HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف :

’’نورِ بصیرت‘‘ عام کرنے والے کی رحلت (۲)

پروفیسر مرزا محمد منور صاحب کی مختلف زبانوں میں طبع شدہ اور زیرِ طبع کتابوں اور کتابچوں کی تفصیل حسبِ ذیل ہے:

اردو

۱۔ غبارِ تمنا (مجموعہ کلام) ۱۹۷۳ء  ۲۔ اولادِ آدم (نیم مزاحیہ قصے) ۱۹۷۳ء  ۳۔ میزانِ اقبال ۱۹۷۳ء  ۴۔ انتخابِ آتش  ۱۹۷۷ء  ۵ ۔ایقانِ اقبال   ۱۹۷۷ء  ۶ ۔علامہ اقبال کی فارسی غزل    ۱۹۷۷ء  ۷ برہانِ اقبال   ۱۹۸۲ء  ۸ ۔دیوارِ برہمن (تحریک پاکستان)   ۱۹۹۲ء  ۹۔  مشاہدۂ حق کی گفتگو (دو سیاسی اداوار کا تجزیہ) ۱۹۹۲ء  ۱۰۔تحریکِ پاکستان   .... تاریخی خدوخال ۱۹۹۲ء  ۱۱ ۔پاکستان  ــــــ   حصارِ اسلام ۱۹۹۸ء   ۱۲ ۔قرطاسِ اقبال ۱۹۹۸ء   ۔

فارسی 

۱ ۔غزلِ فارسی علامہ اقبال ۱۹۸۷ء   ۲ ۔دیوانِ منور ۱۹۹۵ ء   ۔

 تراجم   

۱ ۔الفتنتہ الکبریٰ، (طٰہٰ حسن)، عربی سے ترجمہ ۱۹۵۹ ء ۲۔ ادیب (طٰہٰ حسین ) عربی سے ترجمہ ۱۹۵۹ء ۳۔ الاخبار الطوال (ابوحنیفہ الدنیوری ) عربی سے ترجمہ ۱۹۶۴ ء ۴ ۔سیاست نامہ (نظام الملک طوسی)، فارسی سے ترجمہ ۱۹۶۰ ء ۵۔تین مسلمان فیلسوف (حسین نصر )، انگریزی سے ترجمہ ۱۹۶۹ ء   ۔

انگریزی

۱۔Iqbal & Quranic Wisdom ۱۹۸۱ ء  ۲ ۔Iqbal: Poet Philosopher of Islam ۱۹۸۵ ء ۳۔ Dimensions of Iqbal  ۱۹۸۶ ء ۴ ۔Dimensions of Pakistan Movement ۱۹۸۷ ء ۔

کتابچے 

اردو  

۱ ۔ اقبال بحضورِ آدم ۲۔علامہ اقبال اور اصولِ حرکت ۳۔دیوارِ برلن اور دیوارِ برہمن ۴۔ بابری مسجد ۵ ۔اگر پاکستان نہ بنتا.... ۶۔دفاع پاکستان اور ہندو    مسلم مفاہمت ۷۔ تحریک پاکستان اور خالصہ سیاست ۸۔ بندے ماترم کا شاخسانہ ۹۔ ہندو معاشرے میں اچھوتوں کا حالِ زار ۱۰۔ ہندوذہن ۱۱۔نظریۂ پاکستان کا ارتقا۔

انگریزی

 ۱۔ Hindu Mentality۲ ۔The Sikhs  ۔

زیرِ طبع  

اردو  

۱ ۔تجزئیے اور جائزے (تنقیدی ادبی مضامین) ۲۔ کرم فرما (احباب کی شخصیات) ۳۔ حفیظ جالندھری (فن اور شخصیت )۴۔ حمید نظامی ۵۔ انتخابِ کلام بیدل ۶۔ تاریخِ اسلام اور اخلاقیات کے موضوع پر مقالات ۷۔ تحریکِ پاکستان اور معاشرتی احوال پر مبنی مضامین ۸۔ غالب کی فارسی غزل۔

انگریزی

۱ ۔Iqbal on Man's Spiritual Evolution ۲۔ Another Book on Pakistan Movement   ۔

تحریکِ پاکستان اور دیگر موضوعات پر درجنوں مضامین  ۔

ریٹائرڈ چیف جسٹس پاکستان ایس اے رحمٰن مرحوم، مرزا منور صاحب کے بارے میں لکھتے ہیں:

’’وہ خود اقبالیات کے پر   جوش طالبِ علم ہیں۔ اور نوخیز ذہنوں کو اقبال شناسی کے نور سے جلا دینے کا اہم فریضہ اپنائے ہوئے ہیں     .... وہ ہر لحاظ سے اقبال کے مفسر اور شارح ہونے کے اہل ہیں۔‘‘ (  فلیپ ، میزانِ اقبال)

  اس وقت ضروری محسوس ہوتا ہے کہ مرزا صاحب کی ’’اقبال شناسی‘‘ اور ’’اقبال کی تفسیر‘‘ پر مشتمل کچھ کام کا تعارف کرا دیا جائے۔ ذیل میں دیکھیے، وہ اقبال کے دو اشعار کی کس طرح ’’تفسیر‘‘ کرتے ہیں:

’’قرآنِ حکیم کا ارشاد ہے: ’’لوگوں میں وہ شخص بھی تو ہے جو اللہ کی بندگی کا دم بھرتا ہے مگر عین کنارے پر رہتا ہے۔ اگر بھلائی اور خیر میسر ہے تو وہ اللہ کے ضمن میں   مطمئن ہے اور اگر آزمایش سے دوچار ہوا تو روگردانی اختیار کر لی۔ اس نے دنیا بھی گنوائی اور آخرت بھی۔ یہی وہ خسارہ ہے جسے صریح خسارہ کہتے ہیں۔‘‘
 حق یہ ہے کہ بنو آدم کی اکثریت کو اپنے نظریات و عقائد سے لگاؤ تو ہوتا ہے مگر وہ لگا ؤ یقین کی صورت بالعموم اختیار نہیں کر سکتا ۔ قرآنِ کریم کی محولہ بالا آیتِ کریمہ میں خالقِ نوعِ انسان نے انسانی نفسیات کی ایک ننھی سی تصویر پیش کی ہے۔ جو واضح کرتی ہے کہ وہ آدمی صحیح معنوں میں صاحبِ ایمان نہیں ہے جو مردِ امتحان نہیں جو آزمایش اور ابتلا کا سامنا کرنے کی ہمت نہیں رکھتا ، جو زبانی کلامی کسی اصول اور نظریے کا ساتھ دیتا ہے مگر اس کا دل قائم نہیں ہوتا     ..... بقول حضرت علامہ:
  زباں سے کہہ بھی دیا لا الہ تو کیا حاصل ؟  
دل و نگاہ مسلماں نہیں تو کچھ بھی نہیں 
حضرت امام احمد جنبل سے مروی ہے کہ ایک بدو نے حضور نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا:
 ’’آپ نے فلاں کو نوازا اور مجھے محروم رکھا۔‘‘ آپ نے جواب میں فرمایا: ’’وہ شخص مردِ مومن ہے ۔‘‘ بدو نے کہا: ’’میں بھی تو مومن ہوں‘‘، آپ نے ارشاد فرمایا: ’’بھئی تم تو محض مسلم ہو کیا یہ ٹھیک نہیں ؟‘‘
 اس سے واضح ہوا کہ اقرارِ زبانی اور شے ہے اور تصدیق قلبی اور ۔ قرآنِ پاک میں آتا ہے: ’’یہ صحرا نشیں (بدو) کہتے ہیں ہم ایمان لائے ۔ (اے رسول) کہہ دیجیے کہ تم لوگ ایمان نہیں لائے ۔ البتہ تم یہ کہو کہ ہم اسلام لائے ، اس لیے کہ ایمان ابھی تمھارے دلوں میں داخل ہوا ہی نہیں ۔‘‘
 پتہ چلا کہ از روے قرآن اسلام اور ایمان دو درجے ہیں     ..... ظاہر ہے کہ جو شے دل میں اترتی ہے وہی فکر و عمل کو متاثر کرتی ہے وہی شخصیت کو متغیر کرتی ہے      .....
 تو عرب ہو یا عجم  ہو  ترا  لا  الہ  لا  
لغت غریب ، جب تک ترا دل نہ دے گواہی 
یعنی توحید کو زبانی مان لینا کوئی اہمیت نہیں رکھتا، اس کا مطلب سمجھ ہی میں نہیں آتا، گویا کلمہ طیبہ کسی غیرزبان کا لفظ ہے ۔ عجم تو ایک طرف رہے ، اگر دل گواہی نہ دے تو لا الہ الا اللہ کا مفہوم خود عربوں پر بھی واضح نہیں ہوتا خواہ یہ کلمہ انھی کی مادری زبان کے حروف سے متشکل ہوا ہو ۔ اصل مسئلہ تو ہے ایک خدا کو مان کرجملہ دوسرے خداؤں سے عملاً منحرف ہونا ، اور حال یہ ہے کہ دنیا خداؤں سے بھری پڑی ہے ۔‘‘(      برہانِ اقبال ، ص ۲۷- ۲۹)  

اب دیکھیے ’’حافظِ اقبال‘‘ کس طرح اقبال کے فکری ارتقا کو دریافت کرتے اور اس کی صراحت کرتے ہیں:

 ’’ایک وقت وہ بھی تھا جب وہ کہہ رہے تھے:
  اقبال بھی اقبال سے آگاہ نہیں ہے  
کچھ اس میں تمسخر نہیں واللہ نہیں ہے 
ازاں بعد ، ایک مرحلہ وہ تھا جب آپ کی زبان سے نکلا تھا:
 نالہ ہے بلبلِ شوریدہ ترا خام ابھی  
اپنے سینے میں ذرا اور اسے تھام ابھی 
مگر اس کے جلد ہی بعد وہ منزل آئی جب انھوں نے امتِ مسلمہ کو اس اعتماد کے ساتھ مخاطب کیا:
کھول  کر  آنکھیں  مرے  آئینہ  گفتار میں  
آنے والے دور کی دھندلی سی اک تصویر دیکھ 
گویا ان کا پیغام اب خود ان کے نزدیک اس قابل تھا کہ اسے عام کر دیا جائے .....    ہوتے ہوتے اپنی بصیرت پر اعتماد اس قدر بڑھ گیا کہ حضرت علامہ بحضور خداے تعالیٰ برنگِ دعا پکار اٹھے:
   جوانوں   کو   مری   آہِ   سحر    دے  
پھر ان شاہیں بچوں کو بال و پر دے  
خدایا    آرزو     میری    یہی   ہے  
مرا  نورِ   بصیرت   عام   کر  دے 
تقریباً یہی مضمون ساقی نامے میں دھرایا:
جوانوں کو سوزِ جگر بخش دے  
مرا عشق ، میری نظر بخش دے ‘‘
( برہان اقبال ، ص ۳۳- ۳۵)   

اب غور کیجیے: ’’شارح اقبال‘‘ کس طرح علامہ کے خزاں رسیدہ پتے پر بہار کا پیغام لکھنے کے رویے کی وضاحت کرتے اور ان کی اس رجائیت کا ایمان کے ساتھ تعلق دریافت کرتے ہیں:

’’ایمان و یقین کی عطا کردہ اس بصیرت نے حضرت علامہ کو قلبِ   مطمئن عطا کر دیا تھا چنانچہ وہ عمربھر بظاہر مایوس کن احوال کے باوصف کبھی مایوس نہ ہوئے ۔ وہ ہمیشہ پرامید رہے اور جوں جوں عمر بڑھتی گئی اور جسمانی قویٰ مضمحل ہوتے گئے ان کی آرزو روشن تر اور امید  محکم تر ہوتی چلی گئی اور روحانی قوت میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ وہ یہ مان ہی نہ سکتے تھے کہ اسلام مغلوب ہو سکتا ہے یا اہلِ اسلام زیادہ دیر تک غلام رہ سکتے ہیں ۔ یہ اس لیے ممکن نہ تھا کہ مسلمان تو خدا کے آخری اور اکمل پیغام کے حامل تھے اسلام حق ہے لہٰذا اس کی تقدیر غلبہ ہے ۔ انھوں نے ’’شمع و شاعر‘‘ میں کہا تھا:
بے  خبر  تو  جوہر آئینہ ایام ہے  
تو زمانے میں خدا کا آخری پیغام ہے 
ہمیں معلوم ہے کہ ’’شمع و شاعر‘‘، ’’شکوہ‘‘، ’’جوابِ شکوہ‘‘ اور ’’خضرِ راہ‘‘ وغیرہ نظمیں کس دور میں لکھی جا رہی تھیں، یہ وہ دور تھا کہ مغربی استعمار نے مختلف اسلامی ممالک کو دبوچ لیا تھا، لے دے کے ایک ترکی کا آزاد وجود تھا مگر اسے بھی مختلف یورپی قوتوں نے گھیر رکھا تھا ۔ طرابلس میں ترکوں کو شکست ہوئی۔ بلقان میں بھی ترکوں کو ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا۔ ترکی سلطنت کے عام احوال ایسے تھے کہ گویا بس مٹنے ہی والی ہے۔ اہلِ فرنگ اسے یورپ کا مردِ بیمار کہا کرتے تھے۔ عین اس دور میں حضرت علامہ نے ’’شمع و شاعر‘‘ میں یہ پرامید صدا قلم بند کی:
  آسماں ہو گا سحر کے نور سے آئینہ پوش 
اور ظلمت رات کی سیماب پا ہو جائے گی  
اس قدر ہو گی ترنم آفریں  بادِ بہار  
نکہت خوابیدہ غنچے کی نوا ہو جائے  گی 
یہ پرحماست وباہمت رجائیت محض خوش امیدی کے لمحاتی دورے نہ تھے جنھیں ہم انگریزی میں (Fits) کہتے ہیں ۔ یہ  مستقل کیفیت تھی اور جب تک اللہ کی ذات پر بھرپور ایمان نہ ہو اور آئینِ فطرت کو اللہ کی عطا کردہ بصیرت کی روشنی میں نہ دیکھا جائے ایسی پائیدار رجائیت کا سرمایہ لازوال حاصل نہیں ہوتا....
ترے ضمیر پہ جب تک نہ ہو نزولِ کتاب  
گرہ کشا ہے نہ رازی نہ صاحب کشاف  
حضرت علامہ کے یقینِ  محکم کی کیفیت کو دیکھ کر اقرار کرنا پڑتا ہے کہ قرآن کے مطالب ان کے دل پر براہِ راست وحی ہوتے تھے ، ورنہ مایوس کن حالات میں امید و آرزو کا تسلسل اور کام گاری کے بارے میں پائیدار اطمینان ممکن نہیں، عام انسانی فطرت ہے کہ کبھی مایوسی طاری ہو جاتی ہے کبھی امید جلوہ دکھاتی ہے لیکن حضرت علامہ اسلام کے روشن مستقبل سے  کبھی مایوس نظرنہیں آتے، ذاتی احوال کے بارے میں اداسیاں اور آزردگیاں جو کبھی کبھی ان کے خطوط اور وہ بھی جوانی کے دنوں کے خطوط میں نظر آتی ہیں ان کا معاملہ بالکل جدا ہے۔ ایقان بالاسلام کے باب میں وہ کہیں بھی اور کبھی بھی ڈھلمل دکھائی نہیں دیتے۔‘‘(برہانِ اقبال ، ص۳۵، ۳۶، ۴۶، ۴۷)

’’مشینوں‘‘ کا انسانی زندگی میں غیر معمولی اور غیر متوازن دخل اور اس کے مضر اثرات پر علامہ نے تنقید کی ہے ۔’’ماہرِ اقبالیات‘‘ اس رویے کا پس منظر کچھ اس طرح واضح کرتے ہیں:

’’علامہ اقبال ہمیں دیکھ رہے تھے کہ مسلمان بالعموم مرعوبیت کا شکار ہیں اور اس مرعوبیت کا باعث ان کی مغلوبیت ہے۔ وہ دیکھ رہے تھے کہ ظاہر میں نظریں یورپی تہذیب کے درخشندہ ظواہر سے بیشتر متاثر ہیں اور مسلمان یورپ کے جدید نظریات کو بلا تنقید اور بے چھان پھٹک قبول کیے جا رہے ہیں اور ظاہر ہے کہ یورپ کے نظریات ان کی مادی زندگی کے مناظر و مظاہر اور مناہج و نتائج پر مبنی تھے۔ وہ انھی کے عمل کا ردِ عمل تھے لہذا لازم تھا کہ مسلمان نیک و بد کو پہچانتے ۔ چنانچہ حضرت علامہ نے اپنے خطوں میں اور ملفوظات میں بارہا اس امر پر زور دیا ہے کہ یورپ کے سائنسی علوم ضرور حاصل کیے جائیں مگر یورپ کا فلسفہ اس قابل نہیں کہ اسے منہ لگایا جائے اور عیاں ہے کہ معاصر نظریات بھی جدید و قدیم یورپی فلسفے کی روایت پر استوار تھے ۔ جدید کی طرح یورپ کا قدیم فلسفہ بھی مادی تھا۔ وہ دیکھ رہے تھے کہ یورپ کی مشینی زندگی بے درد، بے ایثار اور غیرانسانی زندگی ہے۔
بقول علامہ:
  وہ قوم کہ فیضانِ  سماوی  سے  ہو  محروم  
حد اس کے کمالات کی ہے برق و بخارات  
ہے دل کے لیے موت مشینوں کی حکومت  
احساسِ مروت کو کچل دیتے ہیں آلات‘‘
(برہانِ اقبال ، ص ۵۳- ۵۴) 

اب اقبال کی غزل میں مضامین کی تبدیلی کے اسباب کی جستجو کی ایک جھلک ملاحظہ ہو۔ ’’ترجمانِ اقبال‘‘ جو یہاں ’’ناقدِ اقبال‘‘ بھی دکھائی دیں گے، لکھتے ہیں:

’’پہلے دور کی غزلیں مضامین کے عدم تناسب کی وجہ سے کہیں کہیں خاصی ناہموار ہو گئی ہیں، مثلاً ایک غزل میں جو کل سات اشعار پر   مشتمل ہے، یہ چار اشعار موجود ہیں:
لاؤں وہ تنکے کہاں  سے آشیانے کے لیے   
بجلیاں بے تاب ہوں جن کو جلانے کے لیے  
وائے ناکامی فلک نے تاک کر توڑا  اسے  
میں نے جس ڈالی کو تاڑا آشیانے کے لیے  
دل میں کوئی اس طرح کی آرزو پیدا کروں  
لوٹ جائے آسماں میرے مٹانے کے لیے  
جمع کر  خرمن تو پہلے دانہ دانہ چن کے تو  
آہی  نکلے  گی کوئی بجلی  جلانے  کے  لیے 
اس مختصر سی غزل میں یک رنگ مضامین کی تکرار ہے، تناسبات رعایتی ہیں، دوسرے شعر میں تاڑا اور توڑا بطور خاص نمایاں ہیں ۔
ان اشعار کی تخلیق کے وقت علامہ کی عمر پچیس اور تیس کے مابین ہو گی تاہم ان کی غزلوں کے بعض عناصر غمازی کر رہے تھے کہ ان کی غزل مزاج کے اعتبار سے عام مروجہ غزل کے ساتھ زیادہ دیر تک نباہ نہ کر سکے گی۔ ذیل کی غزلیں اس دور کی عام اردو غزلوں کے ساتھ قریبی نسبت کا دعویٰ نہیں کر سکتیں ۔
کیا کہوں اپنے چمن سے میں جدا کیونکر ہوا  
اور  اسیرِ   حلقۂ دام   ہوا  کیونکر   ہوا 
O
ظاہر کی آنکھ سے  نہ  تماشا  کرے کوئی  
ہو  دیکھنا  تو  دیدۂ دل  وا  کرے  کوئی 
O
 جنھیں میں ڈھونڈتا تھا آسمانوں میں زمینوں میں  
وہ نکلے میرے ظلمتِ خانۂ دل کے مکینوں میں 
گویا تیور بتا رہے تھے کہ آگے چل کر کیا انداز ہو گا ــــــ   پہلے دور کی غزلیں ۱۹۰۱ ء سے ۱۹۰۵ ء تک کی ہیں، دوسرے دور کی غزلیں ۱۹۰۵ ء سے ۱۹۰۸ ء تک کے زمانے کی ہیں۔ اس دوران علامہ یورپ میں بہ سلسلۂ تعلیم مقیم تھے۔ اس زمانے سے تعلق رکھنے والی نظمیں بیشتر حسن و عشق کے مضامین پر مشتمل ہیں اور بڑی نازک و لطیف ہیں ۔ غزلوں میں بھی ارتقا کا رنگ واضح ہے۔ پہلے دور میں تصوف کی چاشنی اور مجازی عشق کے اشارے تھے، شیخ و واعظ پر پھبتی تھی۔ دوسرے دور میں یورپ کی مشینی زندگی سے بیزاری اور تہذیبِ جدید سے ناخوشی کے مضامین بھی جزوِ غزل بن گئے:
    میں نے اے اقبال یورپ میں اسے ڈھونڈا عبث 
بات  جو  ہندوستاں  کے   ماہِ   سیماؤں  میں  تھی 
O
 دیارِ مغرب کے رہنے والو! خدا کی بستی دکاں نہیں ہے  
کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو ، وہ اب زرِ کم عیار ہو گا 
اسی زمانے میں انھوں نے غزل میں اپنے نظریۂ ملی کو بھی سمونا شروع کر دیا۔ یہ یورپ کے مادہ پرست افکار اور بالخصوص مغربی نظریۂ وطن یا دھرتی پوجا کی خوں آشام شعبدہ کاریوں کا ردِ عمل تھا۔ ذیل کے اشعار اس ردِعمل کی طرف واضح اشارے کر رہے ہیں:
    نرالا سارے جہاں سے اس کو عرب کے معمار نے بنایا  
بنا ہمارے حصارِ ملت کی اتحاد وطن نہیں ہے  
کہاں کا آنا کہاں کا جانا  فریب  ہے  امتیازِ عقبیٰ
  نمود ہر شے میں ہے ہماری، کہیں ہمارا وطن نہیں ہے  
اور اسی زمانے میں انھوں نے مسلمانوں کی نشاۃ ثانیہ کی نوید دی تھی:
     سنا دیا گوشِ منتظر کو حجاز کی خامشی  نے  آخر  
جو عہد صحرائیوں سے باندھا گیا تھا پھر استوار  ہو گا  
نکل کے صحرا سے جس نے روما کی سلطنت کو الٹ دیا تھا  
سنا ہے یہ قدسیوں سے میں نے وہ شیر پھر ہوشیار ہو گا 
غرضیکہ دوسرے دور میں علامہ اقبال کی غزلیں عام روایتی مضامین اور عام رعایت سے پیچھا چھڑاتی ہوئی نظر آتی ہیں ۔‘‘(میزانِ اقبال ، ص ۸۳ - ۸۶)

علامہ اقبال کو اپنی اہلیہ سردار بیگم کی رحلت کے بعد اپنے بچوں (جاوید اقبال اور منیرہ بانو) کی دیکھ بھال کا مسئلہ درپیش ہوا۔ اس معاملے میں رشتے دار خواتین بھی چند ہفتوں سے زیادہ وقت نہ دے سکیں۔ علامہ صاحب نے اس کے لیے وکالت چھوڑ دی اور ہر وقت بچوں کے لیے متفکر رہنے لگے۔ اس صورتِ حال میں علامہ کو ایک خوش سلیقہ بیوہ جرمن خاتون (محترمہ ڈورس احمد) کی جو علی گڑھ میں تھیں خدمات میسر آ گئیں۔ محترمہ ڈورس اس کام کے سلسلے میں تقریباً تین برس علامہ کی زندگی میں اور ۲۸ برس ان کی وفات کے بعد ’’جاوید منزل‘‘ میں مقیم رہیں۔ مرزا منور صاحب نے ایک ملاقات میں محترمہ ڈورس سے کہا:

 ’’آپ جاوید اقبال اور منیرہ بانو ہی کی امی نہیں ہم سب کی امی ہیں۔ آپ نے ہمارے پیرومرشد کو کئی تفکرات سے چھٹکارا دلایا ، خصوصاً بچوں کی تربیت کے باب میں ، اگر ایسا نہ ہوتا تو شاید حضرت علامہ ’’ضربِ کلیم‘‘،’’پس چہ باید کرد ، اے اقوامِ شرق‘‘ اور ’’ارمغانِ حجاز‘‘ مکمل نہ کر پاتے    .... یہ تینوں کتب حضرت علامہ کی آخری تین سال میں لکھی گئیں۔ اس اعتبار سے اے محترمہ ڈورس احمد آپ کا احسان فقط ہم پاکستانی مسلمانوں پر ہی نہیں، بلکہ پوری امتِ مسلمہ پر ہے۔‘‘ (قرطاسِ اقبال ، ص ۱۰) 

محترمہ ڈورس ہی کے حوالے سے ’’محبِ اقبال‘‘ علامہ کی زندگی کے نجی معاملات سے آگاہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’حضرت علامہ کی سادگی واقعی حیرت ناک ہے، وہ بقول ڈورس سردیوں کے موسم میں بنیان اور تہ بند کے اوپر کوئی اونی چادر یا شال اوڑھ لیتے تھے۔ اکثر وقت ایسے ہی گزرتا تھا، قمیض کی ضرورت ہی محسوس نہ کرتے تھے ۔‘‘
(قرطاسِ اقبال، ص ۱۲)
’’علامہ اقبال مکان کے زنانے حصے میں کبھی آتے ہی نہ تھے۔ ان کے تصرف میں صرف تین کمرے تھے۔ ایک خواب گاہ تھا، دوسرا ڈرائنگ روم جہاں ان کی لائبریری بھی تھی، اور تیسرا کھانے کا کمرہ جہاں ہم دوپہر کا کھانا اکٹھے کھاتے تھے۔ حضرت علامہ دوپہر کے کھانے پر بچوں سے ان کے احوال روزانہ پوچھتے تھے، پڑھائی کیسی جا رہی ہے۔ سکول کا کیا حال ہے وغیرہ وغیرہ    ....حضرت علامہ کی وفات سے کوئی ایک سال قبل پنڈت جواہر لال نہرو ، میاں افتخار الدین اور بیگم میاں افتخار الدین کی معیت میں تشریف لائے۔ میں نے دیکھا کہ پنڈت نہرو ازرہِ احترام علامہ اقبال کے سامنے فرش پر بیٹھ گئے لہٰذا میاں اوربیگم افتخار الدین کو بھی فرش ہی پر بیٹھنا پڑا ۔ تھوڑی دیر تک باتیں واتیں ہوتی رہیں۔ جب پنڈت جواہر لال نہرو چلے گئے تو علامہ اقبال نے فرمایا ’’میں پنڈت نہرو سے دل کھول کر بات کر سکتا ہوں، وہ میرے نظریات کو بخوبی سمجھ سکتے ہیں، ان کے ساتھ تبادلۂ آراء آسان ہے، وہ عمیق سوجھ بوجھ کے مالک ہیں۔‘‘ (   قرطاسِ اقبال ، ص۱۳)

قائد اعظم کے نزدیک علامہ اقبال کی کیا اہمیت تھی؟ اسے واضح کرتے ہوئے ’’عاشقِ اقبال‘‘ ایک واقعہ پیش کرتے ہیں:

’’کلام اقبال کی عظمت کا اعتراف تو قائد اعظم نے الفاظ میں اس طرح کیا تھا:
’’کارلائل نے شیکسپئر کی عظمت کا ذکر کرتے ہوئے ایک انگریز کا ذکر کیا کہ اسے جب شیکسپئر اور دولتِ برطانیہ میں سے کسی ایک کو منتخب کرنے کا اختیار دیا گیا تو اس نے کہا میں شیکسپئر کو کسی قیمت پر نہ دوں گا۔ یہ بیان کرکے قائد اعظم نے ارشاد کیا: گو میرے پاس سلطنت نہیں۔ لیکن اگر سلطنت مل جائے اور اقبال اور سلطنت میں سے کسی ایک کو منتخب کرنے کی نوبت آئے تو میں اقبال کو منتخب کروں گا۔‘‘ (قرطاسِ اقبال ص ۰۶ ۱۶ )

مرزا منور صاحب ایک غیر معمولی اور انتہائی مخلص محبِ وطن تھے۔ آپ کا یہ کہنا تھا کہ:

’’ہم نے پاکستان حاصل کیا تھا مگر اس کے حصول کی جنگ اس جذبے سے لڑی تھی کہ پاکستان یا موت؟     ..... اب ہمیں پاکستان کا تحفظ کرنا ہو گا اور اسی جذبے کے ساتھ کہ ’’پاکستان یا موت۔‘‘       (پاکستان  ــــــ  حصارِ اسلام، ص۱۸۹)

   دو قومی نظریہ پر مرزا صاحب کے ایمان کا عالم دیکھیے:

 ’’وہ افراد جن کے دلوں میں اسم کے خلاف بغض ہے بڑے اصرار کے ساتھ کہے چلے جا رہے ہیں کہ پاکستان کا ظہور اسلامی جذبۂ حریت کا ثمر نہیں بلکہ محض معاشی احوال کی پیداوار ہے۔ گویا غریبی کا انسداد ہی وہ مقصد تھا جس کے سبب پاکستان کی تخلیق عمل میں آئی۔ چلو یونہی سہی مگر کس کی غریبی؟ مجبوراً جواب دینا پڑے گا، مسلمانوں کی غریبی ، وہ جن کا دین اسلام تھا۔ وہ جو بھارت کے ہر حصے میں آباد تھے۔ جن کی اکثریت بھارتی نسلوں ہی سے تعلق رکھتی تھی اور بھارت کے جن علاقوں میں رہتے تھے وہاں کے جغرافیائی اور لسانی اثرات سے بھی متاثر تھے۔ مگر اس کے باوجود جن کو بھارت کی بھاری اکثریت اپنا نہ سمجھتی تھی۔ بیگانہ اور ملیچھ قوم جانتی تھی۔ کیوں ؟ فقط اس لیے کہ وہ لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ کہتے تھے ۔‘‘ (پاکستان  ــــــ  حصارِ اسلام، ص۲۳۲)

اسی طرح مرزا صاحب پاکستان پر میلی نگاہ رکھنے والوں پر بھی کڑی نگاہ رکھتے تھے۔ آپ کی اس ’’پاسبانی‘‘ کی ایک جھلک ملاحظہ ہو:

’’روی ر  کھی (یہ صاحب بھارتی عسکری لیبارٹریز میں ایک نہایت اہم عہدے پر فائز ہیں) نے بڑی تلخی سے لکھا ہے کہ ہمارے کروڑوں ہم وطن بے گھر ہیں وہ سڑکوں پر پیدا ہوتے ہیں اور سڑکوں پر ہی مر جاتے ہیں، ان کروڑوں کو نیم فاقے کی حالت میں سانس پورے کرنا ہوتے ہیں، ان کے تن پر کپڑا نہیں مگر ہم ان کی بہتری کے لیے کیا کریں، ہمارا سارا سرمایہ جو بہبودِ عوام پر خرچ ہونا چاہیے وہ پاکستان کا تدارک کرنے پر کھپ جاتا ہے اور جب تک پاکستان باقی ہے ہمارے کروڑوں عوام کی درماندگی اور مفلسی اسی طرح رہے گی ۔ یہی نہیں روی ر  کھی نے یہ بھی لکھا ہے کہ بھارت کو اندرونی خطرات اور ایکتا کا تحفظ بھی صرف اسی صورت میں ممکن ہے کہ برِ  عظیم دوبارہ متحد کیا جائے ۔ اگر برِ  عظیم دوبارہ متحد نہیں ہوتا اور پاکستان ختم نہیں ہو جاتا تو موجودہ بھارت کو ٹکڑے ٹکڑے ہونے سے نہیں بچایا جا سکتا     ..... بھارت نے برعظیم کی تقسیم کو دل سے کبھی تسلیم نہ کیا تھا۔ ظہورِ پاکستان کے بعد بھی وہاں ’’اکھنڈ بھارت ڈے‘‘ منائے جاتے ہیں۔ بھارت کے لیڈر پاکستان کے وجود میں آنے سے بھی پہلے اس کو توڑنے کے منصوبے بنانے لگ گئے تھے۔ نہرو نے ظہورِ پاکستان پر یہ تبصرہ کیا تھا کہ ’’ملک تقسیم نہیں ہوا کچھ علاقوں نے علیحدگی اختیار کر لی ہے‘‘ مطلب تھا کہ پاکستان کا حصہ بننے والے علاقے ہمارے ہی ہیں ان علاقوں نے باہم مل کر جو ایک نام اپنا لیا ہے اور ایک مرکز بنا لیا ہے اس کا کوئی مستقل تشخص نہیں۔ اس کا کوئی الگ فی ذاتہ وجود نہیں۔ پٹیل نے کہا اور قائدِ اعظم کے خیر سگالی کے پیغام کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’’الگ ہونے والوں کو جلد ہی اپنی حماقت کا احساس ہو جائے گا اور وہ جلد ہی ہم سے آن ملیں گے   ..... ’’پاکستان کا وجود میں آ جانا ہر ہندو کو کھلتا ہے ، خواہ وہ چھوٹا ہو یا بڑا شاید ۱۹۷۲ ء کی بات ہے کہ اندرا گاندھی انڈین ٹی وی پر دو تین روسی صحافیوں کو انٹرویو دے رہی تھی، بات بڑھتے بڑھتے اندرا گاندھی کے تصورِ سیاست تک پہنچی ، پھر یہ سوال ابھرا کہ آیا اندرا گاندھی کی نگاہوں میں پنڈت جواہر لال نہرو کامیاب سیاست دان تھے ۔ اندرا نے فوراً جواب دیا: نہیں ، نہرو ناکام سیاست دان تھے ۔ روسی افراد حیران کہ گاندھی کے بعد سب سے بڑا ہندو لیڈر ، بھارت کا ڈیڑھ درجن سال وزیر اعظم رہنے والا خود اپنی بیٹی کی نظروں میں ناکام سیاست دان ؟ چنانچہ روسیوں نے حیرت سے پوچھا نہرو اور ناکام سیاست دان! وہ کیسے ؟ اندرا چمک کر بولی میں نہرو کو کامیاب سیاست دان جب مانتی کہ وہ برِ عظیم کوتقسیم نہ ہونے دیتا۔‘‘(پاکستان  ــــــ  حصارِ اسلام، ص۲۰۰، ۲۸۰- ۲۸۱، ۲۹۲)

مزاح نگاری بھی مرزا منور صاحب کی شخصیت کا ایک نمایاں وصف تھا۔ آخر میں ان کی شخصیت کے اس پہلو کا تعارف ہم ان کی ایک کتاب ’’اولادِ آدم  ــــــ  نیم مزاحیہ قصے‘‘ کے دو اقتباسات پیش کر کے کراتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:

’’ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک ’’ادبی مجلس‘‘ نے اپنے چھوٹے سے شہر میں ایک بڑے شہر سے کسی عظیم نقاد اور محقق پروفیسر صاحب کو ’’قدیم دکنی اردو‘‘ کے موضوع پر اظہارِ خیال فرمانے کے لیے درآمد کیا۔ پروفیسر صاحب تشریف لائے۔ راجہ داہر اور محمد بن قاسم سے شروع ہوئے ، وہاں سے سلیمان بن عبد الملک کا رخ کیا۔ اہلِ محفل متوقع کہ شاید وہ دکنی اردو کی پہلی کتاب کو سلیمان بن عبد الملک کی تصنیف ثابت کرنے والے ہیں مگر نہیں ، پروفیسر صاحب موسیٰ بن نصیر اور سپین کی طرف نکل گئے۔ سپین سے واپس برِعظیم پاک و ہند میں آنے کے بجائے وہ مارٹن لوتھر کے یہاں جا وارد ہوئے۔ اب حاضرین اس امید میں تھے کہ شاید آریائی جرمن زبان کا آریائی اردو سے جو رشتہ ہے اس کی کوئی مضبوط کڑی مارٹن لوتھر کے ذریعے ہاتھ لگنے والی ہے، لیکن پروفیسر صاحب مارٹن لوتھر کے تعلق سے انگلینڈ جا پہنچے اور وہاں سے نہ جانے کس طرح اکبر کا دینِ الٰہی زیرِ بحث آ گیا۔ دینِ الٰہی سے نیچے کی طرف آنے کے بجائے وہ اوپر تغلق دور کی جانب منتقل ہو گئے، اہلِ مجلس نے سوچا شاید اب دہلی کا دارالحکومت تبدیل کرا کے ساری شمالی ہند کی دہلوی آبادی کو دکن لے جانے والے ہیں لہٰذا اب دکن میں اردو کے آغاز کے بارے میں کچھ معلومات حاصل ہو جائیں گی، مگر پروفیسر صاحب محمد تغلق کی فضیلت کے حوالے سے مہدی سوڈانی اور ازاں بعد مہدی جونپوری کی بات کرنے لگے، ساتھ ہی لارڈ کچز کا ذکر چل کھڑا ہوا گویا اس نے بھی دکنی اردو میں کوئی تصنیف چھوڑی ہو۔ لارڈ کچز کے ضمن میں اچانک شائستہ خان فتح آسام کے اخلاق و کردار کی تصویر کشی عمل میں آئی۔ مختصر یہ کہ قدیم دکنی اردو کی کہانی انھوں نے بڑے شستہ مگر محققانہ انداز میں بیان فرمائی۔ اور آخر کئی طرح کے تاریخی شواہد کی مدد سے جن میں کتبے بھی شامل تھے، سکے بھی اور مخطوطے بھی یہ ثابت کر دکھایا کہ پاکستان کے سابق وزیرِ قانون پیرزادہ عبد الستار رقص بہت اچھا کرتے تھے۔‘‘ (۹۵- ۹۶)
’’احباب ’’انور ہوٹل‘‘ پر جمے تھے ’’الگپ و الشپ طراو المفز‘‘ کا دور چل رہا تھا ۔ اتفاقاً یہ بات زیرِ بحث آ گئی کہ لیاقت علی خان نے مولانا مودودی صاحب کو گرفتار کیوں کرایا تھا اور پھر رہا کیوں کر دیا ہے  ــــــ  اگر وہ بے گناہ تھے تو گرفتاری ناروا تھی اور اگر مجرم تھے تو رہائی غلط تھی  ــــــ  قصہ یہ ہے کہ احباب نے اسی روز اخبار میں مولانا کی رہائی کی خبر پڑھی تھی  ــــــ  بہرحال اس موضوع پر اظہارِ خیال کا سلسلہ جاری رہا ، تبادلہ آرا ہوا ، رگیں پھولیں ، میزوں پر مکے پڑے ، پھر قہقے شروع ہوئے ، قہقہوں میں سے پھر دلیلیں پھوٹیں اور آخر کار جب مجلس برخاست ہوئی تو جملہ احباب تقریباً متفق تھے کہ منور سلطانہ خوب گاتی ہے، کیا کہنے۔‘‘ (ص ۹۶)

    اپنی اس تحریر کا اختتام میں جناب جعفر بلوچ کے کلام پر کروں گا جو مرزا صاحب کی وفات پر ’’نوائے وقت‘‘ کے ادبی ایڈیشن میں شائع ہوا ۔ کہتے ہیں:

  علم و دانش کا فسردہ ہے جہاں تیرے بعد  

غم کی تصویر ہے ہر ایک سماں تیرے بعد  

اڑ  گیا بعد  ترے رنگ رخِ  بزمِ  سخن  

بجھ گئی روشنیِ حرف و بیاں تیرے بعد          

___________

B