مسلمانوں میں اس بات کی بڑی شہرت ہو گئی ہے کہ ہندو مذہبی کتابوں میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد سے متعلق واضح پیشین گوئیاں موجود ہیں۔ ایک زمانے میں میرا بھی یہی خیال تھا اور اس کو بڑے زور کے ساتھ لوگوں کے سامنے بیان بھی کرتا رہا۔ تاہم بعد میں جب براہ راست ہندو صحائف کے مطالعے کا موقع ملا اور ان پیشین گوئیوں کے بارے میں ہمارے مبلغین کی تاویلات کو دقت نظر کے ساتھ پرکھا تو اپنی سابقہ راے کو تبدیل کر لیا۔ پچھلے سالوں میں کئی بار اس بات کا شدت سے احساس ہوا کہ ہندو مذہبی متون کو اپروچ کرنے کا جو نہج بعض مسلم مبلغین نے اختیار کیا ہے، وہ انتہائی سطحی اور ناقص ہے۔ ان شخصیات سے والہانہ عقیدت کی بنا پر مسلمانوں نے بلا تحقیق ان کی باتوں کو اختیار کر لیا اور ہندو عوام سے مکالمے (بلکہ مناظرے) کے لیے اکثر لوگ انھی باتوں کو استعمال کرتے رہے اور اب بھی کرتے ہیں۔ ہمارے یہاں تحقیقی ذوق پہلے ہی مفقود ہے اور اس پر مستزاد یہ کہ جب کوئی مسلمان سنسکرت کی کتابوں کے حوالے دے کر، کچھ منتروں کو (اکثر غلط تلفظ کے ساتھ) دہرا کر اسلام کی صداقت ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو داد تحسین ضرور حاصل ہوتی ہے۔ میں نے کئی بار ارادہ کیا کہ میں اس بارے میں کوئی مضمون لکھوں، لیکن اپنی مصروفیت اور صحت کے بعض مسائل کی وجہ سے نہیں لکھ سکا۔ اپنی آیندہ تحریروں میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں ان مزعومہ پیشین گوئیوں پر میں اپنا تجزیہ پیش کروں گا۔ سب سے پہلے ’کَلکی اوتار‘ کی پیشین گوئی کو دیکھتے ہیں، جس کا مصداق محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی کو ٹھیرایا جاتا ہے۔
’کَلکی اوتار‘ کی پیشین گوئی ’پُران‘ (Purana) نامی کتب میں موجود ہے۔ ہندو مذہبی کتب میں ان کی استنادی حیثیت اتنی مضبوط نہیں ہے۔ تاہم عوام الناس میں یہی کتابیں زیادہ مقبول ہیں۔ کَلکی اوتار سے متعلق پیشین گوئی بنیادی طور پر ’بھاگوت پران‘ اور خاص اسی موضوع پر اسی نام سے موسوم ’کَلکی پران‘ میں موجود ہے۔ انھی دو کتابوں کو سامنے رکھ کر ہم اس پیشین گوئی کا تجزیہ کریں گے اور دیکھیں گے کہ کیا فی الواقع ان میں مذکور تفصیلات محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ سے مطابقت رکھتی ہیں، جیسا کہ دعویٰ کیا جاتا ہے، یا نہیں۔
तत् श्रुत्वा पुण्डरीकाक्षो ब्रह्मानमिदमब्रवीत् शम्भले विष्णुयशसो गृहे प्रादुर्भावाम्यहम् सुमत्यां मातरि विभो! पत्नीयां तवन्निदेशतः
’’پنڑری کاکش وِشنو بھگوان برہما جی کی ان باتوں کو سن کر برہما جی سے کہنے لگے کہ میں تمھارے کہنے سے ’شَمبھل‘ نامی گاؤں میں’وِشنو یَش‘ نام والے براہمن کے گھر ’سُمَتی‘ نامی براہمن کی بیٹی کے حمل سے پیدا ہوؤنگا۔‘‘ (کلکی پران، ادھیاے ۲، اشلوک ۴)
’’تب وشنو یش سے سُمَتی حاملہ ہوئی، اس طرح کہ ان کے رحم میں وشنو بھگوان ودیہ مان ہوئے۔‘‘ (کلکی پران، ادھیاے ۲، اشلوک۱۱)
اس اشلوک میں وشنو کے کلکی اوتار کے والد کا نام ’وِشنو یَش‘ (Vishnu Yash) اور والدہ کا نام ’سُمَتی‘ (Sumati) بتایا گیا ہے۔
ان ناموں کے بارے میں ہمارے مبلغین فرماتے ہیں کہ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے والدین کے اسماء کے سنسکرت بدل ہیں۔ وہ فرماتے ہیں کہ کلکی اوتار کے والد کا نام ’وِشنو یَش‘ (विष्णुयश) آیا ہے جس کے معنی ’اللہ کے بندے‘ کے ہوتے ہیں۔ ان کے نزدیک وِشنو سے مراد اللہ ہے اور یَش کے معنی بندے کے ہیں۔ لیکن حقیقت میں سنسکرت زبان کے لفظ ’یَش‘ کا مطلب ’بندہ‘ نہیں ہے، بلکہ اس لفظ کے معنی ’جلال‘ یا ’عظمت‘ کے ہیں، تو ’وشنو یَش‘ کے معنی ہوں گے: ’وشنو کا جلال‘ یا ’وشنو کی عظمت‘۔ کسی شخص کا اگر یہ نام ہو تو اس کا مطلب ہوگا: وہ جس کے اندر وِشنو کا جلال یا عظمت ظاہر ہو۔ اس کا عربی مترادف ’عبد اللہ‘ نہیں، بلکہ ’جلال اللہ‘ یا ’بہاء اللہ‘ ہوگا۔
اسی طرح کلکی اوتار کی والدہ کا نام ’سُمتی‘ (सुमति) بتایا گیا ہے۔ اس پر یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ اس نام کے معنی ’امانت دار‘ یا ’امن والی‘ کے ہیں اور عربی میں اسے ’آمنہ‘ کہیں گے۔ یہ معنی بھی محل نظر ہیں۔ سنسکرت لغت میں ’متی‘ (मति) کے معنی ’عقل‘، ’فہم‘ یا ’علم‘ کے آتے ہیں۔ ’سُ‘ (सु) ایک سابقہ (उपसर्ग)ہے جو کسی صفت سے قبل آنے پر ایک چیز کو مثبت انداز میں اس صفت سے متصف بناتا ہے۔ تو لفظ ’سُمتی‘ کے معنی ہوتے ہیں: ’علم والی‘، ’فہم والی‘ یا ’عقل والی‘۔ ’امن والی‘ یا ’امانت دار‘ اس کے معنی نہ جانے کس لغت میں ہیں۔ اس کے عربی مترادفات ’علیمہ‘، ’عقیلہ‘ وغیرہ جیسے الفاظ ہیں۔
لہٰذا کلکی اوتار اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے والدین کے ناموں میں مطابقت موجود نہیں ہے، بلکہ خواہ مخواہ مطابقت پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
’’کلکی پران‘‘ کے اسی اشلوک میں کلکی کا مقام پیدایش ’شَمبھل‘ (शम्भल/Shambhal) بتایا گیا ہے۔
ہمارے یہ حضرات لکھتے ہیں کہ یہ نام لفظ ’شَم‘ (शम्) سے بنا ہے جس کے معنی ’امن‘ کے ہوتے ہیں۔ اور لفظ ’شمبھل‘ ایسےمقام کو کہتے ہیں جہاں لوگوں کو امن حاصل ہو۔ اس کے بعد وہ یہ باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ مکہ مکرمہ کو قرآن مجید میں ’بلد أمین‘ کہا گیا ہے اور سورۂ آل عمران (۳) کی آیت ۹۷ میں اسی کے بارے میں ’وَمَنْ دَخَلَهٗ كَانَ اٰمِنًا ‘ آیا ہے۔ اس لیے ان حضرات کے نزدیک ’شمبھل‘ سے مراد مکہ مکرمہ ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی دعویٰ کیا جاتا ہے کہ اس نام کا کوئی مقام ہندوستان میں موجود نہیں ہے ۔ کوئی بھی شخص جو ہندوستان کے جغرافیے سے کسی قدر واقف ہے، جانتا ہے کہ یہ دعویٰ درست نہیں ہے۔ ’شمبھل‘ نام کا مقام ہندوستان کی ریاست اُتر پردیش میں دریاے گنگا کے نزدیک واقع ہے۔ اس مقام کے ہوتے ہوئے، لفظ ’شمبھل‘ کو اسم کے بجاے صفت قرار دینے کی کوئی وجہ نہیں ہے اور نہ زبان کے قواعد کی رو سے اسے درست تسلیم کیا جاسکتا ہے۔ اس طرح تو ہر کسی کتاب میں موجود اسما کو صفات قرار دے کر ان کا کچھ سے کچھ مطلب لیا جاسکتا ہے۔
द्वादश्या शुक्लपक्षस्य माधवे मासि माधव जात ददृशतु पुत्र पितरौ ह्रष्टमानसौ
’’بیساکھ مہینے کے پہلے نصف حصے میں بارہویں کے دن بھگوان پیدا ہوئے۔ ان کو پیدا ہوتے دیکھ کے ان کے والدین کو انتہائی مسرت ہوئی۔‘‘ (کلکی پران، ادھیاے ۲، اشلوک ۱۵)
’’کلکی پران‘‘ کے اس اشلوک میں کلکی کی تاریخ پیدایش بیساکھ مہینے کی بارھویں بتائی گئی ہے۔ اس بنیاد پر کہا جاتا ہے کہ یہ وہی تاریخ ہے جو ہمارے قمری حساب سے ۱۲ ؍ربیع الاول بنتی ہے، جو کہ آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخ پیدایش کے طور پر مشہور ہے۔ لیکن اس کو ثابت کرنے کے لیے کوئی دلیل فراہم نہیں کی جاتی جس سے یہ دکھایا جا سکے کہ۵۷۱ عیسوی کے ۱۲ ؍ ربیع الاول کی مطابقت بیساکھ کی ۱۲ تاریخ سے ہوتی ہو۔
’’کلکی پران‘‘ میں مذکور کلکی سے متعلق بعض تفصیلات ایسی ہیں جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی سے بالکل بھی مطابقت نہیں رکھتیں۔
ا۔ وِشنو یَش براہمن نے کلکی روپ بھگوان کی ترقی اور بہتری کی غرض سے صاف دل ہو کر بڑے بڑے رِگویدی ، یَجُرویدی اور سام ویدی براہمنوں سے ان کا نام کرن کرایا (ادھیائے۲، اشلوک۲۳)۔
ب۔ کلکی بھگوان سے پہلے ان سے بڑے اور تین بھائی پیدا ہوئے تھے۔ ان تینوں کے نام کَوی، پرا گیہ اور سُمنترک تھے (ادھیائے۲، اشلوک۳۱)۔
ج۔کلکی کے والد وِشنو یَش کلکی کا اُپ نَیَن سَنسکار کرکے ان کو ویدوں کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے گروکل بھیجتے ہیں( ادھیائے۲، اشلوک ۴۹)۔
د۔ کلکی گروکل میں پرشُرام جی سے روایتی تعلیم حاصل کرتے ہیں اور چونسٹھ فنون سمیت سانگ اُوپانگ وید اور دھنور وید وغیرہ پڑھتے ہیں (ادھیائے ۳، اشلوک۶)۔
ان حوالہ جات سے درج ذیل باتیں ظاہر ہوتی ہیں:
۱۔ کلکی کی پیدایش کے وقت ان کے والد زندہ ہوں گے اور ان کا نام خود رکھوائیں گے۔ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے بارے میں معلوم ہے کہ ان کی پیدایش کے وقت ان کے والد کا انتقال ہو چکا تھا۔
۲۔کلکی کی پیدایش سے قبل ان کے تین بھائیوں کی ولادت ہو چکی ہوگی۔ محمد صلی الله علیہ وسلم کے بارے میں یہ بات درست نہیں ہے۔
۳۔کلکی کے والد ہندو دھرم کے مطابق اپنے بیٹے کا اپ نین سنسکار کریں گے اور ویدوں کی تعلیم کے لیے باقاعدہ گروکل میں رہنے کے لیے بھیجیں گے، جہاں وہ روایتی تعلیم حاصل کریں گے۔ محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے کبھی کوئی باقاعدہ تعلیم حاصل نہیں کی، نہ کسی مدرسے میں داخلہ لیا۔
یہ سب تفصیلات بھی رسالت مآب صلی الله علیہ وسلم کی ابتدائی زندگی سے مطابقت نہیں رکھتیں۔
’’کلکی پران‘‘ میں ہے کہ کلکی کا بیاہ سِنگھل دیش کے راجا کی بیٹی پَدما سے ہوگا (ادھیائے ۲، اشلوک۶)۔
’’کلکی پران‘‘ میں کلکی کی صرف ایک زوجہ کا ذکر ہے۔ صاف ہے کہ کلکی کی ایک ہی زوجہ ہوں گی اور وہ بھی ان کے اپنی وطن کی نہیں، بلکہ سنگھل دیش، یعنی سری لنکا کی رہنے والی ہوں گی۔ رسالت مآب صلی الله علیہ وسلم کے بارے میں معلوم ہے کہ آپ کی گیارہ ازواج مطہرات تھیں اور سنگھل دیش سے کسی کا بھی تعلق نہیں تھا۔
کلکی اوتار کی بعض دوسری صفات اور ان کے ذاتی حالات جو ’’کلکی پران‘‘ میں مذکور ہیں، وہ ایسے نہیں ہیں کہ تنہا ان کی بنیاد پر محمد صلی الله علیہ وسلم کو اس پیشین گوئی کا مصداق قرار دیا جا سکے۔ مثلاً یہ کہ کلکی ایک سفیدگھوڑے پر سوار ہو کر، ہاتھ میں تلوار لیے تیز رفتاری سے پوری زمین کا سفر کریں گے اور لاکھوں کی تعداد میں ایسے برے لوگوں کا قتل عام کریں گے جو مختلف مقامات پر حکومت کر رہے ہوں گے(بھاگوت پران حصہ ۱۲، ادھیائے ۲، اشلوک ۱۹)۔ اس سے لوگ بہ ظاہر یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ حضور صلی الله علیہ وسلم بھی تو جنگوں میں شریک ہوئے اور اپنے دشمنوں کا قتل کیا۔ اس لیے آں حضور صلی الله علیہ وسلم ہی کلکی اوتار ہیں۔ اول تو رسالت مآب صلی الله علیہ وسلم نےتمام روے زمین کا سفر ایک گھوڑے پر نہیں کیا اور نہ یہ ایسی کوئی بات ہے جو کسی دوسرے حکمران یا فاتح پر صادق نہ آ سکے۔ رہی کلکی اوتار کی بعض خوبیاں اورحکمت، تواضع، شجاعت وغیرہ جیسے اوصاف، تو یہ کسی پر بھی منطبق کیے جاسکتے ہیں۔ ان کی بنیاد پر قطعاً کوئی حتمی بات نہیں کہی جا سکتی۔
اس تجزیے کی رو سے محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو کلکی اوتارکی پیشین گوئی کا مصدق قرار دینا محض تکلف ہے۔ اس کے لیے کلکی کے بعض ذاتی احوال کو یکسر صرف نظر کیا جاتا ہے اورسنسکرت الفاظ اور عبارات کے غلط معنی بیان کیے جاتے ہیں۔
اس طرح ہندو مذہبی صحائف کی من مانی تشریح سے دین اسلام کی خدمت کے بجاے، ہماری دعوت کو نقصان پہنچتا ہے۔ دین کی دعوت ہر حال میں محکم بنیادوں پر استوار رہنی چاہیے۔
ـــــــــــــــــــــــــ
[*] اسسٹنٹ فیلو، المورد ۔