[اس مضمون کی تین اقساط اکتوبر اور دسمبر ۲۰۱۸ء اور مئی ۲۰۱۹ء کے شماروں میں سلسلہ وار شائع ہوئی ہیں ۔ اس سلسلے کو دوبارہ شروع کیا جارہا ہے۔ ادارہ]
لفظ اپنے لغوی معنی میں استعمال ہوا ہے یا بطور اسم اور اصطلاح کے یا متکلم نے اسے اُٹھا کر ایک اصطلاح بنا دیا ہے، ان تمام باتوں کا فیصلہ بھی سیاق و سباق کی روشنی میں کیا جاتا ہے۔ بعض اوقات کچھ مسائل کی وجہ سے مترجمین پر اس معاملے میں مکمل وضوح نہیں ہو پاتا اور اس بات کا امکان بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے کہ ان کے ہاں یہ تمام پہلو آپس میں خلط ملط ہو جائیں۔ مثال کے طور پر، اس آیت میں ذہنوں پر اصطلاح کا غلبہ لفظ کے لغوی مفہوم کے بالکل دب جانے کا باعث ہو گیا ہے:
وَقُلْنَا يٰ٘اٰدَمُ اسْكُنْ اَنْتَ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ. (البقرہ۲: ۳۵)
’’اور ہم نے آدم سے کہا: تم اور تمھاری بیوی، دونوں اس باغ میں رہو۔‘‘
عربی زبان میں ’جنة‘ کا لغوی معنی باغ ہے اورقرآن میں یہ اصطلاح کی حیثیت سے بھی بارہا استعمال ہوتا ہے۔ مگر غور طلب امر یہ ہے کہ آدم و ابلیس کے واقعہ کے ذیل میں ایسی کوئی چیز بیان نہیں ہوئی جو قیامت کے بعد اور انعام کے طور پر ملنے والے باغ کے لیے کوئی قرینہ فراہم کرتی ہو۔ لہٰذا اگر ذہن پر اصطلاحی معنی کا غلبہ نہ ہو تو بہ آسانی معلوم ہو جاتا ہے کہ قرآن کے دیگر کئی مقامات کی طرح اس آیت میں بھی یہ اپنے عام لغوی معنی میں استعمال ہوا ہے[18] ۔البیان میں یہی وجہ ہے کہ اس کا ترجمہ ’’باغ‘‘ کے لفظ سے کیا گیا ہے۔
ذیل کی آیت اس بات کی مثال ہے کہ کسی خاص نقطۂ نظر کی بے جا رعایت بھی اس معاملے میں بعض اوقات عجز کا باعث ہو جایا کرتی ہے:
فَمَا اسْتَمْتَعْتُمْ بِهٖ مِنْهُنَّ فَاٰتُوْهُنَّ اُجُوْرَهُنَّ فَرِيْضَةً. (النساء۴: ۲۴)
’’پھر (اِس سے پہلے اگر مہر ادا نہیں کیا ہے تو) جو فائدہ اُن سے اٹھایاہے ،اُس کے صلے میں اُن کا مہر اُنھیں ادا کرو، ایک فرض کے طورپر۔‘‘
’استمتاع‘ عربی زبان کا لفظ ہے جس کا لغوی معنی فائدہ اٹھاناہے۔ اسے اس معنی میں قرآن نے کئی مقامات پر استعمال کیا ہے[19] اور یہ آیت بھی اس کی ایک اچھی نظیر ہے۔بعض حضرات نے اسے اصطلاحی معنی میں لے کر اس کا مطلب متعہ کرنا کر لیا ہے۔ دراں حالیکہ آیت ۱۹ سے ۲۵ تک سارے مجموعۂ کلام میں صرف نکاح شرعی کا بیان کیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں پہلے محرمات اور پھر نکاح کے دو شرائط ،یعنی حق مہر اور پاک دامنی کا ذکر ہوا ہے۔ زیرنظر آیت اسی حق مہر کے بارے میں پیدا ہوجانے والے ایک سوال کا فوری جواب ہے کہ اگر اسے ادا کرنے سے پہلے بیویوں سے فائدہ اٹھا لیا گیا ہو تو ضروری ہے کہ اب اسے ادا کر دیا جائے۔ اس کے بعد فرمایا ہے کہ آزاد عورتوں سے نکاح کرنا اگر مقدرت میں نہ ہو تو لونڈیوں سے نکاح کرلو، البتہ، یہ بات سامنے رہے کہ اس پر بھی نکاح کی دونوں شرطیں عائد رہیں گی۔ غرض یہ کہ سیاق کلام اس معاملے میں بالکل واضح ہے کہ یہاں لفظ ’استمتاع‘ فائدہ اٹھانے کے معنی میں آیا ہے اور کوئی وجہ نہیں ہے کہ لغوی معنی سے ہٹا کر اسے ایک خاص قسم کے جنسی رابطے سے متعلق کر لیا جائے۔ البیان میں بھی اس کاترجمہ فائدہ اٹھاناکیاہے اورقاری کوکسی شبہ سے بچانے کے لیے مزید یہ بھی کیاہے کہ ایک مقدر جملہ قوسین کے اندر کھول دیا گیا ہے۔
ذیل کی آیت اس لحاظ سے مشکل ہوگئی ہے کہ اس میں ایک ہی جملے میں دو چیزیں دومختلف پہلوؤں سے بیان کی گئی ہیں :
سُبْحٰنَ الَّذِيْ٘ اَسْرٰي بِعَبْدِهٖ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَي الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا.(بنی اسرائیل۱۷: ۱)
’’ہر عیب سے پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندے کو ایک رات مسجد حرام سے اُس دور کی مسجد تک لے گئی۔‘‘
شہر مکہ میں واقع مسجد ’الْمَسْجِدِ الْحَرَام‘،یعنی حرمت والی مسجد کے نام سے موسوم ہے اور اسے یہ حیثیت سیدنا ابراہیم کے زمانے سے حاصل تھی، اور اس اعتبار سے مقامی اور غیرمقامی، سب لوگوں کے لیے یکساں طور پر مسلم بھی تھی۔ اس کے مقابلے میں ’الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا‘ کی ترکیب خود بتا رہی ہے کہ’’ دوری‘‘ اس مسجد کا کوئی ذاتی اور مستقل وصف نہیں ہے، بلکہ یہ لفظ اس سے دور رہنے والے، یعنی اہل مکہ کی رعایت سے بولا گیا ہے جن سے یہ چالیس دن کی دوری پر اور فلسطین کے علاقے میں واقع تھی۔ مزید یہ کہ ایک رات میں خدا کی طرف سے کرایا گیا یہ وہ سفر ہے جس میں مسجد حرام ابتدائی اورمسجد اقصیٰ انتہائی مقام ہے، اس لحاظ سے بھی اس کے لیے ’’دور‘‘ کا لفظ زیادہ موزوں دکھائی دیتا ہے۔ سو یہ لفظ چاہے بعدمیں اسم کے طور پر رائج ہوگیا ہو، مگر یہ اُس وقت اپنے لغوی معنی میں استعمال ہوا ہے، اور یہی وجہ ہے کہ البیان میں ’’مسجد حرام‘‘ کے مقابلے میں اس کا ترجمہ’’اُس دور کی مسجد‘‘ کیا گیا ہے۔
اوپر کی تمام آیات لفظ کے لغوی معنی کی مثال ہیں ۔قرآن میں بہت سے الفاظ اصطلاح کے طور پر آتے ہیں اور وہ اتنے زیادہ اور اس قدر واضح ہیں کہ انھیں بیان کرنے کی کوئی خاص ضرورت نہیں[20]۔البتہ ،ہم بطورمثال یہاں اُن آیات کوپیش کیے دیتے ہیں جن میں قرآن نے ایک عام لفظ کو اٹھایا اور اُسے ابتداءً اصطلاح کا درجہ دے دیا ہے یا کم سے کم اُس کے لیے ایک بنیاد فراہم ضرور کر دی ہے:
اِنَّا٘ اَنْزَلْنَا التَّوْرٰىةَ فِيْهَا هُدًي وَّنُوْرٌﵐ يَحْكُمُ بِهَا النَّبِيُّوْنَ الَّذِيْنَ اَسْلَمُوْا لِلَّذِيْنَ هَادُوْا وَالرَّبّٰنِيُّوْنَ وَالْاَحْبَارُ.(المائدہ۵: ۴۴)
’’یہ تورات ہمیں نے اتاری، جس میں ہدایت بھی تھی اور روشنی بھی۔ اللہ کے فرماں بردار نبی، ربانی عالم اور فقیہ اِن یہودیوں کے فیصلے اِسی کے مطابق کرتے تھے۔‘‘
عربی زبان میں ’إسلام‘ کا لفظ دوسرے کی اطاعت کرنے اور اپنے آپ کو اس کے سپرد کرنے کے لیے معروف تھا۔ اسے اللہ کی اطاعت اور اس کے سپرد کرنے کے اصطلاحی معنی میں سب سے پہلے قرآن نے استعمال کیا ہے۔ البیان میں موقع کلام کی دلالت اورلفظ کے اس خاص پہلو کا لحاظ ہے کہ’اَسْلَمُوْا ‘ کا ترجمہ ’’اللہ کے فرماں بردار‘‘ کیا گیاہے۔[21]
ذیل کی آیت اس بات کی مثال ہے کہ قرآن نے ایک لفظ کو اگرچہ اصطلاحی معنی میں استعمال نہیں کیا، مگر اسے باقاعدہ اصطلاح بنا دینے کی طرف پہلا قدم ضرور اٹھا دیا ہے:
وَتِلْكَ الْاَيَّامُ نُدَاوِلُهَا بَيْنَ النَّاسِﵐ وَلِيَعْلَمَ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَيَتَّخِذَ مِنْكُمْ شُهَدَآءَ. (آل عمران۳: ۱۴۰)
’’اور دنوں کا یہ الٹ پھیر تو ہم لوگوں کے اندر اِس لیے کرتے ہیں کہ اُن کا امتحان کریں اور اِس لیے کہ اللہ ایمان والوں کو جان لے اور تم میں سے اُن لوگوں کو چھانٹ لے جو (اپنی جان دے کر بھی) حق کی گواہی دینے والے ہوں ۔‘‘
شہيد کا لفظی معنی گواہی دینے والا ہے۔ اگرچہ قرآن نے بعض مقامات پر اسے ایک اصطلاح کی صورت میں بھی استعمال کیا ہے، یعنی حق کے راستے میں مقتول ہونے والا شخص، مگر اس آیت میں دیکھ لیا جا سکتا ہے کہ یہ گواہ ہی کے معنی میں آیا ہے۔ البتہ، یہ قرآن کاوہ مقام ہے جہاں اسے اس طرح سے استعمال کیا گیا ہے کہ وہ علوم اسلامیہ میں باقاعدہ ایک اصطلاح کی بنیاد بن گیا ہے۔ اس لفظ کے استعمال کی یہی نزاکت ہے کہ البیان میں اس کا ترجمہ تو اس کی اصل کے لحاظ سے کیا گیا ہے، یعنی حق کی گواہی دینے والے، مگر قوسین میں ’’اپنی جان دے کر بھی‘‘ کے الفاظ لا کر اصطلاح کی طرف جاتا ہوا اس کا مفہوم بھی واضح کر دیا گیا ہے۔
کم وبیش یہی معاملہ لفظ ’متقي‘ کا بھی ہے۔ ذیل کی آیت میں قرآن نے بطور اصطلاح اس کے استعمال کی بنیادتواُٹھادی ہے،مگر یہ اپنے اصطلاحی معنی میں یہاں آیانہیں ہے۔اوریہی وجہ ہے کہ البیان میں اس کا ترجمہ بھی اردو کے’’ متقی ‘‘سے کرنے کے بجاے’’ پرہیز گاروں ‘‘ کیا گیا ہے جس سے اصل معنی کی رعایت بھی ہوگئی ہے اور اس کے ایک اصطلاح بننے کی طرف خفیف سا اشارہ بھی ہو گیا ہے :
بَلٰي مَنْ اَوْفٰي بِعَهْدِهٖ وَاتَّقٰي فَاِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الْمُتَّقِيْنَ. (آل عمران۳: ۷۶)
’’ہاں ،کیوں نہیں ؟(اللہ کا طریقہ تو یہ ہے کہ) جو اُس کے عہد کو پورا کرے اور پرہیزگار رہے، وہ اُسے محبوب ہے، اس لیے کہ اللہ پرہیزگاروں سے محبت کرتا ہے۔‘‘
الفاظ حقیقی معنی میں استعمال ہوتے ہیں اور کبھی مجازمیں بھی چلے جاتے ہیں اور ان کی تعیین میں بھی فیصلہ کن چیز سیاق و سباق ہوتا ہے ۔اس معاملے میں اگر پورا دھیان نہ دیا جائے تو اس بات کا امکان بہت زیادہ بڑھ جاتاہے کہ ترجمہ کرتے ہوئے حقیقت سے مجاز اور مجاز سے حقیقت مراد لے لی جائے:
وَكَذٰلِكَ جَعَلْنٰكُمْ اُمَّةً وَّسَطًا لِّتَكُوْنُوْا شُهَدَآءَ عَلَي النَّاسِ وَيَكُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَيْكُمْ شَهِيْدًا. (البقرہ۲: ۱۴۳)
’’اور اِسی طرح ہم نے تمھیں بھی ایک درمیان کی جماعت بنا دیا ہے تاکہ تم دنیا کے سب لوگوں پر (حق کی) شہادت دینے والے بنو اور اللہ کا رسول تم پر یہ شہادت دے۔‘‘
اس آیت میں عام طور پر ’اُمَّة‘ کی صفت ’وَسَطًا‘ کو مجازمیں لیتے ہوئے ترجمہ کیا گیا ہے، جیسا کہ ’’عادل امت‘‘، ’’امت معتدل‘‘ یا ’’اعتدال پر رہنے والی امت ‘‘وغیرہ۔ البیان میں اس کا ترجمہ ’’درمیان کی امت‘‘ کیا گیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں سیاق کلام بالکل واضح ہے کہ یہ اپنے حقیقی معنی، یعنی ’’درمیان ‘‘ کے لیے آیا ہے۔ اس لیے کہ اگلے جملے میں ارشاد ہوا ہے کہ تمھیں امت وسط اس لیے بنایا ہے کہ تم لوگوں پر شہادت دو اور اللہ کا رسول تم پر شہادت دے۔ اس کا سیدھا سا مطلب ، ظاہر ہے کہ یہی بنتا ہے کہ تمھاری ایک طرف اللہ کے رسول ہیں اور دوسری طرف دنیا کے سب لوگ اور تم ان دونوں کے درمیان میں ہو۔
فَوَسْوَسَ اِلَيْهِ الشَّيْطٰنُ قَالَ يٰ٘اٰدَمُ هَلْ اَدُلُّكَ عَلٰي شَجَرَةِ الْخُلْدِ.(طٰہٰ۲۰: ۱۲۰)
’’لیکن شیطان نے اُس کو ورغلایا۔ اُس نے کہا: آدم،میں تم کو وہ درخت بتاؤں جس میں ہمیشہ کی زندگی ہے۔‘‘
آدم و حوا کو ’الشَّجَرَة‘ کے قریب جانے سے روک دیا گیا تھا، مگر شیطان نے قسمیں کھا کر انھیں اپنی خیرخواہی کا یقین دلایا اورانھیں بہکایا کہ وہ اس کا پھل ضرور کھائیں ،اور ہم جانتے ہیں کہ وہ لوگ اس کے بہکاوے میں آکر اس کا پھل کھا بیٹھے۔ عام طور پر مترجمین جہاں بھی اس ’الشَّجَرَة‘ کا ذکر آئے، اس کا حقیقی معنی ،یعنی درخت مراد لیتے ہیں اور پھر اس تفصیل میں چلے جاتے ہیں کہ آدم وحوا نے جو پھل کھایا وہ گندم کا تھا یا پھر جو اور زیتون کا تھا۔ البیان میں لفظ کے مجازی معنی کی رعایت کرتے ہوئے اس سے شجرۂ نسل اور اس کا پھل کھانے سے میاں بیوی کا باہمی تعلق مراد لیا گیا ہے۔ اس بات کی دلیل سیاق و سباق میں یہ ہے کہ جب شیطان نے آدم و حوا کو بہکایا تو ان سے گندم اور جوکے درخت کے بجاے ’شَجَرَةِ الْخُلْدِ ‘، یعنی ہمیشگی کے درخت کا ذکر کیا جو واضح طور پر اُس کے مجاز ی پہلو کی طرف ایک اشارہ ہے۔ دوسرے یہ کہ اگلے جملوں میں اس کا پھل کھانے کے جونتائج بیان ہوئے ہیں ،وہ بھی یہی بتاتے ہیں کہ یہاں اس لفظ سے اس کا مجاز ہی مراد ہے، جیسا کہ اس کے کھانے سے ابدی بادشاہی اور حیات جاوداں کا حاصل ہونا، اسے کھانے کی خواہش میں ایسی کیفیت طاری ہونا کہ آدمی اپنے پروردگار تک کا حکم بھول جائے اور مزید یہ کہ اسے کھانے سے پردے کے مقامات کے بارے میں شعور اور آگہی حاصل ہوجانا۔
ی یہاں ضمناً ایک اور بحث بھی سامنے رہے۔ اگرچہ اس کا سیاق و سباق والے مرکزی عنوان اور اُس کی ذیلی سرخی، یعنی لفظ کے حقیقی اور مجازی استعمال سے براہ راست کوئی تعلق نہیں ہے، مگر یہ اس لحاظ سے قابل غور ہے کہ اس میں بھی فعل کو اپنے فاعل اور مفعول کی طرف مجازی طور پر نسبت دی جاتی ہے۔ البیان میں ہم اس بات کا اہتمام دیکھتے ہیں کہ اس طرح کی عربی نسبتوں کو بہت سے مقامات پر بعینہ اردو قالب میں ڈھال دیا گیاہے:
لَا تُدْرِكُهُ الْاَبْصَارُﵟ وَهُوَ يُدْرِكُ الْاَبْصَارَﵐ وَهُوَ اللَّطِيْفُ الْخَبِيْرُ.(الانعام۶: ۱۰۳)
’’اُس کو نگاہیں نہیں پا سکتیں، لیکن وہ نگاہوں کو پا لیتا ہے۔ وہ نہایت باریک بین اور بڑا باخبر ہے۔‘‘
اصل میں ’لَا تُدْرِكُهُ الْاَبْصَارُ ‘کے الفاظ آئے ہیں۔ چونکہ یہاں نگاہوں کا ذکر آگیا ہے، اس لیے ’اِدْرَاك‘ سے بصیرت کا معنی مراد لینا تو ممکن نہیں رہا، چنانچہ اس کا مطلب بصارت، یعنی ’’دیکھنا‘‘ اور پھر اسی سے آگے بڑھ کر ’’احاطہ کرنا‘‘ بیان کیا گیا ہے۔ ظاہر ہے، اس ترجمے کا یہ لازمی طور پرنتیجہ نکلا ہے کہ اس پر بعض کلامی اعتراضات وارد ہوگئے ہیں اور پھر ان کے جواب میں کافی طویل بحثیں چھڑ گئی ہیں ۔اس کے برعکس، البیان میں اس کاترجمہ نہ تو ’’احاطہ کرنا‘‘ ہوا ہے کہ یہ لفظ سے صریح طور پر تجاوز ہے اور نہ اس کا ترجمہ ’’دیکھنا‘‘ کیا ہے کہ یہ اپنی ذات میں صحیح ہونے کے باوجود بعض سوالات پیدا کر دیتا ہے۔ اس میں ’اِدْرَاك‘ کا ترجمہ ’’پانا‘‘ کیا گیا ہے ،اس لیے کہ یہ اس لفظ کا بالکل لفظی ترجمہ ہے اور تفہیم مدعا کے لیے اس اعتبار سے بہت اچھا ہے کہ عربی زبان کی طرح یہ اردو میں بھی جب نگاہوں کے لیے آئے تو ’’دیکھنے‘‘ ہی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
بلکہ ذیل کی آیت میں فعل کی اپنے فاعل کی طرف مجازی اور مفعول کی طرف حقیقی نسبت، دونوں کی ایک اچھی مثال پائی جاتی ہے۔ اس میں ’اِقَامَة‘ فعل اپنے مفعول، دیوار سے حقیقی نسبت رکھتا ہے اور ’يُرِيْدُ ‘ فعل اپنے فاعل، دیوار سے مجازی نسبت رکھتا ہے، اور دیکھ لیا جا سکتا ہے کہ البیان میں اول الذکر کا ترجمہ ’’کھڑی کر دی‘‘ کیا ہے اور ثانی الذکر کا ترجمہ ’’گرا چاہتی‘‘ کیا گیا ہے کہ یہ اردو میں ’يُرِيْدُ ‘ کے اس استعمال کا مکمل طور پر متبادل ہے:
فَوَجَدَا فِيْهَا جِدَارًا يُّرِيْدُ اَنْ يَّنْقَضَّ فَاَقَامَهٗ. (الکہف۱۸: ۷۷)
’’پھر اُنھوں نے وہاں ایک دیوار دیکھی جوگرا چاہتی تھی تو اُس نے وہ دیوار کھڑی کر دی۔‘‘
ایک مقام پر بعض اوقات ایک سے زائد الفاظ اپنے انفرادی معنی کے لحاظ سے استعمال نہیں ہوتے، بلکہ ان سے مقصود ان سب کا مجموعی معنی ہوتا ہے، اور دیکھا جائے تو اسے ہی ہم اپنی زبان میں محاورے کا نام دیتے ہیں۔ اس طرح کے مقامات کا ترجمہ کرتے ہوئے جس طرح عربی زبان کا علم اور اُس کا اچھا فہم ہونا لازم ہے، اسی طرح کلام کے سیاق و سباق پربھی گہری نظر کا ہونا بہت زیادہ ضروری ہے:
يَوْمَ يُكْشَفُ عَنْ سَاقٍ وَّيُدْعَوْنَ اِلَي السُّجُوْدِ فَلَا يَسْتَطِيْعُوْنَ. (القلم۶۸: ۴۲)
’’یہ اُس دن کو یاد رکھیں ،جب بڑی ہلچل پڑے گی اور یہ سجدے کے لیے بلائے جائیں گے تو سجدہ نہ کرسکیں گے۔‘‘
اصل میں ’يُكْشَفُ عَنْ سَاقٍ‘ کے الفاظ آئے ہیں ۔یہ عربی زبان میں محاورے کے طور پر استعمال ہوتے ہیں اور ان سب کا مجموعی مفہوم سخت وقت آپڑنے کا ہے۔ مترجمین کی ایک بڑی تعداد نے ان کا لفظ بہ لفظ ترجمہ کرتے ہوئے ان سے پروردگار کی ’’پنڈلی کا کھل جانا‘‘ مراد لیا ہے، حالاں کہ یہ ترجمہ جس طرح عربی محاورے سے واقفیت نہ ہونے کا نتیجہ ہے، اسی طرح سیاق و سباق سے بھی غیر موافق ہے۔ یہاں قیامت کے دن مجرمین پر آنے والی ایک مصیبت کا بیان ہو رہا ہے کہ اُنھیں خدا کی طرف سے سجدہ کرنے کا حکم دیا جائے گا تو وہ ایسا ہرگز نہ کرسکیں گے، اور اس طرح اُن کا سجدے پر قادر نہ ہو سکنا اُن پر اِتمام حجت اورسب کے سامنے اُن کی فضیحت کاسامان بن جائے گا۔ سمجھ لیاجاسکتاہے کہ اس بات کی تمہید میں آخر پنڈلی کے کھل جانے کا کیا موقع ہو سکتا ہے؟
یہ آیت بھی الفاظ کا مجموعی معنی لینے کی ایک اچھی مثال ہوسکتی ہے:
وَمَرْيَمَ ابْنَتَ عِمْرٰنَ الَّتِيْ٘ اَحْصَنَتْ فَرْجَهَا. (التحریم۶۶: ۱۲)
’’اور عمران کی بیٹی مریم کی مثال پیش کرتا ہے جس نے اپنا دامن پاک رکھا۔‘‘
یہاں ’اَحْصَنَتْ فَرْجَهَا ‘کے دو الفاظ آئے ہیں کہ جن کامطلب ’’پاک دامن رہنا‘‘ ہے۔ بعض مترجمین نے ان کا انفرادی ترجمہ کرتے ہوئے ’’روکی اپنی شہوت کی جگہ‘‘ اور ’’شرم گاہ کی حفاظت کی‘‘ جیسے الفاظ استعمال کیے ہیں ۔حالاں کہ دیکھ لیا جا سکتا ہے کہ یہ الفاظ جس طرح عربی محاورے کے بالکل خلاف اور قرآن کے اپنے معیار سے نہایت فروترہیں ،اسی طرح سیدہ مریم کے لیے ان کا استعمال کرنا بھی کسی طرح موزوں نہیں ہے، اور خاص کراِس سیاق میں کہ جس میں اُن کی حیا اور عصمت کا بیان ہو رہا ہو۔
قرآن کے بعض مقامات پراس بات کی تصریح نہیں ہوتی کہ کس شخص کے کلام کی حکایت ہو رہی ہے اور اُس کلام کا مخاطَب درحقیقت کون ہے۔اس تعیین کے لیے ضروری ہوتاہے کہ کلام کی نوعیت پراور شخصیت کے ساتھ اُس کی مناسبت پراچھی طرح سے غورو خوض کیاجائے اور ظاہر ہے، اس کے لیے بھی سیاق و سباق ہی اصل قرار پاتا ہے کہ یہی وہ اہم ذریعہ ہے جوان دو چیزوں کو جاننے کے لیے ہمیں بنیادی معلومات فراہم کرتا ہے۔
ذٰلِكَ لِيَعْلَمَ اَنِّيْ لَمْ اَخُنْهُ بِالْغَيْبِ وَاَنَّ اللّٰهَ لَا يَهْدِيْ كَيْدَ الْخَآئِنِيْنَ.(یوسف۱۲: ۵۲)
’’(یوسف نے کہا): اس سے میری غرض یہ تھی کہ عزیز یہ جان لے کہ میں نے در پردہ اُس کی خیانت نہیں کی تھی۔‘‘
پچھلی آیت میں عزیز مصر کی بیوی کی طرف سے اپنے جرم کا اعتراف اور سیدنا یوسف کے بے گناہ ہونے کا بیان ہوا ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس کے متصل بعد ’ذٰلِكَ‘سے شروع ہونے والے اس کلام کا صدور کس کی طرف سے ہوا ہے؟ بعض لوگوں نے محض اس بنیاد پر کہ پیچھے عزیز مصر کی بیوی کا ذکر صراحتاً آگیا ہے اور یہاں کوئی ایسا قرینہ بھی نہیں ہے کہ ان دو باتوں کو دو الگ شخصیات کی طرف سے مانا جائے، اُنھوں نے اس کا مخاطِب بھی اُس عورت کو قرار دے دیا ہے۔ دراں حالیکہ اس سے اگلا قول کہ جو خیانت کرتے ہیں اللہ اُن کی چال کبھی چلنے نہیں دیتا، اور یہ کہنا کہ میں کچھ اپنے نفس کی براء ت نہیں کر رہا، نفس تو برائی پر اکساتا ہی ہے، الاّ یہ کہ جب میرا پروردگار رحم فرمائے، اور یہ بات کہ میرا پروردگار بڑا بخشنے والا ہے اور اس کی شفقت ابدی ہے؛ یہ سب باتیں سیدنا یوسف جیسی شخصیت کی طرف سے تو مانی جا سکتی ہیں، مگر اُس عورت کی طرف سے ہرگز نہیں جس کے بارے میں سیاق و سباق بتاتا ہے کہ وہ اپنے شوہر کی حد درجہ بے وفا ہے، پردے کی اوٹ میں اور بھری محفلوں میں بھی سیدنا یوسف کو گناہ پر مائل کرنے کی کوشش کرتی رہی ہے،محض ہوس کی ماری ہے کہ پکڑے جانے پر سارا مدعا اپنے ’’محبوب‘‘ پر ڈال دیتی ہے، اور یہ سب کچھ ہو جانے کے بعدبھی وہ یوسف ؑ کومنانے کے لیے اس درجہ پستی میں اتر جاتی ہے کہ انکار کرنے کی صورت میں وہ اُسے زنداں میں ڈال دینے کی دھمکیاں دینے لگتی ہے۔ سو لفظوں میں صراحت نہ ہونے کے باوجود موقع کلام کی یہ واضح دلالت ہی ہے کہ البیان میں قوسین کے اندر یوسف ؑ کے مخاطِب ہونے کی صراحت کر دی گئی ہے۔
اوپر کی آیت مخاطِب کی مثال تھی۔ ذیل کی آیت مخاطَب کی تعیین کرنے کی ایک اچھی مثال ہے:
يٰ٘اَيُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّكُمُ الَّذِيْ خَلَقَكُمْ وَالَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ. (البقرہ ۲: ۲۱)
’’لوگو،تم اپنے اُس پروردگارکی بندگی کرو جس نے تمھیں پیداکیاہے اورتم سے پہلوں کو بھی، اس لیے کہ تم (اُس کے عذاب سے) بچے رہو۔‘‘
اس آیت میں ’يٰ٘اَيُّهَا النَّاسُ‘ کے الفاظ میں کن لوگوں سے خطاب کیا گیا ہے؟ عام طور پر مترجمین نے یا تو اس کی تعیین نہیں کی یا اس سے پچھلی آیات کے مخاطَبین مراد لے لیے ہیں یا یہ کیا ہے کہ اس سے تمام انسانوں کو مراد لے لیا ہے۔ اس کے برخلاف، البیان میں اس سے مدینہ اور اس کے نواح کے مشرکین مراد لیے گئے ہیں اور اس کی دلیل خود سیاقِ کلام میں پائی جاتی ہے۔ اس لیے کہ جس طرح سے اِن لوگوں کے سامنے توحید کی دعوت کو پیش کیا اور شرک کا رد کیا اور انھیں قرآن کی مثل کلام بنا لانے کے لیے کہا گیا اور اسی طرح ان کے پتھروں میں ڈھلے ہوئے خداؤں کے دوزخ میں جلنے کا بیان کیا گیا ہے؛ اس سے بہ خوبی واضح ہو جاتا ہے کہ یہ خطاب تمام بنی نوع انسان یا پیچھے مذکور اہل کتاب کے بجاے مدینہ کے مشرکین ہی سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے ۔
[باقی]
____________
[18]۔ جیساکہ ان آیات میں :البقرہ۲: ۲۶۵۔سبا۳۴ :۱۵۔یہ بھی یاد رہے کہ ’الْجَنَّة‘ پر الف لام محض اس لیے آیا ہے کہ وہ باغ متکلم اور مخاطَب کے علم میں پہلے سے موجود ہے۔
[19]۔ جیساکہ ان آیات میں :التوبہ۹: ۶۹۔الاحقاف۴۶ :۲۰۔
[20]۔ الاّ یہ کہ کوئی شخص اُس علم اور تاریخی شہادت کا کلی طور پر انکار کر دے جس کے پس منظر میں خدا کی کتاب کلام کرتی ہے۔
[21]۔ بلکہ یہ بھی قرآن ہی ہے جس نے بتایا ہے کہ ’إسلام‘ کا یہ لفظ ایک خاص دین کا اِسم بھی ہے(آل عمران۳ :۸۵)۔