HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : عبدالستار غوری

حضرت ابراہیم کے والد کا نام: آزر یا تارخ؟

۱۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے والد کا نام قرآن یا کسی صحیح حدیث میں ’’تارخ‘‘ بیان نہیں کیا گیا ہے۔ جن علماے انساب،سیرت نگاروں اورمفسروں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے والد کا نام ’’تارح ‘‘ یا ’’تارخ‘‘ بیان کیا ہے، ان کا مأ خذ بائبل ہے، قرآن نہیں ۔

۲۔ قرآن میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے والد کا نام صرف ایک جگہ [1] بیان کیا گیا ہے اور وہ ہے ’’آزر‘‘۔ نام کے بغیر قرآن میں والدِ ابراہیم علیہ السلام کا ذکر مختلف مقامات پر مختلف واقعات کے سلسلے میں کئی جگہ آیا ہے اور یہ تمام واقعات اسی ایک شخص کے بارے میں مذکور ہیں ۔ اگر یہ شخص آپ کا والد نہیں بلکہ چچا تھا، تو کیا آپ کو گھر سے نکالنے، سزا دینے یا آپ کے ساتھ معاملات کا مختارِ کل آپ کا چچا تھا، اور باپ ( مسلمان ہونے کے باوجود؟) اتنا بے حس اور بے بس تھا کہ خاموش تماشائی بنا رہا اور اپنے مومن بیٹے کو بے سہارا چھوڑ دیا۔ اس بات کی تو ایک صاحبِ ایمان شخص کے کسی عزیز یا دوست سے بھی توقع نہیں کی جاسکتی کہ وہ اپنے ایک مومن بھائی کو ظالموں کے رحم و کرم پر چھوڑ کر خود سکھ کی بنسی بجاتا پھرے، جیسا کہ ارشادِ نبوی ہے کہ ’المسلم اخوالمسلم لا یظلمه ولا یسلمهُ‘۔[2] (مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، نہ تو خوداس پرظلم و زیادتی کرتا ہے، نہ دوسروں کا نشا نۂ ستم بننے کے لیے اسے بے سہارا چھوڑتا ہے)۔ پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا مومن باپ ستیزہ گاہِ حق و باطل میں اپنے بیٹے کو دشمنانِ حق کے سپرد کر کے الگ ہو جائے۔ قرآن میں معرکہ ٔ حق و باطل کے فیصلہ کن لمحات میں آپ کے کسی مومن باپ کی حق کی حمایت کے سلسلے میں کسی کارروائی کا ذکر نہیں ، بلکہ آپ کا باپ تو اکثر مقامات پرحق کی مخالفت میں آپ کے مقابل خم ٹھونکے کھڑا نظر آتا ہے۔ پورے قرآن میں کسی ایک جگہ بھی آپ کے باپ کے ایمان لانے یا حمایتِ حق کا اشارہ تک موجودنہیں ۔ ہر جگہ باپ کا لفظ ایک کافر و مشرک اور دشمنِ حق ہی کے لیے استعمال ہوا ہے۔

۳۔ کیا قرآنی عربی اتنی بے مایہ ہے کہ اس میں ’’ چچا‘‘ کے لیے کوئی لفظ موجود نہیں اور اسے مجبوراً ’’چچا ‘‘ کا مفہوم ادا کرنے کے لیے بھی لفظ ’’باپ‘‘ سے کام لینا پڑے۔

۴۔ بعض علماے انساب، مفسرین اور سیرت نگاروں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے والد کا نام ’’تارح‘‘ یا ’’تارخ‘‘ لکھا ہے۔ لیکن یہ بات انھوں نے اصلاً بائبل ہی سے لی ہے۔اور اس کی ضرورت انھیں اس لیے محسوس ہوئی کہ:

 (الف) بائبل میں آپ کے والد کا نام تیراہ (Terah)درج ہے اور غیر مسلم اربابِ علم قرآن پر اعتراض کرتے ہیں کہ صاحبِ قرآن نے کم علمی کی بنا پر اُن کے والد کا نام ’’آزر‘‘ لکھ دیا ہے۔ اور ان مسلم علمامیں غیرمسلم اہلِ کتاب کا جواب دینے کی تو صلاحیت نہیں ۔ انھیں اس اعتراض کی زد سے بچنے کا ایک ہی راستہ نظر آیا کہ قرآن میں ترمیم کر کے اپنے آپ کو اس اعتراض کی زد سے بچا لیا جائے۔چنانچہ انھوں نے دعویٰ کیا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے والد کا نام تو حقیقت میں وہی ’’ تارح، یا تارخ، یا تیراہ‘‘ ہی تھا جو بائبل میں بیان کیا گیا ہے، البتہ قرآنِ کریم نے جو ’’آزر‘‘ کو آپ کا ’’ باپ‘‘ قرار دیا ہے، تو یہاں ’’ باپ ‘‘ کا لفظ’’ چچا ‘‘کے معانی میں استعمال ہوا ہے۔ اس مقصد کے لیے قرآنِ کریم سے ایک دلیل بھی گھڑ لی گئی: کہ قرآن میں ایک جگہ’’ آ با‘‘ کا لفظ ایسے بزرگوں اور آبا و اجداد کے لیے استعمال ہوا ہے، جن میں ایک چچا بھی شامل ہیں [3] ۔ لیکن یہ نہ سوچاگیا کہ یہ ایک مخصوص صورتِ حال کا بیان ہے، اور اس میں توحید کے پیروکار اولوالعزم انبیا کا ذکر ہے۔واضح ہے کہ انبیاے کرام کی حیثیت روحانی باپ کی ہوتی ہے، بلکہ ان کی تو ازواج بھی اہلِ امت کی بعض احکام کے اعتبار سے حقیقی ماؤں کی حیثیت رکھتی ہیں [4]۔اس مثال کا ان کے دعوے سے کوئی تعلق نہیں ۔ قرآنِ کریم میں لفظ ’’باپ‘‘ کا مختلف صیغوں اور حالتوں میں ایک سو سترہ مرتبہ ذکر آیا ہے۔ ان میں سے آٹھ مرتبہ ’’یا ابت‘‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے، جو باپ کو مخاطب کرنے کے لیے پیار سے بولتے ہیں ، جیسے اردو میں ’’ابا جی‘‘ کہتے ہیں ۔ اس کا چچا پر استعمال مناسب نہیں ہوتا۔ ان آٹھ مقامات میں سے چار مقامات ایسے ہیں جن میں یہ لفظ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے اسی والدیعنی ’’آزر‘‘ کے لیے استعمال کیا ہے۔ اس کے علاوہ واحد کے صیغے میں لفظ ’’باپ‘‘ ۳۸ مرتبہ آیا ہے۔تثنیہ کے صیغے میں یہ بالعموم ’’ماں باپ‘‘ کے لیے آتا ہے اور اس صیغے میں یہ قرآن میں سات مرتبہ وارد ہوا ہے۔ جمع کے صیغے میں اکثر اوقات یہ بزرگوں اور باپ دادا یا آبا و اجداد کے لیے استعمال ہوتا ہے، اور صرف باپ کی جمع کے لیے اس کا استعمال کم ہے۔بلا شبہ قرآنِ کریم میں جمع کے صیغے میں آبا و اجداد اور بزرگوں کے لیے ایک مرتبہ [5] اس لفظ کا اس طرح بھی استعمال ہوا ہے کہ ان میں سے ایک بزرگ متعین طور پر چچا بھی ہیں ( حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کے لیے حضرت یعقوب علیہ السلام کے چچا کے طور پر)، لیکن یہ بات صرف قرینے ہی سے متعین ہو رہی ہے۔ورنہ فی الحقیقت تو یہاں کوئی بھی بزرگ مراد لیا جا سکتا ہے۔ قرآنِ کریم نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے باپ کا ذکر واحد کے صیغے میں کیا ہے، اور واحد کے صیغے میں ’’باپ‘‘ کا لفظ استعمال کرکے اس سے ’’چچا‘‘ مراد لینے کی کوئی مثال قرآنِ کریم سے پیش نہیں کی جا سکتی۔ بلکہ قرآنِ کریم تو کسی شخص کو اس کے اصل باپ کے سوا کسی اور کی ولدیت سے منسوب کرنے سے نہایت سخت الفاظ میں منع کرتا ہے۔ ارشاد ہے :

اُدْعُوْهُمْ لِاٰبَآئِهِمْ هُوَ اَقْسَطُ عِنْدَ اللّٰهِﵐ فَاِنْ لَّمْ تَعْلَمُوْ٘ا اٰبَآءَهُمْ فَاِخْوَانُكُمْ فِي الدِّيْنِ وَمَوَالِيْكُمْﵧ وَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ فِيْمَا٘ اَخْطَاْتُمْ بِهٖ وَلٰكِنْ مَّا تَعَمَّدَتْ قُلُوْبُكُمْﵧ وَكَانَ اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا. [6]
’’(منہ بولے ) بیٹوں کو ان کے باپوں کی نسبت کے ساتھ پکارو، یہی اﷲ کے نزدیک سب سے زیادہ منصفانہ بات ہے۔اور اگر تمھیں معلوم نہ ہو کہ ان کے باپ کون ہیں تو وہ تمھارے دینی بھائی اور تمھارے شریکِ قبیلہ کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ جو غلطی تم سے نادانستہ سرزد ہوئی ہو، اس کے لیے تم پر کوئی گرفت نہیں ، لیکن اس بات پر ضرور گرفت ہے جس کا تم نے دل سے ارادہ کیا ہو۔‘‘

قرآنِ کریم کی اس صریح ہدایت کی موجودگی میں یہ کیسے ممکن ہے کہ اﷲ سبحانہ‘ وتعالیٰ اور اس کی کتاب خود ہی اپنے اس حکم کی خلاف ورزی کریں اور حضرتِ ابراہیم علیہ السلام کے ’’چچا‘‘ کو اس کا ’’باپ‘‘ بنا کر پیش کریں ۔ لیکن ہمارے ان کرم فرما اربابِ علم نے یہ جسارت بڑی دیدہ دلیری سے کر ڈالی۔

 ۵۔ یا پھر (ب) وہ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا والد غیر مسلم اور مشرک نہیں تھا۔ کیونکہ اگر اسے مشرک مان لیا جائے، تو ان کا ایک خود ساختہ اصول مجروح ہو جاتا ہے۔ 

اس سلسلے میں ایک چیز تو یہ ہے کہ قرآن اور احادیثِ صحیحہ کی کسی نص سے یہ ثابت نہیں ہوتا، کہ انبیا کے سلسلۂ آبا کی پوری لڑی میں حضرت آدم علیہ السلام تک کوئی شخص بھی غیر مسلم اور مشرک نہیں ہو سکتا۔ یہ ایک خود ساختہ بات ہے۔ قرآن نے واضح کر دیا ہے کہ جو لوگ پہلے گزر چکے ہیں وہ اپنے کیے کی جزا و سزا پائیں گے اور تم اپنے کیے کی۔ اور تم سے ان کے اعمال کے بارے میں کوئی بازپرس نہ ہو گی[7]at اور ولا تزر وازرة وزر اخری[8] (کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھاتا)۔ تفسیرِ حقانی میں اس امر کی تصریح ان الفاظ میں کی گئی ہے:

 ’’ حضرت ابراہیم ؑ کے والد کا نام تارخ ہے، آزر لقب ہوگا یا بالعکس اور یہ کہنا کہ ’ آزر ان کے چچا تھے اور تارخ باپ، اس لیے کہ کسی نبی کا باپ مشرک نہیں گزرا ہے‘ محض تکلف ہے۔‘‘ [9]

اور دوسری بات یہ کہ ان کے آباے انبیا کے بارے میں ایسے کسی خود ساختہ نظریے کا بے بنیاد اور غلط ہونا اس بات سے بھی ثابت ہو جاتا ہے کہ بائبل میں اگرچہ والدِ ابراہیم علیہ السلام کا نام ’’تیراہ ‘‘ درج ہے لیکن اسی بائبل میں یہ بھی لکھا ہے کہ وہ کافر و مشرک تھا اور اس نے دینِ توحید ہر گز قبول نہیں کیا تھا۔ اس طرح اگر بائبل سے حضرتِ ابراہیم علیہ السلام کے باپ کا نام اخذ کرنا ہے تو یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ وہ کافر و مشرک تھا۔ ’’تیراہ‘‘ کے کافر و مشرک ہونے کے سلسلے میں بائبل کی اصل عبارات اور بعض دیگر شواہد کسی قدر تفصیل سے نیچے الگ درج کیے جاتے ہیں :

۶۔ جہاں تک بائبل کا تعلق ہے، اس نے بغیر کسی ابہام کے دو ٹوک الفاظ میں ’’تیراہ‘‘ کا نام لے کر اسے مشرک قرار دیا ہے اور مرتے دم تک اس کے ا یمان لانے کا کوئی امکان یا شواہد موجود نہیں ۔ اس سلسلے میں پہلے بائبل کی عبارات درج کی جاتی ہیں :

"Yahweh, the God of Israel, says this, " From time immemorial, your ancestors, Terah, father of Abraham and Nahor, lived beyond the River [Euphrates], and served other gods. (....) So now, fear Yahweh and serve him truly and sincerely; banish the gods whom your ancestors served beyond the River."
[The New Jerusalem Bible, Standard Edition, Saint Paul Society, Bombay, 1993, pp. 314,15--Joshua 24:2,14 ]

بائبل کے ایک اور انگریزی ترجمے میں ، جو ''Good News Bible "کے نام سے بھی شائع ہوتا ہے اور ''Today's English Version'' بھی کہلاتا ہے، یہی مضمون اس طرح بیان کیا گیا ہے:

"This is what the Lord, the God of Israel, has to say: 'Long ago your ancestors lived on the other side of the River Euphrates and worshipped other gods. One of those ancestors was Terah the father of Abraham and Nahor.(....). Now then (...) honour the Lord and serve him sincerely and faithfully. Get rid of the gods which your ancestors used to worship in Mesopotamia."
[Good News Bible, American Bible Society, NY, 1982, p. 231, Joshua 24:2]

’’اردو پروٹسٹنٹ بائبل‘‘ میں اس کا ترجمہ اس طرح درج ہے:

  ’’ تب یشوع نے ان سب لوگوں سے کہا کہ خداوند اسرائیل کاخدا یوں فرماتا ہے کہ تمھارے آبا یعنی ابراہیم اور ناحور کا باپ تارح وغیرہ قدیم زمانہ میں بڑے دریا کے پار رہتے تھے اور دوسرے معبودوں کی پرستش کرتے تھے۔‘‘ [10]

’’کیتھولک بائبل ‘‘ میں اس عبارت کا ترجمہ ان الفاظ میں کیا گیا ہے:

’’ تمھارے باپ دادا تارح ابراہیم کا باپ اور نحور کا باپ قدیم زمانے میں دریا کے پار رہتے تھے۔ اور غیرمعبودوں کی بندگی کرتے تھے۔ (…) تو آج کے دن تم چن لو۔ کہ کس کی بندگی کرو گے آیاان معبودوں کی جن کی تمھارے باپ دادا دریا کے پار بندگی کرتے تھے۔‘‘ [11]

’’تیراہ‘‘ ( تارخ) کے کفر و شرک کا ذکر بائبل کی اکثر لغات اور انسائیکلوپیڈیاز میں موجود ہے۔ ذیل میں چند اہم اقتباسات درج کیے جاتے ہیں :

"He was an idolater. [stress added]"
[The Jewish Encyclopedia, entry 'Terah', KTAV Publishing House, Inc., NY, vol xii, 1901, p. 107]
’’وہ ایک بت پرست تھا۔‘‘ جیوئش انسائیکلو پیڈیا، جلد ۱۲ زیرِعنوان ’’ تیراہ‘‘۔ [12]

جیوئش انسائیکلوپیڈیا جلد اول میں لفظ ’ابراہم‘ کے تحت ’ تیراہ‘ کے کفر وشرک پر زیادہ تفصیل سے گفتگو کی گئی ہے۔ چند اقتباسات کے مطالعے سے بات واضح ہو جائے گی اور اس امر کا امکان باقی نہ رہے گا کہ کوئی پھر بھی اسے مومن و مسلم اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کامُرَبّی اور پُشتِیبان قرار دے:

Incidentally we learn that his father, Terah, was an idolater , like the rest of the Chaldeans (Josh. xxiv, 2); [p.85]. (...). He then tried to persuade his father to renounce idol-worship, but Terah was afraid of the people and told him to keep silent. [p.85]. (...) Abraham asked his father: "Who created heaven and earth?" Terah, pointing to one of his idols, replied: "This great image is our god." "Then let me bring a sacrifice to him!" said Abraham, and he ordered a cake of fine flour to be baked, and offered it to the idol, and when the idol did not eat it, he ordered a still finer meal-offering to be prepared, and offered it to the idol. But the idol did neither eat nor answer when addressed by him, and so Abraham grew angry and, kindling a fire, burned them all. When Terah, on coming home, found his idols burnt, he went to Abraham and said: "Who has burned my gods?" Abraham replied: "The large one quarreled with the little ones and burned them in his anger." "Fool that thou art, how canst thou say that he who cannot see nor hear nor walk should have done this?" Then Abraham said: " How then canst thou forsake the living God and serve gods that neither see nor hear?"
According to Gen. R. xxxviii. and Tanna debe Eliyahu, ii. 25 (probably a portion of Pirke R. El.), Terah was a manufacturer of idols and had them for sale. One day when Terah was absent and Abraham was left to take charge of the shop, an old, yet vigorous, man came in to buy an idol. Abraham handed him the one on top, and he gave him the price asked [by Abraham]. "How old art thou?" Abraham asked. "Seventy years" was the answer. "Thou fool," continued Abraham, "how canst thou adore a god so much younger than thou? Thou wert born seventy years ago and this god was made yesterday. The buyer threw away his idol and received his money back." (...). Abraham was brought before Nimrod, who said: "Knowest thou not that I am god and ruler of the world? Why hast thou destroyed my images?" Then Abraham said: "If thou art god and ruler of the world, why dost thou not cause the sun to rise in the west and set in the east?(...)." (...). Thereupon Nimrod (...) ordered Abraham to be cast into a furnace. He had a pile of wood five yards in circumference set on fire, and Abraham was cast into it. But God Himself went down from heaven to rescue him. [p.86].
[The Jewish Encyclopedia, op.cit., Vol. I, pp.85f.]
’’اس طرح اتفاقاً یہ بات ہمارے علم میں آتی ہے کہ ان کا والد،’’تیراہ‘‘، دوسرے کلدانیوں کی طرح خود بھی ایک بت پرست تھا۔(۔۔۔)۔ تب اس [حضرت ابراہیم علیہ السلام ] نے اپنے باپ کو اس بات کا قائل کرنے کی کوشش کی کہ وہ بت پرستی ترک کر دے، لیکن تیراہ لوگوں سے خوفزدہ تھا، اور اس نے انھیں [حضرت ابراہیم علیہ السلام کو]اپنا منہ بندرکھنے کی ہدایت کی۔ (۔۔۔)۔ [حضرت ] ابراہیم [ علیہ السلام] نے اپنے باپ سے پوچھا : ’’زمین و آسمان کس نے پیدا کیے؟‘‘ تیراہ نے اپنے بتوں میں سے ایک کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جواب دیا: ’’یہ بڑا بت ہمارا خدا ہے۔‘‘ [حضرت] ابراہیم [علیہ السلام ] نے کہا: ’’ تو مجھے اس کے لیے ایک قربانی لانے دو!‘‘ اورا نھوں [حضرت ابراہیمعلیہ السلام ] نے حکم دیا کہ میدے کا ایک کیک تیار کرایا جائے اور اسے بت کے سامنے پیش کر دیا جائے۔ جب بت نے اسے نہ کھایا، تو انھوں نے اس سے بھی زیادہ عمدہ خوردنی نذرانہ تیار کرائے جانے کا حکم دیا، اور اسے بت کو پیش کیا۔ لیکن بت نے نہ تو کھایا، نہ، جب انھوں [حضرت ابراہیم علیہ السلام ] نے اسے مخاطب کیا، تو کوئی جواب ہی دیا۔اس طرح [حضرت] ابراہیم [علیہ السلام ] غصے میں آگئے اور آگ روشن کرکے ان سب کو جلا دیا۔ جب تیراہ نے گھر واپسی پر اپنے بتوں کو جلا ہوا پایا، تو وہ [حضرت] ابراہیم [علیہ السلام ] کے پاس گیا اور کہا: ’’ میرے بت کس نے جلائے ہیں ؟‘‘ [حضرت] ابراہیم [علیہ السلام ] نے جواب دیا:’’بڑ ا بت چھوٹے بتوں سے جھگڑ پڑا اور غصے میں آکر انھیں نذرِ آتش کردیا۔‘‘ ’’احمق کہیں کے!تم یہ کیسے کہہ سکتے ہو کہ جو نہ تو دیکھ سکتا ہے، نہ سن سکتا ہے، اور نہ چل سکتا ہے، اس نے اس طرح کی کوئی حرکت کی ہوگی۔‘‘ اس پر [حضرت] ابراہیم [علیہ السلام ] نے کہا: ’’تو تم کیسے زندہ خدا کو چھوڑ کر ایسے خداؤں کی عبادت کر سکتے ہو، جو نہ دیکھ سکتے ہیں نہ سن سکتے ہیں ؟‘‘
’’پیدایش(۔۔۔) کے مطابق، تیراہ بت تراش کر انھیں فروخت کے لیے پیش کیا کرتا تھا۔ایک دن جب تیراہ موجود نہیں تھا اور [حضرت] ابراہیم [علیہ السلام ] کو دکان کی نگرانی اور اس پر کام کے لیے چھوڑ گیا تھا، ایک بوڑھا لیکن تندرست و توانا آدمی بت خریدنے کے لیے اندر آیا۔ [حضرت] ابراہیم [علیہ السلام ] نے سب سے اوپر والا [بت]اسے تھمایا اور اس نے انھیں مطلوبہ قیمت ادا کر دی۔ [حضرت] ابراہیم [علیہ السلام ] نے دریافت فرمایا:’’آپ کی عمر کیا ہے؟‘‘ جواب تھا ‘‘ستر سال۔‘‘ [حضرت] ابراہیم [علیہ السلام ] نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا:’’ارے احمق! تم ایک ایسا بت کیوں کر پوج سکتے ہو، جو تم سے اتنا چھوٹا ہو؟ تمھیں پیدا ہوئے تو ستر سال ہو چکے ہیں ،اور یہ [بے چارے تمھارے] خدا صاحب کل ہی معرضِ وجود میں لائے گئے ہیں ۔‘‘ خریدار نے اپنا بت زمین پر دے مارا، اور اپنی رقم واپس وصول کر لی۔ (۔۔۔)۔ [حضرت ]ابراہیم [علیہ السلام ]کونمرود کے سامنے پیش کیا گیا۔ اس نے کہا:’’تجھے معلوم نہیں کہ میں [پورے]جہان کا خدا اور حکمران ہوں ؟ تو نے میرے بت کیوں تباہ کیے ہیں ؟‘‘ (۔۔۔)۔ تب [حضرت] ابراہیم [علیہ السلام ]نے کہا: ’’اگر تو [پورے] جہان کا خدا اور حکمران ہے، تو ایسا کیوں نہیں کرتا کہ سورج کو مغرب سے طلوع کرائے اور مشرق میں غروب ؟ (۔۔۔)‘‘۔ (۔۔۔)۔ اس پر نمرود نے [حضرت] ابراہیم [علیہ السلام ]کو آگ کی ایک بھٹی میں پھینکے جانے کا حکم دیا۔ اس نے پانچ گز کے احاطے میں [پھیلے ہوئے] لکڑیوں کے ایک انبار کوآگ لگوائی، اور [حضرت] ابراہیم [علیہ السلام ]کو اس میں پھینک دیا گیا۔ لیکن اﷲ تعالیٰ بذاتِ خود اسے[حضرت ابراہیم علیہ السلام ]کو بچانے کے لیے آسمان سے نیچے اتر آیا۔[13]  ‘‘

اس کے علاوہ بھی متعدد لغات میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے والد ’’تیراہ‘‘کے مشرک اور بت پرست ہونے کا ذکر ہے، اور یہ بات فطری بھی ہے، کیونکہ جب بائبل خود اسے بت پرست کہہ رہی ہے تو اس کی لغات وغیرہ اسے کسی اور حیثیت میں کیسے پیش کر سکتی ہیں ! لیکن جو بات خاص طور پر اہم اور قابلِ توجہ ہے، وہ یہ ہے کہ پورے تاریخی ریکارڈ میں کسی ایک بھی ایسی جگہ کی نشاندہی نہیں کی جا سکتی، جہاں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے والد ’’تیراہ‘‘ کے شرک و بت پرستی سے تائب ہو کر دینِ ابراہیمی قبول کرنے کا کوئی شائبہ بھی پایا جاتا ہو۔ ظاہر ہے اگر ایسی کوئی بات ہوئی ہوتی، تواسے لازماً ریکارڈ میں لایا جاتا، کیونکہ یہ کوئی معمولی واقعہ نہیں تھا۔ اس طرح یہ بات قطعی طور پر ثابت ہو جاتی ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا والد، جس کا نام بائبل میں ’’تیراہ‘‘ آیا ہے، اورقرآنِ کریم نے جسے ’’آزر‘‘ کہا ہے، مشرک تھا۔ اس نے اخیر وقت تک اسلام قبول نہیں کیا۔ اس نے اپنے بیٹے کے دین کی بھرپور مخالفت کی۔ بلکہ با لآخر وہ انھیں قرارواقعی سزا دلوانے کے لیے نمرود بادشاہ کے پاس لے گیا، جس نے انھیں آگ میں ڈالنے کا حکم دیا، اور جس (باپ) سے قطعِ تعلق کا خود اﷲ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حکم دیا۔ اس کے بعد بھی اگر کوئی حضرت ابراہیم علیہ السلام کے والد کو مومن و مسلم قرار دیتا ہے، تو پھراس کے متعلق کیا کہا جا سکتا ہے۔

۷۔ جہاں تک پہلی وجہ کا تعلق ہے کہ اس طرح غیر مسلم اربابِ علم و تحقیق کے اعتراض سے بچا جا سکتا ہے اور قرآن کو غلطی کے الزام سے بچانے کی لیے ضروری ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے باپ’’ آزر‘‘ کو ان کا چچا بنا دیا جائے اور قرآن کے بیان کے خلاف ’’تارح‘‘ (یا’’ تارخ‘‘ ) کو ان کا باپ بنا کر قرآن کی اصلاح کر دی جائے، تو اس کا تجزیہ ضروری ہے۔ لیکن اس تجزیے سے پہلے جملہ معترضہ کے طور پر ایک اہم نکتے کی طرف توجہ دلانا ضروری معلوم ہوتا ہے۔ تحقیق کا یہ معذرت خواہانہ انداز نہایت افسوس ناک بلکہ شرم ناک ہے کہ جہاں قرآن کے بیان اور اسی سلسلے میں بائبل یا کسی اور ماخذ کے بیان میں عدم مطابقت محسوس کی جائے، وہاں دیگر ماخذ کے بیان کو معیاری اورحکمََ قرار دیا جائے اور قرآن کے بیان کا بزعم خویش نام نہاد دفاع کرتے ہوئے اس کو تاویل کی خراد پر چڑھا کر اس کا حلیہ بگاڑ دیا جائے۔ مسلم اربابِ علم و تحقیق کو اب یہ معذرت خواہانہ اندازِ تعبیر ترک کر دینا چاہیے۔ اور ہر صورت ِ حال میں معروضی حقائق کو پیشِ نظررکھاجائے۔

مسلم اربابِ علم و دانش نے اس اعتراض سے عہدہ برآ ہونے کے لیے مختلف توجیہات پیش کی ہیں ۔ مثلاً کچھ لوگ کہتے ہیں کہ’’ آزر‘ ‘ عبرانی زبان کا لفظ ہے اور اس کے معانی صنم پرست یا کج فہم و کم عقل یا بڈھا کھوسٹ کے ہیں ۔ چونکہ’’ تارخ‘‘ میں یہ اوصاف پائے جاتے تھے اس لیے یہ اس کا وصفی نام ہے اور قرآن نے اس کو اسی انداز میں استعمال کیا ہے ( سہیلی، روض الانف)۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ ’’آزر‘‘ ایک بت کا نام ہے اور’’ تارخ‘‘ اس کا مہنت تھا۔ قرآن نے’’ آزر‘‘ کا لفظ ابراہیم علیہ السلام کے والد کے لیے نہیں ، بلکہ اس بت کے لیے استعمال کیا ہے ( مجاہد اور صنعانی)۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ’’آزر ‘‘ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے چچا کا نام تھا اور اس نے انھیں اپنی اولاد کی طرح پالا تھا۔ اس لیے قرآن نے ان کے چچا کو باپ کی حیثیت دے کر اس کے لیے ’’ابیہ آزر‘‘ کے لفظ استعمال کیے ہیں ۔ مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی نے’’ قصص القرآن‘‘ میں یہ تمام آرا پیش کرنے کے بعد ان سب کو رد کر دیا ہے اور ایک نئی تاویل پیش کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں :

’’ اصل بات یہ ہے کہ ’آدار‘ کالدی زبان میں بڑے پجاری کو کہتے ہیں اور عربی میں یہی آزر کہلایا۔ تارخ چونکہ بت تراش اور سب سے بڑا پجاری تھا اس لیے آزر ہی کے نام سے مشہور ہو گیا۔ حالانکہ یہ نام نہ تھا بلکہ لقب تھا۔ اور جبکہ لقب نے نام کی جگہ لے لی تو قرآنِ عزیز نے بھی اسی نام سے پکارا۔ [14] ‘‘

لیکن اس طرح کے دعاوی کسی دلیل اور حوالے کے بغیر قابلِ قبول کیسے ہو سکتے ہیں ۔ مولانا سیوہاروی نے ’آدار‘ کے کالدی لفظ ہونے، اس کے معانی ’ بڑا پجاری‘ ہونے، اور اس کے عربی میں ’آزر‘ بن جانے، اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے والد کا لقب ’ آزر‘ پڑ جانے، اور پھر اسی لقب سے آپ کا نام مشہور ہو جانے کے حق میں کوئی دلیل یا حوالہ پیش نہیں کیا۔Eusebius [15]نے بلاشبہ والدِ ابرہیم علیہ السلام کا نام’ آدار‘ یا ’آذر‘ بیان کیا ہے، لیکن یہ نہیں کہا کہ یہ لفظ ’’ آدار ‘‘ یا ’’ آذر‘‘ اس کا لقب تھا۔

۸۔ حقیقت یہ ہے کہ’’ آزر‘‘ اور’’ تارح‘‘ میں نہ تو صفاتی لقب اور ذاتی عَلَم کی نسبت ہے، نہ باپ اور چچا کی، نہ مہنت اور بت کی۔ درستبات یہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے والد کا اصل نام ’’آزر‘‘ ہی تھا۔’’ تارح ‘‘ یا ’’تیراہ‘‘ اس کی بدلی یا بگڑی ہوئی شکل ہے۔ اور بائبل کے مرتبین نے لفظ ’’ آزر‘‘ کی یہی بدلی ہوئی شکل (تارح یا تیراہ) استعمال کی ہے۔ یہ محض ایک دعویٰ نہیں بلکہ بیانِ امرِواقعہ ہے۔ اس سلسلے میں ابتدائی طور پر تو یہ بات ذہن نشین رہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے والد حضرت مسیح علیہ السلام سے قریباً دو ہزار سال پہلے کی شخصیت ہیں اور یہ اپنی ذات میں کوئی ایسی اہم شخصیت نہ تھے کہ تاریخ میں ان کا بکثرت ذکر ضروری ہوتا۔ علاوہ ازیں ان کا ذکر جس حیثیت سے بھی ہو، اس بات کا امکان بہت کم ہے کہ ہزار یا بارہ سو سال تک کسی اہم تاریخی دستاویز میں ان کا نام ضبطِ تحریر میں لایا گیا ہو۔ موجودہ بائبل کی جن پہلی پانچ کتابوں کو توراۃ کہا جاتا ہے، یہ نہ تو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی ترتیب دی ہوئی ہیں ، نہ ان کے قریباً چار سو سال بعد تک ان کی تدوین یا ان کے وجود کی کوئی شہادت موجود ہے۔ کسی غیر جانب دار صاحبِ تحقیق نے نویں صدی قبل مسیح سے پہلے ان کی تدوین یا ان کے وجود کا دعویٰ نہیں کیا۔ جبکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا دور کسی طرح بھی تیرھویں صدی قبل مسیح سے بعد کا نہیں ہے۔ اس طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام اور توراۃ کو ضبطِ تحریر میں لانے کے درمیان قریباً نصف ہزاریے(Millinnium) کا عرصہ حائل ہے۔ ملاحظہ ہوہیسٹنگز کی لغت بائبل سے ایک عبارت:

"Upon any view of the Book of the Genesis, it was not committed to writing for many centuries after the events described in it occured; we thus possess no guarantee whatever that it contains a literally exact record of the acts and sayings of the patriarchs; for it does not satisfy the primary canon of sound historical criticism, (....). 2. It is remarkable how in Gn, individuals and tribes seem to be placed on the same level, and to be spoken of in the same terms, and how, further, individuals seem frequently to be the impersonation of homonymous tribes. (...) (p.533) (....) The basis of the narratives in the Genisis is in fact popular oral tradition ; and that being so, we may expect them to display the characteristics which popular oral tradition does in other cases. They may well include a substantial historical nucleus: but details may be due to the involuntary action of popular invention or imagination, operating during a long period of time; (...)" ( p. 534).
[James Hastings, A Dictionary of the Bible, vol. ii, Endinburgh, T&T. Clark, N.Y., 1903, pp. 533,34]
’’[توراۃ کی کتاب] پیدایش کو چاہے کسی انداز سے پرکھا جائے، اس میں بیان کردہ واقعات کے وقوع پذیرہونے کے کئی صدیوں بعد تک یہ ضبطِ تحریر میں نہیں لائی گئی تھی۔ اس طرح ہمارے پاس کسی طرح کی کوئی گارنٹی نہیں کہ یہ بزرگ آبا[16]کے اعمال و اقوال کے بعینہٖ لفظی ریکارڈ پر مشتمل ہے۔کیونکہ یہ درست تاریخی تنقید کے بنیادی اصولوں کے معیار پر پوری نہیں اترتی۔…یہ بات قابلِ توجہ ہے کہ کتابِ پیدایش میں افراد اور قبائل کس طرح ایک ہی سطح پررکھے نظر آتے ہیں ؛اور بول چال میں ان کے لیے یکساں الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں ؛ اور مزید یہ کہ کس طرح اکثر اوقات افراد ہم نام قبائل کا روپ دھار ے دکھائی دیتے ہیں ۔ حقیقت میں کتاب ِپیدایش کے بیانات کی بنیادعوام الناس میں رواج پا جانے والی زبانی روایات ہی پر ہے۔ اور جب صورتِ حال یہ ہے تو ان سے ہم یہی توقع رکھ سکتے ہیں کہ وہ انھی خصوصیات کامظاہرہ کریں گی، جن کا مظاہرہ دوسری صورت میں عوامی زبانی روایات کیا کرتی ہیں ۔ یہ تو ممکن ہے کہ ان میں ٹھوس تاریخی روح کافی حد تک موجود ہو؛ لیکن تفصیلات میں عامۃالناس کی اختراعات و خیال آرائی کے غیر ارادی عمل کی کارفرمائی بھی شامل ہو گی، جو وقت کے ایک طویل دورانیے تک کام کرتی رہی۔‘‘[17] 

حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جو کچھ بنی اسرائیل کے حوالے کیا تھا، وہ احکامِ عشرہ اور چند شرعی قوانین سے زیادہ کچھ نہ تھا۔ تشریعی جزئیات اور تاریخی واقعات کا بیان ان سے بہت بعد کی بات ہے۔ پھر یہ امربھی قابلِ توجہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کی بعد کی نسلیں مسلسل مختلف ممالک میں نقلِ مکانی کرتی رہیں ۔ بابل اور میسو پوٹیمیا سے شام، شام سے لبنان، لبنان سے کنعان، کنعان سے مصر و حجاز و یمن، پھر مصر سے صحراے سینا، صحراے سینا سے کنعان اور کنعان سے پھر با بل اور با بل سے پھر کنعان (یہودیہ)، اور پھر بھی مختلف ادوار میں مختلف ممالک میں دربدر پھرتے رہے۔ اس نقلِ مکانی کا اثر ان کی زبان، تلفظ اور ذخیرۂ الفاظ اور لغوی تعامل کی صورت میں تسلیم نہ کرنا حقائق کا صریح انکار ہے۔ بائبل کی مختلف کتب کی صورت میں یہود کی تاریخ کی تدوین و تحریر اور موجودہ پوری بائبل کی یکجا تالیف کا کوئی ٹھوس ثبوت پانچویں چھٹی صدی قبل مسیح سے پہلے موجود نہیں ۔ سوائے اس سے کہ اس کی مختلف دستاویزات الگ الگ ضرور موجود تھیں ۔ اس طویل عرصے میں لفظ ’’ آزر‘‘ پر جو کچھ گزری اور جس طرح یہ لفظ ’’تارخ‘‘ میں تبدیل ہوگیا، اس کا تصور کوئی مشکل کام نہیں ۔ لیکن قدرت نے اسے محض تصوروتخیل کی جادہ پیمائی کے رحم و کرم ہی پر نہیں رہنے دیا، بلکہ اپنے تصرفِ قدرت سے اس کا دستاویزی ثبوت خود علما ے اہلِ کتاب ہی کے ہاتھوں مہیا فرما دیا ہے۔ جیو ئش انسائیکلوپیڈیا میں درج ہے کہ لفظ ’’تیراہ ‘‘ کی اصل و بنیاد اور اس کی لغوی ترکیب کے متعلق جدید مفسرین متفق نہیں ہیں ۔

" Modern exegetes do not agree as to etymology of the name "Terah", some identifying it with the Assyrian " turahu" ( wild goat), with which the name of the Mesoptamian town Til-sha-turakhi might be compared, while others suppose it to be identical with the Syriac "tarha." Recentlly the name "Terah" has been regarded as the mutilation of "yerah" (moon); in this case it would refer to a mythological person."
           [The Jewish Encyclopedia, KTAV Publishing House, Inc.,Vol. 12 ,1901, p. 107]
’’جدید مفسرین لفظ’تیراہ‘ کے مادہ و اشتِقاق کے بارے میں متفق نہیں ہیں ۔ بعض اس کی مماثلت اشوری لفظ ’ تراہو‘ (جنگلی بکرا) کے ساتھ جوڑتے ہیں ، جس کا موازنہ میسوپوٹیمیاکے قصبے ’تل-شا-تراخی‘ کے نام سے کیا جا سکتا ہے۔ جبکہ کچھ دوسرے لوگوں کا خیال ہے کہ یہ سریانی لفظ ’ترہا‘ کا مماثل ہے۔ قریب کے زمانے میں لفظ ’تیراہ‘ کو لفظ ’ییراہ‘ (چاند) کی بگڑی ہوئی شکل سمجھا جانے لگا ہے۔ ایسی صورت میں اسے کسی دیومالائی [خرافاتی] شخصیت سے منسلک سمجھا جائے گا۔[18] ‘‘

تفسیرِ ماجدی میں سورۃ الانعام آیت ۷۴ کے ذیل میں لفظ ’’آزر‘‘ پر ایک مفید علمی شذرہ درج ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ تالمود نے اسے ’زرہ‘ لکھا ہے اور یوسیبی أ س (Eusebius) نے ’ آدر‘۔ اور اس کو مشرک، بلکہ بت گرو بت فروش ثا بت کیا ہے۔

I "525. ' Terah' of the Bible; variously spelt as Zarah and Therach in the Talmud and 'Athar' by Eusebius. The chief officer of King Nimrod and a great favourite with his royal master. ( Polano, op.cit., p.30). (...). That he was an idolator is affirmed also by the Bible. (...). According to Midrash, Terah, in addition to being an idolator himself, made and sold idols. (J.E. xii, p.107). " Even Therech, who still remained chief officer to the king, became a worshipper of idols. In his house he had twelve large images of wood and stone, a separate god for each month in the year, and to these he craved and made obeisance." ( Polano, op.cit., p.34)."
[Maulana Abdul Majid Daryabadi, Holy Qur'an, with English Translation & Commentary, Taj Company Limited, Lahore, 1971, pp. 126-A, 126-B.]
’’بائبل کا لفظ ’تیراہ‘ -- اس کے ہجے تالمود میں مختلف انداز میں ’ زارہ‘ اور ’دیراخ‘ کی صورت میں کیے گئے ہیں ، اور یوسیبیئس نے ’آدر‘ [یا آذر؟] کیے ہیں ۔ وہ شاہ نمرود کا افسرِ اعلیٰ، اور اپنے شاہی آقا کا بہت چہیتا تھا۔ بائبل بھی اس امر کی تصدیق کرتی ہے کہ وہ ایک بت پرست تھا۔ مدراش کے مطابق تیراہ نہ صرف خود بت پرست تھا، بلکہ بت تراشی اور بت فروشی بھی کرتا تھا۔جیسا کہ پولانو لکھتا ہے :’تیراخ بھی، جو ابھی تک بادشاہ کا افسرِ اعلیٰ تھا، بتوں کا پجاری بن گیا۔ اس کے گھر میں لکڑی اور پتھر کے بارہ بڑے بت تھے -- سال کے ہر مہینے کے لیے ایک الگ بت-- وہ ان سے دعائیں کرتااور ان کے آگے سجدہ ریز ہوتا۔‘‘ [19]

 جیمز ہیسٹنگز اپنی شہرہ آفاق ڈکشنری آف دی بائبل میں لکھتا ہے کہ’’ تیراہ‘‘ کے لفظ کے متعلق یقینی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ دیگر توجیہات کے علاوہ اس نے اسے عبرانی لفظ ’’آرہ‘‘ سے بھی مشتق قرار دیا ہے۔ اور لکھا ہے کہ اس کا ابتدائی حرف الف حذف نہیں کیا جانا چاہیے۔ اصل عبارت درج ذیل ہے:

"The question whether Terah is to be taken as a personal name is involved in the same uncertainity as arises in connexion with the name of all the patriarchs. (....) ( the root is ... [Aleph=A+ resh= R+ hay=H: which joined together makes Arah], of which in Hebrew the 'Aleph' would not be readily elided); (...) Jensen (...) thinks it may be the name of a god, comparing the first syllable of N.Syrian or Hittite personal names, (...). " [J.Hastings D.B, vol. iv, op.cit., p.718].
’’یہ سوال -- کہ آیا تیراہ کو ایک شخصی نام [اسمِ عَلَم] سمجھا جائے یا نہ -- بھی اسی غیر یقینی صورتِ حال کا آئینہ دار ہے، جو تمام آ باے بزرگ کے ناموں کے بارے میں پائی جاتی ہے۔ …( مادہ ’الف۔ر۔ہ‘ ہے، جس میں سے عبرانی میں حرف ’الف‘ آسانی سے حذف نہیں ہو سکتا۔)؛جینسن کا خیال ہے کہ یہ،شمالی سریانی یا حِتی کے شخصی ناموں کے پہلے رکن کی طرح ، کسی دیوتا کا نام بھی ہو سکتا ہے۔‘‘ [20]

علامہ اسدنے اپنے انگریزی ترجمۂ قرآن ''The Message of the Quran'' میں سورۂ انعام آیت ۷۴ کے حاشیے میں بہت عمدہ بات کہی ہے:

br "... In the Bible, the name of Abraham's father is given not as Azar but as Terah (...). However, he seems to have been known by other names ( or designations) as well, all of them obscure as to origin and meaning. Thus in various Talmudic storeis he is called Zarah, while Eusebius Pamphili ) the ecclesiastical historian who lived towards the end of the third and the biginnig of the fourth century of the Christian era) gives his name as Athar. Although neither the Talmud nor Eusibius can be regarded as authorities for the purpose of a Quran-commentary, it is not impossible that the designation Azar ) which occurs in the Quran only once)is the pre-Islamic, Arabicized form of Athar or Zarah."
[Muhammad Asad, The Message. of the Quran, Gibralter, Dar Al-Andalus, 1980, p.183]
’’بائبل میں ابراہیم[ علیہ السلام ] کے والد کا نام آزر نہیں بلکہ تیراہ دیا گیا ہے۔ تاہم معلوم یہ ہوتا ہے کہ وہ کچھ اور ناموں (یا عُہدوں ؍منصبی ناموں )سے بھی مشہور تھا۔اور یہ سب نام مادوں اور معانی کے لحاظ سے مبہم تھے۔ چنانچہ مختلف تالمودی کہانیوں میں اسے زارح کے نام سے پکارا گیا ہے، جبکہ یوسیبیئس پیمفیلی (کلیسیائی مؤرخ، جس کا عہدِ حیات تیسری صدی عیسوی کے اواخر اور چوتھی صدی عیسوی کے آغاز کے قریب تھا ) نے اس کا نام’ آدر‘ بیان کیا ہے۔ اگرچہ قرآن کی تفسیر کی غرض سے نہ تو تالمود ہی کو سند قرار دیا جا سکتا ہے، اور نہ یوسیبیئس کو؛ تاہم یہ ناممکن نہیں کہ منصب آزر ( جو قرآن میں صرف ایک مرتبہ ہی آیا ہے) ’آدر ‘ یا ’ زارح‘ کی زمانۂ قبلِ اسلام کی معرب شکل ہے۔‘‘ [21]a

۹۔ ہمارے اربابِ علم وتحقیق کو اس بارے میں جو غلط فہمی ہوئی ہے،اس کی ایک اور وجہ بھی ہے۔ بائبل میں ایک جگہ بیان کیا گیا ہے کہ تارح حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اُر سے حاران لے گیا۔جس سے یہ تأثر لیا جاتا ہے کہ وہ آپ کاہمدرد بلکہ ہم خیال اور محافظ تھا۔ آگے وضاحت کی جا رہی ہے کہ یہ اُر سے حاران کا سفر محض ایک افسانہ ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا تاریخی طور پر اُر سے کوئی تعلق ثابت نہیں ہوتا۔ اس لیے آپ کے وہاں سے حاران جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔حقیقت میں حضرت ابراہیم علیہ السلام حاران ہی کے رہنے والے تھے، جو ناحور کے شہر سے قریب ہی واقع تھا۔اُر اور حاران کے درمیان ایک ہزار کلومیٹر سے بھی زیادہ کا فاصلہ ہے۔ اُر دریاے فرات کے مغربی کنارے پر واقع ہے، جبکہ حارا ن اس دریا کے مشرق میں یعنی اس کے ’’دوسری طرف‘‘ واقع ہے۔اُر سے حاران کے سفر کے افسانے کااضافہ بائبل کی اصل یہوسٹ دستاویز سے کوئی ساڑھے چار سو (بلکہ آٹھ سو) سال بعد (بابل کے دورِ اسیری و جلاوطنی، یا بائبل کے یونانی؍ہفتادی ترجمے کی تکمیل کے بعد)کیا گیا۔ بائبل کی یہ متنازعہ آیات درجِ ذیل ہیں :

"Terah took his son Abram, his grandson Lot son of Haran, and his daughter-in-law the wife of Abram, and made them leave Ur of the Chaldeans to go to the land of Kanaan. But on arrival in Haran they settled there. Terah's life lasted two hundred and five years; then he died at Haran." [The New Jerusalem Bible-Gen. xi:31f, p.30.]
’’اور تارح نے اپنے بیٹے ابرام کو اور اپنے پوتے لوط کو جو حاران کا بیٹا تھا اور اپنی بہو ساری کو جو اس کے بیٹے ابرام کی بیوی تھی ساتھ لیا اور وہ سب کسدیوں کے اُور سے روانہ ہوئے کہ کنعان کے ملک میں جائیں اور وہ حاران تک آئے اور وہیں رہنے لگے۔ اور تارح کی عمر دو سو پانچ برس کی ہوئی اور اس نے حاران میں وفات پائی۔‘‘ [22]

بلا شبہ اس عبارت سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ’’ تارح‘‘ حضرتِ ابراہیم علیہ السلام کا ہمدرد اور پشتیبان تھا اور وہی آپ کو شہرِ اُر سے شہرِ حاران کی طرف لے گیا تھا۔ لیکن بائبل کا یہ بیان صرف کمزورنہیں ، بلکہ موضوع ہے۔ اس کی حقیقتِ حال آیندہ سطور میں درج کی جا رہی ہے۔ قرآن کے ظاہرو باہر اور واضح بیان کونظر انداز کرنا اورتاویل کی خراد پر چڑھا کر اسے بائبل کے اس نہایت کمزوراور بے بنیاد بیان کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرنا، ایک بہت بڑی جسارت ہے۔ لازم تھا کہ اتنے بڑ ے اوردور رس نتائج کے حامل فیصلے تک پہنچنے کے لیے پوری محنت، کامل ژرف نگاہی،معروضی تحقیق، دیانت دارانہ احتیاط، اور خوفِ خدا کے تمام تقاضے پورے کیے جاتے۔یہ عاجلانہ فیصلہ کرتے وقت انھیں ملحوظِ خاطر نہیں رکھا گیا۔کتابِ پیدایش کے باب گیارہ کی ان آخری آیات سے متصل آگے با ب بارہ کی پہلی ہی آیت کا مطالعہ کر لیا جائے، تو اس فیصلے پر نظرِ ثانی کی ضرورت کا احساس ہو جاتا۔ اس آیت میں حضرتِ ابراہیم علیہ السلام کی حاران سے ہجرت کا ذکر ہے اوردرحقیقت حضرتِ ابراہیم علیہ السلام کی اصل ہجرت یہی ہے: جو اﷲ سبحانہ و تعالیٰ کے حکم کے تحت عمل میں آئی ہے، اور جس میں اﷲ تعالیٰ نے آپ کو اپنے باپ اور اپنے اقربا کا گھر چھوڑنے کا حکم دیا ہے، اور جس ہجرت کا حکم اشاعتِ دین کے لیے دیا جا رہا ہے کہ اس کے نتیجے میں آپ دنیا بھر کی قوموں کے لیے موجبِ خیروبرکت بنیں گے، اور جس ہجرت میں آپ کا باپ آپ کا شریکِ سفر نہیں تھا۔اصل عبارت درج ذیل ہے:

"Now the Lord said to Abram, "Go from your country and from your kindred and from your father's house to the land that I will show you. I will make of you a great nation, and I will bless you, and make your name great, so that you will be a blessing. I will bless those who bless you, and the one who curses you I will curse; and in you all the families of the earth shall be blessed. So Abram went, as the Lord had told him; and Lot went with him. Abram was seventy-five years old when he departed from Haran. Abram took his wife Sarai and his brother's son Lot, and all the possessions that they had gathered, and the persons whom they had acquired in Haran; and they set forth to go to the land of Canaan."
[The New Oxford Annotated Bible-Gen. xii:1 to 5, p.16 OT.]
’’اور خداوند نے ابرام سے کہا۔ تو اپنے وطن اور اپنے اقربا کے درمیان سے بلکہ اپنے باپ کے گھر سے روانہ ہو اور اس سر زمین میں چل جو میں تجھے دکھاؤں گا۔میں تجھے ایک بڑی قوم بناؤں گا، تجھے برکت دوں گا، اور تیرا نام سرفراز کروں گا، سو وہ برکت کا باعث ہو گا۔ جو تجھے برکت دیں ، میں ان کو برکت دوں گا۔جو تجھ پر بد دعا کریں ، ان پر میں بد دعا کروں گا۔ جہان کے کل قبیلے تجھ میں برکت پائیں گے۔ سو ابرام خدا کے کہنے کے موافق روانہ ہوا۔ اور لوط اس کے ساتھ چلا۔ اور ابرام جب حاران سے روانہ ہوا۔ پچھتر برس کا تھا۔ اور ابرام اپنی بیوی سارائی اور اپنے بھتیجے لوط اور جو ان کی ملکیت تھی، اور ان آدمیوں کو جو حاران میں انھیں مل گئے تھے، لے کر کنعان کی سر زمین میں جانے کے لیے نکلے۔‘‘ [23]

موجودہ بائبل میں یہ دونوں عبارات ایک دوسری سے بالکل ملی ہوئی ہیں اور ان کے درمیان کوئی فاصلہ نہیں ، لیکن ترتیب و تدوین کے اعتبار سے ان کے درمیان قریباًساڑھے چار سو (یا آٹھ سو )سال کا فاصلہ ہے۔ اول الذکر آیات (باب گیارہ کی آ یات ۳۱ و ۳۲) کا مأخذ پریسٹلی نسخہ (Priestly Document) ہے،جو قریباً ۵۰۰ ق م میں معرض وجود میں آیا تھا۔ جبکہ مؤخر الذکر آیات ( باب بارہ کی آیات ۱ تا ۵) کا ماخذیہوسٹ نسخہ(Yahwist Document) ہے، جو پریسٹلی دستاویز سے قریباً ساڑھے چار سو سال پہلے ۹۵۰ ق م میں مرتب کیا گیا تھا۔ [24]

[Werner H. Schmidt, O.T. Introduction, tr. by Matthew J. O'Connell, St Paul Publication, Bombay,1992, p59; and The New Jerusalem Bible, op.cit., p.31.]

او ل الذکر بیان، جس میں کہا گیا ہے کہ آپ کا باپ ’’تارح ‘‘ آپ کو حاران لے گیا تھا، تاریخی لحاظ سے مشکوک ہے، جیسا کہ’’ نیو جیروسیلم بائبل‘‘ میں آیت ۳۱ کے تحت حاشیہ ایچ میں درج ہے:

"The historicity of this first statement is disputed. (...), though the mention of the Chaldeans would be an explanatory detail added in the neo-babylonian period [which started with the revolt of Nabopolassar in 626 BC., and established its authority with the conquest of Nineveh in 612 BC., and came to an end at the hands of Cyrus of Persia in 539 BC.]."
[The New Jerusalem Bible, op.cit., p.31]
’’اس پہلے بیان کی تاریخی حیثیت نزاعی ہے۔ …اگرچہ کلدانیوں کا ذکر ایک وضاحتی تفصیل ہی ہو سکتی ہے، جس کا اضافہ نیو بیبیلونین دورمیں کیا گیا ہوگا۔[25]نیو بیبیلونین دور۶۲۶ ق م میں نیبو پولسر ( Nabopolassar, 626-605  BC.)کی بغاوت سے شروع ہوا، اس (نیو بیبیلونین دور) کا اقتدار ۶۱۲ ق م میں اسی بادشاہ (نیبو پولسر)کے ہاتھوں نینوا کی فتح کے ذریعے سے محکم ہوا، اور ۵۳۹ ق م میں سائرس ایرانی کے ہاتھوں اپنے انجام کو پہنچا۔‘‘( یہ اور اوپر انگریزی اقتباس میں مربعی بریکٹ والی وضاحت مضمون نگار کی طرف سے ہے۔)]

حقیقت یہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا شہرِ اُر سے کوئی تعلق تاریخی لحاظ سے کسی طرح بھی ثابت نہیں کیا جا سکتا۔ اُر ایک انتہائی مہذ ب شہر تھا۔ اس کے مکانا ت نہایت وسیع اور پر تعیش تھے۔ بقول ورنر کیلر (دی با ئبل اَیزہسٹری کا مصنف) حضرت ابراہیم علیہ السلام کی خانہ بدوش اور بدویانہ زندگی کو پیش نظر رکھیں تو آپ کا اُر سے کوئی تعلق تسلیم نہیں کیا جا سکتا(ص۴۳)۔

شہرِ اُر سُمیریوں کا دارالحکومت تھا، جو میسوپوٹیمیا ( عراق) کی قدیم ترین تہذیبوں میں سے ایک تہذیب کے وارث تھے۔ اور یہ ایک معروف حقیقت ہے کہ سُمیری عبرانیوں (بنی اسرائیل) کی طرح سامی نسل کے نہیں تھے (دی با ئبل اَیزہسٹری،ص۴۴)، جبکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام سامی نسل سے تعلق رکھتے تھے۔ اس طرح بھی شہر اُر آپ کا وطن قرار نہیں دیا جا سکتا۔

ورنر کیلر اپنی انگریزی کتاب ’’بائبل بطورتاریخ‘‘ میں جگہ جگہ اس بات کی تردید کرتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا شہرِ اُر سے کوئی تعلق تھا، یا آپ وہاں سے ہجرت کر کے حاران گئے تھے۔ ذیل میں اس کی کتاب سے کچھ اقتباس درج ہیں :

"woolley's idea did not remain unchallenged. Very soon theologians and even archaeologists registered their dissent .
In favour of woolley's idea were the words of Gen. 11.31 : "And Terah took Abram his son and Lot ... and they went forth ... from Ur of the Chaldees". But there are other references in the Bible which point to somewhere else. When Abraham sends his old servant from Canaan to the city of Nahor, to fetch a wife for his son Isaac, he calls this place his "country" (Gen.24.4), his "father's house" and "the land of my kindred" (Gen.24.). Nahor lay in the north of Mesopotamia. After the conquest of the Promised Land Joshua addressed the people in these words: "Your fathers dwelt on the other side of the flood in old time, even Terah the father of Abraham and the father of Nahor" (Josh. 24.2). In this case the "flood" means, as in other places in the Bible, the Euphrates. The city of Ur was excavated on the right bank of the Euphrates: looked at from Canaan it lay on this side, not on the other side of the "flood". Had Woolley been too hasty in his conclusions? What reliable evidence had the expedition produced? What proof was there that Terah and his son Abraham lived actually in the city of Ur?"
"The earlier journey from Ur of the Chaldees to Haran has, apart from the discovery of the city itself, no archaeological foundation," declares Professor W. F. Albright of John Hopkins University. This scholar, who has himself conducted successful excavations and is the foremost authority on the archaeology of Palestine and the Middle East, goes further. "The remarkable fact that the Greek translations [of the Bible] no where mention Ur but read instead the more natural 'Land [of the Chaldees]' might mean that the removal of Abraham's native place to Ur is possibly secondary . "
"Ur emerged from the shadowy past as the capital city of the Sumerians, one of the oldest civilisations in Mesopotamia. As we know, the Sumerians were not Semites like the Hebrews. (...). Painstaking research, particularly excavations in the last two decades, make it almost certain that Abraham cannot ever have been a citizen of the Sumerian Metropolis. It would conflict with all the descriptions which the Old Testament gives of the kind of life lived by the patriarch."
[Werner Keller, The Bible as History, Tr. from German by William Neil, London, Hodder and Stoughton, 1974, pp.43f.]
وولی کا نظریہ مسلمہ اور بے چیلنج نہ رہا۔ بہت جلد دینیات اور آثارِ قدیمہ کے ماہرین نے اس سے اپنا اختلاف ظاہر کر دیا۔
بائبل کی کتاب پیدایش ۱۱:۳۱کے الفاظ’’اور تیراہ نے اپنے بیٹے ابرام اور لوط کو لیا…اور وہ آگے گئے…کلدانیوں کے اُر سے‘‘ تو وولی کے نظریے کے حق میں تھے۔ لیکن بائبل میں [چندایسے] دوسرے حوالے ہیں ، جو کسی اور جگہ کی نشان دہی کررہے ہیں ۔ جب حضرت ابراہیم[علیہ السلام ]اپنے پرانے خادم [جو غالباً الیعزر ہی ہو سکتا ہے] کو اپنے بیٹے اسحاق کے لیے ایک بیوی لانے کے لیے کنعان سے ناحور کے شہر کی طرف روانہ کرتے ہیں ، تو وہ ناحور کے اس مقام کو اپنا ’’وطن‘‘
(پیدایش ۲۴:۴)، اپنے ’’باپ کا گھر‘‘ اور ’’میرے اقربا کی سر زمین‘‘ (پیدایش ۲۴:۷) کہتے ہیں ۔شہرِ ناحور میسوپوٹیمیاکے شمال میں واقع ہے۔ وعدے کی سرزمین [کنعان]کی تسخیر کے بعد حضرت یوشع [علیہ السلام]نے قوم[بنی اسرائیل] سے ان الفاظ میں خطاب کیا:’’پرانے زمانے میں تمھارے آ با ؤ اجداد سیلاب کی دوسری طرف رہتے تھے۔حتیٰ کہ حضرت ابراہیم [علیہ السلام]کا باپ اور ناحور کا باپ تیراہ[تارح] بھی‘‘ (کتابِ یوشع۲۴:۲)۔ بائبل کے دوسرے مقامات کی طرح موجودہ صورتِ حال میں بھی ’’سیلاب‘‘ کے معنی دریاے فرات کے ہیں ۔ اُر کا شہر دریاے فرات کے دائیں کنارے پر کھدائی کے نتیجے میں دریافت ہوا تھا۔ کنعان سے اس پر نگاہ دوڑائیں ، تو یہ ‘‘سیلاب‘‘ سے اِس طرف واقع ہے، نہ کہ دوسری طرف۔کیا وولی نے اپنے مزعومہ نتائج تک پہنچنے میں بہت زیادہ عجلت سے کام تو نہیں لیا؟ کھدائی کی مہم کے نتیجے میں ایسی کونسی قابلِ اعتماد شہادت سامنے آئی ہے؟ اس بات کا کیا ثبوت سامنے آیا ہے کہ تیراہ اور اس کے فرزند حضرت ابراہیم [علیہ السلام] واقعی اُر کے شہر میں اقامت پذیر رہے تھے؟
جَون ہَوپکِنز یونیورسٹی کے پروفیسر ڈبلیو ایف البرائِٹ فلسطین اور مشرقِ وسطیٰ کے آثارِ قدیمہ پر اولین اتھارٹی کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ انھوں نے بذاتِ خود بھی کھدائی کی متعدد مہموں کی نگرانی کی ہے۔ وہ زور دے کر بیان کرتے ہیں کہ:’’کلدانیوں کے اُر سے حاران کی طرف پہلے والے سفرکی آثارِ قدیمہ کے نقطۂ نظر سے کوئی بنیا د و حیثیت نہیں ، سوائے اس بات کے کہ کھدائی کے نتیجے میں اُ ر نامی ایک شہر ضرور دریافت ہواہے۔ اس نمایاں حقیقت کا، کہ [بائبل کے] یونانی تراجم میں اُر کا کہیں کوئی ذکر نہیں ، بلکہ ان میں زیادہ فطری [لفظ مترجم] ‘[کلدانیوں کا] ملک‘ درج ہے، یہی مطلب ہو سکتا ہے کہ حضرت ابراہیم [علیہ السلام]کی آبائی سرزمین کو اٹھا کر اُر میں لے جاناممکنہ حد تک ایک ثانوی [بعد کی] خیال آفرینی ہے۔ (۔۔۔)۔
اُر ماضی کے دھندلکوں میں سے میسوپوٹیمیا کی قدیم ترین تہذیبوں میں سے ایک، یعنی سُمَیری تہذیب، کے دارالحکومت کے طور پر ابھراہے۔جیسا کہ ہمیں علم ہے، سُمَیری عبرانیوں [بنی اسرائیل] کی طرح سامی النسل نہ تھے۔(۔۔۔)۔انتہائی دِقّت طلب ریسرچ، بالخصوص پچھلے دو عشروں کے دوران میں کی گئی آثارِ قدیمہ کی کھدائیوں ، کے نتیجے میں یہ بات قریباً یقینی طور پر ثابت ہو چکی ہے کہ حضرت ابراہیم [علیہ السلام] کا کسی بھی دور میں سُمَیری دارالحکومت [شہرِ اُر] کے شہری ہونے کا امکان نہیں ۔ یہ امر ان تمام بیانات کے منافی ہے، جو عہدنامہ قدیم اس طرزِ حیات کے متعلق دیتا ہے، جس کے مطابق یہ بزرگ [حضرت ابراہیم علیہ السلام] زندگی بسر کرتے تھے۔[26]

اس کے برعکس دوسری ہجرت حضرت ابراہیم علیہ السلام کے شایانِ شان بھی ہے اور تاریخی لحاظ سے زیادہ محکم انداز میں ثابت بھی ہے۔ ’’ دی نیو جیروسیلم بائبل ‘‘ کا مصنف ان آیات پر حاشیہ ’ایچ‘ میں رقم طراز ہے:

"As a result of God's call and promise of posterity Abraham cuts off all earthly ties and with his childless wife, 11:30, sets out for an unknown land. It is Abraham's first act of faith:
[The New Jerusalem Bible, op.cit., p. 31.]
’’اﷲ تعالیٰ کے حکم اورحضرت ابراہیم[ علیہ السلام]کی نسل کے لیے اس کے وعدے کے نتیجے میں آپ تمام زمینی رشتوں سے قطع تعلق کر لیتے ہیں اور اپنی لا ولد بیوی کے ساتھ ایک نامعلوم سرزمین کی طرف روانہ ہو جاتے ہیں ۔ یہ حضرت ابراہیم[علیہ السلام]کا ایمان پر مبنی پہلا عمل ہے۔ [27] ‘‘

شہرِ اُر سے ہجرت والے مذکورہ بالا مبحث کے سلسلے میں مندرجہ ذیل نکات بطورتتمہ و خلاصہ دیے جاتے ہیں:

ا۔ شہرِ اُر بصرہ اور با بل کے درمیان دریاے فرات کے مغربی کنارے پر ایک برطانوی ماہرِ آثارِ قدیمہ سر چارلز لیونارڈ وولی کی ٹیم نے قریباً ۹۳۰ ۱ ع میں دریافت کیا۔
ب۔ تاریخی لحاظ سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کا اس شہر سے کوئی تعلق نہ توممکن ہے، نہ ثابت کیا جا سکتا ہے۔
ج۔ اس طرح یہ با ت ہرگز ممکن نہیں کہ تارح آپ کو اُر سے حاران لے گیا ہو۔ اس سفر سے بھی تارح کو مومن سمجھنے والے یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ ہر حال میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ساتھ دیتا تھا، وہ آپ کا حامی و ناصر تھا، اور اسے آپ کی حفاظت کا بہت خیال تھا۔لیکن جب یہ بات حقا ئق و دلائل سے پایۂ ثبوت تک پہنچ گئی کہ اُر سے حاران کا یہ نام نہاد سفر ایک افسانے سے زیادہ کی حیثیت نہیں رکھتا، تو پھر تو ’’وہ شاخ ہی نہ رہی جس پہ آشیانہ تھا!‘‘
د۔ یہ اُر والا قصہ بائبل کے پریسٹلی نسخے سے تعلق رکھتا ہے، جو یہوسٹ نسخہ کے ساتھ قریباً ساڑھے چار سو سال بعد ملحق کیا گیا۔ قد‹یمی (یہوسٹ ) نسخے میں صرف وہی بیان شامل ہے جس کے مطابق حضرت ابراہیم علیہ السلام اﷲ تعالیٰ کے حکم سے صرف اپنی بیوی سارہ اور اپنے بھتیجے لوط کے ساتھ حاران سے ہجرت کرتے ہیں۔
ہ۔ اس ہجرت میں تارح آپ کے ساتھ نہیں ۔ بلکہ اﷲ تعالیٰ نے آپ کو اس سے اور اس کے گھر سے تاکیدی طور پرقطع تعلق کا حکم دیا ہے، جو ایک طرح سے اعلانِ برأت کی حیثیت رکھتا ہے۔
و۔ اگرحضرت ابراہیم علیہ السلام کے حا ران، دمشق، سکم، کنعان، وغیرہ کے ہجرتی اور دعوتی اسفار کے نقشے پر نظر ڈالی جائے، تو اس میں اُر سے آپ کا تعلق اور اس سے آپ کا سفر ایک بے جوڑ اور غیر فطری تکلف نظر آتا ہے۔
ز۔ مفسرینِ بائبل حضرت ابراہیم علیہ السلام کے حکمِ الٰہی کے تحت اپنے وطن، نسل، قبیلے اور خاندان کو خیرباد کہہ کر اﷲ کی راہ میں یوں نکل کھڑے ہونے کو آپ کے تقویٰ، اخلاص اور لِلّٰہِیَّت کی دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں ، جیسا کہ’’دی نیو جیروسیلم بائبل‘‘ کے مصنف نے ان آیات پر حاشیے کے تحت لکھا ہے۔ ‘‘

مندرجہ بالا حقائق و دلائل کے بعد اس بات کی کوئی علمی بنیاد باقی نہیں رہتی کہ قرآنِ کریم کے اس صریح بیان کا،کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے والد کا نام’’ آزر‘‘ تھا، اور وہ آپ پر ایمان نہیں لایا تھا، انکار کرکے، اس معاملے میں بائبل کے ژولیدہ اور متضاد و متناقض بیانات کی پیروی کی جائے۔

۱۰۔ بعض دوسری زبانوں کی طرح عربی زبان کا بھی یہ دستور ہے کہ وہ غیر زبان کے الفاظ کو اپنی زبان میں قبول کرنے سے پہلے انھیں اپنی زبان کی ساخت اور اس کے مزاج کے مطابق ڈھال لیتی ہے۔جیسے ٹیلی وژن کو تلفزیون میں ڈھال لیا اور پیرس کو باریس میں وغیرہما۔ عبرانی اگرچہ عربی کی ماں جائی بہن بولی ہے، لیکن اس کے الفاظ قبول کرتے وقت بھی عربی نے اپنی اس روایت کو خیرباد نہیں کہا، اور انھیں اپنے رنگ میں ڈھالنے کے بعد ہی اپنی زبان میں شامل کیا: مثلاً’’ ابرہام‘‘ کو’’ابراہیم‘‘ بنا لیا اور ’’یسوع‘‘ کو ’’عیسیٰ‘‘ میں بدل دیا۔ اسی طرح ’’آدر‘‘ یا ’’آدار‘‘ کو ’’آزر‘‘ بنا دینا اس کے مزاج اور سہولت کے لحاظ سے بھی مناسب ہے اور غالباً خود اصل لفظ کی اصلاح بھی ہے۔اس موضوع پر تفصیلی گفتگو اوپر آرٹیکل ۷ اور ۸ میں کی جا چکی ہے۔

آخر میں مولانا امین احسن اصلاحی رحمہ اﷲکی تفسیر سے ایک اقتباس درج کیا جا تا ہے۔ مولانا نے کسی لمبی چوڑی بحث میں جائے بغیر اس مکمل مبحث کا خلاصہ بیان کردیا ہے۔مولانا کی رائے انتہائی صائب ہے اور انھوں نے اس مسئلے کو نہایت خوب صورتی سے حل کر دیا ہے:

’’آزر، حضرت ابراہیم ؑ کے والد کا نام ہے۔ تورات کے عربی اور انگریزی ترجموں اور تالمود، سب میں اس کا تلفظ ایک دوسرے سے مختلف ہے۔ قرآن نے یہاں جس تصریح کے ساتھ اس نام کا ذکر کیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے بارے میں یہود کے ہاں روایات کا جو اختلاف ہے وہ اس کو رفع کرنا چاہتا ہے اور قرآن چونکہ قدیم صحیفوں کے لیے کسوٹی (مہیمن) کی حیثیت رکھتا ہے اور براہِ راست وحیِ الٰہی پر مبنی ہے اس وجہ سے ماننا چاہیے کہ یہی نام صحیح ہے۔
یہود کے مذہبی لٹریچر کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ ’آزر‘ صرف بت پرست ہی نہیں بلکہ بت گر اور بت فروش بھی تھے، بلکہ عجب نہیں کہ بت خانے کے پروہت بھی رہے ہوں ۔ ایسے حالات میں آزر کے گھر میں ابراہیم ؑکا پیدا ہونا اور باپ کے سارے کاروبار بت پرستی و بت فروشی پر بیٹے ہی کے ہاتھوں یہ ضرب کاری لگنا قدرتِ الٰہی کا ایک کرشمہ ہے۔ حضرات انبیاء کی صداقت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ بھی ہے کہ انھوں نے جس حق کی دعوت دنیا کو دی ہے اس کی اذان سب سے پہلے ان کے کانوں میں دی ہے جو ان کے سب سے زیادہ قریب بھی تھے اور ان کو سب سے زیادہ عزیز بھی۔‘‘ [28]

موجودہ مضمون سے قطع نظر، اربابِ علم کی توجہ کے لیے ایک بات عمومی لحاظ سے عرض کی جا رہی ہے۔ مغربی علوم و تحقیقات سے مرعوب جو مسلم علما،قرآن کے بعض بیانات کے بارے میں معاذاﷲ ابہام و خلجان کا شکار ہو جاتے ہیں ، لیکن پھر محض قومی غیرت کے جوش میں آکر ان کی معذرت خواہانہ مدافعت کی کوشش بھی کرتے ہیں ، اسلام ان کی کسی مدافعت کا محتاج نہیں ۔ بلکہ اسلام تو ان کے متعلق زبانِ حال سے فریاد کر رہا ہے : ’’مجھے میرے دوستوں سے بچاؤ۔‘‘ علامہ اقبال رحمہ اللہ نے غالباً انھی لوگوں کے لیے کہا تھا

  گلہ ٔجفائے وفا نما، کہ حرم کو اہلِ حرم سے ہے ! 

 کسی بت کدے میں کروں بیاں ، تو صنم پکارے ’ہری ہری!‘

ذیل میں اس پورے مبحث کے اہم نکات مختصراً بطورِ اعادہ پیش کیے جاتے ہیں :

(الف)    یہ بات خود بائبل ہی کے ایک خادم، ہیسٹنگز، کی وقیع اور شہرہ آفاق ڈکشنری آف دی بائبل کے حوالے سے اوپر بیان کی جا چکی ہے کہ بائبل کے بیانات کے بہ حفاظت اور مکمل حالت میں منتقل ہونے کے امکانات بہت کم ہیں ۔

(ب)     یہ بھی بتایا گیا کہ اہلِ بائبل صدیوں تک ملک ملک کی خاک چھانتے پھرے، جس کے نتیجے میں ان کے ہاں الفاظ و اسما کے تلفظ میں تبدیلیاں رونما ہونا ایک یقینی امر ہے۔

(ج)       یہ بھی درج کیا گیا کہ ایک زبان سے دوسری زبان میں جاتے وقت ایک لفظ میں نئی زبان کے مزاج اور جغرافیائی حالات کی مناسبت سے کچھ نہ کچھ تبدیلیاں رونما ہونا ایک فطری اور لازمی بات ہے۔  

 (د)         یہ بھی واضح کیا گیا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے والد کے نام کے بارے میں خود اہلِ بائبل کے اربابِ علم و فضل میں اختلاف موجود ہے، اور وہ اس بات پر متفق، مطمئن، اور یک سُو نہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے والد کا نام ’’تیراہ‘‘ (یا اس کے لیے مسلمانوں کے ہاں رائج لفظ ’’تارخ‘‘) ہی تھا۔

 (ہ)        یہ بھی واضح کیا گیا کہ’’ تارح ‘‘ کا حضرت ابراہیم علیہ ا لسلام کی حمایت یا مدافعت کرنا اور آپ کو اُر سے حاران لے جانا محض ایک افسانہ ہے۔ بلکہ بائبل کی رو سے تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ’’تارح ‘‘ اور اس کے گھر سے قطعی لا تعلقی کا اعلان کرکے اس سے الگ ہونے اور اپنے آبائی وطن حاران سے ہجرت کر جانے کا صریح حکم موجود ہے۔

 (و)        پھر یہ بھی بیان کیا گیا کہ نزولِ قرآن سے قریباً تین صدیاں پہلے عیسائیت کا مشہور مورخ، یوسیبیئس، حضرت ابراہیم علیہ ا لسلام کے والد کا نام ’آدر‘ بیان کر چکا ہے۔

(ز)        یہ بھی بتایا گیا کہ قرآنِ کریم میں کسی شخص کو دانستہ اس کے اصل باپ کے بجائے کسی اور کی ولدیت سے منسوب کرکے پکارنے کو ایک ناقا بلِ معافی جرم قرار دیا گیاہے۔ پھر قرآنِ کریم خود یہ کیسے کر سکتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ ا لسلام کے والد کا اصل نام تو ’’تارح‘‘ ہو، لیکن وہ اسے جانتے بوجھتے ’’آزر‘‘ بنا ڈالے۔

(ح)       مفصل اور صریح شواہد سے یہ بھی ثابت کیا گیا کہ اگر مابہ فرضِ محال، بائبل کے بیان کے مطابق یہ درست تسلیم کر لیا جائے کہ حضرت ابراہیم علیہ ا لسلام کے والد کا نام’’تارح‘‘ تھا، تب بھی ہمارے کرم فرماؤں کا مقصد پورا نہیں ہوتا۔ کیونکہ خود بائبل اور اہلِ بائبل کے مطابق یہ ’’تارح‘‘ مشرک و بت پرست تھا۔

(ط)       یہ بھی واضح کیا گیا کہ تاریخی لحاظ سے حضرت ابراہیم علیہ ا لسلام کا اُر شہر سے کوئی تعلق ثابت نہیں کیا جا سکتا۔ یہ بھی محض ایک افسانہ ہی ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ ا لسلام کو ان کے والد ’’تارح‘‘ اپنے ساتھ شہر اُر سے حاران لے گیا تھا۔ اس کے برعکس خود اﷲ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ ا لسلام کو اپنے اصل وطن حاران اور اپنے باپ اور اقربا سے قطع تعلق اورہجرت کا حکم دیا۔ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ ’’تارح‘‘ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا حامی اور آپ کے دین کا پیروکار نہ تھا بلکہ دشمنِ حق تھا۔

(ی)       یہ بھی درج کیا گیا کہ اسرائیلی روایات میں ’’تارح‘‘ کی حضرت ابراہیم علیہ ا لسلام اور آپ کے دین سے عداوت کے واقعات تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں ، جن سے ثابت ہوتا ہے کہ اس نے اسلام قبول نہیں کیا تھا۔

(ک)     یہ بھی ایک ناقا بلِ تردید حقیقت ہے کہ کسی موقع پر یا زندگی کے کسی بھی مو ڑ پر ’’تارح‘‘ کے اسلام قبول کرنے کا نہ تو کوئی ذکر ہے اور نہ کوئی ثبوت۔

اس کے بعد بھی قرآن کے بیان کو معاذاﷲ مبہم، مشکوک، یا ناقا بلِ اعتماد جاننا، اور اس میں تبدیل وتاویل کر کے اسے بائبل کے ناقابلِ استناد بیانات کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرنا، علمی تحقیق قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ایک مسلمان کے لیے یہ ہرگز قابلِ قبول نہیں ۔

____________

[1]۔ الانعام۶ : ۷۴۔

[2]۔ بخاری و مسلم عن ابن عمر رضی اللہ عنہ۔

[3]۔ البقرہ۲ : ۱۳۳۔

[4]۔ الاحزاب ۳۳ :۵۔

[5]۔ البقرہ۲ :۱۳۳۔  

[6]۔ الااحزاب ۳۳ :۵۔

[7]۔  البقرہ۲: ۱۳۴، ۱۴۱۔

[8]۔ الانعام ۶: ۱۶۴؛ الاسراء ۱۷: ۱۵۔

[9]۔ عبدالحق حقانی دہلوی، تفسیرفتح المنان المشہور بہ تفسیر حقانی، جلد دوم، مکتبہ الحسن لاہور، سن ندارد، ص ۱۶۷۔

[10]۔ کتاب مقدس، پاکستان بائبل سوسائٹی، انارکلی، لاہور، ۱۹۵۸ئ، ص ۲۲۷، یشوع باب ۲۴، ورس ۲۔

[11]۔ کلام مقدس، سوسائٹی آف سینٹ پال، ۱۹۵۸ء،ص۲۸۲۔۸۳؛ یشوع باب ۲۴، ورس ۲و۱۵۔

[12]۔ جیوئش انسائیکلو پیڈیا، جلد ۱۲ زیرِعنوان ’’ تیراہ‘‘۔

[13]۔ جیوئش انسائیکلو پیڈیا، ج ۱، ص ۸۵۔ 

[14]۔ حفظ الرحمٰن سیوہاروی، قصص القرآن، مشتاق بک کارنر، اردو بازار،لاہور، سن ندارد، حصہ اول، ص ۱۵۳۔

[15]۔ ’’یوسیبیئس قریباً ۲۶۰ء میں پیدا ہؤا اور قریباً۳۴۰ء میں فوت ہؤا۔ قریباً ۳۱۵ء میں قیصریہ کا بشپ بنا۔اس نے ۳۲۵ء میں کونسل آف نیقیا اور ۳۳۵ء میں کونسل آف طائر میں شرکت کی۔ Ecclesiastical History یا ’تاریخِ کلیسیا‘، دس جلدوں میں ، اس کی مشہور کتاب ہے، جو قریباً چوتھی صدی عیسوی کے ربع اول تک کی عیسائیت کی ایک مسلمہ تاریخ ہے۔‘‘ ایف ایل کراس، دی آکسفورڈ ڈکشنری آف کرسچین چرچ، آکسفورڈ یونیورسٹی پریس، ۱۹۷۴ء، ص۴۸۱: ملخصاً۔

[16]۔ بائبل میں بزرگ آبا کی اصطلاح عموماً حضرت ابراہیم، اسماعیل، اسحٰق، یعقوب، یوسف ( علیہم السلام) اور ان کے بعد والے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے پہلے کے بزرگوں کے لیے استعمال ہوتی ہے ؛ جبکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد سے حضرت طالوت سے پہلے تک کے قائدینِ بنی اسرائیل کو قضاۃ (Judges) کہا جاتا ہے۔ حضرت طالوت،حضرت داودعلیہ السلام اور حضرت سلیمٰن علیہ السلام دورِ ملوک سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کے بعد Divided Kingdom۔

[17]۔ جیمز ہسٹنگز، اے ڈکشنری آف دی بائیبل، ج ۲، ص ۵۳۳، ۳۴۔

[18]۔ جیویش انسائیکلوپیڈیا، ج ۱۲، ص ۱۰۷۔

[19]۔ مولانا عبد الماجد دریابادی، ص۱۲۶۔

[20]۔ جیمز ہسٹینگز‌، اے ڈکشنری آف دی بائبل، ج ۴، ص ۷۱۸۔

[21]۔ علامہ محمد اسد (ایک فاضل جرمن نو مسلم سکالر، سابقاً: ’’لیوپولڈ وائس‘‘)، دارالاندلس، ص ۱۸۳۔

[22]۔ بائبل، پاکستان بائبل سوسائٹی، لاہور، ۱۹۵۸، کتاب پیدایش ۱۱ :۳۱۔ ۳۲۔

[23]۔ کلامِ مقدس،سوسائٹی آف سینٹ پال، روما، ۱۹۵۸، کتابِ پیدایش باب بارہ آیت ۱ تا ۶، ص۱۳۔

[24]۔ ورنر ایچ شمت، ’’تعارف عہد نامہ قدیم‘‘ اور ’’دی نیو جیروسیلم بائبل‘‘، ص ۵۹، کتاب پیدایش، ص ۱۳۔

[25]۔ کتابِ پیدایش، ص ۳۱۔

[26]۔ ورنر کیلر، ص۴۳۔

[27]۔ کتابِ پیدایش، ص ۳۱۔

[28]۔ تدبّرِقرآن، جلد سوم، فاران فاؤنڈیشن، لاہور،۱۹۸۸ء،ص۸۸۔

B