HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : ڈاکٹر وسیم مفتی

حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ (۳)

[’’سیر و سوانح ‘‘ کے زیر عنوان شائع ہونے والے مضامین ان کے فاضل مصنفین کی اپنی تحقیق پر مبنی ہوتے ہیں، ان سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔ ]

   

بھبوت تن پہ جو قیصری جانے

حضرت سلمان فارسی گدھے پر بیٹھ كر مدائن كا گشت كرتے توان كی حالت دیكھنے والی ہوتی، كبھی انھوں نے گھٹنوں تك چڑھی ہوئی شلوار (shorts)پر جبہ پہنا۔ عمر اور لوگ آوازیں لگا رہے ہوتے: كرك آمد، كرك آمد۔ پوچھنے پر بتایا گیا كہ اس كا مطلب ہے:گڈا آ گیا۔ كبھی انھوں نے پاؤں تك لمبا كرتا پہنا ہوتا جو دامن تنگ ہونے كی وجہ سے گھٹنوں تك كھسك آتا اور بچوں نے ان كے پیچھے ٹھٹ لگایا ہوتا۔ لوگ بچوں كو جھڑكتے تو كہتے: نہ روكو، خیر و شر تو آج كے بعد ہی ہو گا۔ تم مٹی پھانك سكتے ہو تو پھانك لو پر دو آدمیوں پر بھی امیر نہ بنو۔ مظلوم ومجبور كی بددعا سے بچو، كیونكہ اس كی قبولیت میں كوئی پردہ حائل نہیں ہوتا۔

 ایك بار حضرت سلمان فارسی اس ہیئت كذائی میں گدھے كو باربرداری كے لیے استعمال كرنے والے شخص كی طرح لگ رہے تھے كہ ایك مسافرشام سے آیا اوراپنا سامان ان كے گدھے پر لاد دیا۔ آس پاس موجود لوگوں نے بتایا كہ یہ ہمارے گورنر ہیں، لیكن حضرت سلمان نے بوجھ اتارنے نہ دیا اور مسافر كواس كی منزل تك پہنچا كر دم لیا۔ اسی سے ملتا جلتا ایك اور واقعہ ہے كہ انھوں نے ایك بوڑھے آدمی كا چارہ اٹھا كر اس كے گھر پہنچایا۔

وعظ و ارشاد

ایك آدمی نے نصیحت كرنے كو كہا توحضرت سلمان فارسی نے فرمایا: انسان كے لیے گفتگو كیے بغیرچاره نہیں، لیكن جب بولو، حق بات كہو یا خاموش رہو، غصہ نہ كرو، لیكن جب غصہ آئے تو زبان اور ہاتھ پر قابو ركھو۔ زندگی میں لوگوں سے ملنا جلنا لازمی ہے، جب ملو جلو تو سچ بات كہو اور امانت داری سے كام لو۔

بنوعبس كے ایك شخص نے حضرت سلمان كے ساتھ سفركیا، دریاے دجلہ كے پاس سے گزرےتو انھوں نے اسے پانی پینے كو كہا۔ وه پانی پی چكا تو كہا: اور پیو۔ اس نے دوباره پیا تو پوچھا:تمھارے پینے سے دجلہ كے پانی میں كوئی كمی آئی؟علم كا معاملہ بھی یہی ہے، كبھی ختم نہیں ہوتا۔ حاصل كر لوجتنا تمھیں نفع دے(مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ۳۵۸۱۸۔ حلیۃ الاولیاء۶۰۵)۔

حضرت سلمان فارسی نےاپنے شاگرد خاص ابوعثمان نہدی كو نصیحت كی:رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ہے: اگر ہو سكے تو بازار جانےوالے پہلے اور وہاں سے نكلنے والے آخری شخص نہ بنو، كیونكہ وہیں شیطان معركےگرم كرتا ہے اور اپنا جھنڈاگاڑتا ہے۔ دوسری روایت میں ہےكہ شیطان بازار ہی میں انڈے بچے دیتا ہے (مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ۳۵۸۲۰۔ المعجم الكبیر، مسند بزار، رقم ۲۵۴۱)۔

ابو وائل حضرت سلمان فارسی سے ملنے آئے تو انھوں نے روٹی اور نمك(گوشت:طبرانی) كھانے كے لیے پیش كیے اور كہا:اگر رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے مہمان كے لیے تكلفاً وه كھانا دینے سے منع نہ كیا ہوتا جو اپنے پاس نہ ہو تو میں ضرور تكلف كرتا(احمد، رقم ۲۳۷۳۳۔ مستدرك حاكم، رقم ۷۱۴۷۔ مسند بزار ، رقم ۲۵۱۴۔ المعجم الكبیر، طبرانی، رقم ۶۰۸۵)۔ طبرانی كی روایت میں اضافہ ہے كہ ایك مہمان نے پودینے كی فرمایش كی تو حضرت سلمان نے اپنا لوٹا رہن رکھ كر پودینہ منگوایا اور مہمان سے كہا: اگر تو الله كے عطا كیے ہوئے رزق پر قناعت كرتا تو میرا لوٹا رہن نہ ہوتا۔

حضرت سلمان فارسی كی كچھ خاص باتیں

حضرت سلمان فارسی كا گزر كچھ لوگوں پر ہوا جوبیٹھ كر قرآن كی تلاوت كر رہے تهے، آیت سجده پڑھی تو سجدے میں گر گئے۔ حضرت سلمان كو سجده كرنے كوكہا گیا توانھوں نے جواب دیا: ہم قرآن كی تلاوت سننے نہیں آئے تھے،اس لیے سجده نہیں كریں گے(بخاری:كتاب سجود القرآن۔ مصنف عبدالرزاق، رقم ۵۹۰۹)۔ اس سے ملتے جلتے واقعات سعید بن مسیب اور حضرت عمران بن حصین كے بارے میں بھی نقل كیے گئے ہیں (مصنف عبدالرزاق ، رقم ۵۹۰۶، ۵۹۱۰)۔ ان حضرات كے عمل كی تائید حضرت عثمان كے اس قول سے ہوتی ہے: سجده ان لوگوں پر واجب ہوتا ہے جو قرآن مجید كی سماعت پر متوجہ ہوں، آیت سجده محض كان میں پڑنے سے سجدۂ تلاوت لازم نہیں آتا (بخاری:كتاب سجود القرآن)۔ انور شاه كشمیری نے حضرت سلمان فارسی كے اس واقعے كی تفصیل اس طرح بیان كی ہے: حضرت سلمان فجر كی نماز پڑھ كر اٹھے تھے كہ ایك واعظ نے وعظ كرنا شروع كر دیا، ان كا اراده وعظ سننے كا نہیں تھا۔ جب اس نے آیت سجده تلاوت كی اور حضرت سلمان كو بیٹھ كر سجده كر لینے كو كہا تو انھوں نے جواب دیا:ہم اس غرض كے لیے نہیں، بلكہ نماز پڑھنے آئے تھے۔ انور شاه كہتے ہیں: سجدۂ تلاوت آیت سجده كے محض سماع سے لازم نہ آتا ہو توبھی كر لینا مستحب ہے(فیض الباری ۲/۵۲۶)۔

ایك مجلس میں حضر ت سعد بن ابی وقاص نے لوگوں سے ان كا نسب دریافت كیا، حضرت سلمان كی باری آئی تو انھوں نے كہا: میں آدم كا بیٹا، سلمان بن اسلام ہوں۔ ایك دوسرے موقع پر حضرت عمر نے حضرت سعد كو اپنا نسب بیان كرنے كو كہا تو انھوں نے پس وپیش كی كہ امیر المومنین اچھی طرح جانتے ہیں، لیكن حضرت عمر نے اصرار كر كے ان كا نسب سنا۔ حضرت سلمان فارسی نے یہاں بھی سلمان بن اسلام كہہ كر اپنی نسبت اسلام كی طرف كی۔ حضرت عمر كو ان كی یہ بات اس قدر بھائی كہ فرمایا: میرا باپ خطاب زمانۂ جاہلیت میں معزز شمار ہوتا تھا، لیكن میں بھی عمر بن اسلام كہلوا كر سلمان بن اسلام كا بھائی بنتا ہوں(مصنف عبدالرزاق، رقم ۲۰۹۴۲)۔

حضرت سلمان فارسی اس بات كے قائل تھے كہ الله تعالیٰ ہر جمعہ كے روز اہل جنت كو اپنا دیدار كرائیں گے۔

حضرت سلمان فارسی مدائن میں ایك جنگ كی قیادت كر رہے تھے۔ خچر پر ایك شخص كے پیچھے سوار تھے اورجنگ كا علم ہاتھ میں اٹھا ركھا تھا۔ سپاہیوں نے كہا:امیر، علم ہمیں اٹھانے دیں۔ جواب دیا:مجھے اس كے اٹھانے كا زیاده حق ہے۔ جنگ كے خاتمے تك انھوں نے پرچم اٹھائے ركھا۔

حضرت سلمان فارسی كی وفات كے بعد حضرت عبدالله بن سلام نے ان كوخواب میں دیكھا اور پوچھا:كیسے ہیں ابو عبدالله ؟كہا:خیر سے ہوں۔ پھر سوال كیا: آپ نے كس عمل كو بہترین پایا؟جواب دیا: توكل كو، كیا عجیب شے ہے(مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ۳۵۸۰۲۔ حلیۃ الاولیاء۶۵۵)۔

 حضرت سلمان فارسی مدائن كی ایك سڑك پر پیدل جا رہے تھے كہ انھیں ایك اونٹ نے دھكا دے دیا جس پر بانس لدے ہوئے تھے۔ وه پلٹ كر اسے ہانكنے والے شخص كے پاس آئےاوراس كا بازو جھنجوڑ كر كہا:تو اس وقت تك دنیا سے رخصت نہ ہو جب تك نوجوانوں كا اقتدار نہ دیكھ لے۔

شیعہ اورحضرت سلمان فارسی

شیعہ حضرت سلمان فارسی كو خلیفۂ چہارم حضرت علی المرتضیٰ كا خاص صاحب اور مولا (آزاد كرده)شمار كرتے ہیں۔ ایك اثناعشری مؤرخ كا كہنا ہے:آپ اسلام كی روح پانا چاہتے ہیں تو مدینہ كے مال داروں میں نہیں، بلكہ علی، سلمان فارسی، ابوذر غفاری، عمار اور بلال جیسے غربا میں ڈھونڈیں۔ ت

آں حضور صلی الله علیہ وسلم نے حضرت سلمان كو غلامی سے آزاد كرا كر ان كی موالات حضرت علی اور اہل بیت كو سونپ دی تھی (طبقات المحدثین بأصبهان ۱/ ۲۲۶)۔ آپ نے حضرت سلمان فارسی كی مواخات حضرت ابوذر غفاری سے طے فرمائی تھی(اصول الكافی، كلینی ۸/ ۱۶۲)۔

حضرت سلمان فارسی نے حضر ت عمر سے ان كی بیٹی كا رشتہ مانگا۔ انھوں نے انكار كردیاتو كہا:میں یہ جاننا چاہتا تھاكہ آپ كے دل سے حمیت جاہلی ختم ہو گئی ہے۔ حضرت ابوالدرداء اورحضرت سلمان فارسی بنولیث كی ایك عورت كارشتہ مانگنے گئے۔ حضرت سلمان كی سبقت الی الاسلام اور ان كے فضائل جاننے كے باوجود انھوں نے ان كو رشتہ نہ دیا، بلكہ حضرت ابوالدرداء سے اپنی بیٹی بیاه دی۔ اس كے بعد حضرت سلمان نے بنوكنده كی خاتون بقیره سے شادی كر لی۔

سقیفہ بنی ساعده میں حضرت ابوبكر كا انتخاب ہونے كے بعد حضرت سلمان فارسی نے كہا:اگر یہ علی كی بیعت كر لیتے تو آسمانوں اور زمین سے خوب كھاتےپیتے(انساب الاشراف، بلاذری ۱/ ۵۹۱)۔انھوں نے مزید تبصره كیا: تم نے فیصلہ توخوب كیا، لیكن معدن چننے میں غلطی كی (عبدالله بن سبا، العسكری۱/ ۱۴۳)۔ اس ضمن میں ان كا یہ مقولہ مشہور ہوا: كردید و نہ كردید، تم نے ایك كام كر كے نہ كرنے والی بات كی ہے۔ ابن ابی حدید كا كہنا ہے كہ سقیفہ كی رات حضرت مقداد ، حضرت سلمان ، حضرت ابوذر ، حضرت عبادہ بن صامت، حضرت ابو الہیثم بن التہیان اور حضرت عمار مہاجرین كی شوریٰ دوباره منعقد كرانے كے لیےجمع ہوئے( شرح نہج البلاغۃ، ابن ابی حدید ۱/ ۲۱۹ )۔ شیعہ محدث ابن شہر آشوب كا كہناہے كہ جب حضرت عمر نے حضرت سلمان فارسی كو مدائن كا گورنر مقرر كیا تو انھوں نے حضرت علی سے منظوری لینے كے بعد ہی یہ تقرری قبول كی اور پھر اپنی وفات تك وہیں مقیم رہے(الدرجات الرفیعۃ فی طبقات الشیعة، المدنی ۲۱۵)۔ ایك روایت كے مطابق حضرت علی نے حضرت سلمان كی میت كو خود غسل دے كر كفن پہنایا اورتدفین كی۔ اس غرض كے لیےوه مدینہ سے مدائن پہنچے، یہ ان كی ایك كرامت تھی (بحار الانوار، مجلسی ۲۲/ ۳۸۰)۔

سورۂ نحل میں مذكور بشر كون؟

الله تعالیٰ كا ارشاد ہے:‏‏‏‏‏‏ ’وَلَقَدْ نَعْلَمُ اَنَّهُمْ يَقُوْلُوْنَ اِنَّمَا يُعَلِّمُهٗ بَشَرٌﵧ لِسَانُ الَّذِيْ يُلْحِدُوْنَ اِلَيْهِ اَعْجَمِيٌّ وَّهٰذَا لِسَانٌ عَرَبِيٌّ مُّبِيْنٌ، ’’ہم جانتےہیں كہ یہ (مشركین )كہتے ہیں كہ محمد (صلی الله علیہ وسلم) كو ایك آدمی (قرآن كی)تعلیم دیتا ہے۔ جس شخص كے بارے میں یہ باطل بات كہہ رہے ہیں، اس كی زبان تو عجمی ہے اور یہ( قرآن )واضح عربی زبان ہے‘‘ (۱۶: ۱۰۳)۔

حضرت عبدالله بن عباس كی روایت ہےكہ مكہ كا ایك رومی لوہاربلعام یا بلعان قریش كا غلام تھا اور كچھ انجیل بھی جانتا تھا۔ مشركوں نے نبی صلی الله علیہ وسلم كو اس كے پاس آتےجاتے دیكھا تو یہ بات پھیلا دی كہ وہ آپ كو قرآن سكھاتا ہے۔ الله نے جواب فرمایا كہ تم فصاحت و بلاغت كے مدعی ہو كر قرآن كے مثل كلام پیش نہیں كرسكے تو وه عجمی كیا تلقین كلام كرے گا جو عربی كی كچھ شد بد ہی ركھتا ہے؟ سدی اور ابن اسحٰق نے عجمی بشر كا مصداق فاكہ بن مغیره مخزومی یا عامر بن الحضرمی كے عیسائی غلام، جبر (یا یحنس) كو ٹھیرایا ہےجو تورات و انجیل پڑھ لیتا تھا۔ وه مسلمان ہو چكا تھا اور صفا و مروه كے پاس دكان لگاتا تھا، قریش جب نبی صلی الله علیہ وسلم كو ایذا دیتے تو آپ اس كے پاس بیٹھ جاتے تھے۔ عكرمہ، قتاده اورفراء كہتے ہیں:قرآن كے بشر مذكور كانام عایش یا یعیش تھا، وه بنوالحضرمی یا حویطب بن عبدالعزیٰ كا غلام تھا اور اسلام قبول كر چكا تھا۔ مقاتل نے مكہ كی ایك عورت كے یہودی غلام یساركا نام لیا ہے اور ابو فکیہہ اس كی كنیت بتائی ہے۔ ایك نصرانی ابومیسره كا نام بھی لیا گیا ہے۔ بیہقی كہتے ہیں:یسار اور جبر عین التمر كے نصرانی تھے، مكہ میں تلوار سازی كرتے ہوئے انجیل كی تلاوت كرتے تھے۔ ایك بار وه اپنے كام میں مشغول انجیل پڑھ رہے تھے كہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم پاس سے گزرے اور كھڑے ہو كر ان كی تلاوت سننے لگے، تب مشركوں نے یہ بات بنا لی۔ مولانا امین احسن اصلاحی كہتے ہیں:قرآن كوان كے نام سے بحث نہیں، صرف اعتراض سے بحث ہے اور اسی كا اس نے جواب دیا ہے(تدبر قرآن، تفسیر سورۂ نحل)۔

 ضحاك بن مزاحم نے اس فہرست میں حضرت سلمان فارسی كے نام كا اضافہ كیا ہے۔ ان كی روایت سے دور حاضر كے ایك منحرف Miles Augustus Navarr نے خوب فائده اٹھایا۔ ایك مسلم گھرانے میں پیدا ہونے كے بعد وه تشكیك (skepticism) كی راہوں پر چلا تو معترض ہوا كہ یہودیوں كا Yahweh (یاJehovah)اور مسلمانوں كا الله اپنے منتخب فرستادوں كے ذریعے سے اپنی ہی مخلوق كا محض اسے لیے كشت و خون كرا دیتا ہےكہ وه اپنے آبا و اجداد كے معبود چھوڑنے كو تیار نہیں۔ یہ ادعا كرنے كے بعد كہ اسلام نیا مذہب نہیں، بلكہ اس میں گذشتہ مذاہب كی جزئیات كو جمع كرلیا ہے، اس نےبزعم خود یہ فیصلہ كر لیا كہ نماز پنجگانہ زرتشتی مذہب سے، خداے واحد و بالا دست، اس كی تخلیق كا بیانیہ اور انسانوں كی ہدایت كے لیے پیغمبربھیجنے كا تصور عہدنامہ قدیم (تورات، نبییم اور كتبییم ) سے اور جنت و دوزخ كے عقیدے مسیحیت سے اخذ كیے گئے ہیں۔ اس نے قرآن مجید اور گزشتہ الہامی كتابوں میں مماثلت ڈھونڈ كر یہ نتیجہ بھی نكالا كہ قرآن حكیم عہد نامہ قدیم (Old Testament ) سے خوشہ چینی كر كے مرتب كیا گیا ہے۔ اس باطل خیال كی تائیدكے لیے اسے ضحاك كی یہ پامال روایت خوب بھائی اوراس نے اگست ۲۰۱۲ء میں امریكا سے چھپنے والی اپنی كتاب "Forbidden Theology: Origin of Scriptural God" میں لكھا كہ حضرت سلمان یہودیت، عیسائیت اور زرتشتی مذاہب كا گہرا علم ركھتے تھے جوانھوں نے ۵۸۷ء سے ۵۹۷ء تك كے دس سال شام كے كنیسا میں اور ۵۹۷ء سے ۶۱۷ء تك كے بیس سال موصل، نصیبین اور عموریہ كے گرجا گھروں میں ره كر حاصل كیا۔ ۶۲۲ء میں وه نبی صلی الله علیہ وسلم كے پاس حاضر ہو كر مسلمان ہوئے جب آپ ہجرت كر كے مدینہ پہنچے تھے، تب یہی علم تدوین اسلام میں كام آیا۔

طلوع اسلام سے قبل مكہ كے موحدین زید بن عمرو بن نفیل، ورقہ بن نوفل، عثمان بن حویرث اور عبیدالله بن جحش نے قریش كو كسی میلے میں بتوں كے نام پر قربانی كرتے دیكھا توآپس میں مشوره كیا: انھوں نے تو بت پرستی اختیار كر كے دین ابراہیم ترك كر دیا ہے ، ہم جستجو كر كے دین حنیفیت پر عمل پیرا ہو جاتے ہیں۔ چنانچہ وه سفر پر نكلے اور یہود و نصاریٰ كے علما سے ملے، ورقہ نے نصرانیت اختیار كر لی، جب كہ زید بن عمرودین ابراہیم پر پختہ ہو گئے (سیرة ابن اسحٰق، حدیث بنیان الكعبۃ)۔ یہ روایت بیان كرنے كے بعد Navarr لكھتا ہے: مكہ كے بت پرستوں نے ان چاروں توحید پرستوں كو ہراساں كرنا شروع كر دیا جس كی وجہ سے یہ شہر سے نكلنے پر مجبور ہو گئے۔ زید بن عمرو نے غار حرا میں پناه ڈھونڈی ۔ اسی غار میں ان كی ملاقات محمد صلی الله علیہ وسلم سے ہوئی اور انھوں نے اپنے دینی رجحانات و خیالات آپ تك منتقل كیے۔ ورقہ كا سن وفات بعثت نبوی سے پانچ سال قبل۶۰۵ء ہے۔ اس موقع پر Miles Augustus Navarrنے اسماعیلیوں كی یہ روایت كہ حضرت سلمان فارسی ۶۱۰ء ہی میں حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم كے گہرے دوست بن چكے تھےجب آپ كو نبوت ملی تھی، چسپاں كر كے یہ نتیجہ نكال لیا كہ حضرت سلمان ان حنیفیوں كے گروپ كے پانچویں ركن بن گئے تھے۔ آپ امی (illiterate) تھے، آپ كے اصحاب میں سلما ن فارسی ہی واحد شخص تھے جو پچھلی الہامی كتابوں كا گہرا مطا لعہ كر چكے تھے، اس لیے ممكن ہے كہ انھوں نے آیات لكھ لكھ كر آپ كو دی ہوں۔ اس بعید ازعقل خیال كی تائید میں اس نے ایك اورروایت پیش كی: حضرت علی ایك باراپنے ساتھیوں سے خوش طبعی میں مصروف تھے۔ حاضرین نے كہا:ہمیں نبی صلی الله علیہ وسلم كے صحابہ اور اپنے رفقا كے بارے میں كچھ بتائیے۔ ان كے استفسار پر حضرت علی نے حضرت عبدالله بن مسعود، حضرت ابوذر غفاری اور حضرت حذیفہ بن یمان كے بارے میں اپنے خیالات كا اظہار كیاتو انھوں نے حضرت سلمان فارسی كے بارے میں سوال كیا: حضرت علی نے جواب دیا:تمھارے ہاں كون ہے جو حكیم لقمان سے مماثلت ركھتا ہے؟سلمان ہم میں سے تھے اور اہل بیت سے منسوب تھے، انھوں نے پہلا علم اور آخری علم حاصل كیا، پہلی كتاب (انجیل) اور آخری كتاب(قرآن مجید)كا مطالعہ كیا، وه ایك سمندر تھے جس كی تہ كو نہیں پایا جا سكتا( تاریخ دمشق:سلمان بن الاسلام)۔

Navarr كو علم تھا كہ ضحاك كی روایت كو تمام اہل علم نے یك زبان ہوتے ہوئے یہ كہہ كر رد كر دیا ہے كہ جس وقت مشركین مكہ نے یہ لغو اعتراض كیا اور الله تعالیٰ كی طرف سے اس كا جواب اترا، اس وقت حضرت سلمان فارسی فارس اور شام میں راه حق كے سفر پر نكلے ہوئے تھے اور انھوں نے سر زمین حجاز میں قدم ہی نہ ركھا تھا۔ اس كا حل بھی اس نےخوب نكالا، یہ كہتے ہوئے كہ یہ قدیم كتب مسلم عرب مؤرخین كی لكھی ہوئی ہیں، تاریخ میں اجتہاد كر كے خود ہی طے كر دیا كہ ان كا شام كا سفر حق بیس نہیں، بلكہ دس سالوں پر محیط ہو گا اور وه ۶۱۷ء میں نہیں، بلكہ ۶۰۷ء ہی میں مكہ پہنچ گئے ہوں گے۔ اس طرح اپنی گھڑی ہوئی كہانی كو سچ ثابت كر دكھایا۔ تاریخ مسخ كركے اپنے بے اصل مزعومات ثابت كرنے كی اس سے بہتر مثال نہیں مل سكتی۔

Navarr نے یہ بے بنیاد دعویٰ بھی كیا كہ حضرت سلما ن فارسی آں حضرت صلی الله علیہ وسلم كی وفات كے بعد منظر عام سے غائب ہو گئے۔ پچیس سال گم نامی كی زندگی گزارنے كے بعد ۳۵ھ(۶۵۶ء) میں خلیفۂ چہارم حضرت علی نے زمام خلافت سنبھالی توان كے پہلے اقدامات میں سے ایك حضرت سلمان فارسی كو مدائن كاگورنر مقرر كرنا تھا۔ مدائن پہنچنے كے تین ماه بعد ان كا اٹھاسی (۸۸) برس كی عمر میں انتقال ہو گیا۔ ل

ترجمۂ قرآن

كچھ ایرانیوں نے حضرت سلمان فارسی سے درخواست كی كہ انھیں قرآن مجید لكھ كر دیں تو انھوں نے سورۂ فاتحہ كا فارسی ترجمہ تحریركیا۔ امام نووی كہتے ہیں كہ اس سے یہ مسئلہ نكلتا ہے كہ حدیث نبوی كابھی غیرعربی زبانوں میں ترجمہ كیا جا سكتا ہے اورعجمی زبانوں میں تسبیح كی جا سكتی ہے(المجموع شرح المہذب، نووی۳/ ۳۸۰)۔

 روایت حدیث

بخاری میں چاراور مسلم میں تین احادیث ان سے مروی ہیں۔

شاید ایك زمانہ مذہب عیسوی سے وابستہ رہنا اس بات كا باعث بنا كہ حضرت سلمان فارسی نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام كی حیات كے متعلق روایتیں خاص طور پر نقل كیں۔

 حضرت سلمان فارسی نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم كے ارشادات آپ سے برا ہ راست سماع كر كے امت تك منتقل كیے۔ ان سے روایت كرنے والوں میں شامل ہیں: حضرت عبدالله بن عمر ، حضرت عبدالله بن عباس ، حضرت انس بن مالك، حضرت ابوسعید خدری ، حضرت ابو الطفیل عامر بن واثلہ، حضرت كعب بن عجره، حضرت عقبہ بن عامر، حضرت ام الدرداء ، اسود بن یزید، شرحبیل بن سمط، ابو قره سلمہ بن معاویہ، عبدالرحمٰن بن یزید، ابو عمرو زاذان، ابو ظبیان، جندب ازدی، سعید بن وہب، طارق بن شہاب، ابولیلیٰ كندی، ان كی اہلیہ بقیره اور قرثع ضبی۔

حضرت سلمان فارسی كی چند مرویات

 مشركین نے طنز كرتے ہوئے حضرت سلمان فارسی سے پوچھا:تمھارے نبی نے تمھیں ہر چیز سكھائی ہے، حتیٰ كہ قضاے حاجت كرنا بھی بتا دیا۔ حضرت سلمان نے فخریہ كہا:ہاں، آپ نے ہمیں منع فرمایا ہے كہ ہم پیشاب، پاخانہ كرتے ہوئے قبلہ كی طرف رخ كریں، داہنے ہاتھ سے استنجا كریں، تین روڑوں سے كم یا ہڈی یا گوبر سے پاكی حاصل كریں(مسلم، رقم ۵۲۷۔ ابو داؤد، رقم ۷۔ ترمذی، رقم ۱۶۔ نسائی، رقم ۴۱۔ ابن ماجہ ، رقم ۳۱۶۔ احمد، رقم ۲۳۷۰۵۔ السنن الكبریٰ، بیہقی، رقم ۵۰۲ ۔ مسند بزار، رقم ۲۵۰۲)۔ طیبی كہتے ہیں:حضرت سلمان فارسی نے مشركوں كے استہزا سے صرف نظر كرتے ہوئے بڑی دانائی اورسنجیدگی سے دین فطرت میں طہارت كی اہمیت كو بیان كر دیا۔

حضرت سلمان فارسی كہتے ہیں:میں نےتورات میں پڑھا تھا كہ كھانے سے پہلے وضو كرنے میں بركت ہوتی ہے۔ نبی صلی الله علیہ وسلم سے اس كا ذكر كیا توآپ نے فرمایا: اصل بركت یہ ہے كہ كھانے سے پہلے اور بعد میں وضو كیا جائے(ابوداؤد، رقم

۳۷۶۱۔ ترمذی، رقم ۱۸۴۶۔ احمد، رقم ۲۳۷۳۲۔ مسند بزار، رقم ۲۵۱۹۔ مسندالطیالسی، رقم ۶۹۰)۔ علماے رجال كی اكثریت نے اس حدیث كے راوی قیس بن ربیع پر نقد كیا ہے۔ شمس الحق عظیم آبادی كہتے ہیں:سنن ابوداؤد كے زیاده تر نسخوں میں یہ باب موجود نہیں۔ یہاں وضو سے ہاتھوں كا یا ہاتھوں اور منہ دونوں كا دھونامراد ہے، گویا وضو كے ایك جزو پر وضو كا اطلاق كر دیا گیاہے۔ اگرچہ كھانے سے پہلے اور بعد میں ہاتھ دھونے سے نظافت حاصل ہوتی ہے، تاہم اكثر علما اسے شرعاًلازم قرار نہیں دیتےا س لیے كہ نبی صلی الله علیہ وسلم سے بغیر ہاتھ دهوئے كھانا تناول فرمانا بھی ثابت ہے۔

حضرت سلمان فارسی ایك دعوت طعام میں شریك تھے۔ انھیں اور كھانے كو كہا گیا تو فرمایا: میں سیر ہو چكا ہوں۔ میں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم كوفرماتے سنا ہے:دنیا میں خوب پیٹ بھر كر كھانے والے لوگوں كو روز قیامت لمبی بھوكیں دیكھنا ہوں گی(ابن ماجہ، رقم ۳۳۵۱۔ مسند بزار، رقم ۲۴۹۸۔ المعجم الكبیر، طبرانی، رقم ۶۰۸۷۔ حلیۃ الاولیاء۶۲۶)۔

 فرامین رسول سے استنباط

ابو عثمان نہدی كہتے ہیں:میں اور حضرت سلمان فارسی ایك درخت كے نیچے كھڑے تھے۔ انھوں نے ایك خشك ٹہنی پكڑی اور اسے اچھی طرح ہلایا، حتی ٰ كہ اس كے پتے جھڑ گئے۔ پھر فرمایا: تمھارے ذہن میں سوال پیدا ہو گا كہ میں نے ایسا كیوں كیا؟میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم كے ساتھ اسی طرح ایك درخت كے سائے میں كھڑا تھا، آپ نے ایك خشك شاخ تھامی اور اسے خوب ہلا كر پتے جھاڑ دیے پھر فرمایا: سلمان ، تم پوچھو گے نہیں كہ میں نے یہ كیوں كیا؟میں نےسوال كیا:آپ كا منشا كیا تھا؟فرمایا:جب ایك مسلمان خوب اچھی طرح وضو كرتا ہےپھر نماز پنجگانہ ادا كرتا ہے تو اس كے گناه اسی طرح جھڑتے ہیں جیسے یہ پتے جھڑے۔ آپ نے یہ آیت بھی تلاوت فرمائی: ’وَاَقِمِ الصَّلٰوةَ طَرَفَيِ النَّهَارِ وَزُلَفًا مِّنَ الَّيْلِﵧ اِنَّ الْحَسَنٰتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّاٰتِﵧ ذٰلِكَ ذِكْرٰي لِلذّٰكِرِيْنَ‘، ’’نماز دن كے آخر اور شروع میں اور رات كی كچھ گھڑیوں میں قائم كرو، بلاشبہ نیكیاں بدیوں كو زائل كر دیتی ہیں، یہ قرآن نصیحت حاصل كرنے والوں كے لیے یاد دہانی ہے‘‘ (ہود

۱۱: ۱۱۴)۔ (احمد، رقم ۲۳۷۰۷۔ مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ۱ - ۷۔ مسند طیالسی، رقم ۶۵۲) ۔

عہد علوی میں ایك بار حضرت سلمان فارسی كی قیادت میں مسلمانوں کی فوج نے ایک ایرانی قلعہ کامحاصرہ کیا۔ سپاہیوں نے کہا: ابوعبداللہ (حضرت سلمان كی كنیت) ہم ان پرفوراًحملہ نہ کردیں ؟ انھوں نے کہا: ٹھیرو، میں انھیں اسلام کی دعوت دیتا ہوں، اسی طرح جیسے میں نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کو كفار كو دعوت دیتے ہوئے سنا ہے۔ چنانچہ انھوں نے ان كے قریب جا كر فارسی زبان میں آواز دی: میں تمھاری طرح ملك فارس كا ہوں، لیكن تم دیکھ ر ہے ہو كہ عجمی ہونے كے با وجودعرب میری كمان میں ہیں۔ اگرتم اسلام قبول کرلو تو تمھیں وہی حقوق مل جائیں گے جوہمیں حاصل ہیں اورتمھارے فرائض وہی ہوں گے جو ہمارے لیے مقرر كیے گئے ہیں۔ اگرتم اپنے دین پر قائم رہناچاہتے ہوتو ہم تمھیں تمھاری حالت پر چھوڑدیں گے، لیكن تم كو مطیع ہو کر جزیہ دینا ہو گا۔ اگرتم ان دونوں میں سے ایك بات بھی نہیں مانتے تو ہم تم سے برابر كھلی جنگ کریں گے۔ انھوں نے جواب دیا: ہم جزیہ دینے والے نہیں، بلكہ میدان جنگ میں تمھارا مقابلہ کریں گے۔ حضرت سلمان فارسی كی فوج نے کہا: ابوعبداللہ ، ہم ان پرابھی یلغار نہ کردیں؟ انھوں نے کہا: نہیں، انھوں نے تین دن تک ان كو اسی طرح اسلام کی دعوت دی، پھرفوج كو حملہ کرنے كا حكم دیا اور چوتھے دن فتح پائی(احمد، رقم ۲۳۷۳۴۔ مسند بزار، رقم ۲۵۴۵۔ حلیۃ الاولیاء ۶۰۷)۔

حضرت سلمان فارسی كی طرح كچھ اوراہل علم صحابہ کی بھی یہی راے ہے کہ قتال سے پہلے کافروں کو تین دن دعوت ایمان دی جائے، عمر بن عبدالعزیز اور امام شافعی اسے و اجب سمجھتے ہیں۔ دیگر علما كا خیال ہے کہ اس دور میں دعوت کی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ اسلام کا پیغام ان تک پہنچ چکا ہے، امام احمد بن حنبل اس مسلك كے حامل ہیں۔

تركی كے حجام

ایك روایت كے مطابق حضرت سلمان فارسی رسول الله كے حجام بھی رہے۔ یہی وجہ ہے كہ تركی كے كئی حجاموں نے اپنی دكانوں میں اس تحریرپر مشتمل كتبے آویزاں كیے ہوتے ہیں: ہر صبح ہماری دكان الله كے نام (بسم الله)سے كھلتی ہے اور حضرت سلمان ہمارے پیر اور آقا ہیں۔

مطالعہ مزید: السیرۃ النبویۃ (ابن ہشام)، الطبقات الکبریٰ(ابن سعد)، جمل من انساب الاشراف (بلاذری)، تاریخ الامم والملوك (طبری)، دلائل النبوة (بیہقی)، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب (ابن عبدالبر)، المتظم فی تواریخ الملوك والامم(ابن جوزی)، الكامل فی التاریخ (ابن اثیر)، اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ (ابن اثیر)، تہذیب الكمال فی اسماء الرجال (مزی)، تاریخ الاسلام (ذہبی)، سیر اعلام النبلاء (ذہبی)، البدایۃ والنہایۃ (ابن کثیر)، الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ (ابن حجر)، راه حق كے دو مسافر(محمدیوسف اصلاحی)، اردو دائره معارف اسلامیہ (مضمون نگار: مرتضیٰ حسین فاضل)، Forbidden Theology: Origin of Scriptural God (Miles Augustus Navarr)، ویكیبیدیا الموسوعۃ الحرة، Wikipedia، ویكی شیعۃ۔

_________

B