محمد بلال
روزنامہ ’’اساس‘‘ لاہور (۱۶ اپریل ۲۰۰۰ ) کے پہلے صفحے پر ایک تصویر شائع ہوئی ہے جس میں دکھایا گیا ہے کہ وزیرِ قانون جناب خالد رانجھا ایک مزار کو غسل دینے کے موقع پر گورنر پنجاب محمد صفدر صاحب کی دستاربندی کر رہے ہیں۔ یعنی ایک بہت بڑی قیمتی اورچمکتی ہوئی چادر ان کے کندھوں پر ڈال رہے ہیں۔ اس کے علاوہ تین اور افراد نے بھی ایسی ہی چادر کندھوں پر ڈال رکھی ہے اور یہ سب حضرات بے حد خوش دکھائی دے رہے ہیں۔
یہ تصویر دیکھتے ہی میری یادداشت کے پردے میں ارتعاش ہوا اور میری آنکھوں کے سامنے کچھ اِس طرح کی متحرک تصویریں لہرانے لگیں:
ریل کی پٹری کے ساتھ جھونپڑیوں کے پس منظر میں چھپڑ اور گندگی کے ڈھیر کے قریب ننگے بچے کھڑے ہیں، ان کے بال بکھرے ہوئے ہیں اور میل کی موٹی تہیں ان کے جسم پر جمی ہوئی ہیں..... گاڑیوں کے دھویں کے تکلیف دہ بادل کے زیر سایہ فٹ پاتھ پر پھٹے ہوئے کپڑوں میں بوڑھے فقیر لیٹے ہوئے ہیں..... ریلوے اسٹیشن کے قریب جہاں بہت سی عورتیں بھی موجود ہیں، ایک بالکل برہنہ پاگل خود کلامی کرتا ہوا چل رہا ہے ..... اور یہ سب لوگ بے حدغم زدہ دکھائی دے رہے ہیں۔
اس وقت یادداشت کی بصارت کے ساتھ ساتھ حافظے کی سماعت بھی اپنا کام کرنے لگی۔ جناب قتیل شفائی کا یہ شعر فضا میں گونجنے لگا:
مفلس کے بدن کو بھی ہے چادر کی ضرورت
اب کھل کے مزاروں پہ یہ اعلان کیا جائے
اسی دن کی ’’نواے وقت‘‘ کے پہلے صفحے پر ایک تصویر دیکھی۔ تصویر کے نیچے لکھا تھا: ’’گورنر پنجاب لیفٹیننٹ جنرل (ر) محمد صفدر مزار داتا گنج بخش کو غسل دے رہے ہیں‘‘، تفصیل میں یہ بیان کیا گیا کہ ’’گورنر نے موقع پر موجود علما اور عقیدت مندوں کے ہمراہ ۵۰ من عرقِ گلاب سے مزارِمبارک کوغسل دیا ‘‘ تو مجھے اس ملک کے وہ بے چارے انسان یاد آ گئے جنھیں پینے کا پانی حاصل کرنے کے لیے میلوں پیدل چلنا پڑتا ہے اور وہ قابلِ رحم لوگ یاد آ گئے جنھیں کیڑوں سے آلودہ مٹیالا پانی پی کر زندگی کاٹنی پڑتی ہے۔ شاید ان تصوف پسند حضرات کے علم میں نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان نہیں ہے کہ انسان کی عزت بیت اللہ سے بھی بڑھ کر ہے۔
اس کے بعد عرس کے پہلو سے تصوف اور اسلام کے اختلافات ذہن میں گردش کرنے لگے۔
عرس کیا ہے ؟ مولانا عبد القدوس ہاشمی ندوی نے اپنے ایک خط بنام ڈاکٹر محمد ایوب قادری صاحب (پروفیسر اردو کالج، کراچی) میں لفظِ عرس کی بہت اچھی وضاحت کی ہے۔ ’’عرس مبارک‘‘ کے عنوان سے ’’مقالاتِ ہاشمی‘‘ میں لکھا ہے:
’’لفظ عرس کے لغوی معنی ہیں دلہن کو دولہا کے حجرہ میں زفاف کے لیے پہنچانا۔ یہ ایک عربی لفظ ہے اور قدیم زمانہ سے یعنی نزولِ قرآنِ مجید سے بہت پہلے ہی یہ لفظ شادی، نکاح، زفاف، رخصتی، وصال، ولیمہ کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ اس کے مادہ یعنی ’ع-ر-س‘ سے بہت اور الفاظ بنے ہیں اور تقریباً سب میں اس کے اصلی معنی شادی بیاہ کا اثر موجود ہے عروس دولہا اور دلہن دونوں کو کہتے ہیں۔
.....اردو ترکی اور متعدد زبانوں میں لفظ عروس دولہا اور دلہن کے لیے عام طور پر مستعمل ہے۔ البتہ لفظ عرس کا استعمال کسی بزرگ کے سالانہ دیوسا یا سالانہ فاتحہ کے لیے اردو، فارسی اور ترکی میں تو ملتا ہے لیکن عربی میں عرس بمعنی سالانہ فاتحہ مستعمل نہیں ہے۔ شاید کہیں شاذ استعمال ہوا ہو۔
.....قرآنِ مجید میں کہیں لفظ عرس یا عروس نہیں ہے۔ حدیثوں میں آثار میں بہ کثرت یہ لفظ ملتا ہے اور ہر جگہ اپنے اصلی معنی دولہا، دلہن، ولیمہ، محفل، شادی کے جوڑے، دلہنوں کے سنگھار کے معنی میں ہی ملتا ہے۔ ایک روایت جامع الترمذی میں ہے جس میں بیان کیا گیا ہے کہ مرنے والوں سے قبر میں فرشتے (منکر نکیر) اس کے ایمان کے بارے میں سوال کرتے ہیں اور جب ایک مومن صحیح جواب دیتا ہے تو فرشتے اسے قبر میں آرام سے سلا دیتے ہیں اور کہتے ہیں ’نم کنومته العروس‘سو جا جیسے وہ دلہن سوتی ہے۔
یہ ایک طویل روایت ہے جسے امام ترمذی نے بیان کیا ہے۔ جامع الترمذی میں یہ ( ۱۰۷۷) نمبر کی روایت ہے۔ صحاح ستہ کی دیگر کتابوں میں یہ روایت نہیں ہے اور خود امام ترمذی بھی اس روایت کو صحیح نہیں بلکہ حسن و غریب بتاتے ہیں۔ اس حدیث کے روات میں سے پہلے راوی جنھوں نے اس کو حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے ، ان کا نام ہے سعید بن ابی سعید المقبری۔ ان سے متعلق ائمہ جرح و تعدیل کا بیان ہے کہ آخر میں خبطی ہو گئے تھے۔ اس لیے ان کی روایِتیں قابلِ قبول نہیں ہیں دوسرے راوی عبد الرحمٰن بن اسحاق سخت مجروح اور غیرمعتبر ہیں۔ اس روایت کے تیسرے راوی کو بھی ’غیر محمود فی الحدیث‘بتایا گیا ہے۔ اس طرح ائمہ حدیث نے اس روایت کو بہت ہی ضعیف قرار دیا ہے۔‘‘
عرس کی رسوم کے بارے میں مولانا عبد القدوس ہاشمی ندوی اسی خط میں لکھتے ہیں:
’’میلے ٹھیلے میں تو وہی ہوتا ہے جیسا کہ دوسرے تمام میلوں میں ہوتا ہے۔ گویے، شعبدہ باز، کسبیاں اور داستان گو سب ہی ہوتے ہیں۔ اور سب سے زیادہ ہما ہمی ان ہی کی ہوتی ہے۔ ایک بار سہون شریف اور نور پور شاہان کے عرس میں شریک ہو کر ہر شخص دیکھ سکتا ہے۔ لیکن اصل مزار شریف پر جو مراسم ادا کئے جاتے ہیں وہ بہت اہم ہے۔ دور دور سے لوگ قیمتی چادریں، مہندی اور عودو گل لے کر جلوس کی صورت میں حاضر ہوتے ہیں۔ مزار شریف کو کیوڑے اور گلاب سے غسل دیا جاتا ہے۔ پھر رسم ِ حنا بندی ادا کی جاتی ہے۔ مزار شریف کو مہندی لگائی جاتی ہے۔ اس کے بعد نئی نئی قیمتی چادریں چڑھائی جاتی ہیں۔ اس کے بعد پھولوں کی چادریں چڑھائی جاتی ہیں۔ پھر عقیدت مند مزار کے گرد گھومتے ہیں۔ صاحبِ سجادہ چند اور دوستوں کو ساتھ لے کر مزار کے گرد حلقہ بنا کر کھڑے ہوتے ہیں اور زور زور سے عہد نامے اور دعائیں پڑھی جاتی ہیں۔ پھر تبرک تقسیم ہوتا ہے۔ باہر لنگر بٹتا ہے۔ مزاروں پر نذرانے اور چڑھاوے پیش کیے جاتے ہیں۔ مزاروں کے بوسے لئے جاتے ہیں۔ مرادیں مانگی جاتی ہیں۔ وغیرہ وغیرہ۔
غرض کہ وہ سب کچھ ہوتا ہے جو کسی دلہن کو دولہا کی خلوت میں بھیجنے کے لیے کیا جاتا ہے اور کیوں نہ ہو لفظ عرس کے لغوی معنی ہی یہ ہیں دلہن کو سنوار سنگھار کر کے دولہا کے گھر پہنچانا۔ اس لیے صاحبِ مزار کو خدا کی دلہن قرار دے کر ان کی قبر کو دلہنوں کی طرح سنوارا جاتا ہے۔ عروسی جوڑا پہنایا جاتا ہے، پھولوں سے سجایا جاتا ہے اور آخر میں نکاح کی طرح عہد نامہ وغیرہ پڑھا جاتا ہے۔ ان کا عقیدہ یہ ہے کہ یہ بزرگ خدا کی دلہن تھے اور اس تاریخ کو دولہا اور دلہن کے مابین وصال ہوا۔ اس لیے کسی بزرگ کی وفات کو اس طرح بیان کیا جاتا ہے کہ ’’جب ان کا وصال ہوا‘‘ یعنی دولہا اور دلہن کی ملاقات ہوئی۔ موت کو وصال کے لفظ سے تعبیر کرنے کا پس منظر یہی عقیدہ ہے۔
.....شادی بیاہ کی محفلوں میں بھی اس کثرت سے اور اتنی پابندی کے ساتھ راگنیوں کا مظاہرہ اور طبلہ، سارنگی اور ستار کے کمالات نہیں دکھائی دیتے جتنا کہ بڑے بڑے عرسوں میں دکھائی دیتے ہیں۔‘‘
فلسفۂ عرس کے تاریخی پس منظر پر روشنی ڈالتے ہوئے ندوی صاحب اسی خط میں کہتے ہیں:
’’اللہ خالقِ کائنات اور انسانوں کے مابین جو محبت ہے اس کی تعبیر انسانوں نے عجیب عجیب تشبیہ و استعاروں میں کی ہے کسی نے اس محبت کو ماں اور اولاد کے مابین محبت سے تعبیر کیا اور اس میں اس قدر مبالغہ کیا کہ ساری قوت، اقتدار اور توجہ و ربوبیت کا مرکز دیویوں کو قرار دیا۔ حتیٰ کہ سینکڑوں دیویاں پیدا کر لیں۔ جیسے پاربتی (حالتِ جلال میں درگاہ دیوی) سرسوتی اور لکشمی کا تصور ہے۔ قدیم مصریوں میں ایک دیوی، مادرِ عالم کا تصور ہے۔ یونانیوں میں بھی مادرِ عالم کا تصور موجود ہے۔ یہ تصور اس وقت خوب پھلا پھولا جب تک خانوادہ کی تنظیمِ مادری قائم رہی۔ اس تنظیم میں عورت خانوادہ کی حاکم اور مرکزی شخصیت ہوتی تھی اور مرد اس کے ماتحت ایک عامل کی حیثیت رکھتا تھا۔
تاریخِ تمدن کے عمیق مطالعہ کے بعد یہ بات ظاہر ہو جاتی ہے کہ دنیا کے مختلف حصوں اور مختلف نسلوں میں اس کے بعد ایک بڑا شدید ردِ عمل ہوا اور فوراً نہیں بلکہ تدریجاً مردوں نے عورتوں پر اپنی برتری قائم کر لی۔ خانوادوں کے سربراہ اب مائیں نہیں بلکہ باپ دادا سربراہ ہوئے۔ ان کی تعظیم و تکریم میں پھر وہی مبالغہ ہوا کہ خود باپ دادا کی مورتیاں گھروں میں عبادت کے لیے نصب کر دی گئیں۔ آج چین کے ہر غیرمسلم گھر میں اس کا نمونہ دکھائی دیتا ہے۔ ہر گھر میں ایک فرضی دادا کا ایک چھوٹا سا بت دروازہ کے اوپر ایک طاق میں برا جمان ہوتا ہے اور گھر کے سارے ارکان عموماً صبح و شام اس بت کو سلام کرتے اور اس سے مرادیں مانگتے ہیں۔
.....اس خیال کا ردِعمل اس طرح ہوا کہ عورتوں نے سوچا اپنے آپ کو خالقِ کائنات پدرِ جہاں یعنی جیوپیٹرز (لفظی معنی پدرِ زمین) کی بیویاں بنا لیں۔ یہ ثابت کرنے کی کوشش ہونے لگی کہ خالقِ عالم اور مخلوقِ انسانی کے مابین جو رشتۂ محبت قائم ہے وہ ایسا رشتہ ہے جیسا کہ دولہا اور دلہن کے مابین ہوتا ہے یا جیسی محبت میاں اور بیوی کے مابین ہوتی ہے۔ اب انھوں نے اپنے آپ کو خدائے عالم کی بیویاں بنا کر پیش کیا۔ یہ صورت ہم کو ہندو دیوداسیوں، عیسائی ننوں اور مصر کی پروہت عورتوں میں دکھائی دیتی ہے۔ اشوریوں اور مکرانیوں میں خدا کی ان دلہنوں کی بڑی کثرت تھی۔ اور ان کو اعزاز و اکرام کا بڑا بلند مقام حاصل تھا۔
.....اس کا ردِعمل مردوں بالخصوص پروہتوں پر یہ ہوا کہ عزت و احترام میں حصہ دار بننے کے لیے وہ بھی خدا کی دلہن کا روپ دھاریں۔ اس کے بعد سدا سہاگ عورتیں ہی نہیں بلکہ مرد بھی ہونے لگے۔ یہ عموماً زنانہ زیورات پہنے ہوئے لال اوڑھنی ڈال کر نکلتے ہیں۔ ماتھے پر عورتوں کی طرح بندیا، مانگ میں سیندور اورپیروں میں کڑے چھڑے پہنتے ہیں اور اپنی گفتگو میں خدا کا نام نہیں لیتے بلکہ عموماً میاں، دولہا اور خاوند کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔
.....شعرو شاعری نے اس عقیدہ کو خوب پھیلایا ہے۔ ہندی شاعری میں تو جذباتِ محبت عورت کی طرف سے مرد کے سامنے پیش کئے جاتے ہیں۔ اس لیے مسلمان نمازی اور روزہ دار بزرگوں نے بھی حمد کی نظمیں کہتے ہوئے اپنی ذات کو عورت قرار دے کر اللہ تعالیٰ کو بطور دولہا مخاطب کیا ہے:
ترچھی نجریا مار گئے بالم
جی سے اپنے بسار گئے بالم ‘‘
یہ بات کرتے ہوئے خوشی بھی ہوتی ہے اور افسوس بھی کہ جب ہم کسی عام مسلمان کو عرس کی حقیقت سے آگاہ کرتے ہیں تو اس کی آنکھیں حیرت سے پھیل جاتی ہیں اور چہرے پر پریشانی کی لکیریں ابھر آتی ہیں اور وہ کسی طرح بھی اسلام کے پہلو سے اس اجنبی بات کو ماننے پر تیار نہیں ہوتا۔ اس لیے ضروری محسوس ہوتا ہے کہ عرس کی مذکورہ حقیقت دورِ حاضر کی معروف تصوف پسند شخصیات کی زبان سے سنا دی جائے۔
پروفیسر ڈاکٹر طاہر القادری اس ضمن میں کہتے ہیں:
’’حکمت اس (عرس) کی یہ ہے کہ جس دن اللہ کے ولی کا انتقال ہوتا ہے وہ دن اس کی روحانی شادی کا دن ہوتا ہے آپ کی اور ہماری شادیاں دنیوی اور جسم کی شادیاں ہوتی ہیں اور اللہ کے ولیوں کی شادی ان کی روح کی شادی ہوتی ہے جب ان کی روح قفسِ عنصری سے پرواز کرتی ہے اور پردے اٹھائے جاتے ہیں اور وہ اپنے محبوبِ حقیقی سے ملاقات کرتے ہیں تو اس دن ان کی شادی ہوتی ہے۔‘‘ (آڈیوکیسٹ ، والیم مئی ۶۰، ڈی: ۳۴ / ۴ ، ۲۵ جنوری ۱۹۸۵)
عرس کی اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جناب واصف علی واصف لکھتے ہیں:
’’ہمارے اکثر میلے ہمارے عقیدے اور عقیدت کا اظہار ہیں ہر میلہ، کسی نہ کسی عارف، فقیر کا عرس ہوتا ہے درویشوں کی موت کا دن بھی میلے کا دن ہوتا ہے۔‘‘ ( کرن کرن سورج)
یہ بھی حقیقت ہے کہ عرس کے قائلین ہر شخص کو ان بلند درجات پر فائز نہیں سمجھتے کہ جن کی موت ان کے نزدیک دراصل اللہ کے ساتھ شادی ہوتی ہے۔ اس لیے یہ حضرات اس سلسلے میں شخصیات کے مابین فرق کرتے ہیں۔ جناب واصف علی واصف یہی بات سوال کے انداز میں کچھ یوں بیان کرتے ہیں:
’’کیا آپ کو معلوم ہے کہ کچھ شعرا ایسے ہوتے ہیں جن کا صرف دن منایا جاتا ہے اور کچھ شعرا ایسے ہوتے ہیں جن کا عرس منایا جاتا ہے مثلاً میاں محمدبخش، وارث شاہ، شاہ حسین، بلھے شاہ، شاہ لطیف، خواجہ غلام فرید، امیر خسرو وغیرہ کا عرس منایا جاتا ہے لیکن اقبال کا دن منایا جاتا ہے، کیوں ؟‘‘ ( کرن کرن سورج )
جن شخصیات کا عرس منایا جاتا ہے ان کی قبر عام طور پر پختہ اور بہت بلند بنائی جاتی ہے۔ اسلام میں پختہ اور بلند قبر کی کیا حیثیت ہے؟ اس ضمن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ملاحظہ ہو:
’’حضرت جابر بن عبد اللہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبر کو پختہ بنانے، اس پر گنبد تعمیر کرنے اور اس پر (مجاور بن کر) بیٹھنے سے منع فرمایا ہے۔‘‘ (مسلم کتاب الجنائز )
یہ ایک دردناک حقیقت ہے کہ ہمارے ہاں بعض لوگ اپنے مقلدانہ ذہن کی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کو اتنی اہمیت نہیں دیتے جتنی اہمیت وہ اپنی مسلک کے علما کی بات کو دیتے ہیں۔ لہٰذا اس سلسلے میں ایسے اشخاص کے لیے چند ائمۂ حضرات کے ارشادات نقل کیے جاتے ہیں۔
امام ابو حنیفہ کہتے ہیں:
’’قبر پختہ نہ بنائی جائے اور نہ مٹی سے لپی جائے اور نہ قبر پر کوئی بنا (قبہ وغیرہ) کھڑی کی جائے اور نہ خیمہ لگایا جائے ۔‘‘ (فقہ حنفی کی معتبر کتاب فتاویٰ قاضی خان برحاشیہ عالم گیری مطبوعہ مصر ج ۱ ص ۱۷۸)
امام ابو حنیفہ کے بلاواسطہ شاگرد امام محمد فرماتے ہیں:
’’ہم اس کو صحیح نہیں سمجھتے کہ جو مٹی قبر سے نکلی ہو اس سے زیادہ اس پر ڈالی جائے یا اس پر لپائی کی جائے اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبر کو مربع بنانے اور اس کو پختہ بنانے سے منع فرمایا ہے۔ یہی ہمارا مذہب ہے اور یہی امام ابو حنیفہ کا قول ہے۔‘‘ (الآثار ز امام محمد ص ۹۶- ۹۷)
امام مالک کہتے ہیں:
’’میں قبروں کو پختہ بنانا، ان پر عمارتیں تعمیر کرنا اور پتھروں کو عمارت کی خاطر رکھنا پسند نہیں کرتا۔‘‘ (’’المدونتہ الکبریٰ‘‘ ج ۱ ص ۱۸۹ مطبوعہ مصر )
امام شافعی کا کہنا ہے:
’’قبروں پر عمارتیں بنانا اور انھیں پختہ تعمیر کرنا میرے نزدیک پسندیدہ فعل نہیں ۔ اس لیے کہ یہ زینت اور تکبر کی چیزیں ہیں اور موت سے ان چیزوں کا کوئی تعلق نہیں۔ میں نے مہاجرین اور انصار کی قبروں کو مضبوط اور چونا گچ اور پختہ بنا ہوا نہیں دیکھا ۔‘‘
فقہ جنبلی کی کتاب ’’کشاف الفتاح‘‘ میں ہے:
’’قبر کا ایک بالشت زائد اونچا کرنا منع ہے۔‘‘
شیخ عبد القادر جیلانی کا نقطۂ نظر ہے:
’’قبر کو پکا بنانا مکروہ ہے ۔‘‘ (غنیتہ الطالبین ص ۱۵۲ ، مطبوعہ اسلامیہ لاہور)
’’قبر کو زمین سے بس ایک بالشت برابر بلند کیا جائے ۔‘‘ (غنیتہ الطالبین ، ص ۷۸۲ ، مطبوعہ اسلامیہ، لاہور)
دورِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے مشرکینِ عرب اپنے زمانے کے فوت شدہ صالحین کی قبریں بلند بنایا کرتے تھے۔ اس بات سے بہت کم لوگ آگاہ ہیں کہ یہ مشرکین اللہ کو مانتے تھے اور ایک ہی مانتے تھے بلکہ اللہ ہی کو کائنات کا خالق، مالک اور منتظم مانتے تھے لیکن وہ اس کے ساتھ ساتھ بعض فوت شدہ پیغمبروں اور صالحین اور جنوں اور فرشتوں کے بارے میں یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ:
’’یہ اللہ کے ہاں ہمارے سفارشی ہیں۔‘‘ (یونس ۱۰ : ۱۸)
’’ہم تو ان کی عبادت صرف اس لیے کرتے ہیں کہ یہ ہم کو خدا سے قریب تر کر دیں۔‘‘ ( الذمر ۳۹: ۳ )
بہرحال جب یہ مشر کین مسلمان ہو گئے اور تمام عرب میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت قائم ہو گئی تو آپ نے ان مشر کین کی بنائی ہوئی بلند قبروں کے ساتھ کیا معاملہ کیا ؟مسلم میں اس کا ذکر ہے:
’’ابو الہیاج اسدی روایت کرتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے مجھ سے کہا کہ مجھے رسول اللہ نے بھیجا تھا کہ جاؤ اور جو (مشرکانہ) تصویر تم کو نظر آئے اس کو مٹا دو اور جو قبر اونچی ملے اس کو برابر کر دو۔‘‘ ( کتاب الجنائز )
مزید دیکھیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
’’لوگو ، کان کھول کر سن لو تم میں سے پہلے لوگ گزرے ہیں انھوں نے انبیا اور نیک لوگوں کی قبروں کو مسجد بنا لیا تھا سنو، تم قبروں کو سجدہ گاہ نہ بنانا۔ میں تم کو اس بات سے منع کرتا ہوں۔‘‘ ( مسلم ، کتاب المساجد)
’’یہود و نصاریٰ پر اللہ کی لعنت ہو انھوں نے اپنے نبیوں کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا۔‘‘ (بخاری، مسلم، کتاب المساجد)
اب ہم اس مسئلے کا ایک دوسرے پہلو سے تجزیہ کرتے ہیں۔
حیات بعد الموت کا صحیح تصور کیا ہے ؟ سورۂ مومنون میں ہے:
’’ان سب (مرنے والوں) کے پیچھے ایک برزخ حائل ہے دوسری زندگی کے دن تک۔‘‘(۲۳: ۱۰۰)
سید ابو الاعلیٰ صاحب مودودی اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
’’برزخ فارسی کا لفظ ’پردہ‘ کا معرب ہے، آیت کا مطلب یہ ہے کہ اب ان (مرنے والوں) کے اور دنیا کے درمیان ایک روک ہے جو انھیں واپس جانے نہیں دے گی اور قیامت تک یہ دنیا اور آخرت کے درمیان کی اس حدِ فاضل میں ٹھیرے رہیں گے ۔‘‘ (تفہیم القرآن ، ج ۳ ص ۳۰۰)
اس برزخ میں مرنے والے کی کیا کیفیت ہوتی ہے ؟ اس کی وضاحت کرتے ہوئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
’’تم میں سے کوئی شخص جب مر جاتا ہے تو اسے صبح و شام اس کا آخری ٹھکانا دکھایا جاتا ہے خواہ وہ اہلِ دوزخ میں سے ہو یا اہلِ جنت میں سے۔ اس سے کہا جاتا ہے: یہ ہے تیرا ٹھکانا یہاں تو اس وقت پہنچے گا جب اللہ تجھے قیامت کے دن اپنے حضور میں پیشی کے لیے اٹھائے گا۔‘‘ (ابنِ عمر ، مسند احمد بن حنبل)
اللہ کی راہ میں جان دینے والی ہستیاں اس وقت کس عالم میں ہیں ؟ قرآن مجید میں ہے:
’’اور جو اللہ کی راہ میں قتل ہوئے انھیں مردہ خیال نہ کرو بلکہ وہ اپنے رب کے پاس زندہ ہیں، انھیں روزی مل رہی ہے فرحاں و شاداں ہیں اس پر جو اللہ نے اپنے فضل سے ان کو دے رکھا ہے۔‘‘ (آلِ عمران ۳: ۱۶۹ - ۱۷۰)
آلِ فرعون اس وقت کس کیفیت میں ہے ؟ قرآن مجید بتاتا ہے:
’’اور آلِ فرعون بدترین عذاب کے پھیر میں آ گئے دوزخ کی آگ، جس کے آگے وہ صبح و شام پیش کیے جاتے ہیں اور جس دن قیامت ہو گی، حکم ہو گا: آلِ فرعون کو بدترین عذاب میں داخل کردو۔‘‘ ( المومن ۴۰: ۴۵- ۴۶)
اس سے یہ بات بالکل واضح ہو گی کہ مرنے کے بعد صالحین کی شادی کا تصور اسلام میں ایک اجنبی تصور ہے۔ چنانچہ ، تاریخ گواہ ہے صحابۂ کرام نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا کبھی عرس منعقد نہیں کیا۔ تابعینِ کرام نے کسی صحابی کی تاریخ وفات پر ایسی کوئی رسم ادا نہیں کی۔ پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بعد کے مسلمانوں میں یہ تصورات کیسے داخل ہو گئے ؟
اس ضمن میں ایک جواب یہ دیا جاتا ہے اگرچہ نبوت ختم ہو گئی، اب کوئی شخص نبوت کا دعویٰ نہیں کر سکتا، مگر نبوت کے کمالات جاری ہیں۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ اب بھی بعض لوگوں سے فرشتے کے ذریعے سے یا براہِ راست گفتگو کرتا ہے یا مشاہدۂ غیب سے فیض یاب کرتا ہے اور غیبی امور سے آگاہ کرتا ہے۔ اس ذریعے سے حاصل ہونے والے علم کو علمِ لدنی کہا جاتا ہے۔ اس علم کا تعلق موسیٰ و خضر کے واقعہ کے ساتھ قائم کیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ جس طرح حضرت خضر کے بعض افعال خلافِ شریعت تھے اور اس کے باوجود درست تھے اسی طرح علمِ لدنی کے حاملین کے افعال بھی اگر شریعت کے منافی محسوس ہوں تو وہ تب بھی درست ہی ہوتے ہیں۔
اس جواب کے جواب میں ایک حدیث پیش کی جاتی ہے، جو حدیث کی ہر مستند کتاب میں موجود ہے۔ بخاری میں ہے:
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ فرماتے تھے کہ نبوت میں سے (میری وفات کے بعد) کچھ باقی نہ رہے گا مگر مبشرات۔ لوگوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ، مبشرات کیا ہیں ؟ آپ نے فرمایا : اچھا خواب ۔‘‘ (کتاب التعبیر )
نبوت کی ایک خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ ایک خاص انسان سے فرشتے کے ذریعے سے یا براہِ راست گفتگو فرماتا ، اسے مشاہدۂ غیب سے فیض یاب فرماتا اور مخفی امور سے آگاہ فرماتا ہے۔ اس حدیث سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا سے رخصت ہونے کے بعد نبوت کے اوصاف بھی ہمیشہ کے لیے ختم ہو گئے۔ چنانچہ آپ نے بھی اپنے پیروکاروں کو یہ حکم نہیں دیا کہ میرے بعد اللہ سے براہِ راست ہدایت لینے کی سعی و جہد کرنا بلکہ فرمایا:
’’اے لوگو، میں نے تمھارے اندر دو چیزیں چھوڑی ہیں اگر تم نے ان کو مضبوطی سے پکڑا تو تم ہرگز گمراہ نہ ہو گے ان میں سے ایک کتاب اللہ اور دوسری سنتِ رسول اللہ ۔‘‘ (حجتہ الوداع )
جہاں تک مبشرات (اچھے خواب) کا تعلق ہے وہ غیر نبی افراد کو آتے رہیں گے اور آتے رہیں ہیں جیسا کہ سورۂ یوسف میں ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام کے زندان کے ساتھی دو غلاموں اور ان کے زمانے کے ایک بادشاہ کو اللہ تعالیٰ نے خواب کے ذریعے سے آیندہ زندگی میں پیش آنے والے امور سے آگاہ فرمایا۔ لیکن وہ خواب جسے کوئی شخص مبشرات میں سے قرار دے اور وہ خواب قرآن و سنت کی تعلیمات کے ساتھ متصادم ہو تو اسے حقیقی مسلمان کبھی مبشرات کے ذیل کا خواب تسلیم نہیں کرے گا۔
___________