HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : محمد رفیع مفتی

تصویر (۲)

قرآنِ مجید کی رہنمائی

تصویر کی حلت و حرمت کے بارے میں قرآنِ مجید نے براہِ راست تو کوئی کلام نہیں کیا، البتہ اس معاملے میں اُس نے بالواسطہ ہمیں بنیادی اور اصولی رہنمائی دے دی ہے۔

قرآنِ مجید سے یہ رہنمائی ہمیں اِن الفاظ میں ملتی ہے۔

سورۂ سبا میں ارشاد فرمایاہے:

يَعْمَلُوْنَ لَهٗ مَا يَشَآءُ مِنْ مَّحَارِيْبَ وَتَمَاثِيْلَ وَجِفَانٍ كَالْجَوَابِ وَقُدُوْرٍ رّٰسِيٰتٍﵧ اِعْمَلُوْ٘ا اٰلَ دَاوٗدَ شُكْرًاﵧ وَقَلِيْلٌ مِّنْ عِبَادِيَ الشَّكُوْرُ. (۳۴: ۱۳)
 ’’وہ (جنات )اس(سلیمان علیہ السلام) کے لیے بناتے جو وہ چاہتا، اونچی عمارتیں ، تماثیل (مجسمے وتصاویر)، بڑے بڑے حوضوں جیسے لگن اور اپنی جگہ سے نہ ہٹنے والی بھاری دیگیں ، ــــــ اے آلِ داؤد عمل کرو شکر گزاری کے ساتھ، میرے بندوں میں کم ہی لوگ شکر گزار ہیں ۔ ‘‘

اس آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے (ہیکل ِسلیمانی میں اور اپنے محل میں ) جنات سے اونچی اونچی عمارتیں اور تماثیل بنوائی تھیں ۔ اِس آیت میں سلیمان علیہ السلام کاجنات سے تماثیل بنوانے کا جو ذکر ہے، یہ ہماری بحث سے متعلق ہے ، لہٰذا ہم اسی تک محدود رہتے ہوئے، اِس آیت کا مدعا سمجھنے اور اس سے رہنمائی حاصل کرنے کی کوشش کریں گے۔

تماثیل کا مفہوم

تماثیل ،تمثال کی جمع ہے۔ لسان العرب میں تمثال کا مفہوم اِن الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔ ’التمثال اسمٌ للشیءِ المصنوعِ مُشبھاً بخلق من خلق اللہ‘ ۔ یعنی تمثال ہر اس مصنوعی شے کا نام ہے ، جو خدا کی بنائی ہوئی کسی شے ( جان دار یا بے جان ) کی مانند بنائی گئی ہو۔ صاحب ِکشاف زمخشری رحمہ اللہ تمثال کا مفہوم ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں ،’التمثال کل ماصوّرعلی صورۃ غیره من حیوان اوغیرحیوانٍ‘۔ یعنی تمثال ہر وہ مجسمہ یا تصویر ہے ، جو کسی دوسری چیز کی صورت کے مماثل بنائی گئی ہو، خواہ وہ چیز جان دار ہو یا بے جان۔پس انسان ہو یا حیوان ، دریا ہو یا آسمان، اِن کے مجسمے اوراِن کی تصاویر، تماثیل کہلائیں گی۔اسی طرح اگر جنات یا فرشتوں کی (خیالی ) تصاویر یا اُن کے خیالی مجسمے بنائے جاتے ہیں ، تو وہ بھی تماثیل ہی کہلائیں گے۔آیت میں تماثیل کا لفظ نکرہ ہے ۔ لہٰذا، ظاہر ہے کہآیت میں تماثیل کے اِس لفظ سے کوئی خاص تما ثیل مراد نہیں ہیں ۔ یہ لفظ یہاں اپنے عام معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ چنانچہ اس سے مراد ( جان دار یا بے جان )عام تصاویر اور عام مجسمے ہیں نہ کہ کوئی خاص نوعیت کی تصاویر اور خاص نوعیت کے مجسمے۔

تمثال کے لفظ کی اس وضاحت کے بعد ہم یہ دیکھتے ہیں کہ قرآن ِمجید کی اس آیت سے ہمیں تماثیل یعنی تصاویر اور مجسموں کے بارے میں کیا کچھ معلوم ہوتا ہے ۔

اِس آیت سے تماثیل کے بارے میں درج ِ ذیل باتیں معلوم ہوتی ہیں ۔

۱۔ سلیمان علیہ السلام جنات سے تماثیل (تصاویر اور مجسمے) بنواتے تھے ۔

۲۔ یہ تصاویر اور مجسمے جان داروں کے بھی ہو سکتے تھے اور غیر جان داروں کے بھی[2]۔ اِس حوالے سے انھیں بنانے یا نہ بنانے میں کوئی فرق نہیں تھا۔ قرآن میں اِس بات کی دلیل تماثیل کا وہ لفظ ہے، جو اُس نے استعمال کیا ہے ۔یہ لفظ جان داروں اور غیر جان داروں دونوں کی تصاویر اور مجسموں کے لیے بولا جاتا ہے ۔ چنانچہ اگر ایک کی تصویر جائز اور دوسرے کی ناجائز ہوتی، یعنی معاملہ اتنا سنگین ہوتا، تو یہ ضروری تھا قرآن اِس طرح کا جامع لفظ نہ بولتا۔

۳۔ سلیمان علیہ السلام کو جنات سے تماثیل بنوانے اور اس کے علاوہ دوسرے کام کرانے کا جو اختیار حاصل تھا، اُس پر اللہ نے اُنھیں یہ تعلیم دی ہے کہ وہ اُس کا شکر ادا کرنے والے بنیں کہ اُس نے اُنھیں کتنی بڑی نعمت عطا فرمائی ہے۔

تماثیل کے بارے میں زیر بحث آیت سے رہنمائی

پہلی بات تویہ ہے کہ تصاویر و تماثیل کے حوالے سے ہمارے ہاں جو فرق کیا گیا ہے کہ جان دار کی تصویر یا تمثال وغیرہ کو بنانا اور رکھنا حرام ہے اور بے جان کی تصویر و تمثال حرام نہیں ، قرآنِ مجید کی یہ آیت اِس سے بالکل مختلف تاثر دے رہی ہے۔قرآنِ مجید نے تصاویر اور مجسموں کے لیے تماثیل کا جو لفظ استعمال کیا ہے، یہ جان دار اور بے جان دونوں کی تصاویر اور مجسموں کے لیے یکساں طور پر استعمال ہوتا ہے۔اِس لفظ کے استعمال سے یہ بات واضح طور پر معلوم ہو جاتی ہے کہ قرآنِ مجید کے نزدیک حلت و حرمت کے پہلو سے (جان دار اور بے جان کا)یہ فرق کوئی فرق نہیں ہے، اُس کے نزدیک جان دار شے اور بے جان شے میں سے جس کی تصویر اور مجسمہ بھی بنا لیا جائے، اُسے اِس پر کوئی اعتراض نہیں ۔

اب آپ یہ دیکھیں کہ اِس آیت میں اللہ تعالیٰ نے تماثیل کا ذکر بہت مثبت انداز میں کیا ہے۔ اِس آیت میں آپ ذرہ بھر بھی اِس بات کی کوئی جھلک نہیں پائیں گے کہ تماثیل (تصاویر اور مجسمے) فی نفسٖہ خدا کے ہاں کسی درجے میں کوئی ایسی ناپسندیدہ چیز ہیں ، جنھیں بنانے والوں کو خدا مجرمین قرار دیتا ہے اور قیامت کے روز، جنھیں وہ اِن تماثیل ہی کی وجہ سے سخت ترین عذاب دے گا۔

بلکہ یہاں تو ہم دیکھتے ہیں کہ تماثیل وہ چیز ہیں ، جنھیں اللہ کے برگزیدہ نبی سلیمان علیہ السلام نے اپنے محل اور اپنے ہیکل میں جنات سے بنوایا ہے۔ چنانچہ پھر یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ایک چیز شر بھی ہو اور خدا کے کسی برگزیدہ نبی کے ہاں وہ مقبول بھی ہو[3]۔

آیت کے آخر میں آپ دیکھیں ، قرآنِ مجید اِن تماثیل کا ذکر کرنے کے بعد سلیمان علیہ السلام کو خدا کی اِس نعمت پر شکر ادا کرنے کو کہہ رہا ہے۔ فرمایا: ’’ اعملوا آل داؤد شکراً، وقلیل من عبادی الشکور‘‘ ( اے آلِ داؤد عمل کرو شکر گزاری کے ساتھ، میرے بندوں میں کم ہی شکر گزار ہیں )۔ یہ الفاظ اِس حقیقت کو ظاہر کر رہے ہیں کہ آلِ داؤد کامحرابیں اور تماثیل بنوانا، یہ سب خدا کے فضل سے تھا ، چنانچہ اِسی بنا پر اُن سے شکر کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ آپ بتائیے اگر تماثیل شر ہیں تویہ شکر کیسا؟

جن لوگوں نے یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ تماثیل بنی اسرائیل کے ہاں شر نہیں تھیں ، البتہ ہمارے ہاں یہ شر ہیں ۔ اِس تصور کی غلطی کو تو ہم پیچھے حواشی میں تفصیلاً بیان کر آئے ہیں ، لیکن اِسی حوالے سے ایک اور اہم بات یہ بھی ہے کہ اگر بالفرض تصویر سازی کو ہمارے ہاں شر ہی قرار دیا جانا تھا، تو خدا اپنی اُس کتاب میں ، جسے اُس نے قیامت تک کے لیے رشد و ہدایت بنا کر اُتارا ہے، سلیمان علیہ السلام کے تماثیل بنوانے اور اِس پر اُن سے شکر کا مطالبہ کیے جانے کو، یوں بغیر کسی وضاحت کے ہرگز بیان نہ کرتا۔ کیونکہ اِن آیات کا یہ اسلوب تماثیل کے بارے میں ترغیب پیدا کر رہا ہے اور قرآن کی یہ ترغیب تماثیل کے شر ہونے کی صورت میں مسلمانوں کے لیے انتہائی گمراہ کن ہوسکتی ہے۔ آپ دیکھیں قرآنِ مجید نے ہمیں تماثیل کے بارے میں سلیمان علیہ السلام کا رویہ بتاتے ہوئے، اِس نوعیت کا کوئی اشارہ تک نہیں دیاکہ یہ تماثیل بنوانا صرف اُن کے لیے خاص تھا۔ امت ِمسلمہ جس میں یہ قرآن نازل ہو رہا ہے، اُسے ایک قدیم امت کے نبی کا تماثیل سازی کا عمل اِس تعریفی انداز میں بتایا گیا ہے کہ اُس کے بارے میں کوئی تردد تک پیدا نہیں ہوتاکہ یہ کوئی بُرا عمل یا کوئی کم تر درجے کا عمل ہے، بلکہ اِس آیت کو پڑھنے کے بعد آدمی کے دل میں تصویر و تماثیل سازی کی شرافت کا تاثر پیدا ہوتا ہے۔ اِس کا صاف مطلب یہ ہے کہ قرآن اِس سلسلے میں ہمیں تماثیل سازی کے جواز سے ہٹ کر کوئی مختلف بات نہیں کہنا چاہتا،لیکن اگر اللہ تعالیٰ کے پیشِ نظر تماثیل کو ناجائز قرار دینا ہی تھا، تو پھر یہ بڑی عجیب بات ہے کہ وہ خود ہی اِن آیات سے تماثیل کے بارے میں امتِ مسلمہ میں اچھا تاثر پیدا کر رہا ہے اور وہ خود ہی اِس تاثر کو اِس امت میں باقی نہیں رکھنا چاہتا، یعنی خدا یہ نہیں چاہتا کہ مسلمان تماثیل کے بارے میں خداکے اپنے پیدا کردہ تاثر کو قبول کریں ۔ اگر یہ بات ہے تو پھر یہ صریح تضاد ہے۔

اِس آیت کے تجزیے اور اِس پر غور و فکر سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ قرآن ِمجید کے نزدیک تصویر سازی کا فن فی نفسٖہ قطعاً کوئی شر نہیں ہے ، بلکہ یہ اپنے اندر وہ شرافت رکھتا ہے کہ اس سے اللہ کے برگزیدہ نبی فائدہ اٹھائیں اور یہ قدیم امتوں ہی میں نہیں اِس امتِ مسلمہ بھی ایک جائز اور شریف فن کے طور پر رائج ہو۔

چنانچہ ہمارے خیال میں قرآنِ مجید کی یہ آیت واضح طور پر تماثیل ( تصاویر اور مجسموں ) کے جواز کا تصور پیدا کرتی ہے۔ اس کا مطالعہ کرنے والے کسی شخص کے ہاں تصاویر کے عدم جواز کا کوئی سوال ہی نہیں پیدا ہو سکتا۔

قرآنِ مجید میں تماثیل کا ذکر ایک اور جگہ پر بھی آیا ہے ۔ اب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ قرآن کے اُس مقام سے تماثیل کے بارے میں کیا بات ہمارے سامنے آتی ہے۔

سورۂ انبیا میں فرمایا:

اِذْ قَالَ لِاَبِيْهِ وَقَوْمِهٖ مَا هٰذِهِ التَّمَاثِيْلُ الَّتِيْ٘ اَنْتُمْ لَهَا عٰكِفُوْنَ. قَالُوْا وَجَدْنَا٘ اٰبَآءَنَا لَهَا عٰبِدِيْنَ. قَالَ لَقَدْ كُنْتُمْ اَنْتُمْ وَاٰبَآؤُكُمْ فِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ.(۲۱: ۵۲ -۵۴)
  ’’جب اس(ابراہیم ) نے اپنے باپ اور اپنی قوم سے کہا:یہ کیا تماثیل ہیں ، جن پر تم دھرنا دیے بیٹھے ہو۔انھوں نے جواب دیا کہ ہم نے تو اپنے باپ دادا کو اِنہی کی عبادت کرتے ہوئے پایا ہے۔ اُس (ابراہیم) نے کہا تم بھی اور تمھارے باپ دادا بھی ایک کھلی ہوئی گمراہی میں مبتلا رہے ہو۔‘‘ 

سورۂ انبیا کی ان آیات میں ’التماثیل ‘ کا لفظ عربی گرائمر کے حوالے سے دیکھیں تو نکرہ نہیں ، بلکہ معرفہ ہے اور اس پر آنے والا ’ ال‘ عہدِ حضوری کا ہے۔ یہ ’ال‘ حاضر و موجود تماثیل کو خاص کر رہا ہے۔ چنانچہ ’ھذہ التماثیل ‘ کا مطلب ہو گا یہ (تمہارے سامنے) موجود تماثیل۔ اب آپ آیت کے اِس ٹکڑے کو دیکھیں ۔ اس میں ’التماثیل‘ کا لفظ موصوف کے طور پر آیا ہے اور اِس موصوف کی صفت ’التی انتم لھا عاکفون‘ ہے۔ یعنی یہ موجود تماثیل ،جن پر تم دھرنا دیے بیٹھے ہو ۔

اس سے معلوم ہوا کہ آیت میں تماثیل کا لفظ اپنے عام (یعنی کوئی سی تصویریں ،کوئی سے مجسمے کے) معنوں میں نہیں ہے ،بلکہ اس سے مراد وہ خاص تماثیل ہیں ، جو اُس وقت ابراہیم علیہ السلام اور ان کے مخاطبین کے سامنے موجود تھیں اور جن کی عبادت کی خاطر وہ لوگ اُن پر دھرنا دیے بیٹھے تھے۔

اب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اِن تماثیل کے بارے میں ، جن پر وہ دھرنا دیے بیٹھے تھے ،قرآن ِ مجید کی اِن آیات سے ہمیں کیا بات معلوم ہوتی ہے۔

پس منظر کی معلومات کو ملحوظ رکھتے ہوئے، اگر اِن آیات کا مفہوم بیان کیا جائے تو وہ کچھ اِس طرح سے ہے:

’’ ابراہیم علیہ السلام اپنے (مشرک)باپ اور اپنی (مشرک)قوم سے سوال کر تے ہیں کہ یہ کیسی تماثیل ہیں ،جن پر تم دھرنا دیے بیٹھے ہو۔ وہ جواب میں کہتے ہیں ہم تو اِن کی عبادت میں لگے ہوئے ہیں،پھر اپنے اِس عبادت کرنے کی وجہ بیان کرتے ہوئے وہ لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہم نے اپنے باپ دادا کو اسی طرح سے اِن کی عبادت کرتے ہوئے پایا ہے، چنانچہ ہم اُنھی کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے ، اِن کی عبادت کر رہے ہیں ۔ اِبراہیم علیہ السلام اس بات کے جواب میں کہتے ہیں کہ (اللہ کے بجائے) اِن کی عبادت کرنا، یعنی شرک کرنا تو ایک واضح گمراہی ہے ۔ کل تمہارے باپ دادا بھی اِس گمراہی میں مبتلا ہوئے تھے اور آج تم بھی اِس گمراہی میں مبتلا ہو۔‘‘

تماثیل کے بارے میں اِن آیات سے درجِ ذیل باتیں ہمارے سامنے آتی ہیں :

۱۔ابراہیم علیہ السلام کی قوم کے لوگ تماثیل کی عبادت کرتے تھے۔ یعنی ان کے ہاں تماثیل کو معبود قرار دیا جاتا اور اِن کی پرستش کی جاتی تھی۔

۲۔ قرآنِ مجید تماثیل کی اس عبادت کو ایک کھلی ہوئی گمراہی (شرک) قرار دیتا ہے۔

تماثیل کے بارے میں زیر بحث آیت سے رہنمائی

تماثیل کی عبادت اگر کھلی ہوئی گمراہی ہے، تو ظاہر ہے کہ پھر یہ تماثیل مظنۂ ضلالت، یعنی گمراہی کے پائے جانے کی جگہ یا دوسرے لفظوں میں گمراہی کا گھر ہیں ۔ اس کے بعد یہ ہو نہیں سکتا کہ خداے غیور کے ہاں یہ تماثیل شنیع ترین اور مبغوض ترین اشیا قرار نہ دی جائیں ۔چنانچہ قرآن کی اِن آیات کی تلاوت کرنے والا کوئی شخص بھی اِن تماثیل کے جائز ہونے کا تصور اپنے ذہن میں نہیں لا سکتا۔یہ آیات اپنے ہر قاری کو یہی تصور دیتی ہیں کہ وہ تماثیل جنھیں معبود سمجھا جاتا اور اُن کی عبادت کی جاتی ہے، انھیں بنانا اور بیچنا، انھیں خریدنا اور رکھنا صریح طور پر ناجائز ہونا چاہیے، کیونکہ دینِ توحید میں کوئی چیز اگر مظنۂ شرک یعنی شرک کے پائے جانے کی جگہ ہے تو وہ کسی صورت میں بھی گوارا نہیں ہوسکتی ۔

خلاصہ

قرآنِ مجید میں دو مقامات پر تماثیل کا ذکر ہوا ہے ۔

ایک جگہ پر تماثیل کا لفظ نکرہ یعنی اپنے عام معنوں میں استعمال ہوا ہے اور بغیرکسی خاص صفت کے آیا ہے۔ یہاں قرآنِ مجید تماثیل کے بارے میں ہمیں یہ بتاتا ہے کہ یہ خدا کے ایک جلیل القدر پیغمبر کی دلچسپی کی چیز تھیں۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں تماثیل بنوانے اور دوسرے کام کرانے کے لیے اپنی مخلوقات میں سے ایک غیر مرئی مخلوق پر اقتدار دیا تھا۔ چنانچہ انھوں نے اپنے ہیکل میں تماثیل بنوائی تھیں ۔یہاں تماثیل کا ذکر کرنے کے بعد قرآنِ مجید سلیمان علیہ السلام کو خدا کی اِس نعمت پر شکر ادا کرنے کی ہدایت کررہا ہے۔ چنانچہ یہ صاف معلوم ہوتا ہے کہ قرآن ِمجید کے نزدیک تصویر سازی کا فن قطعاً کوئی شر نہیں ہے ، بلکہ یہ اپنے اندر وہ شرافت رکھتا ہے کہ اس سے اللہ کے برگزیدہ نبی سلیمان علیہ السلام فائدہ اٹھائیں ۔

دوسری جگہ تماثیل کا لفظ معرفہ آیا ہے اور ایک خاص صفت کے ساتھ استعمال ہوا ہے۔ یہاں وہ خاص تماثیل زیرِ بحث ہیں ،جن کی عبادت کی جاتی ہے۔ اُن تماثیل کے بارے میں یہ بتایا گیا ہے کہ اُن کی عبادت کھلی ہوئی گمراہی ہے ۔ نتیجۃ ًایسی تماثیل مظنہ ء ضلالت ہیں ۔ چنانچہ قرآنِ مجید کے اس مقام سے یہ صاف معلوم ہوتا ہے کہ وہ خاص تماثیل ،جنھیں معبود سمجھا جاتا اور جن کی عبادت کی جاتی ہے، اُن کا وجود دینِ توحید میں کسی صورت میں بھی گوارا نہیں ۔

مختصراً یہ کہ قرآنِ مجید سے ہمیں تماثیل کے عمومی جواز کا واضح تصور ملتا ہے ،الا یہ کہ وہ مظنۂ شرک ہوں ۔ مظنۂ شرک ہونے کی صورت میں ظاہر ہے کہ اُن سے زیادہ ناجائز کوئی اور چیز نہیں ہو سکتی۔

 اِس کے بعد اب ہم یہ دیکھیں گے کہ تماثیل کے بارے ہمیں احادیث سے کیا رہنمائی ملتی ہے۔

  (باقی)

____________

[2]۔ تورات میں اِس کی تفصیل ہمیں اِن الفاظ میں ملتی ہے۔ سلیمان علیہ السلام کے محل کا ذکر کرتے ہوئے بتایا گیا ہے :

’’اوران حاشیوں پر جو پڑوں کے درمیان تھے ، شیر اور بیل او رکَرُّوبی(فرشتے) بنے ہوئے تھے‘‘۔ ( ملوک۱: باب۷، ۲۹)

ہیکل کی تعمیر کے بیان میں ہے:  

’’اور الہام گاہ میں اُس نے زیتون کے لکڑی کے دو کروبی دس دس ہاتھ اونچے بنائے۔اور کروبی کا ایک بازو پانچ ہاتھ کا اور دوسرا بازوبھی پانچ ہی ہاتھ کا تھا۔ دوسرا کروبی دس ہاتھ کا پہلے کے موافق … اور الہام گاہ کے دروازےکے لیے … زیتون کی لکڑی کے کواڑ تھے ان پر کروبیوں اور کھجوروں اور کھلے ہوئے پھولوں کی تصویریں کھودیں ۔‘‘ (ملوک ۱:باب ۶آیت ۲۳، ۲۴، ۳۱، ۳۲)

[3]۔ جہاں تک بعض لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ یہود کی شریعت میں تماثیل بنانا جائز تھا ، تو ہم یہ کیسے مان سکتے ہیں ۔ کیوں کہ یہ بات ممکن نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ ایک شریعت میں اپنی تخلیق کی نقل اتارنے کو خیر قرار دے اور دوسری میں شر قرار دے دے۔ تماثیل کی ممانعتکی جو علت بیان کی گئی ہے ،وہ ان کا ’خدا کی تخلیق سے مشابہ تخلیق ، ہونا ہے۔ یہ علت ایسی ہے کہ یہ کسی صورت بھی تماثیل سے مفقود نہیں ہو سکتی۔ لہٰذا ، یہ فی نفسٖہ اگر شر ہیں ،تو ہمیشہ کے لیے ہیں اور اگر فی نفسٖہ خیر ہیں تو ہمیشہ کے لیے ہیں۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ یہ ایک شریعت میں جائز ہوں اور ایک میں ناجائز۔شریعتوں کے ما بین قانون کا جو اختلاف ہے ، اس کی بناکسی شر کے خیر قرار دیے جانے اور کسی خیر کے شر قرار دیے جانے پر نہیں ہوتی، بلکہ وہ معاشرتی اور تمدنی حالات کے مختلف ہونے کی بنا پر ہوتی ہے۔ہر شریعت میں خیر ہی کو خیر قرار دیا گیا اور شر ہی کو شر قرار دیا گیا ہے۔

شرائع کے اختلاف کی ایک نوعیت یہ بھی ہوتی ہے کہ سزا کے طور پر کسی قوم کو کچھ وقت کے لیے کسی خیر سے فائدہ اٹھانے سے روک دیا جائے یا سد ِذریعہ کے طور پر کسی مباح شے کو ممنوع قرار دے دیا جائے۔ لیکن ان صورتوں میں بھی ایسا نہیں ہوتا کہ خدا اپنی شریعت میں سے کسی خیر کو شر اور کسی شر کو خیر قرار دے دے۔پساگر تصویر سازی ، جس کی شناعت ’خدا کی تخلیق کی نقل کرنے ‘کے الفاظ سے بیان کی جاتی ہے ، ہماری شریعت میں ناجائز ہے ، تو ہو نہیں سکتا کہ یہ کسی دوسری شریعت میں جائز ہو ، کیونکہ وہاں بھی یہ خدا کی ’تخلیق کی نقل ‘ ہی کہلائے گی ۔ چنانچہ کوئی ایسی چیز جو اپنے اندر شناعت کا کوئی مستقل پہلو رکھتی ہے، وہ خدا کی کسی شریعت میں بھی جائز نہیں ہو سکتی۔ پس تصویر سازی اگر اپنے اندر شناعت کا کوئی مستقل پہلو رکھتی ہوتی ، تو یہ سلیمان علیہ السلام کے لیے بالکل جائز نہ ہوتی۔ لہٰذا، ضروری ہے کہ احادیث کا مدعا اُس سے مختلف ہو، جو سمجھا جا رہا ہے۔

 دوسری اہم بات یہ ہے کہ یہود کی شریعت میں (بت پرستی کے حوالے سے )تماثیل کو صریحاً حرام قرار دیا گیا ہے۔ تماثیل کے بارے میں یہ ممانعت تورات میں ان الفاظ میں مذکور ہے:                        

’’ تم اپنے لیے بت نہ بنانااور نہ ترشی ہوئی مورت یا لاٹ اپنے لیے کھڑی کرنااور نہ اپنے ملک میں کوئی شبیہ دار پتھر رکھناکہ اسے سجدہ کرو۔‘‘(احبار، باب ۳۶ آیت۱)    
’’ لعنت اس آدمی پر جو کاریگر کی صنعت کی طرح کھودی ہوئی یا ڈھالی ہوئی مورت بنا کر ، جو خداوند کے نزدیک مکروہ ہے ، اس کو پوشیدہ جگہ میں نصب کرے۔‘‘ (استثنا، باب ۲۷، آیت ۱۵)   

B