گفتگو: جاوید احمد غامدی
ترتیب و تدوین: سید منظور الحسن
ایک بے مثال شخصیت جو اپنی سیرت ،اپنے کردار، اپنی درد مندی اور اپنے اخلاص کے لحاظ سے ہم سب کے لیے نمونہ تھی، وہ آج دنیا سے رخصت ہو گئی۔مولانا وحید الدین خاں ایک بڑی غیر معمولی شخصیت تھے۔ اُن کی آواز ایک منفرد آواز تھی۔ ایسی منفرد کہ شاید نہ اِس سے پہلے سنی گئی اور نہیں کہا جا سکتا کہ اب پھر کبھی سنی جائے گی۔میری نسبت تو اُن کے ساتھ یہ ہے کہ ہم ایک ہی استاذ کے شاگرد ہیں؛ اِس فرق کے ساتھ کہ اُنھوں نے استاذ امام امین احسن اصلاحی سے اُن کے ابتدائی دور میں تعلیم پائی اور مجھے یہ شرف استاذ امام کے آخری دور میں حاصل ہوا۔
اُن کا بڑا علمی کارنامہ یہ ہے کہ دور حاضر میں جو دین کی سیاسی تعبیر کی گئی ہے ،اُنھوں نے خالص علمی سطح پر اُس کی غلطی واضح کی۔ اُن کی کتاب’’تعبیر کی غلطی‘‘ کو پڑھ کر آپ یہ اندازہ کر سکتے ہیں کہ وہ کیسا اعلیٰ درجے کا محققانہ ذوق رکھتے تھے اور اگر وہ اِس طرح کے تحقیقی مباحث ہی کو اپنا کام بناتے تو کیسی غیر معمولی چیزیں اُن کے قلم سے نکل سکتی تھیں، لیکن بہ تدریج اُنھوں نے تذکیر کو اور مسلمانوں کی عمومی اصلاح کو اپنا موضوع بنا لیا ۔ اِس لحاظ سے بھی بڑی بے مثل چیزیں اُن کے قلم سے نکلی ہیں۔
یہ جس کارنامے کی طرف میں نے توجہ دلائی ہے، یہ بڑا غیر معمولی ہے۔ اِس لحاظ سے کہ دین کے مختلف احکام میں، اُن کی شرح ووضاحت میں اگر کہیں کوئی غلطی ہو جائے ــــــ اور ظاہر ہے کہ کسی صاحب علم کا کام غلطیوں سے پاک نہیں ہے ــــــ تو اُس سے کوئی بڑا مسئلہ پیدا نہیں ہوتا ۔ مثلاً رفع یدین کے بارے میں ایک شخص کی ایک راے ہے، دوسرے شخص کی ایک دوسری راے ہے۔ اِسی طرح سجدہ کیسے کرنا ہے، تشہد میں کیسے بیٹھنا ہے، نماز کی ابتدا کیسے کرنی ہے؟ یا اِسی طرح کی بعض دوسری چیزیں ہیں۔ اُن میں اختلافات ہوتے ہیں، ہوتے رہے ہیں، ہوتے رہیں گے۔ لیکن دین بہ حیثیت مجموعی کیا ہے، اُس کا مقصد کیا ہے، وہ ہم سے کیا چاہتا ہے، اُس کے احکام میں باہمی طور پر کیا نظم قائم ہوتا ہے، کیا چیز ہے کہ جس کو سامنے رکھ کر دین کے تمام احکام کو اُس سے متعلق کیا جاتا ہے؟ اگر اِن کے فہم یا شرح و وضاحت میں کوئی غلطی ہو جائے تو اُس کے اثرات و نتائج غیر معمولی ہوتے ہیں۔ اِس لیےیہ موضوع بڑا اہم ہے۔ یہی وہ موضوع ہے جسے ہم ’’دین کی تعبیر‘‘کے عنوان سے بیان کرتے ہیں۔
ہمارے ہاں دین کی ایک تعبیر وہ ہے جس کو ’صوفیانہ تعبیر‘ کہنا چاہیے۔ اِس کے بڑے لوگوں میں امام غزالی ہیں اور آخری زمانے میں شاہ ولی اللہ ہیں ۔اِسی طرح ’دین کی سیاسی تعبیر ‘ہے۔ اِس کے سب سے بڑے مفکر ہمارے مخدوم اور ممدوح مولانا سید ابوالاعلیٰ صاحب مودودی ہیں۔ اُنھوں نے اِس کو نہ صرف علمی بنیادیں فراہم کی ہیں، بلکہ اپنے پورے لٹریچر میں اِسی کو سامنے رکھ کر قرآن کی تفسیر کی ہے اور احادیث کے مدعا و مطالب کو بیان کیا ہے۔یہ تعبیر ہے کہ جس کو ’’سیاسی تعبیر‘‘ کا عنوان بھی مولانا وحید الدین ہی نےدیا ہے۔ یہ بحث نہیں ہے کہ کون سی تعبیر صحیح ہے اور کون سی غلط ہے؛ اصل چیز یہ ہے کہ کسی تعبیر کو علمی طور پر واضح کرنا ، اُس پر علمی تنقید کرنا، اُس کے مقابل میں اپنے نقطۂ نظر کو پیش کرنا اور اُس کے ایک ایک اصول کو سامنے رکھ کر بتانا کہ اِس میں قرآن مجید کی رو سے، اِس میں مسلمانوں کے مجموعی علم کی رو سے، اِس میں ہماری روایت کی رو سے کیا خامی ہے۔ یہ کام اپنی ذات میں کسی چھوٹے مسئلے پر کلام کرنے کی نوعیت نہیں رکھتا ۔یہ ایک بڑا کام ہے جو اُن کے قلم سے صادر ہوا ہے۔ اِس وقت بھی میں لوگوں سے یہ کہتا ہوں کہ وہ اگر اعلیٰ درجے کے تنقیدی کام کو دیکھنا چاہیں ــــــ جس میں حلاوت بھی ہو، جس میں شایستگی بھی ہو ،جس میں تہذیب کے اقدار کا لحاظ بھی رکھا گیا ہو، جس میں لکھنے والوں کی درد مندی بھی جھلک رہی ہو ــــــ تو اُن کو مولانا وحید الدین خاں کی کتاب ’’تعبیر کی غلطی‘‘ کو ایک علمی کتاب کی حیثیت سے پڑھنا چاہیے۔
مولانا کے قلم سے جتنی چیزیں نکلی ہیں، موجودہ زمانے میں کم لوگ ہوں گے کہ جنھوں نے اتنا لکھا ہوگا۔ اُن کے اصل موضوعات یہ تھے کہ دین کی حقیقت واضح کی جائے، اللہ تعالیٰ کی سچی معرفت لوگوں میں پیدا کی جائے، مسلمانوں نے جوسیاسی لائحۂ عمل اختیار کر رکھا ہے، اُس کی غلطی اُن کو بتائی جائے ،مسلمانوں کے لیے کرنے کا اصل کام کیا ہے، اُس کو اُنھیں سمجھایا جائے ۔اِن موضوعات پر لوگ اُن سے اتفاق بھی کریں گے، اختلاف بھی کریں گے۔ ــــــ میں نے خود ایک موقع پر اُن کے بارے میں یہ لکھا تھا کہ وہ روایتی فکر اور مدرسۂ فراہی کے مابین ایک برزخ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ــــــ لیکن جہاں تک اُن کے دینی اخلاص، قومی دردمندی اور پروردگار کی سچی معرفت کے احساس کا تعلق ہے تو اُس سے کوئی اختلاف نہیں کر سکتا۔
وہ بہت اچھا لکھنے والے تھے ۔ اپنے بارے میں بالکل درست کہتے تھے کہ اُنھوں نے اردو زبان کو ،خاص طور پر مذہبیات کے دائرے میں، ایک عصری اسلوب دیا ہے۔ وہ اپنی بات کو نہایت وضاحت سے بیان کرتے تھے، اُس کو تمثیلوں میں واضح کرتے تھے اورزندگی کے عمومی معاملات میں رکھ کر اُس کو دکھاتے تھے۔ ساری زندگی وہ یہی کام کرتے رہے ۔’’الرسالہ‘‘ کو اُنھوں نے اِس پہلو سے ایک کلاسیک بنا دیا تھا ۔اب اِس کو ہمیشہ اِسی حیثیت سے پیش کیا جاتا رہے گا۔ اُنھوں نے ماضی کے علم پر جو تبصرے کیے ہیں یا بعض چیزوں کی طرف اشارے کیے ہیں، اُن میں بڑی معنی خیزی ہے۔ خاص طور پر اُن کی ڈائریوں کو اگر آپ پڑھیں تو اُن میں بہت سے علمی مباحث کے بارے میں بڑی نادر تنقیحات سامنے آتی ہیں ۔لہٰذا لوگوں کو اُن کے کام پر غور کرنا چاہیے ،اُن کے احوال کو دیکھنا چاہیے ، اُن کے سوانح کا مطالعہ کرنا چاہیے۔
میں اُن کے پورے کام میں سے دو چیزوں کو اُن کا سب سے بڑا کارنامہ سمجھتا ہوں:
اُن میں سے ایک دین کی اصل حقیقت کی طرف توجہ دلانا ہے۔ اُنھوں نے بتایا ہےکہ دین پروردگار کی حقیقی معرفت، اُس سے سچی محبت اور اُس کے امتثال امر کا نام ہے۔اِس حقیقت کو اُنھوں نے ہر شخص پر واضح کرنے کی سعی کی اور اپنی پوری زندگی اِس کی نذر کر دی ۔اِسی طرح یہ بات بتانے کے لیے اُن کا قلم ایک گوہربار قلم تھا کہ لوگ دین کی اصل کو دریافت کریں، اُس کے مقصود کو پانے کی جدوجہد کریں، اُن کے اندر اِس حقیقت کو سمجھنے کا داعیہ پیدا ہو کہ اُن کا مقصود آخرت ہے، اُنھیں ایک دن اپنے پروردگار کے سامنے اٹھنا ہے، اپنے اعمال کا حساب دینا ہے۔ اِس موضوع پر اُنھوں نے صفحے کے صفحے لکھے ہیں۔ اللہ کی یاد کی طرف توجہ دلائی ہے اورآخرت کی منادی کی ہے۔ یہ اُن کے کارناموں میں سب سے بڑا کارنامہ ہے۔
دوسرا بڑا کارنامہ یہ ہے کہ اُنھوں نے مسلمانوں کو اُن کے سیاسی، سماجی اورتہذیبی رویوں کے بارے میں صحیح راہ دکھائی ہے۔ جب ایک شخص صحیح راستہ دکھاتا ہے تو بعض موقعوں پر کچھ انتہا پسندی بھی آجاتی ہے ، لیکن بہ حیثیت مجموعی اُنھوں نےمسلمانوں کی درست سمت میں رہنمائی کی ہے۔ اُنھوں نے مسلمانوں کو بتایا ہےکہ تم اپنی تاریخ کے پس منظر میں اِس وقت کس مقام پر کھڑے ہو، تمھارا اصلی مشن کیا ہے، تمھیں اپنے سیاسی اور سماجی معاملات میں کیا رویے اختیار کرنے چاہییں ،تمھارے لیے مثبت طرز عمل کیا ہےجسے تمھیں ہدف بنا کر کام کرنا ہے؟ اِس معاملے جو بنیادی پیغام اُنھوں نے مسلمانوں کو دیا ہے، وہ یہ ہےکہ ردعمل کی نفسیات سے نکل کر مثبت سوچ کے ساتھ دنیا اور اُس کے معاملات کو دیکھو۔ تمھارے پاس جو ایک بہت بڑی متاع ہے ــــــ دین کی متاع ــــــ اُس کو دنیا تک پہنچانے کی کوشش کرو ۔
مسلمان بڑی بدقسمت قوم ہیں۔ یہ اپنی عظمتوں کے معاملے میں بھی اختلاف اور اتفاق کی بنیاد پر راے قائم کرتے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ بعض بہت بڑے لوگ ہیں جن سے ہم اختلاف کرتے ہیں اور بعض اوقات بڑا اصولی اختلاف کرتے ہیں، جیسے امام غزالی ہیں، شاہ ولی اللہ ہیں۔ لیکن کیا اُن کی عظمت کا انکار کر دیا جائے گا؟ ماضی کی شخصیات ہوں یا حال کی، ہمیں سب کے علم و فکر یا سیرت وکردار کی عظمت کا اعتراف کرتے ہوئے، ادب اور شایستگی کے ساتھ اُن سے اختلاف کی روایت ڈالنی چاہیے۔
مولانا وحید الدین خاں تنہا کام کرتے تھے۔کوئی جماعت ، کوئی فرقہ ،کوئی گروہ یا کوئی بڑا ادارہ اُن کی پشت پر نہیں تھا۔ وہ اپنی ذات میں ایک انجمن تھے۔ ’کان أمة في رجل‘۔ایک ایسا آدمی جس کے وجود میں ایک پوری امت جمع تھی ۔ وہ آدمی آج اپنے پروردگار کے پاس واپس چلا گیا ہے، گویا، ہمارے دور کی ایک بڑی عظمت تھی، جو اب ہم سے رخصت ہو گئی ہے ۔ إنا للہ وإنا إلیه راجعون۔
___________
[*] وہ فرد کے پیکر میں ایک جماعت تھا۔