HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : جاوید احمد غامدی

البیان: النمل ۲۷: ۱۵-۴۴ (۲)

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

(گذشتہ سے پیوستہ)

 

وَلَقَدْ اٰتَيْنَا دَاوٗدَ وَسُلَيْمٰنَ عِلْمًاﵐ وَقَالَا الْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْ فَضَّلَنَا عَلٰي كَثِيْرٍ مِّنْ عِبَادِهِ الْمُؤْمِنِيْنَ ١٥ 

اِس کے برخلاف ہم نے داؤد اور سلیمان کو بڑا علم [20] عطا فرمایا تھا، (مگر وہ ہمارے حضور میں جھکتے ہی چلے گئے)اور اُنھوں نے کہا: شکر ہے اللہ کے لیے جس نے ہمیں اپنے بہت سے مومن بندوں پر فضیلت عطا فرمائی ہے[21]۔ ۱۵

وَوَرِثَ سُلَيْمٰنُ دَاوٗدَ وَقَالَ يٰ٘اَيُّهَا النَّاسُ عُلِّمْنَا مَنْطِقَ الطَّيْرِ وَاُوْتِيْنَا مِنْ كُلِّ شَيْءٍﵧ اِنَّ هٰذَا لَهُوَ الْفَضْلُ الْمُبِيْنُ ١٦

اور داؤد کا وارث سلیمان ہوا[22] اور اُس نے بھی کہا:لوگو، ہمیں پرندوں کی بولی سکھائی گئی ہے[23] اور دوسری ہر طرح کی چیزیں بھی دی گئی ہیں۔ بے شک، یہ خدا کا کھلا ہوا فضل ہے۔۱۶

وَحُشِرَ لِسُلَيْمٰنَ جُنُوْدُهٗ مِنَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ وَالطَّيْرِ فَهُمْ يُوْزَعُوْنَ ١٧ حَتّٰ٘ي اِذَا٘ اَتَوْا عَلٰي وَادِ النَّمْلِﶈ قَالَتْ نَمْلَةٌ يّٰ٘اَيُّهَا النَّمْلُ ادْخُلُوْا مَسٰكِنَكُمْﵐ لَا يَحْطِمَنَّكُمْ سُلَيْمٰنُ وَجُنُوْدُهٗﶈ وَهُمْ لَا يَشْعُرُوْنَ ١٨ فَتَبَسَّمَ ضَاحِكًا مِّنْ قَوْلِهَا وَقَالَ رَبِّ اَوْزِعْنِيْ٘ اَنْ اَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتِيْ٘ اَنْعَمْتَ عَلَيَّ وَعَلٰي وَالِدَيَّ وَاَنْ اَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضٰىهُ وَاَدْخِلْنِيْ بِرَحْمَتِكَ فِيْ عِبَادِكَ الصّٰلِحِيْنَ ١٩

(چنانچہ ایک دن ایسا ہوا کہ ) جنوں اور انسانوں اور پرندوں میں سے سلیمان کے سارے لشکر اُس کے ملاحظے کے لیے جمع کیے گئے[24]، اِس لیے کہ اُن کی درجہ بندی کی جا رہی تھی۔ یہاں تک کہ (مارچ کرتے ہوئے)جب وہ چیونٹیوں کی وادی[25]میں پہنچے تو ایک چیونٹی نے کہا: اے چیونٹیو، اپنے بلوں میں گھس جاؤ، کہیں سلیمان اور اُس کے لشکرتمھیں کچل نہ ڈالیں اور اُنھیں اِس کا احساس بھی نہ ہو [26]۔ (سلیمان نے یہ سنا) تو اُس کی بات سے خوش ہو کر وہ مسکرایا [27]اور بولا: اے میرے رب، مجھے توفیق دے کہ میں تیرے فضل کا شکر گزار رہوں جو تو نے مجھ پر اور میرے ماں باپ پر فرمایا ہے اور ایسے اچھے کام کروں جو تجھے پسند ہوں اور اپنی رحمت سے،(اے پروردگار)، تو مجھے اپنے نیک بندوں میں داخل کر لے [28]۔۱۷-۱۹

وَتَفَقَّدَ الطَّيْرَ فَقَالَ مَا لِيَ لَا٘ اَرَي الْهُدْهُدَﵠ اَمْ كَانَ مِنَ الْغَآئِبِيْنَ٢٠ لَاُعَذِّبَنَّهٗ عَذَابًا شَدِيْدًا اَوْ لَاَاذْبَحَنَّهٗ٘ اَوْ لَيَاْتِيَنِّيْ بِسُلْطٰنٍ مُّبِيْنٍ ٢١ فَمَكَثَ غَيْرَ بَعِيْدٍ فَقَالَ اَحَطْتُّ بِمَا لَمْ تُحِطْ بِهٖ وَجِئْتُكَ مِنْ سَبَاٍۣ بِنَبَاٍ يَّقِيْنٍ ٢٢ اِنِّيْ وَجَدْتُّ امْرَاَةً تَمْلِكُهُمْ وَاُوْتِيَتْ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ وَّلَهَا عَرْشٌ عَظِيْمٌ ٢٣ وَجَدْتُّهَا وَقَوْمَهَا يَسْجُدُوْنَ لِلشَّمْسِ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطٰنُ اَعْمَالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيْلِ فَهُمْ لَا يَهْتَدُوْنَ ٢٤ﶫ

(اِسی موقع پر ) سلیمان نے اپنے لشکر کے پرندوں کا جائزہ لیا تو کہا: کیا بات ہے، میں ہد ہد کو نہیں دیکھ رہاہوں۔ وہ موجود ہےA[29] یا کہیں غائب ہو گیا ہے؟ میں اُس کو سخت سزا دوں گا یا ذبح ہی کر ڈالوں گا یا (اپنی اِس غیرحاضری کے لیے) وہ میرے سامنے کوئی واضح عذر پیش کرے گا [30]۔ پھر زیادہ دیر نہیں گزری کہ ہد ہد آگیا اور اُس نے عرض کیا: مجھے وہ بات معلوم ہوئی ہے جو آپ کے علم میں نہیں ہے[31]۔ میں سبا (کے ملک [32])سے ایک یقینی خبر آپ کے پاس لایا ہوں۔ میں نے دیکھا کہ ایک عورت اُن پر حکمرانی کر رہی ہے، اُسے ہر طرح کا سازوسامان میسر ہے اور اُس کا بہت بڑا تخت بھی ہے[33]۔ میں نے اُس کو اور اُس کی قوم کو دیکھا کہ وہ اللہ کے سوا سورج کو سجدہ کرتے ہیں۔ شیطان نے اُن کے اعمال اُن کے لیے خوش نما بنا دیے ہیں اور اُنھیں صحیح راہ سے روک دیا ہے، سو راستہ نہیں پا رہے ہیں۔ ۲۰-۲۴

اَلَّا يَسْجُدُوْا لِلّٰهِ الَّذِيْ يُخْرِجُ الْخَبْءَ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَيَعْلَمُ مَا تُخْفُوْنَ وَمَا تُعْلِنُوْنَ ٢٥ اَللّٰهُ لَا٘ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيْمِ ٢٦ﶷ

(یقیناً شیطان ہی نے روک دیا ہے ) [34] کہ وہ اللہ کو سجدہ نہ کریں جو زمین اور آسمانوں کی چھپی ہوئی چیزوں کو نکالتا ہے[35] اور جانتا ہے جو کچھ تم چھپاتے اور جو کچھ ظاہر کرتے ہو۔ اللہ کہ اُس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہی عرش عظیم کا مالک ہے۔۲۵-۲۶

قَالَ سَنَنْظُرُ اَصَدَقْتَ اَمْ كُنْتَ مِنَ الْكٰذِبِيْنَ ٢٧ اِذْهَبْ بِّكِتٰبِيْ هٰذَا فَاَلْقِهْ اِلَيْهِمْ ثُمَّ تَوَلَّ عَنْهُمْ فَانْظُرْ مَاذَا يَرْجِعُوْنَ ٢٨

سلیمان نے کہا: ہم ابھی دیکھے لیتے ہیں کہ تم سچے ہو یا جھوٹ بول رہے ہو۔ میرا یہ خط لے کر جاؤ اور اِسے اُن کی طرف ڈال دو، پھر اُن سے الگ ہٹ جانا، پھر دیکھنا کہ وہ کیا ردعمل ظاہر کرتے ہیں[36]؟۲۷-۲۸

قَالَتْ يٰ٘اَيُّهَا الْمَلَؤُا اِنِّيْ٘ اُلْقِيَ اِلَيَّ كِتٰبٌ كَرِيْمٌ ٢٩ اِنَّهٗ مِنْ سُلَيْمٰنَ وَاِنَّهٗ بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ ٣٠ﶫ اَلَّا تَعْلُوْا عَلَيَّ وَاْتُوْنِيْ مُسْلِمِيْنَ ٣١ قَالَتْ يٰ٘اَيُّهَا الْمَلَؤُا اَفْتُوْنِيْ فِيْ٘ اَمْرِيْﵐ مَا كُنْتُ قَاطِعَةً اَمْرًا حَتّٰي تَشْهَدُوْنِ ٣٢

(ملکہ کو خط ملا تو) اُس نے درباریوں سے کہا: اے اہل دربار، ایک گرامی نامہ میرے پاس ڈالا گیا ہے[37]۔ یہ سلیمان کی طرف سے ہے[38] اور یہ اللہ رحمنٰ و رحیم کے نام سے ہے[39]۔ اِس میں لکھا ہے کہ تم میرے مقابلے میں سرکشی نہ کرو اور فرماں بردار ہو کر میرے پاس حاضر ہو جاؤ[40]۔ ملکہ نے کہا: اے اہل دربار، میرے اِس معاملے میں مجھے راے دو۔ (تمھیں معلوم ہے کہ) میں کسی معاملے کا فیصلہ نہیں کرتی، جب تک تم لوگ میرے حضور میں موجود نہ ہو[41]۔۲۹-۳۲

قَالُوْا نَحْنُ اُولُوْا قُوَّةٍ وَّاُولُوْا بَاْسٍ شَدِيْدٍﵿ وَّالْاَمْرُ اِلَيْكِ فَانْظُرِيْ مَاذَا تَاْمُرِيْنَ ٣٣

اُنھوں نے جواب دیا: ہم طاقت ور بھی ہیں اور اعلیٰ جنگی صلاحیت رکھنے والے بھی ہیں۔ آگے فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے۔ سودیکھ لیجیے کہ آپ کیاحکم دیتی ہیں[42]۔۳۳

قَالَتْ اِنَّ الْمُلُوْكَ اِذَا دَخَلُوْا قَرْيَةً اَفْسَدُوْهَا وَجَعَلُوْ٘ا اَعِزَّةَ اَهْلِهَا٘ اَذِلَّةًﵐ وَكَذٰلِكَ يَفْعَلُوْنَ ٣٤ وَاِنِّيْ مُرْسِلَةٌ اِلَيْهِمْ بِهَدِيَّةٍ فَنٰظِرَةٌۣ بِمَ يَرْجِعُ الْمُرْسَلُوْنَ٣٥

ملکہ نے کہا: بادشاہ لوگ جب کسی بستی (کو فتح کرکے اُس) میں داخل ہوتے ہیں تو اُس کو درہم برہم اور اُس کے عزت والوں کو ذلیل کر دیتے ہیں اوریہ لوگ بھی یہی کریں گے۔ (میری راے ہے کہ) میں اپنی سفارت اُن کی طرف ہدیے کے ساتھ بھیجتی ہوں، پھر دیکھتی ہوں کہ میرے سفیر کیا جواب لاتے ہیں[43]۔۳۴-۳۵

فَلَمَّا جَآءَ سُلَيْمٰنَ قَالَ اَتُمِدُّوْنَنِ بِمَالٍﵟ فَمَا٘ اٰتٰىنِۦَ اللّٰهُ خَيْرٌ مِّمَّا٘ اٰتٰىكُمْﵐ بَلْ اَنْتُمْ بِهَدِيَّتِكُمْ تَفْرَحُوْنَ ٣٦ اِرْجِعْ اِلَيْهِمْ فَلَنَاْتِيَنَّهُمْ بِجُنُوْدٍ لَّا قِبَلَ لَهُمْ بِهَا وَلَنُخْرِجَنَّهُمْ مِّنْهَا٘ اَذِلَّةً وَّهُمْ

صٰغِرُوْنَ ٣٧

پھر جب ملکہ کی سفارت سلیمان کے پاس پہنچی تو (اُن کے ہدیے دیکھ کر) سلیمان نے کہا: کیا تم لوگ مجھے یہ مال پیش کرناچاہتے ہو! سو جو کچھ اللہ نے مجھے دے رکھا ہے، وہ اُس سے کہیں بہتر ہے جو اُس نے تمھیں دیا ہے۔نہیں، بلکہ یہ تمھی لوگ ہو کہ اپنے ہدیوں سے خوش ہوتے ہو۔ تم اپنے بھیجنے والوں کے پاس واپس جاؤ، اب ہم اُن پر ضرور ایسے لشکر لے کر آئیں گے کہ وہ اُن کے مقابلے کی تاب نہ لا سکیں گے اور ہم اُنھیں وہاں سے اِس طرح ذلیل کرکے نکال دیں گے کہ وہ خوار ہو کر رہ جائیں گے[44]۔ ۳۶- ۳۷

قَالَ يٰ٘اَيُّهَا الْمَلَؤُا اَيُّكُمْ يَاْتِيْنِيْ بِعَرْشِهَا قَبْلَ اَنْ يَّاْتُوْنِيْ مُسْلِمِيْنَ ٣٨ قَالَ عِفْرِيْتٌ مِّنَ الْجِنِّ اَنَا اٰتِيْكَ بِهٖ قَبْلَ اَنْ تَقُوْمَ مِنْ مَّقَامِكَﵐ وَاِنِّيْ عَلَيْهِ لَقَوِيٌّ اَمِيْنٌ ٣٩ قَالَ الَّذِيْ عِنْدَهٗ عِلْمٌ مِّنَ الْكِتٰبِ اَنَا اٰتِيْكَ بِهٖ قَبْلَ اَنْ يَّرْتَدَّ اِلَيْكَ طَرْفُكَﵧ فَلَمَّا رَاٰهُ مُسْتَقِرًّا عِنْدَهٗ قَالَ هٰذَا مِنْ فَضْلِ رَبِّيْﵴ لِيَبْلُوَنِيْ٘ ءَاَشْكُرُ اَمْ اَكْفُرُﵧ وَمَنْ شَكَرَ فَاِنَّمَا يَشْكُرُ لِنَفْسِهٖﵐ وَمَنْ كَفَرَ فَاِنَّ رَبِّيْ غَنِيٌّ كَرِيْمٌ ٤٠

(سلیمان کو اندازہ تھا کہ اب وہ آ ہی جائیں گے۔ چنانچہ ) اُس نے کہا: اے اہل دربار، تم میں سے کون اُس کا تخت میرے پاس لاتا ہے، اِس سے پہلے کہ وہ لوگ مطیع و فرماں بردار ہو کر میرے پاس حاضر ہوجائیں[45]؟ جنوں میں سے ایک دیو نے عرض کیا: میں اُس کو آپ کے پاس آپ کی اِس مجلس سے آپ کے اٹھنے سے پہلے حاضر کر دوں گا۔ میں اِس پر قدرت رکھتا ہوں اور امانت دار بھی ہوں[46]۔ ایک شخص جس کے پاس قانون خداوندی کا علم تھا[47]، (اِس پر جوش میں آگیا اور) اُس نے کہا:میں آپ کی پلک جھپکنے سے پہلے اُس کو آپ کے پاس لائے دیتا ہوں۔ پھر جب سلیمان نے اُس کو اپنے سامنے رکھا ہوا دیکھا تو پکار اٹھا کہ یہ میرے پروردگار کا فضل ہے تاکہ وہ مجھے آزمائے کہ میں شکر گزار ہوتا ہوں یا ناشکری کرتا ہوں[48]۔ حقیقت یہ ہے کہ جو شکر کرتا ہے تو اپنے ہی فائدے کے لیے شکر کرتا ہے اور جو ناشکری کرتا ہے تو یہ بھی اُسی کانقصان ہے، اِس لیے کہ میرا پروردگار بے نیاز ہے اور وہ بڑا کرم فرمانے والا بھی ہے[49]۔ ۳۸-۴۰

قَالَ نَكِّرُوْا لَهَا عَرْشَهَا نَنْظُرْ اَتَهْتَدِيْ٘ اَمْ تَكُوْنُ مِنَ الَّذِيْنَ لَا يَهْتَدُوْنَ ٤١ فَلَمَّا جَآءَتْ قِيْلَ اَهٰكَذَا عَرْشُكِﵧ قَالَتْ كَاَنَّهٗ هُوَﵐ وَاُوْتِيْنَا الْعِلْمَ مِنْ قَبْلِهَا وَكُنَّا مُسْلِمِيْنَ ٤٢ وَصَدَّهَا مَا كَانَتْ تَّعْبُدُ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِﵧ اِنَّهَا كَانَتْ مِنْ قَوْمٍ كٰفِرِيْنَ ٤٣

سلیمان نے حکم دیا کہ اُس کو جانچنے کے لیے اُس کے تخت کی صورت بدل دو، دیکھیں وہ پہچانتی ہے یا اُنھی لوگوں میں سے ہو کے رہ جاتی ہے جو (اِس تبدیلی کے بعد اُسے) پہچان نہ پائیں[50]۔ سو جب وہ آگئی تو پوچھا گیا: کیا تمھارا تخت ایسا ہی ہے؟اُس نے کہا: گویا کہ وہی ہے۔ آپ کے یہ کمالات ہم اِس سے پہلے ہی جان گئے تھے اور ہم نے سر اطاعت جھکا دیا تھا[51]۔ حقیقت یہ ہے کہ (وہ مان چکی ہوتی، مگر) اُسے اُن چیزوں نے روک رکھا تھا جنھیں وہ اللہ کے سوا پوجتی تھی۔ اِس لیے کہ وہ ایک منکر قوم سے تھی[52]۔ ۴۱-۴۳

قِيْلَ لَهَا ادْخُلِي الصَّرْحَﵐ فَلَمَّا رَاَتْهُ حَسِبَتْهُ لُجَّةً وَّكَشَفَتْ عَنْ سَاقَيْهَاﵧ قَالَ اِنَّهٗ صَرْحٌ مُّمَرَّدٌ مِّنْ قَوَارِيْرَﵾ قَالَتْ رَبِّ اِنِّيْ ظَلَمْتُ نَفْسِيْ وَاَسْلَمْتُ مَعَ سُلَيْمٰنَ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ ٤٤

  اُسے کہا گیا کہ اب محل میں داخل ہو جائیے۔ پھر جب اُس نے محل (کے فرش) کودیکھا تو سمجھی کہ گہرا پانی ہے اور اپنی پنڈلیوں سے پائنچے اٹھا لیے۔ سلیمان نے کہا: یہ تو شیشوں سے بنا ہوا محل ہے[53]۔ (اِس پر) وہ پکار اٹھی:میرے پروردگار، میں اپنی جان پرظلم کرتی رہی ہوں۔ (سولوٹتی ہوں) اور سلیمان کے ساتھ ہو کر اب میں نے اپنے آپ کو اللہ رب العٰلمین کے حوالے کر دیا ہے[54]۔ ۴۴

[20]۔ اِس سے مراد وہ حکمت و معرفت بھی ہے جو براہ راست اُنھیں عطا ہوئی اور نفس اور مادہ میں تصرفات کا وہ علم بھی جو اُن کے زمانے میں بنی اسرائیل کے بعض لوگوں کو عطا کیا گیا جس کا ذکر آگے ہوا ہے۔ یہی دوسرا علم ہے جس کی بدولت وہ اُس زمانے کی سب سے عظیم اور سب سے زیادہ طاقت ور سلطنت قائم کر دینے میں کامیاب ہوئے تھے۔

[21]۔ یعنی فرعون اوراُس کے اعیان و اکابر کی طرح نہ اپنی برتری کے زعم میں مبتلا ہوئے، نہ ظلم اور گھمنڈ اختیار کیا، بلکہ اُس عزت و فضیلت پر سراپا شکر و سپاس ہو کر جیے جو اُنھیں خدا کے با ایمان بندوں میں حاصل ہوئی۔

آیت میں خاص طور پر با ایمان بندوں میں عزت و فضیلت کا ذکر اِس لیے ہوا ہے کہ اصل عزت و فضیلت ایمان ہی کی عزت و فضیلت ہے۔

[22]۔ داؤد علیہ السلام بنی اسرائیل کے پیغمبر اور بادشاہ تھے۔ اُن کے بیٹے حضرت سلیمان اِسی حیثیت سے اُن کے وارث ہوئے۔ اُن کی سلطنت فلسطین اور شرق اردن سے لے کر شام تک پھیلی ہوئی تھی۔ حضرت سلیمان کا زمانۂ سلطنت ۹۶۵ق م سے لے کر ۹۲۶ ق م تک ہے۔

[23]۔ بنی اسرائیل کی روایات میں بھی اِس کا ذکر ہوا ہے کہ حضرت سلیمان کو اللہ تعالیٰ نے جہاں دوسری بہت سی قوتیں دی تھیں، وہاں پرندوں کی بولی کا بھی خاص علم عطا فرمایا تھا اور اپنے اِس علم کی بنا پر وہ اُن کی تربیت کرکے اپنی فوج میں اُن سے نامہ بری، خبر رسانی اور سراغ رسانی وغیرہ کے کام لیتے تھے۔ اِس سے یہ بات صاف نکلتی ہے کہ پرندوں کے اندر بھی کسی نہ کسی درجے میں نطق و ادراک کی صلاحیت ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں :

’’... اگر ہم اُن کے نطق کو نہیں سمجھتے تو ہمارا نہ سمجھنا اُس کی نفی کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ قرآن میں صاف تصریح ہے کہ کائنات کی ہر چیز خدا کی تسبیح کرتی ہے، لیکن ہم اُس کی تسبیح نہیں سمجھتے۔ اِسی طرح قرآن میں یہ بات بھی بیان ہوئی ہے کہ جتنے بھی چرند پرند ہیں، سب ہماری ہی طرح الگ الگ امتیں ہیں...حضرت سلیمان کو تو پرندوں کی بولی کا خاص علم عطا ہوا تھا،جن کو یہ علم نہیں ملا ہے،وہ بھی یہ جانتے ہیں کہ جتنے بھی حیوانات ہیں، سب اپنی نفرت، محبت، عتاب، التفات، خوشی، غم، فکرمندی، طمانیت، استمالت، ملاعبت اور اپنے دوسرے جذبات کی تعبیر کے لیے الگ الگ بولیاں بھی اختیار کرتے ہیں اور اُن کے اظہار کے لیے اُن کی ادائیں اور حرکتیں بھی الگ الگ ہوتی ہیں۔ جو لوگ کسی مقصد خاص کے لیے اِن جانوروں کی تربیت کرتے ہیں، وہ اِن کی آوازوں اور اشارات کو اُسی طرح سمجھتے ہیں، جس طرح اپنے ہم جنسوں کی بولی اور اُن کے اشارات کو سمجھتے ہیں۔ پھر اِن سے بھی زیادہ اُن لوگوں کا علم ہے جنھوں نے سائنٹیفک طریقے پر اِن حیوانات کا تجربہ و مشاہدہ کیا ہے۔ اُنھوں نے اپنے علمی تجربہ ومشاہدہ سے جو معلومات فراہم کی ہیں، اُن کو پڑھیے تو انسان دنگ رہ جاتا ہے کہ بڑے جانور تو درکنار ننھی سی چیونٹی کے اندر بھی قدرت نے جو دانش و بینش، جو زیرکی و ہوشیاری اور جو فہم و فراست ودیعت فرمائی ہے، وہ ایسی ہے کہ اُس سے انسان بہت کچھ سیکھ سکتا ہے۔ آج کتوں سے سراغ رسانی اور جاسوسی کے سلسلے میں جو کام لیے جا رہے ہیں، کیا وہ کم حیرت انگیز ہیں ! جب انسان اپنے تجربات اور اپنی تجرباتی سائنس کے ذریعے سے جانوروں کے اتنے اسرار دریافت کر سکتا ہے اور اُن سے یہ کچھ کام لے سکتاہے تو اللہ تعالیٰ نے اگرحضرت سلیمان کو پرندوں کی بولی کا خاص علم دے دیا تو اِس میں تعجب کی کیا بات ہے! یہ امریہاں ملحوظ رہے کہ بولی درحقیقت آوازوں ہی کی ترکیب و تالیف سے وجود میں آتی ہے۔ جو چیزیں ادراک و شعور اور جذبات رکھتی ہیں، وہ اپنے ادراک و شعور اور جذبات کی تعبیر کے لیے مختلف قسم کی آوازیں نکالتی ہیں اور اُنھی کی تالیف و ترکیب سے بولی وجود میں آتی ہے۔ اشارات بھی اِسی میں داخل ہیں، اُن کو غیرناطق زبان سمجھیے۔‘‘(تدبرقرآن۵/ ۵۹۲)

[24]۔ اِس جملے میں ایک مضاف عربیت کے قاعدے سے محذوف ہے۔ ہم نے ترجمے میں اُسے کھول دیا ہے۔

[25]۔ یعنی جس میں چیونٹیاں بہت تھیں۔ ہوسکتا ہے کہ چیونٹیوں کی اِسی کثرت کے باعث اُسے وادی النمل کہا جاتاہو۔ اِس وادی کا یہ قصہ بنی اسرائیل کی روایتوں میں بھی پایا جاتا ہے۔

[26]۔ بعض چیونٹیاں آواز بھی نکالتی ہیں۔ آیت سے متبادر ہوتا ہے کہ یہ غالباً اِسی قسم کی چیونٹیاں تھیں۔ استاذ امام لکھتے ہیں :

’’ چیونٹیوں کے متعلق سائنس نے جو حیرت انگیز انکشافات کیے ہیں، اُس سے قطع نظر ایک عام آدمی بھی اگر اُن کے کسی بڑے دَل کو ایک جگہ سے دوسری جگہ نقل مکانی کرتے دیکھے تو اُن کے عسکری نظام اور فوجی ڈسپلن کو دیکھ کر حیران رہ جاتا ہے۔ صاف نظر آتاہے کہ پوری فوج ایک قائد کی قیادت میں مارچ کر رہی ہے۔ دَل کے دونوں جانب تھوڑے تھوڑے فاصلے سے اُن کے رضاکاروں اور اسکاؤٹوں کی لائن ہوتی ہے جو اپنے معین حدود کے اندر برابر تگ و دو میں مصروف رہتے ہیں اور صاف نظر آتا ہے کہ وہ نگرانی کی ڈیوٹی پر مامور ہیں۔ جوں ہی اُن کو کسی خطرے کا احساس ہوتا ہے، وہ اپنے حدود کے اندر اُس سے دَل کو آگاہ کرتے ہیں اور دَل اپنے آپ کو اس سے بچانے کی تدبیر اختیارکرتا ہے۔ وہ منظر اُن کا خاص طور پر دیدنی ہوتا ہے،جب اُن کا کوئی قبیلہ مستقل طور پر ایک مقام سے دوسرے مقام کے لیے اپنے تمام غذائی ذخائر اور اپنے تمام اولاد و احفاد کے ساتھ ہجرت کرتا ہے۔ میں نے بعض مرتبہ اُن کی اِس مہاجرت کا غور سے مشاہدہ کیا ہے۔ اگر میں اِن مشاہدات کو قلم بند کروں تو ایک طویل داستان بن جائے۔
چیونٹیوں کے یہ کارنامے تو ہما و شما کو بھی نظر آتے ہیں، لیکن سائنس دانوں نے اُن کے جن عجائب کاانکشاف کیا ہے، اُن کے بعد تو اِس امر میں کسی شبہے کی گنجایش ہی باقی نہیں رہ گئی ہے کہ وہ بھی، جیسا کہ قرآن میں فرمایا گیا ہے، ہماری ہی طرح امتیں ہیں۔ اُن کی بعض قسمیں ہماری ہی طرح بعض جانوروں کو پالتی ہیں اور اُن کو اپنے اغراض و ضروریات کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ یہ اپنے لیے کھیت بناتی اور اُن میں بیج بوتی ہیں اور جب فصل تیار ہوتی ہے تو دِرَو کے بعد اُس کو تہ خانوں میں محفوظ کر دیتی ہیں۔ اِن کی باقاعدہ فوج بھی ہوتی ہے جو مخصوص افسروں کی کمان میں دشمن پر حملہ آور ہوتی ہے۔ اِن کے ہاں تربیت اور ٹریننگ کا باقاعدہ نظام ہے۔ غرض وہ ساری خصوصیات اُن کے اندر بھی پائی جاتی ہیں جو انسانوں کے اندر پائی جاتی ہیں، بس صرف شکل و صورت اور درجہ و مرتبہ کا فرق ہے۔‘‘(تدبرقرآن۵/ ۵۹۴)

[27]۔ اصل الفاظ ہیں :’فَتَبَسَّمَ ضَاحِكًا‘۔ اِن میں ’ضِحْك‘ خوشی اور ابتہاج و سرور کے مفہوم میں ہے اور عربی زبان میں یہ اِس مفہوم میں آتا ہے۔

[28]۔ خدا کی عظیم اور بے مثال نعمتوں پر شکر گزاری کا یہی رویہ ہے جس کو نمایاں کرنے کے لیے حضرت سلیمان کی زندگی کے یہ واقعات قریش مکہ کو سنائے جا رہے ہیں۔

[29]۔ یہ فقرہ عربیت کے اسلوب پر اصل میں بربناے قرینہ محذوف ہے۔

[30]۔ ہدہد کی غیرحاضری پر حضرت سلیمان کے عتاب کا یہ انداز بتا رہا ہے کہ اُن کی فوج کے پرندے بھی نظم و ضبط کے پوری طرح پابند تھے اور کسی خلاف ورزی کی صورت میں اُنھیں فوجی ضوابط کے تحت سزا بھی بھگتنی پڑتی تھی۔

[31]۔ مطلب یہ ہے کہ اگرچہ دیر سے پہنچا ہوں، لیکن یہ دیر کام ہی کے سلسلے میں ہوئی ہے۔ چنانچہ سبا کے بارے میں آپ جو کچھ جانتے ہیں، میں اُس سے آگے کچھ ایسی معلومات حاصل کرکے آیا ہوں جو بالکل تازہ ہیں۔

[32]۔ سبا قدیم زمانے کی ایک دولت مند قوم تھی۔ اُسی کے نام پر یمن کے جنوب مغربی علاقے کو بھی اُس زمانے میں سبا کہا جاتا تھا۔ اُس کا دارالحکومت مارب تھا جس کے کھنڈر آج بھی اِس علاقے میں موجود ہیں۔ قوم سبا کا زمانہ ۱۱۰۰ ق م سے لے کر ۱۱۵ ق م تک ہے۔ اِس کے بعد جنوبی عرب کی ایک دوسری مشہور قوم حمیر نے اِن کی جگہ لے لی۔

[33]۔ قدیم زمانے میں بھی ملکوں کی حکمرانی زیادہ تر مردوں ہی کے پاس رہی ہے، اِس لیے ہدہد کا انداز کلام ایسا ہے کہ گویا اُس کے لیے یہ تعجب کی بات ہے۔ تخت کی عظمت کا ذکر بھی اِسی انداز سے ہوا ہے۔ اُس کی وجہ یہ ہے کہ بادشاہوں کی عظمت و جلالت اُن کے تخت و تاج میں لگے ہوئے زر و جواہر اور سونے چاندی ہی سے ناپی جاتی تھی۔

[34]۔ یہاں سے آگے تضمین ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہد ہد کی بات کے ساتھ اپنی بات کو ملا کر اُسے مطابق حال کر دیا ہے۔ اِس کی متعدد مثالیں پیچھے گزر چکی ہیں۔ استاذ امام کے الفاظ میں، ’مَا تُخْفُوْنَ وَمَا تُعْلِنُوْنَ‘ کے صیغہ ہاے خطاب ہدہد کی زبان سے بالکل ناموزوں ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ ہی فرما سکتا ہے۔

[35]۔ یعنی آسمان میں سورج، چاند، ستارے اورزمین میں درخت،نباتات، دریا، سمندر اور چشمے وغیرہ جو پیدایش سے پہلے نہ معلوم کہاں چھپے ہوئے تھے۔

[36]۔ مطلب یہ ہے کہ خط ڈال کر فوراً واپس نہ آجانا، بلکہ یہ دیکھنے کی کوشش بھی کرنا کہ اِس خط کوپا کر وہ لوگ کیا کہتے ہیں ؟

[37]۔ اصل میں ’كِتٰبٌ كَرِيْمٌ‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ اِس کے صاف معنی یہ ہیں کہ حضرت سلیمان کی عظمت و جلالت سے وہ لوگ پوری طرح واقف تھے۔ نیز یہ بات بھی واضح ہے کہ ملکہ اور اُس کے درباریوں کو خط کے ایک پرندے کے ذریعے سے ڈالے جانے پر کوئی تعجب نہیں ہوا۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ اُس زمانے میں نامہ بری کا یہ طریقہ معلوم و معروف تھا۔

[38]۔ یہ سلیمان علیہ السلام کے خط ہی کا پہلا جملہ ہے۔ قدیم زمانے میں سلاطین و امرا کے خطوط و فرامین اِسی طریقے سے مرسل اور مرسل الیہ کے نام سے شروع ہوتے تھے۔

[39]۔ اِس سے معلوم ہوا کہ بنی اسرائیل کے ہاں بھی خطوں کی ابتدا ’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ‘ کے ہم معنی کلمات ہی سے کی جاتی تھی۔ ملکہ نے خط کے اِس سرنامے کا حوالہ غالباً اِس لیے دیا ہے کہ خط جس ہستی کی طرف سے آیا ہے، درباری کوئی راے قائم کرتے ہوئے، اُس کے بارے میں متنبہ رہیں کہ وہ کوئی عام بادشاہ نہیں ہے۔

[40]۔ سورۂ مائدہ(۵) کی تفسیر میں آیت ۲۱ کے تحت بیان ہو چکا ہے کہ سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی بعثت کے ساتھ ہی فلسطین کا علاقہ بھی جزیرہ نماے عرب کی طرح اللہ تعالیٰ نے اپنی دعوت کے لیے خاص کر لیا تھا۔ چنانچہ بنی اسرائیل کو حکم دیا گیا کہ وہ اِس علاقے کو اِس کے باشندوں سے خالی کرا لیں، اِسے توحید کا مرکز بنائیں اور اِس میں کسی کافر و مشرک کو زندہ نہ چھوڑیں اور اِس کی سرحدوں سے متصل کسی علاقے میں کافروں اور مشرکوں کی کوئی حکومت بھی قائم نہ رہنے دیں، الاّ یہ کہ وہ اُن کے باج گزار بن جائیں۔ استثنا کے باب ۲۰میں یہ حکم پوری تفصیل کے ساتھ بیان ہوا ہے۔ سلیمان علیہ السلام نے ملکۂ سبا کو یہ الٹی میٹم اِسی حکم کے تحت دیاہے۔ یہ ایک خدائی فیصلہ تھا جوایک خاص علاقے میں اور پیغمبروں کی وساطت سے نافذ کیا گیا جن کی حکومت براہ راست خدا کی حکومت ہوتی ہے۔ اِس کا عام مسلمانوں اور اُن کے کسی ملک یا اُس کی حکومت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ چنانچہ جن اہل علم نے اِس سے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ ہر اسلامی حکومت کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ غیر مسلموں کو دنیا میں کسی جگہ اقتدار پر متمکن نہ رہنے دے، اُن کی راے کسی طرح صحیح نہیں ہے۔*

[41]۔ یہ دل جوئی اور استمالت کا جملہ ہے۔ اِس سے مقصود یہ ہے کہ ملکہ اگر اُن سے اختلاف بھی کرے تو اُسے وہ استبداد پر محمول نہ کریں، بلکہ ملک و قوم کی خیرخواہی کے جذبے سے اُس پر غور کریں۔ اِس سے یہ خیال نہیں کرنا چاہیے کہ اُس کی حکومت ایک جمہوری حکومت تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ شخصی حکومتیں بھی، اگر وہ بالکل برخود غلط لوگوں کے ہاتھ میں نہ ہوں تو اپنے اعیان و اکابر کے مشورے ہی سے فیصلے کرتی ہیں۔

[42]۔ اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ درباریوں کا رجحان لڑنے ہی کی طرف تھا جو اُنھوں نے نہایت شایستہ طریقے سے ظاہر کر دیا ہے۔

[43]۔ یعنی اِس سے معلوم ہو جائے گا کہ ’وَاْتُوْنِيْ مُسْلِمِيْنَ‘ کا جو مطالبہ حضرت سلیمان کی طرف سے کیا گیا ہے، اُس سے کچھ کم پر بھی معاملہ ہو سکتا ہے یا بالآخر وہی بات ماننا پڑے گی۔

[44]۔ مطلب یہ ہے کہ اِس طرح کے تحائف و ہدایا تم لوگوں کو خوش کر سکتے ہیں، لیکن میں اِن کا متمنی نہیں ہوں۔ میرے الٹی میٹم کے پیچھے ایک اصولی فیصلہ ہے اور میں ہر حال میں اُس کو نافذ کروں گا۔

[45]۔ حضرت سلیمان کو اندازہ تھا کہ سفیروں کو واپس کر دینے کے بعد وہ لوگ سر تسلیم خم کر دیں گے۔ چنانچہ اُنھوں نے ارادہ فرمایا کہ اُن کے آنے پر وہ اُس غیر معمولی قوت اور علم حق کی سطوت کا مظاہرہ کریں جو اللہ تعالیٰ نے اُن کو عطا کر رکھا تھا اور اُن کو اپنے پیچھے خدا کی طاقت کا مشاہدہ کرادیں۔ اِس کی وجہ یہ تھی کہ وہ محض تسلیم و انقیاد نہیں، اِس کے ساتھ اُن کے ایمان و اسلام کے بھی خواہاں تھے۔

[46]۔ مطلب یہ ہے کہ حضور مطمئن رہیں، میں اُس میں کوئی تصرف نہیں کروں گا۔

[47]۔ یعنی کائنات میں کارفرما خدا کے قانون کا علم۔ یہ غالباً اُسی نوعیت کا کوئی علم تھا جو ہاروت و ماروت کے ذریعے سے دیا گیا۔ اِس کی وضاحت ہم سورۂ بقرہ کی تفسیر میں آیت ۱۰۲ کے تحت کر چکے ہیں۔ دورحاضر کے سائنس دان مادے میں کارفرما قوانین کو دریافت کرکے جس طرح کے کرشمے دکھا رہے ہیں ،زمانۂ قدیم میں اِسی طرح کے کرشمے نفسی علوم کے ماہرین نفس میں کارفرما قوانین کے ذریعے سے دکھاتے رہے ہیں۔ہندو، بدھ، مسیحی اور مسلمان صوفیا کے تذکروں میں اِس کے واقعات دیکھے جا سکتے ہیں۔اِس پر کم سے کم اِس زمانے کے لوگوں کو کوئی تعجب نہ ہوناچاہیے جس کے سائنس دان ہزاروں لاکھوں میل کے فاصلے سے زندہ انسانوں کی آواز، تصویریں اور نقل و حرکت چشم زدن میں اُسی طرح اٹھا لاتے ہیں، جس طرح حضرت سلیمان کے دربار کا یہ شخص ملکۂ بلقیس کا تخت اٹھا لایا تھا۔

[48]۔ یہ وہ اصل مدعا ہے جس کے لیے قرآن نے یہ واقعہ سنایا ہے کہ اِس غیر معمولی قوت اور کمال علم کے باوجود سلیمان علیہ السلام کے اندر فخر و غرور کا کوئی جذبہ پیدا نہیں ہوا، بلکہ وہ مزید جھکتے چلے گئے۔

[49]۔ چنانچہ وہ رحیم و کریم اُن لوگوں کو بھی محروم نہیں کرتا جو اُس کے خلاف آمادۂ بغاوت رہتے ہیں۔

[50]۔ یہ تبدیلی کیوں کی گئی ؟ استاذ امام لکھتے ہیں :

’’...یہ ایک قسم کا تفنن تھا جس کے لیے اُنھوں نے اپنے آدمیوں کو یہ ہدایت فرمائی کہ تخت کی ہیئت میں فی الجملہ تبدیلی کر دی جائے تاکہ ملکہ صاحبہ کے لیے اُن کا اپنا تخت ایک پہیلی بن جائے اور ہم دیکھیں کہ یہ پہیلی بوجھنے میں وہ کامیاب ہوتی ہیں یا ناکام رہ جاتی ہیں۔‘‘(تدبرقرآن۵/ ۶۰۵)  

[51]۔ اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت سلیمان کے کمال علم و حکمت سے تنہا ملکہ ہی نہیں، اُس کے وزرا و امرا بھی متاثر تھے اور پہلے سے اُن کی عظمت کے قائل ہو چکے تھے۔ چنانچہ سلیمان علیہ السلام کی طرف سے سراطاعت جھکانے کا مطالبہ کیا گیا تو ملکہ نے چاہا کہ وہ براہ راست آپ سے ملے اور آپ کے کمالات کو دیکھے تاکہ جو صورت حال پیدا ہو گئی ہے، اُس سے نکلنے کا کوئی راستہ تلاش کرسکے۔ سبا کے دارالحکومت مارب سے یروشلم تک تقریباً ڈیڑھ ہزار میل کا یہ سفراِسی مقصد سے کیا گیا تھا۔

[52]۔ دنیامیں قبول حق کی سب سے بڑی رکاوٹ یہی ہے جسے قرآن نے ملکۂ سبا کے حوالے سے بیان کیا ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں :

’’... مطلب یہ ہے کہ روایات اور قومی روابط کی زنجیریں ہر شخص آسانی سے نہیں توڑ سکتا۔ کتنے لوگ ایسے ہوتے ہیں جن پر حق واضح ہوتا ہے، لیکن وہ اپنے ماحول کے بندھنوں میں ایسے بندھے ہوئے ہوتے ہیں کہ اُن سے رہائی حاصل کرنے کی جرأ ت نہیں کر سکتے۔ صرف صاحب توفیق ہی ہوتے ہیں جو راہ کے اِن بھاری پتھروں کو ہٹانے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ یہ مشکل یوں تو ہر ایک کی راہ میں ہوتی ہے، لیکن جن لوگوں کو سیادت و قیادت کا منصب حاصل ہوتا ہے، اُن کے لیے یہ مشکل دوچند، بلکہ دہ چند ہو جاتی ہے۔ وہ اپنے ماحول کے بالکل ہی غلام بن کر رہ جاتے ہیں۔ مدعی تو وہ ہوتے ہیں لوگوں کے لیڈر ہونے کے، لیکن چلتے ہیں لوگوں کے پیچھے پیچھے۔‘‘(تدبرقرآن ۵/ ۶۰۶)

[53]۔ یہ اُس صورت حال کی تصویر ہے جس سے ملکہ محل کے فرش پر قدم رکھتے ہی دوچار ہوئیں۔ استاذ امام لکھتے ہیں :

’’معلوم ہوتا ہے محل کا فرش شیشے کی دبیز تختیوں سے بنایا گیا تھا اور اُس کے نیچے پانی بہ رہا تھا، اِس وجہ سے کوئی انجان جب فرش پرقدم رکھتا تو اُس کو ایسا محسوس ہوتا کہ گویا وہ کسی حوض میں اتر رہا ہے۔ ایک دیہاتی جب کسی متمدن شہر کے ایوانوں اور محلوں میں داخل ہوتا ہے تواُس کو اِس طرح کی حیرانی بہت پیش آتی ہے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کے محل کا حال یہ تھا کہ اُس کے اندر دیہاتی تو درکنار،ملکۂ سبا بھی ایک دیہاتی بن گئیں۔‘‘(تدبرقرآن ۵/ ۶۰۶)

[54]۔ مطلب یہ ہے کہ علم و معرفت اور پاکیزگی نفس کے حیرت انگیز کرشموں کے ساتھ اِس شان و شکوہ نے ملکہ کو بالکل سر افگندہ کر دیا اور اُس نے شرک و بت پرستی سے توبہ کرکے اپنے مسلمان ہونے کا اعلان کر دیا۔ بائیبل کا بیان ہے کہ حضرت سلیمان نے اِس کے بعد اُسے معزول نہیں کیا، بلکہ ملازموں سمیت واپس جانے کی اجازت دے دی۔**

سلیمان علیہ السلام اور ملکۂ سبا کا یہ قصہ یہودی ربیوں کی روایات میں بھی کم و بیش اِنھی تفصیلات کے ساتھ بیان ہوا ہے۔ ملکہ کا تخت اٹھا منگوانے کا واقعہ، البتہ صرف قرآن میں ہے۔ تاہم اصل مدعا وہی ہے کہ اِن تمام تفصیلات سے یہ حقیقت واضح کی جائے کہ فراعنہ کے مقابل میں خدا کا یہ بندہ اِس علم و حکمت، اِس شکوہ خسروی اور ایسی بے نظیر تعمیرات کے باوجود عبدیت کا کیا جمال و کمال اپنے اندر رکھتا تھا۔ استاذ امام لکھتے ہیں :

’’... اِس سے معلوم ہوا کہ وہ شیش محل بھی اللہ کی ایک نشانی ہے جس کے ساتھ عبدیت و انابت اور شکرگزاری و وفاداری کا وہ جمال ہو جو حضرت سلیمان کے اندر تھا۔ اُس سے خلق کو رہنمائی ملتی ہے اور وہ آنکھوں کو خیرہ کرنے کے بجاے اُن کو بصیرت بخشتا ہے۔ اگر یہ چیز نہ ہو تو پھر وہ کبر و غرور کا ایک نشان اور ایک ظلمت خانہ ہے، اگرچہ کوئی اُس کا نام قصر ابیض (White House) ہی کیوں نہ رکھ چھوڑے۔‘‘ (تدبرقرآن۵/ ۶۰۷)

[باقی]

ـــــــــــــــــــــــــ

* اِس کی تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو، ہماری کتاب ’’مقامات‘‘میں مضمون: ’’خدا کے فیصلے‘‘۔

**  سلاطین اول ۱۰: ۱۳۔

B