HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف :

قحط، بے حسی اور ظلم

محمد بلال 


وطنِ عزیز کے بھوکے پیاسے قحط زدہ ، بلکہ آفت زدہ علاقوں میں موت اور بیماری نے جس قدر شدید حملہ کر رکھا ہے ، افسوس ہے کہ اہلِ پاکستان اس کو پوری سنگینی کے ساتھ محسوس نہیں کر رہے ۔

 غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس بے حسی کے کئی اسباب ہیں۔ ان میں سے ایک سبب یہ ہے کہ ذرائع ابلاغ اس معاملے میں اپنا کردار صحیح طریقے سے ادا نہیں کر رہے۔ ٹی وی پر تفریحِ طبع کے پروگرام پوری رنگینیوں کے ساتھ جاری ہیں۔ خبرنامہ جب بھی قحط کے حوالے سے بات کرتا ہے تو زیادہ وقت امدادی کاموں کو دکھانے میں صرف کرتا ہے ۔ اس سے لوگ یہ تاثر لیتے ہیں کہ اگرچہ قحط زدہ علاقوں میں لوگ سنگین مسائل کا شکار ہیں، مگر امدادی کام بہت ہو رہے ہیں۔اس لیے پریشان ہونے اور اپنے طور پر کچھ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

اخبارات میں فلمی اداکاراؤں اور عالمی مقابلۂ حسن میں شریک خواتین کی تصویریں پوری آب و تاب کے ساتھ شائع ہو رہی ہیں جو لوگوں کو ذہنی طور پر ایک اور ہی دنیا میں لے جا رہی ہیں ۔

 بلاشبہ انسان فطری طور پر خیر اور خیر کے کاموں کو پسند کرتا ہے۔ مگر اس کا مسئلہ یہ ہے اس پر نسیان طاری ہو جاتا ہے۔ وہ مانی ہوئی باتیں بھول جاتا ہے۔ اس لیے اسے بار بار خیر کی طرف مائل کرنے کے لیے یاددہانی کی ضرورت پڑتی ہے۔ قرآنِ مجید کو بھی اللہ تعالیٰ نے اسی پہلو سے یاددہانی قرار دیا ۔ 

ذرائع ابلاغ کو چاہیے کہ وہ ’’فن کی خدمت‘‘ پر انسانیت کی خدمت کو ترجیح دیں۔ مختلف اسالیب میں بار بار ــــــ  جی ہاں بار بار  ــــــ  لوگوں کی توجہ قحط زدہ انسانوں کے مسائل کی جانب مبذول کریں۔ انھیں ان علاقوں پر نازل ہونی والی آفت سے پوری سنگینی کے ساتھ آگاہ کریں۔ انسانی لاشیں اور جانوروں کے پنجر دکھائیں۔ ویران اور سنسان آبادیاں دکھائیں۔ خالی گھڑے سروں پر رکھے ماری ماری پھرتی ہوئی پریشان خواتین دکھائیں۔ ٹیوب ویلوں سے پانی کے بجائے نکلتی ہوئی بھاپ دکھائیں۔ گردن توڑ بخار، ملیریا، ٹائیفائڈ، دست اور قے میں مبتلا سسکتے ہوئے بیمار دکھائیں۔ لوگوں کو اپنی آسایشوں کو چھوڑ کر بنیادی ضرورتوں سے محروم لوگوں کی مدد کرنے کی راہ دکھائیں ۔

فراہمیِ آب کے ظالمانہ ملکی انتظام کو بے نقاب کریں۔ یہ تضاد نمایاں کریں کہ شہروں کے پارکوں میں فوارے اچھل رہے ہیں، سڑکوں کی گرین بیلٹوں سے زائد پانی بہ بہ کر سٹرکوں پر آ رہا ہے جبکہ اسی ملک کے کچھ علاقوں کی سلگتی اور جھلستی زمین پربلکتی ہوئی خلقِ خدا پانی کی ایک ایک بوند کو ترس رہی ہے۔ طرح طرح کی بیماریوں کا شکار ہو رہی ہے ۔ ہزاروں مویشی مر رہے ہیں، یعنی ہزاروں ذرائع معاش ختم ہو رہے ہیں، حتیٰ کہ خوراک حاصل کرنے کے لیے بعض باپ اپنے معصوم بچوں کو فروخت کرنے پر مجبور ہو رہے ہیں ۔

ہم ایک مرتبہ پھر عرض کرتے ہیں کہ لوگوں کو توجہ دلانے کا کام مختلف اسالیب میں بار بار کرنے کی ضرورت ہے۔ تبھی امید کی جا سکتی ہے کہ بے حسی کی برف پر ہمدردی کے جذبات کو غلبہ حاصل ہو گا اور ظالمانہ ملکی انتظام کے ذمہ داروں کو اپنے ’’ظلم‘‘ کا احساس ہو گا اور اسی احساس سے احساسِ ندامت پیدا ہو گا جو شاید انھیں تلافی کے لیے اقدامات کرنے پر مائل کر دے۔

___________

B