میزان
ہفت روزہ ’’زندگی‘‘ (۱۶ اپریل ۲۰۰۰) میں جاوید احمد صاحب غامدی کا انٹرویو شائع
ہوا ہے ۔ قارئینِ ’’اشراق‘‘ کے استفادے کے لیے اسے یہاں شائع کیا جا رہا ہے۔
سوال: جاوید صاحب، ’’زندگی‘‘ کے گزشتہ شماروں میں ڈاکٹر مراد ہوفمین کے مقالات یقیناً آپ کی نظروں سے گزرے ہوں گے۔ ان مقالات کے موضوعات ’’تہذیبوں کا تصادم اور اسلام اکیسویں صدی میں‘‘ اور ’’اسلام اور دورِ حاضر کا نظریاتی بحران‘‘ ہیں۔ ہم’’زندگی‘‘ کے قارئین کے لیے ان مقالات پر آپ کا تبصرہ معلوم کرنا چاہتے ہیں اور ان موضوعات پر آپ کا نقطۂ نظر جاننا چاہتے ہیں۔
ہمارا پہلا سوال یہ ہے کہ پروفیسر ہنٹنگٹن جن کے نظریات کا حوالہ ڈاکٹر ہوفمین نے اپنے پہلے مقالے میں دیا ہے، مغربی تہذیب کے عالمی غلبے کے بارے میں زیادہ توقع نہیں رکھتے۔ وہ کہتے ہیں: ’’مغرب بے مثال ضرور ہے ، عالم گیرنہیں ہے۔ اس تناظر میں آپ فرمائیے کہ دورِ حاضر میں مغربی تہذیب کا غلبہ کیامعنی رکھتا ہے، کیا یہ تہذیب اپنے اندر عالم گیر تہذیب بننے کے امکانات ر کھتی ہے؟
جواب: مغربی تہذیب انسانی تمدن کے ارتقا ہی کی ایک منزل ہے۔ اس اعتبار سے یہ اپنے اندر بعض ایسی خصوصیات ر کھتی ہے جنھیں ہم انسانیت کے لیے مفید قرار دے سکتے ہیں۔ انسانی تمدن کو جو مسائل پیش آ سکتے تھے، ان کے حل کے لیے مغربی تہذیب نے بہت کچھ اثاثہ جمع کیا ہے۔ سائنسی علوم کی غیر معمولی ترقی، انسانی معیشت کے گوناگوں احوال سے اس کی ہم آہنگی اور جمہوری اقدار کا استحکام، مغربی تہذیب کے نمایاں پہلو ہیں۔ لیکن اس سب کچھ کے باوجود یہ بات بالکل درست ہے کہ مغربی تہذیب اپنے اندر عالم گیر تہذیب بننے کے امکانات نہیں ر کھتی۔ میرے نزدیک اس کی چند وجوہ ہیں:
پہلی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو جس فطرت پر پیدا کیا ہے ، اس میں مذہبی جذبہ کوئی خارج کی چیز نہیں بلکہ انسانوں کے اندر ودیعت کیا گیا ہے۔ بد قسمتی سے مغرب کو جو جنگ کلیسا کے ساتھ پیش آئی، اس کے نتیجے میں وہ اس جذبے کی قدروقیمت پہچاننے سے گریزاں ہو گیا ہے۔ یعنی صورتِ حال یہ نہیں ہے کہ مغرب مذہب سے منحرف ہے، صورتِ حال یہ ہے کہ انسانی تمدن میں اس جذبے کو جو قدرومنزلت ملنی چاہیے اور جو کردار اسے معاشرے میں ادا کرنا چاہیے، ذہنِ مغرب اس کو سرے سے محسوس کرنے ہی کے لیے تیار نہیں ہے۔ چنانچہ اسے یہ حادثہ درپیش ہے کہ انسان کے باطن اور اس کے اخلاقی وجود کا تعلق مادی ارتقا کے ساتھ قائم کرنا اس کے لیے ممکن نہیں ہو رہا۔ اب تہذیبِ مغرب کے پاس دو ہی راستے رہ جاتے ہیں ایک یہ کہ وہ انسانی فطرت کے بارے میں اس حقیقت کا اعتراف کر لے دوسرے یہ کہ کسی نئی ٹیکنالوجی سے انسانی فطرت کو تبدیل کر دے ۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ عالم گیریت کے لیے کچھ ایسی اساسات کی ضرورت ہے جو انسانی تہذیبوں کے تنوع میں وحدت کا کام دے سکیں۔
مغربی تہذیب کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اس وحدت کے شعور کے باوجود، دنیا میں انسانوں کی سیاسی، سماجی اور معاشرتی تقسیم پر مصر ہے۔ اس کی وجہ اس کا نظریۂ قومیت ہے۔ اس قومیت کے تصور نے انسانی تمدن کے وحدت کی طرف بڑھنے کی راہیں مسدود کر ر کھی ہیں۔ مواصلات کے نئے ذرائع اور نئے علوم کی دریافتوں سے کام لے کر بنی آدم کے اجتماعی تصور کو نمایاں کرنے کے بجائے قومیت کے انفرادی تصورات کو راسخ کیا جا رہا ہے۔ مغرب کا فکر و فلسفہ اجتماعیت کی ضرورت محسوس کرنے کے باوجود قومیت سے دست بردار ہونے کے لیے تیار نہیں ہے ۔
تیسری وجہ یہ ہے کہ مغرب نظامِ معیشت کو اخلاقیات کے تابع کر دینے سے مسلسل انکار کر رہا ہے۔ عالم گیر تہذیب لازماً اخلاقی ہو گی۔ یہ انسان کی فطرت کا تقاضا ہے۔ اگر کوئی تہذیب اخلاقی نہیں ہے تو وہ مادی ترقی کے انتہائی عروج پر بھی انسانوں کے اجساد ہی کو مغلوب کر سکتی ہے ان کے دل و دماغ کو مفتوح نہیں کرسکتی۔ انسان مادی آسایشوں اور ذہنی آلایشوں کے ساتھ کچھ عرصے کے لیے تو مطمئن ہو جاتا ہے لیکن حقیقی اور دیرپا اطمینان صرف اخلاقی اقدار سے حاصل ہوتا ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ مغربی تہذیب اجتماعی زندگی میں بعض ایسی اقدار کی علم بردار بن گئی ہے جو ہر لحاظ سے قابلِ تحسین ہیں لیکن وہ اس بات کو بنیادی اصول کے طور پر اختیار کرنے کے لیے تیار نہیں ہے کہ فصلِ نزاعات ہر حال میں اخلاقی اقدار کی بنیاد پر ہونی چاہیے۔
یہ تین وجوہ ہیں جن کی بنا پر میں اس بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ مغربی تہذیب بہت سے محاسن رکھنے کے باوجود اپنے اندر عالم گیر تحریک بننے کی اساسات پیدا نہیں کر سکی۔
سوال: عام نقطۂ نظر یہ ہے کہ جدیدیت اور مغربیت لازم و ملزوم ہیں۔ ہنٹنگٹن اس سے اختلاف کرتے ہیں، ان کے نزدیک ایک غیر مغربی معاشرہ بھی جدید ہو سکتا ہے۔ آپ کے نزدیک کون سا معاشرہ جدید معاشرہ ہے ؟
جواب: میں سمجھتا ہوں کہ اگر کوئی معاشرہ اپنے اوپر تنقید کا دروازہ کھلا رکھتا ہے ، ہر رائے ، ہر نقطۂ نظر، ہر رسم اور ہر روایت کو پرستش کی چیز نہیں بناتا ، اختلاف کو برداشت ہی نہیں کرتا، اس کے لیے سازگار اور خوش گوار فضا بھی پیدا کرتا ہے، نیا نقطۂ نظر پیش کرنے والوں کا تعاقب شروع نہیں کر دیتا، ان کے لیے اپنی بات کہنے کے آزادانہ مواقع پیدا کرتا ہے اور قدرت نے جو امکانات انفس و آفاق میں پوشیدہ کر رکھے ہیں، ہر لحظہ ان کے اکتشاف میں سرگرمِ عمل رہتا ہے تو وہ جدید معاشرہ ہے۔
جدید معاشرہ کسی خاص علامت کا نام نہیں ہے، کسی خاص لباس کا نام نہیں ہے، کچھ مخصوص آداب اور رسوم و روایات کا نام نہیں ہے بلکہ یہ حقائق کے ادراک کا نام ہے۔ جو تہذیب بھی یہ ادراک پیدا کر لے گی وہ بجا طور پر جدید کہلانے کی مستحق ہو گی۔ زمانے کی وحدت ، زندگی کی وحدت اور کائنات کی وحدت اگر دوئی قبول نہیں کرتی تو جدید و قدیم کا فیصلہ بھی حقائق کی بنیاد پر ہو گا۔ غالباً یہی حقیقت ہے جس کو ہمارے شاعرِ مشرق نے بیان کیا ہے:
زمانہ ایک ، حیات ایک ،کائنات بھی ایک
دلیلِ کم نظری ، قصۂ جدید و قدیم
سوال: جاوید صاحب یہ فرمائیے کہ آپ کے نزدیک اسلامی تہذیب کی کوئی حقیقت بھی ہے اور اگر اس کا وجود ہے تو پھر یہ دوسری تہذیبوں سے کس قدر مختلف ہے ؟
جواب: اگر ہم کسی تہذیب کو اسلامی تہذیب کا نام دینے پر اصرار ہی کریں تو میرے نزدیک جو تہذیب یہ تین اساسات کو قبول کر لے تو رسوم و روایات ، رہن سہن اور آداب و شعائر کے ہزار اختلافات کے باوجود ہم اسے اسلامی تہذیب قرار دے سکتے ہیں:
۱۔ وحدتِ الہٰ
۲۔ وحدتِ آدم
۳ ۔عمل کی بنیاد پر ابدی مکافات
یہ تینوں چیزیں کسی تہذیب میں روح کی طرح سرایت کرتی ہیں اور معمولی تغیرات کے ساتھ انسانی تمدن کے لیے ہر قالب کو قبول کر لیتی ہیں۔ چنانچہ مسلمانوں کی جو تاریخ اب تک گزری ہے، اس میں بھی ایسا ہی ہوا ہے، اسلام نے تہذیب کی تشکیل میں یہی کردار ادا کیا ہے۔ ہر تمدن نے اپنے ذوق اور حوصلے کے مطابق ان اساسات کو لے کر اپنے مخصوص قالب میں ڈھال لیا۔ اس وجہ سے کسی خاص سانچے یا کسی خاص قالب کو اسلامی تہذیب قرار نہیں دینا چاہیے۔ یہ اساسات عرب تمدن میں ایک خاص اسلوب میں نمایاں ہوئیں، بعد میں عجم کے اختلاط نے ان کے اندر کچھ اور رنگ پیدا کیے اور اب اگر مغربی تہذیب بھی ان اساسات کو قبول کر لیتی ہے تو معمولی تغیرات کے ساتھ یہ تہذیب بھی اسلامی تہذیب قرار پا سکتی ہے۔
اسلامی تہذیب کیا ہے ؟ اقبال نے کہا ہے:
نہ اس میں عصرِ رواں کی حیا سے بیزاری
نہ اس میں عہدِ کہن کے فسانہ و افسوں
عناصر اس کے ہیں ،روح القدس کا ذوقِ جمال
عجم کا حسنِ طبیعت ،عرب کا سوزِ دروں
سوال: اس پیش گوئی کے بارے میں کہ مستقبل میں تصادم قومی سرحدوں پرنہیں بلکہ تہذیبی و ثقافتی سرحدوں پر ہو گا، آپ کی کیا رائے ہے ؟ ڈاکٹر ہوفمین کے نزدیک ماضی میں بھی صورتِ حال اس سے مختلف نہیں تھی، ان کے خیال میں ہر دور میں لڑی جانے والی جنگیں ثقافتی وحدتوں ہی کے درمیان لڑی گئیں ۔
جواب: مجھے اس بات سے تو اتفاق ہے کہ ماضی میں تصادم بالعموم، ثقافتی وحدتوں کے مابین ہوا ہے لیکن میرے نزدیک تصادم کا باعث کبھی تہذیبی یا ثقافتی وحدت نہیں بنتی۔ اگر آپ انسانی تمدن کی چار پانچ ہزار سالہ تاریخ کا مطالعہ کریں، دورِ قدیم کے لوگوں میں سے ابنِ خلدون اور دورِ جدید کے لوگوں میں سے ٹائن بی کے تاریخی تجزیوں کو سامنے ر کھیں اور الہامی صحائف سے تاریخ کی جو بصیرت ملتی ہے، اس سے بھی رہنمائی حاصل کریں تو آپ پر یہ بات واضح ہو گی کہ تصادم کا باعث ہمیشہ چار ہی چیزیں ہوتی ہیں ۔
پہلی چیز دنیوی مفادات ہیں۔ یہ جس طرح افراد کے ہوتے ہیں اسی طرح قوموں کے بھی ہوتے ہیں۔ یہ مفادات اگر حاصل ہوتے رہیں تو امن قائم رہتا ہے اور اگر ان کے بارے میں کشمکش پیدا ہو جائے تو تصادم ہو جاتا ہے۔
دوسری چیز بنی آدم میں تفوق کی جبلت ہے۔ یہ افراد میں پیدا ہوتی ہے تو انھیں سیزر و سکندر بنا دیتی ہے، قوموں میں پیدا ہوتی ہے تو انھیں روما اور ایران کی سلطنتیں بنا دیتی ہے۔ ہلاکو ، چنگیز خان ، بابر ، بایزید یلدرم ، ہٹلر ، مسولینی یہ سب اسی کی علامت ہیں۔ موجودہ زمانے میں بین الاقوامی اقدار قائم کر کے اس جبلت کو لگام ڈالنے کی کوشش کی جا رہی ہے ، لیکن یہ ایسی منہ زور ہے کہ کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ کب عنان ٹوٹ جائے اور یہ بے لگام ہو کر انسانوں کو تاخت و تاراج کرنا شروع کر دے ۔اس وقت چونکہ مغرب کو متعدد شعبہ ہاے زندگی میں فوقیت حاصل ہے اس لیے بے لگام ہونے کا زیادہ اندیشہ بھی اسی سے ہے۔
تیسری چیز مذہبی جبر ہے۔ مغرب تو اس سے بہت حد تک نجات پا چکا ہے۔ کیونکہ اس کی تہذیبی نشوونما مذہبی جبر کے خلاف ردِ عمل میں ہوئی ہے۔ اس وجہ سے یہ بڑی خوش آیند بات ہے کہ مذہبی جبر سے نفرت نہ صرف یہ کہ مغربی تہذیب کی اساسات میں داخل ہو گئی ہے بلکہ مغرب دنیا میں اس کا مبلغ بھی بن گیا ہے۔ مسلمانوں میں چند انتہا پسند طبقوں کو چھوڑ کر یہ چیزکبھی پذیرائی حاصل نہیں کرسکی ، اس لیے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ ابھی کافی عرصے تک اس بنا پر تصادم کا امکان نہیں ہے۔
چوتھی چیز انسانوں کے ہاتھوں سے خداوندی جزا و سزا کا نفاذ ہے ۔ یہ چیز ختمِ نبوت کے ساتھ ہمیشہ کے لے ختم ہوگئی ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ پچھلی صدی میں مسلمانوں میں جو بڑے مفکرین پیدا ہوئے انھوں نے اس کی غلط تعبیر کر کے اسے مسلمانوں کا نصب العین قرار دینے کی کوشش کی۔ لیکن اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اب خود مسلمان اسکالرز کی طرف سے لوگوں پر اس تعبیر کی غلطی واضح کرنے کا عمل بہت تیزی سے شروع ہو گیا ہے۔ میں یہ تو نہیں کہتا کہ یہ عمل بہت زیادہ موثر ہو چکا ہے لیکن یہ ضرور کہتا ہوں کہ آیندہ دو عشروں میں اس کے اثرات مسلمانوں کے مذہبی فکر پر نہایت نمایاں محسوس ہونے لگیں گے۔ لہٰذا میرے نزدیک مسلمانوں کی طرف سے یہ چیزکسی تصادم کا باعث نہیں بن سکتی ۔
چنانچہ موجودہ زمانے میں دو ہی چیزوں سے اصل خطرہ ہے۔ ایک دنیوی مفادات اور دوسرے تفوق کی جبلت۔ اگر انسانیت متحد ہو کر ان دو عفریتوں کو لگام ڈالے تو تصادم کو روکا جا سکتا ہے۔ ورنہ انسان کی خاکستر میں دبی ہوئی ان چنگاریوں سے خس و خاشاک کسی وقت بھی آگ پکڑ سکتے ہیں۔ لہٰذا میں یہ سمجھتا ہوں کہ تہذیبوں کے مابین کسی تصادم کا اندیشہ نہیں ہے۔ تصادم جب بھی ہو گا تو انھی دونوں چیزوں کی بنا پر ہو گا۔ مجھے اندیشہ ہے کہ اگر اس زاویۂ نظر کے بجائے تہذیبوں کے حوالے سے تصادم کے وقوع اور عدمِ وقوع کا جائزہ لیا گیا تو یہ چیز خود تصادم کا ذریعہ بن جائے گی۔
سوال: ڈاکٹر ہوفمین کے نزدیک دوسری تہذیبوں تک اسلام کا پیغام پہنچانے کا طریقہ یہ ہے کہ دوسری تہذیبوں کی ان اقدار کومتعین کیا جائے جو اسلام کے اندر بھی موجود ہیں اور پھر ان کو آپس میں جوڑنے کی کوشش کی جائے۔اس نقطۂ نظر پر آپ کا کیا تبصرہ ہے ؟
جواب: میں اس بات سے سو فی صد اتفاق کرتا ہوں ۔ میرے نزدیک یہ دعوت کی حکمت کا وہی اصول ہے جس کو قرآنِ مجید نے اہلِ کتاب کے معاملے میں اپنے اس لافانی اسلوب میں پیش کیا ہے کہ’’اے اہلِ کتاب، اس بات کی طرف آؤ جو ہمارے اور تمھارے درمیان یکساں ہے۔‘‘
دعوت کو ہمیشہ اتفاق سے اختلاف اور مسّلم سے متنازع فیہ کی طرف سے لے جانا چاہیے۔ وہ باتیں جو مخاطب مانتا ہے، جو اس کے لیے اجنبی نہیں ہیں، ان کے اقرار و اعتراف سے شروع کر کے بتدریج ان امور کی طرف بڑھنا چاہیے جو ان مسلمات سے لازم آتے ہیں تا کہ مخاطب مانوس سے غیرمانوس کی طرف منتقل ہوتے ہوئے بالکل غیرمحسوس طریقے سے ان حقائق کی طرف مائل ہو جائے جنھیں کوئی داعیِ حق اس سے منوانا چاہتا ہے۔
سوال: ڈاکٹر ہوفمین نے ہاورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر ڈیوڈبیل اور ایک سابق امریکی سفارت کار ولیم آفلس کا حوالہ دیتے ہوئے یہ پیشین گوئی کی ہے کہ مغربی دنیا ایک بار پھر کمیونزم کی طرح مسمار ہو گی اس لیے کہ کوئی انسانی تہذیب کبھی روحانیت کے بغیر زندہ نہیں رہ سکی۔ اس پیش گوئی کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں ؟
جواب: میرا خیال ہے کہ مغربی تہذیب نے آزادی اور حریت کو اپنی بنیادی اقدار قرار دینے سے یہ سامان کر لیا ہے کہ وہ پوری طرح منہدم ہونے کے بجائے نیا قالب اختیار کر لے۔ یہ اقدار اگر کسی وقت مجروح ہوئیں تو پھر یہ پیش گوئی کی جا سکتی ہے ۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر مسلمان صحیح جگہ پر کھڑے ہو کر اپنا دین پیش کریں اور انقب کے بجائے اصح کا پیغمبرانہ طریقۂ دعوت اختیار کریں تو مغربی تہذیب کو اس کے باطن میں مفتوح کیا جا سکتا ہے۔ لیکن کیا مسلمان اس جگہ پر کھڑے ہو جائیں گے ؟ مجھے اندیشہ ہے کہ شاید یہ خواب شرمندۂ تعبیر نہ ہو سکے۔ اس طرح یہ بات بھی سمجھ لینی چاہیے کہ کسی تہذیب کا انہدام اس کے مقابل میں برتر اخلاقی اقدار کی حامل تہذیب کے وجود پذیر ہوئے بغیر نہیں ہوتا۔ لہٰذا سوال یہ ہے کہ کیا کسی برتر تہذیب کے وجود پذیر ہونے کے امکانات پیدا ہو گئے ہیں ؟ میرا خیال ہے کہ یہ امکانات ابھی کہیں دور دور بھی نظر نہیں آ رہے، اس لیے کسی انہدام کی بھی کوئی پیش گوئی نہیں کی جا سکتی۔
سوال: مغرب میں ایک طرف بے لگام آزادی ہے اور دوسری جانب نکاح کے قوانین اتنے پیچیدہ ہیں کہ لوگ نکاح کے بغیر ہی ازدواجی تعلق قائم کر کے اسے زندگی بھر نبھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ کیا اسلام اس مسئلے کا کوئی حل پیش کرتا ہے ؟
جواب: مغربی تہذیب کی بڑی غلطیوں میں سے ایک غلطی عائلی زندگی کے بارے میں خدا کی بنائی ہوئی فطرت سے انحراف ہے ۔ میرا خیال ہے کہ اگر ہم سلیقے کے ساتھ اور دلائل کی بنیاد پر اپنی بات پیش کریں تو مغرب ہماری بات لازماً سنے گا۔ ہمیں جس طرح اجتماعی زندگی سے متعلق اس کے تجربات کو خوش دلی سے قبول کرنا چاہیے اور اس کے روشن پہلوؤں کو اپنی متاعِ گم گشتہ سمجھنا چاہیے، اسی طرح مغرب سے بھی ہم یہ توقع کرتے ہیں کہ وہ اب ردِ عمل کی نفسیات سے نکل کر اس معاملے میں ہماری بات سننے کے لیے تیار ہو جائے۔
سوال: موجودہ زمانے میں مغرب کی طرف سے اسلام پر جو بڑا الزام عائد کیا جاتا ہے وہ دہشت گردی کا ہے۔ یہ الزام کس حد تک درست ہے ؟ کیا مغرب بذاتِ خود بین الاقوامی دہشت گردی میں ملوث نہیں ؟
جواب: میں یہ سمجھتا ہوں کہ ہمارے ہاں لوگوں پر بالجبر اپنا نقطۂ نظر ٹھونس دینے کے بعض علم برداروں نے یہ تاثر پیدا کیا ہے۔ مسلمانوں کی بڑی اکثریت اگرچہ اس کے خلاف ہے لیکن اس کی خاموشی کی وجہ سے یہی تاثر نمایاں ہو گیا ہے۔ ہمیں اس تاثر کو پوری قوت سے دور کرنا چاہیے اور اس میں الزامی جواب کا یہ طریقہ کہ مغرب بھی یہی کرتا ہے، ہرگز اختیار نہیں کرنا چاہیے۔ دنیا میں امن، سلامتی، آزادی، حریت اور بنی آدم کی وحدت ہماری اقدار ہیں۔ ہمیں اس پر خوش ہونا چاہیے کہ مغرب ان اقدار کی اہمیت کو تسلیم کرتا ہے۔ ہمیں اہلِ مغرب کو بتانا چاہیے کہ اس وقت دہشت گردی کے حوالے سے جو کچھ اسلام کے نام پر سامنے آ رہا ہے، وہ اسلام کی غلط تعبیر ہے اور اس کے خاتمے کے لیے ہم مغرب کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر جدوجہد کر سکتے ہیں۔
سوال: آپ کی گفتگو سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ مغرب کے بارے میں نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟
جواب: میرے دل میں ہر اچھی چیز کے لیے تحسین ہوتی ہے خواہ وہ چیز اپنی ہو یا مغرب کی۔ میں طبعاً کسی چیز کے اچھے پہلوؤں کو دیکھنا پسند کرتا ہوں ۔ مجھے ہمیشہ شہد کی مکھی پسند رہی ہے جو پھولوں پر بیٹھتی اور ان کے رس نکال کر آتی ہے، غلاظت پر بیٹھنے والی مکھی کو میں کبھی پسند نہیں کیا کرتا۔
سوال: ایک داعیِ اسلام کی حیثیت سے آپ فرمائیے کہ اکیسویں صدی کے آغاز کے موقع پر ہمیں اسلام کی دعوت کو کن بنیادوں پر استوار کرنا چاہیے ؟
جواب: وحدتِ الہ ٰ وحدتِ آدم اور مسلمہ اخلاقی اساسات کا احترام، یہی ہمیشہ سے اسلام کی دعوت رہی ہے ۔ وہ ان مسلمات کو عقیدۂ آخرت کی بنا پر استوار کرتا ہے، میرے نزدیک، اسلام کو ایک نظام کے بجائے انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کے تزکیے کی دعوت کے طور پر پیش کرنا چاہیے۔ یہی اس کا حقیقی تعارف ہے۔ ہمیں دنیا بھر میں اپنے مخاطبین سے جو تعلق قائم کرنا چاہیے وہ داعی اور مدعو کا تعلق ہے۔ یہ تعلق محبت، مکالمے اور حسنِ آداب کا تعلق ہے ۔ تصادم، غلبہ، تفوق، سازش، جبر اور اس طرح کے دوسرے الفاظ کو مذہبی لغت سے ہمیشہ کے لیے نکال دینا چاہیے۔ موجودہ حالات میں ہمارے لیے بہترین اسوہ یروشلم میں سیدنا مسیح علیہ السلام اور مکہ میں پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت ہے۔ انجیل نے پہاڑی کے وعظ اور قرآن نے مکیات میں اس کو نہایت خوبی کے ساتھ بیان کیا ہے ۔
ہمیں جس رویے کو لازماً اختیار کرنا چاہیے وہ ظلم کے مقابلے میں صبر اور اعراض کا رویہ ہے نہ کہ بدلے، تعاقب اور انتقام کا رویہ۔ محبت کی زبان میں ، حسنِ آداب کی رعایت کے ساتھ اور مخاطب کی نفسیات کا پورا لحاظ کرتے ہوئے ہمیں دنیا کو یہ بتانا ہے کہ انسانوں کا تنہا معبود اللہ پروردگارِ عالم ہے، وہ ایک آدم و حوا کے بیٹے ہیں، ان کے درمیان رنگ و نسل اور قوم و وطن کی بنیاد پر کوئی تفریق روا نہیں رکھی جا سکتی ، اور انھیں دنیا و آخرت میں کامیابی کے لیے ایک ہی راہ اختیار کرنی ہے اور وہ حسنِ عمل کی راہ ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اس دعوت سے زیادہ اعلیٰ کوئی چیز انسانیت کے پاس اس وقت بھی موجود نہیں ہے۔ آنے والا زمانہ بھی اس سے بہتر کوئی چیز وجود میں نہ لا سکے گا۔ یہی دعوت ہے جو انسانیت کو ایک عالم گیر تمدن کے نصب العین تک پہنچا سکتی ہے۔
____________