وعن عبداللہ بن عمرو قال : قال رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم : الکبائر : الإشراک باللہ ، و عقوق الوالدین ، و قتل النفس ، و الیمین الغموس.
و فی روایة أنس : وشھادة الزور بدل الیمین الغموس.
’’ حضرت عبداللہ بن عمرو بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : بڑے گناہ: اللہ کے ساتھ شرک ، والدین کی حق تلفی ، قتل نفس اور جھوٹی قسم ہیں ۔‘‘
’’ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی روایت میں ’جھوٹی قسم‘ کے بجائے ’جھوٹی گواہی‘ کے الفاظ ہیں ۔‘‘
عقوق : لفظی معنی کاٹ دینا یا پھاڑ دینا کے ہیں ۔ اس اعتبار سے یہ ایک جامع لفظ ہے ۔ یہاں اس سے والدین کی نافرمانی ، ان کے ساتھ عدم شفقت و مؤدت اور ان کا استخفاف سارے پہلو مراد ہیں ۔
الغموس : مصیبت میں ڈالنے والی ۔ یہ لفظ قسم کے انجام کے حوالے سے ہے ۔ محاورے میں یہ وہ جھوٹی قسم ہے جو کوئی آدمی کسی دوسرے کا مال ہتھیانے کے لیے کھاتاہے ۔ایک روایت کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ’الیمین الغموس‘ کے معنی پوچھے گئے تو آپ نے فرمایا : ’الذی یقتطع مال امرئ مسلم ھو فیھا کاذب‘۔ ( وہ جوقسم کھا کر کسی مسلمان کا مال حاصل کر لیتا ہے ، حالانکہ وہ اس میں جھوٹا ہوتا ہے ۔)
الزور: جھوٹی ، بے بنیاد ۔
یہ روایت بہت سے طرق سے نقل ہوئی ہے ۔ اس کے الفاظ میں بھی فرق ہے ۔ بعض فرق اس نوعیت کے ہیں کہ وہ ایک الگ روایت معلوم ہوتی ہے ۔ قرین ِ قیاس یہی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات متعدد مرتبہ فرمائی تھی ۔بہرحال ایک روایت کے مطابق آپ نے یہ باتیں کبائر کے بارے میں کیے گئے سوال کے جواب میں کہیں تھیں ۔ ایک روایت کے مطابق آپ نے ’ھن سبع‘(یہ سات ہیں ) کبائر کی تعداد بھی بیان کی تھی ۔ ایک روایت میں’عقوق الوالدین‘کا ذکر نہیں ہے ۔اور ایک دوسری روایت میں ’فرار یوم الزحف‘(میدان ِ جنگ سے فرار) کو کبائر میں شمار کیا گیا ہے ۔ایک روایت میں بتایا گیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جھوٹی گواہی والی بات کو اتنی مرتبہ دہرایا کہ لوگ حضور کے خاموش ہونے کی خواہش کرنے لگے۔ اس سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی متنبہ کرنے کی شدید تمنا کا اندازہ ہوتا ہے ۔ ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے اسے کبیرہ گناہوں میں سے سب سے بڑا گناہ قرار دیا تھا۔ علاوہ ازیں روایت کے متون میں لفظی فرق ہیں ایک روایت میں ساری باتیں مکالمے کے اسلوب میں بیان کی گئی ہے اور بعض متون میں ترتیب بیان کا فرق بھی ہے ۔ مسندِ احمد کی ایک روایت میں جھوٹی قسم کی شناعت کو اس اسلوب سے واضح کیا گیا ہے :
وما حلف حالف باللہ یمینا صبرا فأدخل فیھا مثل جناح بعوضة الا جعله اللہ نکتة فی قلبه الی یوم القیامة. (حدیث عبداللہ بن انیس)
’’جھوٹی قسم کھانے والا پکی قسم کھاتا ہے ، پھر اس سے مچھر کے پر کے برابر فائدہ اٹھاتا ہے تو اس کا نتیجہ اس کے سوا کچھ نہیں نکلتا کہ اللہ تعالیٰ اسے اس کے دل پر قیامت تک کے لیے ایک نکتہ بنا دیتے ہیں ۔ ‘‘
شرک کے حوالے سے ہم اوپر بحث کر چکے ہیں ۔اسی طرح قتلِ نفس کا معاملہ بھی اوپر بیان ہو چکا ہے اس روایت میں عقوق الوالدین ، شہادت زور اور یمین غموس تین چیزیں زائد ہیں ۔ یہ تینوں امر بھی اپنی اساس میں اخلاقی برائیوں کے دائرے سے متعلق ہیں ۔ قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ کے حق کے بعد والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کا حکم دیا گیا ہے ۔ حسنِسلوک در حقیقت محبت ، شفقت ، عزت و احترام اور فرماں برداری سے عبارت ہے۔ ان چیزوں کی جب نفی ہو جاتی ہے تو اس کے عقوق کی تعبیر ہی سب سے زیادہ موزوں تعبیر ہے ۔ جھوٹی قسم کھا کر دوسرے کا مال ہتھیا لینا یا حاکم کے سامنے کسی واقعے کی جھوٹی گواہی دینا ایک ہی نوعیت کے عمل کی دو صورتیں ہیں ۔ حلف اٹھانا ایک غیر معمولی واقعہ ہے ۔ ہر مسلمان کو ہر حال میں سچ بولنا چاہیے ۔ لیکن جب وہ کسی معاملے میں خدا کو گواہ بنا کر کوئی بات کہے تو اسے غیر معمولی محتاط ہونا چاہیے ۔ جھوٹ بولنا ویسے ہی ایک قبیح جرم ہے ، کجا یہ کہ آدمی قسم کھا کر یہ جرم کرے ۔ اس کے اسی پہلو کو سامنے رکھتے ہوئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اکبر الکبائر قرار دیا ہے ۔قرآنِ مجید سے معلوم ہوتا ہے کہ سچی بات کہنا اور سچی گواہی دینا ایمان کے تقاضوں میں سے ایک تقاضا ہے ۔ قرآنِ مجید میں بیان ہوا ہے کہ اہلِ ایمان کو قائم بالقسط ہونا چاہیے خواہ اس کی زد ان کے اپنے اوپر پڑتی ہو ، ان کے خاندان کے اوپر پڑتی ہو یا ان کی قوم کے اوپر پڑتی ہو ۔ قرآنِ مجید اہلِ ایمان سے جس کردار کا تقاضا کرتا ہے یہ دونوں جرم اس کی بالکلیہ نفی کر دیتے ہیں ۔ جب یہ ہمارے ایمان کا تقاضا ہے تو پھر اس سے انحراف لاریب کبیرہ گناہ ہے ۔
بخاری ،کتاب الشہادات ،باب ۱۰۔ کتاب الایمان ، باب ۱۶۔کتاب الدیات ، باب ۲۔کتاب استتابۃ المرتدین ، باب ۱۔مسلم ، کتاب الایمان ، باب ۳۸۔ترمذی ، کتاب البیوع ، باب ۳۔ کتاب تفسیر القرآن ، باب ۵۔نسائی ، کتاب تحریم الدم ، باب ۳۔ کتاب القسامۃ ، باب ۴۷۔مسندِاحمد ، مسند ِعبداللہ بن عمرو بن العاص۔مسند ِانس بن مالک ۔ حدیث عبداللہ بن انیس ۔
___________