بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
(گذشتہ سے پیوستہ)
قُلْ مَنْ كَانَ عَدُوًّا لِّجِبْرِيْلَ فَاِنَّهٗ نَزَّلَهٗ عَلٰي قَلْبِكَ بِاِذْنِ اللّٰهِ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ وَهُدًي وَّبُشْرٰي لِلْمُؤْمِنِيْنَ ٩٧ مَنْ كَانَ عَدُوًّا لِّلّٰهِ وَمَلٰٓئِكَتِهٖ وَرُسُلِهٖ وَجِبْرِيْلَ وَمِيْكٰىلَ فَاِنَّ اللّٰهَ عَدُوٌّ لِّلْكٰفِرِيْنَ ٩٨
(قرآن کی د شمنی میں اب یہ جبریل کے بھی دشمن ہو گئے ہیں)۔ اِن سے کہہ دو : جو لوگ جبریل کے د شمن ہیں، (وہ درحقیقت اللہ کے دشمن ہیں[233])، اس لیے کہ اُس نے تو (اے پیغمبر)، اِسے اللہ کے اذن ہی سے تمھارے قلب پرنازل کیا
ہے[234]، اُن پیشین گوئیوں کی تصدیق میں جو اِس سے پہلے موجود ہیں، اور اُن لوگوں کے لیے ہدایت اور بشارت کے طور پر جو ایمان والے ہیں[235]۔(اِنھیں معلوم ہونا چاہیے کہ) جو اللہ اور اُس کے فرشتوں اور اُس کے رسولوں اور جبریل اور
میکائیل [236] کے دشمن ہیں، تو اللہ بھی ایسے کافروں کا دشمن ہے[237]۔۹۷- ۹۸
وَلَقَدْ اَنْزَلْنَا٘ اِلَيْكَ اٰيٰتٍۣ بَيِّنٰتٍﵐ وَمَا يَكْفُرُ بِهَا٘ اِلَّا الْفٰسِقُوْنَ ٩٩ اَوَكُلَّمَا عٰهَدُوْا عَهْدًا نَّبَذَهٗ فَرِيْقٌ مِّنْهُمْﵧ بَلْ اَكْثَرُهُمْ لَا يُؤْمِنُوْنَ ١٠٠
اور (اِس قرآن کی صورت میں، اے پیغمبر) ہم نے تم پر نہایت واضح دلیلیں اتاری ہیں، اور حقیقت یہ ہے کہ اُنھیں صرف اِس طرح کے نافرمان ہی نہیں مانتے۔ کیا یہی ہوتا رہے گا کہ یہ جب کوئی عہد باندھیں گے ، اِن میں سے ایک گروہ اُسے اٹھا کر پھینک دے گا؟ بلکہ اِن میں سے اکثر تو حق یہ ہے کہ ایمان ہی نہیں رکھتے[238]۔ ۹۹- ۱۰۰
[233]۔ یہ الفاظ اُس اسلوب کا تقاضا ہیں، جو اِس آیت میں جوابِ شرط کے لیے اختیارکیاگیا ہے۔
[234]۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہود اس معاملے میں حماقت کی اس حد تک پہنچ گئے تھے کہ قرآن کی دشمنی میں انھوں نے جبریل علیہ السلام کو بھی محض اس لیے اپنا دشمن قرار دے دیا کہ انھوں نے یہ وحی محمدصلی اللہ علیہ وسلم پر کیوں اتاری ہے، ان کے کسی آدمی پر کیوں نہیں اتاری۔
[235]۔ قرآن کے بارے میں اس تفصیل سے مقصود یہود پر یہ واضح کرنا ہے کہ ان کی مخالفت صرف قرآن ہی کی مخالفت نہیں ہے، بلکہ ان کی اپنی کتاب کی مخالفت ہے جس کی پیشین گوئیوں کے مطابق یہ نازل ہوا ہے اور محض ایک کتاب کی مخالفت نہیں ہے، بلکہ اس ہدایت اور بشارت کی مخالفت ہے جو اُن کے پروردگار کی طرف سے ان کے پاس آئی ہے۔
[236]۔ عام فرشتوں کا ذکر کرنے کے بعد یہ جبرئیل اور میکائیل کا ذکر اسی طرح ہوا ہے، جس طرح عام کے بعد خاص کا ذکر ہوتا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ فرشتوں میں یہ دونوں اللہ تعالیٰ کے ہاں خصوصی حیثیت کے حامل ہیں۔
[237]۔ اس سے واضح ہوا کہ جبریل کی مخالفت تنہا جبریل کی مخالفت نہیں ہے، بلکہ خود اللہ تعالیٰ اُس کے تمام فرشتوں اور تمام رسولوں کی مخالفت ہے۔ پھر یہ بھی واضح ہوا کہ اللہ، اس کے فرشتوں اور اس کے پیغمبروں کی مخالفت ایک بدترین کفر ہے اور اس مخالفت کا یہ نتیجہ بھی سامنے آ گیا کہ اللہ بھی ایسے کافروں کا دشمن ہے۔ اس کے بعد ظاہر ہے کہ یہ کہنے کی ضرورت باقی نہیں رہی کہ جو لوگ اللہ کو اپنا دشمن بنا لیں، ان سے زیادہ بدبخت کون ہو سکتا ہے۔ قرآن کے ایجازِ بیان نے ان سب باتوں کو اس طرح سمیٹ دیا ہے کہ بات وہاں پہنچ بھی گئی ہے، جہاں اسے پہنچنا چاہیے تھا اور مخاطبین کے لیے اس سے انکار کی کوئی گنجایش بھی پیدا نہیں ہونے پائی ہے۔
[238]۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی آخری کتاب اور آخری پیغمبر کے بارے میں جو عہد یہود سے لیا تھا، اس سے ان کے گریز و فرار کا ذکر کرنے کے بعد یہ باندازِ تعجب و اظہارِ حسرت فرمایا ہے کہ کیا ان کی یہی روش ہمیشہ باقی رہے گی۔
[باقی]
ـــــــــــــــــــــــــ