HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف :

ایمان کا مرحلہ

محمد تہامی بشر علوی

 

آخر کیا وجہ ہے کہ ایک راست باز انسان کا دل اس خدا کے سامنے جھک نہ جائے جسے وہ اپنے خالق کی حیثیت سے جان چکا ہے۔یہ خدا کا جاننا اسے اُس خدا کو ماننے پر مجبور کرتا ہے۔وہ چاہتا ہے کہ اس ہستی کو دل و جان سے مکمل مان لے جس نے اُسے اور اُس کے باپ دادا کو بے قیمت شے سے پیدا کر کے بہت باوقعت انسان بنا دیا۔

خالق کو یوں دل کی گہرائیوں سے مان لینے والے لوگ مومن کہلاتے ہیں۔اس خالق نے اپنے بارے میں جو کچھ بھی بتایا، یہ لوگ اس سب کو دل سے مان چکے ہوتے ہیں۔ ان کا ایمان خالق پر بھی ہوتا ہے اور اس کی صفات و افعال پر بھی۔خالق نے مرنے کے بعد جی اٹھنے کی خبر دی ہو تو انھیں یہ ماننے میں کوئی تامل نہیں ہوتا۔یہ خالق کے بتانے پر موت کے بعد والی زندگی پر ایمان لاتے ہیں اور اس کے لیے عمل میں جُت جاتے ہیں۔خالق بتاتا ہے کہ کراماً کاتبین ہر انسان کے علم و عمل کا مکمل ریکارڈ تیار کر رہے ہیں ،جو قیامت کے روزہر انسان کے روبرو کر دیا جائے گا۔ مومنین خدا کے کہنے پر ان فرشتوں پر ایمان لے آتے ہیں اور قیامت کی پیشی کی تیاری شروع کر دیتے ہیں۔خدا انھیں آ گاہ کرتا ہے کہ خدا نے مرنے کے بعد جی اٹھائے جانے اور قیامت کی پیشی کی خبر آدم علیہ السلام سے لے کر اب تک کے سارے انسانوں تک انبیا کے ذریعے سے پہنچائی ہے۔

خدا نے اس خبر کو کتابوں اور صحیفوں کی صورت میں بھی پہنچایا اورکبھی زبانی بھی۔خدا کا نمایندہ جبریل علیہ السلام آآ کر خدا کا پیغام انبیا کو سنا جاتا رہا اور انبیا انسانوں کو اس پیغام سے آگاہ کرتے رہے۔ مومنین خدا کی اس خبر کو بھی دل و جان سے مانتے اور تصدیق کرلیتے ہیں۔خدا نے اپنے بارے میں آدم علیہ السلام و اولادآدم کو بھیجی گئی ہدایت اور اس کے لیے اختیار کیے گئے طریقے کے بارے میں اور مرنے کے بعد کے مختلف مراحل کے بارے میں جو جو ضروری خبریں دی ہیں، مومنین ان ساری خبروں کوپردۂ غیب میں ہونے کے باوجود یقین سے مان لیتے ہیں۔انھیں یقین ہوتا ہے کہ وہ ہستی جس نے اپنی علم و قدرت سے جہان کو خلق کیا، اس کے کہے میں کسی شک کی کوئی مجال نہیں ہو سکتی۔ بس یہ جان لینا کافی ہے کہ خدا کا کہا فی الواقع کیا ہے؟ اتنا جاننے کے بعد یہ ماننا پڑتا ہے کہ اس کا کہا سراسر سچ ہے،سراسر درست ہے اورسراسر حق ہے۔مومنین کی صفت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ بن دیکھے ایمان لانے والے ہوتے ہیں:

الَّذِيْنَ يُؤْمِنُوْنَ بِالْغَيْبِ وَيُقِيْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَمِمَّا رَزَقْنٰهُمْ يُنْفِقُوْنَ.(البقرہ۲ :۳)
’’جو بن دیکھے مان رہے ہیں اور نماز کا اہتمام کر رہے ہیں اور جو کچھ ہم نے اِنھیں دیا ہے ، اُس میں سے (ہماری راہ میں) خرچ کر رہے ہیں۔‘‘

’’اصل الفاظ ہیں: ’يُؤْمِنُوْنَ بِالْغَيْبِ

‘۔اِن میں ’ب‘ ہمارے نزدیک ظرفیت کے لیے ہے، یعنی وہ غیب میں ہوتے ہوئے ایمان لاتے ہیں ۔غیب میں ہوتے ہوئے ایمان لانے کے معنی یہ ہیں کہ وہ محض محسوسات کے غلام اور مادیات کے پرستار نہیں ہیں ،بلکہ ایک عقلی اور روحانی ہستی ہیں ، لہٰذا ہر چیز کو دیکھ کر ماننے کے لیے مصر نہیں ہوتے ۔وہ اپنا سفر عقل کی رہنمائی میں طے کرتے ہیں اور جو باتیں عقل سے ثابت ہوتی ہیں یا اُن کی فطرت جن باتوں کی شہادت دیتی ہے ،اُنھیں وہ تسلیم کرتے ہیں اور اُن کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے اپنی محسوس اور مادی لذتوں کو ہر لحظہ قربان کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔

ہم نے جس مدعا کو نماز کا اہتمام کرنے سے ادا کیا ہے ،اُس کے لیے اصل میں اقامت صلوٰۃ کی تعبیر اختیار کی گئی ہے ۔ اِس کے معنی عربی زبان میں نماز کی حفاظت کرنے اور اُس پر قائم رہنے کے ہیں۔ نماز اہل عرب کے لیے کوئی اجنبی چیز نہ تھی ۔ دین ابراہیمی کی ایک روایت کی حیثیت سے وہ اُس کے اعمال و اذکار سے نہ صرف یہ کہ واقف تھے ،بلکہ اُن کے صالحین اِس کا اہتمام بھی کرتے تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن نے اِس کی کوئی تفصیلات بیان نہیں کی ہیں ۔ نماز کے ساتھ یہاں انفاق کا ذکربھی ہوا ہے ۔ قرآن کی روسے یہ بنیادی نیکیاں ہیں ۔ ‘‘(البیان، جاوید احمد غامدی۱/ ۲۷ - ۲۸)

انجیل متی میں سیدنا مسیح علیہ السلام نے بھی ذرا مختلف اسلوب میں یہی بات فرمائی ہے:

’’اور اُن میں سے ایک عالم شرع نے آزمانے کے لیے اُس سے پوچھا: اے استاد ، توریت میں کون سا حکم بڑا ہے؟ اُس نے اُس سے کہا کہ خداوند اپنے خدا سے اپنے سارے دل اور اپنی ساری جان اور اپنی ساری عقل سے محبت رکھ ۔ بڑا اور پہلا حکم یہی ہے۔ اور دوسرا اِس کی مانند یہ ہے کہ اپنے پڑوسی سے اپنے برابر محبت رکھ ۔اِنھی دو حکموں پر تمام توریت اور انبیا کے صحیفوں کا مدار ہے۔‘‘(۲۲: ۳۵ -۴۰ )

____________

B