ترجمہ و تحقیق: ڈاکٹر محمد عامر گزدر
عَنْ عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ عَنْ رَسُولِ اللهِ قَالَ۱: «إِنَّ لِلْقَبْرِ لَضَغْطَةٌ لَوْ نَجَا مِنْهَا أَحَدٌ لَنَجَا مِنْهَا سَعْدُ بْنُ مُعَاذٍ».
سیدہ عائشہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یقیناً قبر میں ایک نوعیت کی تنگی ہوتی ہے، جس سے اگر کوئی شخص بچا ہوتا تو سعد بن معاذ ضرور بچ جاتے۱۔
_____________________
۱۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے یہ سیدنا سعد کے لیے بڑی تحسین کا جملہ ہے کہ جب اُن جیسی غیرمعمولی شخصیت بھی نہیں بچ سکی تو تابہ دیگراں چہ رسد۔ مطلب یہ ہے کہ موت کے دروازے سے گزر کر قبر میں داخل ہونا بجاے خود ایک سخت مرحلہ ہے جو ہر نیک و بد کو لازماً پیش آتا ہے۔ چنانچہ موت سے پہلے بیماری یا تکلیف جس طرح کسی کے اچھا یا برا ہونے کا پیمانہ نہیں ہوتی، اُسی طرح قبر کی تنگی بھی اِس کا پیمانہ نہیں ہوتی۔ اِس کی مثال ولادت سے پہلے درد زہ کی ہے، جس سے سیدہ مریم جیسی خاتون کو بھی دوچار ہونا پڑا۔ چنانچہ یہ کوئی عذاب نہیں، بلکہ موت کے بعد اِس مرحلے کے لیے عام قانون اور محض اُس کیفیت کا بیان ہے جو داخل ہوتے وقت محسوس ہوتی ہے۔ ایمان والوں کے لیے اِس کے بعد راحت ہی راحت ہے، جس کا ذکر پیچھے متعدد روایتوں میں ہو چکا ہے۔ یہ بات، البتہ ملحوظ رہے کہ ’قبر‘ کے لفظ سے یہاں بھی وہی غیرمرئی قبر مراد ہے، جس میں لوگ قیامت کے دن تک سوتے رہیں گے۔
۱ ۔ اِس روایت کا متن مسند اسحاق، رقم ۱۱۱۴ سے لیا گیا ہے اور اِس کے متابعات اِن مصادر میں دیکھ لیے جاسکتے ہیں: مسند ابن جعد، رقم ۱۵۴۸۔ فضائل الصحابۃ، احمد، رقم ۱۵۰۱۔مسند حارث، رقم ۲۷۹۔ السنۃ، عبد الله بن احمد، رقم ۱۴۱۲۔تہذيب الآثار، طبری، رقم ۸۹۷۔جزء ابن فيل، رقم۸۴۔شرح مشكل الآثار، طحاوی، رقم ۲۷۳، ۲۷۴، ۲۷۵۔صحيح ابن حبان، رقم ۳۱۱۲۔اثبات عذاب القبر،بیہقی،رقم ۱۰۶۔شعب الايمان، بیہقی، رقم ۳۹۲۔
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ،۱ أَنَّ النَّبِيَّ r يَوْمَ دُفِنَ سَعْدُ بْنُ مُعَاذٍ وَهُوَ قَاعِدٌ عَلَى قَبْرِهِ قَالَ: «لَوْ نَجَا أَحَدٌ مِنْ فِتْنَةِ الْقَبْرِ لَنَجَا سَعْدُ بْنُ مُعَاذٍ، وَلَقَدْ ضُمَّ ضَمَّةً ثُمَّ رُخِّيَ عَنْهُ»۲.
ابن عباس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ جس دن سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کی تدفین ہوئی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کی قبر پر بیٹھے ہوئے فرمایا تھا کہ قبر کی آزمایش سے اگر کوئی شخص بچا ہوتا تو سعد بن معاذ ضرور بچ جاتے ۔چنانچہ ایک مرتبہ تو اُنھیں بھی بھینچا گیا ہے، مگر پھر نرمی کردی گئی۱۔
_____________________
۱۔ یعنی عام لوگوں کےلیے جو کیفیت کچھ دیر تک رہتی ہے، اُن کے لیے اُس میں بھی کمی کر دی گئی۔
۱ ۔اِس روایت کا متن المعجم الكبير، طبرانی، رقم ۱۰۸۲۷سے لیا گیا ہے۔ اِس کے متابعات المعجم الاوسط، طبرانی ،رقم ۶۵۹۳اور اثبات عذاب القبر، بیہقی، رقم ۱۱۲میں دیکھ لیے جاسکتے ہیں۔
۲۔ ابن عمر رضی اللہ عنہ کی روایت کے ایک طریق، المعجم الكبير، طبرانی، رقم ۱۳۵۵۵میں آپ کا یہ ارشاد اِن الفاظ میں نقل ہوا ہے: ’«إِنَّ سَعْدًا ضُغِطَ فِي قَبْرِهِ ضَغْطَةً، فَسَأَلْتُ اللهَ تَعَالَى أَنْ يُخَفِّفَ عَنْهُ»‘، ’’ سعد کو ایک مرتبہ قبر کی تنگی کا ضرور سامنا ہوا، پھر میں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ وہ اِن کے معاملے میں اِس تنگی میں بھی تخفیف فرما دیں‘‘۔
عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ الْأَنْصَارِيِّ، قَالَ۱: خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللهِ r يَوْمًا إِلَى سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ حِينَ تُوُفِّيَ، قَالَ: فَلَمَّا صَلَّى عَلَيْهِ رَسُولُ اللهِ r وَوُضِعَ فِي قَبْرِهِ وَسُوِّيَ عَلَيْهِ، سَبَّحَ رَسُولُ اللهِ r، فَسَبَّحْنَا طَوِيلًا، ثُمَّ كَبَّرَ فَكَبَّرْنَا، فَقِيلَ: يَا رَسُولَ اللهِ، لِمَ سَبَّحْتَ؟ ثُمَّ كَبَّرْتَ؟ قَالَ: «لَقَدْ تَضَايَقَ عَلَى هٰذَا الْعَبْدِ الصَّالِحِ قَبْرُهُ حَتَّى فَرَّجَهُ اللهُ عَنْهُ». وَعَنْهُ فِي رِوَايَةٍ قَالَ۲: قَالَ رَسُولُ اللهِ r لِسَعْدِ [بْنِ مُعَاذٍ يَوْمَ مَاتَ وَهُوَ يُدْفَنُ۳]: «هٰذَا الرَّجُلُ الصَّالِحُ الَّذِي [اهْتَزَّ لَهُ الْعَرْش، وَ۴] فُتِحَتْ لَهُ أَبْوَابُ السَّمَاءِ، [وَشَهِدَهُ سَبْعُونَ أَلْفًا مِنَ الْمَلَائِكَةِ، لَقَدْ۵] شُدِّدَ عَلَيْهِ [فِي قَبْرِهِ۶]، ثُمَّ فُرِّجَ عَنْهُ».
جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ جس دن سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی، ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اُنھی کی طرف گئے تھے۔آپ جب اُن کی نماز جنازہ سے فارغ ہوئے اور اُنھیں قبر میں دفناکر اینٹیں برابر کر دی گئیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تسبیح کی اور ہم سب بھی دیر تک تسبیح کرتے رہے۔ پھر آپ نے تکبیر کہنا شروع کیا تو ہم نے بھی تکبیر کہی۔چنانچہ آپ سے سوال کیا گیا کہ اے اللہ کے رسول، آپ نے اِس موقع پر یہ تسبیح اور پھر تکبیر کیوں کہی؟ آپ نے فرمایا کہ اِس نیک بندے پر قبر تنگ ہوگئی تھی ، یہاں تک کہ اب اللہ تعالیٰ نے اِسے اِس کے لیے کشادہ کردیا ہے۔ اِنھی جابر رضی اللہ عنہ سے ایک طریق میں یہ الفاظ نقل ہوئے ہیں کہ جس دن سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی اور اُن کی تدفین ابھی جاری تھی، اُس موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کے بارے میں فرمایا تھا کہ یہ وہ شخص ہے جس کے لیے عرش الٰہی ہل گیا ہے اور آسمان کے دروازے اِس کے لیے کھول دیے گئے ہیں اور اِن کے جنازے میں ستر ہزار فرشتے شریک ہوئے ہیں۔ تاہم قبر میں اِس پر بھی کچھ سختی ہوئی، لیکن اب وہ اِس سے دور کر دی گئی ہے۱۔
_____________________
۱۔ یہ جس قانون کے تحت ہوتا ہے، اُس کی وضاحت ہم نے پیچھے روایت ۲۵ کے حاشیے میں کر دی ہے۔
۱ ۔اِس واقعے کا متن مسند احمد، رقم ۱۴۸۷۳سے لیا گیا ہے۔تعبیر کے معمولی اختلاف کے ساتھ اِس کے باقی طرق جن مراجع میں نقل ہوئے ہیں، وہ یہ ہیں: مسند احمد، رقم ۱۴۵۰۵، ۱۵۰۲۹۔ فضائل الصحابۃ، احمد، رقم ۱۴۹۶، ۱۴۹۷۔ حديث ہشام بن عمار، رقم ۹۔ تہذيب الآثار، طبری، رقم ۸۹۶۔ صحيح ابن حبان، رقم ۷۰۳۳۔ المعجم الكبير، طبرانی، رقم ۵۳۴۰، ۵۳۴۶۔ دلائل النبوة، بیہقی، رقم ۱۴۰۵۔
۲۔اِس روایت کا متن اصلاًصحيح ابن حبان، رقم ۷۰۳۳سے لیا گیا ہے۔جابر رضی اللہ عنہ کی اِس روایت کا ایک شاہد ابن عمر رضی اللہ عنہ سے نقل ہوا ہے، جس کے مراجع یہ ہیں: السنن الصغریٰ، نسائی، رقم ۲۰۵۵۔ السنن الكبرىٰ، نسائی، رقم ۲۱۹۳۔ شرح مشكل الآثار، طحاوی، رقم ۴۱۷۰۔ المعجم الاوسط، طبرانی، رقم ۱۷۰۷۔ المعجم الكبير، طبرانی، رقم ۵۳۳۳، ۱۳۵۵۵۔ معرفۃ الصحابۃ، ابو نعیم، رقم ۳۱۱۱۔ دلائل النبوة، بیہقی، رقم ۱۴۰۴۔
۳۔ المعجم الكبير، طبرانی، رقم ۵۳۴۰۔
۴ ۔حديث ہشام بن عمار، رقم ۹۔
۵ ۔یہ اضافہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کی روایت کے ایک طریق، السنن الصغریٰ، نسائی رقم ۲۰۵۵ سے لیا گیا ہے، جب کہ دلائل النبوة، بیہقی، رقم ۱۴۰۴میں اِنھی سےیہ بات اِس تعبیر کے ساتھ نقل ہوئی ہے: ’وَشَيَّعَ جِنَازَتَهُ سَبْعُونَ أَلْفَ مَلَكٍ‘، ’’اور ستر ہزار فرشتوں نے اُن کا جنازہ اُٹھایا‘‘۔
۶ ۔تہذیب الآثار، طبری، رقم ۸۹۶۔
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ۱ أَنَّ النَّبِيَّ r صَلَّى عَلَى صَبِيٍّ أَوْ صَبَيَّةٍ فَقَالَ: «لَوْ نَجَا أَحَدٌ مِنْ ضَمَّةِ الْقَبْرِ لَنَجَا هٰذَا الصَّبِيُّ». وَعَنْ أَبِي أَيُّوبَ،۲ أَنَّ صَبِيًّا دُفِنَ فَقَالَ رَسُولُ اللهِ r: «لَوْ أَفْلَتَ أَحَدٌ مِنْ ضَمَّةِ الْقَبْرِ لَأَفْلَتَ هٰذَا الصَّبِيُّ».
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بچے یا بچی کی نماز جنازہ پڑھنے کے بعد فرمایا: قبر کی تنگی سے اگر کوئی بچا ہوتا تو یہ بچہ ضرور بچ جاتا۔ ابو ایوب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک بچے کو دفن کیا گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس موقع پر بھی یہی بات فرمائی کہ قبر کے بھینچنے سے اگر کوئی محفوظ رہ سکتا تو یہ بچہ ضرور محفوظ رہتا۱۔
_____________________
۱۔یہ روایت اُس مدعا کو بالکل واضح کر دیتی ہے جو ہم نے اِس مضمون کی روایتوں سے سمجھا اور پیچھے تفصیل کے ساتھ بیان کر دیا ہے۔
۱۔ اِس روایت کا متن السنۃ ، عبد الله بن احمد، رقم ۱۴۳۵سے لیا گیا ہے۔ اِس کے متابعات اِن مصادر میں دیکھ لیے جاسکتے ہیں: السنۃ ، عبد الله بن احمد، رقم ۱۴۳۴۔ المعجم الاوسط، طبرانی، رقم ۲۷۵۳۔
۲ ۔اِس روایت کا متن المعجم الكبير، طبرانی، رقم ۳۸۵۸سے لیا گیا ہے۔ اِس طریق کا تنہا ماخذ یہی ہے۔
عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ يَسَارٍ قَالَ۱ كُنْتُ جَالِسًا مَعَ سُلَيْمَانَ بْنِ صُرَدٍ، وَخَالِدِ بْنِ عُرْفُطَةَ وَهُمَا يُرِيدَانِ أَنْ يَتْبَعَا جِنَازَةَ مَبْطُونٍ، فَقَالَ أَحَدُهُمَا لِصَاحِبِهِ: أَلَمْ يَقُلْ رَسُولُ اللهِ: «مَنْ يَقْتُلُهُ بَطْنُهُ، فَلَنْ يُعَذَّبَ فِي قَبْرِهِ»؟ فَقَالَ: بَلَى.
عبداللہ بن یسار سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں سلیمان بن صرد اور خالد بن عرفطہ رضی اللہ عنہما کےساتھ بیٹھا ہوا تھا، وہ دونوں ایک شخص کے جنازے میں شرکت کا ارادہ رکھتے تھے، جو پیٹ کے مرض سے فوت ہوا تھا۔ اُن میں سے ایک نے اُس موقع پر اپنے ساتھی سے کہا : کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا تھا کہ جو شخص پیٹ کی بیماری سے فوت ہوجائے ،اُس کو ہرگز قبر میں عذاب نہیں ہوگا۱؟ اُس کے ساتھی نے جواب میں کہا: بالکل ، کیوں نہیں۔
_____________________
۱۔مطلب یہ ہے کہ ایمان وعمل میں سبقت کرنے والے اگر کسی سزا کے مستحق بھی ہوں تو اِس طرح کی ناگہانی آفات جس اذیت کے ساتھ موت کا باعث بنتی ہیں، وہی اُن کے لیے کفارہ بن جاتی ہے اور اللہ تعالیٰ اُنھیں معاف کر دیتا ہے۔
۱ ۔اِس روایت کا متن مسند احمد، رقم۱۸۳۱۰سے لیا گیا ہے۔ اِس کے متابعات اِن مصادر میں دیکھ لیے جاسکتے ہیں: مسند طيالسی،رقم۱۳۸۴۔مسند ابن ابی شیبہ، رقم ۸۶۸ ۔مسند احمد، رقم ۱۸۳۱۱، ۱۸۳۱۲، ۲۲۵۰۰۔سنن ترمذی ،رقم ۱۰۶۴۔السنن الصغریٰ، نسائی، رقم ۲۰۵۲۔ السنن الكبرىٰ، نسائی، رقم ۲۱۹۰۔ معجم الصحابۃ، ابن قانع، رقم ۶۰۷۔صحيح ابن حبان، رقم ۲۹۳۳۔المعجم الكبيرطبرانی، رقم۴۱۰۱، ۴۱۰۶، ۴۱۰۹، ۶۴۸۶۔اثبات عذاب القبر، بیہقی، رقم ۱۵۲۔ شعب الايمان، بیہقی، رقم ۹۴۱۷۔
عَنْ كَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ،۱ أَنَّهُ مَرَّ بِسَلْمَانَ وَهُوَ مُرَابِطٌ فِي بَعْضِ قُرَى فَارِسَ، فَقَالَ لَهُ [سَلْمَانُ۲]: مَالَكَ هَاهُنَا؟ قَالَ: أُرَابِطُ، قَالَ: أَلَا أُخْبِرُكَ بِأَمْرٍ سَمِعْتُهُ مِنْ رَسُولِ اللهِ r يَقُولُ: «رِبَاطُ يَوْمٍ [وَلَيْلَةٍ۳] فِي سَبِيلِ اللهِ خَيْرٌ مِنْ صِيَامِ شَهْرٍ وَقِيَامِهِ، وَمَنْ مَاتَ مُرَابِطًا فِي سَبِيلِ اللهِ أُجِيرَ مِنْ عَذَابِ۴ الْقَبْرِ،۵ وَجَرَى عَلَيْهِ صَالِحُ عَمَلِهِ [الَّذِي كَانَ يَعْمَلُهُ۶] إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ، [وَأُجْرِيَ عَلَيْهِ رِزْقُهُ۷]».
کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک موقع پر گزرتے ہوئے سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے اُن کی ملاقات ہوئی، جو فارس کی کسی بستی میں سرحد کی حفاظت پر مامور تھے۔ سلمان نے اُنھیں دیکھا تو کہا: تم یہاں کیا کر رہے ہو؟ کعب نے جواب میں کہا: میں سرحد کی حفاظت کر رہا ہوں۔سلمان نے کہا: کیا میں تمھیں ایک ایسی بات نہ بتاؤ ں جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے ، آپ کا ارشاد ہے: اللہ کی راہ میں ایک دن اور ایک رات سرحد کی حفاظت میں مشغولیت ایک مہینے کے روزوں اور قیام اللیل سے بہتر ہے۔اور جو شخص اللہ کی راہ میں سرحد کی نگرانی کرتے ہوئے مرگیا، وہ قبر کے عذاب سے محفوظ رہے گا، اور اُس کا وہ نیک عمل جس پر موت کے وقت وہ عامل تھا، (اُس کے نامۂ اعمال میں) قیامت کے دن تک جاری رہےگا، اور (اللہ تعالیٰ کے ہاں) اُس کا رزق جاری کردیا جائے گا۱عذ۔
_____________________
۱۔ راہ حق کے شہدا اورمجاہدین کا جو صلہ قرآن میں بیان ہوا ہے، یہ بشارت اُسی کی فرع ہے۔ اِس کے لیے دیکھیے: آل عمران ۳ : ۱۶۹ - ۱۷۵۔ اِس سے مزید یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ میدان جنگ میں مجاہد کی طبعی موت شہادت ہی کے حکم میں ہے ۔ اِس باب کی روایتوں کو ہم نے جس طرح دیکھا ہے ، اُس کے لحاظ سے یہ بات بھی واضح رہے کہ ’شہادت‘ قرآن کی رو سے ایسا غیر معمولی عمل ہے کہ ہر بندۂ مومن کو سابقین کے درجے تک پہنچادیتا ہے۔چنانچہ اُس کا انجام بھی وہی ہوتا ہے جو سابقین کے لیے بیان ہوا ہے۔
۱ ۔اِس روایت کا متن اصلاً الجہاد،ابن ابی عاصم، رقم ۳۱۱ سے لیا گیا ہے۔ الفاظ کے معمولی تفاوت کے ساتھ اِس کے باقی طرق جن مراجع میں دیکھ لیے جاسکتے ہیں، وہ یہ ہیں: مصنف ابن ابی شیبہ، رقم۱۹۴۵۳۔صحيح مسلم، رقم۱۹۱۳۔الجہاد، ابن ابی عاصم، رقم ۳۰۳، ۳۰۹۔السنن الصغریٰ، نسائی، رقم۳۱۶۷، ۳۱۶۸۔السنن الكبرىٰ، نسائی، رقم۴۳۶۱۔مستخرج ابی عوانہ، رقم۷۴۶۶، ۷۴۶۷، ۷۴۶۸، ۷۴۶۹، ۷۴۷۰۔شرح مشكل الآثار، طحاوی، رقم ۲۳۱۴، ۲۳۱۵۔معجم ابن اعرابی، رقم۸۹۱۔صحيح ابن حبان، رقم۴۶۲۵، ۴۶۲۶۔مسندشاميين، طبرانی، رقم۱۵۴۵، ۳۵۲۸۔مستدرك حاکم، رقم۲۴۲۲، ۲۴۲۳۔ حلیۃ الاولياء وطبقات الاصفياء، ابو نعیم،رقم ۶۹۹۹۔اثبات عذاب القبر، بیہقی، رقم۱۴۱، ۱۴۲۔ السنن الصغریٰ، بیہقی، رقم ۲۷۷۸۔السنن الكبرىٰ، بیہقی، رقم۱۷۸۸۵، ۱۷۸۸۶۔ شعب الايمان، بیہقی، رقم۳۹۸۰۔
سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کے علاوہ اِس کا ایک شاہد ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ۱۹۴۵۴میں بھی نقل ہوا ہے۔
مستخرج ابی عوانہ، رقم ۷۴۷۰میں اِسی طرح کا ایک واقعہ یوں منقول ہے: ’عَنْ سَلْمَانَ الْفَارِسِيِّ أَنَّهُ وَجَدَ شُرَحْبِيلَ مُرَابِطًا بِحِمْصَ، قَالَ: مَا تَصْنَعُ هَهُنَا يَا شُرَحْبِيلُ؟، قَالَ: أُرَابِطُ فِي سَبِيلِ اللهِ، قَالَ: لَئِنْ كُنْتَ صَادِقًا لَقَدْ سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ، يَقُولُ: «رِبَاطُ يَوْمٍ أَوْ لَيْلَةٍ فِي سَبِيلِ اللهِ خَيْرٌ مِنْ صِيَامِ شَهْرٍ وَقِيَامِهِ، فَإِنْ مَاتَ أَجْرَى اللهُ عَمَلَهُ الَّذِي كَانَ يَعْمَلُ، وَأُجْرِيَ عَلَيْهِ رِزْقُهُ، وَأَمِنَ الْفَتَّانَ»‘، ’’ سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ حمص میں اُن کی ملاقات شرحبیل سے ہوئی جو وہاں سرحد کی نگرانی پر مامور تھے۔ سلمان نے اُن سے کہا: شرحبیل، تم یہاں کیا کر رہے ہو؟ اُنھوں نے کہا: اللہ کی راہ میں سرحد کی نگہبانی کر رہا ہوں۔سلمان نے کہا: اگر تم سچے ہو تو (سنو)، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو میں نے یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اللہ کی راہ میں ایک دن یا ایک رات سرحد کی نگرانی میں مشغولیت ایک مہینے کے روزوں اور قیام اللیل سے بہتر ہے اورآدمی کو اگر اِس حال میں موت آگئی تو اللہ تعالیٰ اُس کے (اِس) آخری عمل کو، جسے وہ انجام دے رہا تھا، (اُس کے نامۂ اعمال میں قیامت تک) جاری رکھتے ہیں، اللہ تعالیٰ کے ہاں اُس کا رزق جاری کردیا جاتا ہے، اور وہ سخت آزمایش کرنے والی چیز، (یعنی قبر کے عذاب) سے مامون ہوجاتا ہے‘‘۔
۲ ۔حديث ابی العباس، جمح بن قاسم، رقم ۲۲۔
۳ ۔صحيح مسلم، رقم۱۹۱۳۔ بعض طرق، مثلاً الجہاد، ابن ابی عاصم، رقم ۳۰۹ میں یہاں ’يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ‘ ، ’’ایک دن اور ایک رات ‘‘کے بجاے ’يَوْمٍ أَوْ لَيْلَةٍ‘، ’’ ایک دن یا ایک رات ‘‘کے الفاظ روایت ہوئے ہیں۔
۴ ۔بعض طرق، مثلاً مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ۱۹۴۵۳ میں یہاں ’عَذَابِ‘ کے بجاے ’فِتْنَةِ‘ کا لفظ روایت ہوا ہے۔یعنی ’سزا‘ کے بجاے ’آزمایش‘ کا لفظ منقول ہے۔
۵ ۔بعض روایتوں، مثلاً صحيح مسلم، رقم ۱۹۱۳میں ’أُجِيرَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ‘، ’’ وہ قبر کے عذاب سے محفوظ رہے گا ‘‘ کے بجاے ’أَمِنَ الْفَتَّانَ‘، ’’ آزمایش میں ڈالنے والی سب سے بڑی چیز، (یعنی عذابِ قبر) سے مامون رہے گا‘‘، جب کہ بعض طرق، مثلاً الجہاد، ابن ابی عاصم، رقم ۳۰۹ میں ’أُومِنَ مِنَ الْفُتَّانِ‘ ، ’’آزمایش میں ڈالنے والی سب سے بڑی چیز، (یعنی عذاب قبر) سےاُس کو مامون رکھا جائے گا‘‘کی تعبیر نقل ہوئی ہے۔
۶۔صحيح مسلم، رقم۱۹۱۳۔
۷۔السنن الصغریٰ، نسائی، رقم ۳۱۶۸۔ بعض طرق، مثلاً شعب الايمان، بیہقی، رقم ۳۹۸۰ میں یہاں ’وَأُجْرِيَ عَلَيْهِ رِزْقُهُ‘ کے بجاے ’وَيُقْطَعُ لَهُ رِزْقٌ فِي الْجَنَّة‘ کے الفاظ آئے ہیں۔
عَنْ فَضَالَةَ بْنِ عُبَيْدٍ قَالَ۱ سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ r يَقُولُ: «كُلُّ مَيِّتٍ يُخْتَمُ عَلَى عَمَلِهِ الَّذِي مَاتَ عَلَيْهِ، إِلَّا الْمُرَابِطُ فِي سَبِيلِ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ، فَإِنَّهُ يَنْمُو لَهُ عَمَلُهُ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ وَيَأْمَنُ مِنْ فِتْنَةِ الْقَبْرِ۲».
فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ہر مرنے والے کا نامۂ اعمال موت کے وقت اُس کے آخری عمل پر بند کر کے سر بمہر کر دیا جاتا ہے، سواے اللہ کی راہ میں سرحد کی نگہبانی پر مامور شخص کے۔ (اُس کی موت اگر اِسی حال میں واقع ہوجائے تو) اُس کا یہ عمل قیامت کے دن تک بڑھتا رہے گا اور وہ قبر کی آزمایش سے بھی محفوظ رہے گا۱ ۔
_____________________
۱۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں جو لوگ اِس طرح کی خدمات انجام دیتے رہے، وہ تو یقیناً اِسی اجر کے مستحق ہیں، تاہم بعد کے زمانوں میں بھی ہر صاحب ایمان اپنے پروردگار سے اِس کی توقع کر سکتا ہے، اگر وہ فی الواقع اُسی کے لیے اور اُسی کی خوشنودی حاصل کرنے کی خاطر ظلم وعدوان کے مقابلے میں کسی جگہ سرحدوں پر یہ خدمت انجام دیتا ہے۔
۱ ۔ اِس روایت کا متن الجہاد،ابن مبارك، رقم ۱۷۴ سے لیا گیا ہے۔اِس کے متابعات اِن مراجع میں دیکھ لیے جاسکتے ہیں: سنن سعيد بن منصور، رقم ۲۴۱۴۔مسند احمد، رقم۲۳۹۵۱۔سنن ابی داؤد، رقم ۲۵۰۰۔ سنن ترمذی، رقم ۱۶۲۱۔الجہاد، ابن ابی عاصم، رقم ۳۱۷۔ مسندبزار، رقم۳۷۵۳۔مستخرج ابی عوانہ، رقم ۷۴۶۳، ۷۴۶۴۔شرح مشكل الآثار، طحاوی، رقم ۲۳۱۶۔صحيح ابن حبان، رقم ۴۶۲۴۔ المعجم الكبير، طبرانی، رقم ۸۰۲۔ مستدرك حاكم، رقم ۲۴۱۷۔اثبات عذاب القبر ، بیہقی، رقم ۱۴۳۔ شعب الايمان، بیہقی، رقم ۳۹۸۲۔
۲ ۔ کئی طرق، مثلاً سنن ابی داؤد، رقم ۲۵۰۰ میں یہاں ’وَيَأْمَنُ مِنْ فِتْنَةِ الْقَبْرِ‘ ، ’’ وہ قبر کی آزمایش سے بھی محفوظ رہے گا ‘‘کے بجاے ’وَيُؤَمَّنُ مِنْ فَتَّانِ الْقَبْرِ‘ ، ’’ اوراُس کو قبر میں سخت آزمایش میں ڈالنے والی چیز سے بھی مامون رکھا جائے گا‘‘کے الفاظ روایت ہوئے ہیں۔
عَنِ الْمِقْدَامِ بْنِ مَعْدِي كَرِبَ، قَالَ: ۱ قَالَ رَسُولُ اللهِ r: «إِنَّ لِلشَّهِيدِ عِنْدَ اللهِ خِصَالًا، يُغْفَرُ لَهُ فِي أَوَّلِ دَفْقَةٍ مِنْ دَمِهِ، وَيَرَى مَقْعَدَهُ مِنَ الْجَنَّةِ، وَيُحَلَّى حُلَّةَ الْإِيمَانِ، وَيُزَوَّجُ مِنَ الْحُورِ الْعِينِ، وَيُجَارُ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ، وَيَأْمَنُ مِنَ الْفَزَعِ الْأَكْبَرِ، وَيُوضَعُ عَلَى رَأْسِهِ تَاجُ الْوَقَارِ، الْيَاقُوتَةُ مِنْهُ خَيْرٌ مِنَ الدُّنْيَا وَمَا فِيهَا، وَيُزَوَّجُ اثْنَتَيْنِ وَسَبْعِينَ زَوْجَةً مِنَ الْحُورِ الْعِينِ، وَيُشَفَّعُ فِي سَبْعِينَ إِنْسَانًا مِنْ أَقَارِبِهِ».
مقدام بن معدی کرب رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں شہید۱ کی کئی خصوصیات ہیں: ایک یہ کہ اُس کے خون کا پہلا قطرہ گرتے ہی اُس کی مغفرت کردی جاتی ہے،دوسرے یہ کہ (موت کے بعد ہی) وہ جنت میں اپنا ٹھکانا دیکھ لیتا ہے،تیسرے یہ کہ اُس کو ایمان کی پوشاک پہنائی۲ جاتی ہے، چوتھے یہ کہ غزال چشم خوب صورت عورت سے اُس کو بیاہ دیا جاتا ہے، پانچویں یہ کہ اُس کو عذاب قبر سے محفوظ کردیا جاتا ہے، چھٹے یہ کہ روزقیامت کی بڑی گھبراہٹ سے وہ محفوظ ہوجاتا ہے،ساتویں یہ کہ اُس کے سر پر عزت کا ایساتاج پہنایا جاتا ہے جس کا ایک قیمتی پتھر بھی دنیا وما فیہا سے بہتر ہے،آٹھویں یہ کہ اُس کو بہتّر غزال چشم گوریوں سے بیاہ دیا جاتا ہے۳ اور نویں یہ کہ اُس کے عزیز وا قارب میں سے ستّر لوگوں کے حق میں اُس کی شفاعت قبول کرلی جاتی ہے۴۔
_____________________
۱۔ یعنی وہ لوگ جو اللہ کی راہ میں جنگ کے لیے نکلیں اور اُس میں مارے جائیں۔ سورۂ آل عمران (۳) کی آیت ۱۴۰ میں یہ اِسی مفہوم میں استعمال ہوا ہے۔
۲۔ اِس سے غالباً وہ خلعت مراد ہے جو سچے اہل ایمان کو جنت میں داخل ہوتےوقت اُن کے اعزاز و اکرام کے لیے پہنایا جائے گا۔
۳۔ یعنی اُس بیوی کے سوا جس کا ذکر اوپر ہوا ہے۔ اِسےبھی اللہ تعالیٰ کی اُنھی عنایتوں میں سے سمجھنا چاہیے جو جنت میں شہدا اور صدیقین کے لیے خاص ہوں گی۔
۴۔ یہ، ظاہر ہے کہ اُسی قانون کے مطابق قبول کی جائے گی جو شفاعت کے لیے قرآن میں بیان ہوا ہے۔ اِس کی تفصیلات کے لیے دیکھیے ہماری کتاب ’’میزان‘‘ میں مضمون: ’’نبی کی شفاعت‘‘۔
۱ ۔اِس روایت کا متن سنن سعيد بن منصور، رقم ۲۵۶۲ سے لیا گیا ہے۔الفاظ کے معمولی فرق کے ساتھ اِس کے باقی طرق جن مصادر میں نقل ہوئے ہیں، وہ یہ ہیں: مصنف عبد الرزاق، رقم۹۵۵۹۔مسند احمد، رقم ۱۷۱۸۲۔
سنن ابن ماجہ، رقم ۲۷۹۹۔سنن ترمذی، رقم ۱۶۶۳۔ الجہاد،ابن ابی عاصم، رقم۲۰۴۔مسندشاشی، رقم ۱۲۵۹۔الشريعۃ، آجری،رقم۸۱۱۔مسند شاميين، طبرانی، رقم ۱۱۲۰۔ المعجم الكبير، طبرانی، رقم۶۲۹۔ امالی ابن بشران، رقم ۷۶۰۔ شعب الايمان، بیہقی، رقم ۳۹۴۹۔
مقدام رضی اللہ عنہ کی اِس روایت کے تین شواہد مراجع حدیث میں نقل ہوئے ہیں جن میں اسلوب اور تفصیلات کا معمولی فرق پایا جاتا ہے۔ ایک عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، جس کے طرق اِن مصادر میں دیکھ لیے جاسکتے ہیں:سنن سعيد بن منصور، رقم۲۵۶۳۔ مسنداحمد، رقم۱۷۱۸۳۔ الجہاد،ابن ابی عاصم، رقم ۲۰۷۔مسندشاشی، رقم۱۲۶۰۔دوسرا قیس جذامی رضی اللہ عنہ سے روایت ہوا ہے، جس کے طرق اِن مراجع میں ہیں : مسنداحمد، رقم ۱۷۷۸۳۔الآحاد والمثانی، ابن ابی عاصم، رقم۲۷۳۴۔معجم الصحابۃ، ابن قانع، رقم۱۵۸۵۔معرفۃ الصحابۃ، ابو نعیم، رقم ۵۷۲۲، ۵۷۲۳۔ تیسرا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سےنقل ہوا ہے، جو صرف مسند شاميين، طبرانی، رقم ۱۱۶۳ میں دیکھا جاسکتاہے۔
عَنْ عُمَرَ عَنِ النَّبِيِّ r قَالَ:۱ «الْمَيِّتُ يُعَذَّبُ فِي قَبْرِهِ بِالنِّيَاحَةِ عَلَيْهِ»۲.
ابن عمر رضی اللہ عنہ اپنے والد عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مرنے والے پر نوحہ کیا جائے تو اِس پر اُس کو قبر میں عذاب دیا جاتا ہے۱۔
_____________________
۱۔ جزا و سزا کے جو اصول قرآن نے بیان کیے ہیں، اُن کی رو سے یہ بات کسی طرح قابل قبول نہیں ہو سکتی۔ چنانچہ آگے کی روایتوں سے واضح ہو جائے گا کہ اِس میں بیان کرنے والوں سے کیا غلطی ہوئی ہے۔
۱ ۔اِس روایت کا متن مسند احمد، رقم ۱۸۰ سے لیا گیا ہے۔ الفاظ وتفصیلات کے کچھ فرق کے ساتھ اِس کے باقی طرق جن مراجع میں نقل ہوئے ہیں ، وہ یہ ہیں: مسند طیالسی، رقم ۱۵۔ مسند احمد، رقم ۲۴۷، ۲۴۸، ۲۹۴، ۳۵۴، ۳۶۶۔صحيح بخاری، رقم ۱۲۹۲۔ صحيح مسلم، رقم ۹۲۷۔ سنن ابن ماجہ، رقم ۱۵۹۳ ۔سنن ترمذی، رقم ۱۰۰۲۔ مسندبزار، رقم ۱۰۴، ۱۴۶۔ السنن الكبرىٰ، نسائی، رقم ۱۹۸۸، ۱۹۸۹، ۱۹۹۲۔السنن الصغریٰ، نسائی، رقم ۱۸۴۸، ۱۸۵۰، ۱۸۵۳۔مسند ابی يعلىٰ، رقم ۱۵۵، ۱۵۶، ۱۵۷، ۱۵۸، ۱۷۹۔السنن الكبرىٰ، بیہقی، رقم۷۱۶۵، ۷۱۶۶۔
۲۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کا یہی مضمون الفاظ کے معمولی فرق کے ساتھ مختلف روایتوں اور واقعات میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے علاوہ اُن کے بیٹے عبد اللہ ، ابو ہریرہ ، مغیرہ بن شعبہ اور عمران بن حصین رضی اللہ عنہم سے بھی روایت ہوا ہے۔ابن عمر رضی اللہ عنہ کی روایات آگے مرکزی متن کے طور پر بیان ہو رہی ہیں۔ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت مسند ابی يعلىٰ، رقم ۵۸۹۵ میں اِن الفاظ میں نقل ہوئی ہے کہ ’أَنَّ رَسُولَ اللهِ r قَالَ: «إِنَّ الْمَيِّتَ لَيُعَذَّبُ بِبُكَاءِ الْحَيِّ»‘، ’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میت کو زندہ لوگوں کے رونے کی وجہ سے عذاب دیا جاتا ہے‘‘۔ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے اِس شاہد کے متابعات مسند ابی يعلىٰ، رقم ۶۴۴۲ اور معجم ابن اعرابی، رقم ۱۰۹۸میں دیکھ لیے جاسکتے ہے۔
مغیرہ بن شعبہ کی روایت سنن ترمذی، رقم ۱۰۰۰ میں یوں بیان ہوئی ہے: ’عَنْ عَلِيِّ بْنِ رَبِيعَةَ الأَسَدِيِّ، قَالَ: مَاتَ رَجُلٌ مِنَ الأَنْصَارِ [بِالْكُوفَةِ*] يُقَالُ لَهُ: قَرَظَةُ بْنُ كَعْبٍ، فَنِيحَ عَلَيْهِ، فَجَاءَ المُغِيرَةُ بْنُ شُعْبَةَ، فَصَعِدَ المِنْبَرَ، فَحَمِدَ اللهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ، وَقَالَ: مَا بَالُ النَّوْحِ فِي الاِسلَامِ، أَمَا إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ يَقُولُ: «مَنْ نِيحَ عَلَيْهِ عُذِّبَ [فِي قَبْرِهِ**] بِمَا نِيحَ عَلَيْهِ»‘، ’’علی بن ربیعہ اسدی کی روایت ہے، وہ کہتے ہیں : انصار میں سے ایک شخص کوفےمیں وفات پا گیا، جس کو قرظہ بن کعب کہا جاتا تھا۔اُس کی وفات پر نوحہ کیا گیا تو مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ تشریف لائے اور اپنے منبر پر چڑھ کر اللہ کی حمد وثنا کی اور کہا: اسلام میں نوحے کی کیا حیثیت رہ گئی ہے۔آگاہ رہو، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جس میت پر نوحہ کیا گیا، اُس کو اُس کی قبر میں اِس نوحے کی وجہ سے عذاب دیا جائے گا ‘‘۔
اِس شاہد کے متابعات جن مصادر میں نقل ہوئے ہیں، وہ یہ ہیں: مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ۱۲۰۹۸۔ مسنداحمد، رقم ۱۸۱۴۰، ۱۸۲۰۲، ۱۸۲۳۷۔ صحيح بخاری، رقم ۱۲۹۱۔ صحيح مسلم، رقم ۹۳۳۔ شرح مشكل الآثار، طحاوی، رقم ۴۱۵۔ شرح معانی الآثار، طحاوی، رقم ۶۹۷۸ ۔ جب کہ عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے اِس کا شاہد مسند احمد، رقم ۱۹۹۱۸ میں اِس طرح نقل ہوا ہے: ’عَنْ مُحَمَّدَ بْنَ سِيرِينَ قَالَ: ذَكَرُوا عِنْدَ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ: «الْمَيِّتُ يُعَذَّبُ بِبُكَاءِ الْحَيِّ» فَقَالُوا: كَيْفَ يُعَذَّبُ الْمَيِّتُ بِبُكَاءِ الْحَيِّ؟ فَقَالَ عِمْرَانُ: قَدْ قَالَهُ رَسُولُ اللهِ ‘، ’’محمد بن سیرین سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: ایک موقع پر لوگوں نے عمران بن حصین کے سامنے اِس بات کا تذکرہ کیا کہ مردے کو زندہ لوگوں کے رونے کی وجہ سے عذاب دیا جاتا ہے۔وہ کہنے لگے: زندہ لوگوں کے رونے کے سبب میت کو کیسے عذاب دیا جاسکتا ہے؟ عمران رضی اللہ عنہ نے یہ سنا تو کہا: بلا شبہ، یہ بات خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی ہے‘‘۔
اِس کےمتابعات کےمراجع یہ ہیں: مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ۱۲۱۱۶۔ مسند طیالسی، رقم ۸۹۵ ۔ السنن الكبرىٰ، نسائی، رقم ۱۹۸۷۔السنن الصغریٰ، نسائی، رقم ۱۸۴۹۔صحيح ابن حبان، رقم ۳۱۳۴۔ المعجم الكبير، طبرانی، رقم ۴۴۰۔
[باقی]
__________
*مسند احمد، رقم ۱۸۲۳۷۔
**مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ۱۲۰۹۸۔