس، وأن للہ علی الناس صوم شهر رمضان، وحج البیت إذا استطاعوه، وزکاةً في أموالهم، وأنه حرم علیهم الزنا والقتل والسرقة والخمر، وما کان في معنی ھذا، مما کلف العباد أن یعقلوہ ویعملوہ ویعطوہ من أنفسهم وأموالهم، وأن یکفوا عنه: ما حرم علیهم منه. وھذا الصنف کله من العلم موجود نصًا في کتاب اللہ، وموجودًا عامًا عند أهل الإسلام، ینقله عوامهم عن من مضی من عوامهم، یحکونه عن رسول اللہ، ولا یتنازعون في حکایته ولا وجوبه علیهم. وھذا العلم العام الذي لا یمکن فیه الغلط من الخبر، ولا التأویل، ولا یجوز فیه التنازع. (الرسالہ۳۵۷- ۳۵۹) 
  ’’امام شافعی کہتے ہیں : سائل نے مجھ سے سوال کیا کہ علم (دین)کیا ہے اور اس علم (دین)کے بارے میں لوگوں پر کیا ذمہ داری عائد ہوتی ہے؟ میں نے اسے جواب دیا کہ علم کی دو قسمیں ہیں: پہلی قسم علم عام ہے۔ اس علم سے کوئی عاقل،کوئی بالغ بے خبر نہیں رہ سکتا۔ اس نے پوچھا: اس کی مثال کیا ہے؟ میں نے کہا: اس علم کی مثال پنج وقتہ نماز ہے۔ اسی طرح اس کی مثا ل رمضان کے روزے، اصحاب استطاعت پر بیت اللہ کے حج کی فرضیت اور اپنے اموال میں سے زکوٰۃ کی ادائیگی ہے۔ زنا، قتل، چوری اور نشے کی حرمت بھی اسی کی مثال ہے۔ان چیزوں کے بارے میں لوگوں کو اس بات کا مکلف بنایا گیا ہے کہ وہ جو جاننے کی چیزیں ہیں، ان سے آگاہ ہوں، جن چیزوں پر عمل مقصود ہے، ان پر عمل کریں، جنھیں ادا کرنا پیش نظر ہے، ان میں اپنے جان و مال میں سے ادا کریں اور جو حرام ہیں، ان سے اجتناب کریں۔اس نوعیت کی چیزوں کا علم کتاب اللہ میں منصوص ہے اور مسلمانوں کے عوام میں شائع وذائع ہے۔ علم کی یہ وہ قسم ہے جسے ایک نسل کے لوگ گذشتہ نسل کے لوگوں سے حاصل کرتے اور اگلی نسل کو منتقل کرتے ہیں۔ مسلمان امت اس سارے عمل کی نسبت (بالاتفاق) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کرتی ہے۔ اس کی روایت میں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی نسبت میں اور اس کے لزوم میں مسلمانوں کے مابین کبھی کوئی اختلاف نہیں رہا۔یہ علم تمام مسلمانوں کی مشترک میراث ہے۔ نہ اس کے نقل میں غلطی کا کوئی امکان ہوتا ہے اور نہ اس کی تاویل اور تفسیر میں غلط بات داخل ہو سکتی ہے۔ چنانچہ اس میں اختلاف کرنے کی کوئی گنجایش باقی نہیں رہتی۔‘‘

ابن عبدالبر نے اجماع اور تواتر سے ملنے والی سنت کو ’نقل الکافة عن الکافة‘ کے الفاظ سے تعبیر کیا ہے اور اسے درجۂ یقین پر ثابت تسلیم کیا ہے۔انھوں نے اس کے انکار کو اللہ کے نصوص کے انکار کے مترادف قرار دیا ہے۔ چنانچہ ان کے نزدیک اس کا مرتکب اگر توبہ نہ کرے تو اس کا قتل جائز ہے:

تنقسم السنة قسمین: إحدهما إجماع تنقله الکافة عن الکافة، فهذا من الحجج القاطعة للأعذار إذا لم یوجد هنالک خلاف، ومن رد اجماعهم فقد رد نصًا من نصوص اللہ یجب استتابته علیه وإراقة دمه إن لم یتب لخروجه عما أجمع علیه المسلمون وسلوکه غیر سبیل جمیعهم. والضرب الثاني من السنة خبر الآحاد الثقات الأثبات المتصل الإسناد. (جامع بیان العلم وفضلہ ۲/ ۴۱ -۴۲)  
  ’’سنت کی دو قسمیں ہیں : ایک قسم وہ ہے جسے تمام لوگ نسل در نسل آگے منتقل کرتے ہیں۔ اس طریقے سے منتقل ہونے والی چیز کی حیثیت جس میں کوئی اختلاف نہ ہو، قاطع عذر حجت کی ہے۔ چنانچہ جو شخص ان (ناقلین) کے اجماع کو تسلیم نہیں کرتا، وہ اللہ کے نصوص میں سے ایک نص کا انکار کرتا ہے۔ ایسے شخص پر توبہ کرنا لازم ہے اور اگر وہ توبہ نہیں کرتا تو اس کا خون جائز ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس نے عادل مسلمانوں کے اجماعی موقف سے انحراف کیا ہے اور ان کے اجماعی طریقے سے الگ راہ اختیار کی ہے۔ سنت کی دوسری قسم وہ ہے جسے ’’آحاد راویوں ‘‘ میں سے ثابت، ثقہ اور عادل لوگ منتقل کرتے ہیں اورجس کی روایت میں اتصال پایا جاتا ہے۔‘‘

امام سرخسی نے عمومی معاملات میں کسی چیز کے مشروع ہونے کے لیے اس کے مشہور اور معلوم و معروف ہونے کو ضروری قرار دیا ہے۔ انھوں نے بیان کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی جانب سے اس پر مامور تھے کہ لوگوں کے لیے دین کے احکام کو واضح کریں۔آپ نے اپنے صحابہ کو انھیں اگلی نسلوں کو منتقل کرنے کا حکم دیا۔ چنانچہ اگر ان میں سے کوئی چیز کثرت اور شہرت کے ساتھ منتقل نہیں ہوئی، بلکہ خبر واحد کے طریقے پر منتقل ہوئی ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام امت کے لیے اسے مشروع نہیں کیا۔ لکھتے ہیں:

أن صاحب الشرع کان مامورًا بأن یبین للناس ما یحتاجون إلیه وقد أمرهم بأن ینقلوا عنه ما یحتاج إلیه من بعدهم. فإذا کانت الحادثة مما تعم به البلوی فاظاهر أن صاحب الشرع لم یترک بیان ذالک للکافة وتعلیمهم وأنهم لم یترکوا نقله علٰی وجه الاستفاضة فحین لم یشتهر النقل عنهم عرفنا أنه سهو أو منسوخ ألاتری أن المتأخرین لما نقلوہ اشتهر فیهم فلو کان ثابتًا في المتقدمین لاشتهر أیضًا وما تفرد بنقله مع حاجة العامة إلی معرفته. (اصول السرخسی ۱/ ۳۷۸)
 ’’شارع علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اس بات کا حکم دیا گیا تھا کہ لوگوں کے لیے حاجت طلب احکام کو واضح فرمائیں۔ چنانچہ آپ نے انھیں حکم فرمایا کہ بعد میں آنے والوں کے لیے ان ضروری مسائل کو منتقل کریں۔ اگر کوئی ایسا معاملہ ہوتا کہ تمام لوگ اس میں مبتلا ہوتے تو ظاہر ہے کہ شارع (علیہ السلام) نے تمام لوگوں کے لیے اس کے بیان اور تعلیم کو نہیں چھوڑا ہے۔ اور انھوں نے آپ سے استفادہ کے بعد اس کو نقل کیے بغیر نہیں چھوڑا۔ اگر ان کی طرف یہ روایت مشہور نہیں ہوئی تو ہمیں معلوم ہے کہ یہ سہو ہے یا حکم منسوخ ہے۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ جب متاخرین نے اس حکم کو نقل کیاہے تو ان کے درمیان یہ مشہور ہو گیا۔ اگر متقدمین میں بھی یہ ثابت ہوتا تو مشہور ہو جاتا۔اور باوجود اس کے کہ عامۃ الناس کو اس کی معرفت کی ضرورت ہوتی ہے، وہ اس کو منفرد (تنہا) ہو کر روایت نہ کرتے۔‘‘

علامہ آمدی نے قرآن مجید کے خبر واحد سے ثابت ہونے کو اسی بنا پر ممتنع قرار دیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ واجب تھا کہ آپ اسے قطعی ذریعے سے، یعنی تواتر سے لوگوں تک پہنچائیں۔ نماز اور نکاح و طلاق جیسے مسائل جنھیں آپ لوگوں تک قطعی طور پر پہنچانے کے مکلف تھے، انھیں بھی آپ نے خبر واحد کے ذریعے سے نہیں، بلکہ تواتر ہی کے ذریعے سے لوگوں تک پہنچایا۔ ’’الاحکام فی اصول الاحکام‘‘ میں لکھتے ہیں :

وأما القرآن فإنما امتنع إثباته بخبر الواحد، لا لأنه مما عم به البلوی، بل لأنه المعجز في إثبات نبوة النبي صلی اللہ علیه وسلم، وطریق معرفته متوقف علی القطع. ولذالک وجب علی النبي إشاعته وإلقاؤہ علی عدد التواتر.... وما عدا القرآن مما أشیع إشاعة اشترک فیها الخاص والعام، کالعبادات الخمس، وأصول المعاملات کالبیع والنکاح والطلاق والعتاق، وغیر ذالک من الأحکام مماکان یجوز أن لا یشیع؛ فذالک إما بحکم الاتفاق، وإما لأنه صلی اللہ علیه وسلم کان متعبدًا بإشاعته. (۲/ ۱۶۴)
ج  ’’جہاں تک قرآن مجید کا تعلق ہے تو اس کا اثبات خبر واحد کے ذریعے سے ممتنع ہے۔ اس وجہ سے نہیں کہ وہ عموم بلویٰ مسائل میں سے ہے، بلکہ اس وجہ سے کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے اثبات میں معجز ہے اور اس کی معرفت کا طریق دلیل قطعی پر موقوف ہے۔ اسی وجہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر اس کی اشاعت اور حد تواتر تک لوگوں تک پہنچانا واجب تھا۔... قرآن مجید کے علاوہ جن چیزوں کی اشاعت ہوئی اور جن میں خاص و عام سب شریک ہیں، ان میں عبادت پنجگانہ، بیع، نکاح، طلاق اور عتاق جیسے معاملات کے اصول و قواعد شامل ہیں۔ ان کے علاوہ وہ احکام بھی ان میں شامل ہیں جن کی اشاعت نہ کرنا جائز ہے۔ ان کا اثبات یا اجماعی حکم کے ذریعے سے ہے یا اس وجہ سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ ان کی اشاعت کرتے رہے ہیں۔‘‘

خطیب بغدادی نے ’’الکفایہ‘‘ میں بیان کیا ہے کہ دین کے وہ امور جن کا علم قطعی ذرائع سے حاصل ہوا ہے، ان کے بارے میں خبر واحد کو قبول نہیں کیا جائے گا۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ اگر کسی خبر کی نسبت نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے قطعی نہیں ہے تو اسے کسی ایسی بات پر جس کی نسبت نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے قطعی ہے، فائق قرار نہیں دیا جا سکتا۔ لکھتے ہیں :

خبر الواحد لا یقبل في شیٔی من أبواب الدین المأخوذ علی المکلفین العلم بها والقطع علیها والعلة في ذالک أنه إذا لم یعلم أن الخبر قول رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم کان أبعد من العلم بمضمونه فأما ما عدا ذالک من الأحکام التي لم یوجب علینا العلم بأن النبي صلی اللہ علیه وسلم قررها وأخبر عن اللہ عزوجل بها فإن خبر الواحد فیها مقبول والعمل به واجب ویکون ما ورد فیه شرعًا لسائر المکلفین أن یعمل به وذالک نحو ما ورد في الحدود والکفارات وهلال رمضان وشوال وأحکام الطلاق والعتاق والحج والزکاة والمواریث والبیاعات والطهارة والصلاة وتحریم المحظورات. ( ۱/ ۴۳۲) 
 ’’مکلفین پر قطعیت اور علم سے حاصل شدہ دین کے کسی مسئلہ میں خبر واحد کو قبول نہیں کیا جائے گا۔ اس کی علت یہ ہے کہ جب پتا نہ چلے کہ وہ خبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قول ہے تو وہ اپنے مضمون کی وجہ سے بعید از قیاس ہوگی، سواے ان احکام کے جن کا جاننا واجب نہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی توثیق فرما دی اور ان کے بارے میں اللہ عزوجل سے خبر لائے تو ان میں خبر واحد مقبول ہوگی اور اس پر عمل کرنا واجب ہے اور اس میں جو کچھ بھی بطور شرع وارد ہو، تمام مکلفین کے لیے اس پر عمل کرناواجب ہے۔ یہ اسی طرح ہے، جس طرح حدود، کفارات، رمضان و شوال کے چاند دیکھنے،طلاق، غلام آزاد کرنے، حج، زکوٰۃ، وراثت، بیوع، طہارت، نماز اور ممنوعہ چیزوں کے حرام کرنے کے احکام میں وارد ہوا ہے۔‘‘

صاحب ’’احکام القرآن‘‘ اور فقہ حنفی کے جلیل القدر عالم ابوبکر جصاص نے قراء ت خلف الامام کی صحیح روایات کے باوجود اسے اس لیے قبول نہیں کیا کہ اس حکم کے بارے میں صحابہ کا اجماع نہیں ہے۔ اس سے واضح ہے کہ ان کے نزدیک اجماع سے ملنے والے حکم کو خبر واحد سے ملنے والے علم پر فوقیت حاصل ہے:

...ومما یدل علی ذالک ما روي عن جلة الصحابة من النهي عن القراءة خلف الإمام وإظهار النکیر علی فاعله ولو کان ذالک شائعًا لما خفي أمره علی الصحابة لعموم الحاجة إلیه ولکان من الشارع توقیف للجماعة علیه ولعرفوہ کما عرفوا القراءة في الصلاة إذا کانت الحاجة إلی معرفة القراءة خلف الإمام کهي إلی القراءة في الصلاة للمنفرد أو الإمام فلما روي عن جلة الصحابة إنکار القراءة خلف الإمام ثبت أنها غیر جائزة فممن نهی عن القراءة خلف الإمام علی وابن مسعود وسعد وجابر وابن عباس وأبو الدرداء وأبو سعید وابن عمر وزید بن ثابت وأنس ... إن ما کان هذا سبیله من الفروض التي عمت الحاجة إلیه فإن النبي صلی اللہ علیه وسلم لا یخلیھم من توقیف لهم علی إیجابه فلما وجدناهم قائلین بالنھي علمنا أنه لم یکن منه توقیف للکافة علیه فثبت أنها غیر واجبة ولا یصیر قول من قال منهم بإیجابه قادحًا في ما ذکرنا من قبل أن أکثر ما فیه لم یکن من النبي صلی اللہ علیه وسلم توقیف علیه للکافة فذهب منهم ذاهبون إلی إیجاب قراءتها بتأویل أو قیاس ومثل ذالک طریقة توقیف الکافة ونقل الأمة.(احکام القرآن ۳/ ۴۲ -۴۳) 
 ’’...یہ بات اس روایت پر دلالت کرتی ہے جو امام کے پیچھے قراء ت کرنے کی نہی اور قراء ت کرنے والے کے رد کے بارے میں آئی ہے۔ اگر یہ حکم عام ہوتا تو عمومی حاجت کی وجہ سے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے آپ کا حکم مخفی نہ رہتا اور شارع علیہ السلام کی طرف سے اجتماعی حکم ہوتا اور صحابۂ کرام اس کو اسی طرح جانتے، جس طرح نماز میں قراء ت کو جانتے تھے، کیونکہ جس طرح اکیلے نماز پڑھنے والے کے لیے اور امام کے لیے نماز میں قراء ت کی معرفت ضروری ہے، اسی طرح امام کے پیچھے بھی قراء ت کی معرفت ضروری ہوتی۔ جب اکابر صحابۂ کرام سے امام کے پیچھے قراء ت کرنے کا انکار مروی ہے تو ثابت ہو گیا کہ یہ ناجائز ہے۔ جن حضرات نے قراء ت خلف الامام سے منع کیا ہے، ان میں سے حضرت علی، حضرت ابن مسعود، حضرت سعد، حضرت جابر، حضرت ابن عباس، حضرت ابوالدرداء، حضرت ابو سعید، حضرت ابن عمر، حضرت زید بن ثابت اور حضرت انس رضی اللہ عنہم شامل ہیں... اگر یہ ان فرائض میں سے ہوتی جن کی حاجت عموماً پڑتی ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس کو ان کے لیے واجب قرار دیتے۔ جب ہمیں معلوم ہو گیا کہ صحابۂ کرام نے اس سے منع کیا ہے تو یہ بھی معلوم ہوگیا کہ آپ کی طرف سے تمام لوگوں کے لیے حکم نہیں تھا اور ثابت ہو گیا کہ یہ (قراء ت خلف الامام) واجب نہیں ہے۔ اس سے پہلے جو ہم نے ذکر کیا کہ اس مسئلے میں اکثر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے تمام لوگوں کے لیے حکم نہیں ہے، اس بارے میں اس کو واجب قرار دینے والے کا قول باعث طعن نہیں ہے۔ بعض اس کی قراء ت کو تاویل یا قیاس کے ذریعے سے واجب قرار دیتے ہیں، حالاں کہ اس طرح کے حکم کے اثبات کے لیے ’کافہ‘ اور ’نقل امت‘ کا طریق اختیار کیا جاتا ہے۔‘‘

بعض روایتوں میں یہ بات بیان ہوئی ہے کہ زکوٰۃ و صدقات صرف فقرا اور نادار اور معذور لوگوں کے لیے ہی جائز ہیں۔ کھانے پر قدرت رکھنے والے تندرست لوگوں کو انھیں دینا جائز نہیں ہے۔ اس بنا پر بعض اہل علم تندرست لوگوں کو زکوٰۃ دینے کی حرمت کے قائل ہیں۔ امام ابوبکر جصاص نے اس موقف کی تردید اس اصول پر کی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے لے کر آج کے زمانے تک یہ بات عملی تواتر سے منتقل ہوئی ہے کہ زکوٰۃ و صدقات معذور یا تندرست کی تخصیص کے بغیر دیے جاتے ہیں :

قد کانت الصدقات والزکٰوة تحمل إلی رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم فیعطیها فقراء الصحابة من المهاجرین والأنصار وأهل الصفة وکانوا أقویاء مکتسبین ولم یکن یخص بها الزمنی دون الأصحاء وعلی هذا أمر الناس من لدن النبي صلی اللہ علیه وسلم إلی یومنا یخرجون صدقاتهم إلی الفقراء الأقویاء والضعفاء منهم لا یعتبرون منها ذوی العاهات والزمانة دون الأقویاء الأصحاء ولو کانت الصدقة محرمة وغیر جائزة علی الأقویاء المتکسبین الفروض منها أو النوافل لکان من النبي صلی اللہ علیه وسلم توقیف للکافة علیه لعموم الحاجة إلیه فلما لم یکن من النبي صلی اللہ علیه وسلم توقیف للکافة علی حظر دفع الزکٰوة إلی الأقویاء من الفقراء والمتکسبین من أهل الحاجة لأنه لو کانه منه توقیف للکافة لورد النقل به مستفیضًا دل ذالک علی جواز إعطائها الأقویاء المتکسبین من الفقراء کجواز إعطائها الزمنی والعاجزین عن الاکتساب.(احکام القرآن ۳/ ۱۳۱)
 ’’جو صدقات اور اموال زکوٰۃ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو پیش کیے جاتے، انھیں مہاجرین و انصار اور اصحاب صفہ میں تقسیم کر دیا جاتا۔ باوجود اس کے کہ وہ کمانے پر قادر بھی تھے اور تندرست بھی تھے۔ اس سے واضح ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں تندرست لوگوں کو چھوڑ کر معذور لوگوں کے ساتھ مخصوص نہیں فرمایا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے لے کر آج تک تمام لوگوں کا یہی طریقہ ہے کہ وہ ضعیف اور تندرست فقیروں کو یکساں طور پر زکوٰۃ اور صدقات دیتے ہیں۔ اس میں وہ معذور اور تندرست میں فرق نہیں کرتے۔ اگر زکوٰۃ و صدقات تندرست فقرا پر حرام اور ناجائز ہوتے تو اس معاملے کی نوعیت عمومی اور روزمرہ کی ہونے کی وجہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اس کا حکم سب کے لیے صادر ہوتا۔ جب قادر اور کمانے والے حاجت مند فقرا کو صدقات دینے کی نہی کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے کوئی حکم عام نہیں ہے تویہ اس بات کی دلیل ہے کہ تندرست اور معذور فقرا کو یکساں طور پر صدقات و زکوٰۃ دینا جائز ہے۔‘‘

بعض روایتوں میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صبح کے وقت قنوت پڑھنے کا ذکر ہے۔ کیا ان روایتوں کی بنا پر اسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے معمول بہ عمل کے طور پر قبول کرنا چاہیے۔ اس مسئلے کے بارے میں ابن قیم نے بیان کیا ہے کہ اگر یہ عمل فی الواقع آپ کا معمول ہوتا اور آپ اسے امت میں جاری کرنا چاہتے تو آپ صحابہ کو اس کا امین بناتے۔ یہ ممکن نہیں ہے کہ کوئی کام آپ نے جاری فرمایا ہو اور پھر امت نے اسے ختم کر دیا ہو:

ومن المعلوم بالضرورة أن رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم لو کان یقنت کل غداة ویدعو بھذا الدعاء ویؤمن الصحابة لکان نقل الأمة لذالک کلهم کنقلها لجھرہ بالقراءة فیها وعددها ووقتها. (زاد المعاد ۹۵- ۹۶)  
  ’’یہ بات یقیناً معلوم ہے کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر صبح قنوت پڑھتے، اور دعا میں بھی اس کو دہراتے اور صحابۂ کرام کو اس کا امین بناتے تھے تو امت اسے اسی طرح نقل کرتی، جس طرح اس نے صبح کی نماز کی جہری قراء ت کو، اس کی رکعات کو اور اس کے وقت کو نقل کیا ہے۔‘‘

[باقی]

___________

B