تصویر کے بارے میں ہمارے ہاں عام موقف یہ پایا جاتا ہے کہ کسی بھی ذی روح ،یعنی جا ن د ار کی تصویر یا اس کا مجسمہ بنانا شرعاً حرام ہے ۔ البتہ غیر جان دار کی تصویر یا مجسمہ بنانا جائز ہے ۔ یہ موقف دراصل، تصویر کے بارے میں ہمارے فقہا کی آرا پر مبنی ہے۔ ہمارے نزدیک یہ نقطۂ نظرتصویر کے بارے میں خود قرآن و حدیث کے اپنے مدعا ہی کے خلاف ہے ۔ آیندہ صفحات میں ہم اس نقطۂ نظر کا تنقیدی جائزہ لیں گے اور اس باب میں صحیح رائے واضح کرنے کی کوشش کریں گے۔ وما توفیقنا الا باللہ۔
تصویر کے معاملے میں فقہاے احناف اور دوسرے فقہا کا مسلک صحیح بخاری کی شرح ’’عمدۃ القاری ‘‘ میں علامہ بدر الدین عینی نے درجِ ذیل الفاظ میں نقل کیا ہے:
قال اصحابنا و غیرھم تصویر صورة الحیوان حرام اشد التحریم و ھو من الکبائر و سواء صنعه لما یمتھن او لغیرہ فحرام بکل حال لأن فیه مضاھاة لخلق اﷲ و سواء کان فی ثوب أو بساط أو دینار أو درھم أو فلس أو إناء أو حائط و اما ما لیس فیه صورة حیوان کالشجر و نحوہ ، فلیس بحرام و سواء کان فی ھذا کله ما له ظل و ما لا ظل له و بمعناہ قال جماعة العلماء مالک و الثوری و أبو حنیفة و غیرھم و قال القاضی إلا ما ورد فی لعب البنات و کان مالک یکرہ شراء ذلک. (ج ۲۲،ص ۷۰)
’’ہمارے اصحاب (فقہا ے احناف) اور ان کے علاوہ دوسرے فقہا فرماتے ہیں کہ جان دار کی تصویر بالکل حرام ہے ۔ اسے بنانا کبیرہ گناہوں میں سے ہے۔ یہ حرمت ہر صورت میں ہے ، خواہ تصویر توہین کے مقام پر رکھنے کے لیے بنائی گئی ہو یا شرف کے مقام پر رکھنے کے لیے ، کیونکہ اس میں خدا کی تخلیق کی مشابہت پائی جاتی ہے۔ یہ تصویر خواہ کسی کپڑے ، بچھونے ، دینار، درہم ، پیسے، برتن یا دیوار پر بنی ہو،حرمت میں سب برابر ہیں۔ ہاں اگر اس تصویر میں کسی جان دار کی شکل نہ ہو تو پھر یہ حرام نہیں ہے۔ (جو تصاویر حرام ہیں ان میں ) حرمت کا معاملہ یکساں ہو گا، خواہ وہ مجسمہ ہوں جس کا سایہ ہو سکتا ہے یا ایسی تصاویر ہوں جن کا سایہ ہو ہی نہیں سکتا۔ تصویر کے معاملے میں یہی رائے علما کی اُس جماعت کی بھی ہے جس میں امام مالک، سفیان ثوری، امام ابو حنیفہ اور دوسرے علما شامل ہیں۔ البتہ قاضی ایاض رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ لڑکیوں کی گڑیاں اس سے مستثنیٰ ہیں ۔ جب کہ امام مالک رحمہ اللہ ان کی خرید و فروخت کو بھی مکروہ سمجھتے تھے۔‘‘
اسی ضمن میں شافعی مسلک کے فقہا کا نقطۂ نظر شیخ الاسلام امام نووی رحمہ اللہ نے شرح مسلم میں درجِ ذیل الفاظ میں بیان کیا اور حافظ ابن ِحجر رحمہ اللہ نے فتح الباری میں اس کی توثیق کی ہے :
قال اصحابنا و غیرھم من العلماء تصویر صورة الحیوان حرام شدید التحریم و ھو من الکبائر لأنه متوعد علیه بھذا الوعید الشدید المذکور فی الأحادیث وسواء صنعه بما یمتھن أو بغیرہ فصنعته حرام بکل حال لأن فیه مضاھاة لخلق اﷲ تعالیٰ وسواء ما کان فی ثوب أو بساط أو درھم أو دینار أو فلس أو إناء أو حائط أو غیرھا و أما تصویر صورة الشجر و رحال الإیل وغیر ذلک مما لیس فیه صورة حیوان فلیس بحرام ‘ ھذا حکم نفس التصویر و أما إتخاز المصور فیه صورة حیوان فإن کان معلقاً علی حائط أو ثوباً ملبوساً أو عمامة و نحو ذلک مما لا یعد ممتھناً فھو حرام ‘ وان کان فی بساطٍ یداس و مخدة و وسادةٍ و نحوھا مما یمتھن فلیس بحرام … ولا فرق فی ھذا کله بین ما له ظل و ما لا ظل له ھذا تلخیص مذھبنا فی المسئلة و بمعناہ قال جماھیر العلماء من الصحابة و التابعین و من بعدھم و ھو مذھب الثوری و مالک و أبی حنیفة وغیرھم.( صحیح مسلم بشرح النووی ‘ج ۱۴‘ ص ۸۱ )
’’ہمارے (مسلکِ شافعی کے) فقہا اور ان کے علاوہ دوسرے علما فرماتے ہیں کہ جان دار کی تصویر بالکل حرام ہے اور یہ کبیرہ گناہوں میں سے ہے، کیونکہ اس پر وہ وعیدِ شدید وارد ہوئی ہے جو احادیث میں آئی ہے۔یہ حرمت ہر صورت میں ہے ، خواہ تصویر توہین کے مقام پر رکھنے کے لیے بنائی گئی ہو یا شرف کے مقام پر رکھنے کے لیے، کیونکہ اس میں خدا کی تخلیق کی مشابہت پائی جاتی ہے۔ یہ تصویر خواہ کسی کپڑے ، بچھونے ، درہم ، دینار، پیسے ، برتن ، دیوار یا کسی اور چیز پر بنی ہو،حرمت میں سب برابر ہیں اور جہاں تک درخت کی یا پالان کی یا ایسی ہی دوسری اشیا کی تصاویر کا تعلق ہے ، جن میں روح نہیں ہوتی، تو وہ تصاویر حرام نہیں ہیں۔ یہ حکم تو تصویر بنانے کے بارے میں ہے۔جہاں تک اس چیز کے استعمال کا تعلق ہے ،جس پر کسی جان دار کی تصویر بنی ہو، وہ شے اگر دیوار پر معلق ہے یا وہ پہنا ہوا لباس ہے یا عمامہ ہے یا اس کی مثل کوئی اور ایسی چیز ہے ، جو عموما ً ذلیل و حقیر نہیں سمجھی جاتی، تو اس چیز کا استعمال حرام ہے۔ اور اگر جان دار کی یہ تصویر کسی بچھونے پر ہے جسے روندا جاتا ہے یا گدے اور تکیے پر یا اس کی مثل کسی ایسی چیز پر ہو جو عموماً پامال ہوتی ہے ،تو اس چیز کا استعمال حرام نہیں ــــــ اور اِن سب تصاویر میں اس پہلو سے کوئی فرق نہیں کہ وہ مجسم ہوں جن کا سایہ پڑتا ہے یا وہ محض رنگ و نقش ہوں، جن کا سایہ نہیں ہوتا۔ تصویر کے معاملے میں یہ ہمارے مذہب کا خلاصہ ہے۔ اسی کی مثل صحابہ رضی اللہ عنہم اور تابعین میں سے علما کی اور ما بعد کے جمہور علما کی رائے ہے۔ امام ثوری، امام مالک ، امام ابوحنیفہ اور ان کے علاوہ دوسرے علما کا مذہب بھی یہی ہے۔‘‘
تصویر کے بارے میں ہمارے ہاں بھی عام نقطۂ نظر یہی پایا جاتاہے۔
اس نقطۂ نظر کے حاملین اپنے حق میں درجِ ذیل احادیث ِنبوی سے استدلال کرتے ہیں۔
۱۔ عن وھب بن عبد اللہ قال: ان النبی صلی اللہ علیه وسلم لعن المصور.(بخاری ، اللباس ، من لعن المصور)
’’وہب ابنِ عبداللہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ نبی ﷺ نے مصور (تصاویر بنانے والے پر) لعنت فرمائی۔ ‘‘
۲۔ عن القاسم انه سمع عائشه تقول دخل علی رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم وقد سترت سھوة لی بقرام فیه تماثیل فلما راہ ھتکة وتلون وجھه وقال یا عائشة اشد الناس عذابا عند اللہ یوم القیامة الذین یضاھون بخلق اللہ قالت عائشة فقطعناہ فجعلنا منه وسادة او وسادتین. (مسلم ، اللباس و الزینتہ ، تحریم تصویر…)
’’قاسم سے روایت ہے ، کہ انھوں نے حضرت عائشہ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ میرے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آئے، اس حال میں کہ میں نے (گھر کے ) طاق پر ایک ایسا کپڑا لٹکا رکھا تھا ، جس پر تصاویر بنی ہوئی تھیں۔ جب نبی ﷺ نے اسے دیکھا تو آپ نے اسے پھاڑ دیا اور آپ کے چہرے کا رنگ بدل گیااور آپ نے فرمایا: اے عائشہ قیامت کے دن اللہ کے ہاں شدید ترین عذاب ان لوگوں کو ہو گا ، جو خدا کی تخلیق کے مشابہ تخلیق کرتے ہیں۔ حضرت عائشہ نے کہا:پھر ہم نے اس کو پھاڑ دیا اور اس کے ایک یا دو تکیے بنا لیے۔‘‘
۳۔ عن عائشة انھا اشترت نمرقة فیھا تصاویر فلما راھا رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم قام علی الباب فلم یدخل فعرفت او فعرفت فی وجھه الکراھیه فقالت یا رسول اللہ اتوب الی اللہ والی رسوله فما ذا اذنبت فقال رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم ما بال ھذہ النمرقة فقالت اشتریتھا لک تقعد علیھا و توسدھا فقال رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم ان اصحاب ھذہ الصور یعذبون ویقال لھم احیوا ما خلقتم ثم قال ان البیت الذی فیھا الصور لا تدخله الملائکة. (مسلم ، اللباس و الزینۃ ، تحریم تصویر…)
’’حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ انھوں نے ایک غالیچہ (گدا) خریدا ، جس میں تصویریں بنی ہوئی تھیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ( گھر میں داخل ہوتے ہوئے ) جب اسے دیکھا تو آپ دروازے ہی پر رک گئے اور گھر میں داخل نہیں ہوئے،چنانچہ میں نے آپ کے چہرے سے ناگواری جان لی یا یوں کہہ لیں کہ آپ کے چہرے سے ناگواری ٹپکی پڑتی تھی۔ (راوی کہتے ہیں) تو انھوں نے یعنی حضرت عائشہ نے کہا :میں اللہ اور اس کے رسول کی جناب میں توبہ کرتی ہوں، میں نے کیا غلطی کی ہے؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا :یہ گدا کیسا ہے؟ انھوں نے کہا: میں نے یہ آپ کے لیے خریدا ہے تاکہ آپ اس پر بیٹھیں اور اس پر ٹیک لگائیں۔ تو رسول اللہ نے فرمایا: ان تصاویر والوں کو عذاب دیا جائے گااور ان سے کہا جائے گا کہ جو کچھ تم نے تخلیق کیا ہے اِسے زندہ کرو۔ پھر آپ نے فرمایا: جس گھر میں تصاویر ہوں اس میں فرشتے داخل نہیں ہوتے۔‘‘
۴۔ عن سعید بن ابی الحسن قال کنت عند ابن عباس رضی اللہ عنھما اذ اتاہ رجل فقال یا ابا عباس انی انسان انما معیشتی من صنعة یدی وانی اصنع ھذہ التصاویر فقال ابن عباس لا احدثک الا ما سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم یقول سمعتة یقول منصور صورة فان اللہ معذبه حتی ینفع فیھا الروح ولیس بنافخ فیھا ابدا فربا الرجل ربوة شدیدة واصفر وجهه فقال ویحک ان ابیت الا ان تصنع فعلیک بھذا الشجر کل شیء لیس فیه روح.(بخاری ، البیوح، بیع التصاویر …)
’’سعید بن ابی الحسن سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں، میں ابن عباس رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھا ہوا تھا، اتنے میں ایک شخص آیا اور اس نے کہا: اے ابوعباس ،میں ایک ایسا شخص ہوں جو اپنے ہاتھ سے روزی کماتا ہے اور میرا روزگار یہ تصویریں بنانا ہے۔ حضرت ابنِ عباس نے جواب دیا کہ میں تم سے وہی بات کہوں گا، جو میں نے رسول اللہ کو فرماتے ہوئے سنا ہے۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص تصویر بنائے گا، اللہ اسے عذاب دے گا اور اسے اس وقت تک نہ چھوڑے گا ، جب تک وہ اس میں روح نہ پھونکے گا اور وہ اس میں کبھی روح نہ پھونک سکے گا۔یہ بات سن کر وہ شخص بہت گھبرا گیا اور اس کے چہرے کا رنگ زرد پڑ گیا۔ اس پر ابنِ عباس نے کہا :بندۂ خدا اگر تجھے تصویر بنانی ہی ہے، تو اس درخت کی بنا ، یا کسی ایسی چیز کی بنا ، جس میں روح نہ ہو۔ ‘‘
۵۔عن ابی زرعة قال دخلت مع ابی ھریرة فی دار مروان فرای فیھا تصاویر فقال سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم یقول قال اللہ عزو جل ومن اظلم ممن ذھب یخلق خلقا کخلقی ذرة او لیخلقوا حبة او لیخلقوا شعیرة.(مسلم ، اللباس و الزینۃ ، تحریم تصویر…)
’’ابو زرعہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں میں حضرت ابو ہریرہ کے ساتھ مروان کے گھر میں داخل ہوا۔تو انھوں نے اس میں تصاویر دیکھیں، تو کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ اللہ تعا لیٰ فرماتے ہیں، اس شخص سے بڑا ظالم کون ہو گا، جو میرے مخلوقات بنانے کی طرح مخلوقات بنانے نکل کھڑا ہوا۔ (ایسی جسارت کرنے والوں کو چاہیے کہ) وہ (میری کوئی چھوٹی سی مخلوق مثلاً) ایک ذرہ تو تخلیق کر کے دکھائیں یا ایک دانہ یا ایک جو ہی تخلیق کر کے دکھا دیں۔‘‘
۶۔ عن مسلم بن صبیح قال کنت مع مسروق فی بیت فیه تماثیل مریم فقال مسروق ھذا تماثیل کسری فقلت لا ھذا تماثیل مریم فقال مسروق اما انی سمعت عبد اللہ بن مسعود یقول قال رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم اشد الناس عذابا یوم القیامة المصورون.(مسلم ، اللباس و الزینۃ ، تحریم تصویر…)
’’مسلم بن صبیح سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں، میں مسروق کے ساتھ ایک ایسے گھر میں تھا، جس میں مریم علیہا السلام کی تماثیل ( مجسمے یا تصاویر) تھیں۔ مسروق کہنے لگے: یہ کسریٰ کی تماثیل ہیں۔ میں نے کہا :نہیں،یہ مریم کی تماثیل ہیں۔مسروق نے کہا :آگاہ رہو ، میں نے عبد اللہ بن مسعودسے سنا ہے، وہ کہتے تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے ، قیامت کے دن مصوروں (تماثیل بنانے والوں پر) سب سے زیادہ عذاب ہو گا۔‘‘
تصویر کے بارے میں احادیث تو اِن کے علاوہ اور بھی وارد ہوئی ہیں ، لیکن بنیادی طور پر یہی وہ احادیث ہیں جن پر اِس مسلک کا دار و مدار ہے۔
اِس مسلک کے بنیادی نکات درجِ ذیل ہیں :
۱۔تصاویر اصلاً ، دو قسم کی ہیں:
اولاً ذی روح ( جان دار وجود )کی تصویر ۔
ثانیاً غیر ذی روح (بے جان شے )کی تصویر۔
۲۔ ذی روح ( جان دار وجود )کی تصویر بنانا ، ہر صورت میں اور ہر حوالے سے بالکل حرام ہے۔ یہ کبیرہ گناہ ہے۔کیونکہ اسے بنانے میں خدا کی صفتِ تخلیق سے تشابہ اختیار کرنے کا جرم پایا جاتا ہے۔ اس تشابہ کی وضاحت اس مسلک کے علما یوں کرتے ہیں کہ جان دار کی تصویر بنانے میں تخلیق کی نقالی اور ایک حیثیت سے اللہ تعالیٰ کی مخصوص صفات ’’الخالق اور المصور‘‘ میں عملاً شریک ہونے کا دعویٰ پایا جاتا ہے،کیونکہ کسی وجود میں روح پھونکنا یا جان ڈالنا صرف اللہ ہی کا کام ہے، یہ کوئی دوسرا نہیں کر سکتا، یہ صرف خدا ہی کے ساتھ خاص ہے۔ پس روح والی شے کی تصویر خدا کی خاص تخلیق کی نقالی یعنی خدا کی تخلیق کی طرح تخلیق کرنا ہے۔ جبھی تو اِس تصویر کو بنانے کو خدا نے اپنے مخلوق بنانے کی طر ح مخلوق بنانا قرار دے دیا ہے، جیسا کہ مذکورہ بالا حدیث سے ثابت ہے۔ پس یہ کہنا صحیح ہے کہ جان دار کی تصویر بنانے والا اپنے آپ کو خدا کی طرح خالق کی جگہ پرلاکھڑا کرتا ہے۔ چنانچہ جان دار کی تصویر بنانا بالکل حرام ہے۔
۳۔ غیرِذی روح (بے جان شے) جیسے درخت وغیرہ کی تصویر بنانا جائز ہے۔ کیونکہ اِس میں خدا کی صفتِ تخلیق سے مشابہت اختیار کرنے کا جرم نہیں پایا جاتا۔ چنانچہ ایسی تصویر بنانے والا خدا جیسا خالق اور مصور بننے کا مدعی شمار نہیں ہوتا، لہٰذایہ جائز ہے۔
۴۔ تصویر اور مجسمہ حرمت میں دونوں یکساں ہیں۔
۵۔ وہ شے جس پر جان دار کی تصویر بنی ہو اس کو کسی استعمال میں لانا اصلاً ،جائز نہیں ہے۔ لیکن اگر وہ شے اہانت والی جگہ پر پڑی ہو،تواس صورت میں اس کے استعمال کی اجازت ہے ۔
تجزیہ
اس نقطۂ نظر میں جان دار کی تصویر کو حرام قرار دیا گیا ہے اور اس کی حرمت کی یہ وجہ بیان کی گئی ہے کہ جان دار کی تصویر بنانے میں اللہ کی تخلیق سے تشابہ پایا جاتا ہے اور بے جان کی تصویر ،جسے بنانے میں،خدا کی تخلیق سے تشابہ نہیں پایا جاتا ہے، وہ جائز ہے۔
یہ رائے کسی صورت میں بھی درست قرار نہیں دی جا سکتی ۔ کیونکہ اس میں دو بنیادی غلطیاں ہیں۔
۱۔ جن ا حادیث پر اِس نقطۂ نظر کی بنیاد رکھی گئی ہے ،اُن کے اپنے الفاظ سے یہ نقطۂ نظر ثابت نہیں ہوتا۔
۲۔ یہ نقطۂ نظر تماثیل کے بارے میں قرآن کے تصور کے خلاف ہے۔
مذکورہ احادیث کے وہ الفاظ جواِس نقطۂ نظر سے متعارض ہیں، درجِ ذیل ہیں:
وقال یا عائشة اشد الناس عذابا عند اللہ یوم القیامة الذین یضاھون بخلق اللہ.(مسلم ، اللباس و الزینۃ ، تحریم تصویر…)
’’آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :اے عائشہ ، قیامت کے دن اللہ کے ہاں شدید ترین عذاب ان لوگوں کو ہو گا، جو خدا کی تخلیق کے مشابہ تخلیق کرتے ہیں۔‘‘
قال اللہ عزوجل ومن اظلم ممن ذھب یخلق خلقا کخلقی فلیخلقوا ذرة لیخلقوا حبة او لیخلقوا شعیرة.(مسلم ، اللباس و الزینۃ ، تحریم تصویر…)
’’(نبیﷺ نے فرمایا) کہ اللہ تعا لیٰ فرماتے ہیں، اس شخص سے بڑا ظالم کون ہو گا، جو میرے مخلوقات بنانے کی طرح مخلوقات بنانے نکل کھڑا ہوا۔ (ایسی جسارت کرنے والوں کو چاہیے کہ) وہ (میری کوئی چھوٹی سی مخلوق مثلاً) ایک ذرہ تو تخلیق کر کے دکھائیں یا ایک دانہ یا ایک جو ہی تخلیق کر کے دکھا دیں۔‘‘
اِن دو احادیث میں سے پہلی میں یہ بتایا گیا ہے کہ خدا کی تخلیق جیسی تخلیق کرنے والوں کو شدید عذاب دیا جائے گا۔ دوسری میں یہ بتایا گیا ہے کہ تم خدا کی تخلیق جیسی تخلیق کیا کرو گے ،اُس کے بنائے ہوئے ذرے جیسا ذرہ یااُس کے بنائے ہوئے دانے جیسا دانہ یا اُس کے بنائے ہوئے جوجیسا جو ہی بنا کر دکھا دو۔
زیرِ بحث رائے میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ ذی روح کی تصویر بنانا ہی خدا کی تخلیق جیسی تخلیق کرنا ہے، لہٰذا ذی روح کی تصویر بنانے والے لوگ ہی وہ مجرم ہیں ،جن کو قیامت کے دن شدید عذاب دیا جائے گا۔
سوال یہ ہے کہ کسی وجود کو تخلیق کرنا کیا ہوتا اوراُس کی تصویر بنانا کیا ہوتا ہے ، اِن دونوں میں کیا فرق ہے ، کیا ذی روح کی تصویر بنانے کے عمل کو خدا کی تخلیق جیسی تخلیق قرار دیا جا سکتا ہے اور پھر یہ کہ حدیث کے الفاظ ’’ خدا کے بنائے ہوئے ذرے جیسا ذرہ یا اُس کے بنائے ہوئے دانے جیسا دانہ یا اُس کے بنائے ہوئے جوجیسا جو ہی بنا کر دکھا دو‘‘ اِن سے کیا مراد ہے؟
آئیے ہم ان سب سوالوں پر غور کرتے ہیں۔
پہلے ہم یہ دیکھتے ہیں کہ تخلیق کیا ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ایک جانور مثلاً ہرن کیا ہے۔ ہرن کی یہ تخلیق کاغذ پر بننے والے کسی خاکے یا کسی نقش کو بنانا نہیں اور نہ یہ محض کسی ڈھانچے یا کسی دھڑ ہی کو بنانا ہے، یہ تو ایک زندہ وجود اور ایک خاص نوع کے زندہ وجود ، جو اپنے اندر اس نوع کی ساری صفات رکھتا ہے ، جس کی ایک خاص جبلت ہے،جس کے کچھ طبعی تقاضے ہیں، جس سے اُس کی اپنی نسل آگے چلتی ہے ، جو جان داروں کی سطح ہی پر سہی، لیکن ایک خاص شعور کا حامل ہے، جس کو کچھ خاص صلاحیتیں دی گئی ہیں، اُس کو بنانا ہے۔
تصویر بنانا کیا ہے ؟ تصویر بنانا یہ ہے کہ کسی مصور نے رنگ اور برش کی مدد سے کینوس پر چند لائنیں کھینچ کر کسی شے کا ایک نقش یا اُس کا وہ عکس بنا دیا ، جو مثلًا آئینے میں یا پانی میں ہمیں نظر آتا ہے ۔
پانی میں نظر آنے والے اُس عکس کو کبھی بھی ہم اُس شے کی تخلیق کی مثل تخلیق قرار نہیں دیتے۔ پس کسی شے کی تصویر کو اُس کی تخلیق کی مثل تخلیق کیسے قرار دیا جا سکتا ہے۔
آپ دیکھیں کیا ہرن کی اس تصویر کو جو کسی فوٹو گرافر نے اُتاری ہے یا کسی مصور نے ایک کاغذ یا کپڑے پر بنا دی ہے ، خدا کے تخلیق کیے گئے اس زندہ ہرن کے برابر یا اس کی مثل قراردیا جا سکتا ہے؟کیا کیمرے سے ہرن کی فوٹو اتارلینا یا مصور کاہرن کی تصویر بنالینا ، خدا کے ہرن تخلیق کرنے کی طرح تخلیق کرنا ہے ؟ کیا اِس کو خدا نے ’ یخلق خلقا کخلقی ‘ یعنی اپنی تخلیق کی مثل تخلیق کرنا قرار دے دیا ہے؟کیا تخلیق کی نقل یہ ہوتی ہے؟ اِس میں اور اُس میں کیا مماثلت ہے؟کسی چیز کے مثل تو وہ چیز ہوتی ہے ،جو کسی نہ کسی درجے میں تو اس کی مثل ہو۔ لیکن یہ کسی درجے میں بھی اس کی مثل نہیں ہے۔کیا مردہ زندہ کی مثل ہوتا ہے؟کیا شیرکی تصویر شیرکی مثل ہوتی ہے؟کیا شیر کی تصویر کو شیر کی تخلیق کے مثل تخلیق قرار دیا جا سکتا ہے؟ایک فوٹو گرافر یا ایک مصور جو ہمارے سامنے تصویر بنا رہا ہے، ہمارا اپنا بھائی بند ہے، سیکڑوں دفعہ ہم خود تصویر کھینچتے ہیں، کیا ہمیں معلوم نہیں کہ ہم خدا کے مقابل پہ نہیں کھڑے ہوتے ، ہم اس کے مخلوقات بنانے کی طرح مخلوقات نہیں بنارہے ہوتے۔ ہم تو بس خدا کی دی ہوئی صلاحیت اور اُس کی دی ہوئی طاقت سے کاغذ پر خدا کی کسی مخلوق کا محض ایک عکس اتارتے ہیں یامحض ایک نقش بناتے ہیں ۔ اس عکس یا اس نقش میں زندگی پیدا کرنے کا ہمارے ہاں کوئی تصور ہی نہیں ہوتا۔ ہمارا یہ کام اگر جرم ہے تو لازم ہے کہ اسے وہی جرم قرار دیا جائے ،جو یہ ہے۔ یہ خدا کی تخلیق کی طرح تخلیق کرنے کا جرم نہیں ہے، بلکہ خدا کی تخلیق کا عکس یا اس کا نقش محفوظ کرنے کا جرم ہے۔ لیکن کیا یہ کوئی جرم ہے؟ٹھہرے ہوئے پانی میں کسی شے یعنی خدا کی کسی تخلیق کا عکس دیکھ کر کوئی بھی یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس ٹھہرے ہوئے پانی کے اندر خدا کی فلاں تخلیق جیسی تخلیق وجود پذیر ہو گئی ہے۔
اس کا یہ مطلب ہے کہ بات کچھ اور ہے، حدیث میں جو کچھ کہا گیا ہے اس کو سمجھنے میں شاید غلطی ہوئی ہے۔
ہاں ایک اور بات بھی کہی جا سکتی ہے کہ فلاں شے کے بارے میں یہ اِدّعا ہے کہ وہ فلاں تخلیق کے مثل تخلیق ہے۔ کیا ایسی کوئی بات ہے کہ کوئی فوٹو گرافر یا مصور اپنی بنائی ہوئی تصویر کے بارے میں یہ دعویٰ کرتا ہے کہ میری یہ تصویراللہ کی فلاں تخلیق کے مثل تخلیق ہے ، کیا وہ اپنے اس تصویر بنانے میں کسی ایسے کام کا دعویٰ کرتا ہے جس کے بارے میں یہ کہا جائے کہ یہ اس نے ایسا کام سرانجام دینے کا دعویٰ کیاہے، جو صرف خدا کر سکتا ہے۔ ہرگز نہیں ،وہ تو کیمرے سے صرف ایک تصویر اور محض ایک تصویر اتارنے کے لیے اٹھا تھا اور وہ اس نے بس اتار لی۔ وہ تصویر ایک بے جان تصویر ہے ۔ اس کا مقصود بھی یہی تھا، یہ اس نے حاصل کر لیا۔ اس کے علاوہ اس کا کوئی ارادہ ہی نہ تھا، کچھ اور اس کے پیشِ نظر ہی نہیں تھا۔اس کا کوئی اور دعویٰ ہی نہیں تھا۔
مصور کے بارے میں یہ خیال کرنا بھی درست نہیں کہ یہ اپنے ذہن اور اپنی نیت کے اعتبار سے تو خدا کی تخلیق جیسی تخلیق کرنے کا دعویٰ نہیں کر رہا، لیکن زندہ وجود کی تصویر بنانے کے بعد عملاً یہ اِسی دعوے کا اظہار کررہا ہے۔ کیونکہ ذہن اور نیت کے بغیر عملًا کسی دعوے کا اظہار تبھی ہو سکتا ہے جب وہ شے عملاً وجود پذیر کر دی جائے۔ مثلا ً خدا کی ایک تخلیق ’ شیر‘ کے مثل شیرتخلیق کرنے کا عملاً دعویٰ بس اِسی صورت میں ہو سکتا ہے جب کوئی شخص ’ شیر‘ کو عملاً تخلیق کر کے ہمارے سامنے لا کھڑا کرے۔ظاہر ہے اِس صورت میں اُس نے خدا کی ایک تخلیق ’شیر‘ کے مثل شیرتخلیق کرنے کوعملاً کر دکھایا ہے۔ اِس تخلیق کرنے کو شیر تخلیق کرنے کا ’’عملاً دعوی ٰ کرنا ‘‘کہا جا سکتا ہے۔ اِس طرح کا عملی دعویٰ کرنے کا تو کوئی مصور سوچ بھی نہیں سکتا ۔ پس یہ ایک حقیقت ہے کہ تصویر خواہ جان دار کی ہو، خواہ بے جان کی، وہ کسی معنی میں بھی اور کسی حوالے سے بھی تخلیق کی مثل تخلیق نہیں ہوتی۔
خیر اِس سب کے باوجود اگر اِس پر اصرار کیا جائے کہ تصویر لازماً تخلیق کے مثل تخلیق ہی ہوتی ہے اور تصویر بنانے والے سے قیامت کے دن خدا کا یہ مطالبہ کرنا کہ ’ احیوا ما خلقتم ، بالکل درست بات ہے، تو پھر اِس سے پہلے کچھ اور مطالبات بھی لازماً بنتے ہیں، وہ بھی اُس سے کیے جانے چاہییں۔ مثلاً ایک آدمی نے اگر ہاتھی کی ایک چھوٹی سی تصویر بنائی ، تو اُس سے خدا کا پہلا مطالبہ یہ بنتا ہے کہ اِس کا سائز ٹھیک کرو، اِسے ’Enlarge‘ کرو، دوسرا یہ کہ یہ’Two Dimentional‘ہے، میں نے ہاتھی ’Three Dimensional‘ بنایا ہے ، اِس تصویر کو ’ Three Dimensional‘ کرو ۔ تیسرا یہ کہ میں نے ہاتھی اندر سے کھوکھلا نہیں بنایا ، یہ تصویر کھوکھلی نہیں ہونی چاہیے وغیرہ وغیرہ، اور پھر اِس سب کے بعد میں نے ہاتھی کو چونکہ ایک زندہ وجود بنایا ہے، لہٰذا، تمہارے بنائے ہوئے ہاتھی کے اِس ڈھانچے کو بھی زندہ ہونا چاہیے۔ کیا یہ باتیں کوئی باتیں ہیں۔ خدا ایسے مطالبے کیوں کرے گا۔کیا حکمت والے قرآن کا متکلم ایسی باتیں کرنے والا اور ایسے مطالبے کرنے والا خدا ہے۔
اب آپ ایک اور تعارض دیکھیے ۔حدیث میں ’یخلق خلقا کخلقی‘ کے بعد ’فلیخلقوا ذرہ ا: لیخلقوا حبة او لیخلقوا شعیرة‘ (وہ ایک ذرہ تو تخلیق کر کے دکھائیں یا ایک دانہ یا ایک جو ہی تخلیق کرکے دکھا دیں) کے الفاظ ہیں۔ ان میں یہ کہا جا رہا ہے کہ (یہ ہماری مخلوقات بنانے کی طرح مخلوقات بنانے چل پڑے ) یہ ہمارے بنائے ہوئے (چھوٹے چھوٹے ) ذرات جیسا ایک ذرہ تو تخلیق کر کے دکھا دیتے یا ہمارے بنائے ہوئے (چھوٹے چھوٹے )دانوں جیسا ایک دانہ ہی تخلیق کر کے دکھا دیتے یا ہمارے تخلیق کیے ہوئے (چھوٹے سے)جو کے دانے جیسا ایک دانہ ہی تخلیق کر کے دکھا دیتے۔ اس کا مطلب ہے کہ حدیث کو اس پر اصرار ہے کہ وہ مصور جو اُس کا مخاطب ہے وہ خدا کے مخلوقات بنانے ہی کی طرح مخلوقات بنانے کا دعویٰ کر رہے ہیں۔ چنانچہ اُن سے کہا جا رہا ہے کہ خدا کی مخلوق کی طرح مخلوق کیا بناؤ گے، اُس کے بنائے ہوئے ذروں جیسا ذرہ تو بنا کر دکھا دو۔ یہاں یہ بات بہت غور طلب ہے کہ خدا نے ذرے کی تصویر بنانے کا مطالبہ نہیں کیا ، بلکہ فی نفسہٖ ذرہ بنانے کا مطالبہ کیا ہے۔کیوں؟ اگر تصویر بنانے سے ’خلقاً کخلقی‘ کی جسارت واقع ہو جاتی ہے تو یہاں ذرے کی تصویر کو اُس کی تخلیق کے مثل تخلیق کیوں نہیں شمار کیا گیا۔
ان احادیث سے یہ تصور جو اخذ کیا گیا ہے کہ جان دار کی تصویر بنانا تو خدا کی تخلیق جیسی تخلیق کرنا ہے،لیکن بے جان کی تصویر بنانا ،خدا کی تخلیق جیسی تخلیق کرنا نہیں ہے، کیونکہ جان دار کی تخلیق خدا کے ساتھ خاص ہے، جان تو صرف خدا ہی ڈالتا ہے، لہٰذا ، جان دار کی تصویر کا معاملہ بے جان کی تصویر سے مختلف ہے۔ یہ تصور بھی بالکل غلط ہے۔ کیونکہ بے جان کا وجود تخلیق کرنا بھی صرف اور صرف خدا ہی کے بس کی چیز ہے۔ یہ کوئی غیرِخدا کے دائرے کا کام نہیں ہے۔ اسی لیے تو خدا نے یہ کہا ہے کہ ’فلیخلقوا ذرة او لیخلقوا حبة او لیخلقوا شعیرة ‘ ( وہ ایک ذرہ تو تخلیق کر کے دکھائیں یا ایک دانہ یا ایک جو ہی تخلیق کر کے دکھا دیں) ۔ یعنی انسان ایک ذرہ ،ایک دانہ یا ایک جو بھی تخلیق نہیں کر سکتا۔ پس بے جان کی تخلیق بھی صرف اور صرف خدا ہی کے بس میں ہے۔ لہٰذا ، اگر بات یہ ہے کہ تصویر بنانا خدا کے تخلیق کرنے سے مشابہت اختیار کرنا ہے اور خدا کے تخلیق کرنے سے تشابہ اختیار کرنا حرام ہے تو پھر ہر وہ تخلیق جو تخلیق کے لفظ میں آتی ہے، اُس کی تصویر بنانا، ضروری ہے کہ خدا کے تخلیق کرنے سے تشابہ اختیار کرنا ، قرار دیا جائے اور اُسے بھی حرام ہوناچاہیے ، چنانچہ اِس صورت میں لازم ہے کہ بے جان اشیا کی تصاویر بھی حرام ہوں، لیکن زیرِ بحث رائے میں ایسا نہیں مانا جاتا۔
اگر یہ کہا جائے کہ بے جان کی تخلیق آسان اور چھوٹا کام ہے اور جان دار کی تخلیق بڑا اور مشکل کام ہے،لہٰذا یہ خدا ہی کے ساتھ خاص ہے، تو یہ بھی درست نہیں۔ خدا نے تو بعض بے جان چیزوں کی تخلیق کو جان داروں کی تخلیق سے بڑا کام قرار دیا ہے۔ مثلاً ’أ انتم اشد خلقاً ام السماء بنٰھا‘یعنی (تمہارے خیال میں خدا کے لیے) تخلیق کے حوالے سے زیادہ دشوار تم ہو یا آسمان۔ اس نے تواسے بنا ڈالا ہے۔ اور سورۂ مومن میں فرمایا ہے ’’ لخلق السمٰوٰت و الأرض أکبر من خلق الناس ولاکن أکثر الناس لایعلمون‘‘ (آسمانوں اور زمین کی تخلیق انسانوں کی تخلیق سے بڑا کام ہے، لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے)۔ اِس حوالے سے آسمان و زمین کی تخلیق انسان کی تخلیق کی نسبت زیادہ بڑا کام اور خدا کا زیادہ خاص کام ہے۔ چنانچہ اگر خدا کی زیادہ خاص تخلیق کی نقل کرنا جرم ہے تو پھرآسمان کی تصویر بنانا اور زمین کی تصویر بنانا تو انسان کی تصویر بنانے سے بھی زیادہ بڑا جرم ہونا چاہیے، لیکن زیرِبحث رائے کے مطابق آسمان کی تصویر بھی جائز ہے اور زمین کی تصویر بھی جائز ہے۔ البتہ انسان کی تصویر اُس کے مطابق حرام ہے ۔’یا للعجب‘۔
جہاں تک اِس بات کا تعلق ہے کہ ’ المصور‘ خدا کی خاص صفت ہے، اِس میں کوئی دوسرا شریک نہیں ہو سکتا، تو یہ بھی عجیب بات ہے، کیونکہ اِس صفت میں تو غیر اللہ کی شرکت اُسی وقت ہو جاتی ہے، جب کوئی مصور کسی بے جان کی تصویر بنا دیتا ہے۔ ویسے یہ بات کہ تصویر بنانے سے خدا کی صفت ’المصور‘ میں شرکت کا اظہار ہوتا ہے ، یہ اپنی جگہ پر غلط بات ہے، کیونکہ اگر اِس سے خدا کی صفت ’المصور‘ میں شرکت کا اظہار ہوتا ہے تو پھر مقدمے کا فیصلہ کرنے سے خدا کی صفت ’مالک یوم الدین‘ میں شرکت کا اظہار ہوتا ہے اور صاحبِ اقتدار بن جانے یا بنا دیے جانے سے خدا کی صفت ’مالک الملک‘ میں شرکت کا اظہار ہوتا ہے ، بدلہ لینے سے خدا کی صفت ’عزیز ذو انتقام ‘میں شرکت کا اظہار ہوتا ہے، معاف کر دینے سے اُس کی صفت ’عفو غفور‘ میں شرکت کا اظہار ہوتا ہے ، اور رحم کرنے سے اُس کی صفت ’ارحم الرحمین ‘میں شرکت کا اظہار ہوتا ہے۔
قرآن ِمجید ہمارے دین میں میزان اور فرقان کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کی سورۂ سبا میں اللہ کے نبی سلیمان علیہ السلام کے دربار میں تماثیل (مجسموں اور تصاویر )کے بنائے جانے کا ذکر موجود ہے۔قرآنِ مجید میں تماثیل کا یہ ذکر بہت مثبت انداز میں کیا گیا ہے ۔ قرآن یہ بتاتا ہے کہ یہ تماثیل اللہ کے نبی سلیمان علیہ السلام کے حکم سے بنائی جاتی تھیں۔ اِس کا مطلب ہے کہ تماثیل خدا کے اُس نبی علیہ السلام کے نزدیک ممنوع نہ تھیں۔ قرآن ِمجید اُن تماثیل کا ذکر مثبت انداز میں کرتا ہے تو اِس کا مطلب ہے کہ اُس کے نزدیک بھی یہ ممنوع نہیں ہیں۔ چنانچہ زیرِبحث رائے کے مطابق احادیث کا جو مفہوم بیان کیا جا رہا ہے ، اُس سے قرآن اور حدیث میں تضاد محسوس ہوتا ہے۔
سلیمان علیہ السلام کے حوالے سے کوئی یہ بات کہہ سکتا ہے کہ وہ شریعتِ موسوی کے پیرو تھے، لہٰذا ہو سکتا ہے کہ اُن کے ہاں وہ تصاویر جائز اور حلال ہوں،جو ہمارے ہاں ناجائز اور حرام ہیں اور جنھیں بنانے والے کو قیامت کے دن شدید ترین عذاب ہونا ہے ۔ یہ بات ممکن نہیں۔ کیونکہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ خدا ایک شریعت میں اپنی تخلیق جیسی تخلیق کرنے کو خیرقرار دے اور دوسری میں شرقرار دے ۔ کوئی چیز اگر فی نفسہٖ خیر ہے تو وہ خیر ہے اور اگر فی نفسہٖ شر ہے تو وہ شر ہے۔ تماثیل کی مناہی کی جو علت بیان کی گئی ہے، وہ خدا کی تخلیق سے اُس کی مشابہت ہے۔ یہ مشابہت اگر ظاہر کی مشابہت ہے، تو یہ ایسی چیز ہے کہ یہ کسی صورت میں بھی تمثیل سے مفقود نہیں ہو سکتی۔ کیونکہ اِس کے مفقود ہوتے ہی تمثیل ،تمثیل نہیں رہتی۔ لہٰذا ، تماثیل اگر شر ہیں ،تو ہمیشہ کے لیے ہیں اور اگر خیر ہیں تو ہمیشہ کے لیے ہیں۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ یہ ایک شریعت میں جائز ہو ں اور ایک میں ناجائز۔ شرائع کے مابین اختلاف اِس نوعیت کا نہیں رہا کہ ایک میں کسی حقیقی شر کو خیر قرار دے دیا گیا ہو اور دوسری میں کسی حقیقی خیر کو شر قرار دے دیا گیا ہو۔
مزید برآں آپ یہ دیکھیں کہ حدیث میں فرشتوں کے بارے میں ہمیں یہ خبر دی گئی ہے کہ وہ تصویر والے گھر میں داخل نہیں ہوتے۔ فرشتوں کا یہ اپنا طریقہ ہے، انھوں نے یہ شریعت محمد ﷺ کے نزول کے بعد اختیار نہیں کیا تھا۔ اب بتائیے کیا فرشتے سلیمان علیہ السلام کے اُس دربار میں نہ جایا کرتے تھے، جس میں تماثیل تھیں؟
دین میں کوئی شخص،کوئی عالم ،کوئی فقیہ حجت نہیں ہے ۔ دین کیا ہے ؟ وہی جو اللہ نے قرآن میں فرما دیا یااُس کے رسول نے سنت کی شکل میں ہمیں دے دیا۔ جو شخص بھی دین کو بیان کرنا چاہتا ہے، اسے کیا کرنا ہے، بس یہی کہ وہ اپنی بہترین کوشش کی حد تک،پورے اخلاص کے ساتھ، اللہ کی بات اور اس کے رسول کی بات بیان کر دے۔ اِسی طرح اگر اُسے کسی صاحب الرائے کی رائے پر تنقید کرنی ہے ، تو اُسے بس یہ واضح کرنا ہے کہ فلاںکی را ئے اللہ اور اس کے رسول کی بات کے مطابق نہیں ہے۔
تصاویر کے معاملے میں فقہا کا موقف اصلاً متعلقہ احادیث کے بارے میں اُن کی تاویل پر مبنی ہے[1]۔ اِس تاویل کو اگر مان لیا جائے، تو اِس سے اُن احادیث کا جو مدعا سامنے آتا ہے ،اُس سے یہ صاف پتا چلتا ہے کہ یہ احادیث کسی صورت میں بھی قرآن کا بیان نہیں ہو سکتیں ۔ لیکن اگر یہ احادیث صحیح ہیں تو پھر انھیں سمجھنے میں کوئی سنگین غلطی ہوئی ہے، ورنہ یہ کیسے ہو سکتا تھا کہ اِن کا مدعا اور اِن کا مفہوم قرآن ِمجید سے ملنے والے تصور سے صریحاً متصادم نظر آئے ۔ مزیدیہ کہ خود متعلقہ احادیث کا مطالعہ بھی ہمیں یہ بتاتا ہے کہ جن احادیث پر فقہا نے اپنے موقف کی بنیاد رکھی ہے ،وہ احادیث بھی اپنے مفہوم کے لحاظ سے اُن کے موقف سے واضح طور پر متعارض ہیں۔
چنانچہ درجِ بالا تجزیے کی روشنی میں ہمارا خیال ہے کہ فقہا کی یہ رائے ’ ما قال اللہ وما قال الرسول‘ کے مطابق نہیں ہے ۔ لہٰذا، یہ غلط ہے۔ یہ غلط ہے تو پھر صحیح رائے کیا ہے ؟ تصاویر و تماثیل کے بارے میں جو کچھ قرآن سے پتا چلتا ہے ،وہ کیا ہے؟ اور جو کچھ احادیث صحیحہ میں وارد ہوا ہے ، وہ کیا ہے،اب ہم اسے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وماتوفیقنا الا باللہ۔
(جاری)
____________
[1]۔ تصویر کی حلت و حرمت کے بارے میں اِس موقف کے وجود میں آنے کی ایک بنیادی وجہ غالباً، حضرت ابنِ عبا س کا وہ مشورہ ہے جوانھوں نے سائل کو یہ کہتے ہوئے دیا کہ ’’بندۂ خدا اگر تجھے تصویر بنانی ہی ہے، تو اس درخت کی بنا ، یا کسی ایسی چیز کی بنا، جس میں روح نہ ہو‘‘۔ جس حدیث میں یہ بیان ہوا ہے ، وہ پچھلے صفحات میں ہم دیکھ چکے ہیں ، لیکن اس حدیث پر خاص طور پر ابنِ عباس رضی اللہ عنہ کے مشورے کے حوالے سے ،ہم ’’تصویر کے بارے میں فہمِ صحابہ ‘‘کے تحت بحث کریں گے۔