HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : طالب محسن

بڑے گناہ

(مشکوٰۃ المصابیح، حدیث: ۴۹ - ۵۰) 

 

عن عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنه قال : قال رجل : یا رسول اللہ، أی الذنب أکبر عند اللہ؟ قال : أن تدعوا للہ ندا وھو خلقک. قال : ثم أی ؟ قال : أن تقتل ولدک خشیة أن یطعم معک. قال: ثم أی ؟ قال : أن تزانی حلیلة جارک. فأنزل اللہ تعالیٰ تصدیقھا:
وَالَّذِيْنَ لَا يَدْعُوْنَ مَعَ اللّٰهِ اِلٰهًا اٰخَرَ وَلَا يَقْتُلُوْنَ النَّفْسَ الَّتِيْ حَرَّمَ اللّٰهُ اِلَّا بِالْحَقِّ وَلَا يَزْنُوْنَ[1]….
 ’’ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے رسول اللہ سے پوچھا:اللہ کے نزدیک سب سے بڑا گناہ کون سا ہے ؟آپ نے فرمایا : یہ کہ تو اللہ کے لیے کسی کو ہم سر بنا کر پکارے حالانکہ اس نے تمہیں پیدا کیا ہے۔ اس نے پوچھا : اس کے بعد کون سا ؟ آپ نے فرمایا : یہ کہ تو اپنی اولاد کو اس اندیشے کی بنا پر قتل کردے کہ وہ تیرے ساتھ کھائے گی۔ اس نے پوچھا : اس کے بعدکون سا؟ آپ نے بتایا: یہ کہ تو ہمسائے کی بیوی سے زنا کرے۔آپ کی اس بات کی تصدیق قرآن میں نازل ہوئی ہے : ’’وہ لوگ اللہ کے ساتھ کسی دوسرے الٰہ کو نہیں پکارتے، اور نہ کسی جان کو جسے اللہ نے حرام ٹھیرایا ہے بغیر حق کے قتل کرتے ہیں ، نہ زنا کرتے ہیں …‘‘

لغوی بحث

ندا : مثیل و نظیر یعنی وہ جسے خدا جیسی صفات یا قدرت حاصل ہے۔

تزانی : ’زنی‘ اور ’ زانی‘ ہم معنی ہیں ۔ یعنی ناجائز تعلق قائم کرنا۔ہمسائی کے ساتھ تعلق کی مناسبت سے باب مفاعلہ زیادہ موزوں ہے۔

حلیلة :ساتھ رہنے والی، یعنی بیوی۔ یہاں زوجہ کے بجائے اس لفظ کے استعمال میں ایک بلاغت بھی ہے اور وہ یہ کہ اس کے معنی جائز کے بھی ہیں یعنی وہ جو تمھارے ہمسائے کے لیے جائزتھی،تم نے اس کے ساتھ ناجائز تعلق استوار کیا۔

تصدیق: سچا قرار دینا، کسی امر کا درست ثابت ہونا، وہ شے جس سے کوئی دوسری شے درست ثابت ہوتی ہے۔ اس حدیث میں اور قرآنِ مجید میں یہ بالعموم تیسرے معنی میں آیا ہے۔

متون

حدیث کی متعدد کتب میں یہ روایت الفاظ کے معمولی تغیر کے ساتھ نقل ہوئی ہے۔ مثلا ’ اکبر ‘کی جگہ ’اعظم ‘،’خشیة‘ کے بجائے ’مخافة‘ یا ’من اجل ‘،’أن یطعم‘ کے بدلے’ أن یأکل‘ یا ’فقر‘ اور ’ثم أی ‘ کے مقام پر ’ثم ماذا‘ کے الفاظ آئے ہیں ۔علاوہ ازیں سوال و جواب میں ترتیب کا فرق بھی ہے اور اسی طرح بعض متون کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے ہی سوال کے جواب میں تینوں باتیں ایک ترتیب سے بتادی تھیں ۔بظاہر یہ بات خلافِ قرائن ہے۔ایک روایت کے مطابق سائل کے دریافت کرنے پرجب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے شرک کو سب سے بڑا جرم قرار دیا تو سائل نے ’ان ذلک عظیم‘ کہہ کر اپنے تأثر کا اظہار بھی کیا تھا۔

البتہ ان متون میں دو فرق زیادہ توجہ کا تقاضا کرتے ہیں ۔ ایک یہ کہ یہ سوال کس نے کیے تھے۔ صاحبِ مشکوٰۃ کے دیے ہو متن کے مطابق یہ سوالات حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے بجائے کسی اور آدمی نے کیے تھے۔ لیکن بخاری، مسلم اور احمد کے بعض متون سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ سوالات خود حضرت عبداللہ بن مسعود نے کیے تھے۔ یہ معلوم کرنا مشکل ہے کہ اصل صورت حال کیا تھی، لیکن اس سے یہ بات بہرحال واضح ہوتی ہے کہ روایت مختلف نسلوں سے ہوتی ہوئی بعض بنیادی تبدیلیوں کا شکار ہو جاتی ہے۔ دوسرا پہلو اس سے بھی زیادہ اہم ہے۔مشکوٰۃکے متن سے متبادر ہوتا ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سوالات کے جواب میں یہ حقائق بیان کیے تو اللہ تعالیٰ نے اس کی تصدیق فرماتے ہوئے محولہ آیت مبارکہ نازل کی۔جبکہ بعض متون سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ جواب دینے کے بعد یہ آیت بطورِ استشہاد تلاوت کی۔ یہ دوسری بات ہی درست معلوم ہوتی ہے۔ حضور کے اسی طرح کے استشہادات روایت میں بسا اوقات شانِ نزول کی صورت اختیار کر لیتے ہیں ۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ بعض راویوں نے نزول آیت یا تلاوت آیت والا حصہ روایت ہی نہیں کیا۔

ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمسائے کی بیوی کے ساتھ ناجائز تعلق کے درجہ ٔ جرم کو بیان کیا تو کسی نے کسی کے اسی طرح کے تعلق کو بیان کرنے کی کوشش کی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے روک دیا۔ اس سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پردہ پوشی کے رویے کا اندازہ ہوتا ہے۔اس کے برعکس ہمارا معاملہ یہ ہے کہ جب ہمارے سامنے کسی کے عیوب بیان کیے جائیں تو ہم اس سے آگاہ ہونے کے حریص بن جاتے ہیں ۔

معنی

اس روایت میں تین کبیرہ گناہوں کا ذکر کیا گیا ہے۔کبیرہ گناہ کا تصورسورۂ نجم کی آیت ۳۲ سے ماخوذ ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :

وَلِلّٰهِ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِﶈ لِيَجْزِيَ الَّذِيْنَ اَسَآءُوْا بِمَا عَمِلُوْا وَيَجْزِيَ الَّذِيْنَ اَحْسَنُوْا بِالْحُسْنٰي. اَلَّذِيْنَ يَجْتَنِبُوْنَ كَبٰٓئِرَ الْاِثْمِ. وَالْفَوَاحِشَ اِلَّا اللَّمَمَ، اِنَّ رَبَّكَ وَاسِعُ الْمَغْفِرَةِ.(۵۳: ۳۱ -  ۳۲)
   ’’اللہ ہی کے اختیار میں ہے جو کچھ آسمان میں ہے اور زمین میں ہے کہ وہ بدلہ دے ان لوگوں کو جنھوں نے برے کام کیے، ان کے کام کا اور بدلہ دے ان لوگوں کو جنھوں نے اچھے کام کیے ہیں اچھا۔ یعنی ان لوگوں کوجو بڑے گناہوں اور کھلی بے حیائی سے بچے رہے مگریہ کہ کبھی کسی برائی سے آلودہ ہو گئے۔ سو تیرے رب کا دامنِ مغفرت بہت وسیع ہے۔‘‘

سائل کے ذہن میں آنے والا سوال ممکن ہے اسی آیت کے الفاظ کی توضیح کے لیے ہو۔ اور آپ نے قرآنِ مجید ہی کی ایک آیت کو سامنے رکھ سوال کا جواب بھی دیا اور پھر وہ آیت بھی پڑھ دی۔ آیت کے الفاظ ہیں:

وَالَّذِيْنَ لَا يَدْعُوْنَ مَعَ اللّٰهِ اِلٰهًا اٰخَرَ، وَلَا يَقْتُلُوْنَ النَّفْسَ الَّتِيْ حَرَّمَ اللّٰهُ اِلَّا بِالْحَقِّ وَلَا يَزْنُوْنَ، وَمَنْ يَّفْعَلْ ذٰلِكَ يَلْقَ اَثَامًا. يُّضٰعَفْ لَهُ الْعَذَابُ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ وَيَخْلُدْ فِيْهٖ مُهَانًا. اِلَّا مَنْ تَابَ وَاٰمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا، صَالِحًا فَاُولٰٓئِكَ يُبَدِّلُ اللّٰهُ سَيِّاٰتِهِمْ حَسَنٰتٍ، وَكَانَ اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا.                            (الفرقان ۲۵ : ۶۸ - ۷۰)
   ’’ وہ لوگ اللہ کے ساتھ کسی دوسرے الہٰ کو نہیں  پکارتے ، اور نہ کسی جان کو جسے اللہ نے حرام ٹھیرایا ہے بغیر حق کے قتل کرتے ہیں ، نہ زنا کرتے ہیں ، جو یہ کرتا ہے وہ اپنے گناہوں کے انجام سے دوچار ہوگا، قیامت کے دن اس کے عذاب میں درجہ بدرجہ اضافہ کیا جائے گا اور وہ اس میں خوار ہو کر ہمیشہ رہے گا۔ مگر وہ جو توبہ کرلیں گے، ایمان لائیں گے اور عمل صالح کریں گے تو اللہ ان کی برائیوں کو نیکیوں سے بدل دے گا۔ اور اللہ بڑا بخشنے والامہربان ہے۔‘‘

ہلی آیت میں ’الذین احسنوا‘ کی وضاحت کبائر اور فواحش سے اجتناب سے کی گئی ہے۔دوسری آیت میں ان بڑے جرائم کی نشان دہی کی گئی ہے جو کبائر اور فواحش میں سرِعنوان کی حیثیت رکھتے ہیں ۔یہ جرائم تین ہیں ۔ ایک شرک، دوسرا قتل اور تیسرا زنا ہے۔یہ تینوں جرم انسان کے اپنے اخلاقی وجود سے انحراف کا مظہر ہیں ۔ انسان اگر اپنی تخلیق اور اپنے وجود پر غور کرے تو اس پر عائد ہونے والاسب سے بڑا حق بندگی کا حق ہے۔ اور جو ذات اس کا استحقاق رکھتی ہے وہ ایک ہی ذات پروردگارِ عالم کی ذات ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس حق کے ادا کرنے میں شرک کی غلطی کو سب سے بڑا گناہ قرار دیا گیا ہے۔

اسی طرح انسان کے انسان سے تعلق پر غور کریں تو اس میں بھی سب سے بڑا جرم دوسرے کی جان کے خلاف تعدی ہی قرار پائے گا۔ چنانچہ انسان کے انسان کے خلاف جرم میں اسی کو پہلے جرم کی حیثیت سے بیان کیا گیا ہے۔ یہ جرم ایک طرف ایک انسان کی دوسرے انسان سے ہمدردی اور مؤدت کے بنیادی اخلاقی تقاضے کی نفی ہے تو دوسری طرف انسان کو انسان کے شرف سے محروم کرکے اسے درندوں کی صف میں شامل کر دیتا ہے۔ اس ضمن کا دوسرا جرم زنا ہے۔ زنا بھی جہاں ایک طرف ایک انسان کی دوسرے انسان کی عزت و ناموس کے خلاف تعدی ہے وہاں اس کی فطرت میں موجود حیا اور وفا کے پاکیزہ جذبوں کی نفی ہے۔ اور ان دونوں پہلوؤں سے یہ لا ریب تیسرا بڑا جرم بنتا ہے۔

اس روایت سے یہ معنی نہیں اخذ کرنے چاہییں کہ صرف یہی تین گناہ کبیرہ گناہ ہیں ۔ دوسری روایات اور قرآنِ مجید کے مطالعے سے اور جرائم بھی اس فہرست میں شامل کیے جاسکتے ہیں ۔ سائل چونکہ سب سے بڑاگناہ ؟ اس کے بعد ؟ اس کے بعد؟ کے سوال ہی پر خاموش ہوگیا تھا، لہٰذا جواب بھی تین جرائم تک محدود رہا۔ اگر بات آگے بڑھتی تو آپ یقیناً دوسرے جرائم کا بھی ذکر کرتے۔

اس روایت کے فہم میں ایک نکتہ اس کے اسلوب کے فہم سے بھی متعلق ہے۔ آپ نے سب سے بڑے جرم کو بیان کرتے ہوئے صرف یہ نہیں فرمایا : ’أن تدعوا للہ ندا‘ کہ تو اللہ کے ساتھ کسی کو ہم سر قرار دے۔ بلکہ اس کی شناعت کو بیان کرنے کے لیے ’و ھو خلقک‘ کے پہلو کو بھی بیان کیا ہے۔ اسی طرح قتل کے جرم کو بیان کرنے کے لیے اولاد کے قتل اور وہ بھی تنگ دستی کے خوف سے قتل کے پہلو کو نمایاں کیا ہے۔ اس کا مطلب بھی یہ نہیں ہے کہ کسی عام انسان کا قتل ایک کمتر جرم ہے۔ بلکہ اس سے قتل کی قبیح ترین مثال کو سامنے رکھ کر اس کی برائی کو دل میں اتار دینا مقصود ہے۔ یہی اسلوب زنا کے معاملے میں اختیار کیا گیا ہے۔ زنا کسی بھی عورت سے کیا جائے وہ ایک بڑا گناہ ہے۔ لیکن اس کی سب سے بری صورت یہ ہے کہ آدمی اپنے ہمسائے کی بیوی کے ساتھ یہ تعلق استوار کرے۔ جس طرح شرک اس بات کا ثبوت ہے کہ آدمی کائنات کی سب سے بڑی حقیقت کو پانے سے محروم ہے اور یہ امر اس کے حقیقی بصیرت سے محروم ہونے پر دلیل ہے۔ اسی طرح اپنی اولاد کا قتل دل کے شقی ہونے کا ثبوت ہے اور ہمسائی کے ساتھ ناجائز تعلق اخلاقی گراوٹ کا ثبوت۔

اس روایت میں قرآنِ مجید کی ایک آیت سے بھی استشہادکیا گیاہے۔ لیکن راوی نے اسے موقع نزول بنا دیا ہے۔ راوی کی اس بات کو درست قرار دینا ممکن نہیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان جرائم کا ذکر قرآنِ مجید میں متعدد مقامات پر ہوا ہے۔ صرف یہی مقام نہیں ہے،جہاں یہ بات بیان ہوئی ہے، مکیات ہوں یا مدنیات ان جرائم کی شناعت کو بار بار واضح کیا گیا ہے۔ چنانچہ یہ ماننا ممکن نہیں کہ حضور نے پہلی مرتبہ یہ بات بیان کی ہو اور پھر اس کی تصدیق نازل ہوئی ہو۔راوی کی غلطی دوسرے طرق سے واضح بھی ہو جاتی ہے۔ بعض طرق میں ’فأنزل اللّٰہ تصدیقھا‘ کے بجائے ’ثم تلا ‘یا ’قرأ‘کے الفاظ بھی آئے ہیں اور یہی درست ہیں ۔دل چسپ بات یہ ہے کہ نسائی کی ایک روایت کے مطابق یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بجائے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے پڑھی تھی۔

کتابیات

بخاری، کتاب تفسیر القرآن، باب ۶، باب ۲۳۶۔ کتاب الادب،باب ۲۰۔ کتاب الحدود، باب ۲۰۔ کتاب الدیات، باب ۱۔ کتاب التوحید، باب ۴۰،باب ۴۶۔ مسلم، کتاب الایمان، باب ۳۷۔ترمذی، کتاب تفسیرالقرآن، باب ۲۶۔ نسائی، کتاب تحریم الدم، باب ۴۔ ابو داؤد، کتاب الطلاق، باب ۵۰۔ مسند احمد، مسند عبداللہ بن مسعود۔

___________

[1]۔ الفرقان ۲۵: ۶۸-۷۰۔

B