HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : سید منظور الحسن

سنت کا ثبوت: جناب جاوید احمد غامدی صاحب کے موقف پر اعتراضات کا جائزہ (۱)

سنت کے ثبوت کے بارے میں جناب جاوید احمد غامدی کے موقف پربعض ناقدین کی طرف سے بالعموم دو اعتراض کیے گئے ہیں:ایک یہ کہ غامدی صاحب معیار ثبوت میں فرق کی بنا پر حکم کی نوعیت اور اہمیت میں فرق کو تسلیم کرتے ہیں، جب کہ ذریعے کی بنیاد پر کسی چیز کے دین ہونے یا نہ ہونے میں فرق کرنا درست نہیں ہے۔ دوسرے یہ ہے کہ اُن کے نزدیک سنت کے ثبوت کا معیاراخبار آحاد نہیں،بلکہ تواترعملی ہے، حالاں کہ تواتر کا ثبوت بذات خوداخبار آحاد کا محتاج ہے۔

ان اعتراضات کی تفصیل اور ان پر ہمارا تبصرہ درج ذیل ہے:

معیار ثبوت کی بنا پر فرق

پہلے اعتراض کی تقریر یہ ہے کہ غامدی صاحب معیار ثبوت میں فرق کی بنا پر حکم کی نوعیت اور اہمیت میں فرق کو تسلیم کرتے ہیں۔ چنانچہ وہ تواتر کے ذریعے سے ملنے والے احکام کو ایک درجہ دیتے ہیں اور آحاد کے ذریعے سے ملنے والے احکام کو دوسرا درجہ دیتے ہیں۔ یہ تفریق درست نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تواتر، دین کے نقل کا ذریعہ ہے اور ذریعے کی بنیاد پر کسی چیز کے دین ہونے یا نہ ہونے میں فرق کرنا درست نہیں ہے۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنے والا ہر حکم دین تھا۔ بعد میں کسی حکم کو لوگوں نے تواتر سے نقل کیا اور کسی کو اخبار آحاد سے۔ ذریعے کو فیصلہ کن حیثیت دینے کا مطلب یہ ہے کہ اسے شارع پر مقدم مان لیا جائے۔ بہ الفاظ دیگر غامدی صاحب نے تواتر کی شرط عائد کر کے لوگوں کو دین کے شارع کی حیثیت دے دی ہے۔

اس اعتراض سے نہ صرف یہ واضح ہوتا ہے کہ یہ استاذ گرامی کے موقف کے سوء فہم پر مبنی ہے، بلکہ یہ تاثر بھی ہوتا ہے کہ یہ ان مسلمات سے صرف نظر کرتے ہوئے کیا گیا ہے جو انتقال علم کے ذرائع کے بارے میں بدیہیات کی حیثیت رکھتے ہیں۔

 غامدی صاحب کے نزدیک اجماع و تواتر کی شرط کا بنیادی مقدمہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے فریضۂ منصبی کے لحاظ سے اس پر مامور تھے کہ وہ اللہ کا دین پورے اہتمام، پوری حفاظت اور پوری قطعیت کے ساتھ اوربے کم و کاست لوگوں تک پہنچائیں۔ علماے امت بھی اس امر پر متفق ہیں کہ دین کومکمل اور بغیر کسی کمی یا زیادتی کے انسانوں تک پہنچانا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی منصبی ذمہ داری تھی۔

امام سرخسی نے بیان کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی جانب سے اس پر مامور تھے کہ لوگوں کے لیے دین کے احکام کو واضح کریں:

أن صاحب الشرع کان مامورًا بأن یبین للناس ما یحتاجون إلیه. (اصول السرخسی ۱/ ۳۷۸)   
 ’’شارع علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اس بات کا حکم دیا گیا تھا کہ لوگوں کے لیے حاجت طلب احکام کو واضح فرمائیں۔‘‘

شاہ ولی اللہ نے ’’حجۃ اللہ البالغہ‘‘ میں بعثت انبیا کی ضرورت کے حوالے سے بیان کیا ہے کہ یہ نبی کی لازمی ذمہ داری ہے کہ خدا کے جس پیغام کو وہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے مامور ہوا ہے، اسے وہ بے کم و کاست لوگوں تک پہنچا دے۔ اس ضمن میں اس کی طرف سے کوئی کمی یا کوتاہی نہیں ہونی چاہیے:

ثم لا بد لهذا العالم أن یثبت علی رؤوس الأشهاد أنه عالم بالسنة الراشدة، وأنه معصوم فیما یقوله من الخطأ والإضلال، ومن أن یدرک حصة من الإصلاح، ویترک حصة أخری لا بد منها. (۱/ ۱۹۱)    
  ’’پھر یہ بھی ضروری ہے کہ جو فرد کامل اس عظیم الشان مقصد کو انجام دینے کے لیے چنا گیا ہے، وہ کھلے طور پر تمام لوگوں کے سامنے کسی طرح یہ ثابت کر دے کہ درحقیقت یہ وہی جلیل القدر ہستی ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے اس منصب کے لیے چن لیا ہے اور سب لوگ یقین کر لیں کہ اس کو باری تعالیٰ نے سنت راشدہ کا پورا علم عنایت فرمایا ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ کے پیغاموں کو پہنچانے میں شیطان کے تصرف اور در اندازی سے محفوظ ہے۔ (اس کا کلام ’وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰي. اِنْ هُوَ اِلَّا وَحْيٌ يُّوْحٰي‘ کا زندہ ثبوت ہے اور وہ خداے پاک کی نازل کردہ ہدایات کو مکمل طور پر لوگوں تک پہنچاتا ہے) یا بہ الفاظ دیگر اس کے یہ معنی ہیں کہ تبلیغ میں وہ کسی قسم کی کوتاہی نہیں کرتا کہ حق تعالیٰ کی بتائی ہوئی بعض باتیں ان کو پہنچا دے اور بعض کو چھپائے رکھے۔‘‘

شاہ صاحب نے مزید بیان کیا ہے کہ نبی کا فریضہ نہ صرف دین کو بے کم وکاست اور پوری طرح پہنچانا ہے، بلکہ ان کے حقوق و فرائض کی اس حد تک تعیین کر دینا بھی ہے کہ اس کے نتیجے میں اعمال کے حدود اور ان کی کم سے کم مقداروں کے تعین میں کوئی ابہام باقی نہ رہے۔ان کے نزدیک یہ تعیین پیغمبر کا منصبی فریضہ ہے اور اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو یہ خلاف شریعت ہے:

یجب عند سیاسة الأمة أن یجعل لکل شئ من الطاعات حدان: أعلی وأدنی فالأعلی هو ما یکون مفضیًا إلی المقصود منه علی الوجه الأتم، والأدنی هو ما یکون مفضیًا إلی جملة من المقصود لیس بعدها شئ یعتد به. وذالک لأنه لا سبیل إلی أن یطلب منهم الشئ، ولا یبین لهم أجزاءہ وصورته ومقدار المطلوب منه، فإنه ینافي موضوع الشرع.(حجۃ اللہ البالغہ۱/ ۲۱۸- ۲۱۹)    
  ’’جب کوئی نبی اپنی امت کی سیاست دینیہ میں مشغول ہوتا ہے۔ بہ الفاظ دیگر ان کے لیے فرائض اور حقوق کی تعیین کرنے پر متوجہ ہوتا ہے تو ہر ایک طاعت کے لیے اعلیٰ اور ادنیٰ دو قسم کے حدود متعین کرتا ہے۔ ’’اعلیٰ‘‘ سے مراد کسی طاعت کی وہ مقدار ہے جس سے اس طاعت کا مقصد کامل ترین وجہ پر حاصل ہو جائے۔ برخلاف اس کے ’’ادنیٰ‘‘ طاعت مذکورہ کی کم از کم مقدار ہے جو فی الجملہ مقصد اور غایت تک پہنچنے کا ذریعہ ہے، لیکن اس میں مزید کمی کی مطلق گنجایش نہیں ہوتی۔ یہ حدود اور مقادیر وہ اس لیے معین کرتا ہے کہ یہ ہرگز اس کے منصب نبوت کے شایان شان نہیں ہے کہ جن اعمال کی بجا آوری کا وہ اپنی امت سے مطالبہ کرتا ہے یا ان کی بجاآوری کی ترغیب و تحریص دلاتا ہے، ان کے حدود کی تعیین نہ کرے اور نہ ہی ان کا طریق ادا اور ان کے اجزا و ارکان ان کو بتائے۔ اگر وہ بالفرض ایسا کرے تویہ موضوع شریعت کے خلاف ہوگا۔‘‘

اس تفصیل سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اہل علم کے نزدیک یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم دین کو بے کم و کاست اور پوری قطعیت کے ساتھ امت کو پہنچانے کے مکلف تھے۔یہی مقدمہ ہے جس کی بنا پر اکابر اہل علم کے ہاں دو باتیں اصولی طور پر ہمیشہ مسلم رہی ہیں:

ایک یہ کہ دین کا اصل اور بنیادی حصہ، جس کا جاننا اور جس پر عمل پیرا ہونا تمام امت کے لیے واجب ہے، تواتر اور تعامل ہی سے نقل ہوا ہے ۔ چنانچہ کوئی ایسی چیزجو اس سے کم تر معیار پر ثابت ہو، اسے اصل دین کی حیثیت نہیں دی جا سکتی۔

دوسری یہ کہ اخبار آحاد میں مجمع علیہ سنت کے فروع اور جزئیات ہی ہو سکتے ہیں جن کے ثبوت میں بھی بحث ہو سکتی ہے، بلکہ فقہا کے مابین بہ کثرت ہوئی ہے، اور جن کا جاننا ہر مسلمان کے لیے لازم بھی نہیں ہے۔

ان دو مسلمات کے حوالے سے جلیل القدر علماکی آرا درج ذیل ہیں۔

[باقی]

___________

B